پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ – موجودہ چیلنجز اور روشن مستقبل

 "پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ" کے عنوان سے  یہ ایک فرضی مکالمہ  کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کے بحران اور ترقی کے امکانات پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔

اسٹیج سیٹ اپ
(ایک پروقار اور علمی ماحول۔ اسٹیج پر پانچ نمایاں نشستیں، جن پر پاکستان کے نامور دانشور بیٹھے ہیں۔ ایک مرکزی نشست پر میزبان موجود ہے، جس کے ہاتھ میں سوالات کی فہرست اور ایک قلم ہے۔ پس منظر میں پاکستان کا ایک جدید اور ترقی یافتہ ورژن دکھایا جا رہا ہے، جو اس مکالمے کی روح کی عکاسی کر رہا ہے۔)

🎤 میزبان (محمد زید):
السلام علیکم، معزز ناظرین! میں ہوں آپ کا میزبان محمد زید، اور آج ہم ایک نہایت اہم موضوع پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں— "پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ"۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمیں ایک طرف معاشی بحران کا سامنا ہے، دوسری طرف تعلیم و سائنس میں پسماندگی، سماجی انتشار اور عالمی تنہائی ہمارے سامنے بڑے چیلنجز کی صورت میں موجود ہیں۔ کیا ہم ان چیلنجز سے نکل سکتے ہیں؟ کیا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے؟
یہ جاننے کے لیے، آج ہمارے ساتھ پانچ ایسی شخصیات موجود ہیں، جو پاکستان کے سب سے بڑے دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں:

قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹیں اور ان کا حل

 پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے سنگین مسئلہ قومی یکجہتی کا فقدان ہے۔ ہمارا ملک مذہبی، سیاسی اور صوبائی اختلافات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ یہ اختلافات نہ صرف ریاستی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ عوام میں نفرت، بے چینی اور عدم برداشت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، ہمارے حکمران، علماء اور دانشور ان اختلافات کو ختم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ان اختلافات کو کم کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ موجود نہیں؟

یہ سوال ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ آئیے، ذرا ان اختلافات کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

مذہبی اختلافات: اتحاد کی جگہ افتراق

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن یہاں اسلام کے نام پر ہی سب سے زیادہ فرقہ واریت پھیلائی گئی۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے کی روش عام ہو چکی ہے، اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کا بیج بویا جا چکا ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی نے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے امیج کو متاثر کیا۔

حل کیا ہے؟

  • فرقہ وارانہ بیانیے کے بجائے علماء کو مشترکہ نکات پر زور دینا ہوگا۔
  • مدارس میں ایسا نصاب متعارف کروایا جائے جو رواداری اور برداشت کو فروغ دے۔
  • فرقہ واریت پر مبنی تقاریر اور فتووں پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

سید ابوالاعلٰی صاحب مودودی کی تقریر- سابقہ مشرقی پاکستان میں ۱۹۶۳ ء


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 03


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 01


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 02


 

اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ ۔ جاوید احمد غامدی

 اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اِس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ اِس کو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں دلائل کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اِس کی تفصیلات کے لیے تو ہماری اِس کتاب ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن اِس کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اُس کا ایک خلاصہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:

۱۔ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اُسی کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، اُس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اِسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اُنھوں نے اِس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور اُن میں بسنے والے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو اِسی حیثیت سے کر سکتے ہیں۔

قاید اعظم محمد علی جناح ، تقریر ۔ 3 جون 1947 ء


 

ذو الفقار علی بھٹو : شخصیت | بیانیہ | اثرات (حصہ پنجم ) ۔ جاوید احمد غامدی


 

مزید سننے کے لئے دیکھیں !

ذو الفقار علی بھٹو : شخصیت | بیانیہ | اثرات ( حصہ چہارم ) ۔ جاوید احمد غامدی

ذو الفقار علی بھٹو : شخصیت | بیانیہ | اثرات (حصہ سوم ) ۔ جاوید احمد غامدی


 

ذو الفقار علی بھٹو : شخصیت | بیانیہ | اثرات (حصہ دوم) ۔ جاوید احمد غامدی


 

ذو الفقار علی بھٹو : شخصیت | بیانیہ | اثرات ( حصہ اول ) ۔ جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى