اردو زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جشن ریختہ کیا ہے ؟

 جشنِ ریختہ ایک ایسا میلہ ہے کہ جس میں  ہر سال تین روز تک اردو ادب کے مختلف اسلوب سے متعلق بات ہوتی ہے۔ اس میلے میں غزل، قوالی، نثر اور دیگر اصناف سخن سے متعلق شرکا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جشنِ ریختہ نے پیوش مشرا، کیلاش کھیر، پاپون، ریکھا اور وشال بھردواج، استاد شجاعت خان، صابری برادران، جاوید علی، اور سوانند کرکرے جیسے فنکاروں اور وسیم بریلوی، راحت اندوری، اشوک چکردھر جیسے شاعروں کو نمایاں طور پر مدعو کیا ہے۔ تاہم جاوید اختر، فرحت احساس اور کمار وشواس جیسے بڑے ناموں نے بھی اس میں آکر رونق بخشی۔

ولیم ڈیلرمپل، محمود فاروقی، نوتیج سرنا، نجیب جنگ، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمان فاروقی، رانا صفوی، خالد جاوید کے علاوہ نصیر الدین شاہ، رتنا پاٹھک شاہ، شبانہ اعظمی جیسی مشہور شخصیات بھی اس میلے میں شریک ہو چکی ہیں۔

اس مرتبہ اس ایونٹ کا انعقاد جواہر لعل نہرو سٹیڈیم میں ہوا۔ 

ریختہ کیا ہے؟

ریختہ ایک انڈین ویب پورٹل ہے جو ریختہ فاؤنڈیشن نے اردو ادب کے تحفظ اور فروغ کے لیے شروع کیا ہے۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ ریختہ لائبریری پروجیکٹ، اس کی کتابوں کے تحفظ کے اقدام نے دس سالوں کے دوران تقریباً 200,000 کتابوں کو کامیابی سے ڈیجیٹائز کیا ہے۔

یہ کتابیں بنیادی طور پر اردو، ہندی اور فارسی ادب پر مشتمل ہیں۔ ان میں بشمول شاعروں کی سوانح عمری، اردو شاعری، افسانہ، اور نان فکشن شامل ہیں۔ یہ مجموعہ برصغیر ہند کی عوامی اور تحقیقی لائبریریوں سے نکلتا ہے۔ یہ متعدد سکرپٹ جیسے دیوناگری، رومن اور بنیادی طور پر نستعلیق میں پیش کرتا ہے۔

اس ویب پورٹل پر صدیوں پہلے کی کتابیں بھی موجود ہیں اور اردو ادب کے تحفظ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ کے طور پر اسے پہچانا جاتا ہے۔ اس سائٹ نے 32 ملین صفحات پر مشتمل 200,000 سے زیادہ ای کتابوں کو ڈیجیٹائز کیا ہے، جن کو واضح طور پر مختلف حصوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی کتابیں



نامور فلسفی محقق ماہر اقبالیات ،مترجم اور افکار غالب ، حکمت رومی، تشبیہات رومی، فکر اقبال اور داستان دانش جیسی کتابوں کے خالق



افکار غالب


1954
علامہ اقبال

داستان دانش
1943

فکر اقبال
1988

فکر اقبال
1992

فکراقبال
1968

نوجوان لکھنے والوں کو کیا پڑھنا چاہیے؟

(وجاہت مسعود کے مضمون سے انتخاب)

 کچھ نوجوان دوستوں نے استفسار کیا ہے کہ اردو غیر افسانوی نثر کی کون سی کتابیں پڑھنا مفید ہو گا تا کہ ان کی اپنی تحریر میں سلاست اور روانی پیدا ہو سکے۔ نیز وہ اردو نثر کے مختلف اسالیب سے آشنا ہو سکیں۔ مجھے اس سوال سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ وسیع مطالعے کے بغیر ہمارے نوجوان اردو زبان پر کماحقہ عبور حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر ان کی تحریر غیر مؤثر ہو گی تو ان کے دلائل بھی اپنا وزن کھو دیں گے۔

کوشش کیجئے کہ اس استاد سے رابطہ کریں جس کا مطالعہ تازہ ہو۔ ایسے اساتذہ جنہوں نے گزشتہ تیس برس سے کسی نئی کتاب کو ہاتھ نہ لگایا ہو انہیں نہایت احترام سے ملیے لیکن یاد رکھیے کہ ادب کی فہم ان پر نہیں اترتی جو مطالعے سے بے نیاز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ اردو ادب کے بارے میں صرف اسی استاد کی رائے مستند ہو گی جس نے اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہو گا۔ اردو کے خزانے زیادہ امکان ہے کہ آپ کو انگریزی یا سائنس کے اساتذہ میں مل سکیں۔

اسی طرح افسانوی نثر کے شناور بالکل مختلف ہوں گے۔ شعر کی دنیا البتہ الگ ہے اور یہاں اس سے بحث نہیں ہو رہی۔ فہرست سازی کتب کی ہو یا اساتذہ کی اس میں سہو اور غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ خاکسار ایک مبتدی ہے اور اس کی رائے محض ایک ابتدائی نصابی خاکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں تو اس امید پر کچھ نام تجویز کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوان اردو ادب کے ان جواہر پاروں سے آشنا ہوں گے تو ان کا ذوق جاگے گا اور پھر وہ اپنی ذاتی جستجو سے نئے نئے موتی اور گوہر نکال لائیں گے۔

کلام شاعر بزبان شاعر : ذکر مظلوم کو انعام میں رکھا گیا ہے - افتخارعارف


 عنوان : سلام

ذکرِ مظلوم کو انعام میں رکھا گیا ہے
ظلم کو زمرۂ دشنام میں رکھا گیا ہے

از ازل، تا بہ ابد سارے یزیدوں کا حساب
ایک ہی دفترِ بدنام میں رکھا گیا ہے

تا قیامت کسی ظالم کو نہ ہو جرأتِ ظلم
صبر کو منزلِ اقدام میں رکھا گیا ہے

کربلا ہو، کہ نجف ہو، کہ مدینہ‘ سب کو
نور کے سلسلۂ عام میں رکھا گیا ہے

میں نے تقویمِ شہادت پہ نظر کی توکھُلا
خاک کو شیشۂ ایّام میں رکھا گیا ہے

صبرِ مخدومۂ کونین کی وارث زینبؑ
اِک نشانی کہ جسے شام میں رکھا گیا ہے

مفتخر ہوں تو یہ فیضانِ کرم ہے اُن کا
اُن کی نسبت کو مرے نام میں رکھا گیا ہے

الفت بے اثر کو کیا کہئے - کلامِ شاعر بزبانِ شاعر مرزا حامد لکھنوی


اُلفتِ بے اثر کو کیا کہیے
شجرِ بے ثمر کو کیا کہیے

غفلتِ چارہ گر کو کیا کہیے
اور دردِ جگر کو کیا کہیے

خوب بیٹھے بٹھائے مول لیا
مفت کے دردِ سَر کو کیا کہیے

دل جگر ہو گئے تہ و بالا
اُن کی نیچی نظر کو کیا کہے

کعبہ کس سمت ہے، یہ ہوش کہاں
جا رہے ہیں کِدھر کو کیا کہیے

ارے پتھر کہیں پسیجا ہے
نالۂ بے اثر کو کیا کہیے

بات بھی اب تو کی نہیں جاتی
ہائے دردِ جگر کو کیا کہیے

بن گئی ہے نشان منزل کا
گردِ راہِ سفر کو کیا کہیے

ذرّے ذرّے میں اُس کے دنیا ہے
آپ کی رہ گزر کو کیا کہیے

ہو گئے خاک تکتے تکتے راہ
آہ اُس بے خبر کو کیا کہیے 

شبِ فرقت کی تیرگی توبہ
قبر ہے اپنے گھر کو کیا کہیے

ہے عدم پر گمان ہستی کا
اِس فریبِ نظر کو کیا کہیے

کس پہ الزامِ عشق ہے حامد
دل کو کہیے نظر کو کیا کہیے

مرزا حامد لکھنوی

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا اسلوب تحریر: جس کے پیرہن سے خوشبو آئے

ابو فہد ندوی 

ہم اس مضمون میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے اسلوب تحریر کے انشائی پہلو پر گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اس کی باطنیت یعنی جوش و جذبے، ذوق و شوق اور اس میں پنہاں وفور عشق و محبت اور وارفتگی کے حوالے سے بات کریں گے، جو ان کے قلم کو قوت و رعنائی اور آتش و زیبائی بہم پہنچاتی ہیں، اس میں شیرنی گھولتی ہیں اور ان کے قلم کو ہردم جواں اور ہر لحظہ رواں رکھتی ہیں۔ اور قاری دوران قرات ایسا کچھ محسوس کرتا ہے جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے جسم و جان اور قلب و روح کے تمام تار و پود کو بیک وقت معطر کر رہے ہیں۔

جیسے بھیگی بھیگی سی کوئی شام ہے اور قاری اس میں مزید بھیگ جانا چاہتا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ خود اپنے اوپر لکھی گئی تنقید پڑھ رہا ہوتا ہے اور تب بھی اس کی یہی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ مزید بھیگتا رہے۔ شاید اس کے شوق کو یہ احساس مہمیز کرتا ہے کہ یہ تحریر براہ راست اسی سے مخاطب ہے اور خاص کر اسی کے لیے ہمدردی و خیر خواہی کا بے پناہ جذبہ اپنے ظاہر و باطن میں سموئے ہوئے ہے۔

مولانا مرحوم کی تنقیدات کی اسی خصوصیت کے تعلق سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ”ان کی تحریر و تقریر میں جو اخلاص، دردمندی اور دل سوزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ ان کی سخت سے سخت بات کو مخاطب کے لیے قابل قبول بنا دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عربوں پر کھری کھری تنقید کے باوجود عرب ممالک میں ان کی مقبولیت کسی بھی غیر عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔“ [مفتی مولانا محمد تقی عثمانی، مضمون : ”توصیف کیا بیاں کریں ان کے کمال“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

اسی حوالے سے ایک اور شہادت دیکھیں :

اسلوب تحریر کیا ہے؟

ابو فہد ندوی 

اسلوب تحریر ہر صاحب قلم کے لکھنے کے اپنے اسٹائل کا نام ہے۔ اسلوب تحریر صاحب قلم کے مخصوص لفظیات، پھر انھیں خاص طرز پر ترتیب دینے کے ذاتی ہنر اور استعداد اور پھر استعاروں اور ضرب الامثال وغیرہ کو اس کے اپنے خاص طرز پر برتنے سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ سرتا سر کوئی ذہنی رویہ یا فکرو رجحان نہیں ہے، البتہ یہ صاحب قلم کے ذہنی رویوں کا غماز اور فکر ورجحان کا پرتو ضرور ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلوب تحریر صاحب قلم کے اسلوب زندگی کا پرتو ہے۔

اگر قلم کار کا ذہن صاف اور شارپ ہے تو اسلوب بھی صاف اور شارپ ہوگا اور اگر ذہن صاف نہیں ہے اور فکر گنجلک ہے تو اس کا اسلوب بھی گنجلک، بے معنیٰ اور تضادات سے بھرا ہوا ہوگا۔ کیونکہ صاحب قلم اگر کسی مسئلے یا کسی فکر کو بذات خود نہیں سمجھ سکتا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نہیں سمجھا سکتا، قلم کے ذریعے بھی نہیں، کم از کم مکمل وضاحت کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔ اسلوب کا تعلق جس قدر فصاحت وبلاغت کی اضافی اور مقتدر صلاحیتوں سے ہے اسی طرح اس کا تعلق ذہنی رویوں اور ذہن میں پرورش پانے والے افکار سے بھی ہے۔

قلم کار اپنی کسی تحریر میں جو کچھ پیش کر رہا ہے، جس فن پر یا موضوع پر خامہ فرسائی کر رہا ہے اگر وہ اس کے تعلق سے بہت زیادہ مطمئن ہے اور اس کے تمام ابعاد اور تمام مہمات اس کے ذہن میں روشن ہیں بلکہ اس حد تک روشن ہیں کہ وہ خود اپنا بے تابانہ اظہار چاہتے ہیں اور اظہار کے لیے کسی پیرائے کے متلاشی ہیں تو قلم کار یا مصور اس کو بہت ہی آسانی اور حسن کارکردگی کے ساتھ اظہار کا جامہ پہنا سکتا ہے۔

آغا حشر کی کردار نگاری: ایک جائزہ

ڈاکٹر محمدشہنواز عالم

اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو، اسلام پور کالج ، اتر دیناج پور، مغربی بنگال

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی قدر دانی کے بجائے جو نہیں ہے اس کا رونا دھونا، اس کے نا ہونے پر پچھتانا اور ہاتھوں کا ملنا ہمارا معمول ہوتا ہے، یہ بات حسیاتِ انسانی کے لئے جتنی درست اور معنی خیز ہے اتنی ہی دنیائے ادب کے لئے بھی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاملہ چاہے ادب کی تخلیق کا ہویا تنقید کا، ہر جگہ ہمیں احساسِ محرومی اور ناقدری کے نمونے مل جاتے ہیں۔ گو یہ کہ آغا حشر کے قلم کاروں کا عمل بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا ہے۔ یعنی آغا حشر کے متعلق صرف یہ کہہ دینا کہ آغا حشر کے ڈرامے شیکسپیئر کے ڈرامے جیسے، سماجی شعور نظیر اکبر آبادی جیسا، فلسفۂ حیات اقبال جیسا اور زندگی منٹو کے کرداروں جیسی ہے جو بالکل درست نہیں ہے کیوں کہ آغا حشر کا سب کچھ ان کے جیسا تھا۔ ان کی تمام خوبیاں، خامیاں اور ان کی زندگی کا ایک ایک عمل ان کا اپنا ہے چنانچہ ہم اس بات کو پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو ان کے ڈرامے شیکسپیئر کے ڈراموں کے متبادل ہوسکتے ہیں، نا ان کی شخصیت منٹو کے کردارجیسی ہے، نہ ان کا فلسفۂ حیات اقبالؔ کے فلسفۂ حیات جیساہے اور نہ ہی آغا حشر کا سماجی شعور نظیر سے کوئی مطابقت رکھتا ہے۔ غرض یہ کہ آغا حشر نے اپنے عہد کے تلخ حقائق اور شیرین آواز کو اپنے فن کے قالب میں ڈھال کر اسے ڈراموں کا جامہ پہنا کر دنیا والوں کے سامنے تا عمر پیش کرتے رہے۔ اور یہ وہی سچائی ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں قد آور اور ممتاز کرتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد شاہد حسین رقمطراز ہیں۔

’’احسن و بیتاب کے ہم عصروں میں ڈرامے کی دنیا کا ایک بہت ہی اہم اور معروف نام آغا حشر کا ہے ہمارے ڈرامے کی تقریباً سوا سو برس کی تاریخ میں عوام اور خواص دونوں میں امانت کے بعد جو مقبولیت آغا حشر کے حصہ میں آئی اس سے دوسرے ڈراما نگار محروم ہیں۔

آغا حشر احسنؔ و بیتابؔ کے ہم عصر ضرور ہیں مگرا نہوں نے ڈراما نگاری اس وقت شروع کی جب احسنؔ و بیتابؔ اپنا عروج حاصل کرچکے تھے۔ اور ان کی عظمت و اہمیت تسلیم کی جا چکی تھی، مگر آغا حشر نے ڈراما نگاری اس شان سے شروع کی کہ اپنے ہم عصروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘‘ ۱؎

بیانیہ :تعریف و توضیح

ریاض احمد کٹھو

ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو،کشمیر یونی ورسٹی،سری نگر ،کشمیر۱۹۰۰۰۶

بیانیہ کاجہاں تک تعلق ہے اردو کی مشہور تنقید نگار ممتاز شیریں اپنے مضمون’’تکنیک کا تنوع۔ناول او رافسانے میں ‘‘ میں لکھتی ہیں

’’بیانہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں‘‘ ۱؂

ممتاز شیریں کے اس قول سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیانیہ دراصل کسی تحریر یا فن پارے میں کوئی واقعہ یا مختلف واقعات کی ایک ترتیب ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے تہہ در تہہ کھلتے ہیں۔بیانیہ اسلوب میں مصنف کسی واقعہ‘ قصہ‘ مطالعہ یا مشاہدے کو حکایتی یا کہانی کے انداز میں پیش کرتاہے ۔بیانیہ میں کوئی بھی تجربہ جائز ہے ۔ بیانیہ میں مصنف کوئی واقعہ یا قصہ کرداروں‘مکالموں یا مختلف مناظر کے ذریعے پیش کرسکتا ہے یا پھر وہ کسی فن پارے میں بیانیہ کاپیرائیہ تیار کرنے کے لیے داخلی خود کلامیInternal Monologueکاسہارا بھی لے سکتا ہے ۔اگر بیانیہ ایک طرف اکہرا‘رومانوی یا حقیقت پسندانہ ہوسکتاہے تو دوسری طرف اس میں علامت او رتجرد کااستعمال بھی جائز ٹھہرتا ہے ۔بیانیہ سے فکشن کاپورا تانا بانا تیار ہوتاہے جس کے لیے کہانی ایک جُز یا حصے کی حیثیت رکھتی ہے جو بمعنیStory Lineکے بیانیہ میں جاری رہتی ہے اور آگے بڑھتی رہتی ہے اس سے کسی فن پارے یا تحریر کاپلاٹ تیار ہوتاہے اور یہ Story Lineفکشن میں کرداروں یاواقعات یا مکالموں یا مختلف مناظر کو تشکیل دیتی ہے اور یہ سب چیزیں مل کربیانیہ کی شکل متعین کرتی ہیں۔

بیانیہ کاایک سرا جہاں متھ(Myth) اساطیر‘ تمثیل ‘ حکایت‘ دیو مالا‘ کتھا کہانی وغیرہ جیسی قدیم لوک روایتوں سے ملتاہے تو دوسرا سرا ڈرامہ‘ ناول‘ افسانہ جیسی جدید اصناف سے ملتاہے ۔بیانیہ میں صنفی ‘موضوعاتی یا ہیئتی اعتبار سے کوئی قید نہیں ہے ۔بیانیہ کو واقعہ یا قصہ سے غرض ہے ۔مشہور نقاد و محقق شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

’’بیانیہ سے مراد ہر و ہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ یا واقعات بیان کئے جائیں‘‘ ۲؂

تاہم بیانیہ میں وقت کی قید ضرور ہے اور ہر بیانیہ وقت کا پابند ہوتاہے بقول شمس الرحمن فاروقی:

’’بیانیہ کا وجود ہی وقت پر منحصر ہے‘‘ ۳؂

گوپی چند نارنگ بیانیہ کے لیے وقت کی قید کو ضروری سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک بیانیہ کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ ماضی سے تعلق رکھتا ہو۔نارنگ لکھتے ہیں:

’’ حال اور مستقبل میں Imperfectiveیعنی پیرایہ دیکھنے والی نظموں( شاعری) میں زیادہ تر بیانیہ نہیں فقط بیان ہوتا ہے ‘ یا پھر یہ منظر یہ ہوتی ہیں‘‘ ۴؂

اردو ادب میں صنعتِ تلازم یا متلازمہ سے کیا مراد ہے ؟

ادب میں اس سے مراد ہے لفظوں يا فقروں کے معانى کا  ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻡ  ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ہونا ۔ جیسے شاعرنے  کہا : 

" ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ

ﻣﮩﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ" 

ﯾﮩﺎﮞ " ﻣﮩﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ " ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ. ﻟﻔﻆ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺛﻼﺛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﯿﮧ ﺑﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺍ ﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺻﻔﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﺗﺸﺎﺭﮎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ Word ﺩﻭ ﺍﺳﻤﺎﺀ Nouns ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺍﺷﺘﺮﺍﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺭ ﺗﻼﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽٰ ﮨﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﮒ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺁﮒ ﺟﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ ) ۔ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ) ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﭘﮑﮍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ) ۔ ﺧﻠﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺍﺧﻼﺹ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ )

ﺍﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺗﻞ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﻘﺎﺗﻞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻗﺘﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ( ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳرﮯ ﮐﻮ مارنا  )،  ﺗﺒﺎﺩﻝ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺪﻝ ( ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ) ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﻋﮑﺲ ) ، ﺗﺒﺎﺭﮎ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺭﮎ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﻻ ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﻧﺎ )

ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻠﻢ ﺻﺮ ﻑ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ.

 ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺑﮩﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ : ’’ ﺗﻼﺯﻣﮧ ‘‘

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺘﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺗﺎﮨﻢ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻤﺎﺀ ، ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

مثاﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ :

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺑﺮ ﺗﮭﺎ ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﮭﯿﻞ ﺗﮭﯽ ، ﮐﮧ ﺳﺮﺍﺏ ﺗﮭﺎ

ﺳﻮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﻍِ ﺩﻝ

محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟

محمد کاظم کی پیدائش 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ (ضلع بہاولپور) میں ہوئی ، ان کی وفات 9 اپریل 2014ء کو لا ہور میں  ہوئی۔ 
محمد کاظم عربی زبان و ادب
کی معروف شخصیت 

محمد کاظم صاحب کے بارے میں  ان کے دوست مسعود اشعر  معروف کالم نگار  کا یہ کالم پڑھیں !

میں انہیں سیّد محمد کاظم کہتا تو فوراً میری اصلاح کرتے ’’میں اپنے نام کے ساتھ سیّد نہیں لکھتا۔‘‘ بہت ہی شریف آدمی تھے ،اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے بھی ۔ 

بہت بڑے عالم تھے ،اور بڑے عالموں کی طرح منکسرالمزاج بھی ۔ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے ۔محفل باز نہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی ہو تے تھے ۔البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے۔

 جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر منگل کو گھر سے نکلتے ۔ پہلا پڑائوگارڈن ٹائون میں مشعل کا دفتر ہو تا ۔ گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہاں بیٹھتے۔ نہایت بے تکلفی سے ہر موضوع پر باتیں ہو تیں ۔اردو ادب ، عربی ادب، انگریزی ادب ،اسلام کی فکری اور علمی تاریخ، نئی اور پرانی کتابیںاور موسیقی۔ہاں،موسیقی بھی مغرب کی کلاسیکی موسیقی ۔ شایدمغرب کی کلاسیکی موسیقی کا چسکا انہیں اپنے جرمنی کے قیام میں لگا تھا ۔

 لیکن وہ اس موسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال مصطفےٰ کا ذکر کرتے اور افسردہ ہو جا تے ۔ کہتے اقبال مصطفےٰ کی پر اسرار موت کے بعدان کے ساتھ موتزارٹ اور بیتھو ون سننے والا کو ئی نہیں رہا ۔ مشعل سے اٹھتے توفیروز پور روڈ پر سید بھائیز کے ضمیر احمد خاں کے پاس چلے جا تے ۔ضمیر احمد خاں سے واپڈا کے زمانے کی دوستی تھی ۔ 

واپڈا کے ہی ایک اور ریٹائرڈ انجینئر جمیل صاحب کے پاس بھی ہفتے میںایک بار ضرور جاتے۔ کہتے جمیل صاحب کو کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ میں ان کے لئے کتابیں لے کر جا تا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب حیات تھے تو ہم ہفتے دو ہفتے میں مشعل سے اٹھ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر چلے جا تے ۔وہاں بھی ادب اور کتابیں ۔

انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کا جائزہ

اردو زبان و ادب
انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کائزہ
 سالانہ جشن اور مشاعرہ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا میں عام طور پراردو کو مسلمانوں اور اسلام کی زبان سمجھاجاتا ہے، اس لئے اردو کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے۔

 تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اردو کے جتنے ادبی جلسے منعقد ہوتے اس کی سربراہی کوئی نہ کوئی مسلمان ادیب یا شاعر کرتے تھے ۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ 

اگر صرف دلی کا ذکر کیا جائے تو یہاں اردو کے بہت سے پروگرامز ادبی کلینڈر کا حصہ ہیں، لیکن یہاں جوبھی بڑے ادبی جلسے اورجشن منائے جاتے ہیں سب کی سربراہی غیر مسلموں کے پاس ہے، جیسے : 

-  شنکر شاد مشاعرہ 

 یہ دو اہم ہندو شاعروں شنکر لال شنکر اور لالہ مرلی دھر شاد کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اسے ایک بڑی کمپنی ڈی سی ایم سپانسر کرتی ہے۔ 

-  مشاعرہ جشن بہار

     اس کی روح رواں  بھی ایک ہندو عورت کامنا پرساد ہیں۔

-  جشن ریختہ 

 اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اردو کے فروغ میں اس نئی مقبولیت کا سہرا ریختہ ڈاٹ او آر جی کے سرجاتاہے، جس کے بانی معروف شخصیت سنجیو صراف ہیں ۔ اس سے اردو کی مقبولیت کو ایک نیا پلیٹ فارف فراہم ہوگیا ہے۔ 

ایمان اور اطاعت - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

ایمان اور اطاعت
اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے

٭ ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔

٭ دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و اطاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔

مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل - مولانا سید ابوالاعلی مودودی

مسلمانوں کے لیے 
جدید تعلیمی پالیسی
 اور لائحہ عمل 
یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلسِ اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں خطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے‘ لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے‘ اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیوبند یا ندوہ یا جامعہ ملیہ‘ سب کا طریقۂ کار اب زائد المیعاد ہوچکا ہے‘ اگر یہ اس پر نظرثانی نہ کریں گے تو اپنی افادیت بالکل کھودیں گے۔

مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریے کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ادارے کے بنیادی مقصدیعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی، اور اس کو روبعمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کاتقرر کیا۔ اس سلسلے میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں ان کو میں نے پورے غور و خوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اورعلوم اسلامیہ کے موجودہ طریق تعلیم کا تعلق ہے اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقیناًناقص ہے، لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں‘ ان کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیش نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے‘ اور غالبًا یہ سمجھا جارہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کر کے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’اسلامی اسپرٹ‘ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہم کو اس سے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن‘ حدیث‘ فقہ اورعقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جارہی ہے‘طلبا میں ’’حقیقی اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصاب دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں‘ اگر آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہوگا۔ خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلے پر اسی نقطہ نظر سے غور کیا ہے‘ اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

میرا یہ بیان تین حصوں مشتمل ہوگا:

• پہلے حصے میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔

• دوسرے حصے میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی۔

• اور تیسرے حصے میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔

اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطہ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصرکی آمیزش اصلاً غلط ہے‘ اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے‘کیونکہ اول تو خود آمیزش ہی درست نہیں ہے‘پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور اور اسلامی عنصر اس کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے جس کی پشت پر رفتار زمانہ کی قوت اور ایک عالم گیر حکمراں تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم و فنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیت کلیۃً مغربی سانچے میں ڈھل جاتی ہے‘ حتیٰ کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں‘ اور یہ اعتقاد ان پر مسلط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول و مبادی سے مطابقت رکھتی ہو۔ پھر ان تاثرات کو مزید تقویت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جارہی ہے۔ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار‘ رفتار و گفتار‘ کھیل کود‘ غرض کون سی چیز ہے جس پر مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقیناًمغربی ہے اور ایسے ماحول کے جو اثرات ہوسکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں ان کو ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی عنصر نہایت کمزور ہے۔ اول تو وہ اپنی تمدنی و سیاسی طاقت کھوکر ویسے ہی کمزور ہو چکا ہے۔ پھر ہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعے سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانے سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور ترتیب و تدوین ایسی نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کرسکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے‘ ان میں سے اکثر اب در پیش نہیں ہیں‘ اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید براں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت‘ کوئی زندہ ماحول‘ عملی برتاؤ اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبیعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبا کے دل و دماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آجائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامان مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے‘ یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثار باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔

میں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواستگارہوں‘ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کو بے کم و کاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آ پ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں‘ تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو‘ اور اگر وہ اس بستے کو اٹھا کر پھینک دے (جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہوگی) تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابل الزام قرار پائے۔ اس طرز تعلیم سے اگر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیونکہ آپ نے جو اسباب مہیا کیے ہیں ان سے قانونِ طبیعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی و عملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان و اسلام کو بچا لے گیا وہ دراصل فطرت ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح ہندستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں، بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مُتَخَرِجِیْن میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہے ہی نہیں۔

اب اگر آپ ان حالات اور اس طرز تعلیم کو بعینہ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیں تو اس کا حاصل صرف یہ ہوگا کہ فرنگیت اور اسلامیت کی کشمکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا جس میں یہ دو طاقتیں پوری طاقت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالاخر آپ کے طلبا تین مختلف گروپوں میں بٹ جائیں گے

• ایک وہ جن پر فرنگیت غالب رہے گی‘ عام اس سے کہ وہ انگریزیت کے رنگ میں ہو‘ یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں، یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔

• دوسرے وہ جن پر اسلامیت غالب رہے گی‘ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔

• تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے، نہ پورے فرنگی۔

ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوشگوار نتیجہ نہیں۔ نہ خالص تعلیمی نقطہ نظر سے اس اجتماعِ نقیضین کو مفید کہا جاسکتا ہے‘ اور نہ قومی نقطہ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کرسکتی ہے جس کے نتائج کا ۳/ ۲ حصہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کا مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں‘ اور ۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں‘ بلکہ بالآخر خود ہمارے خلاف استعمال ہوں۔

مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:

• اولاً تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیت سے غلط ہے۔

• ثانیاً اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں‘ خواہ وہ اس قسم کی غیرمساوی آمیزش ہو۔ جیسی اب تک رہی ہے‘ یا مساوی کر دی جائے‘ جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جارہا ہے۔

ان امور کی توضیح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔

یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے‘ نہ آج دی جاری ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور و فکر کے بعد، اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اس کو مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے‘ نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنی پڑے گی اور اس کی ہیئتِ ترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہوگا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو‘ اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔

جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم و تربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یکجا جمع کر دینا بالکل لا حاصل ہے۔ اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقے پر تیار کرنا ہے‘ جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی‘ عزت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی فکر و نظر کو درست کرتا ہے۔ اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے‘ اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے اور اس کو اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کر کے دیتا ہے۔

افراد کی ذہنی و عملی تربیت‘ سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت و تعدیل کے باب میں اس کے اصول و ضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے‘ اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو ’اسلامی دینیات‘ کی اصلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالم دین بے کارہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر ان کو لے کر علم و عمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال و مسائل میں ان کو برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالم دین بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے، مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے‘ معاملات کو غیر اسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظام تمدن کی ابتری کا اصل سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں‘ اور دنیوی علم و عمل سے علم دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانے کے پیچھے چلنے کے بجائے آگے چلنے لگے‘ تو اس ٹوٹے ہوئے رابطہ کو پھر قائم کیجیے، مگر اس کو قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسم تعلیمی کی گردن کا قلاوہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔ نہیں، اس کو پورے نظام تعلیم و تربیت میں اس طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دوران خون‘ اس کی روح رواں، اس کی بینائی و سماعت‘ اس کا احساس و ادراک‘ اس کا شعور و فکر بن جائے‘ اور مغربی علوم و فنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی‘ مسلمان سائنس دان‘ مسلمان ماہرین معاشیات‘ مسلمان مقنن‘ مسلمان مدبرین‘ غرض تمام علوم و فنون کے مسلمان ماہر پیدا کرسکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کریں گے‘ تہذیب حاضر کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے تہذبِ اسلامی کی خدمت لیں گے‘ اور اسلام کے افکار و نظریات اور قوانین حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے‘ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم و عمل کے ہر میدان میں اسی امامت و رہنمائی کے مقام پر آجائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔

یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے جہاں سرسید ہم کو چھوڑ گئے تھے۔ اب اگر زیادہ عرصے تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار‘ زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔

(۲)

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ میں نے پیش کیا ہے اس کو صورت کالباس کس طرح پہنایا جاسکتا ہے۔

۱۔ مسلم یونی ورسٹی کے حدود میں ’فرنگیت‘ کا کلی استیصال کر دینا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میں فرنگیت کے ان روز افزوں رجحانات کا سدباب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور چھپی ہوئی احساس ونائت (Inferiority complex)کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور‘ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار اور بحیثیت مجموعی پورے ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں‘ اور اس میں شرفِ قومی کا رمق برابر احساس نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصورات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتاؤں سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتاؤ مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبیعی موت مرجائے گی‘ اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدم اصلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے‘ ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے‘ ان میں اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت کی روح پھونک دے‘ ان کو اس قابل بنا دے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔

۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلمین کے علم و عمل پر ہے۔ جو معلم خود اس روح سے خالی ہیں‘ بلکہ خیال اورعمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں‘ مگر اصلی معمار آپ نہیں، آپ کے تعلیمی اسٹاف کے ارکان ہیں۔ فرنگی معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرز تعمیرپر عمارت بنائیں گے‘ کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’مولوی‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہوگا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیونکہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبا کے نظریات اور تصورات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے‘ اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو‘ فلسفہ ہو یا سائنس‘ معاشیات ہو یا قانون‘ تاریخ ہو یا کوئی اور علم‘ مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہر فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اورپکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہر فن کی خدمات حاصل کرنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عام قائدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں کے لحاظ سے مفید ہوں۔

۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔ یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن اور سنت تک بلاواسطہ دسترس حاصل نہ کرے گا‘ اسلام کی روح کو نہ پاسکے گا‘ نہ اسلام میں بصیرت حاصل کرسکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا‘ اور اس طرح کی روشنی اس کو براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی‘ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔آگے چل کر پراونشل اٹانومی کے دور میں جب ہندستان کی مجالس مقننہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل رفارم کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے۔ اس وقت اگر مسلمانوں کی نمائندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق‘ معاشرت اور قانون کے مغربی تصورات پر اعتقاد رکھتے ہوں‘ تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کے بجائے انٹی سوشل ڈیفارم ہوگی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلے کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیات (Funadamentals)سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔

۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسب ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔

الف۔ عقائد

اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں، بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیارکرنا چاہیے جو فطری وجدان اورعقل کو اپیل کرنے والا ہو۔

طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔

ب۔ اسلامی اخلاق

اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور انبیاء علیھم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبا کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔

ج۔احکام فقہ

اس مضمون میں حقوق اللہ اور حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے، مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونے چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کے بجائے عبادات اور احکام کی معنویت‘ ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنے چاہییں۔ ان کو یہ بتانا چاہیے اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بتاتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔

د۔ اسلامی تاریخ

یہ مضمون صرف سیرت رسولؐ اور دور صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیت کی اصل سے واقف ہو جائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔

ر۔عربیت

عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔

س۔قرآن صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللّٰہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی ان کو یاد ہوں۔

(۵) کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔

الف۔ عربیت انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔

ب۔ قرآن انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلے میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہئییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلے میں اس کی فضیلت۔ اس کی بے نظیر انقلاب انگیز تعلیم۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر۔ اس کا انداز بیان اور طرزاستدلال۔ اس کا حقیقی مدعا۔

بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبا خود قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو، اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا کیا جائے تو دو سال میں با آسانی پورا قرآن پڑھایا جاسکتا ہے۔

ج۔ تعلیمات اسلامی اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظام اسلامی سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصورات کی بنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو وہ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللہ کیا ہیں۔ ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکرو عمل کی آزادی حاصل ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظام اسلامی پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام امور جامعیت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اس کو چار سال کے مدارج تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔

۶۔ نصاب عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم و فنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔ مغربی علوم و فنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں‘ اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں‘ بلکہ جواباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات‘ بنیادی مفروضات (Hypothesis)،نقطہ ہائے آغاز(Starting Points)اور زاویہ حائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے اپنے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائق علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں‘ اور اس سانچے کی مناسبت سے ان کو مرتب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصور‘ ایک زاویۂ نظر‘ ایک نقطہ آغاز فکر، ایک وجدانی سانچہ رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔

اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطہ نظر سے ضلالت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم و فنون سے حقائق لیتے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچہ بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ‘ سائنس‘ تاریخ‘ قانون‘ سیاسیات‘ معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبا کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں‘ ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویہ نظر کے مطابق جماتے ہیں‘ مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال و استشہاد اور تحقیق و تفحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطہ آغاز ان کو دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پر مرتب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے ان کو مرتب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبہ دینیات کیا کرسکتا ہے جس مں مجرد تصورات ہوں۔ حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گمراہی کا سرچشمے ہے۔ اگر آپ گمراہی کا سدباب کرنا چاہتے ہیں تو اس سرچشمے کے مصدر پر پہنچ کر اس کا رخ پھیر دیجیے اور تمام علمی شعبوں کو وہ نقطہ آغاز‘ وہ زاویہ نظر‘ وہ اساسی اصول دیجیے جو قرآن نے آپ کودیے ہیں۔ جب اسی وجدانی سانچے میں معلومات مرتب ہوں گی اور اس نظر سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’مسلم طلبہ‘ بنیں گے اور آپ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں اسلامی سپرٹ پیدا کی، ورنہ ایک شعبے میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفہ میں غیر مسلم‘ سائنس میں غیر مسلم‘ قانون میں غیر مسلم‘ سیاسیات میں غیر مسلم‘ فلسفہ تاریخ میں غیر مسلم‘ معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔

۷۔ بی‘ ٹی‘ ایچ اور ایم‘ ٹی‘ ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت، نہ فائدہ۔ جہاں تک علوم اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل علم کے مغربی شعبے کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفے میں حکمت اسلامیہ اور اسلامی فلسفے کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ۔ تاریخ میں تاریخ اسلام اور اسلامی فلسفہ تاریخ‘ قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسیات میں اسلام کے نظریات سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ۔ (قس علیٰ ھذا)

۸۔ اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجے کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (Doctrate)دیا کرے۔ اس شعبے میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام دنیا کی نظری و فکری رہنمائی کے لیے مستعد ہوں۔

(۳)

حصہ دوم میں جس طرز تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ توجہ اور محنت اور صَرف مال سے اس کو بتدریج عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیاد رکھنی ہے‘ اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہوسکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرز تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت سے جو نسل اٹھے گی وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہوگی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے‘ اس کو آج ہی حاصل کرلینا ممکن نہیں، لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہوسکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں، ورنہ اگر اس کے درجۂ کمال کو اپنے سے دور پاکر آپ نے آج سے اس کی ابتدا ہی نہ کی، حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں‘ تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔

چونکہ میں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا فرض ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرز تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے قابل عمل تدبیریں کیا ہیں

۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائد‘ اسلامی اخلاق اور احکام شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اس کو ضروری ترمیم و اصلاح سے بہت کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔

عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہولناک ہوگئی تھی الحمد للہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر و شام اور خود ہندستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے باآسانی یہ زبان سکھائی جاسکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی و عملی مہارت رکھتے ہیں اور ان کے مشورے سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیم قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی، اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن سے مناسبت پیدا ہو جائے گی۔

اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جاچکے ہیں۔ ان کو جمع کر کے بنظر غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں ان کو ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کرلیا جائے۔

مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹہ کافی ہوگا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اس کو ضم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصاب تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصور آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اس کو نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیت اور ان کے نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ ان کو ایک ترقی یافتہ نصاب تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’اسلامیت‘ کے بیج کو بالیدگی نصیب ہوسکے۔

۲۔ کالج کے لیے نصاب عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں

(الف)عربیت، (ب) قرآن، (ج) تعلیمات اسلامی

ان میں سے عربیت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرس کے ذریعے سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے‘ اس کے بعد صرف عربی زبان ہی لازم ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ کے اندر اتنی استعداد پیدا کی جاسکتی ہے کہ وہ بی ۔ اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کرسکیں۔

قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو اور جو طرز جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبا کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کرے گا۔ پھر بی۔ اے میں ان کو پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔

تعلیمات اسلامی کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود اِن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے عنوان سے لکھنی شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۱۳۵۳؂ھ تک کے پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اس کو مفید سمجھا جائے تو میں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کردوں گا۔

ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی زبان کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیمات اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہوسکتا ہے جو آپ کے ہاں دینیات کے لیے مقرر ہے۔

۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر۶‘ ۷ میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جن کو بتدریج اختیار کیا جاسکتا ہے

الف۔ ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علوم جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں‘ جن میں اتنی اہلیت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات اور ان کی وجدانی اساس سے الگ کر کے اسلامی اصول و نظریات کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ب۔ اسلامی فلسفۂ قانون‘ اصول قانون و فلسفہ تشریع‘ سیاسیات‘ عمرانیات‘ معاشیات‘ تاریخ و فلسفہ تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی‘ اردو‘ انگریزی‘ جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہ لینے کے قابل ہوں ان کا انتخاب کرلیا جائے اور جن کو اقتباس یا حذف و ترمیم کے ساتھ کار آمد بنایا جاسکتا ہو ان کو اسی طریق پر کام میں لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہل علم کی ایک خاص جمعیت مقرر کرنی ہوگی۔

ج۔ چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں۔ خصوصیت کے ساتھ اصول فقہ‘ احکام فقہ‘ اسلامی معاشیات‘ اسلام کے اصول عمران‘ اور حکمت قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے‘ کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں‘ ارباب اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر ان کو جوں کا توں لے کر موجود زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سردست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بدرجہ کمال حاصل نہ ہوگا جو ہمارے پیش نظر ہے۔ بلاشبہہ اس تعمیر جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ صحیح راستے پر پہلا قدم ہوگا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی ان کو بعد کی نسلیں پورا کریں گی یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔

۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔

۵۔ میری تجاویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرز تعلیم میں شیعہ طلبہ کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے۔ اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبا کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں‘ مگر مناسب یہ ہوگا کہ جہاں تک ہوسکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم سے کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آئندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔

۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علماو فضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندستان کے علاوہ مصر‘ شام‘ ایران‘ ٹرکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آکر اپنے خیالات‘ تجربات اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنی فکر اورروح حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہئییں تاکہ وہ کافی وقت محنت اور غور و فکر کے ساتھ لکھے جائیں اور ان کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبا کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔

۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے کسی ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو‘ عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بھی اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں ہے، لہٰذا سردست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اس کو اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علوم اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلم دینیات نہیں ہوسکتا۔

میں اپنے اس بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں‘ مگر اتنی تطویل و تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی‘ کیونکہ میں بالکل ایک نئے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور و فکر کے کئی سال صَرف کرنے پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے زندہ رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرز تعلیم و تربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہو جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے‘ اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں‘ جو میرے ان خیالات کو ایک دیوانے کا خواب کہیں گے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے، اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں لیکن جو کچھ میں آج دیکھ رہا ہوں‘ چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اس کو بچشم سر دیکھیں گے اور ان کو اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہوگی جب طوفان سر پر ہوگا اور تلافیِ مافات کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)


سلام اسے کہ اگر بادشا کہيں اس کو - مرزا غالب



سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو     تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستایش ہے         کہو کہ خامس آل عباس کہیں اس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی      کہو کہ رہبر راہ خدا کہیں اس کو

خدا کا بندہ خداوندگار بندوں کا     اگر کہیں نہ خداوند کیا کہیں اس کو

فروغ جوہر ایماں حسین ابن علی     کہ شمع انجمن کبریا کہیں اس کو

کفیل بحشش امت ہے بن نہیں پڑتی     اگر نہ شافع روز جزا کہیں اس کو

مسیح جس سے کرے اخذ فیض جاں بخشی     ستم ہے کشتۂ تیغ جفا کہیں اس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل     شہید تشنہ لب کربلا کہیں اس کو

    عدو کے سمع رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات   کہ جن و انس و ملک سب بجا کہیں اس کو

بہت ہے پایۂ گرد رہ حسین بلند      بقدر فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرہ خاک      کہ لوگ جوہر تیغ قضا کہیں اس کو

ہمارے درد کی یارب کہیں دوا نہ ملے         اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو

ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسن صبر کی داد         مگر نبی و علی مرحبا کہیں اس کو

زمام ناقہ کف اس کے میں ہے کہ اہل یقیں     پس از حسین علی پیشوا کہیں اس کو

وہ ریگ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے     کہ طالبان خدا رہنما کہیں اس کو

امام وقت کی یہ قدر ہے کہ اہل عناد     پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں     علی سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ      برا نہ مانیے گر ہم برا کہیں اس کو

علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین     کرے جو ان سے برائی بھلا کہیں اس کو

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے     رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو

بھرا ہے غالبؔ دلخستہ کے کلام میں درد     غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو


(ديوان غالب )

فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔ 

میر انیس اور ان کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

 میر انیس 
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔

تعلیم

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔

شاعری و مرثیہ گوئی

شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

غزل سے مرثیے تک

میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ

والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے

نسیم حجازی کى شخصیت اور ان کی تصانیف

نسیم حجازی کی شخصت 
نسیم حجازی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

حالات زندگی


ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔

عملی زندگی کا آغاز

نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ،روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔

اردو زبان کا خون کیسے ہوا؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔ 
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، 
مثلا": 
ہیڈ ماسٹر، 
فِیس، 
فیل، 
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ 
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ 
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ 
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ 
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ 
عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔ 
انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔