" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
اختلافِ رائے یا طوفانِ بدتمیزی؟
قرآن، سنت اور روایت: ڈاکٹر خضر یاسین کی فکر کا تنقیدی جائزہ
قرآنِ کریم صرف ایک کتابِ مقدس ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اس کتاب کی فہم، تعبیر اور تطبیق کی ایک علمی روایت ہے جو چودہ سو سال پر محیط ہے۔ لیکن جدید دور میں بعض مفکرین اس روایت کو رد کرتے ہوئے ایک نیا زاویۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر خضر یاسین کا ہے، جو قرآنی متن اور اسلامی روایت کے باہمی تعلق کو فلسفیانہ اسلوب میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کا مدعا اگرچہ "براہِ راست فہمِ قرآن" پر زور دینا ہے، لیکن ان کی تعبیرات کئی علمی، تاریخی اور عملی ابہامات سے بھرپور ہیں۔
یہ مضمون ڈاکٹر خضر کے چار بنیادی مقدمات کا جائزہ لیتا ہے اور ہر مقدمے پر ایک علمی تنقید پیش کرتا ہے۔
مقدمہ اول: متن اور فہمِ متن میں فرق
ڈاکٹر خضر یاسین کا دعویٰ:
قرآن کا اصل متن (Text) ایک مستقل وجود رکھتا ہے، جبکہ اس کا فہم (Understanding) ایک الگ وجودی مظہر ہے۔ فہمِ متن، متن سے خارج ہوتا ہے، اس لیے فہم کو متن کا جزو یا عین قرار دینا علمی خیانت ہے۔
جواب:
-
یہ بات درست ہے کہ متن اور فہم دو الگ سطحیں ہیں، لیکن جب فہم درست اور علمی ہو تو وہ متن سے جدا نہیں ہوتا بلکہ متن ہی کی شرح بن جاتا ہے۔
-
اگر فہمِ قرآن کو ہمیشہ متن سے الگ اور مشکوک مانا جائے، تو ہدایت کا تصور ناممکن بن جائے گا۔
-
قرآن خود تدبر، تفکر، تعقل کی دعوت دیتا ہے، جو فہمِ متن کے بغیر ممکن نہیں۔
’’أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا‘‘ (محمد:24)
الحاد کے معاشرے پر اثرات ۔ عبدالرحمن عزیز
رسالہ محدث جون 2019ء
وٹس ایپ گروپ سے وابستہ اہل علم ودانش کی تربیتی ملاقات
مجلہ 'محدث' کے ذریعے علم وتحقیق اور 'محدث میڈیا' کے ذریعے انٹرنیٹ پر برسہا برس سے تحقیقی وابلاغی خدمات انجام دینے والے ادارے مجلس التحقیق الاسلامی Islamic Research Councilنے فروری 2016ء میں اپنے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے عصری مسائل میں کتاب وسنت کی رہنمائی کا مبارک سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس تین سالہ عرصے میں ہزاروں موضوعات پر اہل علم ودانش نے تین لاکھ پوسٹوں میں بیش قیمت دلائل کے ذریعے مکالمہ علمیہ کی شاندار روایت کو قائم کیا۔ شرکاء کی دلچسپی،موضوعات کے تنوع واہمیت اور جاندار دلائل کے اعتبار سے یہ مجموعہ علما ے کرام اور اہل فکر ودانش میں ممتاز حیثیت اختیار کرگیا۔
مجموعہ ہذا کے اہل علم وفکر کی ملاقات اور ممتاز علماے کرام سے رہنمائی کے لئے 3؍ فروری 2019ء بروز اتوار،مجلس التحقیق الاسلامی اور الحکمہ انٹرنیشنل کے زیر اہتما م، جامعہ لاہور الاسلامیہ (البیت العتیق) میں تربیتی ملاقات کا انعقاد کیا گیا ، جس کی رپورٹ ہدیۂ قارئین ہے۔ ح ۔م
سوشل میڈیا نے دنیا کو 'گلوبل ویلیج' بنا دیا ہے ، اس سے انسانوں کے باہمی رابطے اور تعلقات کو نئی جہت ملی ہے ۔ اب ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر کے لاکھوں ، بلکہ کروڑ ہا لوگوں سے بیک وقت مخاطب ہوتا ہے ، کسی بھی مسئلہ میں بغیر کسی رکاوٹ، اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکتا ہے، ہزاروں لوگوں کے افکار ونظریات سے واقفیت حاصل کرسکتا اوران پر تنقید اور تبصرہ بھی کرسکتاہے ۔ پہلے اکثر میڈیا گروپس کسی نہ کسی سیاسی ؍مذہبی جماعت سے وابستگی رکھتے تھے ، یا کم از کم اپنے مفادا ت کے پیش نظر کچھ اُصول رکھتے تھے ، اور وہی بات شائع کرتے تھے جوان کے نظریات ومفادات سے ہم آہنگ ہوتی ۔ دوسرے لوگ اپنی بات کہنے، مافی الضمیر کو بیان کرنے اور ابلاغ کی استعداد سے محروم تھے ۔ سوشل میڈیا کے آنےپر ہر شخص آزاد ہے اورکسی خاص انتظام یا زرِ کثیر خرچ کیے بغیر وہ فیس بک ، وٹس اپ یا ویب پر اپنا گروپ بناسکتا ہے۔ اہل علم کو بھی باہمی تبادلہ خیال کے لئے ایک جگہ پر طے شدہ وقت پر جمع ہونا پڑتا تھا، اب سوشل میڈیا کی بدولت ہر صاحبِ علم ، ہمہ وقتی مکالمہ علمیہ کرسکتا ہے، اپنے گھر بیٹھے اپنی کتب اور دلائل کی مدد سے اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ پیش کرسکتا ہے۔
سوشل میڈیا تک ہر شخص کی رسائی اور سب کو کہنے اور لکھنے کی آزادی ، اور ہر وقت مکالمہ ومباحثہ کے امکان نے بہت سے مسائل بھی پیدا کئے ہیں، تاہم بہت سارے گروپس بڑا شاندار کام کررہے ہیں اور اس طرح تعصّبات سے بالاتر ایک آزاد فضا بھی پیدا ہوئی ہے۔بعض گروپس علماےکرام سے سوال وجواب کے لیے خاص ہیں ، جن میں عوام الناس ااپنے من پسند علما سے اپنی ضرورت کے سوالات پوچھتے ،ا ور ان سے رہنمائی لیتے ہیں ، اور بعض گروپس علما ے کرام کے باہمی رابطے کے لیے ہیں ، اہل علم ہی کو ان کا رکن بنایا جاتا ہے ۔ ان میں کبار و صغار علما جدید مسائل پر دلائل اور آرا کا تبادلہ کرتے ہیں۔
فکری انقلاب ۔ مولانا وحید الدین خان
بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ
اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ ۔ جاوید احمد غامدی
متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ چہارم )۔ ساجد حمید
متن حدیث میں علما کے تصرفات ۔ ساجد حمید
خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ چہارم ) ۔ جاوید احمد غامدی
اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:
1۔ کیا دعا سے اللہ تعالیٰ کی ابتلا کی اسکیم میں کوئی مداخلت واقع ہوتی ہے؟
2۔ اگر دعا مانگنے سے قانون آزمائش میں مداخلت نہیں ہوتی تو خاص اوقات میں دعا مانگنے کی تلقین کیوں کی گئی ہے؟
3۔ کیا اللہ تعالیٰ نے دنیوی نعمتیں دینے کا کوئی اصول مقرر کیا ہوا ہے؟
4۔ کیا بددعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ براہ راست مداخلت کرتے ہیں؟
5۔ رحیم و کریم خدا اپنے بندوں کو اذیت ناک بیماریوں میں کیسے مبتلا کر سکتا ہے؟
6۔ کیا انسان اس کائنات میں ایک مجبور محض ہے؟
7۔ انسان اللہ تعالیٰ کے قانون آزمائش کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہے؟
8۔ کیا دنیا کی ناتمامی ہی انسان کے اندر یہاں رہنے کی آرزو پیدا کرتی ہے؟
موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ
ماہنامہ الشریعہ تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء
ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں
رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون
کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا
ہے۔
دینی تعلیم
۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی
مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر
پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔
۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں
بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔
۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ
اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان
کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ
طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)
برصغیر پاک و ہند تحریک اسلامی کا ارتقا: مجدد الف ثانی سے علامہ اقبال تک - پروفیسر خورشید احمد
ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م
اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔
میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔
تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔
ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار
محمد یونس قاسمی
![]() |
ڈاکٹر فضل الرحمن کے بنیادی افکار |
1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔ 1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو ان کی شاندار علمی شراکت کے اعتراف میں ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔