فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سجدۂ کائنات: اللہ کی عظمت ورضا کا پیغام

کائنات کی ہر شے میں ایک بے آواز سرگوشی ہے، ایک پُر اسرار گواہی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ ساری عظمت، یہ ساری زندگی، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ آسمان، زمین، دریا، ہوا، درخت، پرندے، اور حتیٰ کہ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بھی ایک ہی ہنر میں جُڑی ہوئی ہیں—سجدہ۔ سجدہ، جو نہ صرف جسمانی عمل ہے، بلکہ ایک گہرا روحانی پیغام بھی ہے، جو ہمیں اپنی حقیقت اور اس کائنات کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے ہمیں یہ حقیقت بتائی ہے کہ "آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے" (سورۃ الرعد 15)۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کائناتی حقیقت ہے جس میں چھپے ہیں بے شمار راز اور پیغامات۔ ان رازوں کی گہرائی میں جا کر ہم ایک نئی حقیقت کو دریافت کرتے ہیں: اللہ کی حکمت، اس کا نظام، اور اس کی بے پناہ عظمت۔

اللہ کی تسبیح میں ڈوبی کائنات

کائنات ایک ایسی نظم ہے جو ہر لمحہ اپنے خالق کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہر ستارہ، ہر درخت، ہر دریا، ہر بادل، اور حتی کہ خاموشی بھی اپنی تسبیح میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی گہری رات ہو، اور چاند کی چمک میں سچائی کی جھرمٹ چھپی ہو، ویسے ہی یہ پوری کائنات اپنی سچائی میں ڈوبی ہوئی ہے—اللہ کی تسبیح میں۔ ہم میں سے ہر ایک، جو اس کائنات کا جزو ہے، کسی نہ کسی طریقے سے اس عظمت کے سامنے جھکا ہوا ہے۔

میرے دل میں ایک عجیب سی بات چلی آتی ہے، جب میں صبح کے وقت سورج کی پہلی کرن کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتا ہوں، تو کیا یہ کرن بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے؟ کیا یہ درخت جو اپنے پتے ہوا کے ساتھ رقص کرتے ہیں، اور یہ دریا جو اپنی گہرائیوں سے چپ چاپ گزر رہے ہیں، اللہ کے کلام کی گواہی دے رہے ہیں؟ یہ سب تسبیح میں مصروف ہیں، اور شاید ہم ہی ہیں جو اس حقیقت سے غافل ہیں۔

کائنات کی ہر ذی روح، چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، ایک لحن میں ہم آواز ہے۔ بادلوں کی گرج میں، درختوں کی سرسراہٹ میں، اور ہواؤں کی سرگوشیوں میں اللہ کا ذکر چھپاہوا ہے۔ یہ تسبیح کوئی لفظی اذکار نہیں، بلکہ ایک مسلسل عبادت ہے جس میں پوری کائنات کی زبان خاموش ہے، اور صرف دل کی گہرائیوں سے ادا ہوتی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھیں، تو ہماری زندگی کی حقیقت تبدیل ہو جائے گی۔ شاید پھر ہم نہ صرف اپنی زندگی کی تسبیح کر سکیں، بلکہ ہر پل، ہر لمحہ، اور ہر عمل کو ایک عبادت بنا سکیں۔

نوام چومسکی کا فطری نظریہ لسانیات (Universal Grammar) کیا ہے ؟

 نوام چومسکی کا نظریہ گرامر (یا نظریہ لسانیات) جدید لسانیات میں ایک انقلاب کا باعث بن چکا ہے۔ اس نے زبان کی فطری نوعیت کو سمجھنے کی نئی راہیں ہموار کیں اور لسانیات کے مطالعے کو صرف سماجی اور ثقافتی اثرات تک محدود کرنے کی بجائے، زبان کے اندر موجود داخلی، قدرتی ساخت کی طرف بھی توجہ مرکوز کی۔ ان کا یہ نظریہ زبان کو انسانی دماغ کی ایک فطری صلاحیت کے طور پر دیکھتا ہے اور اس میں مختلف اہم اجزاء شامل ہیں:

1. فطری لسانی صلاحیت (Innateness Hypothesis)

چومسکی کے مطابق، انسانوں میں زبان سیکھنے کی ایک فطری صلاحیت موجود ہے، جو جینیاتی طور پر وراثت میں ملتی ہے۔ ان کے اس نظریے کو "فطری لسانی صلاحیت" (Innateness Hypothesis) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے دماغ میں زبان سیکھنے کے لیے ایک "پری پروگرامڈ" نظام موجود ہے، اور یہ نظام کسی بھی زبان کو سیکھنے کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔ اس طرح انسانوں میں زبان سیکھنے کی یہ صلاحیت حیاتیاتی طور پر موجود ہوتی ہے، اور یہ کوئی سیکھا ہوا عمل نہیں ہوتا۔

2. نظریہ گرامر (Universal Grammar)

چومسکی نے "نظریہ گرامر" (Universal Grammar) کا تصور پیش کیا، جس کے مطابق تمام انسانوں میں زبان کی ایک بنیادی ساخت یا اصول موجود ہوتی ہے جو تمام زبانوں میں مشترک ہے۔ اس کے مطابق، دنیا کی تمام زبانیں ایک ہی بنیادی گرامر کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں، اور مختلف زبانوں کے درمیان فرق ان اصولوں کی سطح پر مختلف ہوتا ہے۔ چومسکی نے اس نظریے کو اس بات کے طور پر پیش کیا کہ تمام زبانوں میں موجود گرامری ڈھانچہ انسان کے دماغ میں "پری پروگرامڈ" ہوتا ہے۔

3. پرانٹیکٹیکل لسانیات (Transformational-Generative Grammar)

چومسکی کا پرانٹیکٹیکل لسانیات (Transformational-Generative Grammar) ماڈل زبان کے ساختی تجزیے کے لیے ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس ماڈل کے مطابق، زبان کے جملے کی تفصیل اور تشکیل کے مختلف اصول ہوتے ہیں جنہیں "پرانٹیکٹیکل قواعد" (transformational rules) اور "جینیریٹو قواعد" (generative rules) کہا جاتا ہے۔

ہمارا سورج ایک ’تنہا خانہ بدوش‘ ہے لیکن کیا اس کا کوئی جڑواں بھائی بھی تھا؟

بی بی سی اردو 
تاریخ اشاعت : ۲۹ دسمبر ۲۰۲۴ء 

ہماری کہکشاں میں بہت سے ستارے جوڑوں کی شکل میں موجود ہیں مگر ہمارا سورج اس فہرست میں شامل نہیں۔ تاہم اب سائنسدان ایسے ثبوت تلاش کر رہے ہیں کہ شاید اس کا بھی کوئی ساتھی تھا۔

سوال یہ ہے کہ وہ کہاں گیا؟

ہمارا سورج ایک تنہا خانہ بدوش کی مانند ہے۔ یہ چکر لگاتے ہوئے تقریباً ہر 230 لاکھ سال بعد ہمیں کہکشاں کے سفر پر لے جاتا ہے۔

سورج کے قریب ترین موجود ستارہ پروگزیما سینٹوری ہے جو کہ اس سے چار اعشاریہ دو نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ اس کو سورج تک پہنچنے کے لیے اب تک کی تیز ترین خلائی گاڑی بھی دی جائے تو اسے 7000 سال سے زیادہ عرصہ درکار ہو گا۔ہم جہاں کہیں اپنی کہکشاں میں دیکھتے ہیں ہمارے نظام شمسی کے مرکز میں موجود سورج ایک عجیب چیز معلوم ہوتا ہے۔ بائنری ستارے یعنی وہ ستارے جو کہکشاں کے گرد چکر لگاتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ سختی کے ساتھ جوڑے کے طور پر جڑے ہوتے ہیں اور عام سے نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں ماہرین فلکیات نے ایک ایسے ہی جوڑے کا پتا لگایا جو غیر معمولی طور پر بلیک ہول کے بہت قریب چکر لگا رہا تھا اور یہ ہماری کہکشاں (ملکی وے) کے قلب میں ہے۔

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ چہارم ) ۔ جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ کیا دعا سے اللہ تعالیٰ کی ابتلا کی اسکیم میں کوئی مداخلت واقع ہوتی ہے؟
2۔ اگر دعا مانگنے سے قانون آزمائش میں مداخلت نہیں ہوتی تو خاص اوقات میں دعا مانگنے کی تلقین کیوں کی گئی ہے؟
3۔ کیا اللہ تعالیٰ نے دنیوی نعمتیں دینے کا کوئی اصول مقرر کیا ہوا ہے؟
4۔ کیا بددعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ براہ راست مداخلت کرتے ہیں؟
5۔ رحیم و کریم خدا اپنے بندوں کو اذیت ناک بیماریوں میں کیسے مبتلا کر سکتا ہے؟
6۔ کیا انسان اس کائنات میں ایک مجبور محض ہے؟
7۔ انسان اللہ تعالیٰ کے قانون آزمائش کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہے؟
8۔ کیا دنیا کی ناتمامی ہی انسان کے اندر یہاں رہنے کی آرزو پیدا کرتی ہے؟


خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات حصہ اول - جاوید احمد غامدی


 اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کو خود کیوں نہیں روکتے؟

2۔ اگر پیغمبروں کے معاملے میں اللہ نے براہ راست مداخلت کی ہے تو انسانوں کے معاملے میں کیوں نہیں کی؟

3۔ اگر پیغمبروں کے معاملے میں اللہ کی براہ راست مداخلت سے آزمایش ختم نہیں ہوئی تو انسانوں کے معاملے میں کیسے ختم ہو جاتی؟

4۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں ظالموں سے جو بدلہ و انتقام لیں گے، وہ دنیا میں کیوں نہیں لیتے؟

5۔ ظالموں اور سرکشوں کو دنیا میں نہ روکنا کیا ان کو خود جہنم کی طرف دھکیلنا نہیں ہے؟

6۔ ظلم کو خود روکنے کے بجائے اللہ نے انسانوں کو جہاد کا حکم کیوں دیا؟

7۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو خود نہیں روکتے، لیکن اپنے بندوں کو اس کا حکم کیوں دیتے ہیں؟

8۔ کیا خدا کے بارے میں الحاد کے اعتراضات خود ان کے نقطۂ نظر پر بھی وارد ہوتے ہیں؟

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 27 دسمبر 2022ء 

 یہ دنیا کے لیے 10 ارب ڈالر کا تحفہ تھا، ایسی مشین جو اس کائنات میں ہمیں ہماری حیثیت سے روشناس کروانے والی تھی۔ 

آج سے ایک برس قبل جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ (یعنی دسمبر 2021 ء) کرسمس کے موقع پر لانچ کی گئی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی، ڈیزائننگ اور تیاری میں تین دہائیاں لگی تھیں۔ 

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟ 

کئی لوگوں کو اس حوالے سے خدشات تھے کہ مشہورِ زمانہ ہبل سپیس ٹیلیسکوپ کی جانشین کہلائی جانے والی یہ دوربین کیا واقعی توقعات پر پوری اتر سکے گی۔ 

ہمیں اس کی لانچ کے بعد کچھ مہینے انتظار کرنا پڑا جس دوران اس کا شاندار ساڑھے چھ میٹر قطر والا شیشہ کھلا اور اس نے خود کو فوکس کیا۔ اس دوران اس کے دیگر سسٹمز بھی ٹیسٹنگ اور کیلیبریشن سے گزرتے رہے۔

مگر پھر یہ بالکل وہی چیز ثابت ہوئی جو کہ کہا جا رہا تھا۔ امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے جولائی میں اس کی پہلی رنگین تصوایر جاری کیں۔ 

اس صفحے پر آگے موجود تصاویر وہ ہیں جو شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہوں۔ 

جیمز ویب ٹیلیسکوپ کے بارے میں آپ سب سے پہلے جو چیز نوٹ کریں گے وہ یہ کہ یہ ایک انفراریڈ ٹیلیسکوپ ہے۔ یہ آسمان کو روشنی کی اُن ویو لینتھس (طول الموج) میں بھی دیکھ سکتی ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ 

ماہرینِ فلکیات اس کے مختلف کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں، جیسے کہ گیس اور دھول کے ان بلند و بالا ٹاورز کا۔ 

آئزک نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا



اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔‘


لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17 ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘ (یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)


یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘ اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔


لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘ سمجھا ہو گا۔


’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘


پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔ اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔


ان کی رہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔


جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔


یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘
نیوٹن کا خدا کا تصور


نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔


بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642 میں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643 کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727 میں بتائی جاتی ہے۔


ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انھوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘ کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

فلسفہِ رواقیت: زندگی میں غیر یقینی حالات سے نمٹنے کا ایک قدیم نسخہ

اماندہ روگری
بی بی سی فیوچر
23 مارچ 2022 ء 



بہت سارے لوگوں کے لیے دنیا مسلسل اتھل پتھل کا شکار ہے جس سے نمٹنا بعض افراد کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے، لیکن کیا رواقیت (Stoicism) کا فلسفہ ایسے دشوار ادوار کو برداشت کرنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟


ان کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل زندگی تھی۔ وہ غلامی میں پیدا ہوئے، ایک موقع پر ان کے مالک نے ان کی ٹانگ توڑ دی تھی جس کی وجہ سے وہ معذور ہوگئے تھے۔ آخر کار انھیں آزادی مل گئی، انھوں نے اگلے 25 سال اپنے شوق کو پورا کرنے میں بسر کیے۔ جس کا مقصد صرف یہ نکلا کہ ان کی تمام کوششوں کو ایک آمر نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ وہ بیرون ملک بھاگ گئے، اور باقی زندگی جلاوطنی اور غربت میں بسر کی۔


یہ سوانحی خاکہ اُس یونانی فلسفی ایپِکٹیٹس (Epictetus) کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے جو سنہ 55 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ وہ 'فلسفہِ رواقیت' (Stoicism) کا نظریہ پیش کرنے والے فلسفی تھے۔ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں مورخین کے اختلافات ہیں۔

عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

کیا کوانٹم فزکس ’روح‘ کے راز کو سمجھ جائے گی؟

کارلوس سیرانو ، بی بی نیوز منڈو

10 مئ 2019

برقی مقادیر یا کوانٹم کی دنیا اس دنیا سے مختلف ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ ایک آسیب زدہ جگہ میں ہیں۔ یہ ایک تاریک، سرد اورغیرآباد حویلی ہے۔

جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے آپ کو یہ گھر خالی لگتا ہے لیکن فوراً آپ غور کرنے لگتے ہیں کہ کچھ اشیا اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور پھر اچانک غائب ہو جاتی ہیں۔

اس گھر پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، لیکن آپ ذرّات گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور باورچی خانے سے ہلکی سے آواز سنتے ہیں جیسے لکڑی کے فرش پر کسی کے چلنے کی خفیف سی چرچر ہو۔

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ : "حشرات الارض کے بغیر ہم فضلے اور مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے"

حشرات الارض کے بغیر
ہم مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے 
بھنبھناتے ہوئے کیڑے مکوڑے جب کاٹتے ہیں یا کھانے میں گر جاتے ہیں تو یقیناً آپ کو غصہ آتا ہو گا۔ لیکن انھیں مارنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔


یہ کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایکو سسٹم کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔
لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی سینیئر کیوریٹر ڈاکٹر ایریکا میک السٹر نے بی بی سی کے پروگرام کراؤڈ سائنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم دنیا سے تمام کیڑے مکوڑے نکال دیں تو ہم بھی مر جائیں گے۔‘

’ہم ہلاک ہو جائیں گے‘

کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔
ڈاکٹر میک السٹر نے کہا کہ ’ذرا سوچیے اگر ہمارے پاس فضلے کے خاتمے کے لیے کیڑے مکوڑے نہ ہوں، تو ماحول کتنا ناخوشگوار ہو گا۔ حشرات الارض کے بغیر ہم فضلے اور مرے ہوئے جانوروں کے تالاب میں تیریں گے۔‘

خدا کا وجود ، جاوید احمد غامدی

خدا کا وجود۔ جاوید احمد غامدی 
(نوٹ: یہ تقریر انگریزی زبان میں 9مئی 2009کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں کی گئی۔)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

گریٹ ایپس / hominidae- بلال الرشید

گریٹ ایپس /hominid
آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے جینز میں خرابی ہے یا ذہانت تو فلاں کے جینز میں پائی جاتی ہے ۔جینز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خصوصیت اس شخص کو وراثتی طور پر اپنے آ بائو اجداد سے ملی ہے ۔ اگر ایک شخص جنیاتی طور پر (genetically)ذہین ہے ‘تو وہ ایک گھنٹے وہ سب کچھ سمجھ سکتاہے ‘ جو کہ جنیاتی طور پر غیر ذہین شخص کو سمجھنے میں دس گھنٹے لگیں ۔ حسد‘ غصے اور سخاوت سمیت ساری عادات انسان کو اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کی آواز‘ بال‘ قد کاٹھ اور شکل و صورت اپنے والدین سے مشابہہ ہوتی ہے ‘ اسی طرح بیماریاں بھی ورثے میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس علاقے کے پانی میں خرابی ہے یا میں سر میں تیل نہیں ڈالتا‘ اس وجہ سے میرے بال گر رہے ہیں ؛حالانکہ گنجا پن اس کے جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ خواہ وہ اپنے سر کو منرل واٹر سے دھونا شروع کر دے یا وہ ہمیشہ اسے تیل میں بھگوئے رکھے‘اس کے بال گر کے رہیں گے۔ ہاں؛ البتہ کسی کسی کو بال چر یادوسری کوئی بیماری لاحق ہو تو وہ علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ 

انسان کا قد کاٹھ‘ شکل و صورت ‘ دانتوں کی ساخت ‘ ذہین یاغیر ذہین ہونا ‘ یہ سب کچھ ہمارے جینز میں پہلے سے درج کر دیا گیا ہے ۔ ایک آدمی بزدل ہوگا یا بہادر ‘ یہ بھی جینز میں لکھا ہوتا ہے ۔ اس میں initiativeلینے کی صلاحیت ہوگی یا نہیں ‘ وہ مستقل مزاج ہوگا یا متلون ‘ وہ شرمیلے مزاج کا حامل ہوگا یا بے باک ‘سب کچھ لکھ دیا گیا ہے ۔ ایک شخص ایسا ہوتاہے کہ صحرا میں ریت پر آرام سے سو جاتا ہے ۔ دوسرے کے ذاتی کمرے میں بھی ذرا سی بے ترتیبی ہوتو وہ سکون سے سو نہیں سکے گا ۔ ایک منظر ایک شخص کے لیے بے معنی ہوگا‘ دوسرے کے لیے اس میں ایک پوری داستان رقم ہوگی ۔ ایک آواز ایک شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہے ۔ دوسرے کے لیے اس میں کئی سُر چھپے ہوتے ہیں ۔یہ سب سمجھنے کی صلاحیت جینز میں درج ہوتی ہے ۔

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)