اردو لائبریری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو لائبریری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دار الافتاء ڈاٹ انفو۔۔ مختصر تعارف

دار الافتاء ڈاٹ انفو-مختصر تعارف
- دیوبند مکتبہ فکر کے مختلف دار الافتاؤں کے فتاوی سے استفادہ کرنے کے لئے ایک منفرد سرچ انجن۔ 
- دنیا بھر کے دیوبند مکتبہ فکر کے دار الافتاؤں کی ویب سائٹس پر موجود فتاوی یکجا کیا گیا ۔ 
- تمام فتاوی یونیکوڈ، پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب۔
- مستند با حوالہ فتاوی
درج ذیل دارالافتاوں کی ویپ سائٹس دیکھیں 

دار الافتاء دار العلوم دیوبند
دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
دار الافتاء دار العلوم کراچی
دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
دار الافتاء اشرف المدارس کراچی
دار الافتاء خیر المدارس ملتان
دار الافتاء جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن کراچی
دار الافتاء صادق آباد
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
دار الافتاء الاخلاص کراچی
دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

عرب دنیا کی عربی زبان و ادب کی سرکاری اکیڈمیوں کا تعارف

مجمع اللغة العربية - قاھرہ 

 مجمع اللغۃ العربیۃ  14 شعبان 1351 ھ،  بمطابق 13 دسمبر 1932ء مصر کے بادشاہ  فواد اول کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔  اس میں بقاعدہ کام 1934ء سے شروع ہوا۔ 

اس کے کل ممبران 20  ہیں، 10 مصری ہوتے ہیں اور 10 عرب اور غیر عرب۔ ارکان کے لیے کسی مذہبی پس منظر رکھنے کی ضرورت نہیں صرف علمی اور لسانی مہارت ہی بنیادی شرط ہے ۔ 

پچھلے نصف صدی میں درج ذیل شخصیات نے اس کی صدارت کی ہے: 

1- محمد توفيق رفعت (1934 - 1944)
2- أحمد لطفي السيد (1945 -1963)
3- الدكتور طه حسين (1963 - 1973)
مجمع اللغة العربية - القاهرة  
4- الدكتور إبراهيم مدكور (1974 - 1995)
5- الدكتور شوقي ضيف (1996 -2005)
6- الدكتور محمود حافظ (2005 -2011)
7- الدكتور حسن محمود عبد اللطيف الشافعي فروری 2012م سے رئیس ہیں۔

مجمع مین بطور نائب  رئیس  خدمات انجام دینے والوں کے اسمائے گرامی :  

الأستاذ الدكتور طه حسين
الأستاذ زكى المهندس
الأستاذ الدكتور أحمد عمار
الأستاذ الدكتور محمد مهدى علام
الأستاذ الدكتور شوقى ضيف
الأستاذ الدكتور محمود حافظ

انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کا جائزہ

اردو زبان و ادب
انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کائزہ
 سالانہ جشن اور مشاعرہ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا میں عام طور پراردو کو مسلمانوں اور اسلام کی زبان سمجھاجاتا ہے، اس لئے اردو کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے۔

 تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اردو کے جتنے ادبی جلسے منعقد ہوتے اس کی سربراہی کوئی نہ کوئی مسلمان ادیب یا شاعر کرتے تھے ۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ 

اگر صرف دلی کا ذکر کیا جائے تو یہاں اردو کے بہت سے پروگرامز ادبی کلینڈر کا حصہ ہیں، لیکن یہاں جوبھی بڑے ادبی جلسے اورجشن منائے جاتے ہیں سب کی سربراہی غیر مسلموں کے پاس ہے، جیسے : 

-  شنکر شاد مشاعرہ 

 یہ دو اہم ہندو شاعروں شنکر لال شنکر اور لالہ مرلی دھر شاد کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اسے ایک بڑی کمپنی ڈی سی ایم سپانسر کرتی ہے۔ 

-  مشاعرہ جشن بہار

     اس کی روح رواں  بھی ایک ہندو عورت کامنا پرساد ہیں۔

-  جشن ریختہ 

 اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اردو کے فروغ میں اس نئی مقبولیت کا سہرا ریختہ ڈاٹ او آر جی کے سرجاتاہے، جس کے بانی معروف شخصیت سنجیو صراف ہیں ۔ اس سے اردو کی مقبولیت کو ایک نیا پلیٹ فارف فراہم ہوگیا ہے۔ 

المعجم الكبير- مجمع اللغة العربية - القاهرة ، فری ڈاؤن لوڈ کریں

 المعجم الكبير  
مجمع اللغة العربية - القاهرة   
 المعجم الکبیر، عربی زبان کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں دنیا کی سب سے ضخیم اور کثیر الالفاظ ڈکشنری کہنا جاہئے۔  یہ  ڈکشنری عربی الفاظ کے  صرف معانی اور خصوصیات ہی پر مشتمل نہیں بلکہ ان الفاظ کے بارے میں مکمل تاریخ بھی بتاتی ہے۔  کس دور میں کس کس معانی کے لیے وہ الفاظ استعمال ہوتے تھے یا مخلتف ادوار میں کس کس عرب شاعر اور قبیلہ نے ان  الفاظ کو اپنے کلام میں  استعمال کیا ۔  

مجمع اللغۃ العربیۃ قاھرہ کا یہ سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔ پہلے اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اس کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی " آکسفورڈ ڈکشنری" کے طرز تیار کیا جائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسی میں تبدیلى آتى گئ ۔ 

1970 سے 2022ء تک اس کی کل 8 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔- اب تک صرف حرف (ا) سے حرف (ص) تک کے الفاظ پر کام مکمل ہوا ہے۔ جو تقریبا بندرہ حصوں پر مستمل ہیں ۔  پندرہویں حصہ  کا پہلا ایڈیشن، حرف (ص ) کے لیے مختص ہے ، جو جون 2022 میں شائع ہوا۔

اس کے لیے لسانیات اور لغت کے ماہرین کی ایک خصوصی کمیٹی مختص  ہے ان کی نگرانی میں مندرجہ ذیل خصوصیات کے ساتھ کام جاری ہے : 

اس میں عربی لسانیات کے بارے میں  مکمل معلومات ہیں جیسے  زبان، ادب، علم الصرف، وعلم النحو، علم البلاغۃ اور اسی طرح  تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، فلسفہ، انسانی علوم، معاشرتی علوم ، تہذیب، اور تمدن کے بارے میں تمام اصطلاحات شامل ہیں، اس کے ساتھ جدید سائنسی اور تکنیکی اور تحقیقاتی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ 

درج ذیل لنک سے فری ڈاؤن لوڈ کریں !

المعجم الكبير المجلد الأول



یہ بھی ڈاؤن لوڈ کریں !

مولانا امتیاز علی عرشی کی تصنیفات

 

مولانا امتیاز علی عرشی خان کی تصنیفات

مولانا متیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں  حاجی خلیل،  قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔ 

تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔

مولانا نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے  ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔  

قرآنیات اسلامیات اور عربی ادبیات میں عرشی صاحب کی بہت سی دریافت اضافہ ہیں ، آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔ 

 وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے لے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے جس کی مثال تفسیر سفیان ثوری پر آپ کے حواشی اور تعلیقات ہے۔عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیری دنیا میں اس تفسیر کی اشاعت سے نئی تاریخ رقم ہوئی ۔  کیونکہ تاریخ تفسیر میں  تفسیر ابن جریر سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی ۔

 اسی طرح آپ کا دوسرا کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔  طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان عربی اشعار کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔

 اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔  

مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات

مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات 
مولانا اسلم جیرا جپوری عالم دین، تاريخ دان اور مفسر تھے۔ قصبہ جیراج پور اعظم گڑھ (یو پی) بھارت میں پیدا ہوئے۔  1903ء میں پیسہ اخبار لاہور میں عربی کے مترجم اور 1906ء میں علی گڑھ کالج میں عربی فارسی کے معلم مقرر ہوئے۔ جامعہ ملیہ کی تاسیس پر مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر علی گڑھ سے چلے آئے اور جامعہ ملیہ میں تاریخ اسلام کے مدرس مقرر ہوئے۔ 28 دسمبر 1955ء کو 73 سال کی عمر میں ۔  دہلی میں رحلت فرما گئے۔

 مولانا بیک وقت مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے۔  وہ قرآن کریم کی باریکیوں حدیث کی قدر و قیمت فقہ کی نزاکتوں، اسلامیات کے مختلف مصادر عربی فارسی اور اردو ادب کی گہرائیوں سے بخوبی واقف تھے ۔ 

ان کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے عربی فارسی اور اردو میں اشعار بھی کہے ۔ 

مولانا کو مطالعہ کا  حد درجہ شوق تھا وہ اکثر تنہائیوں میں اوراق کتب میں گم رہتے، علامہ ابن تیمیہ ،  ابن قیم کی تصانیف نیز اس دور میں مصر سے چھپ کر آنے والی جدید کتب بھی زیر نظر رہیں ۔ آخر میں اپنی تمام تر توجہات مطالعہ قرآن پر مرکوز کردیں۔ 

مولانا مسلکی تعصبات سے بالاتر تھے مختلف مسالک کے ماننے والے ان کی نظر میں یکساں تھے جبکہ اہل حدیث گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ان کے والد ایک مشہور اہل حدیث عالم تھے لیکن ان کی دینی اور علمی بصیرت نے انہیں کسی مسلک تک محدود نہ رکھا ۔ 

وہ قرآن کریم کی حکمتوں و اسرار میں کھوکر رہ گئے مسلک اہل حدیث کے متعلق ان کا نقطہ نظر درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔

 " میں اس موقع پر ان نوجوان سعادت مند روحوں سے خطاب کرتا ہوں جن کے اندر امت کا درد اور حق کی محبت ہے کہ وہ اللہ کی اس کتاب کی طرف رجوع کریں جو ہر تاریکی کے لئے نور اور ہر دکھ لے لیے شفا ہے اور جس میں دین مکمل کردیا گیا ہے رہے اہل حدیث تو : 

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو         جوروایات پر قرآن کو فدا کرتے ہیں 

راویوں پر انہیں ایمان ہے نبیوں کی طرح             جو کہ تقلید کو بھی شرک کہا کرتے ہیں 

ان بزرگوں کا عقیدہ ہے کہ ناقص ہے کتاب             جس کی تکمیل حدیثوں سے کیا کرتے ہیں 

ماہنامہ فکرو نظر - ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد


شمارہ نمبر -002

فکرو نظر - سہ ماہی علمی اور ادبی رسالہ ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی


فکرونظر،علی گڑھ
شمارہ نمبر ـ 004

ماہنامہ البلاغ - دارالعلوم کراچی


شمارہ نمبر۔000

ششماہی مجلہ اقبالیات- اقبال اکادمی پاکستان


اشاریۂ اقبالیات

ماہنامہ معارف - دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ

ماہنامہ "معارف" ہندوستان کے علمی و تحقیقی ادارے دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کا ماہانہ علمی و تحقیقی جریدہ ہے، جسے سید سلیمان ندوی نے جولائی ۱۹۱۶ میں جاری کیا تھا۔ اس کا مقصد مذہب و فلسفہ و فکر کی ترجمانی اور نئی تحقیق اور تازہ خیالات کا فروغ عام ہے۔ اس رسالے نے علمِ مذہبی کے ارتقا کو منظر عام پر لانے، اکابرِ سلف کی سوانح عمریوں کو مرتب کرنے اور حکمتِ اسلامی پر تحقیقی مضامین پیش کرنے میں فوقیت حاصل کی۔ نیز مباحث و انتقاداتِ ادب میں اپنے بلند معیار کو برقرار رکھا اور قارئین کم ہونے کے باوجود اس رسالے کی روشنی اب تک قائم ہے۔ ماضی میں الطاف حسین حالی، عبد السلام ندوی، پروفیسر نواب علی، شیخ عبد القادر، عبد الماجد دریابادی، اقبال احمد سہیل، ڈاکٹر محمد اقبال اور نیاز فتحپوری جیسے زعما اس کے مقالہ نگاروں میں شامل تھے۔ معارف کی ادبی خدمات اس دور کے متعدد رسائل سے زیادہ ہیں۔ سلیمان ندوی نے "معارف" کے مقاصد پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے، "فلسفہ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔ عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے، علوم قدیمہ کو جدید طرز پراز سر نوترتیب دیا جائے، علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہا ں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا، علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد کی ترقیوں کی تاریخ ترتیب دی جائے، اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں، جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو، عربی زبان کی نادر الفن اور کم یاب کتابوں پر ریویو لکھے جائیں، اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول یہ کہ قرآن مجید سے متعلق، عقلی، ادبی، تاریخی، تمدنی اور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں، ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔" (ماہنامہ معارف جولائی ۱۹۱۶ء ص ۵) "معارف" کے ادبی حصہ میں جن شعرا کے کلام شائع ہوتے تھے ان میں مولانا محمد علی جوہر، اقبال سہیل، مولانا آزاد سبحانی، علامہ اقبال، اکبرالہ آبادی، اصغر گونڈوی، مولانا عبدالسلام ندوی، روش صدیقی، فراق گورکھ پوری، حسرت موہانی، فانی بدایونی اور جگر مرادآبادی جیسے شعرا شامل رہے ہیں۔ ماہنامہ "معارف" کی اردو ادبی تحقیقات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۱۔ قلمی نسخوں اور نادر مطبوعات سے متعلق مقالات و مضامین۔ ۲۔ ادبا وشعرا کے احوال سے متعلق تحریریں۔۳ - متفرق تحقیقی موضوعات۔ ۴- ذخیرہ ہائے مخطوطات کا تعارف اور۵۔ اردو شعرا کے تذکروں سے متعلق مقالات۔

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر

ماہنامہ برہان - ندوۃ المصنفین دہلی

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
برہان،دہلی
Shumara Number-006

ہفت روزہ الہلال - مولانا ابوالکلام آزاد

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
شمارہ نمبر -001

ماہنامہ پیغام حق لاہور

پیغام حق
ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
پیغام حق،لاہور
Shumara Number-004

ماہنامہ فاران کراچی

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
شمارہ نمبر۔000

مجلہ المعارف ، ترجمان ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر

زندگی کے راستے - رفیع الزمان زبیری

زندگی کے راستے 
بچپن میں جب قائد اعظم کے اسکول جانے کا وقت آیا تو ان کے والد نے ان سے کہا: دیکھو بیٹے! کچھ سیکھنے کے دو طریقے ہیں۔ انھوں نے پوچھا بابا! وہ کیا؟والد نے کہا ایک یہ کہ اپنے بڑوں کی عقل و سمجھ پر بھروسہ کرو اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کرو۔ قائد اعظم نے سوال کیا: اور دوسرا طریقہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا اپنا راستہ خود بناؤ اور اپنی غلطیوں سے سیکھو۔

قائد اعظم نے توجہ سے یہ بات سنی اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اور اپنے راستے پر چلیں گے۔ مگر ہر شخص محمد علی جناح نہیں ہوتا۔ بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غلطیاں کرے اور راستہ تلاش کرنے میں ٹھوکریں کھائے۔ عبدالسلام سلامی نے اس موضوع پر ایک مفید کتاب لکھ دی ہے۔ زندگی کے راستے جینے کے ہنر وہ لکھتے ہیں

ابتدائی مدرسے کے بعد ثانوی مدرسے یا سیکنڈری اسکول بچے کی تعلیمی زندگی کا تیسرا اور اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ عمر کے اس دور میں اس کا شعور پختگی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں پہنچ رہا ہوتا ہے۔