اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اِس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ اِس کو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں دلائل کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اِس کی تفصیلات کے لیے تو ہماری اِس کتاب ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن اِس کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اُس کا ایک خلاصہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:
۱۔ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اُسی کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، اُس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اِسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اُنھوں نے اِس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور اُن میں بسنے والے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو اِسی حیثیت سے کر سکتے ہیں۔