پاکستان کے مسائل اور ان کا حل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کے مسائل اور ان کا حل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى


 

علّامہ اقبال کا حکم جس کی تعمیل نہ ہو سکی- محمد اظہار الحق

(تاریخ اشاعت : 9 مارچ 2020 ، روزنامہ دنیا )
علامہ اقبال کا حکم جس کی تعمیل نہ ہوسکی - محمد اظہار الحق

ہلکی ہلکی بارش تھی۔ مارچ کے ابتدائی دنوں کا گلابی جاڑا بہار کی خبر دے رہا تھا۔ میں اور بیگم لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹی وی پر ایک ٹاک شو کی لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے!

اچانک لائونج میں روشنی بھر گئی۔ جیسے دن نکل آیا ہو۔ پھر یہ روشنی‘ دیکھتے دیکھتے‘ ایک بے پناہ قسم کے نور میں بدلنے لگی۔ ایسا نور آج تک جو دیکھا نہ تصوّر میں آیا۔ ایک نورانی مخلوق ہمارے سامنے کھڑی تھی۔ لائونج کے ارد گرد کی دیواریں اپنا وجود کھو چکی تھیں یا ہماری نظریں ان دیواروں سے ماورا دیکھنے لگی تھیں۔ اس مخلوق کے پَر‘ ایک افق سے دوسرے افق تک احاطہ کر رہے تھے۔

ایک پُر سکون‘ پیار بھری آواز‘ اس نورانی ہستی کے منہ سے نکلی:

''اٹھیے! ہمارے ساتھ چلیے‘‘

''میری بیگم چیخی۔ نہیں‘ نہیں! آپ انہیں نہیں لے جا سکتے!‘‘

''نہیں!! بی بی! گھبرائو مت! میں فرشتہ ہوں مگر موت کا فرشتہ نہیں! تمہارے میاں کو غالبؔ اور اقبالؔ نے عالمِ بالا میں بلایا ہے۔ ان سے ملاقات کر کے واپس آ جائیں گے! میں خود چھوڑ جائوں گا!‘‘

ایک غیبی قوت میرے اندر بھر گئی۔ میں فرشتے کے ساتھ‘ اڑنے لگا۔ کیسے؟ نہیں معلوم! ثانیے تھے یا دن! ہفتے تھے یا مہینے! کچھ پتہ نہ چلا۔ وقت ماپنے کا موجودہ پیمانہ‘ ہماری زمین اور ہماری اس عارضی زندگی ہی سے وابستہ ہے؎

بچا کر بھی کہاں لے جا سکیں گے وقت کو ہم

یہیں رہ جائیں گے ہفتے مہینے سال سارے

نئی نسل سے مکالمہ - خورشید ندیم

نئی نسل سے مکالمہ خورشید ندیم 
(تاریخ اشاعت : روزنامہ دنیا  20 فروری 2020)

خیال ہوا کہ اہلِ دانش کو اس جانب متوجہ کیا جائے۔ ان کے قلم اس موضوع کے لیے رواں ہوں اور ان کی خوش گفتاری اس کام آئے مگر 'یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔ لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے نزدیک کچھ دیگر موضوعات زیادہ توجہ طلب تھے۔ کسی نے اس موضوع کو اگر اہم جانا تو وہ سجاد میر تھے۔

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

پچھلی اور اگلی نسلوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہو چکا۔ نوجوان سرفروشی کی تمنا کے ساتھ نکلے تو ان کا جس طرح استقبال ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ ان پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے اور سماج لا تعلق رہا یا پس پردہ کچھ تلاش کرتا رہا۔ اُن کے اضطراب کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو ئی۔ ان سے کوئی مکالمہ نہ ہو سکا۔ ہر نئی نسل کو پچھلی نسل سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ اس کو سمجھا نہیں گیا۔ بد قسمتی سے ہماری نسل بھی اس دستورِ زمانہ کو بدل نہیں سکی۔
میں نے حسبِ توفیق ایک کوشش کی۔ اہل دانش نے پذیرائی بخشی اور نئی نسل کے ساتھ مکالے کی ایک بھرپور نشست کا انعقاد ہو سکا۔ نوجوانوں کی اس تحریک کے روحِ رواں عمار سے کہا گیا کہ وہ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ انہوں نے نوجوانوں کی بے چینی کے اسباب بیان کیے۔ علی عثمان قاسمی بھی تھے جنہوں نے نئی کے مسائل کا عالمگیر نظریاتی پس منظر سامنے رکھا۔

سولہ دسمبر - محمد اظہار الحق

سولہ دسمبر - محمد  اظہار الحق 
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا!جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎

کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروںکو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب  آبروئے  شیوئہ اہلِ   نظر  گئی

احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔

مدرسہ اور ’مدرسہ ڈسکورسز- خورشید ندیم

دینی مدارس کی اصلاحات
یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں، دینی مدارس کے حوالے سے دو مختلف سرگرمیاں، ایک ساتھ جاری تھیں۔

ایک سرگرمی جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے ساتھ دینی مدارس کے ذمہ داران کی سات گھنٹے پر محیط ملاقات تھی۔ دوسری سرگرمی کا تعلق 'مدرسہ ڈسکورسز‘ سے تھا۔ جنرل صاحب نے اتحاد تنظیمات المدارس کے ذمہ داران اور بعض دیگر مذہبی شخصیات کو مدعو کیا تھا تاکہ وہ دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے ان حضرات کی راہنمائی فرمائیں۔ ایسی ہی راہنمائی وہ اس سے پہلے قومی معیشت کے ذمہ داران کو بھی فراہم کر چکے جو اب ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ 

مدارس کے باب میں ریاست کا موقف ظاہر و باہر ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں فزکس‘ کیمسٹری اور انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم شامل کرنے سے مدرسے کی 'اصلاح ‘ ہو جائے گی۔ اس لیے ہر دور میں ریاست مدارس سے یہی مطالبہ کرتی آئی ہے۔ بعض صاحبانِ عقل و دانش اس پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کے پاس کیا انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم کم تھی؟ اصلاح کی اس تجویز پر میں اتنا لکھ چکا ہوں کہ مزید کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔

مدارس اور ریاست - خورشید ندیم

کیا سماج کو مدارس کی ضرورت ہے؟ریاست اور مدارس میں اصل جھگڑا کیا ہے؟کیا مدارس کے باب میں ریاست کا مؤقف قابلِ عمل اور منطقی ہے؟مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟

برصغیرپاک و ہند کے مسلم سماج کی مذہبی اور نفسیاتی ضروریات نے مدرسہ کو جنم دیا۔انگریز قابض ہوئے تو انہوں نے مقبوضہ آبادی کے لیے ایک نئے نظام ِتعلیم کی بنیاد رکھی جس کی اساس انگریزی زبان تھی۔مطلوب یہ تھا کہ قابض قوت کو ایسے دست و بازوفراہم کیے جائیں جو مقامی ہوں اور نظام ِ مملکت چلانے کیلئے کارآمد ہوں۔باایں ہمہ ایک گنوار خطے کو تہذیب آشنا کیا جائے۔انگریزی زبان سے بڑھ کر کوئی یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا تھاکہ زبان تہذیب کا دروازہ ہے۔
لارڈ میکالے نے اس نئے نظامِ تعلیم کانقشہ بنایا اور اس کا استدلال (rationale) مرتب کیا۔اس کا خیال تھا کہ سنسکرت‘عربی اور فارسی زبان میں میسر علم و ادب اتنا پست ہے کہ برطانیہ کی ابتدائی تعلیم بھی اس سے بہتر ہے۔ ''یورپ کے کسی اچھے کتب خانے کی ایک الماری‘ ہندوستان اورعرب کے سارے علمی ذخیرے پر بھاری ہے‘‘۔ بعض حساس مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اگرہم نے اپنی زبانوں اور علمی ورثے کی حفاظت نہ کی توسیاسی اقتدار کے ساتھ‘ہمارا تہذیبی وجود بھی مٹ جائے گا۔ اس کے ساتھ روز مرہ کی مذہبی ضروریات بھی تھیں۔نماز‘روزہ کی تعلیم‘نکاح و طلاق کے مسائل‘جنازہ‘تدفین وغیرہ۔گویا مسلم سماج کو ہمہ وقت ایسے لوگ چاہیں جو ان مذہبی ضروریات کو پورا کریں۔یوں ایک تاریخی عمل اور سماجی ضرورت نے دینی مدرسے کو جنم دیا۔

فکری تبدیلی ۔ راؤ منظر حیات

(روزنامہ ایکسپریس ، 11 فروری 2019)

وہی نیم شب میں سوالات کی بارش۔ اکثر جوابات کا موجودنہ ہونا۔ملک کے حالات دیکھیے تو ہول اٹھتا ہے۔  اخبارمیں کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا جو توجہ کواپنی طرف مبذول کروائے۔وہی بوسیدگی، نعرے اورروایتی اعلانات۔ نتیجہ سب کے سامنے۔ مگرماننے سے ہرکوئی انکاری۔ ایک ناکام ریاست کے خدوخال، رقصاں ہیں اورہمسوئے ہوئے لوگ۔ وہی سر سیداحمدخان کی انقلابی پکار،کہ اے میری مسلمان قوم،نئے علوم کوحاصل کرناگناہ نہیں۔جدت سے لاعلمی،جہالت کوجنم دیتی ہے۔

عقیدت کے بتوں کوتوڑو اور اپنے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ زندہ رہو۔مگرکچھ نہ ہوسکا۔ملک توبن گیا مگرسوچ نہ بدل پائی۔قیامت یہ کہ قدامت پسندی اور روایات کو ریاست نے فروغ دیناشروع کردیا۔معاشرے میں نئی بات سوچنے اورکہنے پراَن دیکھی پابندی لگ گئی۔ وہی گروہ،جوہمارے ذہنوں پر قفل لگا چکا تھا۔ نئی آن بان سے،مقدس لباس پہنے پھر سے ذہن پر قابض ہوگیا۔ سرسید، قائد اوراقبال جس فکر کے مخالف تھے، اب پھر وہی ہماری پہچان بن گئی۔

یہ حالت ہے توکیاحاصل بیان سے
کہوں کچھ اورکچھ نکلے زبان سے

(حکیم مومن خان مومنؔ)

شریعت خس و خارہی کی چلے گی !! محمد اظہار الحق


جو قریوں اور بستیوں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ جانتے ہیں کہ گائوں میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی میونسپل کمیٹی ہوتی ہے نہ خاکروب۔ صدیوں سے پریکٹس چلی آ رہی ہے کہ عورتیں گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر، گائوں سے ذرا باہر، کھیت میں ڈالتی جاتی ہیں۔ اس کوڑے میں جانوروں کا گوبر بھی شامل ہوتا ہے۔ ہوتے ہوتے یہ کوڑا ڈھیر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اب کالے رنگ کے بھینس کی کھال جیسی کھال رکھنے والے کیڑے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کیڑوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں بھبھون کہا جاتا ہے۔ بھبھون غلاظت کا کھلاڑی ہے۔ اسی میں رہتا ہے، یہیں سے جو کچھ ملتا ہے، اس سے اپنا بل آراستہ کرتا ہے۔ طریق واردات اس کا یہ ہے کہ کمال ہنروری سے غلاظت کا گولہ بناتا ہے۔ سائز میں ماربل کی گولی (بنٹے) سے بڑا اور پنگ پانگ گیند سے چھوٹا۔ یوں صفائی سے تراشتا ہے جیسے سمرقند کے کاریگر مرمر تراشتے تھے ؎ مرمر سے جیسے ترشا ہوا تھا تمام باغ پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے مجال ہے جو گولائی میں ذراق فرق آئے۔ پھر وہ اسے لڑھکاتا ہے۔ غلاظت کا گولہ آگے آگے، بھبھون پیچھے پیچھے۔ جیسے ریڑھی بان ہو، کہاں لے جاتا ہے؟ گمان غالب یہ ہے کہ اپنے بل میں لے جاتا ہے۔

1970ء اور 2018 ء کے انتخابات اور دینی جماعتوں کی حیرت انگیز ناکامی

(1970ء کے انتخاب میں دینی جماعتوں کو حیرت انگیز ناکامی ہوئی تھی ، اس پر دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ، عظیم سیاست دان اور صحافی شورش کاشمیری ؒ کا دل بھی نہایت زخمی ہواتھا، اب 2018ء کے انتخاب میں بھی دینی جماعتوں کی بری طرح ناکامی نے ہمارے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں اور دانشورں کے دل زخمی کردیے ہیں ۔ اسی تناظر میں شورش کاشمیری اور سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے احساسات قارئین کی نذر کرتا ہوں ، شورش کاشمیری اپنے خط کے بارے میں لکھتے ہیں۔)


" 17دسمبر 1970ء کو احقر نے ذیل کا خط مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے نام لکھا، مولانا نے اگلے ہی روز 18 دسمبر کو جواب مرحمت فرمایا ۔ راقم نے ذیل کا خط لکھا تھا ۔ " 


(لاہور) 


17 سمبر 1970ء


مخدومی مولانا ، سلام و مسنون ۔


نتائج کے بعد دماغ میں سوالات کا ایک ہجوم ہے ، ابھی خود انہیں چھانٹ رہاہوں جو بچ رہے ، عرض کروں گا ۔ ہم نئی پود سے غافل تھے ۔ نتیجتا اس نے ہمیں مسترد کردیا ؟ اور اگر صورتحال کا ہم ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کرسکے تو اب اس ویرانے میں کہاں تک اذان دے سکتے ہیں ؟ فی الحال ایک ہی خلش ہے اور یہ خلش میرے دماغ میں بہت دنوں سے ہے ، میں نے ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے ، تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اس کے داعی باقی نہ رہے تو ان کی سرگزشت قلم نےنے محفوظ کر لی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنادیا ۔ کیا ہم اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کے لیے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے ، اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب ونسب اندھیروں سے ملتا ہے ۔ والسلام 

اسلام اور ریاست - مفتی تقی عثمانی

غیرمنقسم ہندوستان میں قائداعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جو تحریک چلی‘اس کی بنیاد مسلم قومیت کے نظریے پرتھی‘ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں جو تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے حق میں تھے‘ قائداعظم نے پورے زوروشور اور دلائل کی روشنی میں یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک مسلم اور دوسری غیرمسلم‘مسلمان رہنمائوں‘اہل فکر اورعلمائے کرام نے اس کی بھرپورتائید کی اور میرے بچپن میں ’’پاکستان کامطلب کیا؟ لا الہ الااللہ‘‘ کی جو صدائیں گونجتی تھیں‘ان کی دلکش یاد آج بھی کانوں میں محفوظ ہے۔

 آخرکار مسلم اکثریت نے قائداعظم کی اس پکار پر لبیک کہا‘ اور ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد ہمالیہ کے دامن میں ارض پاک ایک حقیقت بن کر ابھری‘نظریہ پاکستان کی بنیاد تو واضح تھی لیکن ایک چھوٹا ساحلقہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے دستور پاکستان کیلئے وہ قرارداد مقاصد بااتفاق منظور کی جس نے ملک کا رخ واضح طور پر متعین کردیاکہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے‘اور عوام کے منتخب نمائندے اپنے اختیارات قرآن وسنت کی حدود میں رہ کر استعمال کرسکیں گے‘اور یہ قرارداد 1954‘1956‘1962 اور1973 کے تمام دستوری مسودوں کاالفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ لازمی جز بنی رہی‘ اور آج بھی وہ ہمارے دستور کی وہ دستاویز ہے جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں چوتھائی صدی تک بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں میں بھی اورباہر بھی اس پر کھلے دل سے بحث ومباحثہ بھی ہوا‘اور بالآخر اس پر پورے ملک کااتفاق ہوگیا پھر اس کی بنیاد پر دستور کی تشکیل کا مرحلہ آیا تویہ دفعہ بھی تمام مسودات دستور میں کسی قابل ذکر اختلاف کے بغیر موجود رہی کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایاجاسکے گا اور موجودہ قوانین کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے گا.

 سن 1973ء کادستور جوآج بھی نافذ ہے‘ اس وقت کے تمام سیاسی اور دینی حلقوں کے اتفاق سے منظور ہوا‘اور اس پر بفضلہ تعالیٰ آج بھی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور اس کا مکمل تحفظ چاہتی ہیں جس کا مظاہرہ ا وراس کی مزید تاکید حال ہی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تاریخی اتفاق سے دوبارہ ہوگئی ہے‘اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس دستور کی بنیادی روح کالازمی حصہ قرار دیاہے۔

1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر



مضمون نگار : منظورالحسن  ماہنامہ اشراق  ، تاریخ اشاعت : ستمبر 2003ء  ، مضمون کا اصل عنوان : استحکام پاکستان 

1947ء میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کرۂ ارض پر ایک ایسی سلطنت قائم کر رہے ہیں جہاں اسلام اپنے پورے فلسفے اور قانون کے ساتھ نافذالعمل ہوگا۔ چشم عالم ایک مرتبہ پھر اس عدل اجتماعی کا نظارہ کرے گی جو چودہ صدیاں پہلے خلافت راشدہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے مرکزی ادارے کا کردار ادا کرے گا اور غیر مسلم دنیا کے لیے اسلام کی مشہوددعوت قرار پائے گا۔ اس کے حدودمیں مسلمانوں کی ترقی کی راہیں کسی دوسری قوم کے تعصب سے مسدود نہیں ہوں گی۔ وہ باہم متحد ہو کر اسے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنا دیں گے اور دیگر مسلمانان عالم کے لیے سہارے اور تعاون کا باعث ہوں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے رہے ہیں جو دور جدید میں فلاحی ریاست کے تمام تر تصورات کی آئینہ دار ہو گی۔ جہاں تفریق وامتیاز کے بغیر شہریوں کو ان کے حقوق میسر ہوں گے اور لوگ یکساں طور پر تعلیم، روزگار، صحت اور امن عامہ کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہمارا تصور تھا کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں لارہے ہیں جس کا نظم سیاسی جمہوری اقدار پر مبنی ہوگا۔ اس کے عوام اپنا اجتماعی نظام خود تشکیل دیں گے اور انھیں اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے حکمرانوں کے تقرر وتنزل کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔

ایک کروڑ نوکریاں فری لانسنگ کے بغیر ممکن نہیں

عمار چودھری 

روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 31 جولائی 2018ء 

عمران خان کو اس مقام تک پہنچانے میں اہم ترین کردار نوجوانوں کا ہے۔ تحریک ِانصاف کے نوجوان آپ کو دیگر جماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ متحرک‘ باشعور اور پڑھے لکھے نظر آئیں گے۔ یہ وہ نوجوان ہیں‘ جنہیں سب برگر کلاس کہتے تھے‘جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ ووٹ دینے کے لئے باہر نہیں نکلیں گے‘ جو پولیس کے ڈنڈے اور ماریں کھانے سے گھبرائیں گے اور جنہیں سیاست کے اسرار و رموز کی خبر نہیں۔ انہی نوجوانوں نے ثابت کر دیاکہ وہ ملک کی بہتری کے لئے ہر مشکل برداشت کر لیں گے او ر اگر آج نہیں کریں گے‘ تو آنے والا کل ان کے لئے پہلے سے برے حالات لائے گا۔ انتخابات میں ساڑھے دس کروڑ ووٹرز رجسٹرڈ تھے ‘جن میں سے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ نے ووٹ ڈالا ۔ ان میں سے ساڑھے چار کروڑ نوجوان ووٹرز تھے۔ تحریک ِانصاف کو قریباً ایک کروڑ چھیاسی لاکھ ووٹ ملے۔ ان ووٹوں میں غالب اکثریت انہی نوجوانوں کی تھی اور عمران خان سے سب سے زیادہ امید بھی انہیں نوجوانوں کو ہے۔ فی الوقت نوجوانوں کے لئے سب سے سنگین مسئلہ کیریئر پلاننگ اور روزگار کا حصول ہے۔

پاکستان الیکشن 2018ء پر ایک دلچسپ تبصرہ

خورشید ندیم 


(کالم کا اصل عنوان :  شب گزیدہ سحر یا صبحِ بہار؟ روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت 26 جولائی 2018ء )

کیا یہی وہ دن ہے، اس قوم کو جس کا انتظار تھا؟

انسان آرزوئوں میں جیتا ہے۔ خواب بُنتا ہے۔ اکثر تارِ عنکبوت سے۔ ایک خواب بکھرتا ہے تو نیا بُننے لگتا ہے۔ یہ ضروری بھی ہے ورنہ مایوسی کی آکاس بیل اس کے وجود کا احاطہ کر لے۔ آکاس بیل سے تارِ عنکبوت اچھا کہ جینے کو چند دن تو مل جاتے ہیں۔ انسان مگر محض دل نہیں، دماغ بھی تو ہے۔ خواب پر اس کا بس نہیں، تعبیر پر تو ہے۔ اتنا تو جان سکتا ہے کہ خواب میں کیکر کے درخت پر آم لگ سکتے ہیں، حقیقی دنیا میں نہیں۔ 

رات میں نے فیض صاحب کو یاد کیا اور منٹو کو بھی۔ 1940ء میں ایک خواب دیکھا گیا۔ 14 اگست 1947ء کو تعبیر سامنے آئی تو ذہن الجھنے لگے۔ فیض صاحب خود کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ ایک نظم لکھ دی: ''صبحِ آزادی‘‘۔ آج تک چرچا ہوتا ہے کہ یہ نظم خواب ہی کے خلاف تھی۔ اس پر بات کرتے ہیں مگر پہلے اس نظم کے ابتدائی مصرعے، محض یاد دہانی کے لیے:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

پاکستان الیکشن 2018ء کے بعد ؟

خورشید ندیم 

(الیکشن 2018 ء کے بعد سیاست دانوں کو  کیا کرنا چاہیئے  ایک جائزہ اور مشورہ ،  کالم کا اصل عنوان ہے "’مٹی پاؤ‘ فلسفہ" روزنامہ دنیا تاریخ اشاعت : 30 جولائی 2018ء ،)

انتخابات ہو چکے۔ نتائج تشکیک اور اعتراضات کی زد میں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ جو ہوا، سو ہوا۔ اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ راکھ کریدنے سے کیا حاصل۔ یہ وہی فلسفہ ہے، چوہدری شجاعت حسین صاحب نے دو لفظوں میں جس کا مکمل ابلاغ کر دیا: 'مٹی پاؤ‘۔ 

اس میں کیا شبہ ہے کہ مستقبل ہی کی طرف دیکھنا چاہیے، مگر کیا ماضی سے بے نیاز مستقبل کا کوئی تصور قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ جن کا ماضی نہ ہو، کیا ان کا کوئی مستقبل ہوتا ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ زندگی کسی ایک واقعے کی اسیری میں نہیں گزاری جا سکتی‘ مگر کوئی واقعہ ایسا بھی ہوتا ہے‘ جو زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ اثرات اگر منفی ہوں تو اس کا تجزیہ لازم ہے۔ جب ہم ایسے واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر وہی غلطی بار بار دہراتے ہیں۔ یوں زندگی دائرے کا سفر بن جاتی ہے۔ زندگی کا فطری راستہ سیدھا ہے۔ صراطِ مستقیم۔ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جو سیدھے راستے پر چلتی ہے۔