بی بی سی اردو 26 جولائی 2024
گھر ہو دفتر یا گاڑی، لوگ روزانہ کہیں نہ کہیں دیر تک بیٹھے ضرور رہتے ہیں لیکن بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے شریانوں کی خرابی کی وجہ سے دل کی بیماری اور ٹائپ ٹو ذیابیطس جیسے سنگین صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
سنہ 1953 میں وبائی امراض کے ماہر جیریمی مورس نے دریافت کیا کہ لندن کے بس ڈرائیوروں میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بس کنڈیکٹرز کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے (عمر، جنس اور آمدن کے لحاظ سے) دونوں گروہ ایک جیسے تھے تو پھر اتنا اہم فرق کیوں تھا؟
مورس کا جواب تھا: بس کنڈکٹرز کا کھڑا ہونا لازمی تھا اور باقاعدگی سے لندن کی مشہور ڈبل ڈیکر بسوں کی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ مسافروں کو ٹکٹ فروخت کرتے تھے جبکہ ڈرائیور لمبے وقت تک بیٹھے رہتے تھے۔
ان کے تاریخی مطالعے نے جسمانی سرگرمی اور صحت کے درمیان روابط پر تحقیق کی بنیاد رکھی۔
اگرچہ لندن کی بسوں میں کنڈکٹرز اب ماضی کی بات ہو گئی ہے تاہم مورس کے نتائج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔
کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے گھر سے کام کے معاملے میں بہت بڑی تبدیلی آئی، جس سے ہمارے بیٹھنے کے مجموعی وقت میں اضافہ ہو گیا۔
میٹنگ روم سے واٹر کولر اور بیت الخلا تک کی چہل قدمی کے بغیر ڈیسک کے پیچھے گھنٹوں تک بیٹھنا آسان ہے۔
تاہم آفس کلچر نے 1980 کی دہائی تک ہماری کام کرنے کی زندگی کو اس قدر تبدیل کر دیا تھا کہ کچھ محققین نے مذاق کیا کہ ہماری نسل ہومو سیڈنز ’بیٹھے ہوئے انسان‘ بن گئی ہے۔