تحریکات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تحریکات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

احیائے اسلام کی تحریکیں عہد بعہد ۔ جاوید احمد غامدی



 ٹائم اور موضوعات کی فہرست

0:03 | خارجی تحریک
51:56 | شیعہ تحریک
2:04:07 | تصوف کی تحریک
2:58:19 | تحریک خلافت
3:34:02 | جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی تحریک
4:13:02 | امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال
5:44:12 | المورد کا تعارف اور موجودہ صورت حال
7:01:08 | خلافت یا جمہوریت
7:27:37 | ہماری دینی ذمہ داریاں
8:36:26 | سوال و جواب


فکری انقلاب ۔ مولانا وحید الدین خان

المعہد العلمی للفکر الاسلامی کا بین اقوامی سیمینار (کوالالمپور ،جولائی1984)مسلم نوجوانوں میں ایک نئے فکری دور کی علامت ہے۔معہد کے فکر کا خلاصہ اس کے تعارفی پمفلٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں امت مسلمہ کی ناکامی کا سبب خود اس کے اندر ہے، نہ کہ اس کے باہر۔وہ سبب ہے―ضروری بنیاد تیار کیے بغیر عملی اقدامات کرنا۔ معہد کے نزدیک پہلی ضروری چیز وہ ہے جس کو اسلامیۃالمعرفۃ (Islamization of Knowledge) کے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔کہا گیا ہے کہ امت کے موجودہ بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلاقدم یہ ہے کہ علم کو اسلامی بنایا جائے:

The first step toward a genuine solution of present crisis of the Ummah is the Islamization of knowledge.

تقریباً 12 سال پہلے میں نے ایک مقالہ لکھا تھا۔یہ مقالہ عربی زبان میں اگست 1973 میں شائع ہوا۔اس کا عنوان:

لا بُدَّ مِنَ الثَّوْرَةِ الفِكْرِيَّةِ قَبْلَ الثَّوْرَةِ التَّشْرِيعِيَّةِ

اس مقالہ میں تفصیل سے یہ دکھایا گیا تھا کہ سیاسی یا قانونی انقلاب سے پہلے فکری انقلاب ضروری ہے۔امت کے عملی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب کہ ہم فکری انقلاب کے ذریعہ اس کے موافق فضا بنا چکے ہوں۔

یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عین وہی بات ہے جو خود قرآن کی رو سے ہمارا اہم ترین اجتماعی فريضہ قرار پاتی ہے۔قرآن میں دو مقام پر (193;8:39:2) یہ حکم دیا گیا ہے ۔ سورہ البقرہ میں یہ الفاظ ہیں: وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ (2:193)۔ اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔

جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے،اس آیت میں فتنہ سے مراد شرک جارح ہے۔انھوں نے فرمایا کہ اس وقت اسلام تھوڑا تھا۔چنانچہ جب کوئی شخص دین توحید کو اختیار کرتا تو اہل شرک اسے ستاتے ۔کسی کو وہ قتل کر دیتے ،کسی کو زنجیروں میں باندھتے اور کسی کو عذاب دیتے۔یہاں تک کہ اسلام کی کثرت ہو گئی اور یہ صورت حال باقی نہ رہی کہ عقیدہ توحید کی بنا پر کسی کو ستایا جائے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650)۔

محمد مرسی : مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر کی زندگی پر ایک نظر


بی بی سی اردو | 18 جون 2019

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔

مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘

لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔

اسلامی احیاء کا مسئلہ ۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اگست ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ


یہ سوال کہ عصر ِحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں، اسلامی احیاء کے لیے کیا فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہییں؟ایک بڑا وسیع موضوع ہے جس کے دوحصے ہیں :


الف: اسلامی احیاء کے لیے مسلم اکثریتی ملکوں میں ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔
ب: مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات۔

مسلم اقلیتی ممالک میں احیائے اسلام:  سوال کے دوسرے حصے کا جواب ان دانش وروں سے حاصل کرنا چاہیے، جو ایسے مغربی ممالک میں مقیم ہیں جہاں مسلمان محض ایک اقلیت ہیں۔وہاں کے مسائل و امکانات کا جائزہ وہی بہتر طور پر لے کر تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے ’سسٹم‘ کے قیدی ہیں۔یہ قیدی اپنی سلاخیں توڑ کر فرار تو ہوسکتا ہے،مگر پورے نظام کی قلب ماہیت نہیںکرسکتا۔

مغربی ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت اپنی کیمونٹی کی حدتک توہاتھ پاؤں مارسکتی ہے، اُس سے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ یعنی ان ممالک کے قوانین کے آگے وہ بے دست و پا ہے بلکہ اپنی اولاد تک کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، ایسے میں اسلامی احیاء کی بات تو بہت دُور کی کوڑی ہے۔ اگر وہاں کوئی مسلمان بڑے سیاسی یا انتظامی عہدے پر پہنچ جائے تب بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا کیو نکہ وہ سسٹم کے آگے بے بس ہے۔ ان کے آقا ان سے زیادہ بیدار مغز اور ہوشیار ہیں۔ مغرب میں کتنے ہی مسلمان ہیں جو بہت کام کررہے ہیں، لیکن کسی ایسی ’تبدیلی‘ کہ جس کے ڈانڈے ’مسلم احیاء‘ سے ملتے ہوں، وہ اُس کے نہ محرک ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ ان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ وہ نظام (System) ہے، جو نہ صرف یہ کہ سوچ سمجھ کر بنا یا گیا ہے بلکہ سامراجی مفاداتی سوچ اس کی نگرانی اور رکھوالی بھی کرتی ہے۔

مسلم اکثریتی ممالک میں احیائے اسلام: اب آجائیے مسلم اکثریتی ممالک کی طرف ،یہ بھی ایک بڑا وسیع موضوع ہے۔ یہ ایک دوملکوں کی بات نہیں تقریباً ستّر مسلم ممالک کی بات ہے۔ ان کے سیاسی نظام ،تمدنی معاملات اور معیشت میں اتنا فرق ہے کہ ان سب کے لیے ایک ہی فارمولا طے نہیں کیا جاسکتا۔ جن مسلم ممالک میں بادشاہت ہے(مثلاً اردن، سعودی عرب وغیرہ) وہاں بھی ایک نوع کی غلامی ہے اور ؎

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

جن مسلم ممالک میں ’تھیوکریسی‘ ہے، مثال ایران، تو وہ بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے۔ جو معاشرے جمہوری روایات کے حامل ہیں، وہ ’عالمی غلامی‘ کے اسیر ہیں۔جن کے لیے ’اسلام‘سب سے بڑا خطرہ ہے اور عوامی ووٹ سے آئی ہوئی منتخب جمہوری حکومتوں کو بھی وہ چٹکی میں اڑا کررکھ دیتے ہیں، جس کی مثالیں مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹنا اور غزہ میں حماس کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ گویاایک بات طے ہوئی کہ مسلم اقلیتی معاشرے ہوں یا مسلم اکثریتی ممالک، بنیادی مسئلہ’غلامی‘ ہے۔ کہیں مقامی سیاسی نظام کی جکڑبندی ہے، کہیں مذہبی طبقے کی گرفت ہے اورکہیں عالمی سامراجی نظام کی۔

آزادی ایک ایسی بنیاد ہے، جس پر قوموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد جتنی مستحکم ہوگی ،اتنی ہی مضبو ط اور عظیم عمارت تعمیر ہوگی ۔آزاد قوموں میں ہی مذہب کا پیغام پھیلتا ہے (جیسے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلا تھا) ،نظریات وافکار کو فروغ حاصل ہوتا ہے، تہذیب وتمدن اور ادب وثقافت پروان چڑھتے ہیں۔ بصیرت ،صرف آزاد لوگوں کا حصہ ہے،صرف آزاد قومیں ہی بصیرت کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ گویا احیاء کے لیے پہلا قدم، طوقِ غلامی سے آزادی ہے۔

ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ افراتفری نہیں چاہتے، لیکن حکمران سن لیں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حالات سے سبق سیکھیں، ایسا نہ ہو کہ مہلت نہ ملے۔ آئی پی پیز کے مالکان کا نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں، واضح طور پر کہنا چاہتاہوں وعدوں اور تحریر پر دھرنا ختم نہیں ہو گا، نوٹیفکیشن اور ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا پڑے گا۔ 8اگست کو مری روڑ سے آگے کی طرف بڑھیں گے، 11تاریخ کو لاہور، 12کوپشاورمیں عوامی دھرنے ہوں گے۔ تاجروں،صنعت کاروں سے مشاورت مکمل کرلی ہے،14اگست کے بعد ملک بھر میں ہڑتال کی کال دیں گے، تمام تحصیلوں،اضلاع میں عوامی مطالبات کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز ہوگا۔ حکومت کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں بجلی بلوں میں کمی، ناجائز ٹیکسز کا خاتمہ، آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ اور مراعات میں کمی کرے ورنہ مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دھرنے کے بارہویں روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرسیکرٹری جنرل امیر العظیم،نائب امرا لیاقت بلوچ،ڈاکٹر اسامہ رضی،ڈاکٹر عطاء الرحمن،ڈپٹی سیکرٹریزاظہر اقبال حسن،شیخ عثمان فاروق،ممتاز حسین سہتو،سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف،امیر جماعت اسلامی پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم،امیر ضلع اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور دیگرذمہ داران موجود تھے۔

مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی | 6 جولائی 2024 

بنگلہ دیش میں تقریباً 300 حکومت مخالف مظاہرین کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد وزیر ا‏عظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا تو وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

وہ ڈھاکہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا کے شہر اگرتلہ پہنچیں اور پھر ایک فوجی طیارے کے ذریعے دلی کے نواح میں انڈین فضائیہ کے ہینڈن فضائی اڈے پر اتریں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔
بعض خبروں کے مطابق ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں پناہ لے لیں۔

بعض خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے وہ کہیں اور جانے سے پہلے دلی میں کچھ دن قیام کر سکتی ہیں۔

جس وقت ان کا طیارہ انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوا اس وقت لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں ان کے فرار ہونے کا جشن منا رہے تھے۔

ملک کا نظم و نسق فوج نے اپنی کمانڈ میں لے لیا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل وقارالزماں سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

دلی میں شیخ حسینہ کے پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔

شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی سے انڈیا کا گہرا رشتہ

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب انڈیا میں ہینڈن کے فضائی اڈے پر پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔

انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان

 الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے کئی علاقوں میں فلاحی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا قیام 1990 میں عمل میں آیا ۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اس وقت سات شعبہ جات میں کام کر رہی ہے ۔ ان شعبہ جات میں تعلیم، صحت ، کفالت یتامٰی، صاف پانی ، مواخات (بلا سود قرضوں کی فراہمی) ، سماجی خدمات اور آفات سے بچاؤ کے شعبہ جات شامل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ خدمت کے نام سے جانی جاتی تھی جسے 1990ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر رجسٹر کرایا گیا۔

الخدمت فاؤنڈیشن وطن عزیز کی سب سے بڑی غیر حکومتی فلاحی تنظیم ہے۔ یوں تو الخدمت فاؤنڈیشن نے قیام پاکستان کے وقت امداد مہاجرین کے کٹھن کام سے اپنے کار خیر کا آغاز کر دیا تھا مگر غیر حکومتی فلاحی تنظیم کے طور پر اسے سن نوے میں رجسٹر کیا گیا۔ اس تنظیم کے پیش نظر کار ہائے خیر میں سب سے نمایاں وقت آفات میں رضاکارانہ سرگرمیاں ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن اس وقت پاکستان کے 150اضلاع میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔

آغوش


آغوش جماعت اسلامی پاکستان کی فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے اٹک دارالسلام کالونی میں قائم کیا گیا، جس میں 210 سپیشل بچے رہائش پزیر تھے، کشمیر میں2005 زلزلہ کے بعد اس کی وسعت میں اضافہ کیا گیا اور مزید 150 بچوں کے لیے عمارت تعمیر کر کے اس میں رہائش، قیام، طعام اور تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ ادارہ ایک کیڈٹ کالج کی طرز پر چلایا جاتا ہے جس کے انچارج کرنل (ر) خالد عباسی ہیں جو رضاکارانہ طور پر ادارہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری زیادہ تر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اٹھارکھی ہے۔ جن میں برطانیہ سے یو کے اسلامک مشن اور یارکشائر کریسنٹ چیریٹیبل ٹرسٹ، امریکا سے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا اور جاپان و آسٹریلیا کے کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ادارے کی خصوصیت بچوں کا تعلیمی معیار، رہن سہن کی سہولیات اور معیاری طرز زندگی ہے۔

تعارف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن

   پیدائش اور خاندانی پس منظر


 جماعت اسلامی پاکستان کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمٰن 1972 میں حیدرآباد، سندھ کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔  ان کے والدین کا  تعلق  علی گڑھ سے تھا۔ وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے ماشاءاللہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے حافظ قرآن بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں اور جماعت اسلامی کی فعال رکن ہیں۔ وہ نارتھ ناظم آباد ، بلاک اے میں ایک  کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ۔ 

تعلیم
حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی


جامع مسجد دارالعلوم،  لطیف آباد، یونٹ 10 سے حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم نورالاسلام پرائمری اسکول، حیدرآباد سے حاصل کی اور میٹرک علامہ اقبال ہائی اسکول سے کیا۔ حیدرآباد سے میٹرک کے بعد حافظ نعیم الرحمٰن کی فیملی کراچی منتقل ہوگئی۔ انھوں نے پاکستان شپ اونرز کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ میں کیا۔ بعد ازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز  کیا۔

اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق


زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال اور متحرک طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ 

طلبہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہوئے اور مختلف مواقع پر تین بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم  رہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کو 1998 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ وہ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔

مسلم امہ ، عالمی منظر اور داخلی تضادات ۔ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

 اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ


گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

تعارف جامعہ دارالعلوم کراچی ۔ مفتی رفیع عثمانی ؒ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلّی علی رسولہ الکریم

جامعہ دارالعلوم کراچی، دینی درس گاہوں کے اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اس برّصغیر میں اللہ کے کچھ نیک بندوں نے انگریزی استعمار کی تاریک رات میں دین کی شمعیں روشن رکھنے کے لئے قائم کیا تھا دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاﷲ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء انگریز کے خلاف ۱۸۵۷ء کے جہاد میں بنفس نفیس شریک تھے۔ لیکن انگریز کے سیاسی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اب محاذجنگ تبدیل ہوچکاہے، اب انگریز کی کوشش پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر زیر کرنے کے بعدفکری طور پر بھی اپنا غلام بنایا جائے۔ جس کے لئے وہ ایک ایسا نظام رائج کررہاہے جو مسلمانوں کے دل پر مغربی افکار کا سِکہّ جمائے اس کے ساتھ ساتھ انگریز کی کوشش یہ ہے کہ اسلامی علوم کو سینے سے لگانے والوں پر معاش کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں۔ اس لئے ان علماء کرام اور بزرگان دین نے رُوکھی سوکھی کھاکر، اور موٹاجھوٹا پہن کر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، اور ایسے سر فروش علماء کرام کی ایک بڑی جماعت تیار کردی جو دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑ کر کچے مکانوں اور تنگ حجروں میں دینی علوم کے چراغ کو وقت کی آندھیوں سے بچاتے رہے، تاکہ اس سیاسی مغلوبیت کے دور میں مسلمان اپنی معاشرت، اخلاق، عبادت اور باہمی معاملات میں اسلامی احکام و اقدار کو چھوڑکر غیروں کے طریقوںکی تقلید نہ کرنے لگیں، اور پھر جب کبھی مسلمانوں کو سیاسی اقتدار واپس ملے تو انہیں سرورِ کونین، محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایاہوا دین اپنی صحیح شکل و صورت میں محفوظ مل جائے۔ اس طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگایا ہوا چمن جس پر خزاں نے ڈیرے جمالیے تھے، وہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہونے لگا۔

متعدد محاذ اور حکمت عملی کا فہم

ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024 

 ’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔ 

ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔

’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)

افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی ؟

یماں بریز
طالبان کمانڈر بریگیڈؑ یئرحضرت محمود  اور
سابق افغان پولیس آفیسر ناصر خان سلیمان زئی
بی بی سی  افغانستان
10 جولائی 2024

’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی

20 سال تک یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، ہر وقت مسلح اور قتل کرنے کو تیار۔

لیکن اب 50 سالہ طالبان کمانڈر حضرت محمد محمود اور ناصر خان سلیمان زئی، جو افغان پولیس میں اعلی عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے، کابل کی پولیس اکیڈمی میں اکھٹے کام کرتے ہیں۔

چمکتے دمکتے یونیفارم میں ملبوس بریگیڈیئر محمود نے اپنے ساتھی کے ہمراہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم بھائیوں کی طرح ہیں۔‘

یہ دو ایسے افراد کے درمیان حیران کن حد تک قربت کا تعلق بن چکا ہے جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔افغانستان میں دو دہائیوں کی خون ریزی کے بعد وہ ایک ہی یونیفارم پہنتے ہیں، ایک دفتر میں بیٹھتے ہیں، پولیس کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور روزانہ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خوش گوار لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔

سید روح الله موسوی خمینی

سید روح‌ اللہ موسوی خمینی (1902-1989ء)، امام خمینی کے نام سے مشہور، شیعہ مرجع تقلید اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر اور بانی ہیں۔ آپ نے سنہ 1962ء سے ایران میں پہلوی نظام بادشاہت کے خلاف علی الاعلان جدوجہد شروع کی۔ حکومت وقت نے دو مرتبہ آپ کو گرفتار کیا۔ دوسری مرتبہ آپ کو پہلے ترکی اور پھر عراق جلاوطن کردیا۔ حوزہ علمیہ نجف میں 13 سال تک انقلابی افراد کی قیادت کی اور ساتھ ہی دینی علوم کی تدریس اور تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف عوامی تحریکوں میں تیزی آنے کے بعد یکم فروری سنہ 1979ء کو آپ ایران واپس آئے۔ 11 فروری سنہ 1979ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اور قائد رہے۔
سید روح اللہ موسوی خمینی ؒ

ولایت مطلقہ فقیہ آپ کا سب سے اہم سیاسی نظریہ ہے جو تشیع کے اعتقادات پر مبنی ہے۔ آپ نے ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے آئین کو اسی نظریے کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کی۔ امام خمینی کی نظر میں اسلامی حکومت کے قیام کا فلسفہ ہی فقہ اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فقہ کے بارے میں اسی نظریے کی بنا پر آپ فقہ کے روایتی ڈھانچے کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں جدت پسندی کے قائل تھے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کی تاثیر کا نظریہ اور بعض دیگر مؤثر فتوے اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں۔

دنیا کے تمام مسلمان خاص طور پر شیعہ آپ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کے جنازے کی تشییع میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے شرکت کی جو اب تک پوری دنیا میں تشییع جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال آپ کے مرقد پر برسی منائی جاتی ہے جس میں سیاسی اور مذہبی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

آپ حوزہ علمیہ کے رائج علوم یعنی فقہ اور اصول کے علاوہ اسلامی فلسفہ اور عرفان نظری میں بھی صاحب نظر اور صاحب تالیف تھے۔ اسی طرح آپ کا شمار علمائے اخلاق میں بھی ہوتا تھا اور حوزہ علمیہ قم میں تدریس کے دوران آپ مدرسہ فیضیہ میں درس اخلاق بھی دیا کرتے تھے۔ آپ نہایت سادہ زیست اور زاہدانہ طریقت کے مالک تھے۔

انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

برصغیر پاک و ہند تحریک اسلامی کا ارتقا: مجدد الف ثانی سے علامہ اقبال تک - پروفیسر خورشید احمد

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔