دینی مدارس کی اصلاحات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دینی مدارس کی اصلاحات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دار الافتاء ڈاٹ انفو۔۔ مختصر تعارف

دار الافتاء ڈاٹ انفو-مختصر تعارف
- دیوبند مکتبہ فکر کے مختلف دار الافتاؤں کے فتاوی سے استفادہ کرنے کے لئے ایک منفرد سرچ انجن۔ 
- دنیا بھر کے دیوبند مکتبہ فکر کے دار الافتاؤں کی ویب سائٹس پر موجود فتاوی یکجا کیا گیا ۔ 
- تمام فتاوی یونیکوڈ، پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب۔
- مستند با حوالہ فتاوی
درج ذیل دارالافتاوں کی ویپ سائٹس دیکھیں 

دار الافتاء دار العلوم دیوبند
دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
دار الافتاء دار العلوم کراچی
دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
دار الافتاء اشرف المدارس کراچی
دار الافتاء خیر المدارس ملتان
دار الافتاء جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن کراچی
دار الافتاء صادق آباد
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
دار الافتاء الاخلاص کراچی
دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

مدرسہ اور ’مدرسہ ڈسکورسز- خورشید ندیم

دینی مدارس کی اصلاحات
یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں، دینی مدارس کے حوالے سے دو مختلف سرگرمیاں، ایک ساتھ جاری تھیں۔

ایک سرگرمی جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے ساتھ دینی مدارس کے ذمہ داران کی سات گھنٹے پر محیط ملاقات تھی۔ دوسری سرگرمی کا تعلق 'مدرسہ ڈسکورسز‘ سے تھا۔ جنرل صاحب نے اتحاد تنظیمات المدارس کے ذمہ داران اور بعض دیگر مذہبی شخصیات کو مدعو کیا تھا تاکہ وہ دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے ان حضرات کی راہنمائی فرمائیں۔ ایسی ہی راہنمائی وہ اس سے پہلے قومی معیشت کے ذمہ داران کو بھی فراہم کر چکے جو اب ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ 

مدارس کے باب میں ریاست کا موقف ظاہر و باہر ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں فزکس‘ کیمسٹری اور انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم شامل کرنے سے مدرسے کی 'اصلاح ‘ ہو جائے گی۔ اس لیے ہر دور میں ریاست مدارس سے یہی مطالبہ کرتی آئی ہے۔ بعض صاحبانِ عقل و دانش اس پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کے پاس کیا انگریزی یا کمپیوٹر کی تعلیم کم تھی؟ اصلاح کی اس تجویز پر میں اتنا لکھ چکا ہوں کہ مزید کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔

دینی تعلیم و تربیت میں زوال اور انیسویں صدی کا انقلابی اقدام

بیرن توسی ایک مسیحی عالم نے انیسوی صدی میں ممالک اسلامیہ کا سفر کیا اس نے گیارہ جلدوں میں اپنا سفر نامہ مرتب کیا پھر خاص اہتمام سے مصر سے چھپوایا ۔  اس نے خاص کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا  کہ جن طریقوں پر اسلامی اور عربی علوم کا نظام تعلیم رائج ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا ۔

 یہ حقیقت  مصر کے مشہور عالم  شیخ عبدہ نے تسلیم کی ،  انہون نے بیروت میں سید جمال الدین افغانی سے 1892ء ملاقات کی ان کے ساتھ ملکر  انہوں نے  ایک سکیم تیار کی،  اسے مرتب کرکے  اس وقت  ترکی کے شیخ الاسلام کے پاس پھیجی ۔ اس میں شیخ الاسلام کو مشورہ دیا گیا کہ قسطنطنیہ (موجودہ  استنبول) میں ایک نیا مدرسہ اور کالج قائم کیا جائے۔  چانچہ شیخ رشید رضا مصری کے مضامین بھی اس سکیم کا حصہ تھے۔