مضامین ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت -
 ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی 
 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

قرآن مجید کے انگریزی تراجم : اکیسویں صدی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کا کام برابر جاری ہے۔ انگریزی زبان میں بھی بہت سے تراجم ہوئے ہیں۔ یہ کام 17 ویں صدی عیسوی سے شروع ہوگیا تھا۔ ترجمہ کا کام مستشرقین (یہودی اور عیسائی) نے بھی کیا ہے، قادیانیوں نے بھی اور مسلمانوں نے بھی، جن کا تعلّق مختلف مکاتبِ فکر سے ہے۔ بہت سے اردو تراجمِ قرآن کو بھی انگریزی میں ڈھالا گیا ہے۔ ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان انگریزی تراجمِ قرآن کا جائزہ لیا جائے، مترجمین کا تعارف کرایا جائے، ان کے ذہن (mind set ) کو پرکھا جائے اور ان تراجم میں جو منحرف افکار و خیالات شامل کردیے گئے ان سے دوسروں کو واقف کرایا جائے، تاکہ قارئین ان سے دھوکہ نہ کھائیں۔

نصابِ تعلیم میں دینی و عصری توازن . محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 2 اکتوبر ، 2016)


تعلیم کے سلسلے میں نصابِ تعلیم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔اس کا شمار مقاصدِ تعلیم کے حصول کے اہم ذرائع میں کیا جاتا ہے۔تعلیم کے مثلث– استاد ،طالب علم اور نصاب– کا یہ اہم زاویہ ہے۔اس کا دیگر دو زاویوں سے بڑا گہرا تعلق  ہوتاہے۔ نصاب تعلیم کے ذریعے منصوبہ بند طریقے سے مناسب درجہ بندی کے ساتھ طلبہ کو تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔اس کے لیے اسے طلبہ کی ضروریات کے پیش نظر مختلف مضامین اور تدریسی عناصر پر مشتمل ہونا چاہیے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جن چیزوں کی مدد سے متعین تجربوں کے ذریعے طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے،ان کا نام نصاب تعلیم ہے۔نصاب تعلیم افراد کی شخصیتوں کو نشوونما دینے، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور زندگی میں آئندہ پیش آنے والے مراحل میں ان کی رہ نمائی کرنے کا کام انجام  دیتا ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ  نے ایک جگہ لکھا ہے:

’’یہ ایک مسلّم اور معروف حقیقت ہے کہ نصاب ِتعلیم کو نئی نسل کی ذہنی تشکیل و تعمیر اور ملت و ملک کی قیادت و رہ نمائی کی صلاحیت عطا کرنے اور قدیم ذخیرۂ علوم و تصنیفات  سے فائدہ اٹھانے اور فائدہ پہنچانے،بلکہ ملک و ملت کی رہ نمائی و ذہن سازی کی صلاحیت پیدا کرنے میں خاص اور بنیادی دخل ہے۔‘‘
(مقدمۂ کتاب’ ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟ ‘از مولانا سلمان حسینی ندوی،ص۲۵)

علامہ شبلیؒ اور سید مودودیؒ کے تعلیمی افکار – ایک تقابلی مطالعہ ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 2 اکتوبر 2016 ) 


علامہ شبلی نعمانی  ؒ(۱۸۵۷ئ۔۱۹۱۴ئ) اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ(۱۹۰۳ئ۔۱۹۷۹ئ) دونوں کا شمار چودھویں صدی ہجری؍ بیسویں صدی عیسوی کے عظیم مفکرین میں ہوتا ہے۔دونوں نے سماج کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے اور ان پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔دونوں کی اصل اور نمایاں خدمات اگرچہ دوسرے میدانوں میں ہیں،لیکن انھوں نے تعلیمی میدان میں بھی اپنے قیمتی افکار پیش کیے ہیںاور ان کو عملی سطح پر بھی نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔

تعلیمی سرگرمیاں

علامہ شبلی کی شہرت مورخ ،سیرت نویس، سوانح نگار اور ادیب کی حیثیت سے ہے۔ان میدانوں میں ان کی وقیع تصنیفات ایک صدی گزرجانے کے باوجود اب بھی اہل علم کا مرجع بنی ہوئی ہیں۔لیکن ان کی ماہر تعلیم کی حیثیت بھی مسلّم ہے۔وہ قدیم اور جدید دونوں طرح کے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے ہیںاور ان کی پالیسی سازی میں سرگرم حصہ لیا ہے۔وہ ۱۸۸۳ء میں سرسید علیہ الرحمۃ(۱۸۱۷ئ۔۱۸۹۸ئ) کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O.College) علی گڑھ سے بہ حیثیت استاد وابستہ رہے اور ۱۸۹۸ء تک سولہ سال وہاں تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ وہ وہاں محض ایک استاد نہ تھے، بلکہ انھوں نے سر سید کی تعلیمی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں برابر شرکت کی۔ایم ۔اے۔او کالج کو یونیورسٹی بنانے کی تحریک میں شامل ہوئے۔اس سلسلہ میں انھوں نے ۱۹۱۱ء میں ایک وفد کے ساتھ وزیر تعلیم سے ملاقات کی۔وہ ۱۹۱۴ء میں مسلم یونیورسٹی فاونڈیشن کمیٹی کے رکن بھی نام زد ہوئے۔اسی طرح انھیں ۱۹۰۰ء میں دینیات کمیٹی علی گڑھ کالج کا رکن بنایا گیا۔

مسلمانوں کا تعلیمی نظام— ایک تاریخی جائزہ ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

( تاریخ اشاعت : 12 دسمبر 2016) 

(یہ مضمون جامعۃ الحکمۃ بھوپال کے تحت ایک عمومی جلسے ، منعقدہ ۲۳؍ اپریل ۲۰۱۶ء میں پڑھا گیا تھا ، جس میں بھوپال کے دینی مدارس اورعصری تعلیمی اداروں کے ذمہ داران ، اساتذہ اوردیگر شائقینِ علم شریک تھے۔)


موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے دو دھارے (Stream) جاری ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔یہ دونوں دھار ے متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے با وجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح ان دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔ والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ڈاکٹر، انجینیر، آرکیٹکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے، لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امامت اور مدرسے کی مسند صدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے، لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔

صحیفہ ہمام بن منبہ: تحقیق کا شاہ کار ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 25 اکتوبر 2018)

 ڈاکٹر محمد حمید اللہ (1908۔2002ء ) نے اسلامیات کے مختلف پہلووں پر تصنیف و تالیف، ترجمہ اور تحقیق کی خدمت انجام دی ہے۔ وہ بیسوی صدی عیسوی کے ان نام ور محققین میں سے ہیں جنھیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ بہت سی زبانوں پر انھیں عبور حاصل تھا، جن میں انھوں نے خود بھی لکھا ہے اور ان کی کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے ہیں ۔ ان کی خدمات کا ایک اہم پہلو قدیم مصادر و مراجع کی تلاش اور مخطوطات کی تحقیق و تدوین ہے۔ ان کے تحقیقی کاموں میں صحیفۂ ہمام بن منبہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ان کی تحقیق کا شاہ کار ہے ۔

اشاعتیں

  1933ء میں ڈاکٹر حمید اللہ کو برلن کے سرکاری خزانے میں صحیفۂ ہمام بن منبہ کا ایک ناقص مخطوطہ ملا۔ اسے انھوں نے وہیں نقل کیا اور اس تلاش میں رہے کہ اس نادرِ روزگار کتاب کا کوئی اور نسخہ مل جائے تو اس سے موازنہ کرکے اسے شائع کریں ۔ بیس(20) سال کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہوئی۔1953ء میں انھیں اس کا دوسرا نسخہ دار الکتب الظاہریۃ د مشق میں ملا۔ دونوں کا مقابلہ کر کے انھوں نے ایک محقق ایڈیشن تیار کیا، جوسب سے پہلے دمشق کی عربی اکیڈمی المجمع العلمی العربی کے مجلہ میں 1953ء/ 1372ھ کے چار شماروں میں بالاقساط شائع ہوا ۔  پھر اکیڈمی ہی نے اسے بعض اصلاحات کے ساتھ الگ سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی مولانا محمد حبیب اللہ نے کیا، جو 1956ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ تیسرا ایڈیشن عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ ساتھ ہی اس میں عربی دیباچہ کا اردو ترجمہ ضروری اصلاح و ترمیم کے بعد شامل کیا گیا ۔ اس کے کچھ ایڈیشن فاضل محقق کے علم و اطلاع کے بغیر بھی شائع ہوئے۔ 1988ء میں کراچی(پاکستان) کے ایک علم دوست جناب رشید اللہ یعقوب نے ان کی اجازت سے دو ہزار نسخے چھپواکر صدقۂ جاریہ کے طور پر تقسیم کیے تھے۔ ان کی عنایت سے ایک نسخہ راقم الحروف کو بھی حاصل ہوا تھا۔ڈاکٹر موصوف نے اسے طبع چہارم قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے مختصر پیش لفظ میں لکھا ہے:

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 24 نومبر 2018)


’انسانی حقوق‘ (Human Rights)کا موضوع زبان زد عام و خاص ہے۔ اس کا تذکرہ ہر مجلس میں ہوتاہے۔ ہر ادارہ ، ہر انجمن، ہر ملک اس کا چرچا کرتاہے اور اس کی دہائی دیتاہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق پر عمل نہیں کرتے ، دوسرے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں اور انہیں غصب کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں ، وہ بھی ان حقوق کی دہائی دینے سے نہیں تھکتے۔ آئندہ سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے انسانی حقوق کا کیا تصور دیاہے ؟ آپؐ نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ انسانی حقوق کے موجودہ رویوں اور بیانات سے کس قدر مختلف ہیں؟ آپؐ نے ان پر کس طرح خود عمل کرکے دکھایا ہے ؟ اور آپؐ کے پیروکار وں نے بھی کس طرح ان پر عمل کیا ہے۔

ترکی کا قضیہ

 محمد رضی الاسلام ندوی 

پندرہ روزہ معارف ، کراچی 
 اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی  
تاریخ اشاعت : 1 جولائی 2018   

ترکی کے صدارتی انتخابات میں رجب طیّب ایردوان کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس خبر نے مجھے خوشی سے سرشار کردیا اور میری طرح دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں انسان بھی اپنی مسرّت کو چھپا نہیں سکے۔ ٹھیک اسی طرح بہت سوں کی طرف سے منفی تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وہ انہیں بدترین آمر ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور بطور ثبوت ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی کمزوریاں اور غلطیاں نمایاں کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جنھیں اس سے بھی تسلّی نہیں ہو رہی ہے، چنانچہ وہ زہر میں بجھے ہوئے طنز و تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں اور ان کی جانب ’امیرالمومنین‘ اور ’سلطان الامہ‘ جیسے القاب منسوب کر رہے ہیں۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا تنقیدی اسلوب

محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند،نئی دہلی
معاون مدیر ،سہ ماہی تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے تصنیفی سرمایہ کا جائزہ لیں تو اس کا قابلِ لحاظ حصہ سیر و سوانح کے موضوع پر نظر آتا ہے۔ ان کا سلسلۂ ’تاریخِ دعوت و عزیمت‘ اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اس میں امت کے مجدّدین و مصلحین کے احوال،دینی و علمی خدمات، تجدیدی کارناموں اور داستانِ عزیمت کو بڑے مؤثر اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘ ہندوستان کی تاریخ کے ایک عہد پر روشنی ڈالتی ہے اور سید شہیدؒ کے داعیانہ و مجاہدانہ کارناموں کا بھر پور انداز میں تعارف کراتی ہے۔ان کے علاوہ سیر و سوانح کے موضوع پر مولانا کی اور بھی متعدد تصانیف ہیں، مثلاً صحبتے با اہلِ دل، حیاتِ عبد الحیؒ،مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت وغیرہ۔

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 
 رسولِ اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پرائیویٹ اور پبلک، دو حصوں میں منقسم نہیں تھی۔ آپ جیسے گھر سے باہر نظر آتے تھے، ویسے ہی گھر کے اندر بھی تھے۔ آپ کی گھریلو او ربیرونی، دونوں زندگیوں میں حد درجہ مطابقت تھی۔ آپ کی نجی اور گھریلو زندگی ایک کھلی کتاب کے مثل تھی۔ آپؐ نے اسے نہ صرف یہ کہ کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ گھر والوں، خادموں اور قریبی لوگوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ آپؐ کو جس حال میں بھی دیکھیں اور جو کچھ کرتے یا کہتے ہوئے پائیں اسے بغیر کسی ادنیٰ تامّل کے دوسروں سے بیان کرسکتے ہیں۔

قرآن وسنت کا باہمی ربط

قرآن وسنت کا باہمی ربط 
ڈاکٹر محمد  رضی الاسلام ندوی 
کمپنی کوئی مشینری تیار کرتی اور اسے مارکیٹ میں لانچ کرتی ہے تو وہ دو کام انجام دیتی ہے۔ایک یہ کہ وہ اس کا مینول(Manual)
تیار کرتی ہے ،جس میں بتاتی ہے کہ وہ مشینری کیسے تیار کی گئی؟ اس کے پرزے کیا کیا ہیںاور وہ کس طرح کام کرتے ہیں ؟اس مشینری کو کس طرح استعمال کیا جائے اور کس طرح نہ استعمال کیا جائے؟اس سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟اگر اس میں کوئی خرابی آجائے تو اسے کس طرح درست کیا جائے؟وغیرہ۔اس مشینری سے متعلق اس طرح کی تمام ضروری تفصیلات اس مینول میں درج ہوتی ہیں۔ساتھ ہی کمپنی دوسرا کام یہ بھی کرتی ہے کہ اس مشینری کو سپلائی کرتے وقت اپنا ایک نمائندہ خریدار کے پاس بھیجتی ہے،جو اس کے سامنے اس مشینری کاDemonstrationکرتا ہے،اس کے استعمال کا طریقہ بتاتا ہے،اسے چلا کر دکھاتا ہے،خریدار کو سمجھاتا ہے کہ اس سے کس طرح کام لیا جائے؟مینول میں درج کوئی بات خریدار کی سمجھ میں نہیں آتی ہے تواس کی تشریح کرتا اور اس کا مفہوم واضح کرتا ہے۔     قرآن و سنت کے باہمی ربط کو اس مثال کے ذریعے بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جسے اس نے اپنے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔اس میں وہ تمام باتیں درج ہیں جن سے اللہ نے اپنے بندوں کو آگاہ کرنا چاہا ہے۔یہ کائنات کیوں پیدا کی گئی ہے؟اس میں انسان کا کیا مقام ہے؟ اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ یہاں کس طرح کی زندگی گزارنا مطلوب ہے؟ کن کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور کون سے کام اس کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں؟ کن کاموں پر وہ مرنے کے بعد اجر و انعام سے بہرہ ورہوگا اور کن کاموں کی سزا پائے گا؟ اس طرح کی تمام باتیں، جن کا جاننا انسانوں کے لیے ضروری تھا، قرآن میں ذکر کر دی گئی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے اسی پر اکتفانہیں کیا،بلکہ اس کے ساتھ انسانوں ہی میں سے اپنے ایک بندے کو منتخب کرکے بھیجا، تاکہ وہ ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کرے، قرآن میں جو تعلیمات اور احکام بیان کیے گئے ہیں ان پر عمل کر کے دکھائے،جو باتیں قرآن میں مجمل انداز میں ذکر کی گئی ہیں انھیں کھول کھول کر بیان کرے،اس کے جن مضامین کو سمجھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے انھیں قابل فہم بنائے۔اللہ کے رسولﷺ نے بعثت کے بعد اپنی تیئس(۲۳)سالہ زندگی میں یہی خدمت انجام دی ہے۔آپ نے، وحی کی شکل میں اللہ کا جو کلام نازل ہوتا رہا، اسے نہ صرف یہ کہ بے کم و کاست اس کے بندوں تک پہنچایا، بلکہ اس کی تشریح و توضیح کی خدمت بھی انجام دی اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔
یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ِ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمَْ (النحل:۴۴)
’’اور اب یہ ذکر ہم نے تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاو ٔ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے‘‘
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتٰبَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ (النحل:۶۴)
’’ ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تا کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں‘‘
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ (النسائ:۱۰۵)
’’اے نبی ،ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے،تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق  لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو‘‘
سنت اور حدیث
رسول اللہ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات(یعنی سکوت تائیدی)کو اصطلاحی طور پر ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔اسی معنیٰ میں محدثین لفظ’سنت‘کا بھی استعمال کرتے ہیں۔امام شاطبی ؒ نے لکھا ہے:
’’یطلق لفظ السنۃ علی ما جاء منقولاً عن النبی ﷺ علی الخصوص مما لا نص علیہ فی الکتاب العزیز‘‘
[الموافقات فی اصول الشریعۃ،طبع قاھرۃ،۴؍۳] ’’لفظ سنت کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو نبی سے منقول ہو،خاص طور پر وہ چیز جس پر کتاب اللہ کی نص نہ ہو‘‘
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
’’فاما معناھاشرعاً فی اصطلاح اھل الشرع فھی قول النبی و فعلہ و تقریرہ‘‘
[ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من الاصول،طبع مکۃالمکرمۃ،ص۲۹] ’’اہل شرع کی اصطلاح میں سنت کا شرعی معنیٰ نبی کا قول،فعل اور تقریر ہے‘‘
علامہ طاہرالجزائری کہتے ہیں:
’’اما السنۃ فتطلق علی الاکثر علی ما اضیف الی النبی ﷺ من قول او فعل او تقریر،فھی مرادفۃ للحدیث عند علماء الاصول‘‘                            [توجیہ النظر الی اصول الاثر،ص۳] ’’سنت کا اطلاق زیادہ تر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت نبی ﷺ کی جانب ہو،چاہے وہ آپ کا قول ہویا فعل یا تقریر۔علمائے اصول کے یہاں یہ حدیث کے مترادف ہے‘‘
بعض حضرات سنت اور حدیث میں فرق کرتے ہیں۔ان کے نزدیک سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر آپ نے عمل کیا ہواور آپ کے بعد بھی برابر اس پر عمل ہوتا آیا ہو اور وہ آپ سے ثابت شدہ ہو،جب کہ حدیث ہر وہ قول، فعل یا تقریر ہے جس کی نسبت آپ کی طرف کی جائے۔یہ حضرات دونوں کی حیثیتوں میں فرق کرتے ہیں۔ان کے نزدیک سنت تو قطعی، یقینی اور قابل حجت ہے،لیکن حدیث ظنی ہونے کی وجہ سے نا قابل احتجاج ہے۔
علمائے محققین نے سنت اور حدیث کے درمیان اس تفریق کو درست نہیں قرار دیا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی قول ہو یا عمل،اگر اس کی نسبت آپ کی طرف صحیح اور ثابت ہو تو وہ حجت اور قابل استدلال ہے۔
حجیت حدیث
ایک مسئلہ ابتدا سے یہ زیر بحث رہا ہے کہ دین کے معاملے میں احادیث حجت ہیں یا نہیں؟ بعض گروہ اور افراد ایسے پائے گئے ہیں، جو ان کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔اس معاملے میں ماضی بعید میں ’خوارج ‘ نامی گروہ کو شہرت ملی اور ماضی قریب میں اس قسم کے افکار رکھنے والے ’اہل قرآن‘ کہلائے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں صرف ’قرآن‘ حجت ہے۔ وہی احکام قابلِ قبول اور لائق نفاذ ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں۔ اللہ کے رسول دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ آپ کا اصل کام صرف قرآن کو اللہ کے بندوں تک بے کم وکاست پہنچادینا تھا۔ اس کی تعبیر وتشریح کے طور پر آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اپنی بشری حیثیت میں کیا، جسے قبول کرنے کے ہم پابند نہیں ہیں۔ آپ نے احکام قرآن کی اپنے عہدکے اعتبار سے تعبیر وتشریح فرمائی اور ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ ان کی تعبیر وتشریح اپنے زمانے کے اعتبار سے کریں۔
جمہورِاْمت نے اس فکر کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے گم راہی قرار دیا ہے، چنانچہ خوارج اور اہل قرآن دونوں کا شمار فرق ضالّہ (گم راہ فرقوں) میں ہوتا ہے۔ جمہور کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ اقوال وافعال دین میں اسی طرح حجت ہیں جس طرح قرآن حجت ہے، اگرچہ ان کا درجہ قرآن کے بعد آتا ہے۔ ان کی حجیت کے دلائل خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اور آپ کے فیصلوں اور احکام کو واجب التعمیل قرار دیا اور ان کی مخالفت سے ڈرایا ہے۔ارشاد ہے:
ِ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ(النسائ:۵۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو،اگر تم واقعی اللہ ار روز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما(النسائ:۶۵)
’’ نھیں (اے محمد) تمھارے رب کی قسم، یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی معاملات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سر بہ سر تسلیم کرلیں‘‘
ْ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا (الحشر:۷،)
’’جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ‘‘
قرآن سے حدیث کے ربط کی مختلف جہات
قرآن سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:
۱۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرآن میں مذکور احکام ہی کا تذکرہ بطور تاکید وتائید آیا ہے، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک، جھوٹی گواہی، والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نفس کی ممانعت وغیرہ۔
۲۔بہت سی احادیث قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کوئی حکم مجمل بیان ہوا ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ کوئی حکم قرآن میں مطلق مذکور ہے، احادیث میں اس کے سلسلے میں بعض قیود عائد کردی گئی ہیں۔ کسی حکم کا تذکرہ قرآن میں عمومی صیغے میں ہے، احادیث میں اس کی تخصیص کردی گئی ہے، مثلاً قرآن میں نمازقائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات، رکعتوں کی تعداد، ادائی نماز کا طریقہ، زکوٰۃ کی مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرآن میں خرید وفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی جائز اور ناجائز صورتیں اور سود کی تفصیلات مذکور ہیں۔
۳۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی واجب الاتباع ہیں، مثلاً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع کرنے کی حرمت جن کے درمیان پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہو، یا شکاری درندوں اور پرندوں اور گھریلو گدھوں کی حرمت، یا مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ، یا میراث میں دادی کا حصہ، یا شادی شدہ زانی کو رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ
(اصول الفقہ، محمد ابوزہرۃ، دارالفکر العربی القاہرۃ، ۱۹۵۸ئ،  ص۲۱۱، علم اصول الفقہ، عبدالوہاب خلاف، مکتبۃ الدعوۃالاسلامیۃ، قاہرہ، ص ۳۹۔۴۰، السنۃ و مکانتہا فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر مصطفی السباعی، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۱۴۔۴۱۶)
یہ تقسیم جمہور کے نقطۂ نظرسے ہے۔ بعض علما، جن میں علامہ شاطبی ؒخصوصیت سے قابل ذکر ہیں، حدیث کی صرف اوّل الذکر دوقسمیں قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جملہ احادیث قرآن کی تشریح وتبیین کے قبیل سے ہیں۔ کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی اصل قرآن میں موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر حدیث میں درندوں اور شکاری پرندوں کی حرمت کا تذکرہ ہے۔ اس کی اصل آیت قرآنی: وَیْحِلّْ لَہْمْ الطَّیِّبٰتِ وَیْحَرِّمْ عَلَیہِمْ الخَبٰئِثَ (الاعراف :۵۱) میں موجود ہے۔ حدیث میں مذکور احکام دیت کی اصل آیت فَدِیۃ مْسَلَّمۃ اِلیٰ اَھلِہ(النسائ:۹۲) میں پائی جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموافقات فی اْصول الشریعۃ، ابواسحاق الشاطبی، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، ۴/۱۲۔۱۷)
موجودہ دور میں عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ ابوزہرہؒ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے۔ انھوں نے حدیث کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں بیان کرتے ہوئے ہر قسم کی مثالیں دی ہیں۔ پھر تیسری قسم کی مثالوں کے ضمن میں لکھاہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کی اصل کتاب الٰہی میں موجود ہے… ہم سنت میں مذکور ایک حکم بھی ایسا نہ پائیں گے جس کی اصل قریب یادْور سے قرآن میں موجود نہ ہو۔ اسی لیے بعض علما نے فرمایا ہے: سنت میں جو حکم بھی مذکور ہے اس کی اصل اللہ کی کتاب میں ضرور پائی جاتی ہے۔ اس راے کو امام شافعیؒ نے الرسالہ میں نقل کیا ہے۔ ان کے بعد شاطبیؒ نے بھی اپنی کتاب الموافقات میں اس کا اثبات کیا ہے… تم سنت میں کوئی ایک حکم بھی ایسا نہ پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی انداز سے دلالت نہ کرتا ہو‘‘۔
(اصول الفقہ، ابوزہرۃ، ص۳ ۱۱۔۱۱۴)
حدیث رسول کی تشریعی حیثیت
حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی تقسیم کے سلسلے میں علما کا یہ اختلاف کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ جمہوراْمت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اور ثابت شدہ تمام احادیث اور احکام ، خواہ انھیں مستقل حیثیت دی جائے یا قرآن کی تشریح وتببین کے قبیل سے مانا جائے، واجب التعمیل ہیں۔ جو علما تمام تراحادیث کو قرآن کی شارح ومبّین قرار دیتے ہیں وہ بھی اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ اسی بنا پر موجودہ دَور کے مشہور شامی عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی ؒنے اس اختلاف کو لفظی قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’خلاصہ یہ کہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ سنت میں کچھ ایسے نئے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں منصوص اور صراحت سے مذکور نہیں ہیں۔ پہلا فریق کہتا ہے کہ اس سے اسلامی قانون سازی میں سنت کی مستقل حیثیت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سنت سے ایسے احکام ثابت ہیں جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہیں ہیں۔ دوسرا فریق تسلیم کرتا ہے کہ وہ احکام قرآن میں صراحت سے مذکور نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ احکام کسی نہ کسی پہلو سے نصوصِ قرآن کے تحت آجاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث، جس سے ایسا حکم ثابت ہوتا ہو جو قرآن میں مذکور نہیں ہے، وہ ضرور قرآن کے کسی نص یا اس کے کسی اصول کے تحت داخل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے اس پر عمل درست نہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ دونوں فریق اس بات کے قائل ہیں کہ سنت میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ ایک فریق سنت کو مستقل تشریعی حیثیت دیتا ہے۔ دوسرا فریق اسے مستقل حیثیت نہیں دیتا، لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔(السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی، مصطفی السباعی، ص۰۲۴)
تفسیرِ قرآن میں حدیث سے استفادہ
تفسیرِ قرآن کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں دوسری آیات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور یہ بھی تلاش کیا جائے کہ اس کے متعلق احادیث و آثار ہیں یا نہیں؟ اگر ہوں تو انھیں بھی دیکھا جائے۔ تعارض کی صورت میں تطبیق و تاویل کی کوشش کی جائے، ورنہ قرآن کو حدیث پر مقدم رکھا جائے۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ قرآن کی تفسیر میں صرف قرآن پر اکتفا کیا جائے اور احادیث و آثار کو یکسر نظر انداز کردیا جائے، خواہ وہ آیت کے موافق ہوں یا ظاہراً مخالف۔ ایک مومن کی دلی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس آیت کے سیاق و سباق میں نبی اکرم ﷺ نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔
قرآن کی تفسیر کرتے وقت احادیث و آثار کی طرف نہ دیکھنا در حقیقت رسول اللہ ﷺ کی ’مبیّن قرآن‘ کی حیثیت کو نظر انداز کردینا ہے۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ حدیث کے ظاہراً مخالف قرآن ہونے کی صورت میں اس کی تاویل و توجیہ نہ کرنے یا اس کے ردّ و قبول کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرنے سے یہ ذہن بنے گا کہ حدیثِ صحیح قرآن کے مخالف بھی ہوتی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی تفسیر میں اگر احادیث و آثار ہوں تو انھیں دیکھا جائے۔
پورا قرآن تواتر سے ثابت ہے، لیکن تواتر سے ثابت ہونے والی احادیث بہت ہی کم ہیں۔ اس لیے راویوں کی تعداد اور ان کے حالات کے اعتبار سے احادیث کی درجہ بندی ہوگی اور اسی اعتبار سے ان سے استدلال و استنباط کی بنیاد رکھنا ہوگی۔

فہم قرآن کے لیے حدیث کی ضرورت کہاں کہاں ہے؟
گذشتہ تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ قرآن فہمی کے لیے حدیث سے استفادہ ضروری ہے۔ یہ ضرورت کہاں کہاں پیش آتی ہے:
۱-  غرائبِ قرآن اور مشکلاتِ قرآن کی مراد جاننے کے لیے:
۲-  شان نزول سے واقف ہونے کے لیے : مثلاً وہ آیاتِ کریمہ جن میں کسی واقعہ، کسی سوال کا جواب، یا کسی تنبیہ وغیرہ کا ذکر ہو۔
اس قسم کی چند آیتیں یہ ہیں:
سورۂ انفال ، آیت ۵ تا ۱۱ میں غزوۂ بدر کا واقعہ، سورۂ آل عمران آیات ۱۵۲ تا ۱۵۵ اور ۱۶۵ تا ۱۶۸ میں غزوۂ احد کا واقعہ، سورۂ احزاب آیات ۹ تا ۲۵ میں غزوۂ خندق کا واقعہ، سورۂ فتح آیات ۱ تا ۱۰ و ۱۸ تا ۲۷ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ، سورۂ توبہ آیات ۷ تا ۲۴ اور ۳۸ تا ۴۲ میں فتحِ مکہ اور غزوۂ تبوک کاواقعہ، سورۂ احزاب ، آیات ۳۶ و ۳۷ میں حضرت زینبؓ سے نکاح کا واقعہ، سورۂ نور آیات ۱۱ تا ۲۰ میں واقعۂ افک، سورۂ جن آیات ۱ تا ۱۹ میں جنات کے وفد کا رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سننے کا ذکر اور سورۂ توبہ آیات ۱۰۷ تا ۱۱۰ میں مسجد ضرار کا قصہ وغیرہ۔
۳-  اس تفسیر سے واقف ہونے کے لیے جو رسول اللہ ﷺؓ سے منقول ہو، مثلاً آیتِ کریمہ:
الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ إِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ۔ (الانعام: ۸۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ’ظلم‘ کے ساتھ مخلوط نہیں کیا۔‘‘
اس میں ’ظلم‘ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے ’شرک‘ سے فرمائی اور استدلال میں آیتِ کریمہ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: ۱۳) کی تلاوت فرمائی۔
اور آیت کریمہ:
فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتٰبَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْراً۔ (الانشقاق:۷-۸)
’’اور بہر حال جسے اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ ‘‘
اس میںآں حضرت ﷺنے ’حِسَاباً یَّسِیْراً‘ کی تفسیر ’عرض‘ سے کی۔ یعنی صرف حساب پیش ہوجائے گا، کچھ کھود کرید اور پوچھ تاچھ نہ ہوگی۔
السنۃ قاضیۃ علی الکتاب کا صحیح مفہوم:
قرآن و سنت کے باہمی تعلق کی وضاحت کے لئے محدثین نے بعض ایسی تعبیرات اختیار کی ہیں جو ذہنوں میں خلجان پیدا کردیتی ہیں۔ مثلاً امام یحییٰ بن ابی کثیر ؒ(م۱۲۹ھ )نے فرمایا ہے:
السنۃ قاضیۃ علی الکتاب، ولیس الکتاب قاضیاً علی السنۃ۔(سنن الداری  ۱؍۱۱۷)
’’سنت قرآن کا فیصلہ کرنے والی ہے،قرآن سنت کا فیصلہ کر نے والا نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح امام مکحولؒ(م۱۱۲ھ )کا قول ہے۔
الکتاب احوج الی السنۃ من السنۃ الی الکتاب  (ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ، ۲؍۱۹۱، تفسیر القرطبی  ۱؍۳۹)
’’جتنی ضرورت سنت کو قرآن کی ہے ،اس سے زیادہ ضرورت قرآن کو سنت کی ہے۔‘‘
بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملہ قرآن کے مقام و مرتبہ کو کم کرتا اور سنت کے مقابلے میں اس کی حیثیت گھٹاتا ہے، اس لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ذیعے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے ایک پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ان تعبیرات کے سلسلہ میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے والی ہیں اس لئے ان سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے ،لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ ان میں حدیث کو قرآ ن پر حاکم بنا دیا گیا ہے اور اس کا درجہ قرآن سے بھی بڑھا دیا گیا ہے۔اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ سنت رسول کتاب اللہ کی وضاحت اور تشریح کرنے والی ہے۔ اگر کتاب کے کسی حکم میں ابہام،اجمال یا عموم ہو اور سنت سے اس کی توضیح،تفصیل یا تخصیص ہوتی ہے تو اسے قبول کرنا لازم ہوگا۔
علامہ ابن عبد البرؒ (م۴۶۳ھ)نے مذکورہ بالا قول کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’ یرید انھا تقضی علیہ و تبین المراد منہ‘‘(جامع بیان العلم)
’’وہ کہنا  یہ چاہتے ہیں کہ حدیث قرآن کے احتمال کو ختم کرتی اور اس کے معنی مراد کو واضح کرتی ہے۔‘‘
علامہ شاطبی ؒنے لکھا ہے:
’’اس مقولہ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ  امورو مطالب کی محتمل ہوتی ہیں،لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعبیر کرکے اس آیت کا مقصدومطلب متعین کرتی ہے۔اس چیز پر استدلال عموما ان احادیث سے کیا جا تا  ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کو خاص کیا جاتا ہے۔ ظواہر قرآن کے مقتضا کو یوں ترک کرکے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتا ب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی ،بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی کتاب اللہ کی بھی منشا و مراد ہے۔پس اس قول کا اصل محرک اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثروکردار ٹھہرا ۔‘‘  (الموافقات : ۴؍۴)
اور علامہ سیوطیؒ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اصل یہ ہے کہ قرآن سنت کا محتاج ہے، کیوںکہ سنت قرآن کی مبیّن ہے۔ اس کے مجملات کی تفصیل کرنے والی ہے، قرآن گویا ایک چھپا ہوا خزانہ ہے جسے ضرورت ہے کہ کوئی اسے آشکارا کرے، سنت اسے آشکارا کرتی ہے۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ ’’سنت کتاب کا فیصلہ کرنے والی ہے‘‘۔ قرآن، سنت کا ’مبیّن‘ نہیں ہے اور اس کا فیصلہ کرنے والا بھی نہیں۔ کیوںکہ وہ بذاتِ خود ’مبیّن‘ ہے، وہ قرآن کی طرح اعجاز و ایجاز کی حد تک نہیں پہنچی ہے، کیوںکہ سنت قرآن کی شرح ہے اور شرح کی شان یہ ہے کہ وہ مشروح سے زیادہ واضح اور صاف صاف ہو‘‘۔
[الاتقان فی علوم القرآن] اس مفہوم کو قبول کرتے ہوئے بعض محدثین نے اپنی کتابوں میں اس مقولہ کو مستقل عنوان قرار دیا ہے:  باب السنۃقاضیۃ علی الکتاب  (سنن الدارمی : ۱؍۱۱۷)


اسلامیات میں تحقیق – کیوں اور کیسے؟

ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی 

مقصد 

اسلامیات میں تحقیق کے سلسلے میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا مقصد متعین ہو اور نیت پاکیزہ اور خالص ہو۔ اس مو ضوع پر غیر مسلموں نے بھی بہت کام کیا ہے، لیکن ان کے مقاصد مسلمانوں کے مقاصد سے مختلف رہے ہیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد مستشرقین کی کھیپ کی کھیپ تیار کی گئی، جنھوں نے قرآن کریم کے ترجمے کیے، سیرتِ نبوی پر کتابیں تیار کیں، اسلامی تاریخ پر علمی کام کیا، لیکن ان کا مقصد قرآنی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنا اور رسولﷺ کی شخصیت اور سیرت کو بگاڑ کراور بھیانک انداز میں لوگوں کے سامنے لانا تھا۔ یورپ کی یونی ورسٹیوں میں سترہویں صدی عیسوی ہی میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم ہو گئے تھے۔ ان کا مقصدمسلم ممالک کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخی احوال سے گہری اور تفصیلی واقفیت حاصل کرنا تھا، تاکہ ان پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی صورت میں ان معلومات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ 

ہندوستان میں بھی عیسائی مشنریوں، آریہ سماجیوں اور ہندو شدت پسندوں کے قلم سے اسلام کے مختلف پہلوئوں پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیکن ان کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور اس میں خامیاں دکھانا تھا۔ 

مستشرقین اور دیگر محققین کے ذریعے اسلامیات پر ہونے والے کام کا ایک حصہ ایسا ہے جسے ہم تحقیق برائے تحقیق کا نمونہ کہہ سکتے ہیں۔ انھوں نے حدیث، سوانح اور تاریخ وغیرہ کے متعدد مخطوطات کو ایڈٹ کرکے شائع کیاہے۔ انہی کی کوششوں سے ہم ان سے استفادہ کے لائق ہو سکے ہیں۔ المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الشریف اجتماعی تحقیق کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس کتاب کو تیار کرنے میں ساٹھ(60) محققین نے ساٹھ (60) سال کا عرصہ لگایا ہے، تب جا کر یہ اشاریہ تیار ہواہے، جس کی مدد سے ہم صحاح ستہ، مسند احمد، موطا امام مالک اور سنن الدارمی میں وارد احادیث کو تلاش کر سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہم اسلامیات میں تحقیق کا آغاز کرنے سے قبل اپنا مقصد متعین کریں اور تحقیق برائے تحقیق سے اوپر اٹھ کر اسلام کی ترجمانی کو اپنا مقصد بنا ئیں۔ 


موضوع کا انتخاب 

کسی تحقیق کے لیے موضوع کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اب اس معاملے میں بڑی تن آسانی کا مظاہرہ کیا جانے لگا ہے۔ تحقیق کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی مخطوطے کے چند نسخے حاصل کر لیے جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطہ کو ایڈٹ کر دیا جائے۔ کسی نسخے میں کون سا لفظ چھوٹ گیا ہے ؟کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے؟اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں کون سا نسخہ سب سے زیادہ معتبر ہے؟ان چیزوں کی وضاحت کر دی جائے۔ عالمِ عرب میں اس طرز کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ اس طرح قدیم مصادرومراجع کے نئے محقَّق ایڈیشن منظر عام پر آئے ہیں۔ تحقیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حالاتِ زندگی بیان کر دیے جائیں اور اس کی علمی، دینی، سماجی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرادیا جائے۔ یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔ تحقیق کی یہ دونوں صورتیں افادیت رکھتی ہیں۔ ان کا انکار اور ان کی افادیت سے صرف نظر کیے بغیر، میرے نزدیک موجودہ دور میں ایسے موضوعات پر کام کرنا وقت کا تقاضا ہے جن سے اسلام کے کسی پہلو کی وضاحت ہوتی ہو، اس کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہو، اور اس پر کیے گئے کسی اعتراض کا جواب دیا گیاہو۔ موجودہ دور میں جب اسلام دشمن طاقتیں منصوبہ بند طریقے سے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے میں مصروف ہیں تو اسلام کے علم برداروں کی جانب سے بھی ایسی ٹیم ہونی چاہیے جنھوں نے اسلام کے صحیح تعارف کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہو اور جو ان کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو۔ 

مواد کی فراہمی 


محقِّق کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع پر وہ کام کرنا چاہتا ہے، دیکھے کہ اس موضوع پر اب تک کتنا کام ہوا ہے؟طریقۂ تحقیق (Research Methodology)میں اسے (Literature Survey) کہا جاتا ہے۔ یہ تحقیق کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی رعایت بہت ضروری ہے۔ جو موضوع محقق کے ذہن میں ہے، اگر اس پر کام ہو چکاہے تو اس پر دوبارہ کام کرنا تحصیل ِحاصل اور وقت کا ضیاع ہے۔ مواد کی فراہمی سے محقق پر بحث و تحقیق کے مختلف پہلو واضح ہوتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں نے اس پر کس کس انداز سے کام کیا ہے؟اس طرح اس کے کام میں جدّت پیدا ہوتی ہے اور وہ قارئین کو اپیل کرنے والا اور مؤثّر ہوتا ہے۔ 


حوالوں کا اہتمام 

جدید طریقۂ تحقیق میں اس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے کہ جو بات کہی جائے، حوالوں کے ساتھ کہی جائے۔ کسی بات کا حوالہ دیا جائے تو اس کا پورا نام، مصنف کا نام، ناشر یا مطبع کا نام، سنِ اشاعت، کتاب کئی جلدوں میں ہو تو جلد نمبر اور صفحہ نمبر تحریر کیا جائے۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتابیں خواہ کسی موضوع سے متعلق ہوں، ان کا دائرہ سائنس کی کوئی شاخ (Branch)ہویا سماجی علوم(Social Sciences)یا ادب (Literature)ہو، ان میں حوالوں کا اہتمام عرصہ سے جاری ہے، مگر اردو زبان میں اور خاص طور پر اسلامیات میں اس کی روایت پرانی نہیں ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری بیان کرتے ہیں کہ اسلامیات میں اس کا اہتمام علامہ شبلی نعمانی ؒ(م1914ء) نے کیا، پھر دوسرے محققین اور اصحابِ علم اس کی پیروی کرنے لگے۔


اندازِ پیش کش 


اسلامیات میں لکھنے والوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اسلوبِ بیان اور اندازِ پیش کش پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں۔ ایک ہی بات اگر سپاٹ اور بے کیف انداز میں کہی جائے تو اس کا کچھ اثر ظاہر نہیں ہوتا، لیکن اگر وہی بات ادبی پیرایے میں پیش کی جائے تو وہ دل پر اثر کرتی ہے۔ ایک ہی موضوع پر ایک تحریر کو آدمی بدقّت تمام ایک بار پڑھ پاتاہے۔ اس لیے کہ اس میں کوئی دل چسپی، رعنائی اور ادبی چاشنی نہیں ہوتی اور اسی موضوع پر دوسری تحریر کو وہ بار بار پڑھتا اور اس پر سر دھنتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس میں بہت زیادہ کشش اور تاثیر محسوس کرتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں سیرتِ نبوی پر اردو زبان میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن علامہ شبلیؒ کی سیرت النبی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اسلامی نظامِ معاشرت اور پردہ پر علماء کے قلم سے بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں، لیکن مولانا مودودیؒ(م1979ء) کی کتاب’ پردہ‘ سے زیادہ مؤثِّر کوئی کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی ہے۔


آن لائن حوالہ :http://mazameen.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں !

 علمی تحقیق کا طریقہ