یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :
الف: اسلامی احیاء کے لیے مسلم اکثریتی ملکوں میں ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔
ب: مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔
مسلم اقلیتی ممالک میں احیائے اسلام: سوال کے دوسرے حصے کا جواب ان دانش وروں سے حاصل کرنا چاہیے، جو ایسے مغربی ممالک میں مقیم ہیں جہاں مسلمان محض ایک اقلیت ہیں۔وہاں کے مسائل و امکانات کا جائزہ وہی بہتر طور پر لے کر تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے ’سسٹم‘ کے قیدی ہیں۔یہ قیدی اپنی سلاخیں توڑ کر فرار تو ہوسکتا ہے،مگر پورے نظام کی قلب ماہیت نہیںکرسکتا۔
مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں احیائے اسلام: اب آجائیے مسلم اکثریتی ممالک کی طرف ،یہ بھی ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔ یہ ایک دوملکوں کی بات نہیں تقریباً ستّر مسلم ممالک کی بات ہے۔ ان کے سیاسی نظام ،تمدنی معاملات اور معیشت میں اتنا فرق ہے کہ ان سب کے لیے ایک ہی فارمولا طے نہیں کیا جاسکتا۔ جن مسلم ممالک میں بادشاہت ہے(مثلاً اردن، سعودی عرب وغیرہ) وہاں بھی ایک نوع کی غلامی ہے اور ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔
آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔