" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
کامیاب انسان کی عادات
’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟
’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟
پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟
پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟ |
نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟
10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے ؟
جینیئس یا نابغہ افراد میں کونسی خصوصیات ہوتی ہیں؟
موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ
ماہنامہ الشریعہ تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء
ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں
رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون
کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا
ہے۔
دینی تعلیم
۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی
مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر
پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔
۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں
بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔
۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ
اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان
کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ
طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)
چیلنج قبول کیجیے اور فاتح بنیے - مرزا یاور بیگ
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م
زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔
غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔
آپ اپنی انا پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
بی بی سی اردو ۲۴ فروری ۲۰۲۱
اگر آپ کی شخصیت ایسی ہے جو دوسروں کے کسی عمل یا رد عمل سے پریشان ہو جاتے ہیں تو آپ کو فریڈرک ایمبو کو سننا چاہیے۔
جب ایمبو کو یہ محسوس ہوا کہ وہ زندگی میں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ردعمل ظاہر کر کے خود کو پریشان کرتے ہیں جیسے اگر کوئی پریشان ڈرائیور ہارن بجا رہا ہے یا ان سے پچھلی والی کار کا ڈرائیور انھیں ہائی بیم لائیٹیں مار رہا ہے، یا اگر ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے شخص نے ان کا گرمی جوشی سے استقبال نہیں کیا تو وہ پریشان ہو جاتے تھے۔
فیڈرک نے فیصلہ کیا کہ اس مسلسل پریشانی سے چھٹکارے کے لیے انھیں کچھ کرنا ہو گا۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے وہ فٹبال ریفری بن گئے۔
ان دونوں چیزوں میں بظاہر کوئی چیز مشترک نہیں ہے، لیکن ایمبو نے بی بی سی کو بتایا کہ ریفری بننے سے انھیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے جو انھیں اپنی انا پر قابو پانے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں
فریڈرک ایمبو نے ایک ٹیڈ ٹاک میں بتایا ‘میں قربانی کا بکرا ہوں، بظاہر میں ہی غلط ہوں، ہمیشہ میری ہی غلطی ہوتی ہے۔ اور میں یہ سیکھنا چاہتا تھا کہ میں اسے اپنی ذات پر نہ لوں۔‘بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ ایمبو کے لیے سیٹیاں بجانے والے ریفری کا کام کافی نیا ہے۔ انھوں نے ایمبورلنگ نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے جو لوگوں کو اپنی بات کو موثر انداز میں دوسروں تک پہنچانے کی تربیت دیتی ہے۔
’کائنڈنس ٹیسٹ‘ دنیا کا سب سے بڑا سروے ہے
بی بی سی اردو ۲ فروری ۲۰۲۳م
یہ تحقیق ان عوامل پر روشنی ڈالتی ہے جو ہمیں مہربانی کرنے سے روکتے ہیں اور یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ ہر جگہ موجود ہے۔
یہ ایک آن لائن سوالنامہ تھا جسے یونیورسٹی آف سسکس کے ماہر نفسیات رابن بینرجی کی سرکردگی میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس میں 144 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 60 ہزار سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس طرح یہ مہربانی کے موضوع پر کی جانے والی سب سے وسیع تحقیق بن گئی۔
’کہیں مہربانی کا غلط مطلب نہ لے لیا جائے‘
لوگوں کی شخصیت، صحت اور جذبۂ ہمدردی کو جانچنے کے ساتھ مہربانی کا اندازہ لگانے کے لیے ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس قدر تواتر کے ساتھ دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ لوگوں نے مختلف طرح کے جواب دیے۔
بعض نے تو بڑی ایمانداری کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ اکثر مہربانی کا مظاہرہ نہیں کرتے جبکہ دوسرے بہت زیادہ مہربان تھے۔
خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟
حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق
دنیا کے ’سب سے خوش انسان‘ کی خوشی کا راز آخر کیا ہے؟
بی بی سی اردو ، ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ء
وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان گذشتہ کئی برسوں سے نیپال کی ’شیچن ٹینیئی ڈارجیلنگ‘ خانقاہ میں بودھ بھکشو (راہب) میتھیو رکارڈ نامی شخص کے دماغ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ میتھیو رکارڈ مولیکیولیر بائیولوجی کے ماہر اور ڈاکٹر بھی ہیں۔ وہ دلائی لامہ کے ذاتی مشیر اور اُن کے مترجم بھی ہیں۔
74 سالہ میتھیو کے دماغ کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج دیکھ کر سائنسدان دنگ رہ گئے ہیں۔
محققین نے رکارڈ کے دماغ کا نیوکلیئر ایم آر آئی کیا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔
سائنسدانوں نے اُن کے سر پر 256 سینسر لگائے تاکہ ان کے ذہنی دباؤ، چڑچڑے پن، غصے، خوشی، اطمینان اور درجنوں دیگر مختلف کیفیات اور احساسات کی سطح کا اندازہ لگا سکیں۔ انھوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے دماغ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔
حاصل کردہ نتائج نے اس تجربے میں شریک ہر ایک شخص کی خوشی کی سطح کو ایک مخصوص پیمانے پر ناپا جس میں 0.3 (بہت ناخوش) سے منفی 0.3 (بہت خوش) تھا۔
میتھیو رکارڈ کو اس پیمانے پر منفی 0.45 نمبر حاصل ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ میتھیو اتنے خوش تھے کہ ان کی خوشی کا نمبر اسے ناپنے والے پیمانے پر بھی دستیاب نہیں تھا۔
اور یوں انھیں ’دنیا کا سب سے زیادہ خوش آدمی‘ قرار دیا گیا۔میتھیو رکارڈ، معروف فرانسیسی فلاسفر ژان فرانسوا ریویل اور مصور یحنی لی ٹوملین کے بیٹے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست اور فلسفی الیگزانڈر جولیئن اور نفسیاتی ماہر کرسٹوف آندرے کے ساتھ مل کر ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی ہے اور اب یہ ہسپانوی زبان میں ’لانگ لئیو فریڈم!‘ کے عنوان سے چھپ رہی ہے۔
پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟
فری لانسنگ کیا ہے؟
ٹیکنالوجی کی زبان میں فری لانسنگ سے مراد انٹرنیٹ پر کسی بھی ملک میں موجود ایک فرد یا کمپنی کے لیے کام کے عوض پیسے وصول کرنا ہے۔
پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کئی طریقوں سے کما سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک طریقہ ای کامرس یعنی آن لائن کاروبار ہے جبکہ دوسرا طریقہ کونٹینٹ یعنی ایسا مواد لکھنا، تصاویر یا ویڈیوز بنانا جو لوگوں میں مقبولیت حاصل کر سکے۔
اسی طرح فری لانسنگ ایک تیسرا ذریعہ ہے جو پاکستان کے نوجوانوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ایمن کے مطابق: ’ایک اچھا انٹرنیٹ اور لیپ ٹام موجود ہو تو آپ کہیں سے بھی فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘
آمنہ کمال پاکستان کے فری لانسنرز کی ترتیب کرنے والے ایک حکومتی ادارے ڈیجی سکلز سے منسلک ہیں۔ وہاں وہ ہر عمر کے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ: ’ایک زمانے میں کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا تھا۔ پہلے پڑھائی کے بعد لوگ نوکریاں تلاش کرتے تھے۔
’اب یہ بدلتا جا رہا ہے اور لوگوں کو جسمانی طور پر کسی دفتر میں موجود ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ورچوئلی (یعنی عدم موجودگی میں کمپیوٹر کے ذریعے) کام کر سکتے ہیں۔
نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے
بی بی سی اردو
نئے سال میں جم جانے یا سگریٹ نوشی ترک کرنے جیسے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے
جم شروع کرنی ہے، پیسے بھی بچانے ہیں، سگریٹ نوشی بھی ترک کرنی ہے اور اپنی شخصیت پر بھی کام کرنا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی اہداف آج کل یقیناً آپ سب کے ذہنوں میں ہوں گے۔
نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے |
نئے سال کی ابتدا ہو چکی ہے اور یوں تو نئے پراجیکٹس کا آغاز کرنے اور بری عادتوں کو پیچھے چھوڑنے کا کوئی اچھا، برا وقت نہیں ہوتا لیکن نئے سال کی ابتدا ایسا کرنے کے لیا موقع ضرور فراہم کرتا ہے۔
اکثر افراد کے لیے نئے سال کے آغاز پر کیے گئے عہد ایک ’تازہ آغاز‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ نئے سال کی ’قراردادوں‘ کا مقصد دراصل خود کو بہتر بنانے کے لیے نئے اہداف کا تعین کرنا ہوتا ہے۔
شاید آپ اس سال بچت کرنے کا عہد کرنا چاہتے ہوں یا ہو سکتا ہے آپ کو ایک نئے شوق کو اپنانے کی جستجو ہو۔
آپ نے سال کے آغاز میں جو بھی عہد کر لیے ہیں، انھیں پورا کرنے کے لیے ایک چیز بہت ضروری ہے اور وہ حوصلہ افزائی کی مسلسل موجودگی ہے۔
تاہم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے۔
سکرینٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نئے سال کے آغاز پر اپنے لیے اہداف مقرر کرنے والے افراد میں سے صرف آٹھ فیصد ان پر قائم رہ سکے۔
تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ ان 92 فیصد افراد میں سے نہ ہوں۔
اس تحریر میں ہم اس ناکامی سے بچنے اور سال کے آخر تک ایک عہد کو نبھانے کے پانچ آسان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے اہداف پورے کر سکتے ہیں۔
کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟
کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہوجاتے ہیں ؟ |
تاریخ اشاعت: 24 دسمبر 2022ء
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں! کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟
اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کا کوئی نہ کوئی جاننے والا ایسا ضرور ہو گا جو ہمیشہ لیٹ ہو جاتا ہے۔ وہ لیٹ آنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بھی آپ کو سنائے گا، مگر اگلی مرتبہ پھر لیٹ ہو گا۔
کیا یہ بہانے واقعی جھوٹے بہانے ہوتے ہیں یا ہمیشہ لیٹ ہونے والے افراد اپنی ’عادت کے ہاتھوں مجبور‘ ہوتے ہیں
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ حد تک لیٹ ہونا انسانی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے اور لیٹ ہونے والے افراد ذہنی طور پر مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔
سنہ 2014 کے ایک سروے کے مطابق پانچ میں سے ایک امریکی ہر ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لیٹ ہو جاتا ہے یعنی ہفتے کے دوران ایک نا ایک موقع ایسا ضرور آتا ہے جب وہ مقررہ وقت پر کہیں پہنچ نہیں پاتا۔
کتاب ’لیٹ!‘ کی مصنف گریس پیسی کہتی ہیں کہ عام افراد دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ٹائم کیپر یعنی وقت کے پابند جو ہمیشہ وقت پر پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، اور دوسرے ٹائم بینڈر، یعنی جو ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹائم بینڈر (یعنی ہمیشہ وقت سے پیچھے رہنے والے) افراد کو روٹین پسند نہیں ہوتی اور اُنھیں یکسانیت سے بہت کوفت ہوتی ہے اس لیے وہ بہت جلدی بور ہو جاتے ہیں۔
کیا عقل و شعور کے سنہری دور میں رہنے والا انسان ’ذہانت کی معراج‘ پر ہے؟
بور ہونا آپ کی ذہنی صحت کے لیے کیسے مفید ہے؟
بی بی سی اردو
تاریخ : 22 دسمبر 2022ء
اگر کوئی آپ سے کہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آرام سے بیٹھو اور کچھ نہ کرو، تو آپ کا دماغ اسے قبول نہیں کرے گا، بلکہ یہ خیال بار بار آپ کے ذہن میں آئے گا کہ کچھ ادھورے کاموں اور دیگر ضروری کاموں کو کیسے پورا کیا جائے۔
آج کی مصروف زندگی میں یہ عام بات ہے کہ ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹس سے لے کر تمام ای میلز کو چیک کرنے، تمام کاموں کو مکمل کرنے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے تک ہر چیز کے لیے دن کے 24 گھنٹے کم پڑ جاتے ہیں۔
اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تو آپ تفریح کے لیے اپنے موبائل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصروں کا جواب دینا اور کبھی کچھ اور چیزوں کو تلاش کرنا۔
لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ بور ہونا بھی ایک آسان اور مفید آپشن ہے۔
کچھ لوگ اپنے خیالات اور نظریات کے ساتھ تنہا رہنے کے بجائے خود کو ’بجلی کا جھٹکا‘ دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ بات مشہور سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
ایک تحقیقی تجربے کے حصے کے طور پر، کچھ لوگوں کو ایک کمرے میں 15 منٹ تک اکیلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔
ان تمام لوگوں کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں کچھ نہیں کرنا ہے۔ ایک ہی آپشن تھا، ایک بٹن دبانا، جس سے انھیں ہلکے بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔
تجربے میں شامل 42 افراد میں سے تقریباً نصف نے کم از کم ایک بار وہ بٹن دبایا، جب کہ انھیں بجلی کے جھٹکے کا احساس پہلے ہی ہو چکا تھا۔