گوشۂ زاھد الراشدی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ زاھد الراشدی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے ‏گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید ‏میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ‏ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر ‏صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی ‏صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ ‏السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار ‏کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت ‏سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں ‏میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے ‏گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص ‏عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ‏اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور ‏اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ‏ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا ‏منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، ‏فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص ‏پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم ‏کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ ‏قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے ‏سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود ‏انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن ‏المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، ‏تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح ‏کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ ‏لیں۔

موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

 حافظ سید عزیز الرحمن

ماہنامہ الشریعہ  تاریخ اشاعت ستمبر ۲۰۰۲ء 

ہمارا موجودہ نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے لیکن اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ دینی تعلیم ، ۲۔ عصری تعلیم جس میں عصری علوم وفنون کے تمام ادارے شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی خصوصیات ونقائص کا مختصر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 

دینی تعلیم

۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی دینی مدارس میں اسلامیات کا جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، یونیورسٹی میں ایم اے کی سطح پر پڑھایا جانے والا نصاب اس کا صرف ایک حصہ ہے۔

 

۲۔ دینی مدارس میں آج کے گئے گزرے دور میں بھی استاد وشاگرد کے باہمی تعلق واحترام کی روایت موجود ہے۔

 

۳۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسکول وکالج کے مقابلے میں ان مدارس کے اخراجات بہت کم ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے ان کا خرچ دس فی صد بھی نہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے ضمن میں ان کی خدمات مثالی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد ۳ ہزار سے زائد ہے جن میں کئی لاکھ طلباتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ( روزنامہ جنگ، کراچی/ ۲۳۔ اگست ۲۰۰۱ء)

 

الشریعہ اکادمی پاکستان کا تعارف : اغراض و مقاصد، رسائِل اور مطبوعات

 فکری پس منظر اور اغراض ومقاصد

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات واحکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی ودینی حلقوں کے درمیان رابطہ ومفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فرض انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی وفکری چیلنجز کا ادراک واحساس اجاگر کیا جائے گا۔

آج سے تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل ودماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم ودانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ واستدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک رسائی کا دور ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماءکرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی وفکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انھیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

توہين رسالت کى سزا پرجارى مباحثہ ، چند گزارشات- ابو عمار زاہد الراشدى

ماہنامہ الشريعہ ، گوجرانوالہ
 تاريخ اشاعت ، اکتوبر 2011ء
توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے بارے میں امت میں عمومی طور پر یہ اتفاق تو پایا جاتا ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے لعین و شقی شخص کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کی فقہی اور عملی صورتوں پر فقہائے امت میں اختلاف ہر دور میں موجود رہا ہے کہ
مسلمان کہلانے والے گستاخِ رسول کو موت کی یہ سزا مستقل حد کی صورت میں دی جائے گی یا ارتداد کے جرم میں اسے یہ سزا ملے گی؟ اور اس کے لیے توبہ کی سہولت و گنجائش موجود ہے یا نہیں؟
اسی طرح غیر مسلم گستاخِ رسول کو یہ سزا تعزیر کے طور پر دی جائے گی یا اس کی فقہی نوعیت کچھ اور ہوگی؟ اور ایک ذمی کا عہد اس قبیح جرم کے ارتکاب کے بعد قائم رہ جاتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟

عالمی رابطہ ادب اسلامی - مولانا زاہد الراشدی

گوشہ مولانا زاہد الراشدی
عالمی رابطہ ادب اسلامی - مولانا زاہد الراشدی
عالمی رابطہ ادب اسلامی مسلم ارباب فکر و دانش کا عالمی سطح کا فورم ہے جس کا قیام اپریل ۱۹۸۱ء کے دوران ندوۃ العلماء لکھنو میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دعوت پر منعقد ہونے والے ایک عالمی سیمینار کے موقع پر عمل میں لایا گیا اور حضرت مولانا ندوی ؒ اپنی زندگی میں اس کے صدر رہے جبکہ ان کی وفات کے بعد سعودی عرب کے معروف دانشور ڈاکٹر عبد القدوس ابو صالح حفظہ اللہ کو اس کا سربراہ چنا گیا اور ریاض میں اس کا مرکزی دفتر شیخ موصوف کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ اس کے مقاصد میں سے چند اہم اہداف درج ذیل ہیں:

1- ادب اسلامی کی جڑوں کو پختہ کرنا اور قدیم و جدید ادب اسلامی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا۔
2- جدید ادبی علوم و فنون کے لیے اسلامی مناہج و اسالیب کی تیاری و تشکیل۔
3- ادب اسلامی کی عالمگیریت کو نمایاں کرنا۔
4- عالمی ادبی مسالک پر تنقید کرنا اور تنقید کے جدید مناہج وضع کرنا۔
5- عالمی ادبی مسالک میں موجود خامیوں اور خوبیوں کی نشاندہی کرنا۔
6- مومن نسلوں اور ایسی اسلامی شخصیات کی تیاری میں جنہیں اپنی دینی اقدار اور عظیم تہذیبی ورثے پر فخر ہو، ادب اسلامی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کرنا وغیر ذلک۔


منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی


دارالہدیٰ (سپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں ۳ تا ۷ ستمبر ۲۰۰۷ء مختلف نشستوں سے خطبات کا مجموعہ جسے تحریری شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ 
-----------------------------

حجۃ الوداع کی اصطلاح

جناب سرور کائنات، فخر موجودات، شفیع المذنبین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم کا ہر ایک ارشاد، ہر جملہ اور ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے اور ان میں ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی کے بہت سے پہلو ہیں۔ لیکن جناب نبی کریمؐ کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن چند ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ان میں حجۃ الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے جو آخری حج کیا، اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ ایک اس حوالہ سے کہ آپؐ نے آخری حج وہی کیا، اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریمؐ نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ


ایھا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ھذا۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں‘‘۔

یعنی حضورؐ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں اپنے صحابہؓ سے آخری اجتماعی ملاقات کر رہا ہوں۔ آپؐ نے بطور خاص فرمایا کہ مجھ سے باتیں پوچھ لو، سیکھ لو، جو سوال کرنا ہے وہ سوال کر لو، شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے اس طرح کی ملاقات نہ کر سکوں، گویا حضورؐ خود بھی الوداع کہہ رہے تھے۔ اس مناسبت سے اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

نیدرلینڈز کے گستاخانہ خاکے، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم

مولانا زاھد الراشدی 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۲۹ اگست ۲۰۱۸ء

سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ہالینڈ (نیدرلینڈز) میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

غامدی صاحب اور اہل فتوی

مولانا زاھد الراشدی

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:  مئی ۲۰۱۸ء

رجب کے دوران ملک بھر میں بیسیوں مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا اور دینی مدارس کے مختلف النوع اجتماعات میں شرکت کے علاوہ متعدد ارباب علم و دانش کے ساتھ بعض علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان میں سے ایک اہم اور نازک مسئلہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں بعض اہل علم کے فتویٰ کی بات بھی تھی جس کے بارے میں احباب نے میرا موقف معلوم کرنا چاہا۔ متعدد دوستوں کے ساتھ کی گئی متفرق گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ کی روح اور قبر پر جن سے طویل عرصہ تک جمعیة علماءاسلام کی سرگرمیوں میں رفاقت کا تعلق رہا ہے جب وہ لکی مروت میں تھے، پھر کراچی چلے گئے اور اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ ”شریعت بل“ کی تحریک اور نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ ایک بار انہوں نے دریافت فرمایا کہ کچھ دوستوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی بعض عبارات استفتا کی صورت میں بھجوائی ہیں اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ چونکہ بات مشورہ کی تھی اور مسئلہ علمی و فقہی تھا اس لیے دیانت داری کے ساتھ جو کچھ محسوس کیا وہ ان سے عرض کر دیا۔ اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب کے بعض افکار و آرا پر میں نے متعدد مواقع پر نقد کیا ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے بعض مضامین کا مجموعہ ”ایک علمی و فکری مکالمہ“ کے عنوان سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور ایک مختصر کتابچہ ”غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت“ کے عنوان سے الگ طور پر بھی شائع ہو چکا ہے۔جبکہ میری ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر غامدی صاحب کے عنوان سے ایک درجن سے زائد مضامین موجود ہیں جو وہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فتویٰ کے حوالہ سے مجھے تامل رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ سے میں نے عرض کیا کہ:

غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: ۵ اپریل ۲۰۰۱ء

اصل عنوان:  "مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں ہے"


پشاور کے سید وقار حسین صاحب نے ایک خط میں منیر احمد چغتائی صاحب آف کراچی کے اس مراسلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض افکار کے بارے میں میرے مضامین کے حوالہ سے گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ یہ مراسلہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں رکھ لیا تھا کہ اس کی بعض باتوں پر کسی کالم میں تبصرہ کر دوں گا۔ مگر وقار حسین کے توجہ دلانے پر اپنی ترتیب میں رد و بدل کر کے اس مراسلہ کے بارے میں ابھی کچھ عرض کر رہا ہوں۔

چغتائی صاحب کے مراسلہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب میدان سے بھاگ گئے ہیں، اور اس کے بعد دوسری قابل توجہ بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ غامدی صاحب جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کے موید ہیں۔ مجھے چغتائی صاحب کی ان دونوں باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔

قدیم اور جدید تعلیم

مولانا زاھد الراشدی 


مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  نا معلوم


۱۶ ستمبر کو جامعۃ العلوم الاسلامیۃ میر پور آزاد کشمیر کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں حاضری اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ علوم اسلامیہ کے مہتمم محترم حاجی بوستان صاحب ایک فکرمند اور باذوق بزرگ ہیں جو ایک عرصہ سے اس مشن پر کام کر رہے ہیں کہ دینی علوم اور عصری علوم میں امتزاج قائم کیا جائے اور قدیم تعلیم اور جدید تعلیم دونوں کے حوالہ سے نئی نسل کی ضروریات کا یکساں اہتمام کیا جائے۔ یہ جامعہ اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے علاوہ پورے ملک میں اور بہت سے ادارے اس فکر و ذوق کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

عام طور پر قدیم علوم سے مراد وہ علوم لیے جاتے ہیں جو دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جبکہ عصری و جدید علوم کا اطلاق ان علوم و فنون پر کیا جاتا ہے جن کی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ ان دونوں کا الگ الگ نظم ملک میں ہر سطح پر موجود ہے۔

مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے چند ضروری پہلو

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:  جنوری ۲۰۰۴ء
اصل عنوان : فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو


(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوۃ۔ کل سے مختلف مسائل پر گفتگو چل رہی ہے۔ ہم نے صبح کی نشست میں نصاب اور اساتذہ کی تدریسی اور تربیتی مشکلات کے حوالے سے بات کی، جس کے نتیجے میں تفصیلی تجاویز سامنے آئی ہیں۔

اس نشست میں میری گفتگو کا عنوان ہے ’’فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو‘‘۔ فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری تگ ودو گھومتی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے کہ میں نے تو یہ کام کرنا ہے، اور پھر وہ ساری زندگی اسی میں لگا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ یعنی کسی طالب علم کی فکری تربیت کے رخ کا تعین، ہم نے اسے آزاد چھوڑا ہوا ہے اور طالب علم اپنی مرضی سے اس کا تعین کر رہے ہیں۔ اس کا تعلق بھی اس بات سے ہے جو اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے ہماری مشاورت میں زیر غور آئی، یعنی چونکہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظم موجود نہیں، اس لیے ہوتا یہ ہے کہ مدارس میں اساتذہ میں سے جس استاد کے ساتھ طالب علم زیادہ مانوس ہو جاتا ہے، تو جو ذہنی سوچ اس کی ہوتی ہے، وہی طالب علم کی بھی بن جاتی ہے۔ ایک مدرسے میں اساتذہ کے ذہنی رجحانات مختلف ہیں تو دو دو، چار چار طالب علم ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح فکری تربیت تو ہوتی ہے لیکن یہ فکر کوئی اجتماعی فکر نہیں ہوتی۔ ہر طالب علم اپنے ذوق کے مطابق کسی استاد کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور اسی کے مطابق اس کی ذہنی وفکری تربیت ہوتی ہے اور وہ اسی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں اس کو خون کے گروپ سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں خون کے مختلف گروپ کام کر رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ کا خون گروپ ہے، جہادی خون گروپ ہے، جمعیت علماء اسلام کا خون گروپ ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت، اشاعت التوحید اور خدام اہل سنت کے خون گروپ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ آپس میں ملتے ہیں اور کچھ نہیں ملتے۔ اور لطیفے کی بات یہ ہے کہ اتفاق سے میرا خون کا گروپ سب سے مل جاتا ہے۔ میرا خون سب کو لگ جاتا ہے اور سارے خون اس کو لگ جاتے ہیں۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء


حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات سب سے پہلے ۱۹۸۴ء میں ہوئی تھی جب وہ رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے اور راقم الحروف بھی عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں حرم پاک میں تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ محترم سعدی صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے خالو محترم مفتی محمد اویس خان ایوبیؒ کا مہمان تھا جو اُن دنوں جامعہ ام القریٰ میں زیر تعلیم تھے اور اب وہ میر پور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی ہیں۔

مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا علی میاںؒ (مولانا ندویؒ ) کو زندگی میں پہلی بار وہاں دیکھا بلکہ مولانا ندویؒ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر انہیں بازوؤں کے حصار میں رکھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور پھر سعدی صاحب مرحوم کے مکان پر دونوں بزرگوں کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔

حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف

مولانا زاھدالراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ

تاریخ اشاعت:  اپریل ۲۰۰۹ء

حدیث وسنت کے بارے میں محترم جناب جاوید احمد غامدی کی مختلف تحریرات کے حوالہ سے راقم الحروف نے کچھ اشکالات ’’الشریعہ‘‘ میں پیش کیے تھے اور غامدی صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ ان سوالات و اشکالات کے تناظر میں حدیث و سنت کے بارے میں اپنے موقف کی خود وضاحت کریں تاکہ اہل علم کو ان کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو۔ غامدی صاحب محترم نے اس گزارش کو قبول کرتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنا موقف تحریر فرمایا ہے جسے ان کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم کچھ مزید معروضات بھی پیش کر رہے ہیں۔

غامدی صاحب محترم فرماتے ہیں کہ:  ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:


1-مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔

2-مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔

3-اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔

خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

مولانا ابوعمار زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  ۶ مارچ ۲۰۱۵ء

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کے حوالہ سے از خود طے کر لی ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ ایک عرصہ سے اسلام کے نظریاتی، علمی اور فقہی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن یا اکھاڑ پچھاڑ میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے نکتۂ نظر کا جائزہ- مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام:  روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:  ۷، ۸، ۹ فروری ۲۰۱۵ء

جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں جو تحریکیں نفاذ اسلام یا دنیا میں اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں وہ اسلام کی روح کے مطابق نہیں ہیں۔ بہت سے اصحاب علم نے اس پر اظہار خیال کیا ہے اور میں بھی کچھ معروضات پیش کرنا مناسب خیال کر رہا ہوں۔ لیکن اب تک جن احباب کے مضامین اس حوالہ سے میری نظر سے گزرے ہیں وہ اپنے موقف کی وضاحت کی حد تک تو بالکل ٹھیک ہیں لیکن ان میں اس پہلو سے کسی حد تک خلاء محسوس ہو رہا ہے کہ غامدی صاحب کے افکار اور استدلال کے جواب کے لیے ہم اپنے مسلمات کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں۔ جبکہ جن اصولوں اور حوالوں سے غامدی صاحب پر نقد کیا جا رہا ہے وہ سرے سے ان کے مسلمات میں شامل ہی نہیں ہیں۔