احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خطبۂ حج 1439 ھ ایک جائزہ

مفتی منیب الرحمن 

روزنامہ دنیا ، 27 اگست 2018ء

20اگست 2018ء کو میدانِ عرفات میں حج کا رُکن ِ اعظم ''وُقوفِ عرفہ‘‘ ادا کیا گیا اور امام الحج ‘جو مسجدنبوی کے امام اور مدینہ منورہ کے قاضی بھی بتائے جاتے ہیں ‘ نے مسجد نمرہ میں خطبۂ حج دیا۔یہ خطبۂ حج ایک ایسے وقت میں جاری ہوا جب امتِ مسلمہ ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور قابلِ ذکر مسلم ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں‘ جو داخلی یا خارجی اعتبار سے کسی نہ کسی مشکل اور ابتلا سے دوچار نہ ہو۔ترکی کی معیشت مستحکم ہورہی تھی ‘وہ دنیا کی سولہویں بڑی معیشت قرار دیا جارہا تھا ‘پاکستان اور ترکی دو ایسے مسلم ممالک ہیں جو جدید تربیت یافتہ اور منظّم فوج اور دفاعی نظام رکھتے ہیں ‘ اچانک امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ‘ اس کے خلاف اقتصادی اقدامات شروع کردیے ‘اس کی امریکہ میں درآمدات پر بھاری ڈیوٹی لگادی اور ترکی کی کرنسی لیرا کی ڈالر سے مبادلاتی صلاحیت تیزی سے گرنے لگی ۔ترکی کے صدر طیب اردوان نے جوابی اقدام کے طور پرامریکہ کی الیکٹرانک مصنوعات پر بھاری ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا ہے ‘لیکن دونوں ملکوں کی مزاحمتی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس تنازعے کا سبب یہ ہے کہ باغیوں کے ساتھ روابط اوربغاوت کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام میں امریکی پاسٹر ‘مسیحی چرچ میں ریلیجیس منسٹر ‘اینڈریو برنسن کو ترکی کی عدالت نے جیل میں ڈالا ‘اس کے بعد امریکہ کی پوری انتقامی کارروائی اسی کا شاخسانہ ہے ۔ 

حج و عمرہ - جاوید احمد غامدی

یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ اِن کی تاریخ اُس منادی سے شروع ہوتی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے مسجد حرام کی تعمیر کے بعد کی تھی کہ لوگ خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اور توحید پر ایمان کا جو عہد اُنھوں نے باندھ رکھا ہے، اُسے یہاں آکر تازہ کریں۔

اپنے معبود کے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اُس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان و مال، سب اُس کے حضور میں نذر کر دینے کے لیے حاضر ہو جائے۔ حج و عمرہ اِسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اِس لحاظ سے اُس کی تفصیل کر دیتا ہے کہ اِس سے وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان و مال نذر کر دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آدم کی تخلیق سے اُس کی جو اسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اُس کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اِس ازلی دشمن اوراِس کی ذریت کے خلاف برسرجنگ ہیں۔ یہی اِس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اور ناکامی پر انسان کے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔ اپنا جان ومال ہم اِسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ ابلیس کے خلاف اِس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اِس طرح ہے:

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج (قسط اول )

عرفان شہزاد 

 ماہنامہ اشراق ،
تاریخ اشاعت : جون 2018ء 


وحی، خدا کی وہ عظیم نعمت ہے جو انسان اوراس کے سماج سے متعلق ایسے مستقل نوعیت کے معاملات میں متعین رہنمائی کرتی ہے جن کا کوئی معین حل نکالنا یا بالاتفاق کسی حتمی نتیجے تک پہنچنا عقلِ انسانی کے لیے ممکن نہیں، اور اسی وجہ سے وہ محل نزاع و بحث بنے رہتے ہیں۔ ان میں ایمانیات سے لے کر سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات تک سے متعلق متعین اور قطعی رہنمائی خدا کی آخری وحی، قرآن مجید کے ذریعے سے فراہم کر دی گئی ہے۔

ریاست کا قیام، انسانی سماج کے اجتماعی معاملات اور ان میں پیدا ہونے والے نزاعات کو دور کرنے کا ایک ناگزیر بندوبست ہے۔ ریاست اپنے فرائض و وظائف، جن میں دفاع، قیام امن، ترسیل انصاف سے لے کر عوام کے فلاح و بہبود تک کے سب امور شامل ہیں، کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال و دولت کی محتاج ہوتی ہے۔ اس کے مستقل حل کے لیے ریاستیں اپنے شہریوں پر ٹیکس اور لگان عائد کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس ٹیکس کی شرح کتنی ہو، اور یہ کہاں خرچ کیا جانا چاہیے، یہ ہمیشہ سے محل نزاع رہا ہے۔ اہل حکومت نے جہاں ٹیکس وصولی میں زیادتی کی انتہائیں کیں اور اخراجات میں جدتیں پیدا کرکے بے اندازہ اسراف کیے، وہاں بعض اہل فکر نے ٹیکس فری معیشت کے نظریات بھی پیش کیے، نیزٹیکس کے مصارف پر بھی خود ساختہ پابندیاں تجویز کیں۔ لیکن وحی نے اپنے ماننے والوں کو اس مخمصے سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دی۔ اس نے مملکت کے شہریوں کے مال میں مقررہ ٹیکس بنام زکوٰۃ کی شرحیں اور اس کے مصارف، جن میں ریاستی مشینری کے اخراجات اورفرد اور سماج کی بہبود کے تمام امور شامل ہیں، بھی خود مقرر کردیے۔ ان میں کوئی ردو بدل بغیر کسی انتظامی مجبوری یا اضطرار کے کسی مسلمان حاکم اور عالم کو روا نہیں۔

منشیات کی حرمت ، شراب نوشی کی سزا اوراَحکام - مترجم : اسحاق طاہر

مترجم : اسحاق طاہر، مطبوعہ ماہنامہ محدث میگزین ، تاریخ اشاعت اپریل 2014ء 

[اُردو ترجمہ : صحیح فقہ السنّہ واَدلتہ وتوضیح مذاہب الائمہ: جلد 4 ؍صفحہ73 تا88]

(ہمارے معاشرے میں شراب نوشی اور اس کی شرعی سزا کے حوالے سے نت نئے شبہات پیدا کئے جاتے رہتے ہیں کہ یہ سزاقرآنِ کریم میں موجودنہیں، کبھی اس سزا کی شرعی حد ہونے اور اس میں کوڑوں کی تعداد پر اعتراض عائد کردیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے ایک انتہائی مفید بحث ، جس کو جامعہ لاہور الاسلامیہ میں مجھے سبقاً سبقاً پڑھانے کا موقع ملا، کا اُردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس تحقیق میں احادیث سے براہِ راست استدلال کے ذریعے بڑے مؤثر انداز میں شراب نوشی کی حُرمت اور دیگر منشیات کے اَحکام بیان کردیے گئے ہیں۔ یہ بحث عرب علما کے خاص علم و استدلال کی مظہر اور اُردو زبان میں اپنی نوعیت کی منفرد تحقیق ہے۔اس بحث کو 'صحیح فقہ السنہ وادلتہ وتوضیح مذاہب الائمہ'سے اخذ کیا گیاہے۔ یہ کتاب فقہی مذاہب کے مطالعے اور اُن کے موقف کو جاننے کے لیے،نیز راجح موقف کے تعین پر ایک مفید ترین تصنیف ہے، جو حال ہی میں ایک مصری عالم نے تالیف کی ہے۔ کتابِِ مذکور میں سلفی علما مثلاً شیخ البانیؒ ، شیخ ابن بازؒ  اور ابن عثیمینؒ  کے بہت سے فتاویٰ و استدلال کو بھی یکجا کردیا گیا ہے،نیز فقہی مواقف پر احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ان کی صحت وضعف کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ )

--------------------------------------

'خمر' کا مفہوم ومصداق

'شراب' کے لئے عربی زبان میں لفظ خمَر استعمال ہوتا ہے، اس کی جمع 'خمور'آتی ہے اور خمر کے لغوی معنیٰ ہے :'ڈھانپنا'

خمر کا لفظ تانیث میں زیادہ مستعمل و مشہور ہے، اسی وجہ سے اس کے آخر میں تائے تانیث بھی آتی ہے جیسے : هٰذه خمرة. جب کہ مذکر استعمال بھی جائز ہے جیسے: هٰذا خمر.


خمر کی لغوی تحقیق

'القاموس المحیط ' کےمصنف جناب فیروز آبادی (م۸۱۷ھ)کاکہنا ہے :

''خمر'وہ ہے جو انگوروں کے رَس سے کشید کی جائے، یا یہ عام (جو کسی بھی پھل سے بنائی جائے)ہے، حقیقت میں اسے عموم پر رکھنا ہی زیادہ راجح ہے ،کیونکہ جب یہ حرام ہوئی تو مدینہ میں انگوروں سے شراب کا تصور نہیں تھا بلکہ وہ تو کچی پکی کھجوروں سے ہی شراب بناتے تھے۔''1

خمر کے لغوی اور شرعی معنیٰ میں مناسبت

1. شراب پر لفظ 'خمر' کا اطلاق اس وجہ سے ہے کہ شراب کشیدکرنے کے لئے برتن کے منہ کو اوپر سے ڈھانپا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس میں اُبال اور جوش کی کیفیت پیدا ہوجائے۔