" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
قرارداد مقاصد: وہ ’مقدس‘ دستاویز جو ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنے کا باعث بنی
فاروق عادل
مصنف، کالم نگار
قرار داد مقاصد کا انگریزی متن |
وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا
پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’تقدس‘ کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:
'ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے'۔
یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔
آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔
سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:
'قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں'۔
روس یوکرین جنگ : پاکستان کا موقف
تاریخ اشاعت : 1 مارچ 2022ء : بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ : پاکستان کا موقف |
گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔
اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔
جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی سے کہا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔
پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی 'سیاسی دھڑے' کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔
دھڑوں کی سیاست سے ’نیوٹرل‘ ہونے تک
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔ 'اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔
پاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئے
اپنے وجود میں آنے کے ٹھیک 22 برس بعد یعنی 1969 میں پاکستان ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی نظریاتی منزل کیا ہو گی؟
- اسلامی سوشلزم یا سوشلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی)
- نیشنلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی عوامی لیگ)
- مسلم لیگ کے مختلف گروہ جن کا نعرہ ’اسلام‘ تھا
- اسلام کی علم بردار جماعت جمیعت علمائے اسلام۔ (دینی جماعتوں کے ایک طبقے کا الزام تھا کہ یہ جماعت سوشلزم کو قابل قبول قرار دے کر بائیں بازو کی جماعتوں کی دست و بازو بن چکی ہے)
- اسلامی نظام کی حامی اور سوشلزم کی مخالف جماعتیں (یعنی جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائے اسلام)
پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ
قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی
قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی |
اسلامی مملکت کی خصوصیات، علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ
1970ء اور 2018 ء کے انتخابات اور دینی جماعتوں کی حیرت انگیز ناکامی
اسلام اور ریاست - مفتی تقی عثمانی
سن 1973ء کادستور جوآج بھی نافذ ہے‘ اس وقت کے تمام سیاسی اور دینی حلقوں کے اتفاق سے منظور ہوا‘اور اس پر بفضلہ تعالیٰ آج بھی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور اس کا مکمل تحفظ چاہتی ہیں جس کا مظاہرہ ا وراس کی مزید تاکید حال ہی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تاریخی اتفاق سے دوبارہ ہوگئی ہے‘اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس دستور کی بنیادی روح کالازمی حصہ قرار دیاہے۔