" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
دار الافتاء ڈاٹ انفو۔۔ مختصر تعارف
دار الافتاء دار العلوم دیوبند
عرب دنیا کی عربی زبان و ادب کی سرکاری اکیڈمیوں کا تعارف
مجمع اللغة العربية - قاھرہ
مجمع اللغۃ العربیۃ 14 شعبان 1351 ھ، بمطابق 13 دسمبر 1932ء مصر کے بادشاہ فواد اول کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔ اس میں بقاعدہ کام 1934ء سے شروع ہوا۔
اس کے کل ممبران 20 ہیں، 10 مصری ہوتے ہیں اور 10 عرب اور غیر عرب۔ ارکان کے لیے کسی مذہبی پس منظر رکھنے کی ضرورت نہیں صرف علمی اور لسانی مہارت ہی بنیادی شرط ہے ۔
پچھلے نصف صدی میں درج ذیل شخصیات نے اس کی صدارت کی ہے:
1- محمد توفيق رفعت (1934 - 1944)2- أحمد لطفي السيد (1945 -1963)4- الدكتور إبراهيم مدكور (1974 - 1995)5- الدكتور شوقي ضيف (1996 -2005)6- الدكتور محمود حافظ (2005 -2011)7- الدكتور حسن محمود عبد اللطيف الشافعي فروری 2012م سے رئیس ہیں۔
مجمع مین بطور نائب رئیس خدمات انجام دینے والوں کے اسمائے گرامی :
الأستاذ الدكتور طه حسين
الأستاذ زكى المهندس
الأستاذ الدكتور أحمد عمار
الأستاذ الدكتور محمد مهدى علام
الأستاذ الدكتور شوقى ضيف
الأستاذ الدكتور محمود حافظ
انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کا جائزہ
انڈیا میں اردو کے فروغ کی کوششوں کائزہ |
اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا میں عام طور پراردو کو مسلمانوں اور اسلام کی زبان سمجھاجاتا ہے، اس لئے اردو کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اردو کے جتنے ادبی جلسے منعقد ہوتے اس کی سربراہی کوئی نہ کوئی مسلمان ادیب یا شاعر کرتے تھے ۔ لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے ۔
اگر صرف دلی کا ذکر کیا جائے تو یہاں اردو کے بہت سے پروگرامز ادبی کلینڈر کا حصہ ہیں، لیکن یہاں جوبھی بڑے ادبی جلسے اورجشن منائے جاتے ہیں سب کی سربراہی غیر مسلموں کے پاس ہے، جیسے :
- شنکر شاد مشاعرہ
یہ دو اہم ہندو شاعروں شنکر لال شنکر اور لالہ مرلی دھر شاد کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اسے ایک بڑی کمپنی ڈی سی ایم سپانسر کرتی ہے۔
- مشاعرہ جشن بہار
اس کی روح رواں بھی ایک ہندو عورت کامنا پرساد ہیں۔
- جشن ریختہ
اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اردو کے فروغ میں اس نئی مقبولیت کا سہرا ریختہ ڈاٹ او آر جی کے سرجاتاہے، جس کے بانی معروف شخصیت سنجیو صراف ہیں ۔ اس سے اردو کی مقبولیت کو ایک نیا پلیٹ فارف فراہم ہوگیا ہے۔
المعجم الكبير- مجمع اللغة العربية - القاهرة ، فری ڈاؤن لوڈ کریں
المعجم الكبير مجمع اللغة العربية - القاهرة |
مجمع اللغۃ العربیۃ قاھرہ کا یہ سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔ پہلے اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اس کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی " آکسفورڈ ڈکشنری" کے طرز تیار کیا جائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسی میں تبدیلى آتى گئ ۔
1970 سے 2022ء تک اس کی کل 8 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔- اب تک صرف حرف (ا) سے حرف (ص) تک کے الفاظ پر کام مکمل ہوا ہے۔ جو تقریبا بندرہ حصوں پر مستمل ہیں ۔ پندرہویں حصہ کا پہلا ایڈیشن، حرف (ص ) کے لیے مختص ہے ، جو جون 2022 میں شائع ہوا۔
اس کے لیے لسانیات اور لغت کے ماہرین کی ایک خصوصی کمیٹی مختص ہے ان کی نگرانی میں مندرجہ ذیل خصوصیات کے ساتھ کام جاری ہے :
اس میں عربی لسانیات کے بارے میں مکمل معلومات ہیں جیسے زبان، ادب، علم الصرف، وعلم النحو، علم البلاغۃ اور اسی طرح تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، فلسفہ، انسانی علوم، معاشرتی علوم ، تہذیب، اور تمدن کے بارے میں تمام اصطلاحات شامل ہیں، اس کے ساتھ جدید سائنسی اور تکنیکی اور تحقیقاتی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔
درج ذیل لنک سے فری ڈاؤن لوڈ کریں !
المعجم الكبير المجلد الأول
مولانا امتیاز علی عرشی کی تصنیفات
مولانا امتیاز علی عرشی خان کی تصنیفات |
مولانا متیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں حاجی خلیل، قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔
تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔
مولانا نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔
قرآنیات اسلامیات اور عربی ادبیات میں عرشی صاحب کی بہت سی دریافت اضافہ ہیں ، آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔
وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے لے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے جس کی مثال تفسیر سفیان ثوری پر آپ کے حواشی اور تعلیقات ہے۔عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیری دنیا میں اس تفسیر کی اشاعت سے نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ کیونکہ تاریخ تفسیر میں تفسیر ابن جریر سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی ۔
اسی طرح آپ کا دوسرا کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔ طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان عربی اشعار کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔
اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔
مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات
مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات |
ماہنامہ معارف - دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ
زندگی کے راستے - رفیع الزمان زبیری
زندگی کے راستے |