[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]
اسلام قومیت |
رنگ، نسل، زبان، تہذیب و ثقافت اور وطن کی طرح مذہب بھی قومیت کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے۔ صدیوں کے تعامل سے مسلمان اب اِسی حوالے سے ایک قوم بن چکے ہیں اور اگر کوئی چیلنج درپیش ہو تو کم سے کم برصغیر میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی اِس قومیت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اِسی بنا پر فرمایا تھا کہ یہاں کے مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں، اِس لیے کہ دوسری اقوام کے مقابل میں اُن کی تہذیب، ثقافت، زبان و ادب، علوم و فنون، رسوم و روایات، ذہن، مزاج، قانون، اخلاقی ضوابط اور اسلوب حیات، یہاں تک کہ اُن کی تقویم اور نام رکھنے کا طریقہ، سب منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ * قائد اعظم کا یہ ارشاد سراسر حقیقت اور ایک امر واقعی کا بیان تھا جس سے کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں نے بھی نہیں کیا اور ’’اسلام اور ریاست‘‘ کے زیرعنوان اپنے جوابی بیانیے میں کسی جگہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے۔
میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومیت اسلام ہے، اِس لیے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ میرے ناقدین جس بات کی تردید کر رہے ہیں، وہ میں نے کہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے، اُس کی تردید کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص چاہییں اور وہ کسی طرح میسر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک خالص دینی حکم کو ثابت کرنے کے لیے قائد اعظم کی تقریروں اور علامہ اقبال کے اشعار اور تحریک پاکستان کے واقعات پر اکتفا کر لی گئی ہے۔