تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کامیاب انسان کی عادات

1. طبعی عادات

ورزش کرنا ، کھانا پینا ، تناو پر قابو پانا ۔

2. سماجی / جذباتی عادات

خدمت / دوسرے کی طرح سوچنا/ اتحاد عمل / اندرونی تحفظ ۔

3- ذہنی عادات

پڑھنا ، تصور کرنا ، پلاننگ کرنا ، لکھنا ۔

4- روحانی عادات

اپنی اقدار کو سمجھنا اور ان پر قائم رہنا ، پڑھنا اور عبادت کرنا ۔




دنیا کے چند مشہور کامیاب انسانوں کی باتیں

معروف ماہر نفسیات سٹیفن آر۔ کووے کا کہنا ہے کہ انسان کی فطرت کے کچھ حصے ایسے ہیں کہ جن تک قانون یا تعلیم کے ذریعے نہیں پہنچا جاسکتا ۔ ان سے نپٹنے کے لیے اللہ کی قدرت درکار ہوتی ہے۔ جس قدر ہم فطرت کے قریب ہوکر زندگی گزار تے ہیں اسی قدر آفاقی رحمتیں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ اور ہمیں ہماری تخلیق کے مقصد اور منزل کے قریب کردیتی ہیں ۔

اصول در اصل قدرتی قوانین ہیں اور اللہ تعالی جو کہ ہم سب کی تخلیق کرنے والا ہے ۔ ان قوانین کا منبع ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے دلوں کا مالک بھی ہے ۔ لوگ جس قدر اس روحانی تجربہ کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اتنا ہی وہ اپنی فطرت کی نشو نما کرسکیں گے اور جس قدر اس تجربہ سے دور ہوں گے اتنا ہی وہ جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کریں گے ۔

ٹیل ہارڈ ڈی چارڈن نے کہاتھا " ایسا نہیں کہ ہم انسان ہیں اور روحانی تجربہ کررہے ہیں بلکہ ایسا ہے کہ ہم روحانی لوگ ہیں اور انسانی تجربہ کررہے ہیں "

بروس بارٹن نے کہاتھا " بسا اوقات جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ کائنات کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیا کیا زبردست نتائج برآمد ہوتے ہیں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ اس کائنا ت میں کوئی بھی چیز چھوٹی چیز نہیں ہے ۔"

معروف ادیب و شاعر ٹی ۔ایس ۔ ایلیٹ نے کہا تھا " ہمیں جستجو روکنی نہیں چاہیے ۔ تلاش کے آ خر پر ہم اس سفر کے آٖغاز پر ہی پہنچ جائیں گے اور ہمیں یوں لگے گا کہ جیسے اس جگہ پر ہم پہلی مرتبہ آئے ہوں "

جارج برنارڈ شا نے کہا تھا " زندگی کا حقیقی مزہ اس بات میں ہے کہ ایسے مقصد کے لیے گزاری جائے جسے آپ اپنی نظر میں اعلی سمجھتے ہوں ۔ بجائے چھوٹی چھوٹی خود غرض تکلیفوں اور غموں کے بارے میں شکایات کرنے کے اور اس بات پر ناراض رہنے کے کہ دنیا نے مجھے خوش رکھنے کے لیے اپنے سارے کام کیوں نہیں چھوڑے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کی ایک طاقت بن جائیں ۔ میرا خیال ہے کہ میری زندگی میرے گرد تمام مخلوق سے متعلق ہے اور جب تک میں زندہ ہوں میرے لیے یہ خوش قسمتی کی بات ہوگی ۔ اس کے لیے میں تمام وہ کچھ کرتا رہوں جو میرے اختیار میں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو میں مکمل طور پر استعمال میں لا یا جاچکاہوں ۔ کیونکہ جتنا محنت سے میں کام کروں گا اتنا ہی زیادہ میں زندہ رہوں گا ۔ میں زندگی کو اس کی اپنی خاطر بہت چاہتا ہوں ۔ زندگی میرے لیے کوئی مختصر شمع نہیں ہے بلکہ یہ میرے لیے ایک زبردست قسم کی مشعل ہے جسے مجھے کچھ عرصے کے لیے تھامنے کا موقع ملا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس عرصے میں یہ اس قدر روشن ہو جائے کہ جتنی یہ ہوسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسے میں اگلی نسلوں کو تھما دوں "

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے
 رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ۲۲ نومبر ۲۰۲۳

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں گے۔

ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔

نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔

پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔

اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔

نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟

یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی بی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔

نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟


آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔

10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔


مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔
بی بی سی اردو
اشاعت : 6 جون 2023 م

مستقبل میں جن ملازمتوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی وہ پہلے ہی ہمارے آس پاس موجود ہیں۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی کے اس خدشے کے باوجود کہ ٹیکنالوجی میں ترقی ملازمتیں ختم کر دے گی، آنے والے برسوں میں متعدد نئے مواقع ہمارے سامنے ہوں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور سینٹر فار نیو اکانومی اینڈ سوسائٹی کی سربراہ سعدیہ زاہدی نے کہا کہ ’ہم سب نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے اور اسے مختلف صنعتوں میں کتنی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔‘

اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر جن دو پیشوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی ان میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سرِ فہرست ہیں تاہم ڈبلیو ای ایف کے مطابق ایسے دیگر مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ماحولیاتی پائیداری کے ماہرین یا زرعی آلات کے آپریٹرز کی خدمات ایسی ملازمتیں ہیں جن کی اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ مانگ ہو گی۔

یہ تخمینے سوئس تنظیم نے 803 بڑی کمپنیوں کے تفصیلی سروے کی بنیاد پر لگائے ہیں جو دنیا کے تمام خطوں کی 45 معیشتوں میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت دیتی ہیں۔

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

چیلنج قبول کیجیے اور فاتح بنیے - مرزا یاور بیگ

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔

دنیا کے ’سب سے خوش انسان‘ کی خوشی کا راز آخر کیا ہے؟

 بی بی سی اردو ، ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ء 

وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان گذشتہ کئی برسوں سے نیپال کی ’شیچن ٹینیئی ڈارجیلنگ‘ خانقاہ میں بودھ بھکشو (راہب) میتھیو رکارڈ نامی شخص کے دماغ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ میتھیو رکارڈ مولیکیولیر بائیولوجی کے ماہر اور ڈاکٹر بھی ہیں۔ وہ دلائی لامہ کے ذاتی مشیر اور اُن کے مترجم بھی ہیں۔

74 سالہ میتھیو کے دماغ کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج دیکھ کر سائنسدان دنگ رہ گئے ہیں۔

محققین نے رکارڈ کے دماغ کا نیوکلیئر ایم آر آئی کیا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔

سائنسدانوں نے اُن کے سر پر 256 سینسر لگائے تاکہ ان کے ذہنی دباؤ، چڑچڑے پن، غصے، خوشی، اطمینان اور درجنوں دیگر مختلف کیفیات اور احساسات کی سطح کا اندازہ لگا سکیں۔ انھوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے دماغ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

حاصل کردہ نتائج نے اس تجربے میں شریک ہر ایک شخص کی خوشی کی سطح کو ایک مخصوص پیمانے پر ناپا جس میں 0.3 (بہت ناخوش) سے منفی 0.3 (بہت خوش) تھا۔

میتھیو رکارڈ کو اس پیمانے پر منفی 0.45 نمبر حاصل ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ میتھیو اتنے خوش تھے کہ ان کی خوشی کا نمبر اسے ناپنے والے پیمانے پر بھی دستیاب نہیں تھا۔

اور یوں انھیں ’دنیا کا سب سے زیادہ خوش آدمی‘ قرار دیا گیا۔میتھیو رکارڈ، معروف فرانسیسی فلاسفر ژان فرانسوا ریویل اور مصور یحنی لی ٹوملین کے بیٹے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست اور فلسفی الیگزانڈر جولیئن اور نفسیاتی ماہر کرسٹوف آندرے کے ساتھ مل کر ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی ہے اور اب یہ ہسپانوی زبان میں ’لانگ لئیو فریڈم!‘ کے عنوان سے چھپ رہی ہے۔

ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے ؟

بی بی سی اردو  ، ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۱ء
ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے؟


آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔


اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟


اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی محفوظ ہے۔


بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں۔


حالیہ برسوں میں بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔


لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے 'دماغ' کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟

الشریعہ اکادمی پاکستان کا تعارف : اغراض و مقاصد، رسائِل اور مطبوعات

 فکری پس منظر اور اغراض ومقاصد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فرض انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔

آج سے تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماءکرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟

 فری لانسنگ کیا ہے؟

ٹیکنالوجی کی زبان میں فری لانسنگ سے مراد انٹرنیٹ پر کسی بھی ملک میں موجود ایک فرد یا کمپنی کے لیے کام کے عوض پیسے وصول کرنا ہے۔

پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کئی طریقوں سے کما سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک طریقہ ای کامرس یعنی آن لائن کاروبار ہے جبکہ دوسرا طریقہ کونٹینٹ یعنی ایسا مواد لکھنا، تصاویر یا ویڈیوز بنانا جو لوگوں میں مقبولیت حاصل کر سکے۔

اسی طرح فری لانسنگ ایک تیسرا ذریعہ ہے جو پاکستان کے نوجوانوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ایمن کے مطابق: ’ایک اچھا انٹرنیٹ اور لیپ ٹام موجود ہو تو آپ کہیں سے بھی فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘

آمنہ کمال پاکستان کے فری لانسنرز کی ترتیب کرنے والے ایک حکومتی ادارے ڈیجی سکلز سے منسلک ہیں۔ وہاں وہ ہر عمر کے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ: ’ایک زمانے میں کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا تھا۔ پہلے پڑھائی کے بعد لوگ نوکریاں تلاش کرتے تھے۔

’اب یہ بدلتا جا رہا ہے اور لوگوں کو جسمانی طور پر کسی دفتر میں موجود ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ورچوئلی (یعنی عدم موجودگی میں کمپیوٹر کے ذریعے) کام کر سکتے ہیں۔

نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

بی بی سی اردو 

2جنوری 2023ء 

 نئے سال میں جم جانے یا سگریٹ نوشی ترک کرنے جیسے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

جم شروع کرنی ہے، پیسے بھی بچانے ہیں، سگریٹ نوشی بھی ترک کرنی ہے اور اپنی شخصیت پر بھی کام کرنا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی اہداف آج کل یقیناً آپ سب کے ذہنوں میں ہوں گے۔

نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

نئے سال کی ابتدا ہو چکی ہے اور یوں تو نئے پراجیکٹس کا آغاز کرنے اور بری عادتوں کو پیچھے چھوڑنے کا کوئی اچھا، برا وقت نہیں ہوتا لیکن نئے سال کی ابتدا ایسا کرنے کے لیا موقع ضرور فراہم کرتا ہے۔

اکثر افراد کے لیے نئے سال کے آغاز پر کیے گئے عہد ایک ’تازہ آغاز‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ نئے سال کی ’قراردادوں‘ کا مقصد دراصل خود کو بہتر بنانے کے لیے نئے اہداف کا تعین کرنا ہوتا ہے۔

شاید آپ اس سال بچت کرنے کا عہد کرنا چاہتے ہوں یا ہو سکتا ہے آپ کو ایک نئے شوق کو اپنانے کی جستجو ہو۔

آپ نے سال کے آغاز میں جو بھی عہد کر لیے ہیں، انھیں پورا کرنے کے لیے ایک چیز بہت ضروری ہے اور وہ حوصلہ افزائی کی مسلسل موجودگی ہے۔

تاہم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے۔

سکرینٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نئے سال کے آغاز پر اپنے لیے اہداف مقرر کرنے والے افراد میں سے صرف آٹھ فیصد ان پر قائم رہ سکے۔

تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ ان 92 فیصد افراد میں سے نہ ہوں۔

اس تحریر میں ہم اس ناکامی سے بچنے اور سال کے آخر تک ایک عہد کو نبھانے کے پانچ آسان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے اہداف پورے کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟

کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہوجاتے ہیں ؟ 
بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت: 24 دسمبر 2022ء 

 ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں! کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟

اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کا کوئی نہ کوئی جاننے والا ایسا ضرور ہو گا جو ہمیشہ لیٹ ہو جاتا ہے۔ وہ لیٹ آنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بھی آپ کو سنائے گا، مگر اگلی مرتبہ پھر لیٹ ہو گا۔

کیا یہ بہانے واقعی جھوٹے بہانے ہوتے ہیں یا ہمیشہ لیٹ ہونے والے افراد اپنی ’عادت کے ہاتھوں مجبور‘ ہوتے ہیں

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ حد تک لیٹ ہونا انسانی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے اور لیٹ ہونے والے افراد ذہنی طور پر مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔

سنہ 2014 کے ایک سروے کے مطابق پانچ میں سے ایک امریکی ہر ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لیٹ ہو جاتا ہے یعنی ہفتے کے دوران ایک نا ایک موقع ایسا ضرور آتا ہے جب وہ مقررہ وقت پر کہیں پہنچ نہیں پاتا۔  

کتاب ’لیٹ!‘ کی مصنف گریس پیسی کہتی ہیں کہ عام افراد دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ٹائم کیپر یعنی وقت کے پابند جو ہمیشہ وقت پر پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، اور دوسرے ٹائم بینڈر، یعنی جو ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں۔ 

وہ کہتی ہیں کہ ٹائم بینڈر (یعنی ہمیشہ وقت سے پیچھے رہنے والے) افراد کو روٹین پسند نہیں ہوتی اور اُنھیں یکسانیت سے بہت کوفت ہوتی ہے اس لیے وہ بہت جلدی بور ہو جاتے ہیں۔ 

کیا عقل و شعور کے سنہری دور میں رہنے والا انسان ’ذہانت کی معراج‘ پر ہے؟

آپ نے شاید محسوس نہ کیا ہو، لیکن ہم عقل و شعور کے سنہری دور میں رہ رہے ہیں۔

سو سال پہلے جب سے ذہانت جانچنے کا پیمانہ آئی کیو ایجاد ہوا ہے ہمارا سکور بڑھتا ہی رہا ہے۔ آج ایک اوسط درجے کی ذہانت کے حامل شخص کو سنہ 1919 میں پیدا ہونے والے شخص کے مقابلے میں جینیس یعنی اعلی ذہانت رکھنے والا سمجھا جاتا۔ اس اصول کو فلِن اِیفیکٹ کہتے ہیں۔

ہماری اس ذہنی صلاحیت میں یہ اضافہ خوشی کی بات ہے، مگر کب تک؟ حالیہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ صلاحیت ماند پڑ رہی ہے، بلکہ انحطاط پذیر ہے۔ یعنی ہم عقل و شعور کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہانت کی انتہا کو پہنچا بھی جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو   پھر مستقبل کے انسان کے لیے عروج کے بعد زوال کا مطلب کیا ہوگا۔
ازمنۂ قدیم میں انسانی ذہانت کی ابتدا کیسی ہوئی؟ یعنی وہ وقت جب تیس لاکھ برس پہلے ہمارے اجداد نے دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر چلنا شروع کیا۔ متحجر یا پتھر بن جانے والی کھوپڑیوں کے سکین سے پتا چلاتا ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے بِن مانَس، آسٹرالوپیِتھیکس، کا دماغ 400 مکعب سینٹی میٹر بڑا تھا جو آج کے انسانی دماغ کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔