فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 27 دسمبر 2022ء 

 یہ دنیا کے لیے 10 ارب ڈالر کا تحفہ تھا، ایسی مشین جو اس کائنات میں ہمیں ہماری حیثیت سے روشناس کروانے والی تھی۔ 

آج سے ایک برس قبل جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ (یعنی دسمبر 2021 ء) کرسمس کے موقع پر لانچ کی گئی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی، ڈیزائننگ اور تیاری میں تین دہائیاں لگی تھیں۔ 

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟ 

کئی لوگوں کو اس حوالے سے خدشات تھے کہ مشہورِ زمانہ ہبل سپیس ٹیلیسکوپ کی جانشین کہلائی جانے والی یہ دوربین کیا واقعی توقعات پر پوری اتر سکے گی۔ 

ہمیں اس کی لانچ کے بعد کچھ مہینے انتظار کرنا پڑا جس دوران اس کا شاندار ساڑھے چھ میٹر قطر والا شیشہ کھلا اور اس نے خود کو فوکس کیا۔ اس دوران اس کے دیگر سسٹمز بھی ٹیسٹنگ اور کیلیبریشن سے گزرتے رہے۔

مگر پھر یہ بالکل وہی چیز ثابت ہوئی جو کہ کہا جا رہا تھا۔ امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے جولائی میں اس کی پہلی رنگین تصوایر جاری کیں۔ 

اس صفحے پر آگے موجود تصاویر وہ ہیں جو شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہوں۔ 

جیمز ویب ٹیلیسکوپ کے بارے میں آپ سب سے پہلے جو چیز نوٹ کریں گے وہ یہ کہ یہ ایک انفراریڈ ٹیلیسکوپ ہے۔ یہ آسمان کو روشنی کی اُن ویو لینتھس (طول الموج) میں بھی دیکھ سکتی ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ 

ماہرینِ فلکیات اس کے مختلف کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں، جیسے کہ گیس اور دھول کے ان بلند و بالا ٹاورز کا۔ 

آئزک نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا



اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔‘


لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17 ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘ (یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)


یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘ اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔


لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘ سمجھا ہو گا۔


’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘


پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔ اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔


ان کی رہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔


جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔


یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘
نیوٹن کا خدا کا تصور


نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔


بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642 میں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643 کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727 میں بتائی جاتی ہے۔


ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انھوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘ کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

فلسفہِ رواقیت: زندگی میں غیر یقینی حالات سے نمٹنے کا ایک قدیم نسخہ

اماندہ روگری
بی بی سی فیوچر
23 مارچ 2022 ء 



بہت سارے لوگوں کے لیے دنیا مسلسل اتھل پتھل کا شکار ہے جس سے نمٹنا بعض افراد کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے، لیکن کیا رواقیت (Stoicism) کا فلسفہ ایسے دشوار ادوار کو برداشت کرنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟


ان کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل زندگی تھی۔ وہ غلامی میں پیدا ہوئے، ایک موقع پر ان کے مالک نے ان کی ٹانگ توڑ دی تھی جس کی وجہ سے وہ معذور ہوگئے تھے۔ آخر کار انھیں آزادی مل گئی، انھوں نے اگلے 25 سال اپنے شوق کو پورا کرنے میں بسر کیے۔ جس کا مقصد صرف یہ نکلا کہ ان کی تمام کوششوں کو ایک آمر نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ وہ بیرون ملک بھاگ گئے، اور باقی زندگی جلاوطنی اور غربت میں بسر کی۔


یہ سوانحی خاکہ اُس یونانی فلسفی ایپِکٹیٹس (Epictetus) کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے جو سنہ 55 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ وہ 'فلسفہِ رواقیت' (Stoicism) کا نظریہ پیش کرنے والے فلسفی تھے۔ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں مورخین کے اختلافات ہیں۔

عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

کیا کوانٹم فزکس ’روح‘ کے راز کو سمجھ جائے گی؟

کارلوس سیرانو ، بی بی نیوز منڈو

10 مئ 2019

برقی مقادیر یا کوانٹم کی دنیا اس دنیا سے مختلف ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ ایک آسیب زدہ جگہ میں ہیں۔ یہ ایک تاریک، سرد اورغیرآباد حویلی ہے۔

جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے آپ کو یہ گھر خالی لگتا ہے لیکن فوراً آپ غور کرنے لگتے ہیں کہ کچھ اشیا اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور پھر اچانک غائب ہو جاتی ہیں۔

اس گھر پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، لیکن آپ ذرّات گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور باورچی خانے سے ہلکی سے آواز سنتے ہیں جیسے لکڑی کے فرش پر کسی کے چلنے کی خفیف سی چرچر ہو۔

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ : "حشرات الارض کے بغیر ہم فضلے اور مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے"

حشرات الارض کے بغیر
ہم مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے 
بھنبھناتے ہوئے کیڑے مکوڑے جب کاٹتے ہیں یا کھانے میں گر جاتے ہیں تو یقیناً آپ کو غصہ آتا ہو گا۔ لیکن انھیں مارنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔


یہ کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایکو سسٹم کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی سینیئر کیوریٹر ڈاکٹر ایریکا میک السٹر نے بی بی سی کے پروگرام کراؤڈ سائنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم دنیا سے تمام کیڑے مکوڑے نکال دیں تو ہم بھی مر جائیں گے۔‘

’ہم ہلاک ہو جائیں گے‘

کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔
ڈاکٹر میک السٹر نے کہا کہ ’ذرا سوچیے اگر ہمارے پاس فضلے کے خاتمے کے لیے کیڑے مکوڑے نہ ہوں، تو ماحول کتنا ناخوشگوار ہو گا۔ حشرات الارض کے بغیر ہم فضلے اور مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے۔‘

خدا کا وجود ، جاوید احمد غامدی

خدا کا وجود۔ جاوید احمد غامدی 
(نوٹ: یہ تقریر انگریزی زبان میں 9مئی 2009کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں کی گئی۔)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

گریٹ ایپس / hominidae- بلال الرشید

گریٹ ایپس /hominid
آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے جینز میں خرابی ہے یا ذہانت تو فلاں کے جینز میں پائی جاتی ہے ۔جینز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خصوصیت اس شخص کو وراثتی طور پر اپنے آ بائو اجداد سے ملی ہے ۔ اگر ایک شخص جنیاتی طور پر (genetically)ذہین ہے ‘تو وہ ایک گھنٹے وہ سب کچھ سمجھ سکتاہے ‘ جو کہ جنیاتی طور پر غیر ذہین شخص کو سمجھنے میں دس گھنٹے لگیں ۔ حسد‘ غصے اور سخاوت سمیت ساری عادات انسان کو اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کی آواز‘ بال‘ قد کاٹھ اور شکل و صورت اپنے والدین سے مشابہہ ہوتی ہے ‘ اسی طرح بیماریاں بھی ورثے میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس علاقے کے پانی میں خرابی ہے یا میں سر میں تیل نہیں ڈالتا‘ اس وجہ سے میرے بال گر رہے ہیں ؛حالانکہ گنجا پن اس کے جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ خواہ وہ اپنے سر کو منرل واٹر سے دھونا شروع کر دے یا وہ ہمیشہ اسے تیل میں بھگوئے رکھے‘اس کے بال گر کے رہیں گے۔ ہاں؛ البتہ کسی کسی کو بال چر یادوسری کوئی بیماری لاحق ہو تو وہ علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ 

انسان کا قد کاٹھ‘ شکل و صورت ‘ دانتوں کی ساخت ‘ ذہین یاغیر ذہین ہونا ‘ یہ سب کچھ ہمارے جینز میں پہلے سے درج کر دیا گیا ہے ۔ ایک آدمی بزدل ہوگا یا بہادر ‘ یہ بھی جینز میں لکھا ہوتا ہے ۔ اس میں initiativeلینے کی صلاحیت ہوگی یا نہیں ‘ وہ مستقل مزاج ہوگا یا متلون ‘ وہ شرمیلے مزاج کا حامل ہوگا یا بے باک ‘سب کچھ لکھ دیا گیا ہے ۔ ایک شخص ایسا ہوتاہے کہ صحرا میں ریت پر آرام سے سو جاتا ہے ۔ دوسرے کے ذاتی کمرے میں بھی ذرا سی بے ترتیبی ہوتو وہ سکون سے سو نہیں سکے گا ۔ ایک منظر ایک شخص کے لیے بے معنی ہوگا‘ دوسرے کے لیے اس میں ایک پوری داستان رقم ہوگی ۔ ایک آواز ایک شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہے ۔ دوسرے کے لیے اس میں کئی سُر چھپے ہوتے ہیں ۔یہ سب سمجھنے کی صلاحیت جینز میں درج ہوتی ہے ۔

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)

کائنات کی تخلیق :ایک حادثہ یا باقاعدہ منصوبہ؟ ڈاکٹر فرینک ایلن

کائنات کی تخلیق : ایک حادثہ یا باقاعدہ منصوبہ ؟ 
بارہا اس بات کو ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ: ’’یہ عالمِ مادی اپنے وجود کے لیے کسی خالق کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس عالم کا وجود بہرحال ایک امرِواقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے لامحالہ اس کے موجود ہونے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کرنی پڑتی ہے۔ عام طور پر اس کی چار توجیہات پیش کی جاتی ہیں:

o- اس دنیا کا وجود محض ایک فریب ِ نظر اور واہمہ ہے، اس کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں۔
o- یہ کائنات اَزخود عدم سے وجود میں آگئی ہے۔
o-یہ ازلی و ابدی ہے اور اس کا کوئی آغاز اور اختتام نہیں ہے۔
o-یہ ایک خالق کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

پہلی توجیہہ اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں انسانی شعور کی مابعد الطبیعی تعبیر کے سوا کوئی حل طلب مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اور اسے خود ایک واہمہ قرار دیا جاچکا ہے۔ علمِ طبیعیات (Physics) کے ماہر سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پُراسرار کائنات میں ان غیرحقیقی مفروضات پر ان الفاظ میں بحث کی ہے:
علمِ طبیعیات کے جدید تصورات کے مطابق کائنات کی کوئی مادی توجیہہ ممکن نہیں اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ کائنات کا سارا معاملہ ہی ایک تخیلاتی معاملہ ہے۔

o کتاب The Evidence of God in an Expanding Universe سے ماہر طبیعیات پروفیسر فرینک ایلن کے مضمون کا ترجمہ، از پروفیسر عبدالحمید صدیقی

فطرت کے آس پاس - امجد اسلام امجد

فطرت کے آس پاس - امجد اسلام امجد 
کئی برس پہلے میں نے ایک ایسی تحریر کہیں پڑھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح انسان نے ترقی اور آسائش کے نام پر فطرت سے دُوری اور رُوگردانی کی مگر آخر کار اُسے فطرت کی طرف ہی لوٹنا پڑا کہ جو نظام ربِ کائنات نے ہمارے واسطے بنایا ہے اُس سے بہتر یا اُس جیسا کوئی سلسلہ بنانا سرے سے انسان کے بس میں ہے ہی نہیں یعنی لالے کی وہ حنا بندی جو فطرت خودبخود کرتی ہے۔

اُس کا متبادل کسی بھی سامانِ آرائش سے ممکن نہیں۔ اتفاق سے آج صبح واٹس ایپ کے پیغامات چیک کرتے ہوئے ایسی ہی ایک تحریر پھر کسی مہربان کی معرفت نظر سے گزری تو انسانی ترقی کے حوالے سے کئی خیالات ذہن میں لہرا سے گئے اُن پر گفتگو ضروری ہے اس سلسلے میں مزید کوئی بات کرنے سے پہلے ہم اس تحریر کو دیکھتے ہیں تاکہ بات کرنے اور سمجھنے سمجھانے میں آسانی ہوسکے۔

’’مٹی کے برتنوں سے اسٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں تک اور پھر کینسر کے خوف سے دوبارہ مٹی کے برتنوں تک آجانا، انگوٹھا چھاپی سے پڑھ لکھ کر دستخطوں (Signatures) پر اور پھر آخر کار انگوٹھا چھاپی  (Thumb Scanning) پر آجانا … پھٹے ہوئے سادہ کپڑوں سے صاف ستھرے اور استری شدہ کپڑوں پر اور پھر فیشن کے نام پر پینٹیں پھاڑ لینا … زیادہ مشقت والی زندگی سے گھبرا کر پڑھنا لکھنا اور پھر پی ایچ ڈی کرکے واکنگ ٹریک (Walking Track) پر پسینے بہانا…قدرتی غذاؤں سے پراسس شدہ کھانوں (Canned Food)پر اور پھربیماریوں سے بچنے کے لیے دوبارہ قدرتی کھانوں (Organic Food) پر آجانا…پرانی ا ور سادہ چیزیں استعمال کرکے ناپائیدار برانڈز (Brands) آئٹمز پر اور آخر کار جی بھرجانے پر پھر (Antiques)پر اُترآنا…بچوں کو جراثیم سے ڈرا کر مٹی میں کھیلنے سے روکنا اور ہوش آنے پر دوبارہ قوتِ مدافعت(Immunity) بڑھانے کے نام پر مٹی سے کھلانا…وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اقتباس بھیجنے والے بھائی نے اس کے بعد ایک نتیجہ بھی نکالا ہے جو کچھ یوں ہے:

بلیک ہول کی پہلی تصویر

بلیک ہول کی پہلی تصویر 
پلب گھوش
بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائنس
بی بی سی اردو ، تاریخ اشاعت 10 اپريل 2019


ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کی پہلی مرتبہ تصویر لی ہے جو ایک دور دراز کہکشاں میں واقع ہے۔

یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کی لمبائی چار سو ارب کلومیٹر ہے۔

یہ زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے اور سائنسدان اسے ایک مونسٹر یا دیو قرار دے رہے ہیں۔

یہ بلیک ہول دنیا سے تقریباً پچاس کروڑ کھرب کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور اس کی تصویر دنیا کے مختلف حصوں میں نصب آٹھ دوربینوں کے ذریعے لی گئی ہے۔

اس کی تفصیل بدھ کو ایسٹرو فیزکل لیٹر میں شائع کی گئی ہیں۔

نیدرلینڈ یونیورسٹی رادباونڈ کے پروفیسر ہاینو فیلک جنھوں نے یہ تجربہ کرنے کی تجویز دی تھی بی بی سی کو بتایا کہ یہ کہکشاں جس کی تصویر حاصل کی گئی ہے اسے ایم ستاسی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی تقریر: سید محمد تقی کی کتاب " تاریخ و کائنات، میرا نظریہ“ کی تقریب رونمائی پر

نوٹ : مقرر کے خیالات سے بلاگر کا اتفاق لازم نہیں ۔





سید محمد تقی کا تعارف : 


(آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے )
------------------------------------------
سید محمد تقی پاکستان کے ممتاز فلسفی، دانشور، شاعر اور صحافی تھے۔ 12 مئی 1917ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ بشمول والد علامہ شفیق حسن، بڑے بھائی رئیس امروہوی اور چھوٹے بھائی جون ایلیا اردو ادب کی آبرو خیال کیے جاتے ہیں۔ آپ کا انتقال 26 جون 1999ء کو کراچی میں ہوا۔

ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ۔ ہارون یحی

ڈارون کا نظریۂ ارتقاء - ایک دھوکہ ایک فریب

ڈارون کا نظریہ ارتقاء - ایک دھوکہ ایک فریب
انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے. یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور میڈیا پر بھی اکثر اس کے حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہو چکے ہیں. نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کر دیا ہے. واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں. ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے. قرآن و احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا، پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے. آدم علیہ السلام کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی. یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں. اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے.

کائنات گذشتہ اندازے سے زیادہ قدیم نکلی

یورپی خلائی ادارے نے کائنات کی ’قدیم ترین روشنی‘ کا ایک نقشہ جاری کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر پہلے لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہے۔
کائنات گذشتہ اندازے سے زیادہ قدیم نکلی 

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ نقشہ کائنات کی ابتدا اور ارتقا کے بگ بینگ ماڈل کی نہایت عمدگی سے توثیق کرتا ہے۔

تاہم اس نقشے میں ایسے اجزا ہیں جو غیرمتوقع ہیں اور ان کی وجہ سے بعض تصورات کی نوک پلک درست کرنا پڑے گی۔

یہ نقشہ مصنوعی سیارے پر نصب پلانک نامی دوربین کے 15 ماہ سے جمع کردہ ڈیٹا کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ دوربین 78 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار کی گئی تھی۔

بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار

تعارف اور ترجمہ: قیصر شہزاؔد


باروخ یا بینے ڈکٹ اسپینوزا ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم کے یہودی محلے میں پیدا ہوئے۔ 
بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار 
ان کے آباؤ اجداد وہاں پرتگیزی مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ پہلے چھ میں سے چار درجوں تک ابتدائی تعلم مقامی  یہودی دینی مدرسے میں حاصل کی ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی کے ساتھ وہ  دیکارت کے فلسفے سے بھی متعارف ہوئے۔اسپینوزا کا تعلق ایک دیکارتی عالم اور مذکورہ ادارے کے بانی فرانسسکس فان ڈین اینڈن (۱۶۰۲ء۔۱۶۷۴ء) کے حلقہء فکر سے تھا جس میں کئی عقلیت پسند اور صحائفِ مقدسہ کے ناقد شامل تھے۔ 

یہودی راسخ العقیدگی سے مخالف نظریات رکھنے کی بنا ء پریہودیوں نے ۲۷ جولائی ۱۶۵۶ءکو اسپینوزا کا مذہبی مقاطعہ کردیا۔ بعض مصادر کے مطابق ان نظریات میں خدا کے شارع اور یہودیوں کے منتخب قوم ہونے سےانکار شامل تھا۔ مقاطعے کے کچھ عرصہ اور رسالہء اصلاحِ فکر (Treatise on the Emendation of Intellect) مکمل کرنے کے بعد ۱۶۶۱ ءمیں اسپینوزا ایک اور شہر رینسبرگ( Rijnsburg )منتقل ہوگئے وہاں انہوں نے اپنی کتاب اصول فلسفہء دیکارت (Descartes’ Principles of Philosophy) کا پہلا حصہ ایک شاگرد کو املاء کرایا۔۱۶۶۱ء سے ۱۶۶۲ ءکے درمیان ہی انہوں نے ولندیزی زبان میں خدا، انسان اور اس کی فلاح پرمختصر رسالہ (Short Treatise on God, Man and his Well-Being)تحریر کیا۔

ارشمیدس ( Archimedes ) کا قانون

ارشمیدس (Archimedes) ) ( پیدائش: 287 ق م ،  وفات : 212 ق م )  یونانی ریاضی دان جس نے میکانیات اور علم مائعات کے اصول وضع کی اور اجرام فلکی کی حرکات معلوم کرنے کا ایک آلہ تیار کیا۔ ایسا آتشی شیشہ بنایا جس کی حرارت دور سے دور کی چیزیں جل اُٹھیں۔ علم جر ثقیل کا ماہر تھا۔ اس کی ایجاد کردہ توپیں اس قدر مضبوط تھیں کہ سیراکیوز کامحاصرہ کرنے والے جنرل کلاڈیس کو شہر پر قبضہ کرنے میں پورے تین سال لگے۔ سیراکیوز پر قبضہ کرنے کے بعد کلاڈیس نے ارشمیدس کومعاف کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن ایک سپاہی نے اُسے غلطی سے قتل کر دیا۔

ارشمیدس کا قانون

ارشمیدس نے یہ قانون بھی دریافت کیا کہ کسی ٹھوس شے کو کسی مائع کے اندر پورے طور پر ڈبو دیا جائے تو اس شے کے وزن میں کمی آجاتی ہے اور یہ کمی اس شے کے مساوی الحجم مائع کے وزن کے برابر ہوتی ہے۔ حکیم ارشمیدس نے اس قانون کی مدد سے شاہ ہیرو کے سونے کے تاج کا معما حل کیا تھا۔ اسے یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ اگر شاہی تاج کوپانی میں ڈبویا جائے تو اس کے وزن میں کمی پیدا ہوگی اور اگر تاج کے ہم وزن سونے کی ڈلی لے کر اسے پانی میں ڈبویا جائے تو اس کا وزن کم ہو جائے گا۔ اگر دونوں صورتوں میں وزن کی یہ کمی برابر ہوئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ تاج خالص سونے کا ہے۔ تجربہ کرنے پر اس نے معلوم کر لیا کہ جوہری نے تاج میں کھوٹ ملائی تھی۔ ارشمیدس نے اس موضوع پر ایک مکمل کتاب لکھی۔ کتاب کا نام’’ تیرنے والے اجسام ‘‘ ہے۔ جو دنیا میں ماسکونیات پر پہلی تصنیف ہے۔