گوشۂ وحید الدین خاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ وحید الدین خاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا وحيد الدين خان کى وفات پر جاويد احمد غامدى کے تاثرات



یکم جنوری، 1925ء کو بڈھریا اعظم گڑھ، اتر پردیش بھارت میں پیدا ہوئے ۔ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل عالم دین، مصنف، مقرر اورمفکر جو اسلامی مرکز نئی دہلی کے چیرمین، ماہ نامہ الرسالہ کے مدیررہے ہیں اور1967ء سے 1974ء تک الجمعیۃ ویکلی(دہلی) کے مدیر رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں بلا تفریق مذہب و نسل مطالعہ کی جاتی ہیں، پانچ زبانیں جانتے تھے، (اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی) ان زبانوں میں لکھتے اور بیان بھی دیتے تھے، ٹی وی چینلوں میں آپ کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ مولانا وحیدالدین خاں، عام طور پر دانشور طبقہ میں امن پسند مانے جاتے ہیں۔ ان کا اصل مشن تھا مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔ اسلام کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں پائى جاتى ہيں انہیں دور کرنا۔ مسلمانوں میں مدعو قوم (غیر مسلموں) کی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پرصبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کرنا  ۔  ہے جو ان کی رائے میں ۔دعوت دین کے لیے ضروری ہے

مولانا وحید الدین خاں اور استاذ جاوید احمد غامدی کا فلسفۂ دعوت(*) - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی (**)

مولانا وحید الدین خاں
راقم خاکسارنے مولاناوحیدالدین خاں[1] کے لٹریچرکا بیش تر حصہ پڑھاہے۔ان کی کلاسوں میں شرکت کی ہے اورکئی مرتبہ ان سے بالمشافہ ملاقات اورگفتگوکرنے کا موقع بھی ملاہے۔ان کے فکری وعملی کا م کے سلسلہ میں راقم کا خیال یہ ہے کہ عصرحاضرمیں مولانا مودودی اورسیدقطب شہید کی دین کی سیاسی تعبیرکے جوتلخ نتائج بعدمیں سامنے آئے، اس کا ادراک سب سے پہلے مولاناوحیدالدین خاں نے کیااوردین کی سیاسی تعبیرکا سب سے زیادہ علمی اورزبردست جواب مولانانے فراہم کیااورایک متبادل دعوتی آئیڈیالوجی پیش کی[2]۔اس کے علاوہ راقم کے نزدیک ان کی بڑی خدمات میں سے یہ ہے کہ :

٭عصرحاضرکی تہذیب نے اورخاص کرسائنسی فکری الحادنے جوچیلنج پیدا کیے، ان کا اپنی بساط بھربہترین جواب دیا، جس کا بہترین نمونہ 'مذہب اور علم جدیدکا چیلنج'،'عقلیات اسلام '،'مذہب اورسائنس' اور 'اظہار دین' ہے۔یہ سائنسی چیلنج کے جواب میں نیاعلم کلام ہے، تاہم اس میں موجودہ کاسمولوجی کے چیلنج کودیکھتے ہوئے مزیدکام کرنے کی ضرورت ہے۔

٭جوامکانات اسلامی دعوت کے لیے موجودہ تہذیب نے پیداکیے ہیں،مثلاً اظہار راے کی آزادی، جدید ذرائع ابلاغ اورآج کے انسان کا سائنٹیفک ذہن وغیرہ، ان امکانات کوایجابی طورپر کیسے استعمال کیاجائے اور پرامن طورپر اسلام کی دعوت کیسے پیش کی جائے۔ اس کے لیے مولانانے ''الرسالہ'' کے پلیٹ فارم سے مسلسل جدوجہدکی ہے۔
جاوید احمد غامدی 

٭تشددکی انھوں نے غیرمشروط مخالفت کی اوراس کوکسی قسم کا جواز اگرمگرکے ذریعے سے نہیں دیا، یعنی دنیابھرمیں امن کی مساعی کے لیے ان کا نظریاتی کام بھی قابل ذکرکنٹری بیوشن ہے۔انھوں نے ثابت کیاکہ اسلامی دعوت میں تشددکا عنصرخداکوقابل قبول نہیں اورنہ آج کے انسان کو،اس لیے بجاطورپران کوامن کا عالمی سفیربھی کہاجاتاہے۔

٭مغربی تہذیب وتمدن کے منفی رجحانات سے بچتے ہوئے اوراس کے سلبی پہلوؤں کونظرانداز کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں سے فائدہ کشیدکرنے کی تعلیم دی ہے۔

٭ہندوستان کے تناظرمیں ملت اسلامیہ ہندکوبے جاجذباتیت،سطحی ہنگامہ آرائی،اورمطالباتی سیاست سے دورکرنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔اوربلاشبہ اس کے مثبت اثرات مسلمانان ہندکی زندگیوں پر پڑے ہیں۔

٭انھوں نے اپنے ادب کے ذریعے سے تذکیربالآخرت کی،خداکی عظمت کا احساس دلایااوربتایاکہ یہی اصل پیغمبرانہ دعوت ہے۔

مولانا وحید الدین خان اور مولانا طارق جمیل - خورشید ندیم

مولانا وحید الدین خان  
'الرسالہ‘ کا تازہ شمارہ میرے سامنے رکھا ہے۔ میں اسے ایک نشست میں پڑھ چکا۔ کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اس کا کوئی پرچہ ملا ہو اور میں نے اسے ایک سے زیادہ نشستوں میں پڑھا ہو۔ مولانا وحیدالدین خان کو، دعوتی تحریروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص قلم عطا کیا ہے۔ اس پر مستزاد ان کا دینی و عصری علوم کا مطالعہ اور فکری مراقبہ۔ مولانا طارق جمیل کا معاملہ بھی یہ ہے کہ انہیں دعوت کی زبان عطا ہوئی ہے۔ لوگوں کو ان کی دعوتی گفتگو مسحور کر دیتی ہے۔

'الرسالہ‘ کا نیا شمارہ پڑھتے وقت، میں بے ارادہ دونوں کے مابین تقابل پر مجبور ہو گیا۔ ستمبر کا 'الرسالہ‘ جنت کے موضوع پر ہے۔ اس کے سرورق پر لکھا ہے: 'خصوصی شمارہ... جنت کی دنیا‘۔ جنت، مولانا طارق جمیل کے خطبات کا بھی خصوصی موضوع ہے۔ جنت کا تصور کیا ہے، اس کی نعمتیں کیسی ہوں گی، یہ کن لوگوں کا مقدر بنے گی، جنت اپنی نوعیت میں کیا ہے، یہ سب سوالات دونوں کے ہاں زیرِ بحث آئے ہیں۔

مولانا طارق جمیل 
جب میں نے سوچنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ دونوں کا تصورِ جنت، بعض مظاہر کی یکسانیت کے باوجود، ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ مولانا وحیدالدین خان اسے جس سوچ اورطرزِ عمل کا حاصل بتا رہے ہیں، وہ اس سوچ اور طرزِ عمل سے مختلف ہے جو مولانا طارق جمیل کے نزدیک کسی کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔

مولانا طارق جمیل نے جنت کی نعمتوں کو جس طرح بیان کیا ہے، اس سے مذہب بیزار یا مذہب مخالف طبقات کو یہ موقع ملا کہ وہ اسے استہزا کا موضوع بنائیں۔ مجالس میں ان کے مواعظ کو ذکر ہوتا ہے اور نوجوانوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

اس کے بر خلاف، مولانا وحیدالدین خان کے ہاں جنت، فکری حوالے سے ایک علمی مقدمہ، جمالیات کے اعتبار سے اعلیٰ جائے قرار اور اپنے تصور میں لطافت کا غیر معمولی پیکر ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جو اعلیٰ ترین جمالیاتی اور علمی ذوق رکھنے والوں کا مستقل ٹھکانہ ہو گی۔ یہ ان ہی کا مقدر ہو گی جو فطرت کے تقاضوں کو اعلیٰ ترین جمالیاتی سطح پر پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔ یہ خدا کی اس معرفت کا انعام ہے جو انسان کا ایک شعوری تجربہ ہوتے ہوئے، اس کے لیے ایک پیکرِ محسوس میں ڈھل جاتا ہے۔

اخلاق کیا ہے ؟ مولانا وحید الدین خان

آج انسان کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج زندگی کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا اور انسانیت کی تعمیر نو کی جائے ۔

اللہ پر زندہ اور طوفانی یقین پیدا کیجئے ؟ مولانا وحید الدین خاں



آج انسان کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج زندگی کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا اور انسانیت کی تعمیر نو کی جائے ۔

گوشۂ وحید الدین خاں ( پیدائش: 1 جنوری 1925- وفات : 21 اپریل 2021)


 یکم جنوری، 1925ء کو بڈھریا اعظم گڑھ، اتر پردیش بھارت میں پیدا ہوئے ۔ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل عالم دین، مصنف، مقرر اورمفکر جو اسلامی مرکز نئی دہلی کے چیرمین، ماہ نامہ الرسالہ کے مدیر ہیں اور1967ء سے 1974ء تک الجمعیۃ ویکلی(دہلی) کے مدیر رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں بلا تفریق مذہب و نسل مطالعہ کی جاتی ہیں۔ خان صاحب، پانچ زبانیں جانتے تھے، (اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی) ان زبانوں میں لکھتے اور بیان بھی دیتے تھے ، ٹی وی چینلوں میں آپ کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ مولانا وحیدالدین خاں، عام طور پر دانشور طبقہ میں امن پسند مانے جاتے ہیں۔ ان کا مشن تھا کہ مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہو ۔ اسلام کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں ہیں انہیں دور کیا جائے۔ مسلمانوں میں مدعو قوم (غیر مسلموں) کی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پرصبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کیا جائے۔  جو ان کی رائے میں دعوت دین کے لیے ضروری ہے۔ 21 اپریل 2021 کو ان کی وفات ہوئی ۔

ماہ نامہ الرسالہ


الرسالہ نامی ایک ماہ نامہ جو اردو اور انگریزی زبان میں شائع کیا جاتا ہے۔ الرسالہ (اردو) کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ذہنی تعمیر ہے اور الرسالہ (انگریزی) کا خاص مقصد اسلام کی دعوت کو عام انسانوں تک پہنچانا ہے، دور جدید میں الرسالہ کی تحریک، ایک ایسی اسلامی تحریک ہے جو مسلمانوں کو منفی کاروائیوں سے بچ کر مثبت راہ پر ڈالنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہے۔ مولانا لکھا ہے کہ