تحریکات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تحریکات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

برصغیر پاک و ہند تحریک اسلامی کا ارتقا: مجدد الف ثانی سے علامہ اقبال تک - پروفیسر خورشید احمد

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔

الشریعہ اکادمی پاکستان کا تعارف : اغراض و مقاصد، رسائِل اور مطبوعات

 فکری پس منظر اور اغراض ومقاصد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فرض انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔

آج سے تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماءکرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

مسلم عالمی تنظیموں میں مولانا مودودی کا کردار

 الطاف حسن قریشی 

ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء 

موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔

ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔

سعودی ولی عہد کے امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' کو دیئے گئے اہم انٹرویو

سعودى ولى عہد کا اہم انٹرويو
 
بی بی سی اردو 27 فروری 2022ء 

سعودی ولی عہد کے امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' کو دیئے گئے انٹرویو کو سعودی پریس ایجنسی نے بھی شائع کیا ہے۔

اس انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلام، وہابیت، قرآن، اسرائیل اور امریکہ سمیت بہت سے مسائل پر تفصیل کے ساتھ بات کی۔


اٹلانٹک نے ولی عہد سے پوچھا کہ کیا وہ سعودی عرب کو اس قدر جدید کریں گے کہ اس کی اسلامی شناخت کمزور ہو جائے؟

اس سوال کے جواب میں ولی عہد نے کہا کہ 'دنیا کے ہر ملک کا قیام مختلف نظریات اور اقدار کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جمہوریت، آزادی اور آزاد معیشت جیسی اقدار پر قائم ہے۔ لوگ ان اقدار کی بنیاد پر متحد رہتے ہیں۔ لیکن کیا تمام جمہوریتیں اچھی ہیں؟ کیا تمام جمہوریتیں ٹھیک طریقے سے کام کر رہی ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔


'ہمارا ملک اسلام کی اقدار اور نظریات کی بنیاد پر بنا ہے۔ اس میں قبائلی ثقافت ہے، عرب ثقافت ہے۔ سعودی ثقافت اور عقائد بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ہماری روح ہے۔ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔


سعودی ولی عہد نے کہا کہ ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو ترقی اور جدیدیت کے صحیح راستے پر کیسے ڈالا جائے۔ اسی طرح کے سوالات امریکہ کے لیے ہیں کہ جمہوریت، آزاد منڈیوں اور آزادی کو صحیح راستے پر کیسے رکھا جائے۔ یہ سوال اہم ہے کیونکہ وہ غلط راستے پر جا سکتے ہیں۔'

طالبان نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت کا اعلان کردیا

 عبوری حکومت اور کابینہ کے افراد

 منگل 7 ستمبر 2021 ، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی نئی عبوری حکومت کے وزیراعظم محمد حسن اخوند ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر ان کے نائب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملا برادر عبدالغنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں اہم وزراتیں مندرجہ ذیل افراد کے پاس ہوں گی:

افغانستان میں امارات اسلامی کی عبوری حکومت کا اعلان

  • ملا محمد حسن اخوند وزیراعظم
  • ملا عبدالغنی نائب وزیراعظم
  • ملا یعقوب وزیردفاع سرپرست
  • سراج الدین حقانی وزیرداخلہ سرپرست
  • ملا امیر خان متقی وزیرخارجہ سرپرست
  • شیخ خالد دعوت ارشادات سرپرست
  • عباس ستانکزئی نائب وزیر خارجہ
  • ذبیح اللہ مجاہد وزیر اطلاعات مقرر
  • فصیح الدین بدخشانی افغانستان آرمی چیف
  • ملا ہدایت اللہ وزیر مالیات
  • محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع
  • اسد الدین حقانی عبوری وزیر داخلہ
  • ملا امیر خان متقی وزیر خارجہ
  • مولوی عبدالسلام حنفی ریاست الوزرا معاون

انہوں نے مزید  بتایا کہ اس کے علاوہ شیخ مولوی نور محمد ثاقب وزیر برائے حج و اوقاف، ملا نور اللہ نوری وزیر سرحد و قبائل، ملا محمد یونس اخوندزادہ وزیر معدنیات، حاجی ملا محمد عیسیٰ وزیر پیٹرولیم اور ملا حمید اللہ اخوندزادہ وزیر ٹرانسپورٹ ہوں گے۔ اور خلیل الرحمٰن حقانی وزارت مہاجرین اور تاج میر جواد ریاستی امور کے وزیر ہوں گے۔ اور  ملا عبدالطیف منصور کو وزارت پانی و بجلی، نجیب اللہ حقانی کو برقی مواصلات، عبدالباقی حقانی کو وزارت تعلیم، عبدالحق وثیق کو وزارت انٹیلی جنس کی ذمے داریاں دی گئی ہیں۔ 

افغان طالبان کون ہیں: طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی داستان

 16 اگست 2021  ,  BBC URDU 

سنہ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا اور اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی اس گروپ نے پھر سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں برسرِاقتدار آنے والے ہیں۔
افغان طالبان کون ہیں ؟ طالبان کے عروج و زوال کی داستان


افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔

طالبان نے دو دہائیوں پر محیط جنگ کے بعد مئی 2021 سے ایک مربوط طریقے سے دوبارہ افغان فوج کی چوکیوں، قصبوں، بڑے شہروں سے متصل دیہات اور صوبائی ہیڈکوارٹروں کو قبضے میں لینا شروع کیا اور اگست کے مہینے میں ان کی پیش قدمی میں ایسی تیزی آئی کہ عسکری ماہرین ہوں یا دفاعی تجزیہ کار وہ سب کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے 15 اگست کو کابل میں داخل ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان سنہ 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت -
 ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی 
 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سید منور حسن کی سیاسی زندگی

سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی سیاسی زندگی
(بی سی اردو تاریخ اشاعت : 26 جون 2020م ) 
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کے روز (26 جون ، 2020م ) کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ مصنف و کالم نگار فاروق عادل نے سید منور حسن کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالی ہے۔

کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر انھیں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈالا، کچھ دیر کے لیے دراز ٹٹولی، فارغ ہو کر اچٹتی سی ایک نگاہ رقعے پر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

اٹھتے اٹھتے جیسے انھیں کچھ یاد آیا اور انھوں نے نگاہ التفات کے منتظر اجنبی کی طرف دیکھا اور بلا تمہید بولے کہ پھر چلیں؟

’کہاں؟‘

’ہمارے ہاں یہ وقت ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔‘

سننے والے نے اس مختصر جملے میں بے تکلف شگفتگی میں لپٹی ہوئی طنز کی گہری کاٹ کو محسوس کیا، ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سوچا، اس شخص کے ساتھ بات کرنا کتنا مشکل ہے۔

سید منور حسن سے قربت رکھنے والے ان کے بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ وہ سراپا دل تھے، سفر و حضر کے ساتھیوں کا مشاہدہ بالعموم درست ہوتا ہے لیکن یہ خیال بھی غلط نہیں کہ یہ زبان ہی تھی جو سید صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑی کمزوری بنی لیکن ٹھہریے، یہ تبصرہ ذرا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا تھوڑی تفصیل سے بات کرنی ضروری ہے۔
سید صاحب کے مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنے پیرو کار کہاں سے ملے؟

حسن البنا ،ایک — مردِ قرآنی - رابرٹ جیکسن

 حسن البناء ایک --- مرد قرآنی- رابرٹ جیکسن 
( وقائع نگار خصوصی نیویارک کرونیکل ، نیویارک ۔اُردو ترجمہ: تنویر آفاقی۔)

حسن البنا کا گھر زہد و قناعت کی ایک زندہ مثال تھا۔ اس کالباس سادگی کی مثال تھا۔ آپ اس سے، اس کے معمولی سے کمرے میں ملاقات کرتے، جس میں پرانے طرز کا قالین بچھا ہوتا اور جو کتابوں سے بھرا نظر آتا، تو آپ کووہ ایک عام آدمی سے مختلف نظر نہ آتا۔البتہ اس کی آنکھوں سے برآمد ہونے والی روشن و تابناک چمک آپ کو عام آدمی سے مختلف نظر آتی، جس کا سامنا کرنے کی سکت اکثر لوگوں کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ آپ اس سے بات کرتے تو اس کی زبان سے جواب میں چند مختصر جملے سنتے اور یہ چند جملے ہی لمبے، چوڑے، گہرے اور اُلجھے مسائل کو واضح اور مبرہن کردیتے، جن کی وضاحت کے لیے کئی جلدیں درکار ہوتیں ۔ اس وسیع علم کے ساتھ ساتھ افراد کو سمجھنے پر بھی اسے قدرت حاصل تھی۔ وہ متضاد راے بیان کرکے آپ کو چونکاتا نہیں تھا، نہ ایسی بات کہتا کہ آپ صدمے سے دوچار ہوجاتے اور جو آپ کے مسلک سے ٹکراتی۔ نہیں، وہ آپ سے اسی معاملے میں رابطہ رکھتا، جس کے سلسلے میں آپ اس سے اتفاق رکھتے۔جن اُمور میں آپ کے اور اس کے درمیان اختلاف ہوتا، اس پر وہ آپ کو ملامت نہیں کرتا تھا۔

وہ انتہائی وسیع النظر تھا۔ آزاد فضا کے لیے دل و دماغ کے دریچے کھلے رکھتا تھا۔ اسی لیے نہ تو آزادیِ راے سے اسے نفرت تھی اور نہ مخالف راے سے پریشان ہوتا تھا۔اس کے اندر یہ صلاحیت بے پناہ تھی کہ عوام کےسامنے نئی راے اس طرح پیش کر سکے کہ وہ اس سے بھڑیں گے نہیں۔ یہ نئی راے ایسی ہوتی تھی کہ اگر مہارت و خوش اسلوبی سے نہ پیش کی جاتی تو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور اس کے خلاف آمادۂ جنگ ہو جاتے۔اس نے لوگوںکے دینی فہم کے
رُخ کو تبدیل کیا۔ ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔انھیں واضح ہدف سے ہم کنار کیا اور ان کے دلوں کو ایمان و عمل اور حُریت و آزادی اور قوت و طاقت کے جوش سے بھر دیا۔

روح کے نغمے : سید قطب شہید ؒ - مترجم: ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

روح کے نغمے : سید قطب شہید ؒ 
(تاریخ اشاعت : جنوری 2020 ء ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن )

سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔ سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ ( ادارہ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن )


پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی حقیقت


 موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔ تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔

ماہر القادری۔۔۔ اپنی ذات میں تحریک

ماہر القادری 
جے اے کڈن نے ’’پینگوئن ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز اینڈ لٹریری تھیوری‘‘ میں بتایا ہے کہ ادب میں کسی بھی رجحان یا پیش رفت کو تحریک کہا جاتا ہے۔ جو لوگ رجحان اور پیش رفت میں تمیز کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ادب میں کوئی بھی تحریک کسی مشترکہ مقصد یا مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے جبکہ رجحان سے مراد کسی بھی معاملے میں عمومی جھکائو ہے، خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔

پاکستان میں اسلامی ادب کی تحریک نے خاصی طاقت حاصل کی اور اثرات بھی مرتب کیے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والی اس تحریک نے اخلاقی، روحانی یا روایتی اقدار کی پاسداری کا عزم رکھنے والے مصنّفین اور قارئین کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا۔

اسلامی ادب کی تحریک سے بھی پہلے پاکستانی ادب کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر اور محمد حسن عسکری قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ادب کی ممکنہ خصوصیات کا سوال اٹھا چکے تھے۔ ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ پاکستانی ادب کی اپنی خصوصیات مواد اور لہجہ ہونا چاہیے۔ اور یہ کہ اس ادب سے پاکستان کا نظریہ اور اقدار جھلکنی چاہیئں۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ بعد میں عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کے معاملے کو اسلامی ادب کی تحریک سے ملا دیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے امور آپس میں الجھ گئے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک نے پاکستانی ادب کی تحریک ہی سے جنم لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کے لیے چلائی جانے والی تحاریک الگ الگ تھیں۔

امام ابن تیمیہ (عربی موی )



شیخ الاسلام امام ابن تيمیہ ؒ کا مختصر تعارف​


شيخ الاسلام تقي الدين ابو العباس احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علي بن عبد اللہ ابن تيميہ نميرى ، حرانى، دمشقى ، حنبلى ، عہد مملوكى كے نابغہ روزگار علماء ميں سے تھے ۔ اللہ تعالى نے انہيں ايك مجدد كى صلاحيتوں سے نوازا تھا ۔آپ نے عقائد ، فقہ، رد فرق باطلہ، تصوف اور سياست سميت تقريبا ہر موضوع پر قلم اٹھايا اور اہل علم ميں منفرد مقام پايا ۔ آپ بہت فصيح اللسان اور قادر الكلام تھے ۔ علم وحكمت، تعبير وتفسير اور علمِ اصول ميں انہيں خاص مہارت حاصل تھي ۔اپنے والد كى وفات كے بعد دمشق كے دارالحديث السكرية كى مسندِ حديث پر جب آپ نے پہلا درس ديا، اس وقت آپ كى عمر بيس سال كے قريب تھي، اس ميں قاضي القضاة اور ديگر مشايخ زمانہ موجود تھے ۔آپ نے صرف بسم اللہ الرحمن الرحيم كے بارے ميں اتنے نكات بيان كيے کہ سامعين دنگ رہ گئے ۔ شيخ الاسلام تاج الدين فزارى شافعى ( م 690 ہجرى) نے ان كا پورا درس حرف بحرف قلم بند كر كے دارالحديث السكرية كے كتب خانہ ميں محفوظ كروا ديا ۔

ذہانت اور علمى قابليت كے ساتھ ساتھ آپ کي زندگي جہدِ مسلسل سے عبارت تھي ۔ آپ نے اپنے دور كے كئى علماء كے ساتھ علمى مناظرے بھي کيے اور حكومتِ وقت كے ساتھ مل كر تاتاريوں اور باغيوں کے خلاف عملى جہاد ميں بھي حصہ ليا ۔

نفاذِ شريعت كى كوششوں كے سلسلہ ميں آپ كو كئى تجاويز وشكايات لے كر وفود كے ساتھ حكام كے پاس جانے كا موقع بھي ملا۔ آپ كا انداز محققانہ اور محتاط تھا ۔ ايك مرتبہ آپ كو قاضى كا عہدہ بھي پيش كيا گيا مگر آپ نے حكومتى شرائط سے متفق نہ ہونے كى وجہ سے اسے قبول نہيں کيا۔

موصوف كى انسانيت دوستى كا يہ عالم تھا کہ شام كے جنگي قيديوں كى رہائي كے ليے تاتارى مسلمان بادشاہ غازان كے پاس جا پہنچے ۔ اس نے آپ کے احترام ميں صرف مسلمان قيديوں كى رہائي كا اشارہ ديا تو آپ اس پر راضى نہ ہوئے اور يہ کہہ كر سب قيديوں كى رہائي پر اصرار كيا كہ يہودي اور نصرانى بھي ہماري رعايا ہيں اور ان كے جان ومال كى حفاظت ہم پر ضرورى ہے چنانچہ سبھي كو رہا كر ديا گيا ۔

آپ  اس قدر بےباك تھے كہ 27 ربیع الاول 699 ہجرى كو جب شام كے شہر حمص اور سلميہ کے درميان وادى خازندار ميں تاتارى سلطان غازان اور سلطانِ مصر ملك ناصر محمدبن قلاؤن كے درميان سخت لڑائي كے نتيجے ميں بہت تباہي ہوئي ، مصرى اور شامى فوجوں كا بہت نقصان ہوا اور ملك ناصر بھي فرار ہو كر قاہرہ پہنچ گئے تو امام ابن تيميہ رحمہ اللہ مشائخ دمشق كو لے كر 3 ربيع الثاني 699 ہجري كو بعلبك كے قريب تاتارى بادشاہ غازان سے ملاقات كرنے پہنچ گئے ۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے بہت پر حوش انداز ميں عدل وانصاف كى خوبياں بيان كيں اور اس كے آباؤ اجداد كے مظالم كے ساتھ ساتھ ان كے بعض اصولوں اور وفائے عہد كا تذكرہ كيا ۔ غازان اگرچہ اس سے قبل ہي مسلمان ہو چکا تھا مگر تاتارى اور غيرتاتارى كى لڑائي تسلسل سے جارى تھي ۔ آپ كى تقريريں اس قدر سخت اور جملے اس قدر تندوتيز تھے كہ پورے وفد كو آپ کے قتل ہو جانے كا يقين ھو چلا تھا ۔ غازان نے انہيں قتل كرنے كى بجائے اپنے امراء كے سامنے ان كى بےباكى اور شجاعت كى تعريف كى اور ان سے دعاؤں كى درخواست كى ۔ امام ابن تيميہ رحمه اللہ نے اس كے ليے يہ دعا كى :

" اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ غازان تيرا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑ رہا ہے اور وہ تيرى راہ ميں جہاد کے ليے نكلا ہے تو تو اس كى مدد كر ۔اور اگر تيرے علم ميں ہے کہ وہ مال ودولت حاصل كرنے كے ليے نكلا ہے تو اس كو اس كى پوري جزا عطا كر ۔"

غازان اس پوري دعا پر آمين كہتا رہا !

آپ كى حق گوئي اور بے نفسى كا يہ عالم تھا كہ غازان نے آپ كے وفد كے ليے دسترخوان لگوايا مگر آپ نے وہاں كھانے سے انكار كرديا اور كہا: "ميں يہ کھانا كيسے کھا سکتا ہوں جب كہ اس كو لوٹ کھسوٹ كے مال سے تيار كيا گيا ہے ؟"

امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے كسى کے خوف اور دباؤ كي پرواہ كيے بغير اپني منفرد علمى تحقيقات كى اشاعت كى ۔ اپنے بعض علمى مباحثوں اور فتووں كى وجہ سے آپ كو ايك مدت تك قيد وبند كى صعوبتيں بھي برداشت كرنا پڑيں، حتى كہ جب داعئ اجل كو لبيك كہنے كا وقت آيا تو آپ زندگي كى آخرى قيد برداشت كر رہے تھے اور آپ كا جنازہ جيل ہي سے نكلا ۔ آپ كى كل مدت قيد سوا چھ سال بنتى ہے ۔

خير الدين زركلى نے دُرر كے حوالہ سے لکھا ہے كہ آپ كى تصانيف چار ہزاراجزاء سے متجاوز ہيں ۔ فوات الوفيات ميں ان كى تعداد تين سو مجلد منقول ہے ۔ آپ کے مشہور فتاوے بھی ہیں ،  الجوامع، السياسة الشرعية ، الجمع بين العقل والنقل، الصارم المسلول على شاتم الرسول، رفع الملام عن الأئمة الأعلام، مجموعة الرسائل والمسائل آپ کی اہم تحقیق اور تحریروں میں سے ہيں ۔

آپ کے حالات زندگي پر ابن قدامہ نے العقود الدرية في مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ، شيخ مرعى حنبلى نے الكوكب الدرية ، سراج الدين عمر البزار نے الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ، عبدالسلام حافظ نے الإمام ابن تيمية ، شيخ محمد ابو زہرہ نے ابن تيمية ؛ حياته وعصره_ آراؤه وفقهه، اور اسى طرح شہهاب الدين أحمد بن يحيى بن فضل الله العمري، ابو عبدالله محمد بن أحمد بن عبدالهادي الحنبلي، وغيره كئى اہل علم نے عليحدہ عليحدہ كتابيں لکھيں ۔اردو ميں آپ كى سوانح پرڈاکٹر غلام جيلانى برق كى كتاب امام ابن تيميہ، افضل العلماء محمد يوسف كوكن عمرى كى مبسوط كتاب امام ابن تيميہ، اور مولانا ابو الحسن على ندوى كى كتاب تاريخ دعوت وعزيمت جلد دوم بہت مفيد ہيں۔

شہید قدسی، محمد مرسی - عبد الغفار عزیز

شہید قدسی محمد مرسی 

جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:

’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے      وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف  اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔

حکمت عملی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ


  ’خلافت کے لیے قرشیت‘ کے قول سے جو اصول مستنبط ہوتے ہیں، وہ مختصراً یہ ہیں: 

٭ اوّلاً: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر، پورے کا پورا نسخۂ اسلام یک بارگی استعمال نہ کرا ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے، اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو مؤخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں، جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہوسکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے، جس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں شارع علیہ السلام کے اقوال اور طرزِعمل میں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ 

اسلامی ریاست اور خلافت - سید ابوالاعلی مودودی ؒ


  ٭  اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے ’خلیفہ‘ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر، امام، سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث،فقہ، کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ مگر اصولاًجو چیز ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہوسکتی ہے اور نہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت ِعوام کے نظریے پر مبنی ہو۔ اس کے بر عکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہوسکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرے ، خدا اور اس کے رسول ؐ کی شریعت کو قانونِ برتر اور اوّلین ماخذِ قوانین مانے، اور حدود اللہ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔ اس ریاست کا اقتدار ، اقتدارِ اعلیٰ نہیں ہے بلکہ خدا کی نیابت وامانت ہے۔ یہی معنی ہیں’خلافت‘ کے۔  

٭  اموی فرماںروائوں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور (constitution)کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انھوں نے توڑ دیا تھا۔ [اور ] ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی ۔  ٭ اصولی حیثیت سے خلافتِ عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفاے بنی امیہ دین کے معاملے میں بے پروا تھے اور اس کے برعکس خلفاے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی ریاست کا سکّہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملے میں ایجابی طور پر دل چسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دل چسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ 

٭ ظالم امرا کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہو جاتا ہے، جب کہ ان کو ہٹا کر ایک صالح وعادل حکومت قائم کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک بہت واضح ہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔ حکومت عادلہ کے مقابلے میں جو لوگ خروج کریں وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جا سکتا ہے ، اور اگروہ وہاں سے گولہ باری کریں تو جوابی گولہ باری بھی کی جا سکتی ہے ۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’رسائل ومسائل‘ ترجمان ا لقرآن ، جلد ۵۲،عدد ۲، مئی ۱۹۵۹ء ،ص ۵۹-۶۱)    

اِسلام، سیکولراِزم اور آفاقیت ۔ ڈاکٹر محمد رفعت


اسلام ، سیکولر ازم اور آفاقیت ۔ ڈاکٹر محمد رفعت 


انسان دنیا میں نظریات کا تصادم ہوتا رہتا ہے۔ پرانے نظریات مٹتے ہیں اور نئے وجود میں آتے ہیں۔ نظریات کے ہجوم میں ایک شخص یہ سوال کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے کہ اِن مختلف نظام ہائے فکر میں حق وصداقت کا حامل نظریہ کون سا ہے اور وہ معیار کیا ہے، جس پر کسی نظریے کی صداقت کو پرکھا جاسکتا ہو؟ ظاہر ہے کہ اِنسانی زندگی کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے جز کا تعلق ہے کسی نظریے کی صداقت کو جانچنے کے لیے عموماً تین معیارات تجویز کیے گئے ہیں:

(الف) زیرِ بحث نظریے اور مسلمہ حقائق میں مطابقت

(ب) نظریے کے اجزائے ترکیبی کے مابین ہم آہنگی

(ج) آفاقیت

قرآن ، اقامت ِ دین اور مولانا مودودیؒ - پروفیسر خورشید احمد


تجدید و احیاے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔

ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔

بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ

 مولانا محمد زین العابدین

(اشاعت: روزنامہ اسلام ۱۲ جولائی ۲۰۱۶ء)

بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ  
میانہ قد، نحیف و نزار جسم، مگر نہایت چاق و چوبند، رنگ گندمی، ڈاڑھی گھنی، صورت سے تفکر ، چہرہ سے ریاضت و مجاہدہ،پیشانی سے عالمی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت لیکن آواز میں قوت اور جوش، مسلمانوں کی دینی و ایمانی پسماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں بار بار پستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دین کی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا۔ ان شمائل و خصائص اور عادات و صفات کو اپنے ذہن میں تربیت دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے، اُس پر لکھ دیں: مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔۔۔

مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کی شخصیت، اُن کے صفات و کمالات، ان کی عزم و ہمت، دینی تڑپ و فکر اُمت اور زہد و تقوی کا صحیح معنی میں اندازہ تو اُنہیں لوگوں کو ہوگا جنہوں نے اس آفتاب علم و حکمت کو دیکھا ہوگا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہوگا، تا ہم جن حضرات نے ان کی زبان سے جھڑنے والے علم و حکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا رحمہ اللہ کے علم و عمل اور اصلاح امت کے جس جذبے نے آج پوری دنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اللہ، رسول، دین و مذہب اور قرآن و سنت سے وابستہ کیا اور جن کا اخلاص و لگن اور کڑھن و فکر دنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کو مولانا کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ’’مجدد‘‘ بنایا تھا۔

مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کا سبق کیا تھا؟ ان کا سبق معاشرے میں ’’برداشت‘‘ کے کلچر کا فروغ تھا، ان کی محنت کا مقصد ’’صبر و تحمل‘‘ کا احیاء تھا، ان کا کام زندگیوں میں ’’اخلاص و اخلاق‘‘ پیدا کرنا تھا، ان کا مطمح نظر زندگیوں کی ایسی تبدیلی اور ایسے صالح معاشرے کا وجود تھا، جہاں ہر شخص دل سے مسلمان ہو، اس کی مسلمانی اور اس کا اسلام عبادات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ معاملات میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو، وہ تنہائی میں بھی اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ بلاشبہ مولانا کے اندر اس درجے اخلاص تھا کہ آج ان کی بپا کردہ تحریک کے ذریعے مسلم و غیرمسلم ممالک میں وہ انقلاب آیا کہ دنیا ششدرہے، آج غیرمسلم ممالک میں جاکر دیکھیے کہ اس دعوتی محنت کے ذریعے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہ بلاشبہ پورے کے پورے داخل ہوگئے، ان کی عبادات کی طرح ان کے معاملات بھی کھرے ہیں، ان کی معاشرت بھی صاف و شفاف ہے، بلاشبہ ایسے لوگ مسلم ممالک میں بھی کم نہیں لیکن آج دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ مولانا کے سبق کو ایک بار پھر تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔