دینی مدارس کی اصلاحات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دینی مدارس کی اصلاحات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مدارس اسلامیہ اور ان کی تجدید کاری ۔ حبیب الرحمن اعظمی

ہماری دینی درس گاہوں کا اصل موضوع قرآن وسنت اورفقہ اسلامی ہے انہیں کی تعلیم وتعلّم افہام و تفہیم، تعمیل اتباع اور دعوت و تبلیغ مدارس عربیہ دینیہ کا مقصود اصلی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ دینی تعلیمی و تربیتی ادارے علوم شریعت اسلامی کے نقیب اور خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم کے فرائض سہ گانہ: تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اور تفہیم حکمت وسنت کے وارث ہیں۔

ماضی قریب میں ان تعلیمی مراکز نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس قابل صد فخر امانت کو اخلاف تک منتقل کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ہماری علمی و ثقافتی تاریخ کا ایک زرّیں باب ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کئے بغیر کوئی منصف مزاج نہیں رہ سکتا۔ آج کے انتشار پذیر اور مادیت کے فروغ کے دور میں بھی یہ اسلامی مدارس اپنے وسائل و ذرائع کے مطابق مصروف عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین واہم ترین ضرورت کی کفالت کررہے ہیں۔ بھلا اس سچائی کا کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ کفر وفسق کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے موجود ماحول میں اسلامی تہذیب و معاشرت اور دینی رسوم و عبادات کے جو روشن آثار نظر آرہے ہیں وہ واسطہ و بالواسطہ انہیں درسگاہوں کے جہدوعمل کا ثمرہ ہیں۔

مدارس دینیہ کا یہی وہ کردار ہے جو اسلام بیزار طبقہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان مدرسوں کی آزادانہ کارکردگی کا یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا اسلام اور مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال دینے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آج یورپ و امریکہ کی زیرسرپرستی عالمی پیمانہ پر اسلامی درسگاہوں کے نظام تعلیم وتربیت میں ترمیم وتنسیخ کے لئے منصوبہ بند مہم چل رہی ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ سقوط روس کے بعد ہمارے ملک کی قومی حکومتوں کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے اور چاروناچار اظہار وفاداری کے لئے انہیں کی آواز میں آواز ملانا ہی پڑتا ہے۔ یہ مدرسہ بورڈ کا قیام بھی غالب گمان یہی ہے کہ اسی اظہار وفاداری کا ایک حصہ ہے۔ اور مدارس کو اس بورڈ سے وابستہ کرکے دراصل انہیں بے جان بنادینے کی ایک شاطرانہ ترکیب ہے۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیمی مراکز۔ حبیب الرحمن اعظمی

ہندوستان کی علمی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے دور اقتدار میں تعلیم و تدریس کا تمام تر انحصار مسلم حکمرانوں، امراء اور نوابین کی علم پروری، علماء نوازی اور داد ودہش پر تھا، ہر شہر اور قصبات میں سلاطین اور امراء کی جانب سے مدرسے قائم تھے جن کے مصارف کی مکمل ذمہ داری شاہی خزانے پر ہوتی تھی، چنانچہ اجمیر، دہلی، پنجاب، آگرہ، اودھ، بنگال، بہار، دکن، مالوہ، ملتان، کشمیر، گجرات وغیرہ میں اس قسم کی ہزاروں درسگاہیں قائم تھیں، ان باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ علماء شخصی طور پر بھی اپنے اپنے مستقر پر تعلیم وتعلّم کی خدمات انجام دیا کرتے تھے، اور ان علماء کو معاش کی جانب سے بے فکر رکھنے کے لئے دربار شاہی سے مدد معاش کے عنوان سے جاگیریں اور وظائف مقرر تھے۔

مسلمانوں کا یہ نظام تعلیم ۱۸۵۷/ تک قائم رہا، اس نظام تعلیم میں عام طور پر صَرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، تصوف، تفسیر، حدیث وغیرہ کے علوم وفنون پڑھے پڑھائے جاتے تھے، البتہ حدیث و تفسیر کا فن برائے نام تھا، زیادہ توجہ فقہ و اصول فقہ اور پھر منطق وفلسفہ پر دی جاتی تھی۔

۱۸۵۷/ میں جب ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوگیا، اور مسلمانوں کی بجائے سیاسی اقتدار پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو یہاں کے عام باشندے اور بطور خاص مسلمان ”انّ الملوک اذا دخلوا قریة افسدوہا وجعلوا اعزة اہلہا اذلة“(۱) کے فطری اصول کا تختہ مشق بن گئے۔

اس سیاسی انقلاب نے مسلمانوں کے اقتصادی، تمدنی اور علمی ودینی نظام کو کس طرح پامال کیا اس کی تفصیل سرولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ”آور انڈین مسلمانز“ ہمارے ہندوستانی مسلمان میں کسی قدر بیان کی ہے، انھوں نے ایک جگہ مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور مشکلات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

حکومت نے ان کے لئے تمام اہم عہدوں کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دوسرے ایسا طریقہٴ تعلیم جاری کردیا ہے جس میں ان کی قوم کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے تیسرے قاضیوں کی موقوفی نے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بیکار اورمحتاج کردیا ہے، چوتھے ان کے اوقاف کی آمدنی جو ان کی تعلیم پر خرچ ہونی چاہئے تھی غلط مصرفوں پر خرچ ہورہی ہے۔(۱)

تاریخ میں دینی مدارس کی ابتداء اور ارتقاء

از:مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی‏، ڈائریکٹر مرکز تحقیق اسلامی، پشاور صدر

 مدرسہ کا مفہوم اوراس کی ابتدائی شکل

مدرسہ اگر اس معنی میں لیا جائے جس کی اپنی مستقل عمارت ہو، اساتذہ اور طلبہ ہوں اور ایک خاص تعلیمی نظام اور منصوبہ بندی کے تحت علوم و فنون کی تدریس ہوتی ہو، تواس طرح کے مدرسہ کا وجود اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا اور مسجد ہی تمام مذہبی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور تھی۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کے طور طریقے بدلنے لگے۔ علم کے حلقے بڑھ گئے، درس و تدریس اور تکرار کا شور پیدا ہوا اور بحث و مناظروں کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، چنانچہ ان چیزوں نے مساجد سے مدارس کو الگ کردیا، کیونکہ مساجد میں ادا کی جانے والی عبادات کے لئے سکون و اطمینان کی فضا ضروری تھی۔(۱)

مذکورہ بالا تعریف کے مطابق مدرسہ کا وجود اسلام میں سب سے پہلے اہل نیشاپور (ایران) کے ہاں عمل میں آیا جہاں نیشاپور کے علماء نے ”مدرسہ بیہقیہ“ کی بنیاد رکھی تھی۔ نیشاپور میں اس کے علاوہ ایک مدرسہ سلطان محمود عزنوی نے، ایک اس کے بھائی نصر بن سبکتگین نے مدرسہ سعیدیہ کے نام سے قائم کیا تھا اور چوتھا مدرسہ امام ابن فورک (متوفی ۴۰۶ھ) کا وجود میں آیا تھا۔(۲)

دینی مدارس کی رجسٹریشن کا تنازع کیا ہے؟ فرحت جاوید

عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
10 دسمبر 2024

اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں جب پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تو اُس موقع پر جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ’دینی حلقوں کے دو اہم مطالبات‘ پارلیمان سے منظور کروانے پر ملک کے متعدد مذہبی حلقوں اور گروہوں کی جانب سے تحسین پیش کی گئی۔

اُن دو مطالبات میں ایک تو پاکستان سے سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ تھا جبکہ دوسرا اہم مطالبہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائیٹیز ایکٹ 1860کے ماتحت لانا تھا۔

تاہم دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل (سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024) جب پارلیمان سے منظوری کے بعد فائنل منظوری کے لیے ایوانِ صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے اس کے مسودے پر اعتراض لگا کر اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔

اور یہیں سے اس معاملے کی ابتدا ہوئی جس کے پس منظر میں جے یو آئی ف کے چند رہنماؤں کی جانب سے گذشتہ دنوں ’مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ‘ کی بات کی گئی جبکہ گذشتہ روز (نو دسمبر) کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مولانا نے حکمراں اتحاد پر الزام عائد کیا کہ وہ ’علما کو تقسیم کرنے کی سازش‘ پر عمل پیرا ہے۔مولانا حالیہ دنوں میں یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت حکومت کی جانب سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات میں مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہاں اہم سوالات یہ ہیں کہ آخر دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے کیا؟ نئے ترمیمی بِل میں رجسٹریشن سے متعلق کیا بات کی گئی ہے اور آخر اس معاملے نے حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کو حکمراں اتحاد کے سامنے کیوں کھڑا کر دیا ہے؟

پاکستانی شہر پیشاور کا خاص مدرسہ جس کے معلم اور طلبہ سبھی نابینا۔

پشاور میں تین دہائی قبل قائم کیے جانے والے ایک مدرسے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے معلم اور طلبہ سبھی نابینا ہیں۔ یہ مدرسہ اب تک ہزاروں طلبہ کو دینی تعلیم کی دولت سے مالا مال کر چکا ہے۔



 

دار الافتاء ڈاٹ انفو۔۔ مختصر تعارف

دار الافتاء ڈاٹ انفو-مختصر تعارف
- دیوبند مکتبہ فکر کے مختلف دار الافتاؤں کے فتاوی سے استفادہ کرنے کے لئے ایک منفرد سرچ انجن۔ 
- دنیا بھر کے دیوبند مکتبہ فکر کے دار الافتاؤں کی ویب سائٹس پر موجود فتاوی یکجا کیا گیا ۔ 
- تمام فتاوی یونیکوڈ، پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب۔
- مستند با حوالہ فتاوی
درج ذیل دارالافتاوں کی ویپ سائٹس دیکھیں 

دار الافتاء دار العلوم دیوبند
دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
دار الافتاء دار العلوم کراچی
دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
دار الافتاء اشرف المدارس کراچی
دار الافتاء خیر المدارس ملتان
دار الافتاء جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن کراچی
دار الافتاء صادق آباد
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
دار الافتاء الاخلاص کراچی
دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

مدرسہ اور ’مدرسہ ڈسکورسز- خورشید ندیم

دینی مدارس کی اصلاحات
یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں، دینی مدارس کے حوالے سے دو مختلف سرگرمیاں، ایک ساتھ جاری تھیں۔

ایک سرگرمی جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے ساتھ دینی مدارس کے ذمہ داران کی سات گھنٹے پر محیط ملاقات تھی۔ دوسری سرگرمی کا تعلق 'مدرسہ ڈسکورسز‘ سے تھا۔ جنرل صاحب نے اتحاد تنظیمات المدارس کے ذمہ داران اور بعض دیگر مذہبی شخصیات کو مدعو کیا تھا تاکہ وہ دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے ان حضرات کی راہنمائی فرمائیں۔ ایسی ہی راہنمائی وہ اس سے پہلے قومی معیشت کے ذمہ داران کو بھی فراہم کر چکے جو اب ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ 

مدارس کے باب میں ریاست کا موقف ظاہر و باہر ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں فزکس‘ کیمسٹری اور انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم شامل کرنے سے مدرسے کی 'اصلاح ‘ ہو جائے گی۔ اس لیے ہر دور میں ریاست مدارس سے یہی مطالبہ کرتی آئی ہے۔ بعض صاحبانِ عقل و دانش اس پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کے پاس کیا انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم کم تھی؟ اصلاح کی اس تجویز پر میں اتنا لکھ چکا ہوں کہ مزید کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔

دینی تعلیم و تربیت میں زوال اور انیسویں صدی کا انقلابی اقدام

بیرن توسی ایک مسیحی عالم نے انیسوی صدی میں ممالک اسلامیہ کا سفر کیا اس نے گیارہ جلدوں میں اپنا سفر نامہ مرتب کیا پھر خاص اہتمام سے مصر سے چھپوایا ۔  اس نے خاص کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا  کہ جن طریقوں پر اسلامی اور عربی علوم کا نظام تعلیم رائج ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

 یہ حقیقت  مصر کے مشہور عالم  شیخ عبدہ نے تسلیم کی ،  انہون نے بیروت میں سید جمال الدین افغانی سے 1892ء ملاقات کی ان کے ساتھ ملکر  انہوں نے  ایک سکیم تیار کی،  اسے مرتب کرکے  اس وقت  ترکی کے شیخ الاسلام کے پاس پھیجی ۔ اس میں شیخ الاسلام کو مشورہ دیا گیا کہ قسطنطنیہ (موجودہ  استنبول) میں ایک نیا مدرسہ اور کالج قائم کیا جائے۔  چانچہ شیخ رشید رضا مصری کے مضامین بھی اس سکیم کا حصہ تھے۔