تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈاکٹر محمد حسان کی "تفسیر القرآن للمعاصرین" – ایک علمی تجزیہ اور تبصرہ

تعارف

ڈاکٹر محمد حسان عصرِ حاضر کے ممتاز مصری علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک جید محدث، نامور خطیب، اور موثر مبلغ ہیں، جنہوں نے اپنی خطابت، تدریس، اور علمی کتب کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج کی ہے۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں ان کی علمی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

تعلیم و اساتذہ

محمد حسان نے ابتدائی دینی تعلیم روایتی عربی مدارس سے حاصل کی اور بعد میں جامعہ الازہر میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ انہوں نے معروف محدثین اور علماء سے حدیث، تفسیر، فقہ، اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔

دعوتی خدمات

ڈاکٹر محمد حسان کی دعوتی خدمات وسیع ہیں۔ انہوں نے مصر سمیت کئی عرب و اسلامی ممالک میں تبلیغی اور اصلاحی خطبات دیے، جن میں قرآن و سنت کی بنیاد پر امت کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ ان کی تقریریں عام فہم اور مدلل ہوتی ہیں، جو عوام و خواص دونوں میں مقبول ہیں۔

تصانیف و علمی کام

ان کے علمی کام میں کئی موضوعات پر تحریریں شامل ہیں، جن میں عقیدہ، فقہ، حدیث، اور اسلامی معاشرت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان کی تصانیف علمی گہرائی اور استدلال پر مبنی ہوتی ہیں، جو طلبہ علم اور علماء کے لیے نہایت مفید ہیں۔

میڈیا اور خطابت

ڈاکٹر محمد حسان نے جدید میڈیا کو بھی اپنی دعوت کے لیے استعمال کیا۔ وہ مختلف اسلامی ٹی وی چینلز پر پروگرامز کرتے رہے ہیں، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو سادہ اور موثر انداز میں پیش کیا۔ یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان کے خطبات لاکھوں افراد دیکھتے اور سنتے ہیں۔

مشکلات و آزمائشیں

اپنی حق گوئی کی وجہ سے انہیں بعض اوقات مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں مختلف حکومتوں اور اداروں کی طرف سے تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے اور امت کو اتحاد اور تقویٰ کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

اثر و رسوخ

ڈاکٹر محمد حسان کا اثر عرب دنیا میں بہت گہرا ہے۔ وہ ایک ایسے عالم ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔ ان کے خطبات اور دروس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔

اساتذہ میں قیادت کی مہارتوں کی ترقی (Developing Leadership Skills in Teachers)



اساتذہ کا کردار صرف معلومات کی فراہمی تک محدود نہیں؛ وہ طلبہ کی زندگیوں میں رہنما، مشیر، اور مثالی شخصیت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ قیادت کی مہارتیں ایک استاد کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی ہیں اور تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان مہارتوں کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے طریقے واضح کریں گے۔

1. رہنمائی کی اہمیت کو سمجھنا

قیادت کی مہارتوں کا اولین مقصد اساتذہ کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ تعلیمی ماحول میں طلبہ کے لیے ایک مثبت رہنما بن سکیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی کلاس کے ہر بچے کی تعلیمی اور جذباتی ضروریات کو سمجھیں اور ان کی ترقی کے لیے ایک ایسا ماحول فراہم کریں جہاں طلبہ کھل کر سیکھ سکیں۔ اساتذہ کا رہنما ہونا طلبہ کے لیے ایک اعتماد کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ مہارت طلبہ کو نہ صرف تعلیمی بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

2. مؤثر مواصلاتی مہارت

اساتذہ کی مؤثر قیادت ان کی گفتگو اور مواصلات کی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی بات کو اس انداز میں بیان کریں کہ طلبہ اور ساتھی اساتذہ بخوبی سمجھ سکیں۔ کلاس روم میں طلبہ کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ استاد کی آواز، لہجہ، اور بات چیت کا انداز مؤثر ہو۔ اسی طرح، والدین اور اسکول انتظامیہ کے ساتھ مثبت رابطہ اساتذہ کو ایک مضبوط رہنما کے طور پر سامنے لاتا ہے۔

مدارس اسلامیہ اور ان کی تجدید کاری ۔ حبیب الرحمن اعظمی

ہماری دینی درس گاہوں کا اصل موضوع قرآن وسنت اورفقہ اسلامی ہے انہیں کی تعلیم وتعلّم افہام و تفہیم، تعمیل اتباع اور دعوت و تبلیغ مدارس عربیہ دینیہ کا مقصود اصلی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ دینی تعلیمی و تربیتی ادارے علوم شریعت اسلامی کے نقیب اور خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم کے فرائض سہ گانہ: تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اور تفہیم حکمت وسنت کے وارث ہیں۔

ماضی قریب میں ان تعلیمی مراکز نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس قابل صد فخر امانت کو اخلاف تک منتقل کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ہماری علمی و ثقافتی تاریخ کا ایک زرّیں باب ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کئے بغیر کوئی منصف مزاج نہیں رہ سکتا۔ آج کے انتشار پذیر اور مادیت کے فروغ کے دور میں بھی یہ اسلامی مدارس اپنے وسائل و ذرائع کے مطابق مصروف عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین واہم ترین ضرورت کی کفالت کررہے ہیں۔ بھلا اس سچائی کا کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ کفر وفسق کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے موجود ماحول میں اسلامی تہذیب و معاشرت اور دینی رسوم و عبادات کے جو روشن آثار نظر آرہے ہیں وہ واسطہ و بالواسطہ انہیں درسگاہوں کے جہدوعمل کا ثمرہ ہیں۔

مدارس دینیہ کا یہی وہ کردار ہے جو اسلام بیزار طبقہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان مدرسوں کی آزادانہ کارکردگی کا یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا اسلام اور مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال دینے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آج یورپ و امریکہ کی زیرسرپرستی عالمی پیمانہ پر اسلامی درسگاہوں کے نظام تعلیم وتربیت میں ترمیم وتنسیخ کے لئے منصوبہ بند مہم چل رہی ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ سقوط روس کے بعد ہمارے ملک کی قومی حکومتوں کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے اور چاروناچار اظہار وفاداری کے لئے انہیں کی آواز میں آواز ملانا ہی پڑتا ہے۔ یہ مدرسہ بورڈ کا قیام بھی غالب گمان یہی ہے کہ اسی اظہار وفاداری کا ایک حصہ ہے۔ اور مدارس کو اس بورڈ سے وابستہ کرکے دراصل انہیں بے جان بنادینے کی ایک شاطرانہ ترکیب ہے۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیمی مراکز۔ حبیب الرحمن اعظمی

ہندوستان کی علمی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے دور اقتدار میں تعلیم و تدریس کا تمام تر انحصار مسلم حکمرانوں، امراء اور نوابین کی علم پروری، علماء نوازی اور داد ودہش پر تھا، ہر شہر اور قصبات میں سلاطین اور امراء کی جانب سے مدرسے قائم تھے جن کے مصارف کی مکمل ذمہ داری شاہی خزانے پر ہوتی تھی، چنانچہ اجمیر، دہلی، پنجاب، آگرہ، اودھ، بنگال، بہار، دکن، مالوہ، ملتان، کشمیر، گجرات وغیرہ میں اس قسم کی ہزاروں درسگاہیں قائم تھیں، ان باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ علماء شخصی طور پر بھی اپنے اپنے مستقر پر تعلیم وتعلّم کی خدمات انجام دیا کرتے تھے، اور ان علماء کو معاش کی جانب سے بے فکر رکھنے کے لئے دربار شاہی سے مدد معاش کے عنوان سے جاگیریں اور وظائف مقرر تھے۔

مسلمانوں کا یہ نظام تعلیم ۱۸۵۷/ تک قائم رہا، اس نظام تعلیم میں عام طور پر صَرف، نحو، بلاغت، فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، تصوف، تفسیر، حدیث وغیرہ کے علوم وفنون پڑھے پڑھائے جاتے تھے، البتہ حدیث و تفسیر کا فن برائے نام تھا، زیادہ توجہ فقہ و اصول فقہ اور پھر منطق وفلسفہ پر دی جاتی تھی۔

۱۸۵۷/ میں جب ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوگیا، اور مسلمانوں کی بجائے سیاسی اقتدار پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو یہاں کے عام باشندے اور بطور خاص مسلمان ”انّ الملوک اذا دخلوا قریة افسدوہا وجعلوا اعزة اہلہا اذلة“(۱) کے فطری اصول کا تختہ مشق بن گئے۔

اس سیاسی انقلاب نے مسلمانوں کے اقتصادی، تمدنی اور علمی ودینی نظام کو کس طرح پامال کیا اس کی تفصیل سرولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ”آور انڈین مسلمانز“ ہمارے ہندوستانی مسلمان میں کسی قدر بیان کی ہے، انھوں نے ایک جگہ مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور مشکلات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

حکومت نے ان کے لئے تمام اہم عہدوں کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دوسرے ایسا طریقہٴ تعلیم جاری کردیا ہے جس میں ان کی قوم کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے تیسرے قاضیوں کی موقوفی نے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے بیکار اورمحتاج کردیا ہے، چوتھے ان کے اوقاف کی آمدنی جو ان کی تعلیم پر خرچ ہونی چاہئے تھی غلط مصرفوں پر خرچ ہورہی ہے۔(۱)

تاریخ میں دینی مدارس کی ابتداء اور ارتقاء

از:مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی‏، ڈائریکٹر مرکز تحقیق اسلامی، پشاور صدر

 مدرسہ کا مفہوم اوراس کی ابتدائی شکل

مدرسہ اگر اس معنی میں لیا جائے جس کی اپنی مستقل عمارت ہو، اساتذہ اور طلبہ ہوں اور ایک خاص تعلیمی نظام اور منصوبہ بندی کے تحت علوم و فنون کی تدریس ہوتی ہو، تواس طرح کے مدرسہ کا وجود اسلام کے ابتدائی ادوار میں نہیں تھا اور مسجد ہی تمام مذہبی، علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور تھی۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ حصول علم کے طور طریقے بدلنے لگے۔ علم کے حلقے بڑھ گئے، درس و تدریس اور تکرار کا شور پیدا ہوا اور بحث و مناظروں کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، چنانچہ ان چیزوں نے مساجد سے مدارس کو الگ کردیا، کیونکہ مساجد میں ادا کی جانے والی عبادات کے لئے سکون و اطمینان کی فضا ضروری تھی۔(۱)

مذکورہ بالا تعریف کے مطابق مدرسہ کا وجود اسلام میں سب سے پہلے اہل نیشاپور (ایران) کے ہاں عمل میں آیا جہاں نیشاپور کے علماء نے ”مدرسہ بیہقیہ“ کی بنیاد رکھی تھی۔ نیشاپور میں اس کے علاوہ ایک مدرسہ سلطان محمود عزنوی نے، ایک اس کے بھائی نصر بن سبکتگین نے مدرسہ سعیدیہ کے نام سے قائم کیا تھا اور چوتھا مدرسہ امام ابن فورک (متوفی ۴۰۶ھ) کا وجود میں آیا تھا۔(۲)

دینی مدارس کی رجسٹریشن کا تنازع کیا ہے؟ فرحت جاوید

عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
10 دسمبر 2024

اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں جب پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تو اُس موقع پر جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ’دینی حلقوں کے دو اہم مطالبات‘ پارلیمان سے منظور کروانے پر ملک کے متعدد مذہبی حلقوں اور گروہوں کی جانب سے تحسین پیش کی گئی۔

اُن دو مطالبات میں ایک تو پاکستان سے سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ تھا جبکہ دوسرا اہم مطالبہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائیٹیز ایکٹ 1860کے ماتحت لانا تھا۔

تاہم دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل (سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024) جب پارلیمان سے منظوری کے بعد فائنل منظوری کے لیے ایوانِ صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے اس کے مسودے پر اعتراض لگا کر اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔

اور یہیں سے اس معاملے کی ابتدا ہوئی جس کے پس منظر میں جے یو آئی ف کے چند رہنماؤں کی جانب سے گذشتہ دنوں ’مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ‘ کی بات کی گئی جبکہ گذشتہ روز (نو دسمبر) کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مولانا نے حکمراں اتحاد پر الزام عائد کیا کہ وہ ’علما کو تقسیم کرنے کی سازش‘ پر عمل پیرا ہے۔مولانا حالیہ دنوں میں یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت حکومت کی جانب سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات میں مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہاں اہم سوالات یہ ہیں کہ آخر دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے کیا؟ نئے ترمیمی بِل میں رجسٹریشن سے متعلق کیا بات کی گئی ہے اور آخر اس معاملے نے حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کو حکمراں اتحاد کے سامنے کیوں کھڑا کر دیا ہے؟

غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں!



غصہ آنا ایک نارمل رویہ ہے اور غصے کا اظہار بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

تاہم بہت زیادہ اور شدید غصہ آنا بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے، یہ نہ صرف صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ تعلقات اور سماجی زندگی میں بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

آج آپ کو غصے کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اپنا غصہ کنٹرول کرسکتے ہیں اور کسی ممکنہ نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

اظہار کرنے سے قبل پرسکون ہونے کا انتظار کریں


غصے میں کچھ بھی کہنے سے قبل انتظار کرنا بہتر ہے، جب آپ کا دماغ پرسکون ہوگا تب ہی اس کے بارے میں سوچنا آسان ہوگا کہ آپ کیا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔

غصے کی حالت میں اکثر غلط بات منہ سے نکل جاتی ہے یا غلط فیصلہ ہوجاتا ہے جو بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔

منظر سے ہٹ جائیں


جس لمحے آپ کو لگتا ہے کہ تناؤ بڑھ رہا ہے اور آپ غصے میں میں کچھ بھی کہہ دیں گے تو اس مقام سے دور ہو کر کسی قسم کی جسمانی ورزش کی کوشش کریں۔

پیدل چلنا، بائیک چلانا یا یہاں تک کہ چہل قدمی کرنا بھی آپ کے تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی، اس طرح آپ پرسکون ہو کر صورتحال کا صحیح انداز میں سامنا کر پائیں گے۔

گہری سانسیں لیں

حرکت میں ہی برکت ہے: ’زیادہ دیر تک بیٹھنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘

 بی بی سی اردو 26 جولائی 2024
گھر ہو دفتر یا گاڑی، لوگ روزانہ کہیں نہ کہیں دیر تک بیٹھے ضرور رہتے ہیں لیکن بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے شریانوں کی خرابی کی وجہ سے دل کی بیماری اور ٹائپ ٹو ذیابیطس جیسے سنگین صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

سنہ 1953 میں وبائی امراض کے ماہر جیریمی مورس نے دریافت کیا کہ لندن کے بس ڈرائیوروں میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بس کنڈیکٹرز کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے (عمر، جنس اور آمدن کے لحاظ سے) دونوں گروہ ایک جیسے تھے تو پھر اتنا اہم فرق کیوں تھا؟

مورس کا جواب تھا: بس کنڈکٹرز کا کھڑا ہونا لازمی تھا اور باقاعدگی سے لندن کی مشہور ڈبل ڈیکر بسوں کی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ مسافروں کو ٹکٹ فروخت کرتے تھے جبکہ ڈرائیور لمبے وقت تک بیٹھے رہتے تھے۔

ان کے تاریخی مطالعے نے جسمانی سرگرمی اور صحت کے درمیان روابط پر تحقیق کی بنیاد رکھی۔

اگرچہ لندن کی بسوں میں کنڈکٹرز اب ماضی کی بات ہو گئی ہے تاہم مورس کے نتائج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے گھر سے کام کے معاملے میں بہت بڑی تبدیلی آئی، جس سے ہمارے بیٹھنے کے مجموعی وقت میں اضافہ ہو گیا۔

میٹنگ روم سے واٹر کولر اور بیت الخلا تک کی چہل قدمی کے بغیر ڈیسک کے پیچھے گھنٹوں تک بیٹھنا آسان ہے۔

تاہم آفس کلچر نے 1980 کی دہائی تک ہماری کام کرنے کی زندگی کو اس قدر تبدیل کر دیا تھا کہ کچھ محققین نے مذاق کیا کہ ہماری نسل ہومو سیڈنز ’بیٹھے ہوئے انسان‘ بن گئی ہے۔

آخری لمحات میں امتحانات کی بہتر تیاری کیسے کی جائے؟

جوناتھن فرتھ
 بی بی سی اردو ۱ جون ۲۰۲۴

اگر آپ سکول، کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور آپ کے امتحانات سر پر ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ وہ سبق یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں جو آپ نے بہت پہلے سیکھا ہو اور اب امتحانات قریب آنے پر یا تو آپ اس پڑھائے گئے سبق کو بالکل بھول چکے ہوں یا پھر یہ اس بات کا ثبوت ہے جس وقت وہ سبق پڑھایا جا رہا تھا اس وقت آپ کی مکمل توجہ اس جانب نہیں تھی۔

بدقسمتی سے ایک وقت میں بہت ساری معلومات کو ایک ساتھ یاد کرنے کی کوشش کرنا کسی بھی سبق کو اچھے سے سیکھنے کا انتہائی غیر مؤثر طریقہ ہے۔

لیکن ان حالات کے باوجود امتحان پاس کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل جنریشن اور سکرین ٹائم: آج کی نسل اپنے والدین کے مقابلے میں کم ذہین کیوں ہے؟

28 مئ 2024 بی بی سی اردو 

’ڈیجیٹل کریٹن فیکٹری‘ فرانسیسی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں تحقیق کے ڈائریکٹر اور فرانسیسی نیورو سائنسدان مائیکل ڈیسمرگٹ کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ہے جس میں انھوں نے ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل آلات بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
ڈیجیتل جنریشن

بی بی سی نیوز منڈو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے بچوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں کوئی بھی بہانہ ہمیں اس کا جواز نہیں دیتا، ہم ان کے مستقبل اور نشوونما کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘

ثبوت واضح ہیں: کچھ عرصے سے آئی کیو (انٹیلی جنس کوشینٹ) ٹیسٹ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ نئی نسلیں پچھلی نسلوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں۔

مائیکل ڈیسمرگٹ نے ایک وسیع پیمانے پر کی گئی سائنسی اشاعت کا مجموعہ تیار کیا ہے اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا جیسے مشہور تحقیقی مراکز میں کام کیا ہے۔

ان کی کتاب فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ان کے انٹرویو کے اقتباسات شئیر کر رہے ہیں۔

کرغیزستان کی ڈاکٹر ساز منڈی

لکھاری ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری

حالیہ دنوں میں پاکستان میں کرغیزستان کا نام ہر اخبار اور ٹی وی کے سکرینوں پر نظر آ رہا ہے، اس کی وجہ وہاں موجود پاکستان میڈیکل کے طلبا پر مقامی باشندوں کے پرتشدد حملے ہیں۔ یہ ملک ازبکستان کو چھوڑ کر اس خطے کا سب سے غریب اور غیر ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس لیے اس کی ایک تہائی آبادی دیگر ملکوں میں کام کی تلاش میں جاتی ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا بزنس جسم فروشی ہے۔ اور اس کے افراد دیگر وسطی ایشیائی ممالک کی طرح دیگر ملکوں میں بھی جسم فروشی کے لیے جاتے ہیں۔

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک دو دہائیوں میں اچانک پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، مصر اور دیگر ترقی پذیر ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں میڈیکل کے طلبا نے اس ملک کا رُخ کرنا شروع کر دیا اور یہاں بڑی تعداد میں میڈیکل یونیورسٹیاں اور کالجز بننا شروع ہو گئے۔ ان یونیورسٹیوں کے پانچ سے لے کر پندرہ پندرہ کیمپسز ہیں۔ مجھے 2015 میں جب میں پشاور یونیورسٹی میں ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ تھا۔ اس ملک اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ان ممالک کا تعلیمی نظام ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو جا کر دیکھا ہے۔

کرغیزستان کے تعلیمی اداروں کا حال انتہائی ناگفتہ بہ تھا، اور وہاں کسی کو بھی انگریزی زبان نہیں آتی تھی، سارے لوگ کرغیز اور روسی زبان میں بات چیت کرتے تھے، کہیں کہیں ازبک زبان بھی لوگ بول لیتے تھے، ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں۔ کرغیز حکومت کی یہ بہت بڑی خواہش تھی کہ وہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے سات ایم او یو سائن کریں۔ اور ان ایم او یوز کا ایک ہی بنیادی مقصد تھا کہ پاکستانی یونیورسٹیاں ان طلبا کو جن کو وہ داخلہ نہیں دے سکتی ہیں، قائل کریں کہ وہ کرغیز یونیورسٹیوں میں داخلہ لیں جس میں انہیں مختلف رعایتیں دی جائیں گی۔

یہاں تک تو ان کا مطالبہ کسی حد تک درست تھا۔ مگر یہ ساری باتیں بتانے والے اور پاکستان کی یونیورسٹیوں کو ایم او یو کے لیے راغب کرنے والے لوگ کرغیز نہیں تھے بلکہ یہ پاکستانی ہی تھے جن کا تعلق لاہور اور پنجاب کے کچھ شہروں سے تھا۔ یہ زیادہ پڑھے لکھے اور تعلیم کے شعبہ کے ماہرین بھی نہیں تھے۔ میں نے جب کرغیز یوں سے معلوم کیا کہ ان لوگوں کو انہوں نے بطور ترجمان رکھا ہے۔ تو ان کا جواب بہت چونکا دینے والا تھا۔

کہ یہ سب لوگ جو ہندوستانی، بنگلہ دیشی، پاکستانی، ترک اور مصری ہیں یہ یہاں تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے یہاں بہت انویسٹمنٹ کی ہے۔ جن دو پاکستانی حضرات سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ٹریول ایجنٹ تھے۔ اس دور میں جو پمفلٹ انہوں نے ہمیں دیے تھے وہ لاہور سے چھپ کر گئے تھے۔ جن کو پڑھ کر حیرت ہوتی تھی کہ وہاں میڈیکل میں داخلے کی شرائط صرف بارہ برس کی تعلیم تھی، اور کوئی دوسری شرط نہیں تھی اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ طالب علم کو سو فیصد یقینی پانچ برس میں ایم ڈی کی ڈگری دی جائے گی، جس کو وہی ادارے پاکستان کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے پاس کرنے کی ذمہ داری بھی لے رہے تھے۔

ویکی شیعہ سائبر سپیس پر موجود آنلائن دائرۃ المعارف کیا ہے ؟

ویکی شیعہ آنلائن دائرۃ المعارف صفحہ اول 
(اس تحریر کی تمام معلومات ویکی شعیہ کے مؤلفین کی طرف سے ہیں )

ویکی شیعہ سائبر سپیس پر موجود ایک آنلائن دائرۃ المعارف ہے جس کا مقصد شیعہ اثناعشریہ اور مکتب اہل بیتؑ سے منسوب دوسرے مذاہب کی شناخت میں دخیل مسائل اور مفاہیم کی وضاحت کرنا ہے۔ ان مفاہیم میں اعتقادات، شخصیات، علوم و معارف(فقہ، اصول فقہ، کلام)، کتب، اماکن، واقعات، آداب و رسوم، مناسک، تاریخ تشیع اور دیگر فرق شیعہ سمیت ایسے تمام مفاہیم شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاروں سے مربوط ہوں۔ اسی طرح مذکورہ مقصد کے حصول کیلئے جو الفاظ اور اسامی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ان سب کی اس وضاحت بھی اس دائرۃ المعارف میں کی جاتی ہے۔

ویکی شیعہ میں لکھاری کا ذاتی تجزیہ و تحلیل نیز ایسے جدید نظریات سے پرہیز کی جاتی ہے جو ابھی ثابت نہ ہوئے ہوں۔ علمی نظریات اور تاریخی مستندات میں موجود اختلافات کی درستی اور نادرستی کا فیصلہ قارئین کا حق ہے لذا اس سلسلے میں ویکی شیعہ اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ مذہبی اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے ویکی شیعہ کے مولفین کی یہ کوشش ہے  کہ جہاں تک ممکن ہو ایسے قدیمی منابع اور مآخذ استعمال کریں جو دونوں بڑے مذاہب (شیعہ اور سنی) کے یہاں مورد تائید ہوں۔

ویکی‌ شیعہ اہل بیت عالمی اسمبلی سے وابستہ ہے۔ یہ دائرۃ المعارف اب تک دنیا کے 22 زبانوں میں نشر ہو رہا ہے اور اردو میں 3,452 مقالے موجود ہیں۔

کامیاب انسان کی عادات

1. طبعی عادات

ورزش کرنا ، کھانا پینا ، تناو پر قابو پانا ۔

2. سماجی / جذباتی عادات

خدمت / دوسرے کی طرح سوچنا/ اتحاد عمل / اندرونی تحفظ ۔

3- ذہنی عادات

پڑھنا ، تصور کرنا ، پلاننگ کرنا ، لکھنا ۔

4- روحانی عادات

اپنی اقدار کو سمجھنا اور ان پر قائم رہنا ، پڑھنا اور عبادت کرنا ۔




دنیا کے چند مشہور کامیاب انسانوں کی باتیں

معروف ماہر نفسیات سٹیفن آر۔ کووے کا کہنا ہے کہ انسان کی فطرت کے کچھ حصے ایسے ہیں کہ جن تک قانون یا تعلیم کے ذریعے نہیں پہنچا جاسکتا ۔ ان سے نپٹنے کے لیے اللہ کی قدرت درکار ہوتی ہے۔ جس قدر ہم فطرت کے قریب ہوکر زندگی گزار تے ہیں اسی قدر آفاقی رحمتیں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ اور ہمیں ہماری تخلیق کے مقصد اور منزل کے قریب کردیتی ہیں ۔

اصول در اصل قدرتی قوانین ہیں اور اللہ تعالی جو کہ ہم سب کی تخلیق کرنے والا ہے ۔ ان قوانین کا منبع ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے دلوں کا مالک بھی ہے ۔ لوگ جس قدر اس روحانی تجربہ کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اتنا ہی وہ اپنی فطرت کی نشو نما کرسکیں گے اور جس قدر اس تجربہ سے دور ہوں گے اتنا ہی وہ جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کریں گے ۔

ٹیل ہارڈ ڈی چارڈن نے کہاتھا " ایسا نہیں کہ ہم انسان ہیں اور روحانی تجربہ کررہے ہیں بلکہ ایسا ہے کہ ہم روحانی لوگ ہیں اور انسانی تجربہ کررہے ہیں "

بروس بارٹن نے کہاتھا " بسا اوقات جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ کائنات کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیا کیا زبردست نتائج برآمد ہوتے ہیں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ اس کائنا ت میں کوئی بھی چیز چھوٹی چیز نہیں ہے ۔"

معروف ادیب و شاعر ٹی ۔ایس ۔ ایلیٹ نے کہا تھا " ہمیں جستجو روکنی نہیں چاہیے ۔ تلاش کے آ خر پر ہم اس سفر کے آٖغاز پر ہی پہنچ جائیں گے اور ہمیں یوں لگے گا کہ جیسے اس جگہ پر ہم پہلی مرتبہ آئے ہوں "

جارج برنارڈ شا نے کہا تھا " زندگی کا حقیقی مزہ اس بات میں ہے کہ ایسے مقصد کے لیے گزاری جائے جسے آپ اپنی نظر میں اعلی سمجھتے ہوں ۔ بجائے چھوٹی چھوٹی خود غرض تکلیفوں اور غموں کے بارے میں شکایات کرنے کے اور اس بات پر ناراض رہنے کے کہ دنیا نے مجھے خوش رکھنے کے لیے اپنے سارے کام کیوں نہیں چھوڑے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قدرت کی ایک طاقت بن جائیں ۔ میرا خیال ہے کہ میری زندگی میرے گرد تمام مخلوق سے متعلق ہے اور جب تک میں زندہ ہوں میرے لیے یہ خوش قسمتی کی بات ہوگی ۔ اس کے لیے میں تمام وہ کچھ کرتا رہوں جو میرے اختیار میں ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو میں مکمل طور پر استعمال میں لا یا جاچکاہوں ۔ کیونکہ جتنا محنت سے میں کام کروں گا اتنا ہی زیادہ میں زندہ رہوں گا ۔ میں زندگی کو اس کی اپنی خاطر بہت چاہتا ہوں ۔ زندگی میرے لیے کوئی مختصر شمع نہیں ہے بلکہ یہ میرے لیے ایک زبردست قسم کی مشعل ہے جسے مجھے کچھ عرصے کے لیے تھامنے کا موقع ملا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس عرصے میں یہ اس قدر روشن ہو جائے کہ جتنی یہ ہوسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسے میں اگلی نسلوں کو تھما دوں "

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے
 رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ۲۲ نومبر ۲۰۲۳

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں گے۔

ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔

نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔

پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔

اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔

نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟

یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی بی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔

نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟


آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔

10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔


مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔
بی بی سی اردو
اشاعت : 6 جون 2023 م

مستقبل میں جن ملازمتوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی وہ پہلے ہی ہمارے آس پاس موجود ہیں۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی کے اس خدشے کے باوجود کہ ٹیکنالوجی میں ترقی ملازمتیں ختم کر دے گی، آنے والے برسوں میں متعدد نئے مواقع ہمارے سامنے ہوں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور سینٹر فار نیو اکانومی اینڈ سوسائٹی کی سربراہ سعدیہ زاہدی نے کہا کہ ’ہم سب نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے اور اسے مختلف صنعتوں میں کتنی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔‘

اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر جن دو پیشوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی ان میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سرِ فہرست ہیں تاہم ڈبلیو ای ایف کے مطابق ایسے دیگر مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ماحولیاتی پائیداری کے ماہرین یا زرعی آلات کے آپریٹرز کی خدمات ایسی ملازمتیں ہیں جن کی اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ مانگ ہو گی۔

یہ تخمینے سوئس تنظیم نے 803 بڑی کمپنیوں کے تفصیلی سروے کی بنیاد پر لگائے ہیں جو دنیا کے تمام خطوں کی 45 معیشتوں میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت دیتی ہیں۔

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

چیلنج قبول کیجیے اور فاتح بنیے - مرزا یاور بیگ

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔