گوشۂ زاھد الراشدی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ زاھد الراشدی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے ‏گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید ‏میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ‏ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر ‏صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی ‏صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ ‏السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار ‏کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت ‏سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں ‏میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے ‏گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص ‏عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ‏اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور ‏اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ‏ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا ‏منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، ‏فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص ‏پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم ‏کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ ‏قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے ‏سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود ‏انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن ‏المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، ‏تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح ‏کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ ‏لیں۔

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

الشریعہ اکادمی پاکستان کا تعارف : اغراض و مقاصد، رسائِل اور مطبوعات

 فکری پس منظر اور اغراض ومقاصد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فرض انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔

آج سے تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماءکرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

توہين رسالت کى سزا پرجارى مباحثہ ، چند گزارشات- ابو عمار زاہد الراشدى

ماہنامہ الشريعہ ، گوجرانوالہ
 تاريخ اشاعت ، اکتوبر 2011ء
توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے بارے میں امت میں عمومی طور پر یہ اتفاق تو پایا جاتا ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے لعین و شقی شخص کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کی فقہی اور عملی صورتوں پر فقہائے امت میں اختلاف ہر دور میں موجود رہا ہے کہ
مسلمان کہلانے والے گستاخِ رسول کو موت کی یہ سزا مستقل حد کی صورت میں دی جائے گی یا ارتداد کے جرم میں اسے یہ سزا ملے گی؟ اور اس کے لیے توبہ کی سہولت و گنجائش موجود ہے یا نہیں؟
اسی طرح غیر مسلم گستاخِ رسول کو یہ سزا تعزیر کے طور پر دی جائے گی یا اس کی فقہی نوعیت کچھ اور ہوگی؟ اور ایک ذمی کا عہد اس قبیح جرم کے ارتکاب کے بعد قائم رہ جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟

عالمی رابطہ ادب اسلامی - مولانا زاہد الراشدی

گوشہ مولانا زاہد الراشدی
عالمی رابطہ ادب اسلامی - مولانا زاہد الراشدی
عالمی رابطہ ادب اسلامی مسلم ارباب فکر و دانش کا عالمی سطح کا فورم ہے جس کا قیام اپریل ۱۹۸۱ء کے دوران ندوۃ العلماء لکھنو میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دعوت پر منعقد ہونے والے ایک عالمی سیمینار کے موقع پر عمل میں لایا گیا اور حضرت مولانا ندوی ؒ اپنی زندگی میں اس کے صدر رہے جبکہ ان کی وفات کے بعد سعودی عرب کے معروف دانشور ڈاکٹر عبد القدوس ابو صالح حفظہ اللہ کو اس کا سربراہ چنا گیا اور ریاض میں اس کا مرکزی دفتر شیخ موصوف کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ اس کے مقاصد میں سے چند اہم اہداف درج ذیل ہیں:

1- ادب اسلامی کی جڑوں کو پختہ کرنا اور قدیم و جدید ادب اسلامی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا۔
2- جدید ادبی علوم و فنون کے لیے اسلامی مناہج و اسالیب کی تیاری و تشکیل۔
3- ادب اسلامی کی عالمگیریت کو نمایاں کرنا۔
4- عالمی ادبی مسالک پر تنقید کرنا اور تنقید کے جدید مناہج وضع کرنا۔
5- عالمی ادبی مسالک میں موجود خامیوں اور خوبیوں کی نشاندہی کرنا۔
6- مومن نسلوں اور ایسی اسلامی شخصیات کی تیاری میں جنہیں اپنی دینی اقدار اور عظیم تہذیبی ورثے پر فخر ہو، ادب اسلامی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کرنا وغیر ذلک۔


منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی


دارالہدیٰ (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں ۳ تا ۷ ستمبر ۲۰۰۷ء مختلف نشستوں سے خطبات کا مجموعہ جسے تحریری شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ 
-----------------------------

حجۃ الوداع کی اصطلاح

جناب سرور کائنات، فخر موجودات، شفیع المذنبین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم کا ہر ایک ارشاد، ہر جملہ اور ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے اور ان میں ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی کے بہت سے پہلو ہیں۔ لیکن جناب نبی کریمؐ کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن چند ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ان میں حجۃ الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے جو آخری حج کیا، اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ ایک اس حوالہ سے کہ آپؐ نے آخری حج وہی کیا، اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریمؐ نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ


ایھا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ھذا۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں‘‘۔

یعنی حضورؐ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں اپنے صحابہؓ سے آخری اجتماعی ملاقات کر رہا ہوں۔ آپؐ نے بطور خاص فرمایا کہ مجھ سے باتیں پوچھ لو، سیکھ لو، جو سوال کرنا ہے وہ سوال کر لو، شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے اس طرح کی ملاقات نہ کر سکوں، گویا حضورؐ خود بھی الوداع کہہ رہے تھے۔ اس مناسبت سے اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

نیدرلینڈز کے گستاخانہ خاکے، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم

مولانا زاھد الراشدی 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۲۹ اگست ۲۰۱۸ء

سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ہالینڈ (نیدرلینڈز) میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

غامدی صاحب اور اہل فتوی

مولانا زاھد الراشدی

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:  مئی ۲۰۱۸ء

رجب کے دوران ملک بھر میں بیسیوں مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا اور دینی مدارس کے مختلف النوع اجتماعات میں شرکت کے علاوہ متعدد ارباب علم و دانش کے ساتھ بعض علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان میں سے ایک اہم اور نازک مسئلہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں بعض اہل علم کے فتویٰ کی بات بھی تھی جس کے بارے میں احباب نے میرا موقف معلوم کرنا چاہا۔ متعدد دوستوں کے ساتھ کی گئی متفرق گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ کی روح اور قبر پر جن سے طویل عرصہ تک جمعیة علماءاسلام کی سرگرمیوں میں رفاقت کا تعلق رہا ہے جب وہ لکی مروت میں تھے، پھر کراچی چلے گئے اور اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ ”شریعت بل“ کی تحریک اور نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ ایک بار انہوں نے دریافت فرمایا کہ کچھ دوستوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی بعض عبارات استفتا کی صورت میں بھجوائی ہیں اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ چونکہ بات مشورہ کی تھی اور مسئلہ علمی و فقہی تھا اس لیے دیانت داری کے ساتھ جو کچھ محسوس کیا وہ ان سے عرض کر دیا۔ اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب کے بعض افکار و آرا پر میں نے متعدد مواقع پر نقد کیا ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے بعض مضامین کا مجموعہ ”ایک علمی و فکری مکالمہ“ کے عنوان سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور ایک مختصر کتابچہ ”غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت“ کے عنوان سے الگ طور پر بھی شائع ہو چکا ہے۔جبکہ میری ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر غامدی صاحب کے عنوان سے ایک درجن سے زائد مضامین موجود ہیں جو وہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فتویٰ کے حوالہ سے مجھے تامل رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ سے میں نے عرض کیا کہ:

غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: ۵ اپریل ۲۰۰۱ء

اصل عنوان:  "مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں ہے"


پشاور کے سید وقار حسین صاحب نے ایک خط میں منیر احمد چغتائی صاحب آف کراچی کے اس مراسلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض افکار کے بارے میں میرے مضامین کے حوالہ سے گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ یہ مراسلہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں رکھ لیا تھا کہ اس کی بعض باتوں پر کسی کالم میں تبصرہ کر دوں گا۔ مگر وقار حسین کے توجہ دلانے پر اپنی ترتیب میں رد و بدل کر کے اس مراسلہ کے بارے میں ابھی کچھ عرض کر رہا ہوں۔

چغتائی صاحب کے مراسلہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب میدان سے بھاگ گئے ہیں، اور اس کے بعد دوسری قابل توجہ بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ غامدی صاحب جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کے موید ہیں۔ مجھے چغتائی صاحب کی ان دونوں باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔

قدیم اور جدید تعلیم

مولانا زاھد الراشدی 


مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  نا معلوم


۱۶ ستمبر کو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ میر پور آزاد کشمیر کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں حاضری اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ علوم اسلامیہ کے مہتمم محترم حاجی بوستان صاحب ایک فکرمند اور باذوق بزرگ ہیں جو ایک عرصہ سے اس مشن پر کام کر رہے ہیں کہ دینی علوم اور عصری علوم میں امتزاج قائم کیا جائے اور قدیم تعلیم اور جدید تعلیم دونوں کے حوالہ سے نئی نسل کی ضروریات کا یکساں اہتمام کیا جائے۔ یہ جامعہ اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے علاوہ پورے ملک میں اور بہت سے ادارے اس فکر و ذوق کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

عام طور پر قدیم علوم سے مراد وہ علوم لیے جاتے ہیں جو دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جبکہ عصری و جدید علوم کا اطلاق ان علوم و فنون پر کیا جاتا ہے جن کی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان دونوں کا الگ الگ نظم ملک میں ہر سطح پر موجود ہے۔

مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے چند ضروری پہلو

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:  جنوری ۲۰۰۴ء
اصل عنوان : فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو


(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوۃ۔ کل سے مختلف مسائل پر گفتگو چل رہی ہے۔ ہم نے صبح کی نشست میں نصاب اور اساتذہ کی تدریسی اور تربیتی مشکلات کے حوالے سے بات کی، جس کے نتیجے میں تفصیلی تجاویز سامنے آئی ہیں۔

اس نشست میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو‘‘۔ فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری تگ ودو گھومتی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے کہ میں نے تو یہ کام کرنا ہے، اور پھر وہ ساری زندگی اسی میں لگا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ یعنی کسی طالب علم کی فکری تربیت کے رخ کا تعین، ہم نے اسے آزاد چھوڑا ہوا ہے اور طالب علم اپنی مرضی سے اس کا تعین کر رہے ہیں۔ اس کا تعلق بھی اس بات سے ہے جو اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ہماری مشاورت میں زیر غور آئی، یعنی چونکہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظم موجود نہیں، اس لیے ہوتا یہ ہے کہ مدارس میں اساتذہ میں سے جس استاد کے ساتھ طالب علم زیادہ مانوس ہو جاتا ہے، تو جو ذہنی سوچ اس کی ہوتی ہے، وہی طالب علم کی بھی بن جاتی ہے۔ ایک مدرسے میں اساتذہ کے ذہنی رجحانات مختلف ہیں تو دو دو، چار چار طالب علم ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فکری تربیت تو ہوتی ہے لیکن یہ فکر کوئی اجتماعی فکر نہیں ہوتی۔ ہر طالب علم اپنے ذوق کے مطابق کسی استاد کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ذہنی وفکری تربیت ہوتی ہے اور وہ اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں اس کو خون کے گروپ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں خون کے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ کا خون گروپ ہے، جہادی خون گروپ ہے، جمعیت علماء اسلام کا خون گروپ ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت، اشاعت التوحید اور خدام اہل سنت کے خون گروپ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ آپس میں ملتے ہیں اور کچھ نہیں ملتے۔ اور لطیفے کی بات یہ ہے کہ اتفاق سے میرا خون کا گروپ سب سے مل جاتا ہے۔ میرا خون سب کو لگ جاتا ہے اور سارے خون اس کو لگ جاتے ہیں۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء


حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات سب سے پہلے ۱۹۸۴ء میں ہوئی تھی جب وہ رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے اور راقم الحروف بھی عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں حرم پاک میں تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ محترم سعدی صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے خالو محترم مفتی محمد اویس خان ایوبیؒ کا مہمان تھا جو اُن دنوں جامعہ ام القریٰ میں زیر تعلیم تھے اور اب وہ میر پور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی ہیں۔

مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا علی میاںؒ (مولانا ندویؒ ) کو زندگی میں پہلی بار وہاں دیکھا بلکہ مولانا ندویؒ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر انہیں بازوؤں کے حصار میں رکھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور پھر سعدی صاحب مرحوم کے مکان پر دونوں بزرگوں کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔

حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف

مولانا زاھدالراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ

تاریخ اشاعت:  اپریل ۲۰۰۹ء

حدیث وسنت کے بارے میں محترم جناب جاوید احمد غامدی کی مختلف تحریرات کے حوالہ سے راقم الحروف نے کچھ اشکالات ’’الشریعہ‘‘ میں پیش کیے تھے اور غامدی صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ ان سوالات و اشکالات کے تناظر میں حدیث و سنت کے بارے میں اپنے موقف کی خود وضاحت کریں تاکہ اہل علم کو ان کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو۔ غامدی صاحب محترم نے اس گزارش کو قبول کرتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنا موقف تحریر فرمایا ہے جسے ان کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم کچھ مزید معروضات بھی پیش کر رہے ہیں۔

غامدی صاحب محترم فرماتے ہیں کہ:  ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:


1-مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔

2-مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔

3-اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔

خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

مولانا ابوعمار زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  ۶ مارچ ۲۰۱۵ء

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کے حوالہ سے از خود طے کر لی ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ ایک عرصہ سے اسلام کے نظریاتی، علمی اور فقہی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن یا اکھاڑ پچھاڑ میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے نکتۂ نظر کا جائزہ- مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  ۷، ۸، ۹ فروری ۲۰۱۵ء

جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں جو تحریکیں نفاذ اسلام یا دنیا میں اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں وہ اسلام کی روح کے مطابق نہیں ہیں۔ بہت سے اصحاب علم نے اس پر اظہار خیال کیا ہے اور میں بھی کچھ معروضات پیش کرنا مناسب خیال کر رہا ہوں۔ لیکن اب تک جن احباب کے مضامین اس حوالہ سے میری نظر سے گزرے ہیں وہ اپنے موقف کی وضاحت کی حد تک تو بالکل ٹھیک ہیں لیکن ان میں اس پہلو سے کسی حد تک خلاء محسوس ہو رہا ہے کہ غامدی صاحب کے افکار اور استدلال کے جواب کے لیے ہم اپنے مسلمات کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں۔ جبکہ جن اصولوں اور حوالوں سے غامدی صاحب پر نقد کیا جا رہا ہے وہ سرے سے ان کے مسلمات میں شامل ہی نہیں ہیں۔

پاکستان میں دینی مدارس: توقعات اور چیلنج ۔ مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


قیامِ پاکستان کے ۷۰برس گزرنے کے بعد بھی مملکت ِ خداداد میں دینی نظامِ تعلیم ایک سوالی بن کر حاکموں، قانون سازوں اور خود عوام کے سامنے کھڑا ہے۔ ذرا پس منظر ملاحظہ فرمایئے:

دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب ’ایسٹ انڈیا‘ کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے متحدہ ہند کا اقتدار سنبھال لیا اور عدالتی و دفتری نظام کی یکسر تبدیلی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس تعلیمی نظام کی بساط لپیٹ دی، جو ’درسِ نظامی‘ کے عنوان سے اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور سے چلا آرہا تھا۔

’درسِ نظامی‘ کے اس نظام کے تحت قرآن و حدیث، فقہ اور عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ دیگر عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ تاہم، جب نظام میں عربی و فارسی کی جگہ انگریزی اور فقہ و قانون کی جگہ برطانوی قانون نے حاصل کرلی، تو دینی و معاشرتی ضروریات کے تحت قرآن و حدیث، فقہ و شریعت اور عربی و فارسی کی تعلیم و تدریس کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک مستقل نظامِ تعلیم کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا برطانوی حکومت کے پروگرام میں ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔ اس طرح کچھ خدا ترس اور باہمت لوگوں نے امداد باہمی کے تحت نجی سطح پر دینی مکاتب و مدارس کا سلسلہ شروع کیا، جو بے سروسامانی اور حوصلہ شکن حالات کے باوجود مسلم معاشرے کی دینی و معاشرتی ضرورت پوری کرنے کے لیے سرگرمِ کار ہوا۔

تقریباً ۹۰برس تک ان مدارس نے مسلم معاشرے میں دینی رہنمائی اور علمی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ مسجد و مکتب کا ادارہ قائم رکھنے کے لیے رجال کار مثلاً: امام، خطیب، مدرس، قاری، حافظ اور مفتی مہیا کیے۔ اس عظیم الشان خدمت سے معاشرے میں مسجدومکتب کا نظام قائم رہا اور اس حوالے سے مسلمانوں کی ضروریات کی فراہمی کا سلسلہ تعطل کا شکار نہیں ہوا۔

برطانوی مقبوضہ ہندستان میں دینی مدارس کا یہ دور ’تحفظاتی دور‘ کہلاتا ہے، جس میں انھیں خود کو ریاستی مداخلت سے بچانا تھا اور اپنے دائرۂ کار کو اس حدتک محدود رکھنا تھا کہ ان کی محنت کے نتائج صرف اس مقصد کے لیے کارآمد ہوں۔ چنانچہ پوری بصیرت اور حکمت عملی کے ساتھ دینی مدارس کا یہ نظام خود کو سادگی، قناعت اور ایثار کے دائروں میں محدود رکھتے ہوئے کام کرتا رہا۔

۷۰برس پیش تر ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد اس میں دو تبدیلیاں ضروری تھیں:

ایک یہ کہ اسلام کے نام پر اور اسلامی احکام و تعلیمات کی معاشرتی عمل داری کے عزم کے ساتھ وجود میں آنے والی نئی ریاست کا نظامِ تعلیم، ۱۸۵۷ء کے بعد کے ماحول میں محصور رہنے کے بجاے اس سے قبل کے دور میں واپس چلا جاتا۔ اس طرح ریاستی، انتظامی اور عدالتی ضروریات کے ساتھ دینی و معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مشترکہ ریاستی و قومی تعلیمی نظام تشکیل دیا جاتا۔

دوسری تبدیلی یہ ضروری تھی کہ دینی مدارس کا یہ آزادانہ نظامِ تعلیم اپنے اہداف میں وسعت پیدا کر کے دینی و معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ قومی و ریاستی ضروریات کو بھی مقاصد میں شامل کرلیتا، مگر نہ تو ریاستی اداروں نے حالات کی تبدیلی کو قبول کر کے ایک نئے قومی نظامِ تعلیم کی طرف پیش قدمی کی اور نہ دینی مدارس نے اس تبدیلی کے تقاضوں کو محسوس کیا۔

ریاستی اداروں اور ان کی پشت پر کارفرما مقتدر قوتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ ’آزادی اور پاکستان‘ کے عنوان سے رُونما ہونے والی اس تبدیلی کو خلا میں ہی رکھنا ہے، اور اسے ملک کی فضا اور زمین پر اُترنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا ہے۔ اس لیے سامراجی دور کی نوآبادیاتی تعلیمی و ریاستی پالیسیوں کا تسلسل بدستور جاری رہا، اور جس میں آج تک کوئی وقفہ نہیں آیا۔ دوسری جانب خود دینی مدارس نے یہ سوچ کر انھی رستوں پر چلتے رہنے میں عافیت محسوس کی کہ جب دوسری طرف کوئی تبدیلی نہیں آرہی تو ہم خود کو اپنے پرانے ’ٹریک‘ سے ہٹا کر نئے خطرات کیوں مول لیں؟

اس کے ساتھ ہی ملکی مقتدر قوتوں اور اس کے پس پردہ عالمی مقتدر قوتوں کی یہ خواہش بھی دھیرے دھیرے بے نقاب ہوتی چلی گئی کہ ان دینی مدارس کو ان کے روایتی تعلیمی اور معاشرتی کردار سے محروم کر دیا جائے، اور ملک کے پورے کے پورے دینی تعلیمی نظام و نصاب کو ۱۸۵۷ء کے بعد کےنو آبادیاتی دور میں شروع کیے جانے والے ریاستی تعلیمی نظام کے حصار میں بند کردیا جائے۔ چنانچہ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی کی آوازیں تو وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہیں اور اس کے لیے منصوبے بھی سامنے آتے رہے ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام میں دینی اور معاشرتی ضروریات کو سمونے کی کوئی تحریک نہیں اُٹھی۔

اس مرحلے میں اس سوال کا جائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدرسے اور اسکول و کالج کے تعلیمی نصاب و نظام میں یہ تفریق آخر پیدا کس نے کی ہے؟ اور کون اسے باقی رکھنے پر اصرار کر رہا ہے؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ: ’’مولوی صاحبان کی اس ضد نے یہ تفریق پیدا کی تھی اور وہی اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ حالاں کہ یہ بات مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ تفریق، ریاستی نظامِ تعلیم میں عربی، فارسی، فقہ اور قرآن و حدیث کے مضامین کو نکال دینے کے باعث ہوئی تھی۔ دینی مدارس ریاستی نظام سے نکالے گئے مضامین کی تعلیم و تدریس کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے میدانِ عمل میں آئے تھے، اس لیے اس تفریق کی ذمہ داری ان پر بہرحال عائد نہیں ہوتی۔ آج دینی مدارس اپنے نصاب میں مڈل اور میٹرک تک کے عصری نصاب کو شامل کرچکے ہیں اور اس سے آگے بھی معقول شرائط کے ساتھ گریجویشن تک مطابقت (adjustment) پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر ریاستی تعلیمی نظام ابھی تک قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم تک کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اپنے نصاب کے وہ حصے بتدریج خارج کرتا جارہا ہے، جن میں کسی نہ کسی حد تک دینی تعلیم کا کچھ نہ کچھ لوازمہ موجود ہے۔ اس حقیقت سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دینی و عصری تعلیم یا دوسرے لفظوں میں ’مسٹر اور مُلّا‘ کی یہ معاشرتی تفریق کس کی پیدا کردہ ہے؟ اور کون اسے مسلسل جاری رکھنے پر بضد ہے؟

بہرحال، قیامِ پاکستان کے بعد ریاستی نظامِ تعلیم اور دینی مدارس کے نظاموں سے جو توقعات وابستہ ہوئی تھیں اور ابھی تک معاشرہ اس طلب پر قائم ہے، انھیں مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:

٭ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عدلیہ و انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں ضرورت کے مطابق ایسے رجالِ کار کی فراہمی جو دینی، عصری اور فنّی تعلیم سےبہرہ ور ہوں۔

٭ عالمی سطح پر جاری تہذیبی و فکری کش مکش کے ادراک سے سرشار اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ و فروغ کے تقاضوں سے باخبر اصحابِ فکر و دانش کی تیاری اور تربیت۔

٭ اسلامی عقائد و احکام کے خلاف جاری عالمی اور ملکی میڈیا مہم اور بین الاقوامی لابنگ کے مقابلے کے لیے رجالِ کار کی تیاری اور فکری و علمی حلقوں کو منظم کرنا۔

٭ عالم اسلام کے داخلی اور فکری انتشار پر قابو پانے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اداروں اور علمی حلقوں و مجلسوں کا قیام اور ان کی رہنمائی۔

٭ ملک میں نفاذِ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشان دہی اور ان کے سدّباب کے لیے علمی و فکری سطح پر محنت و کاوش۔

٭ تجدد و الحاد کے فکری و علمی حلقوں کا دلیل و بُرہانِ قاطع سے سامنا وغیرہ۔

یہ ہمارے دینی فرائض، قومی تقاضے اور ملّی ضروریات کا درجہ رکھتے ہیں، جو اصلاً تو ریاستی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن چوں کہ ہماری موجودہ مقتدرہ دورِ غلامی کا ورثہ ہے، اس لیے اس سے بظاہر کوئی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی اور سب کی سب اُمیدیں سمٹ کر دینی مدارس پر آکر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کے اکابر علماے کرام اور وفاقوں کے ذمہ داران کو ان اُمور کا جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بات درست ہے کہ قومی اور عالمی سطح پر دینی مدارس کے آزادانہ معاشرتی کردار کو جن خطرات کا پہلے سامنا تھا، اب بھی دہ بدستور قائم ہیں۔ دینی نظام کے اس خودمختار نظام کو ’اجتماعی دھارے‘ (main stream) کے نام سے تحلیل کر دینے کی کوششیں مسلسل ہورہی ہیں۔ ان کے وسائل و ذرائع کے محدود کرنے کے منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی کردارکشی میں روز بروز شدّت آرہی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی ان کے لیے نئی نہیں ہے۔ ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی ان میں الحمدللہ آج تک موجود ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاقوں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ وسیع تر عالمی، علاقائی اور قومی تناظر میں دینی و عصری تعلیم کے حوالے سے معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی ضروریات کا ازسرِنو جائزہ لے کر علمی و فکری رہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں۔


دینی مدارس کے اخراجات کا سرچشمہ ؟

دینی مدارس پر مغربی دنیا کی یلغار کئی عنوانات سے جاری رہتی ہے، جس میں ایک بڑا حربہ ان کی مالی اعانت کے سلسلے کو کاٹ دینا بھی ہے۔ ایک قومی روزنامے میں ۳ جولائی۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اٹارنی جنرل نے صوبائی قانون سازی ایکٹ کے سیکشن ۱۲ کو پڑھا، جس میں پاکستان بھر میں مدارس کے خلاف کاروائی کی بات کی گئی ہے، تو جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے سوال کیا کہ: ’’صرف مدارس کے بارے میں آپ کیوں بات کر رہے ہیں، دوسروں کے بارے میں بھی دیکھنا ہوگا‘‘۔

ان دنوں سپریم کورٹ این جی اوز کے حوالے سے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔

ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے دینی مدارس کو بھی روایتی این جی اوز کا ہی ایک نیٹ ورک سمجھا جاتا ہے، جہاں ہزاروں دینی مدارس ملک بھر میں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔اس تعلیم میں قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم کے ساتھ ساتھ میٹرک تک عصری تعلیم اور کئی مقامات پر کمپیوٹر ٹریننگ بھی شامل ہے۔ اصحاب ثروت اپنی زکوٰۃ و صدقات اور عطیات وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، جو مستحق طلبہ اور طالبات پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ مدارس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی تُؤْخَذُ مِنْ أغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ [ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، حدیث: ۱۳۶۴، زکوٰۃ معاشرے کے مال دار حضرات سے لی جاتی ہے اور فقرا کو لوٹا دی جاتی ہے] کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اکثر مدارس اپنے حسابات کا باقاعدہ آڈٹ کراتے ہیں اور اپنی سالانہ کارگزاری میں آڈٹ رپورٹ کو شامل کرتے ہیں۔ اور ویسے بھی اصحاب خیر کی بڑی تعداد علماے کرام اور دینی مدارس کے منتظمین پر اس قدر اعتماد رکھتی ہے کہ لوگ بھاری رقوم ان کے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اس پر ایک واقعہ ذہن میں آگیا ہے جسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہت عرصہ قبل یوسف کمال صاحب، ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علما کی میٹنگ ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ: ’’مجھے علماے کرام کی معاشرتی حالت پر بہت ترس آتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہوں کہ ان کا معاشرتی مقام کیسے بلند کیا جائے، ان کی تو روزی ہی لوگوں کی جیبوں سے وابستہ ہے‘‘۔

بریلوی مکتب فکر کے بزرگ عالم دین صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ صاحب بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے اور مَیں ان کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ انھوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کا یہ جملہ سن کر آہستگی سے فرمایا: ’’بہت زیادتی ہے‘‘۔ میں نے جوابی سرگوشی میں عرض کیا کہ: ’’حضرت دعا فرمائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ حساب برابر ہوجائے گا‘‘۔ تھوڑی دیر میں میری گفتگو کی باری آئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ: ’’آپ کی ہمدردی کا شکریہ! مگر محترم، ہماری طرح آپ کی روزی بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کی روزی انکم ٹیکس آفیسر اور تحصیل دار، سسٹم کی طاقت سے لوگوں کی جیب سے نکالتے ہیں،جب کہ ہماری روزی لوگ خود آکر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت قبول فرمائیے اور ہمارے لیے دعا کر دیجیے‘‘۔

میٹنگ سے فارغ ہو کر ہال سے باہر نکلے تو صاحبزادہ محترمؒ نے مجھے سینے سے لگا کر بہت دُعائیں دیں۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہؒ ضلع سیالکوٹ میں آلو مہار کی نقشبندی خانقاہ کے مسند نشین تھے۔ مجلس احرار کے مرکزی عہدے دار اور امیر شریعت حضرت سیّدعطا اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق کار رہے۔ بعد میں بریلوی مکتب فکر کی ملک گیر جماعت ’جمعیۃ العلما پاکستان‘ کے مرکزی صدر بنے۔

دینی مدارس کے نظام پر اصحاب خیر کا یہ اعتماد ہی دراصل ان کی بقا و تسلسل کا باعث ہے اور جب تک مدارس کے منتظمین سادگی، قناعت، خلوص اور جہد مسلسل کے حوالے سے اپنا یہ اعتماد قائم رکھ سکے ان کے اس نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

چند سال قبل یورپی یونین کا ایک وفد دینی مدارس کے حوالے سے مطالعاتی دورے پر پاکستان پہنچا تو گوجرانوالہ بھی آیا۔ وفد کی سربراہ ایک برطانوی خاتون نے جامعہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کے اخراجات کے بارے میں پوچھا، تو میں نے عرض کیا کہ: ’’دونوں کے اخراجات ملا کر قریباً ایک کروڑ روپے کا تخمینہ بنتا ہے‘‘۔ انھوں نے پوچھا کہ: ’’کہاں سے آتا ہے یہ روپیہ پیسہ؟‘‘ مَیں نے کہاکہ: ’’کہیں باہر سے نہیں آتا، گوجرانوالہ شہر کے لوگ ہی پورا کرتے ہیں بلکہ لوگ خود ہی آکر دے دیتے ہیں‘‘، مگر موصوفہ کا ذہن اس بات کو قبول کرنے میں تیار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اَمرواقعہ ہے کہ علماے کرام اور معاشرے کا یہ باہمی تعلق اور اعتماد، مساجد و مدارس کے وسیع تر نظام کی بنیاد ہے۔ جب تک یہ اعتماد قائم ہے، مساجد و مدارس کے اس نیٹ ورک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، اور مدارس کے اس نظام پر سیکولر حلقوں کے مسلسل سیخ پا رہنے کی وجہ بھی یہی ہے۔

بات دُور نکل گئی۔ گفتگو ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں دینی مدارس کو بطور خاص ہدف بنانے پر سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کی طرف سے تحفظات کے اظہار پر ہورہی تھی۔ اس بارے میں جن تحفظات کا اظہار ہم آغاز سے کر رہے ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فورم پر بھی وہ سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس اپنے نظامِ کار میں اصلاح وبہتری کے لیے ہر آن کھلے دل سے تیار ہیں، مگر اس کے ساتھ وہ، انھیں لپیٹ دینے کی کوشش اور سازش کے سامنے سینہ سپر ہیں۔


قیام پاکستان کا مقصد اور تقاضا

اس موقعے پر اس اَمرِواقعہ کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد اور فلسفہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے میں حکومت خود مسلمانوں کی ہونی چاہیے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے مطابق ملک کا نظام تشکیل پانا چاہیے۔ یہ خواہش اور عزم اسلام کے تقاضوں میں سے ایک اساسی تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ ہے ، اور ملّت اسلامیہ کی تاریخ اور ماضی کے تسلسل کا حصہ ہے۔

خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مبارکہ کے حوالے سےعرض ہے کہ مکّہ مکّرمہ سے ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا ایک معاشرہ قائم ہوا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی زندگی کو ایک نظم میں مربوط کرتےہوئے پہلا کام یہ کیا کہ حکومتی اور ریاستی نظام قائم کیا۔ جس کی بنیاد ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگوں کے درمیان ایک معاہدے پر رکھی گئی، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔

اس دوران ریاست مدینہ کے لوگوں کے تنازعات کے فیصلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ قبائل کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ مسلمانوں کے تنازعات و مقدمات تو اپنی جگہ تھے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی جھگڑوں کا مقدمہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش ہوتا تھا، بلکہ غیر مسلموں کے باہمی تنازعات و مقدمات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم کی حیثیت حاصل تھی۔ اس لیے اسلامی تاریخ کا آغاز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت مبارکہ سے ہوا تھا کہ جونہی مسلم سوسائٹی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی تو اسلامی ریاست کی تشکیل کی گئی اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

برصغیر : پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت وغیرہ میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی ہے اور ہر دور میں اسلامی احکام و قوانین کی عمل داری کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ مسلمان عددی اعتبار سے اقلیت میں تھے، مگر طاقت اور تدبّر کی وجہ سے انھوں نے اتنا طویل عرصہ حکومت کی۔ جب انگریز قابض ہوئے اور دنیا میں طاقت کے بجاے ووٹ اور گنتی کے ساتھ اقتدار کے فیصلے ہونے لگے تو اس خطے کے بہت سے مسلمان دانش وروں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہم اقلیت میں ہیں اور ووٹ اور تعداد کے بل بوتے پر ہندو ہمیشہ کے لیے غلبہ قائم کر لیں گے، اس لیے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں الگ ریاست کی شکل دے کر مسلمانوں کے اقتدار اور اسلامی تہذیب کے تحفظ کا اہتمام ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قیام پاکستان کی تحریک چلائی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کے ساتھ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانیؒ ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ ، پیر صاحب آف مانکی شریفؒ ، اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ جیسے اکابر علماے کرام اور مشائخ عظام نے تحریک پاکستان کا ساتھ دے کر اسے کامیاب بنایا اور ۱۹۴۷ء میں ’پاکستان‘ کے نام سے ایک اسلامی ریاست وجود میں آگئی۔

تاہم،قیامِ پاکستان کو ۷۰ سال گزر جانے کے بعد ابھی تک اس کا مقصدِ وجود، تشنہ تکمیل ہے۔ یہی نظر آتا ہے کہ کوئی حکومت بھی پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ملک فکری اور اخلاقی انارکی کا شکار ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو قائم کریں گے اور قیامِ پاکستان کے مقصد کی تکمیل کرتے ہوئے ملک کے باشندوں کو امن و سلامتی کی حقیقی منزل سے ہم کنار کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

-----------------
یہ بھی پڑھیں !

دینی مدارس : نصاب و نظام تعلیم اور عصری تقاضے