مشاہیر عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دنیا کے ’سب سے خوش انسان‘ کی خوشی کا راز آخر کیا ہے؟

 بی بی سی اردو ، ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ء 

وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان گذشتہ کئی برسوں سے نیپال کی ’شیچن ٹینیئی ڈارجیلنگ‘ خانقاہ میں بودھ بھکشو (راہب) میتھیو رکارڈ نامی شخص کے دماغ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ میتھیو رکارڈ مولیکیولیر بائیولوجی کے ماہر اور ڈاکٹر بھی ہیں۔ وہ دلائی لامہ کے ذاتی مشیر اور اُن کے مترجم بھی ہیں۔

74 سالہ میتھیو کے دماغ کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج دیکھ کر سائنسدان دنگ رہ گئے ہیں۔

محققین نے رکارڈ کے دماغ کا نیوکلیئر ایم آر آئی کیا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔

سائنسدانوں نے اُن کے سر پر 256 سینسر لگائے تاکہ ان کے ذہنی دباؤ، چڑچڑے پن، غصے، خوشی، اطمینان اور درجنوں دیگر مختلف کیفیات اور احساسات کی سطح کا اندازہ لگا سکیں۔ انھوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے دماغ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

حاصل کردہ نتائج نے اس تجربے میں شریک ہر ایک شخص کی خوشی کی سطح کو ایک مخصوص پیمانے پر ناپا جس میں 0.3 (بہت ناخوش) سے منفی 0.3 (بہت خوش) تھا۔

میتھیو رکارڈ کو اس پیمانے پر منفی 0.45 نمبر حاصل ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ میتھیو اتنے خوش تھے کہ ان کی خوشی کا نمبر اسے ناپنے والے پیمانے پر بھی دستیاب نہیں تھا۔

اور یوں انھیں ’دنیا کا سب سے زیادہ خوش آدمی‘ قرار دیا گیا۔میتھیو رکارڈ، معروف فرانسیسی فلاسفر ژان فرانسوا ریویل اور مصور یحنی لی ٹوملین کے بیٹے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست اور فلسفی الیگزانڈر جولیئن اور نفسیاتی ماہر کرسٹوف آندرے کے ساتھ مل کر ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی ہے اور اب یہ ہسپانوی زبان میں ’لانگ لئیو فریڈم!‘ کے عنوان سے چھپ رہی ہے۔

ایلون مسک: دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے ’چھ‘ راز کون سے ہیں؟

ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز کون سے ہیں ؟
بی بی سی کا نمائندہ جسٹن روالٹ نے 11جون 2021 کو ایک رپوٹ شائع کی ہے، اس میں انہوں نے انکشاف کیاہے کہ ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز ہیں، جو ایمازون کے بانی جیف بیزوس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے سب سے امیر شخص بن گئے ہیں۔

الیکٹرک کار کمپنی کے حصص کی قیمت میں اضافے کے بعد ’ٹیسلا‘ اور ’سپیس ایکس‘ کے مالک کی دولت کی مجموعی مالیت 185ارب ڈالر کو عبور کر چکی ہے۔

تو ایلون مسک کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ آئیے اس رپوٹ میں جائزہ لیتے ہیں ۔ 

1. صرف اور صرف پیسے کمانے کے بارے میں مت سوچیں

یہ رول کاروبار کے بارے میں ایلون مسک کے رویے کے مرکزی خیال کا عکاس ہے۔
جب میں نے 2014 میں ان سے انٹرویو لیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کتنے امیر ہیں۔

انھوں نے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ کہیں نقدی کا ڈھیر پڑا ہو۔ یہ صرف اتنی سی بات ہے کہ میرے پاس ٹیسلا، سپیس ایکس اور سولر سٹی میں ووٹوں کی ایک خاص تعداد ہے اور مارکیٹ میں ان ووٹوں کی اہمیت ہے۔‘

ایلون مسک دولت کمانے کے شوقین افراد کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں دولت کے پیچھے ضرور دوڑیے ’بشرطیہ کہ یہ اخلاقی اور اچھے انداز میں ہو‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز (دولت) ان کی آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
یقینی طور پر ان کا یہ طرزِ عمل کام کر رہا ہے۔

ان کی الیکٹرک کاروں کی کمپنی، ٹیسلا نے خاص طور پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گذشتہ سال کے دوران اس کمپنی کے حصص میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 700 ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ چکی ہے۔

اور آپ صرف ایک کمپنی ٹیسلا کی مالیت کے ذریعے فورڈ، جنرل موٹرز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن اور فیاٹ کرسلر جیسی کمپنیاں خرید سکتے ہیں، اور اس کے باوجود آپ کے پاس فراری خریدنے کے لیے رقم بچ جائے گی۔

آئزک نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا



اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔‘


لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17 ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘ (یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)


یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘ اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔


لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘ سمجھا ہو گا۔


’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘


پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔ اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔


ان کی رہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔


جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔


یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘
نیوٹن کا خدا کا تصور


نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔


بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642 میں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643 کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727 میں بتائی جاتی ہے۔


ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انھوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘ کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

سکندر اعظم: صرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوان

حسین عسکری ، بی بی سی اردو، 

سکندر اعظم کی فوجی مہمات کا نقشہ 

13 جون 2021،

اُس میں بچپن ہی سے کچھ ایسی صلاحیتیں تھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ تاریخ میں ایک غیر معمولی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

صرف 12 برس کی عمر میں اس نے ایک جنگلی اور بدمست گھوڑے کو قابو میں کر کے سدھا لیا۔ بیوسیفیلس نامی یہ ایک دیو قامت اور وحشی گھوڑا تھا جو بعد میں تقریباً ساری زندگی اس بچے کا ساتھی رہا۔

یہ بچہ بڑا ہو کر الیگزینڈر دی گریٹ یا سکندرِ اعظم کہلایا اور عہدِ قدیم کی مشہور ترین شخصیات میں شامل ہوا۔ مقدونیہ (میسیڈونیا) سے تعلق رکھنے والے سکندرِ اعظم 356 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ میسیڈونیا شمالی یونان سے جزیرہ نما بالکان تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔

ان کے والد کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا اور جس کے بعد نئے بادشاہ کی کشمکش شروع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے تمام حریفوں کا صفایا کر دیا اور 20 برس کی عمر میں بادشاہ بنے۔

تاریخ کا سب سے زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

بی بی سی اردو، 24 مئی 2021

 پال اردیش: دنیاوی آسائشوں سے ماورا ’خانہ بدوش‘ ریاضی دان جنھیں کبھی امریکی جاسوس کہا گیا کبھی روسی ۔ 

تاریخ کا  سب سے  زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

اگر آپ پال اردیش سے اُس وقت ملے ہوتے جب اُن کی عمر فقط چار یا پانچ برس تھی تو یہ ملاقات آپ کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہوتی کیونکہ وہ آپ سے آپ کی تاریخِ پیدائش اور ولادت کا وقت پوچھتے اور ذہن ہی ذہن میں کچھ جمع تفریق کے آپ کو چند ہی لمحوں میں بتا دیتے کہ آپ کی عمر سیکنڈز کے حساب سے کتنی ہو چکی ہے۔

اور اگر آپ پال ادریش سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر سات برس کے لگ بھگ تھی تو وہ آپ کے کچھ مسائل حل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے تھے جیسا کہ اگر آپ سورج تک بذریعہ ٹرین جانا چاہیں تو یہ سفر کتنے گھنٹوں یا دنوں میں طے ہو گا اور کس رفتار پر چلتے ہوئے آپ کب تک سورج پر پہنچ سکتے ہیں۔

مگر اب ایک دلچسپ بات اگر آپ پال سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر 14 برس تھی اور آپ انھیں کہتے کہ وہ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ کر دکھائیں تو شاید وہ ایسا نہ کر پاتے کیونکہ بڑی عمر میں پہنچنے کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں۔

جوتے کے تسمے باندھنا واحد چیز نہیں تھی جسے وہ نہیں کر سکتے تھے۔

مجھے وہ وقت بہت اچھے سے یاد ہے کہ جب میں انگلینڈ پڑھنے گیا تھا۔ چائے کا وقت تھا اور انھوں نے چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بریڈ (ڈبل روٹی) پیش کی۔ وہاں موجود طلبا کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے کبھی بریڈ پر مکھن نہیں لگایا تھا۔‘ (یعنی بریڈ پر مکھن کیسے لگایا جاتا ہے وہ اس بات سے ناواقف تھے۔)

مہاتير محمد کی لمبي عمر کا راز

مہاتیر محمد کی لمبی عمر کا راز  
موجودہ دنیاکے معمرترین منتخب حکمران رہنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد آخرکار اپنی بہترین صحت اورلمبی عمر کاراز منظرِعام پر لاکر دنیاکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔  ۹۴سالہ مہاتیرمحمدکے بارے میں پوری دنیامیں حیرت واستعجاب کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ 

مہاتیر محمد ۱۹۶۴ء میں سیاست میں آنے سے پہلے اپنی آبائی ریاست کیدہ میں ایک معالج کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا کے ممتازترین اخبار ’’نیوسٹریٹ ٹائمز‘‘ میں دومضامین کے ذریعے بتایا کہ ان کی صحت کا راز کھانے پینے اوربودوباش پر کنٹرول کرنے کی عادات کو پختہ کرنے میں پوشیدہ ہے۔ 

مہاتیرمحمد نے اپنے مضامین میں بتایا کہ یہ بات ایک آفاقی حقیقت کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ اچھی صحت کے لیے اصول یہ اپنایاجاناچاہیے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایاجائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہاجائے۔

 ڈاکٹرمہاتیرمحمد نے مزیدبتایاکہ موٹاپا جو چربی کی زیادتی کے باعث جنم لیتا ہے، وہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ایک اچھی صحت کے لیے کھانے کی مقدار میں ایک چوتھائی یا ایک تہائی تک کمی کرکے موٹاپے اورچربی کی زیادتی پر قابوپایاجاسکتاہے۔ اسی طرح چاول اورتیل دار غذاؤں سے بھی پرہیز کرکے اس مشکل کوختم کیاجاسکتاہے۔

جبران خلیل جبران : معروف لبنانی نژاد امریکی آرٹسٹ، عربی شاعر و ادیب

جبران خلیل جبران 
خلیل جبران (اصل نام: جبران خلیل جبران بن میکائیل بن سعد )  جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے۔ خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ 

جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھے۔ جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ 
تیرھویں صدی میں کلیسیا کے مظالم کے خلاف کئی لوگوں نے آوازیں بلند کی۔ اُن میں مشہور پیٹر والڈو (1140-1218)، جان ٹولر (1290-1361) اور جان وائی کلف (1320-1384) ہیں۔ ان لوگوں کو سخت سزائیں دی گئی اور ان کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے گئے، اس کے علاوہ  جو شخص مذہبی احکامات کی تشریح سائنس سے کرتا یا پوپ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا اسے بھی  سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔   مگر اس سارے رویے نے مارٹن لوتھر(1483-1546) کے لیے راہ ہموار کی۔ سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی قیادت میں لوگوں نے کاتھولک فرقے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کو پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کہا جاتا ہے ۔

مارٹن لوتھر ایک جرمن راہب، پادری اور الٰہیات دان تھا۔ لوتھر جرمن ریاست سکسنی (Saxony) میں ایک غریب گھرانے میں 10 نومبر 1483 کو پیدا ہوا ۔ سولہویں صدی میں پاپائیت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں جس شخص نے انقلابی روح پھونکی، وہ مارٹن لوتھر تھا ۔

مارٹن لوتھر کا مشہور قول کہ"  شیطان اپنے عہد کی پیداوار ہے" اس نے پوپ کو مجسم شیطان یا مخالف مسیح (دجال)، جبکہ کاتھولک کلیسیا کو شیطان کی بادشاہت قرار دیا ۔ اس نے ہر جگہ پر شیطان کو دیکھا اور متواتر اس کے ساتھ نبرد آزما رہا اور خدا پر ایمان کے ساتھ اسے شکست دی۔ 

جنگ آزادی : رابندرناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن ، تعلیم اور آزادی ۔

رابندرناتھ ٹیگور 

بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر، فلسفی اور افسانہ و ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر۔ ٹیگور ٹھاکر کا بگاڑ ہے۔ آپ 1861ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔

رابندر ناتھ ٹیگور 
 ابتدائی تعلیم کلکتہ میں ہی حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب صرف 17 برس کی عمر میں منصہ شہود پر آئی۔ پھر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر 1878ء میں انگلستان گئے، ڈیڑھ سال بعد ڈگری لیے بغیر لوٹ آئے اور اپنے طور پر پڑھنے لکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔ 

اس دوران میں کئی افسانے لکھے اور شاعری کی جانب بھی توجہ دی۔ ٹیگور نے زیادہ تر چیزیں بنگالی زبان میں لکھیں۔ 1901ء میں بولپور بنگال کے مقام پر شانتی نکتین کے نام سے مشرقی اور مغربی فلسفے پر ایک نئے ڈھنگ کے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس نے 1921ء میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ شانتی نکیتن میں اپنی بنگالی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کے باعث ان کی مقبولیت دوسرے ملکوں میں پھیل گئی۔ یورپ، جاپان، چین ،روس ،امریکا کا کئی بار سفر کیا ۔

1913ء میں ادب کے سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔ اور 1915ء میں برطانوی حکومت ہند کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ لیکن برطانوی راج میں پنجاب میں عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پرانہوں نے ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ 

ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری متمدن دنیا کا دورہ کیا اور لیکچر بھی دیے۔ 1930ء میں ’’انسان کا مذہب‘‘ کے عنوان سے لندن میں کئی بلند پایہ خطبات ممالک اورنیویارک میں اپنی ان تصاویر کی نمائش کی۔ جو 68 برس کی عمر کے بعد بنائی تھیں۔ تین ہزار گیت مختلف دھنوں میں ترتیب دیے۔

 بے شمار نظمیں لکھیں، مختصر افسانے لکھے۔ چند ڈرامے بھی لکھے۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ آپ کو بنگالی زبان کا شکسپیئر بھی کہتے ہیں۔

بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ بنگالی۔ انگریزی کے ادبی نوبل انعام یافتہ ادیب،شاعر اور ڈراما نگار رابند ناتھ ٹیگور اسٹیج کے اداکار بھی تھے۔ 1881ء میں کھینچی گئی اس تصویر میں ٹیگور اپنے لکھے ھوئے ڈرامے “ولمکی پرتیھبا“(عقل مند ولمکی) میں اندرا دیوی کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ٹیگور نے تین ہزرا گیت لکھے۔ سات  ڈرامے ان کے ذخیرہ تحریر میں ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ‘ڈاک گھر‘، ‘راجا ‘اور ‘گورا‘ کے نام لیے جاتے ہیں۔

1901ء میں ٹیگور، ایک آشرم بنانے کے لیے شانتی نکیتن منتقل ہوئے۔ اس میں سنگ مرمر کا ایک عبادت خانہ اور ایک مندر، ایک تجربہ گاہ اور اسکول، پیڑوں سے لدا علاقہ، باغات، ایک کتب خانہ بنایا ۔ اسی  جگہ ان کی اہلیہ اور دو بچوں کا انتقال ہوا۔ ان کے والد بھی 1905ء میں یہیں پر انتقال کر گئے۔ ان کو تریپورہ کے مہاراجا کی جانب سے ماہانہ وراثتی تنخواہ ملا کرتی تھی۔۔

1934ء کے بعد ٹیگور کی صحت خراب ہو گئی اور 1941ء کو یہ عظیم افسانہ نگار بمقام کلکتہ انتقال کر گئے۔

شانتی نکیتن 

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اقتدار براہِ راست تاج برطانیہ کے پاس آ گیا‘ جس نے ایک خاص منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے ذہنوں میں فرنگی زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی کی برتری بٹھانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں تاج برطانیہ نے مغربی طرزِ تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا‘ جس میں بنگال کے ایک گھرانے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے آنکھ کھولی‘ اور جس نے آنے والے دنوں میں ہندوستانی نوجوانوں نے ایک کثیر تعداد کے ذہنوں کو متاثر کیا۔
شانتی نکیتن کا ایک منظر 
ٹیگور کے والد ایک مذہبی شخصیت تھے۔ کہتے ہیں ایک روز ٹیگور اپنے والد کے ہمراہ بنگال کے علاقے بول پور میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ٹیگور کے والد ایک پر فضا جگہ پر رک گئے۔ چاروں سمت ایک عجیب دل آویز سکوت تھا۔ سر سبز درختوں کے گھیرے میں یہ جگہ جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتی تھی۔ ٹیگور کے والد نے اسی وقت ارادہ کر لیا کہ وہ اس جگہ کو خریدیں گے اور وہاں ایک ایسا ٹھکانہ بنائیں گے‘ جہاں گہرے سکوت میں مراقبہ کر سکیں۔ یہ جگہ شانتی نکیتن تھی جو بعد میں عالم گیر شہرت اختیار کر گئی۔

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کا زمانہ مقامی ہندوستانی باشندوں کے لیے مایوسی کا زمانہ تھا۔ ٹیگور کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ دیہات میں غریب کسانوں کی حالتِ زار سے آگاہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے معاشی، ثقافتی اور مذہبی استحصال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ فرنگی پروپیگنڈے نے ہندوستانی رعایا کے ایک بڑے حصے کو اپنا اسیر بنایا ہوا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی اس مشترکہ مزاحمت کا اظہار تھا جس میں ہندوستان میں بسنے والی ساری قوموں نے بلا امتیازِ مذہب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو للکارا تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ مقامی لوگوں کو کامیابی نہ مل سکی لیکن کمپنی کے اقدار کی چولیں ہل گئیں۔ جنگ کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کچھ کو طویل عرصے کے لیے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔

ٹیگور کے حساس طبیعت اپنے ہم وطنوں کی حالتِ زار پر کڑھتی تھی۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ جسمانی غلامی سے بدتر ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے باسیوں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی زبان، تہذیب، ثقافت کم تر ہے اور وہ غیر مذہب ہیں۔ یہ پیغام اس تواتر سے دیا گیا تھا کہ عام لوگ فرنگی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب سے مرعوب اور اپنی ثقافت‘ اقدار اور زبان و ادب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وقت ایک طرف مقامی تعلیم کے مراکز تھے‘ جہاں تحقیق کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں تھی اور دوسری طرف مغربی تعلیم کے مراکز کھل رہے تھے جہاں اقدار کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور فرنگی تہذیب و ثقافت کے پیغام کو تقویت دی جا رہی تھی۔ ایسے میں ٹیگور نے ایک ایسے تعلیمی مرکز کے قیام کا ارادہ کیا جو مروجہ تعلیمی اداروں سے مختلف ہو۔ یوں 1901 میں وہ سکول وجود میں آیا‘ جسے شانتی نکیتن سکول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

ٹیگور کے اس سکول کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طلبا کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی تھی۔ یہ سکول صرف کتاب اور سکول کی چہار دیواری تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ فطرت کی گود میں واقع ایک اوپن ایئر سکول تھا جو طلبا کو اپنے گرد و پیش کی اشیائے فطرت سے مکالمے کا موقع دیتا تھا۔ یہاں بنگالی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا تھا۔ مقامی ثقافت کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس سکول کا مقصد محض طلبا کو خواندہ بنانا نہیں تھا بلکہ یہاں تعلیم کا جامع تصور کارفرما تھا جس میں طلبا کی علمی، جسمانی، ثقافتی اور روحانی نشوونما کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بنیادی مضامین کے علاوہ مصوری، ڈرامہ، ڈانس اور کتاب خوانی کی سرگرمیوں پر زور دیا جاتا تھا۔ سکول میں کوئی مستقل نصاب نہیں تھا۔

طلبا کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں۔ سکول میں طلبا کو اشیائے فطرت (Objects of Nature) کے قریب رہنے کا موقع ملتا۔ درخت، دھوپ، بارش، پانی، پرندے‘ ندیاں طلبا کی زندگی کا حصہ تھے۔ یوں شانتی نکیتن میں تعلیم کا ایک جامع (Holistic) تصور رائج تھا جس کے تحت طلبا کو زندگی کے چیلنجز کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔

ٹیگور کو دیہات میں بسنے والے غریب کسانوں کی زبوں حالی کا احساس تھا۔ اس کے لیے سری نکیتن لٹریسی سینٹر قائم کیا گیا جس کے ذریعے کسانوں کو بنیادی خواندگی سکھائی جاتی۔ بعد میں ٹیگور نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کی جس میں تعلیم کا وہ تصور کارفرما تھا جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں اور ثقافتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا کہ لوگ ان پر فخر کریں۔ یوں ٹیگور نے شانتی نکیتن کے تعلیمی اداروں کو Decolonization کے عمل کے لیے استعمال کیا۔ شانتی نکیتن محض ایک سکول نہ رہا بلکہ ایک تحریک بن گئی‘ جس کا بنیادی نکتہ حریت فکر تھا اور پھر 1919 میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے سانحے نے مزاحمت کا عمل اور تیز کر دیا۔ ٹیگور نے بطورِ احتجاج اپنا اعزاز واپس کر دیا۔ بول پور کے خاموش پُر سکوت علاقے شانتی نکیتن نے تعلیم کے ذریعے طلبا کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کا درس دیا اور پھر انہیں طلبا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

شانتی نکیتن کے کامیاب تعلیمی تجربے کے پس منظر میں ایک سب سے اہم بات ٹیگور کا تخلیقی ویژن تھا جس کے تحت تعلیم اور معاشرے میں گہرا تعلق پایا جاتا تھا اور جس میں طلبا کی تعلیمی، جسمانی، روحانی، ثقافتی اور ماحولیاتی نشوونما شامل تھی۔ جس میں آزادیٔ فکر تعلیمی عمل کا بنیادی جزو تھا۔ جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی بلکہ ان کی نشوونما کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ جس میں طلبا کو محض کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے زندگی کو بہتر بسر کرنے کی مہارتیں سکھائی جاتیں۔ جس میں اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر فخر کرنا سکھایا جاتا۔ جس میں طلبا کو اعتماد کی قوت دی جاتی جو ان کے کردار و عمل میں نظر آتی۔ 

-------------------

تصانیف : 

شاعری
بھانو سمہہ ٹھاکرر پدولی (بھانو سمہہ ٹھاکرکے نغمے )۔.۔.(1884ء)
مانسی (مثالی)۔.۔. (1884ء)
سونار تاری (سونے کی کشتی)۔.۔. (1890ء)
گیتانجلی (نغموں کے نذرانے)۔.۔. (1910ء)
گیت مالا (نغموں کی مالا)۔.۔. (1914ء)
بلاکا (کرین کی اُڑان)۔.۔. (1916ء)
ڈرامے
والمیکی پرتیبھا (والمیکی کی ذہانت)۔.۔. (1881ء)
وِسرجن (چڑھاوا)۔.۔. (1890ء)
راجا (اندھیرے کمرے کا بادشاہ)۔.۔. (1910ء)
ڈاک گھر (ڈاک خانہ)۔.۔. (1912ء)
اچلیاتان (بے حرکت/ساکن)۔.۔. (1912ء)
مُکتادھارا (آبشار)۔.۔. (1922ء)
رکتاکاروی (سُرخ کنیر)۔.۔. (1926ء)
ناول
نسترنِرھ(ٹوٹا گھونسلا)۔.۔. (1901ء)
گورا (گوری رrنگت والا)۔.۔. (1910ء)
گھرویار (گھر اور دنیا)۔.۔. (1916ء)
یوگا یوگ (عمل رد عمل)۔.۔. (1929ء)
یادداشتیں
جیون سمرتی (میری یادیں)۔.۔. (1912ء)
چھلبیلا (میرے لڑکپن کے دن)۔.۔. (1940ء)

--------------------

گیان - یوول نوح حریری ۔ (15)

غور کرو 

اتنی کہانیوں پرتنقید کے بعد، مذاہب اور نظریات پر نقطہ چینی کے بعد، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خود کا جائزہ بھی لے لیا جائے، کہ کس طرح ایک تشکیک پسند فرد خوشگوار صبح سے زندگی کا آغازکرسکتا ہے! پڑھنے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ میرے چشمے پروہ کون سے رنگ چڑھے ہیں، جن سے میں دنیا کودیکھتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، بہت بے چین طبیعت تھا۔ دنیا میری سمجھ سے باہرتھی۔ بڑے سوالوں کا کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ خاص طورپریہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ دنیا میں اتنا درد، تکالیف، اور آزمائشیں کیوں ہیں؟ اوران سے نجات کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ جوجواب دوستوں اور کتابوں سے ملے وہ سب فکشن تھا۔ مذاہب اور قومی پرستی کے نظریات مجھے متاثر نہ کرسکے۔ رومانی داستانیں اورمہم جوقصے مجھے قائل نہ کرسکے۔ سرمایہ دارانہ ترقی نے بھی مجھے خوش نہ کیا۔ مجھے بالکل سمجھ نہ آیا کہ سچ کہاں تلاش کروں؟ جب یونیورسٹی میں داخل ہوا توگمان تھا کہ سچ یہاں مل جائے گا، مگرمایوسی ہوئی۔ اکادمی دنیا نے مجھے دیومالائی نظریات ڈھانے میں مدد دی، مگربڑے سوالوں کے جواب یہاں بھی نہ ملے۔ اس کے برعکس، تنگ سے تنگ سوالوں پرغوروفکرکی تحریک دی گئی۔ اس دوران قرون وسطیٰ کے صلیبیوں کی یادداشتوں پرپی ایچ ڈی کرتا رہا اور فلسفے کی کتابیں کھنگالتا رہا۔ مگر اس فکری عیاشی کا نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔

ابن العوام (قاموس الفلاحة) Ibn Al Awam







هو أبو زكريا يحيى بن محمد أحمد بن العوام الإشبيلي الأندلسي، اشتهر بعلم النبات وعلم الحيوان والفلك والطب.

ابن البيطار (شيخ العشابين) Ibn Al Bittar



ضياء الدين أبو محمد عبد الله بن أحمد المالقي. لقب بالمالقي لأنه ولد في قرية "بن المدينة" التي تقع في مدينة مالقة في الأندلس. اشتهر بابن البيطار لأن والده كان طبيباً بيطرياً ماهراً. ولد حوالي سنة 1197م وتوفي في دمشق سنة 1248.يعتبر ابن البيطار خبيرا في علم النبات والصيدلة، وأعظم عالم نباتي ظهر في القرون الوسطى، وساهم إسهامات عظيمة في مجالات الصيدلة الطب. كتب موسوعة عن إعداد وتركيب الدواء والغذاء. ذكر "ابن البيطار" 1400 نوع من النباتات، في الأندلس والمغرب الكبير وبلاد الشام ، يمكن استخدامها لأهداف طبية، وذكر أيضا اسم 300 نوع من النباتات التي لم يتعرف إليها طبيب قبله، كما ذكر هذا العالم طريقة تركيب الدواء لبعض الأمراض، والجرعة المطلوب تناولها للعلاج.

ابن بطوطة (أمير الرحالة) Ibn Batuta







محمد بن عبد الله بن محمد اللواتي الطنجي المعروف بابن بَـطُّوطَة (ولد في 24 فبراير 1304 - 1377م بطنجة) (703 - 779هـ) هو رحالة ومؤرخ وقاض وفقيه مغربي لقب بـأمير الرحالين المسلمين. خرج من طنجة سنة 725 هـ فطاف بلاد المغرب ومصر والسودان والشام والحجاز وتهامة والعراق وفارس واليمن وعمان والبحرين وتركستان وما وراء النهر وبعض الهند والصين الجاوة وبلاد التتار وأواسط أفريقيا. وإتصل بكثير من الملوك والأمراء فمدحهم - وكان ينظم الشعر - واستعان بهباتهم على أسفاره.

ابن رشد (القاضى الفيلسوف) Ibn Rushd







أبو الوليد محمد بن أحمد بن محمد بن أحمد بن أحمد بن رشد (520 هـ- 595 هـ) واشتهر باسم ابن رشد الحفيد (مواليد 14 إبريل 1126م، قرطبة - توفي 10 ديسمبر 1198م، مراكش) هو فيلسوف، وطبيب، وفقيه، وقاضي، وفلكي، وفيزيائي أندلسي. نشأ في أسرة من أكثر الأسر وجاهة في الأندلس والتي عرفت بالمذهب المالكي، حفظ موطأ مالك، وديوان المتنبي[5].ودرس الفقه على المذهب المالكي والعقيدة على المذهب الأشعري. يعد ابن رشد من أهم فلاسفة الإسلام. دافع عن الفلسفة وصحح علماء وفلاسفة سابقين له كابن سينا والفارابي في فهم بعض نظريات أفلاطون وأرسطو. قدمه ابن طفيل لأبي يعقوب خليفة الموحدين فعينه طبيباً له ثم قاضياً في قرطبة.. تولّى ابن رشد منصب القضاء في أشبيلية، وأقبل على تفسير آثار أرسطو، تلبية لرغبة الخليفة الموحدي أبي يعقوب يوسف، تعرض ابن رشد في آخر حياته لمحنة حيث اتهمه علماء الأندلس والمعارضين له بالكفر و الإلحاد ثم أبعده أبو يعقوب يوسف إلى مراكش وتوفي فيها (1198 م)

ابن خلدون (مبدع المقدمة وواضع أساس علم الإجتماع) Ibn Khaldoun







عبد الرحمن بن محمد ، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (1332 - 1406م) مؤرخ من شمال افريقيا، تونسي المولد أندلسي الأصل، كما عاش بعد تخرجه من جامعة الزيتونة في مختلف مدن شمال أفريقيا، حيث رحل إلى بسكرة و غرناطة و بجاية و تلمسان، كما تَوَجَّهَ إلى مصر، حيث أكرمه سلطانها الظاهر برقوق ، ووَلِيَ فيها قضاء المالكية، وظلَّ بها ما يناهز ربع قرن (784-808هـ)، حيث تُوُفِّيَ عام 1406 عن عمر بلغ ستة وسبعين عامًا و دُفِنَ قرب باب النصر بشمال القاهرة تاركا تراثا ما زال تأثيره ممتدا حتى اليوم[ ويعتبر ابن خلدون مؤسس علم الاجتماع الحديث واب للتاريخ والاقتصاد.

محى الدين بن عربى (الشيخ الأكبر) Ibn Arabi







محي الدين محمد بن علي بن محمد بن عربي الحاتمي الطائي الأندلسي ، أحد أشهر المتصوفين لقبه أتباعه وغيرهم من الصوفية "بالشيخ الأكبر" ولذا ينسب إليه الطريقة الأكبرية الصوفية. ولد في مرسية في الأندلس في شهر رمضان الكريم عام 558 هـ الموافق 1164م قبل عامين من وفاة الشيخ عبد القادر الجيلاني وتوفي في دمشق عام 638هـ الموافق 1240م. ودفن في سفح جبل قاسيون.

أبو الريحان البيروني (العالم الموسوعى) Abu Rayḥan al Biruni





أبو الريحان محمد بن أحمد البَيْرُوني (5 سبتمبر 973 - 13 ديسمبر 1048) عالم مسلم كان رحّالةً وفيلسوفًا وفلكيًا وجغرافيًا وجيولوجيًا ورياضياتيًا وصيدليًا ومؤرخًا ومترجمًا لثقافات الهند. وصف بأنه من بين أعظم العقول التي عرفتها الثقافة الإسلامية، وهو أول من قال إن الأرض تدور حول محورها، صنف كتباً تربو عن المائة والعشرين.

عبد الرحمن الخازني (خازن المعرفة) Al Khazini




عبد الرحمن الخازني المكنى بأبي الفتح؛ هو العالم المسلم الفيزيائي والأحيائي والكيميائي والرياضي والفيلسوف الذي تأثر بالفلسفة الإغريقية البيزنطية؛ عاش بصحة وبنية قويتين ما بين عامي 1115 و 1155م. ينحدر الخازني من مدينة مرو الموجودة الآن في تركمانستان، ثم انتقل إلى مقاطعة خراسان التابعة للإمبراطورية الفارسية ثم عاد بعدها إلى تركمانستان. ولديه مساهات مهمة في الفيزياء و علم الفلك. واعتبر أعظم تلميذ تلمّذ في مدارس مدينة مرو. كتب روبرت إي. هال التالي عن الخازني: " لأن الخازني هو صانع الآلات العلمية باستخدام قانون إتزان الموائع، فإنه لا يترك مجالاً للشك بأنه يعتبر أعظم العلماء في أي زمن كان قديمه وحديثه"

ابن سينا (الشيخ الرئيس) Ibn Sina

أبو القاسم الزهراوي (حبر الجراحين) Abu al Qasim al Zahrawi