کامیاب انسان کی عادات

1. طبعی عادات

ورزش کرنا ، کھانا پینا ، تناو پر قابو پانا ۔

2. سماجی / جذباتی عادات

خدمت / دوسرے کی طرح سوچنا/ اتحاد عمل / اندرونی تحفظ ۔

3- ذہنی عادات

پڑھنا ، تصور کرنا ، پلاننگ کرنا ، لکھنا ۔

4- روحانی عادات

اپنی اقدار کو سمجھنا اور ان پر قائم رہنا ، پڑھنا اور عبادت کرنا ۔




دنیا کے چند مشہور کامیاب انسانوں کی باتیں

معروف ماہر نفسیات سٹیفن آر۔ کووے کا کہنا ہے کہ انسان کی فطرت کے کچھ حصے ایسے ہیں کہ جن تک قانون یا تعلیم کے ذریعے نہیں پہنچا جاسکتا ۔ ان سے نپٹنے کے لیے اللہ کی قدرت درکار ہوتی ہے۔ جس قدر ہم فطرت کے قریب ہوکر زندگی گزار تے ہیں اسی قدر آفاقی رحمتیں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ اور ہمیں ہماری تخلیق کے مقصد اور منزل کے قریب کردیتی ہیں ۔

اصول در اصل قدرتی قوانین ہیں اور اللہ تعالی جو کہ ہم سب کی تخلیق کرنے والا ہے ۔ ان قوانین کا منبع ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے دلوں کا مالک بھی ہے ۔ لوگ جس قدر اس روحانی تجربہ کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اتنا ہی وہ اپنی فطرت کی نشو نما کرسکیں گے اور جس قدر اس تجربہ سے دور ہوں گے اتنا ہی وہ جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کریں گے ۔

ٹیل ہارڈ ڈی چارڈن نے کہاتھا " ایسا نہیں کہ ہم انسان ہیں اور روحانی تجربہ کررہے ہیں بلکہ ایسا ہے کہ ہم روحانی لوگ ہیں اور انسانی تجربہ کررہے ہیں "

بروس بارٹن نے کہاتھا " بسا اوقات جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ کائنات کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیا کیا زبردست نتائج برآمد ہوتے ہیں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ اس کائنا ت میں کوئی بھی چیز چھوٹی چیز نہیں ہے ۔"

معروف ادیب و شاعر ٹی ۔ایس ۔ ایلیٹ نے کہا تھا " ہمیں جستجو روکنی نہیں چاہیے ۔ تلاش کے آ خر پر ہم اس سفر کے آٖغاز پر ہی پہنچ جائیں گے اور ہمیں یوں لگے گا کہ جیسے اس جگہ پر ہم پہلی مرتبہ آئے ہوں "

جارج برنارڈ شا نے کہا تھا " زندگی کا حقیقی مزہ اس بات میں ہے کہ ایسے مقصد کے لیے گزاری جائے جسے آپ اپنی نظر میں اعلی سمجھتے ہوں ۔ بجائے چھوٹی چھوٹی خود غرض تکلیفوں اور غموں کے بارے میں شکایات کرنے کے اور اس بات پر ناراض رہنے کے کہ دنیا نے مجھے خوش رکھنے کے لیے اپنے سارے کام کیوں نہیں چھوڑے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کی ایک طاقت بن جائیں ۔ میرا خیال ہے کہ میری زندگی میرے گرد تمام مخلوق سے متعلق ہے اور جب تک میں زندہ ہوں میرے لیے یہ خوش قسمتی کی بات ہوگی ۔ اس کے لیے میں تمام وہ کچھ کرتا رہوں جو میرے اختیار میں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو میں مکمل طور پر استعمال میں لا یا جاچکاہوں ۔ کیونکہ جتنا محنت سے میں کام کروں گا اتنا ہی زیادہ میں زندہ رہوں گا ۔ میں زندگی کو اس کی اپنی خاطر بہت چاہتا ہوں ۔ زندگی میرے لیے کوئی مختصر شمع نہیں ہے بلکہ یہ میرے لیے ایک زبردست قسم کی مشعل ہے جسے مجھے کچھ عرصے کے لیے تھامنے کا موقع ملا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس عرصے میں یہ اس قدر روشن ہو جائے کہ جتنی یہ ہوسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسے میں اگلی نسلوں کو تھما دوں "

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

 بی بی سی اردو 
۱۴ جنوری ۲۰۲۴

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدرت کے راز جاننے سے زیادہ دلچسپ ہیں اور ان کے بارے میں جاننا صرف ذہین لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہ لطف ہے جو ہر کسی کو میسر ہے۔

اس وقت کے بارے میں سوچے جب آپ نے کسی پہیلی کا جواب تلاش کر لیا ہوں کیونکہ اکثر ایسی کسی پہیلی کے جواب کی تلاش میں لوگ بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ایسے ہی آج سائنسی تحقیق نے جہاں بے پناہ ترقی کر لی ہے لیکن اب بھی چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔

ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔

لہٰذا سائیکل کس طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات کا ایک وسیع سمندر ہے۔

یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔

لیکن قدرت کے ان ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک کسوٹی بنے رہے ہیں۔

 

1.    کائنات کس چیز سے بنی ہے؟

 

کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بہ پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟

بی بی سی اردو   4 دسمبر 2023


سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور جوابی کارروائی کے طور پر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے نے ایک طرف تباہی اور موت کی کہانیوں کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب دنیا بھر میں دونوں اطراف کے حق میں یا صرف خطے میں امن کے قیام کے لیے مظاہرے بھی شروع ہوئے۔


فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد، چاہے وہ عرب ہوں یا نہ ہوں، کو روایتی کوفیہ پہنچے دیکھا گیا۔ کسی نے اسے سر پر اوڑھا تو کسی نے گردن میں کوفیہ ڈال کر فلسطین کی حمایت کا اظہار کیا۔

کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔

کچھ لوگ اسے فلسطین کا ’غیر سرکاری پرچم‘ بھی کہتے ہیں۔

لیکن اس مخصوص کپڑے کی کہانی کیا ہے اور اس کی علامتی حیثیت اور اہمیت کی کہانی کیا ہے؟

کوفیہ کا آغاز


چند مورخین کے مطابق کوفیہ کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ سے ہوئی اور اسی کی وجہ سے کوفیہ کا نام پڑا۔ ایک اور وضاحت کے مطابق کوفیہ اسلام سے پہلے ہی وجود رکھتا تھا۔

سچ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن ابتدا میں اس کی وجوہات سیاسی یا ثقافتی نہیں تھیں۔

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے
 رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ۲۲ نومبر ۲۰۲۳

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں گے۔

ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔

نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔

پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔

اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔

نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟

یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی بی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔

نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟


آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔

معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا: