اسرار خودی


اسرار خودی
آنریبل مسٹر جسٹس شیخ عبدالرحمن نے اسرار خودی کا منظوم ترجمہ ترجمان اسرار کے نام سے شائع کیا جس پر فکر اقبال کے مصنف نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا۔ اسرار خودی کے معارف پر دوبارہ اس سے بہتر مضمون لکھنا دشوار تھا اس لیے وہ دیباچہ جوں کا توں بہ اجازت و تشکر شیخ صاحب اس کتاب میں شامل کر لیا گیا۔
انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔ آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی، خدا شناسی اور خود شناسی! اقبال نے بھی جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہکار ہے جو نہ خود بیں ہے، نہ خدا بیں ہے اور نہ جہاں بیں؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریباں ہوتا ہے۔ گرد و پیش کی اشیاء اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کے لیے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کہ خود میری ماہیت کیا ہے؟ یا میں اور میرا ماحول، میری موافق اور مخالف قوتیں، کہاں سے سرزد ہوتی ہیں؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کشاکش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کے لیے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔ اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لیے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کر کے ان کو لامتناہی قوتوں کا حامل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ا پنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔ ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لیے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں متلون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خودی کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے:
مرا بر صورت خویش آفریدی
بروں از خویشتن آخر چہ دیدی؟
اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔
تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا ہویا ہوا لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا، اس لیے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گوئی کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر طالیس ملطی نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس نے زندہ اور غیر زندہ میں یعنی جمادات، نبادات اور حیوانات میں کوئی بنیادی فرق نہ سمجھا۔ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام حالتیں بھی پانی ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریہ وجود کو تاریخ فلسفہ میں بائی لوزو ازم کہتے ہیں، جس میں مادیت، نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی کا بلبلا رہ گیا۔ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔ بقول سحابی نجفی:
دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشاکش با اوست
یونانی مفکرین، ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف، جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔ انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثا غورس نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب، توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات، سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں۔ ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے الان کما کان کہہ سکتے ہیں ریاضی اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیاء اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے، لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔
یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط، افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہیے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہیے۔ جہاں تبدل اور تغیر ہے وہاں وجود محض اعتبار یا مجازی ہے اور اصلیت سے دور ہے۔ جو مفکر نفسیت یا روحیت کی طرف گئے۔ جیسے فیثا غورس یا افلاطون۔۔۔۔ وہ بھی وجود مطلق میں حرکت کے قائل نہیں تھے اور جو دیمقراطیس کی طرح مادیت کی طرف آئے، ان کو بھی اس خیال سے چھٹکارا حاصل نہ ہوا کہ کائنات کے حوادث، مادے کے اجزا سے لایتجزے یعنی ایٹموں کا جوڑ توڑ کا کھیل ہیں۔ ایٹم چونکہ تحلیل نہیں ہو سکتا اس لیے اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پرتی ہے، لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں۔ عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات از روے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیاء اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عاقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ا س کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔ ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لیے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہرہ اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت مخصوص تقدیر نہیں۔
اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔
اقبال افلاطون کے اس نظریہ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقاء اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔ اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلہ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک انائے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ انا اپنی مسلسل خلاقی میں لا تعداد انا یا نفوس مقاصد کو ش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبہ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس سے آغوش متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورت اور بلاغت سے بیان کیا ہے:
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم


موج زخود رفتہ اے تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میردم گر نہ روم نیستم
افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے، لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔
تموج کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفہ حیات یہی ہونا چاہیے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔ اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل موخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو ڈھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقہ بیرون در ہے۔ وہ آستان سے دور نہیں ہے، اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے، لیکن اس کو اگر عقل نار حیات سے الگ کر کے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ:
رخش او در ظلمت معقول گم
در کہستان وجود افگندہ سم


آنچناں افسون نا محسوس خورد
اعتبار از دست و چشم و گوش برد
اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے جس کی نفس کشی کے مرادف ہے اور اسی لیے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سرا سر حقیقت ہیں۔ نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک! اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک اور حصے پر افلاطونی رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ:
چشم بند و لب بہ بند و گوش بند
گر نہ بینی نور حق برمن بخند
اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھہرائے:
بر تخیلہاے ما فرماں رواست
جام او خواب آور و گیتی رباست


گو سفندے در لباس آدم است
حکم او بر جان صوفی محکم است
مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نا مشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کو بود کہنے لگا۔ لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط، افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین، اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر نو تعمیر کیا جائے۔
جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلان ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔ اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کے وسیع عالم فکر کا فقط ایک پہلو ہے۔ جو قارئین افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے نا آشنا ہیں ان کو اسرار خودی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسانی کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب، یعنی اشتراکیت تک، سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی افکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ لکھا تھا :
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری


اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
بعینہ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔ مشرق فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ھانرش رکٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس، لینن، مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کے آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے، خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر، افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے، اصلاح معاشرت کی کوشش سے شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اقبال نے فقط یہ دیکھا کہ افلاطونی افکار کا اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا او راس کے نظریہ وجود سے فرار عین الحیات کا نتیجہ از روئے منطق حاصل ہوتا ہے۔ جس قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قرار دیا وہ افلاطون سے کہیں زیادہ فلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے، جس کے افکار کا اسلامی فلسفہ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنی مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو، یہ کہنا نا انصافی معلوم ہوتی ہے کہ:
ذوق روئیدن ندارد دانہ اش
از طپیدن بے خبر پروانہ اش


راہب ما چارہ غیر از رم نداشت
طاقت غوغاے این عالم نداشت


دل بسوز شعلہا فسردہ بست
نقش آں دنیاے افیوں خوردہ بست
حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور نہ تندرست ملتوں کو مسموم کیا بلکہ جو قومیں مختلف اسباب سے زندگی سے محروم اور بے عملی یا بد عملی سے مسموم ہو چکی تھیں، انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔ افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریہ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان، قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلام بنا لیا تھا۔
اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداح اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے، فٹشے، برگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ رہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ حاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سے کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے، میں اس کے متعلق اپنے مقالے نطشے رومی اور اقبال (مطبوعہ انجمن ترقی اردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریہ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی ان میں سے کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم صفیر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفہ حیات کے مطابق تھا اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔ اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا مذہبی صحیفہ ہو، اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں وہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں، پہلی تعلیموں کے بیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفرین انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن مہندس اور معمار کا کمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زیبائش پیدا کر دیتا ہے۔ گوئٹے نے ایکٹرمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا کہ ’’ لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور الگ الگ عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوۂ تحقیق ہوتا ہے، لیکن کیا اس سے ایک بڑے فنکار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص ایج کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے، اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی۔ ان سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آ گئی۔‘‘
اسرار خودی میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ان مفکرین مغرب کے افکار کا پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہیں اور جن کے افکار کے کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریہ حیات کا موید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ دار بھی خودی ہے، وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔ عالم ادراک اور عالم آب و گل یا تصوف کی زبان میں یوں کہیے کہ ماسوا کا وجود، خدا کی خودی سے سرزد ہوا ہے خودی کا اثبات نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ خودی اپنا غیر پیدا نہ کرتی۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقاء ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کے لیے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور دوسرے لحاظ سے خودی ہی کا مظہر ہے:
صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او
غیر او پیدا ست از اثبات او


در جہاں تخم خصومت کاشت است
خویشتن را غیر خود پنداشت است


سازش از خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح کی خودی کی خود فریبی ہے۔ اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے، جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدۂ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے، لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقاء کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا الان کما کان بھی ہے اور کل یوم ھو فی شان بھی اقبال نے خدا کا لا تبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقاء اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیاء کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے اپنے اثبات اور ارتقاء کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقاء میں لا تعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آ کر نابود ہو گئے ہوں گے، پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آ سکے۔ حیات و کائنات میں جو درد و کرب، جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے، اقبال کا نظریہ خودی اس کی ایک توجیہہ ہے:
عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی
خلق و تکمیل جمال معنوی
صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلاف کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے، اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے۔ ہم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلافات کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے۔ا قبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔ ہستی مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ ماسوا اس کے اظہار ذات کے لیے ضروری ہے لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھ نہیں، اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے۔و رنہ اصلیت یہ ہے کہ:
می شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل


خیزد، انگیزد، پرد، تابد، رمد
سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد
بظاہر یہ انداز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آ کر گاتا ہے کہ:
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ
خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد
بشکست و رواں شد
اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لا تعداد انا یا ایغو یا خودی کے مراکز خلق کیے ہیں یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق (میں ایک خزینہ پنہاں تھا میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جاؤں اس لیے میں نے خلقت کو خلق کیا):
وانمودن خویش را خوے خودی است
خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است
خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ جو قطرۂ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرۂ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے، لیکن جو قطرہ صدف نشین ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر لیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے۔ جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منشتر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، اس لیے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔
اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں، ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسلیم و رضا کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوؤں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے مدعا ہوتا جائے اتنا ہی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ:
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
یہ خیال ہندو مت اور بدھ مت کی الٰہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔ بھگوت گیتا میں ارجنا کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے:
من از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام
تہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام
(ترجمہ: فیضی)
اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی ’’ تخلقو باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی تخلیق مقاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہیے۔ اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا ہے کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیداوار ہے، حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نصیحت کرتا ہے:
پس بیفزا حاجت اے محتاج زود
اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً:
زندگانی را بقا از مدعا است
کاروانش را درا از مدعا است
زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور مین ہیں۔ فلسفہ جدید میں ارتقاء کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگسان کا نظریہ ارتقاء تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضاء سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمنائیں اعضا و آلات میں صورت پذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانیکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔ اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے۔ ذوق رفتار نے پاؤں بنائے اور ذوق نوائے منفقار
اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں۔ یہ صوفیہ اور بعض حکماء کا قدیم مضمون ہے، لیکن اس مسئلے پر اقبال کے ہاں جس قدر بصیرت اور قدرت پائی جاتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔ یہ اس کا خاص مضمون بن گیا اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام میں حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوئے ارتقاء اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے، عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم، سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفہ وحی آسمانی ہو یا صحفہ فطرت، اس کے علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عشق ام الکتاب ہے۔ اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیوانیہ یا شعوری و ادراک یہ سب زندگی نے اپنی بقا کے لیے آلات بنائے ہیں۔ علوم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں:
علم و فن از پیش خیزان حیات
علم و فن از خانہ زادان حیات
انسان کا کام صحیفہ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ ماسوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑھاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کر کے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے، جو کہتا ہے:
بزیر گنگرۂ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں۔ ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق۔ا گرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کس ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔ خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عشق خودی کی ماہیت ہے اور اپنی ذات سے باہر کسی محبوب کا گرویدہ ہونا نہیں ہے۔ خودی ارتقاء طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقاء سے عشق ہے۔
ہست معشوقے نہاں اندر دلت
چشم اگر داری بیا بنمایمت


عاشقان او ز خوبان خوب تر
خوشتر و زیبا تر و محبوب تر
ہاں ایک طریق خودی کی استواری کا جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے، یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے اور اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔ ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیاء کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیاء خود احرار ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کر ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان حر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا۔ قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیاء سے قلبی تعلق پیدا کر کے کائنات کی خودی وحدت کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسروں سے محبت کرتا اور دوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے۔ اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قوی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔
خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم کہاں سے پیدا ہوئی اور کن اسباب سے وہ بعض اقوام پر چھا گئی۔ اس تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں، ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔ زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکالتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فکر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے۔ کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اس نقطہ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھر پور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبورت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے، نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی:
جنت از بہر ضعیفان است و بس
قوت از اسباب خسران است و بس


جستجوئے عظمت و سطوت شر است
تنگدستی از امارت خوشتر است
یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام کی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کے لیے یہ آلات وضع کرتی ہے۔ اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطونی نظریات کو، ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض عجمی گروہوں نے اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد، اس کی بیخ کنی کے لیے نہایت پوشیدہ اور لطیف ذرائع اختیار کیے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کئے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے میں۔ متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ایسی ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے، جنہوں نے مسلمانوں کو زندگی کی جدوجہد سے باز رکھا۔ قناعت پرستی، لذت پرستی، سکون پرستی، قطع علائق، انسان کو خود داری سے محروم کرنے والے تصورات عشق، ہوس پرستی، مصنوعی محبت، ادبیات کا تار و پود بن گئے۔ ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا معلول بھی کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمناؤں کا آئینہد ار ہوتا ہے۔ جب قوم پست ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا عاشق خود دار کی بجائے ’’ آوارہ مجنو نے رسوا سر بازارے‘‘ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی اور اردو کا عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کے روز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے لیکن ہمارے شعراء کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس کی تنقید زیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدید حملہ کر دیا کہ ا س کا کلام مسلمانوں کے لیے افیون کا کام کرتا ہے۔
مار گلزارے کہ دارو زہر ناب
صید را اول ہمی آرد بخواب
مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب معنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردہ دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمتہ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کے لیے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔ اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویہ نگاہ کے مشابہ ہے، جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی، اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔ اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔ اس میں صحرا کی گرمی اور باد صر صر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علم برائے علم ایک لا یعنی شغل ہے اسی طرح فن برائے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے۔
اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار و رزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کر کے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین سے سرگردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرزا غالب:
گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ
ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگان شو
اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکوز کرنے سے کونوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔
اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کا تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک، ذرہ و خورشید، سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمہ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے اس کی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ، انبیاء اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا، جزو و کل سے آگاہ کرتا ہوا، قائم بامر اللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یا خلیفتہ اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔ اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کے لیے بیتاں ہوں گے:
فطرتش معمور و می خواہد نمود
عالمے دیگر بیارد در وجود

صد جہاں مثل جہان جزو و کل
روید از کشت خیال او چو گل
ایک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الٰہی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آ کر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں:
از قم او خیزد اندر گور تن
مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن

 ذات او توجیہہ ذات عالم است
از جلال او نجات عالم است

 جلوہ ہا خیزد ز نقش پاے او
صد کلیم آوارۂ سیناے او
ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ’’ مارمیت‘‘ کی آیت کے علاوہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اخلاق الٰہیہ اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرے۔ اخلاق الٰہیہ صفات الٰہیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مشد رومی نے ایک تشبیہہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر نمن آتشم کہ اٹھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ پر کاملاً عمل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا۔ وہ شکوہ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا، بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کر کے ’’ فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ کے لیے بھی آمادہ ہوتا ہے:
گر نہ سازد با مزاج او جہاں
می شود جنگ آزما با آسماں


بر کند بنیاد موجودات را
می دبد ترکیب نو ذرات را


گردش ایام را برہم زند
چرخ نیلی فام را برہم زند
مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ، نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم اس کے اقدار حیات کو پلٹ کرانسان کو راضی بہ تذلل اور مائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبیا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔ زندگی سرا سر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعیف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے، جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کے لیے ایجاد کی ہے۔ رحمان و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو منسوخ کر کے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تماما قدار حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیغ بے دریغ ہو گا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا۔بلکہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے ممکنات کو معرض شہود میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا مشکل پسند ہو گا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔ نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو اپنی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت یہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو، جس کے دین میں قوت کے سوا اور کوئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے، تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خوری کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔
اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور نفی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال او نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں میں افکار کے ایک پہلو کی ظاہری مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی تھی۔ منصور نے بھی انالحق کہا اور فرعون نے بھی انا الحق کہا۔ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولانا روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کر کے ان کو مثنوی کا فاتحتہ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرو شہر
کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست


زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم دستانم آرزوست


گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنگہ یافت می نشود آنم آرزوست
الفاظ کی ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔ ایک انسان کو الوہیت کا دامن چھونے کے لیے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلیٰ تر نوع حیوان وجود میں آ سکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گامزن کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی، لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ :
طبع مسلم از محبت قاہر است
مسلم ار عاشق نباشد کافر است


در رضائش مرضی حق گم شود
ایں سخن کے باور مردم شود
اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت اہمیت دی ہے ۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکتہ الآراء موضوع رہا ہے۔ عامتہ الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سر گردان رہتے ہیں کہ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیاء و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے، نہ کوئی شخص، نہ کوئی فعل اور نہ کوئی حادثہ۔ سب کچھ وقت میں واقع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔ فلسفیوں کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا اگر یہ خود مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ بھی وقت تھا۔
قرآں کریم کے الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کا خلق کیا، لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز اور ایام کا جو تصور ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردش مقرر ہونے سے قبل ایام کے کچھ معنی نہیں ہو سکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا اور مرد حکیم بھی۔ یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مضطرب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلہ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کے لیے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدمے میں اس کے چند اہم پہلوؤں کو واضح کرنا بھی نا ممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دورنگی عینک لگاکر انسان کا فہم آفاق کے مظاہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتباری ہے ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان بالفاظ اقبال نہ ہے زمان نہ مکان لا الٰہ الا اللہ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی قسم کا تھا چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطعے میں فرماتے ہیں کہ:
جہان ما کہ پایانے نہ دارد
چو ماہی در یم ایام غرق است
یہ ہماری نا پیدا کنار دنیا، یہ لامتناہی عالم، مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہا ہے، لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ یم ایام دریگ جام غرق است وقت کا یہ دریائے بے پایاں نفس کے کوڑے میں سمایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود اور عین خودی سمجھتا ہے، لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقاء کا نام ہے۔ یہ نظریہ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دلنشین انداز میں اپنے نظریہ حیات کا اہم جزو بنایا۔ اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصویر قائم کر چکا تھا اور انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا، کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔ برگساں کے زور و فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور گہرائی پیدا کر دی لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔
اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھبا نہیں لگتا۔ ایسا بار ہا ہوا کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات، فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار، ایک ہی زمانے میں، ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں سے ابھرے۔ اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے۔ کون موجد ہے اور کون نقال، لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔
شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض منظوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لیے ’’ الوقت سیف‘‘ کا عنوان قائم کر کے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر، سمجھنے والوں اور شارحوں کے لیے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ زمان یا دہر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے:’’ لا تسبو الدھر ھرفانی انا الدھر‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے تھے کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلہ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر چھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبریز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بناء پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔ غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دہر خلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کار فرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجہ خیبر گیر میں اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں، نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیا س کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ ایک لامتناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔ نافہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں، اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکانی انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے:
تو کہ از اصل زماں اگہ نہ
از حیات جاوداں اگہ نہ
زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔ گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے۔ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ لیل و نہار کا شکار غلام ہو جاتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔
اقبال مسئلہ زمان کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حر کی تمیز کا معیار رہی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنیر سے پاپجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر، تسخیر مسلسل اور خلاقی کاشغل رکھتی ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے ابد تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے:
عبد را ایام زنجیر است و بس
بر لب او حرف تقدیر است و بس


ہمت حر با قضا گردد مشیر
حادثات از دست او صورت پذیر
جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد جو زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو:
یاد ایامیکہ سیف روزگار

با توانا دستی ما بود یار