ریاست اور حکومت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ریاست اور حکومت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اسلام اور قومیت - جاوید احمد غامدی

[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]
اسلام قومیت 


رنگ، نسل، زبان، تہذیب و ثقافت اور وطن کی طرح مذہب بھی قومیت کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے۔ صدیوں کے تعامل سے مسلمان اب اِسی حوالے سے ایک قوم بن چکے ہیں اور اگر کوئی چیلنج درپیش ہو تو کم سے کم برصغیر میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنی اِس قومیت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اِسی بنا پر فرمایا تھا کہ یہاں کے مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں، اِس لیے کہ دوسری اقوام کے مقابل میں اُن کی تہذیب، ثقافت، زبان و ادب، علوم و فنون، رسوم و روایات، ذہن، مزاج، قانون، اخلاقی ضوابط اور اسلوب حیات، یہاں تک کہ اُن کی تقویم اور نام رکھنے کا طریقہ، سب منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ * قائد اعظم کا یہ ارشاد سراسر حقیقت اور ایک امر واقعی کا بیان تھا جس سے کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں نے بھی نہیں کیا اور ’’اسلام اور ریاست‘‘ کے زیرعنوان اپنے جوابی بیانیے میں کسی جگہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے۔


میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومیت اسلام ہے، اِس لیے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ میرے ناقدین جس بات کی تردید کر رہے ہیں، وہ میں نے کہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے، اُس کی تردید کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص چاہییں اور وہ کسی طرح میسر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک خالص دینی حکم کو ثابت کرنے کے لیے قائد اعظم کی تقریروں اور علامہ اقبال کے اشعار اور تحریک پاکستان کے واقعات پر اکتفا کر لی گئی ہے۔

خلافت - جاوید احمد غامدی

[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]
خلافت -  جاوید احمد غامدی 

اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ہرگز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ دینی اصطلاحات رازی، غزالی، ماوردی، ابن حزم اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتیں اور نہ ہر وہ لفظ جسے مسلمان کسی خاص مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیں، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے بنانے سے بنتی ہیں اور اُسی وقت قابل تسلیم ہوتی ہیں، جب اِن کا اصطلاحی مفہوم قرآن و حدیث کے نصوص یا دوسرے الہامی صحائف سے ثابت کر دیا جائے۔ صوم، صلوٰۃ اور حج و عمرہ وغیرہ اِسی لیے دینی اصطلاحات ہیں کہ اُنھیں اللہ اور اُس کے رسولوں نے یہ حیثیت دی ہے اور جگہ جگہ اُن کے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ لفظ ’خلافت‘ اِس کے برخلاف عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور نیابت، جانشینی اور حکومت و اقتدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ اِس کے لغوی مفاہیم ہیں اور قرآن و حدیث میں ہر جگہ یہ اپنے اِن لغوی مفاہیم ہی میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کی جو آیات ’خلیفہ‘ اور ’خلافت‘ کے الفاظ کو اُن کے ترجمے میں بعینہٖ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے، اُنھیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لیجیے، حقیقت اِس طرح واضح ہو جائے گی کہ آپ کے پاس بھی تبصرے کے لیے کوئی الفاظ باقی نہیں رہیں گے، جس طرح کہ میرے ناقدین میں سے ایک صاحب علم کے پاس نہیں رہے ہیں۔ میں یہاں دو جلیل القدر علما کے تراجم پیش کیے دیتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے:

ریاست اور حکومت ۔ جاوید احمد غامدی

ریاست اور حکومت - جاوید احمد غامدی
[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]


ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم سیاست کی اصطلاح میں ریاست معاشرے کی سیاسی تنظیم ہے اور حکومت کا لفظ اُن ارباب حل و عقد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اُس میں نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔ پہلے ریاست کو لیجیے۔ اِ س کی جو اقسام اب تک دنیا میں نمایاں ہوئی ہیں، وہ اصلاً تین ہی ہیں: 


ایک، جزیرہ نماے عرب کی ریاست جس کے حدود خود خالق کائنات نے متعین کر کے اُس کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم پر اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکز اُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کر دیا گیا کہ ’لا یجتمع فیھا دینان‘ ’’اب قیامت تک کوئی غیر مسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا۔‘‘ اِس سے پہلے کئی صدیوں تک یہی حیثیت ریاست فلسطین کی تھی۔ اسلام اور اسلامی شریعت کے مخاطب یہاں بھی اپنی مختلف حیثیتوں میں افراد ہی ہوں گے، تاہم اِس طرح کی ریاست کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اِس کا مذہب اسلام ہے اور اِس میں حکومت بھی اسلام ہی کی ہو گی تو یہ تعبیر ہر لحاظ سے قابل فہم ہے۔ اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔