پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى


 

قرارداد مقاصد: وہ ’مقدس‘ دستاویز جو ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنے کا باعث بنی

فاروق عادل

مصنف، کالم نگار

قرار داد مقاصد کا انگریزی متن 
بی بی سی اردو ، 12 مارچ 2022 ء 

وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا

پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’تقدس‘ کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:

'ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے'۔

یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔

آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔

سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:

'قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں'۔

روس یوکرین جنگ : پاکستان کا موقف

تاریخ اشاعت : 1 مارچ 2022ء : بی بی سی اردو کے مطابق  پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ : پاکستان کا موقف

گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔

اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔

جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔

کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی سے کہا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔

پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی 'سیاسی دھڑے' کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔

پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔

دھڑوں کی سیاست سے ’نیوٹرل‘ ہونے تک

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔  'اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ 

پاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئے

فاروق عادل مصنف، کالم نگار

اپنے وجود میں آنے کے ٹھیک 22 برس بعد یعنی 1969 میں پاکستان ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی نظریاتی منزل کیا ہو گی؟

مختلف پس منظر رکھنے والے لوگوں نے اس سوال کا مختلف جواب دیا۔ یہ جواب کیا رہے ہوں گے، انھیں سمجھنے کے لیے اس زمانے کی سیاسی صف بندی کو سمجھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں علمائے دیو بند کی ایک ممتاز شخصیت مولانا عبید اللہ انور کی سوانح سے اس تقسیم کی خبر ملتی ہے۔

’مولانا عبید اللہ انور: شخصیت اور جدوجہد‘ نامی کتاب میں مصنف امجد علی شاکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سیاست اس وقت پانچ سیاسی دھاروں میں بہہ رہی تھی۔

  • اسلامی سوشلزم یا سوشلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی)
  • نیشنلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی عوامی لیگ)
  • مسلم لیگ کے مختلف گروہ جن کا نعرہ ’اسلام‘ تھا
  • اسلام کی علم بردار جماعت جمیعت علمائے اسلام۔ (دینی جماعتوں کے ایک طبقے کا الزام تھا کہ یہ جماعت سوشلزم کو قابل قبول قرار دے کر بائیں بازو کی جماعتوں کی دست و بازو بن چکی ہے)
  • اسلامی نظام کی حامی اور سوشلزم کی مخالف جماعتیں (یعنی جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائے اسلام)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہ تقسیم کس طرح عمل میں آئی ہو گی، اس کے پس منظر میں مقامی حالات کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ


ممتاز مؤرخ اور پاکستان سٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں بائیں بازو کے رجحانات اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے سے پائے جاتے تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور یہ تمام عناصر اس تازہ لہر میں بہہ کر اس نئی جماعت کے دست و بازو بن گئے۔

اس نئی جماعت نے اپنے چار نکاتی نصب العین میں سوشلزم کو بطور معاشی نظام اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ یوں اس نعرے نے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے نظریاتی تالاب میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک یہ نعرہ پاکستان جیسے ملک میں نظریاتی انحراف کا درجہ رکھتا تھا۔

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی 
(حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ )

اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
 اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
 سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

اسلامی مملکت کی خصوصیات، علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ

اسلام اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کا راستہ

’’اسلام‘‘حق تعالیٰ کی وہ آخری نعمت ہے جس سے دنیا کو سرفراز کیا گیا ہے۔ اس نعمتِ اسلام سے صحیح اور کامل فائدہ اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب صحیح اسلامی حکومت دنیا میں قائم ہو اور اسلام کے احکام وقوانین جاری کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی سرپرستی حاصل ہو۔ عہدِنبوت میں بھی جب مدینہ طیبہ اسلامی مرکز بن گیا اور دارالاسلام وجود میں آگیا تب جا کر دینِ اسلام کی برکات کا ظہور ہونا شروع ہوا۔ غرض اسلام اور حکومتِ اسلام کا تعلق چولی دامن کا سا تعلق ہے، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا۔ حکومتِ اسلامی ہی وہ عظیم الشان سر چشمۂ برکات ہے جس کی بدولت اسلام پر صحیح عمل کی توفیق میسر آتی ہے۔ حکومتِ اسلامی کے قیام کے بعد مسلمانوں کی جان ومال وآبرو کی حفاظت ہوجاتی ہے اور قلب کو سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی حدودو تعزیرات کے نافذ ہوجانے کے بعد پرسکون ماحول میسر آجاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا حقیقی بیت المال قائم ہوجاتا ہے، جس کی بدولت کوئی یتیم‘ لاوارث، کوئی بیوہ، کوئی مسکین، کوئی فقیر‘ پریشان حال نہیں رہ سکتا، ان کی ہر قسم کی پریشانیوں اور تہی دستی وافلاس کا علاج ہوجاتا ہے۔ صحیح زکاۃ، صحیح عشرو خراج ادا کرنے کے بعد زمین کی پیداوار میں فوق العادۃ برکت ہونے لگتی ہے اور اس کے نتیجہ میں حقیقی اسلامی ہمدردی سے جمع شدہ اموال خرچ کرنے کی بنا پر مزید برکت نازل ہوتی ہے۔

1970ء اور 2018 ء کے انتخابات اور دینی جماعتوں کی حیرت انگیز ناکامی

(1970ء کے انتخاب میں دینی جماعتوں کو حیرت انگیز ناکامی ہوئی تھی ، اس پر دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ، عظیم سیاست دان اور صحافی شورش کاشمیری ؒ کا دل بھی نہایت زخمی ہواتھا، اب 2018ء کے انتخاب میں بھی دینی جماعتوں کی بری طرح ناکامی نے ہمارے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں اور دانشورں کے دل زخمی کردیے ہیں ۔ اسی تناظر میں شورش کاشمیری اور سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے احساسات قارئین کی نذر کرتا ہوں ، شورش کاشمیری اپنے خط کے بارے میں لکھتے ہیں۔)


" 17دسمبر 1970ء کو احقر نے ذیل کا خط مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے نام لکھا، مولانا نے اگلے ہی روز 18 دسمبر کو جواب مرحمت فرمایا ۔ راقم نے ذیل کا خط لکھا تھا ۔ " 


(لاہور) 


17 سمبر 1970ء


مخدومی مولانا ، سلام و مسنون ۔


نتائج کے بعد دماغ میں سوالات کا ایک ہجوم ہے ، ابھی خود انہیں چھانٹ رہاہوں جو بچ رہے ، عرض کروں گا ۔ ہم نئی پود سے غافل تھے ۔ نتیجتا اس نے ہمیں مسترد کردیا ؟ اور اگر صورتحال کا ہم ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کرسکے تو اب اس ویرانے میں کہاں تک اذان دے سکتے ہیں ؟ فی الحال ایک ہی خلش ہے اور یہ خلش میرے دماغ میں بہت دنوں سے ہے ، میں نے ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے ، تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اس کے داعی باقی نہ رہے تو ان کی سرگزشت قلم نےنے محفوظ کر لی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنادیا ۔ کیا ہم اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کے لیے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے ، اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب ونسب اندھیروں سے ملتا ہے ۔ والسلام 

اسلام اور ریاست - مفتی تقی عثمانی

غیرمنقسم ہندوستان میں قائداعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جو تحریک چلی‘اس کی بنیاد مسلم قومیت کے نظریے پرتھی‘ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں جو تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے حق میں تھے‘ قائداعظم نے پورے زوروشور اور دلائل کی روشنی میں یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک مسلم اور دوسری غیرمسلم‘مسلمان رہنمائوں‘اہل فکر اورعلمائے کرام نے اس کی بھرپورتائید کی اور میرے بچپن میں ’’پاکستان کامطلب کیا؟ لا الہ الااللہ‘‘ کی جو صدائیں گونجتی تھیں‘ان کی دلکش یاد آج بھی کانوں میں محفوظ ہے۔

 آخرکار مسلم اکثریت نے قائداعظم کی اس پکار پر لبیک کہا‘ اور ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد ہمالیہ کے دامن میں ارض پاک ایک حقیقت بن کر ابھری‘نظریہ پاکستان کی بنیاد تو واضح تھی لیکن ایک چھوٹا ساحلقہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے دستور پاکستان کیلئے وہ قرارداد مقاصد بااتفاق منظور کی جس نے ملک کا رخ واضح طور پر متعین کردیاکہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے‘اور عوام کے منتخب نمائندے اپنے اختیارات قرآن وسنت کی حدود میں رہ کر استعمال کرسکیں گے‘اور یہ قرارداد 1954‘1956‘1962 اور1973 کے تمام دستوری مسودوں کاالفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ لازمی جز بنی رہی‘ اور آج بھی وہ ہمارے دستور کی وہ دستاویز ہے جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں چوتھائی صدی تک بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں میں بھی اورباہر بھی اس پر کھلے دل سے بحث ومباحثہ بھی ہوا‘اور بالآخر اس پر پورے ملک کااتفاق ہوگیا پھر اس کی بنیاد پر دستور کی تشکیل کا مرحلہ آیا تویہ دفعہ بھی تمام مسودات دستور میں کسی قابل ذکر اختلاف کے بغیر موجود رہی کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایاجاسکے گا اور موجودہ قوانین کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے گا.

 سن 1973ء کادستور جوآج بھی نافذ ہے‘ اس وقت کے تمام سیاسی اور دینی حلقوں کے اتفاق سے منظور ہوا‘اور اس پر بفضلہ تعالیٰ آج بھی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور اس کا مکمل تحفظ چاہتی ہیں جس کا مظاہرہ ا وراس کی مزید تاکید حال ہی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تاریخی اتفاق سے دوبارہ ہوگئی ہے‘اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس دستور کی بنیادی روح کالازمی حصہ قرار دیاہے۔

1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر



مضمون نگار : منظورالحسن  ماہنامہ اشراق  ، تاریخ اشاعت : ستمبر 2003ء  ، مضمون کا اصل عنوان : استحکام پاکستان 

1947ء میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کرۂ ارض پر ایک ایسی سلطنت قائم کر رہے ہیں جہاں اسلام اپنے پورے فلسفے اور قانون کے ساتھ نافذالعمل ہوگا۔ چشم عالم ایک مرتبہ پھر اس عدل اجتماعی کا نظارہ کرے گی جو چودہ صدیاں پہلے خلافت راشدہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے مرکزی ادارے کا کردار ادا کرے گا اور غیر مسلم دنیا کے لیے اسلام کی مشہوددعوت قرار پائے گا۔ اس کے حدودمیں مسلمانوں کی ترقی کی راہیں کسی دوسری قوم کے تعصب سے مسدود نہیں ہوں گی۔ وہ باہم متحد ہو کر اسے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنا دیں گے اور دیگر مسلمانان عالم کے لیے سہارے اور تعاون کا باعث ہوں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے رہے ہیں جو دور جدید میں فلاحی ریاست کے تمام تر تصورات کی آئینہ دار ہو گی۔ جہاں تفریق وامتیاز کے بغیر شہریوں کو ان کے حقوق میسر ہوں گے اور لوگ یکساں طور پر تعلیم، روزگار، صحت اور امن عامہ کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہمارا تصور تھا کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں لارہے ہیں جس کا نظم سیاسی جمہوری اقدار پر مبنی ہوگا۔ اس کے عوام اپنا اجتماعی نظام خود تشکیل دیں گے اور انھیں اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے حکمرانوں کے تقرر وتنزل کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔

پارلیمنٹ کی بالادستی

جاوید احمد غامدی 

ماہنامہ اشراق ، 
تاریخ اشاعت،  جولائی 2018ء 

[’’اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]

اسلام اور جمہوریت، دونوں کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے سامنے عملاً سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ اِس کے معنی یہ ہیں اور سیاسی اقدار سے واقف ہر شخص یہی سمجھے گا کہ جو فیصلہ ہو جائے، اُس کے نفاذ میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے، اُس کے خلاف شورش نہ برپا کی جائے، کاروبار حکومت کو اُسی کے مطابق چلنے دیا جائے، اپنے حامیوں کے جتھے منظم کر کے اُن کے ذریعے سے نظم و نسق کو معطل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اُس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں اور لوگوں کو آمادۂ بغاوت نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اُس فیصلے کے نتیجے میں اگر حکومت کسی فرد کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو اُس کو بھی صبر کے ساتھ برداشت کر لیا جائے۔ میں جس ہستی کوخدا کا پیغمبر مانتا ہوں، اُس نے مجھے یہی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

’’تم پر لازم ہے کہ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو، چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اِس کے باوجود کہ تمھارا حق تمھیں نہ پہنچے۔‘‘ (مسلم، رقم ۴۷۵۴)
اِس میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ یہ کہ مجھے خدا کی نافرمانی کا حکم دیا جائے۔ اِس صورت میں، البتہ میں اُس فیصلے کو عملاً بھی رد کر سکتا ہوں، بلکہ میرا فرض ہے کہ رد کر دوں۔

پیغامِ پاکستان‘‘ کا وارث کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟

پیغامِ پاکستان‘‘ کا وارث کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟

خورشید ندیم ، کالم نگار روزنامہ دنیا 

ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیرِ اہتمام آج میڈیا سے وابستہ چند افراد اسلام آباد میں مل بیٹھیں گے۔ 23 مارچ کو ایسا ہی ایک اجتماع لاہور میں بھی ہوا۔ اس کی روداد برادرم رؤف طاہر نے لکھ دی ہے۔ پیغامِ پاکستان کے بارے میں یہ سوال بہت دنوں سے جواب طلب ہے کہ اس کا وارث کون ہے؟ لاہور میں اہلِ دانش سے ملاقات کے بعد، اس سوال کا جواب تلاش کرنا میرے مزید مشکل ہو گیا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کو یہ خبر تو ہے کہ اس عنوان سے کوئی بیانیہ پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کے خدوخال کیا ہیں، اس میں کون کون سے نکات شامل ہیں، یہ کس نے پیش کیا اور اس کے بعد کیا ہوا‘ ان سوالات کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ کسی نے بتایا‘ نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ اس نشست میں کوشش کی گئی کہ پاکستانی معاشرے کے لیے اس دستاویز کی اہمیت کو واضح کیا جائے تاکہ کم از کم وہ لوگ تو متحرک ہوں جن کے کندھوں پر رائے سازی کی ذمہ داری ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس ''توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ کے بعد کوئی جنبش ہو گی اور اس کوشش میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہو جائیں گے۔ کالم لکھے جائیں گے اور معاشرے کو بیدار کیا جائے گا۔ اندازہ یہ ہوا کہ کچھ اور مسائل ہیں‘ جو میڈیا کے لیے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ ہمارے رائے ساز اس وقت 'پیغامِ پاکستان‘ پر زبان و بیان کی صلاحیتیں صرف کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس تجربے کے بعد مجھے بڑی حد تک اس سوال کا جواب تو مل گیا جو میں نے کالم کے آغاز میں اُٹھایا ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ انتہا پسندی اب ہمارا مسئلہ نہیں رہا؟ 
یہ ماننے کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا ضروری ہیں۔ کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔ میری آنکھیں کھلی ہیں اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ انتہا پسندی برنگ دگر بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست نے اپنی عسکری قوت سے دہشت گردی پر تو کسی حد تک قابو پا لیا مگر اس کے پاس انتہا پسندی کا کوئی توڑ نہیں۔ یہ جہاں جنم لیتی ہے، وہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔ ''پیغامِ پاکستان‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اور ریاست کے سب ادارے، اس کو اپنا چکے۔ مجھے اس ''اپنا پن‘‘ کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ پیغامِ پاکستان کے بائیس نکات بھی علما کے بائیس نکات کی طرح، معلوم یہی ہوتا ہے وقت کی دھول میں کھو جائیں گے۔
''پیغامِ پاکستان‘‘ کی رونمائی ایوانِ صدر میں ہوئی۔ صدرِ مملکت کے ساتھ وزیرِ داخلہ اور وزیرِ خارجہ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیانیہ، اس کے بعد ہماری حکومتی پالیسیوں میں کیسے تبدیل ہو گا؟ کیا وزارتِ داخلہ میں اس سوال پر کوئی مجلس منعقد ہوئی؟ کیا حکومت نے اپنے ذیلی اداروں کو اس حوالے سے کوئی ہدایت جاری کی؟ کیا اس کی روشنی میں اداروں کی تشکیلِ نو کا کوئی کام شروع ہوا؟ کیا جمہوریت کے لیے پریشان حکومت نے کوشش کی کہ اسے پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اس کا اعتبار قائم ہو؟ کیا کسی ادارے نے میڈیا کو بریف کیا؟ میرا اندازہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
رونمائی کی تقریب میں علما بھی شریک تھے۔ تمام دینی مدارس کے ذمہ داران موجود تھے۔ لازم تھا کہ ''پیغامِ پاکستان‘‘ کی روح ان مدارس کے نصاب اور ماحول میں سرایت کر جاتی۔ مثلاً اس میں کہا گیا کہ مسلح جہاد کا حق صرف ریاست کے پاس ہے۔ لازم تھا کہ مدارس میں فقہ الجہاد کے تحت یہ بات پڑھائی جائے۔ اس میںکہا گیاکہ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر علما کا کام نہیں، وہ صرف بتا سکتے ہیں کہ اسلام کیا اور اسلام کیا نہیں ہے۔ ضروری تھا کہ فتویٰ کے تخصص کی تعلیم میں اس بات کو شامل کیا جاتا۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ پیغامِ پاکستان کے سامنے آنے کے بعد، علما یا اتحاد نتظیماتِ مدارس نے اس معاملے پر کوئی اجلاس بلایا ہو جہاں پیغامِ پاکستان کی روشنی میں مدارس کے نظام کی تشکیلِ نو پر کوئی بات کی گئی ہو۔ 
رونمائی کی تقریب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کا حل ایچ ای سی کے حوالے کر دیا جائے تو وہ یہ بھی حل کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جامعات کو انتہا پسندی کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے اب تک کیا ہوا ہے؟ میں ابھی تک اس بات کا کوئی امکان نہیں دیکھتا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں آزادانہ مذہبی مباحث کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ کیا وہ مسئلہ کشمیر کو اسی وژن اور حسنِ کارکردگی کے ساتھ حل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ دستاویز الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق کی بھی بات کرتی ہے۔ کیا میڈیا کے ارباب کا کوئی اجتماع ہوا جس میں انتہا پسندی کے خاتمے کے باب میں میڈیا کے کردار کو زیرِ بحث لایا گیا ہو؟
اہم ترین سماجی مسائل کے باب میں لاتعلقی کا یہ رویہ کس بات کا اظہار ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک ان مسائل کے حل کو دوسروں کی ذمہ داری سمجھتا ہے؟ کیا مایوسی نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے؟ کیا ہم اس دستاویز سے مطمئن نہیں؟ کیا ہمارے نزدیک اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں؟ سب سے اہم سوال: کیا ہم دل و دماغ سے مذہبی انتہا پسندی کے اس بیانیے کو غلط سمجھتے ہیں؟ کیا پیغامِ پاکستان کے ساتھ ریاستی و سماجی اداروں کا یہ اظہارِ وابستگی نمائشی تھا؟
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کی سطح پر اعتدال، برداشت اور مذہبی ہم آہنگی کی جو کوششیں ہوئی ہیں، ان کے لیے دوسرے ممالک کے اداروں نے وسائل فراہم کیے ہیں۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ پاکستان کی حکومت اور معاشرے کے صاحبانِ وسائل دونوں انتہا پسندی یا عدم برداشت کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے۔ مخیر حضرات ہر سال پانچ سو بلین روپے خیرات کرتے ہیں۔ وہ مدارس، مساجد اور مزارات پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں لیکن کسی ایسے ادارے کو ایک پیسہ دینے پر آمادہ نہیں جو سماجی تشکیلِ نو یا نظامِ اقدار میں بہتری کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔
تاجر حضرات کا رویہ سب سے زیادہ ناقابلِ فہم ہے۔ پاکستان میں مذہبی اداروں کو زیادہ تر وسائل یہیں سے ملتے ہیں۔ یہ طبقہ دو وجوہات سے روایتی‘ مذہبی جماعتوں اور مدارس کو سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان اداروں کو معاشرے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرا حفظِ ماتقدم تاکہ کل کسی وجہ سے، وہ ان کے غم و غصے کا ہدف نہ بنیں۔ (اس جملے کی شرح، ہر کوئی حسبِ توفیق کر سکتا ہے)۔
یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ کاروبار ایک پُرامن معاشرے ہی میں پھل پھول سکتا ہے۔ ان کا فائدہ اسی میں کہ سماج میں امن ہو۔ آئے دن ہڑتال نہ ہو۔ خاص طور پر مذہبی معاملات میں لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے والے نہ ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے اشتعال دلانے پر اربوں روپے کی جائیدادیں چشم زدن میں خاکستر ہو جاتی ہیں۔ بجائے ایسے عناصر کو خوش رکھنے کے، جو اشتعال پھیلاتے ہیں، زیادہ مناسب یہ ہے کہ معاشرے میں اعتدال اور امن کے رویے فروغ پائیں۔ یہ لوگ اپنے کاروباری ضروریات کے لیے بڑے بڑے تعلیمی ادارے تو قائم کر لیتے ہیں مگر سماجی تبدیلی کا تصور ان کو سمجھ نہیں آ سکا۔
اس ماحول میں یہ گمان کرنا مشکل ہے کہ حکومتی اور سماجی ادارے پیغامِ پاکستان جیسی دستاویز کی ضرورت کو سمجھیں گے اور اسے سماج کے رگ و پے میں اتارنے کی کوشش کریں گے؛ تاہم جو اس کی اہمیت کو جانتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دائرہ کار کی سطح پر اس کے لیے متحرک ہو۔ کیا معلوم کب لوگوں کے دل بدل جائیں؟ ہم بہرحال کوشش کے مکلف ہیں۔ 

(روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 29 مارچ 2018)