نکتۂ نظر و فکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نکتۂ نظر و فکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

برصغیر پاک و ہند تحریک اسلامی کا ارتقا: مجدد الف ثانی سے علامہ اقبال تک - پروفیسر خورشید احمد

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔

ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی

حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔

پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے 'حدیث' کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار

محمد یونس قاسمی

ڈاکٹر فضل الرحمن کے بنیادی افکار
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم  اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی  ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی  میں  Avecena's Psychology  پر شاندار مقالہ لکھا  جس پر انہیں  1949 میں  ڈی فل  کی ڈگری  سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان  اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک  علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل  نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک  اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور  کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔  1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو  ان کی شاندار علمی  شراکت کے اعتراف میں  ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے  اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں  کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے  ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔

کاش کہ ایسا ہو تا !!

 انیس باقر

21 جنوری 2016  روزنامہ ایکسپریس 

کاس کہ ایسا ہوتا !

مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا، ایک نہیں کئی راہداریاں بنا لیں اور یورپ کو آشتی کا گہوارہ بنا لیا، بس یونان کے ساحل پر اترنے کی دیر ہے کہ ایک راستہ سربیا، ہنگری، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی، دوسری راہداری مقدونیہ، البانیہ، کروشیا، چیکوسلواکیہ، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی اور پھر جرمنی، ہالینڈ، فرانس، نہ بندشیں، نہ روک ٹوک، نہ نسلی اور مذہبی فسادات کا ڈر، نہ لوٹ مار، نہ ٹرینیں جلائے جانے کا خوف۔ یورپ سے خوف کا ڈر 1946ء سے گزر گیا اور بہتر سے بہتر وقت آتا گیا جب کہ 1946ء سے برصغیر میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔

توہين رسالت کى سزا پرجارى مباحثہ ، چند گزارشات- ابو عمار زاہد الراشدى

ماہنامہ الشريعہ ، گوجرانوالہ
 تاريخ اشاعت ، اکتوبر 2011ء
توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے بارے میں امت میں عمومی طور پر یہ اتفاق تو پایا جاتا ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے لعین و شقی شخص کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کی فقہی اور عملی صورتوں پر فقہائے امت میں اختلاف ہر دور میں موجود رہا ہے کہ
مسلمان کہلانے والے گستاخِ رسول کو موت کی یہ سزا مستقل حد کی صورت میں دی جائے گی یا ارتداد کے جرم میں اسے یہ سزا ملے گی؟ اور اس کے لیے توبہ کی سہولت و گنجائش موجود ہے یا نہیں؟
اسی طرح غیر مسلم گستاخِ رسول کو یہ سزا تعزیر کے طور پر دی جائے گی یا اس کی فقہی نوعیت کچھ اور ہوگی؟ اور ایک ذمی کا عہد اس قبیح جرم کے ارتکاب کے بعد قائم رہ جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟

کرنسی نوٹ اور اس کا تاریخی پس منظر

 کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔

ابراهیم بن اغلب (800ء-812ء) اور عباسی
خلیفہ مامون الرشید (813ء-832ء)
کے دور کا چاندی کا درہم۔

ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔  مذہب کی طرح کرنسی بھی انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن مذہب کے برعکس کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔ مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائی ) خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔

امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد کیوں دیتا ہے ؟ اور یہ پیسے کہاں استعمال ہوتے ہیں ؟

 بی بی سی  اردو، 25 مئی 2021 

امریکہ ، اسرائیل تعلقات

امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی ہی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امداد کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس پر 'سخت نظرِثانی' کرنی چاہیے کہ یہ پیسہ کیسے استعمال ہو رہا ہے۔

تو اسرائیل کو امریکہ سے کیا ملتا ہے اور یہ پیسہ کس لیے استعمال ہوتا ہے؟

اسرائیل کے لیے امریکی امداد

سنہ 2020 میں امریکہ نے اسرائیل کو اوباما دور میں کیے گئے ایک طویل مدتی سالانہ وعدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر کی امداد دی۔ یہ امداد تقریباً مکمل طور پر عسکری مقاصد کے لیے تھی۔

سابق صدر باراک اوباما نے سنہ 2016 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو 2017 سے 2028 کے درمیان کُل 38 ارب ڈالر کی امداد دی جانی تھی۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

فرقہ احمدیہ کا مختصر جائزہ

احمدیہ جماعت 1889ء میں مرزا غلام احمد (1835ء تا 1908ء) نے لدھیانہ میں قائم کی۔ مرزا غلام احمد نے اعلان کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے امام مہدی اور مسیح اور حضرت محمدؐ کے تابع نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین کو ان کا پہلا خلیفہ المسیح منتخب کیا گیا ، 1914ء میں حکیم نور الدین کا انتقال ہوا تو پیروکاروں کا اجتماع دو گروہوں میں بٹ گیا جن میں سے ایک احمدیہ مسلم جماعت اور دوسرا احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کہلاتا ہے۔
بانی فرقہ احمدیہ ، مرزا غلام احمد قادیانی


مرزا غلام احمد نے اس تحریک کو 23 مارچ 1889 میں شروع کیا جسے احمدیہ مسلم جماعت بھی کہا جاتا ہے۔انکی وفات کے بعد ان کے خلفاء نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی اور اب یہ جماعت 200 ملکوں میں پھیل چکی ہے۔اس وقت اس جماعت کے خلیفہ کا نام مرزا مسرور احمد ہے جبکہ ان کے پیروکاروں کی تعداد ایک سے دو کروڑ کے درمیان ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

احمدیہ جماعت ایک منظم اور مربوط جماعت ہے یہی وجہ ہے کے اسکی صرف ایک ہی بڑی شاخ ہے۔مرزا غلام احمد کی نبوت کی نوعیت کے حوالےسے اختلافات کے سبب لاہوری احمدیہ جماعت اصل دھڑے سے الگ ہوئی لیکن آج یہ دھڑا ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔احمدیہ عقائد کو آغاز سے ہی اکثریتی اسلامی عقائد کے برخلاف خیال کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں احمدی حضرات مختلف پابندیوں کا بھی شکار ہیں۔بہت سے سخت گیر اسلامی گروہ اس جماعت کو کافر خیال کرتے ہیں۔

تاریخ


1882 میں مرزا غلام احمد، جن کا تعلق متحدہ ہندوستان کے گاوں قادیان سے تھا، نے دعویٰ کیا کہ انہیں بذریعہ الہام اس زمانہ کے لئے اسلام کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔23 مارچ 1889ء کو انہوں نے لدھیانہ میں بیعت لے کر ایک باقاعدہ جماعت کی داغ بیل ڈالی۔

نئی نسل سے مکالمہ - خورشید ندیم

نئی نسل سے مکالمہ خورشید ندیم 
(تاریخ اشاعت : روزنامہ دنیا  20 فروری 2020)

خیال ہوا کہ اہلِ دانش کو اس جانب متوجہ کیا جائے۔ ان کے قلم اس موضوع کے لیے رواں ہوں اور ان کی خوش گفتاری اس کام آئے مگر 'یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔ لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے نزدیک کچھ دیگر موضوعات زیادہ توجہ طلب تھے۔ کسی نے اس موضوع کو اگر اہم جانا تو وہ سجاد میر تھے۔

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

پچھلی اور اگلی نسلوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہو چکا۔ نوجوان سرفروشی کی تمنا کے ساتھ نکلے تو ان کا جس طرح استقبال ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ ان پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے اور سماج لا تعلق رہا یا پس پردہ کچھ تلاش کرتا رہا۔ اُن کے اضطراب کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو ئی۔ ان سے کوئی مکالمہ نہ ہو سکا۔ ہر نئی نسل کو پچھلی نسل سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ اس کو سمجھا نہیں گیا۔ بد قسمتی سے ہماری نسل بھی اس دستورِ زمانہ کو بدل نہیں سکی۔
میں نے حسبِ توفیق ایک کوشش کی۔ اہل دانش نے پذیرائی بخشی اور نئی نسل کے ساتھ مکالے کی ایک بھرپور نشست کا انعقاد ہو سکا۔ نوجوانوں کی اس تحریک کے روحِ رواں عمار سے کہا گیا کہ وہ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ انہوں نے نوجوانوں کی بے چینی کے اسباب بیان کیے۔ علی عثمان قاسمی بھی تھے جنہوں نے نئی کے مسائل کا عالمگیر نظریاتی پس منظر سامنے رکھا۔

پاک بھارت تعلقات ـــــــ جناب جاوید احمد غامدی کا اصولی موقف سید منظور الحسن

[پاک بھارت تعلقات میں مستقل کشیدگی کے حوالے سے بعض سوالات  کے جواب میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے ماخوذ]

سب سے پہلے اِس حقیقت کو جاننا چاہیے کہ وطن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ رشتوں سے وابستہ ہو کر زندگی بسر کرتا ہے۔ پیدایش سے لے کر زندگی کے آخری مرحلے تک وہ رشتوں ناتوں کے ساتھ اپنی خوشیاں اور اپنےغم محسوس کرتا ہے۔یہی رشتے ناتے اُس کے اندر وطن کی محبت کو جنم دیتے ہیں۔ میں ایک جگہ پیدا ہوا ، ایک فضا میں آنکھ کھولی، کسی زمین میں چلا پھرا،کسی گھر میں پلا بڑھا، کچھ گلیوں بازاروں میں کھیلا، کچھ کھیتوں کھلیانوں میں گھوما؛ میرے گردوپیش میں کچھ لوگ تھے؛ اُن میں میرے والدین تھے، چچا تایا تھے، استاد تھے، دوست احباب تھے۔ اِن سب نے مل کر میری فطرت میں ایک رشتے کا احساس پیدا کیا ہے۔ یہ وطن کی محبت کا احساس ہے۔یہ ویسا ہی فطری احساس ہے، جیسا ہم انسانی رشتوں میں محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جس طرح ہم دور دراز جگہوں پر جانے کے بعد بھی اپنے آپ کو ماں باپ ، بہن بھائیوں ، اعزہ و اقربا اور دوست احباب سے الگ نہیں کر پاتے،بالکل اُسی طرح اپنے وطن سے بھی الگ نہیں کر پاتے۔

اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت میں اِن رشتوں کی بنا پر مخاصمت اور عداوت کے جذبات ودیعت ہیں۔وہ جب کسی کے ساتھ دوستی محسوس کرتا ہے تو محبت کے جذبات میں اُس کو ایک رومانی صورت دے لیتا ہے اور پھر اُسی میں جیتا ہے اور اُسی میں مرتا ہے۔ اِن رشتوں پر جب کوئی زد پڑتی ہے تو اُس کے اندر دشمنی اور مخاصمت کے داعیات پیدا ہوتے ہیں جو بسا اوقات نفرت میں تبدیل ہو کر جھگڑے اور فساد کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ 

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج (قسط دوم ) - عرفان شہزاد

ماہنامہ اشراق ، تاریخ اشاعت : جون 2018ء 

مصارف زکوٰۃ

سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں جو لفظ ’الصَّدَقٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں عام صدقات کے علاوہ زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ یہ دراصل مملکت کا وہ تمام ریوینیو ہے جو مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے مصارف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

i۔ فقیر و مسکین

مصارف زکوٰۃ میں فقیر اور مسکین کی تعریف میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ دونوں سے مراد سماج کے حاجت مند طبقات ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی سادہ تعریف یہ ہے:

’’فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔

خدا کا وجود ، جاوید احمد غامدی

خدا کا وجود۔ جاوید احمد غامدی 
(نوٹ: یہ تقریر انگریزی زبان میں 9مئی 2009کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں کی گئی۔)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

اسلام اور قومیت - جاوید احمد غامدی

[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]
اسلام قومیت 


رنگ، نسل، زبان، تہذیب و ثقافت اور وطن کی طرح مذہب بھی قومیت کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے۔ صدیوں کے تعامل سے مسلمان اب اِسی حوالے سے ایک قوم بن چکے ہیں اور اگر کوئی چیلنج درپیش ہو تو کم سے کم برصغیر میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی اِس قومیت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اِسی بنا پر فرمایا تھا کہ یہاں کے مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں، اِس لیے کہ دوسری اقوام کے مقابل میں اُن کی تہذیب، ثقافت، زبان و ادب، علوم و فنون، رسوم و روایات، ذہن، مزاج، قانون، اخلاقی ضوابط اور اسلوب حیات، یہاں تک کہ اُن کی تقویم اور نام رکھنے کا طریقہ، سب منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ * قائد اعظم کا یہ ارشاد سراسر حقیقت اور ایک امر واقعی کا بیان تھا جس سے کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں نے بھی نہیں کیا اور ’’اسلام اور ریاست‘‘ کے زیرعنوان اپنے جوابی بیانیے میں کسی جگہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے۔


میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومیت اسلام ہے، اِس لیے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ میرے ناقدین جس بات کی تردید کر رہے ہیں، وہ میں نے کہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے، اُس کی تردید کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص چاہییں اور وہ کسی طرح میسر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک خالص دینی حکم کو ثابت کرنے کے لیے قائد اعظم کی تقریروں اور علامہ اقبال کے اشعار اور تحریک پاکستان کے واقعات پر اکتفا کر لی گئی ہے۔

خلافت - جاوید احمد غامدی

[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]
خلافت -  جاوید احمد غامدی 

اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ہرگز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ دینی اصطلاحات رازی، غزالی، ماوردی، ابن حزم اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتیں اور نہ ہر وہ لفظ جسے مسلمان کسی خاص مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیں، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے بنانے سے بنتی ہیں اور اُسی وقت قابل تسلیم ہوتی ہیں، جب اِن کا اصطلاحی مفہوم قرآن و حدیث کے نصوص یا دوسرے الہامی صحائف سے ثابت کر دیا جائے۔ صوم، صلوٰۃ اور حج و عمرہ وغیرہ اِسی لیے دینی اصطلاحات ہیں کہ اُنھیں اللہ اور اُس کے رسولوں نے یہ حیثیت دی ہے اور جگہ جگہ اُن کے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ لفظ ’خلافت‘ اِس کے برخلاف عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور نیابت، جانشینی اور حکومت و اقتدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ اِس کے لغوی مفاہیم ہیں اور قرآن و حدیث میں ہر جگہ یہ اپنے اِن لغوی مفاہیم ہی میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کی جو آیات ’خلیفہ‘ اور ’خلافت‘ کے الفاظ کو اُن کے ترجمے میں بعینہٖ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے، اُنھیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لیجیے، حقیقت اِس طرح واضح ہو جائے گی کہ آپ کے پاس بھی تبصرے کے لیے کوئی الفاظ باقی نہیں رہیں گے، جس طرح کہ میرے ناقدین میں سے ایک صاحب علم کے پاس نہیں رہے ہیں۔ میں یہاں دو جلیل القدر علما کے تراجم پیش کیے دیتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے: