تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

ناربرٹو پریڈیس

بی بی سی منڈو سروس

افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ 
22 اگست 2021

اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔

19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

انڈیا کا سب سے امیر مندر جس کے پاس 10 ٹن سونا اور اربوں روپے ہیں

بی بی سی اردو 7 نومبر 2022، میں یہ خبر شائع ہوئی کہ  انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی (پریس ٹرسٹ آف انڈیا) کے مطابق گذشتہ روز انڈیا کے امیر ترین مندر کے ٹرسٹ نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، جس میں انھوں نے مندر کی دولت کی تفیصلات پیش کی ہیں۔

یہ مندر انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں ہے اور اسے عرف عام میں ’تروپتی مندر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مندر کے تروملا تروپتی دیوستھانم (ٹی ٹی ڈی) ٹرسٹ نے بتایا ہے کہ اس کے پاس 10.3 ٹن سونا اور بینکوں میں 5,300 کروڑ روپے ہیں۔

اس کے علاوہ اس کے پاس 15,938 کروڑ روپے کی نقد رقم بھی ہے۔

تروملا تروپتی دیوستھانم تروپتی مندر کا انتظام و انصرام چلاتی ہے اور اس نے ایک وائٹ پیپر جاری کرکے اپنے اثاثوں کا اعلان کیا ہے۔

ٹی ٹی ڈی کے مطابق سنہ 2019 میں مختلف بینکوں میں اس کے 13,025 کروڑ روپے کے فکسڈ ڈیپازٹ تھے جو اب بڑھ کر 15,938 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔

خوراک اور صحت

پکوانوں کی تاریخ 

پکوانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے والے مختلف ممالک کے سائنسدان، ذائقوں کے ماہرین اور پکوانوں کے قدیم ترین نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خوراک اور صحت
لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسدانوں کے ہاتھ لگنے والے ہزاروں برس پرانے نسخے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ’دنبے کا سٹو‘ پکانے کے لیے لکھا طریقہ محض اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی فہرست جیسا معلوم ہوتا ہے۔ ’گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پانی تیار کیجیے۔ باریک دانوں والا نمک ڈالیے۔ سوکھا جُو ڈالیے۔ پیاز اور تھوڑا دودھ۔، پیاز اور لہسن کچل کر ڈالیں۔‘

تاہم اس طریقہ کار کو لکھنے والے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ کون سی چیز کب ڈالنی ہے؟ اسے لکھنے والا تو چار ہزار برس قبل انتقال کر چکا ہے۔چند بین الاقوامی محققین، پکوانوں کی تاریخ کے ماہرین اور کھانا پکانے کے نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے چار قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ اسی طرح تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے گوژکو بارژامووچ کہتے ہیں ’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پرانے گانے کو دوبارہ بنانا۔ کوئی ایک نوٹ پوری دھن بدل سکتا ہے۔‘

یہ ترکیبیں تختیوں پر لکھی ہیں جو ییل یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ میں بابل کی تہذیب کی کلیکشن سے حاصل کی گئی ہیں، تاکہ ذائقے کے ذریعے اس تہذیب کو بہتر سمجھا جا سکے۔

نظر بد‘ کی پُراسرار طاقت پر لوگوں کو اندھا یقین کیوں ہے؟

کوین ہرجیتائی
بی بی سی فیچرز

قدیم مصر میں تحفظ، شاہی طاقت اور اچھی صحت کی علامت عین حورس (آئی آف حورس) سے لے کر امریکی ماڈل جیجی حدید تک ہزاروں برسوں سے آنکھ نے انسانی تخیل پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔


جب دنیا کی پُراسرار شیطانی قوتوں سے بچنے کی بات آتی ہے تو شاید 'نظرِ بد' سے زیادہ جانی پہچانی اور تسلیم کی جانی والی چیز اور کوئی نہیں۔

اسے ظاہر کرنے والی اور اس سے بچنے کے لیے مؤثر سمجھے جانے والے ٹوٹکوں کا ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ نیلے رنگ کی آنکھ کی تصویر نہ صرف استنبول کے بازاروں میں، بلکہ ہوائی جہازوں کے اطراف سے لے کر مزاحیہ کتابوں کے صفحات تک میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

گذشتہ دہائی میں ایسی تصویریں اکثر فیشن کی دنیا میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ امریکی ماڈل کِم کارڈیشین نے متعدد مواقع پر کھیلوں کے کڑے اور ہیڈ پیس کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں جس میں یہ علامت (شیطانی آنکھ) موجود ہے۔ جبکہ جیجی حدید نے آئی لو نامی جوتوں کا برانڈ متعارف کروا کر سنہ 2017 میں اس رجحان کو مزید فروغ دیا۔

چارلس سوم برطانیہ کے نئے بادشاہ بن گئے

جیسے ہی ملکہ برطانیہ  الزبتھ  نے اپنی آخری سانسیں لیں، برطانیہ کی حکمرانی فوری طور پر بغیر کسی تقریب کے ان کے جانشین اور سابق پرنس آف ویلز چارلس کو منتقل ہو گئی۔

چارلس سوم برطانیہ کے نئے بادشاہ بن گئے 

برطانیہ پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم 96 برس کی عمر میں بیلمورل میں،( بروز جمعرات 8 سبتمر 2022م کو) وفات پا گئی ہیں۔ انھوں نے 70 سال تک برطانیہ پر حکمرانی کی۔

ملکہ الزبتھ 21 اپریل 1926 کو لندن کے علاقے مے فیئر میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا پورا نام الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈزر رکھا گیا تھا۔  

تاہم ستمبر 1936 میں جب ان کے تایا ایڈورڈ ہشتم نے تخت سے کنارہ کشی اختیار کر کے دو بار کی طلاق یافتہ امریکی شہری والس سمپسن سے شادی کی تو الزبتھ کے والد جارج ششم بادشاہ بن گئے اور 10 سال کی عمر میں الزبتھ تخت کی وارث بن گئیں تھیں۔

الزبتھ 1952 میں ملکہ بنی تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے بڑے پیمانے پر سماجی تبدیلی دیکھی۔

الزبتھ کی تاج پوشی دو جون 1953 کو 27 سال کی عمر میں ویسٹ منسٹر ایبے میں ہوئی تھی۔ اس تقریب کو اس وقت ریکارڈ دو کروڑ ٹی وی شائقین نے دیکھا تھا۔ 

ان کے دورِ حکمرانی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کفایت شعاری کی مہم، برطانوی راج کی کامن ویلتھ میں تبدیلی، سرد جنگ کا خاتمہ اور برطانیہ کا یورپی یونین میں جانا اور نکلنا سب شامل ہیں۔

تقسیم کی لکیر (1885-1947) -

اشلین کور ،  بی بی سی اردو 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

یہ کہانی ہے 70 سال پہلے کی جب انگریزوں کے جانے کے ساتھ ہی ایک بھارت دو حصوں میں بٹ گیا اور دو آزاد ممالک کا جنم ہوا انڈیا اور پاکستان۔ تقسیمِ ہند کی تاریخ سے جڑی کچھ اہم تاریخوں پر ایک نظر۔

دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے 20 برسوں میں کانگریس کو آزادی یا سیلف گوورننس کی تشہیر میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

 عقیل عباس جعفری

محقق و مؤرخ، کراچی
بی بی سی اردو 24 فروری 2022 ء


ایوب خان کو اسلام آباد شہر کی سائٹ پر نقشوں کی مدد سے بریفننگ دی جا رہی ہے

ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی۔


یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى


انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى
انسان نے زراعت کب شروع کی اور کیا اُگایا، مختلف اندازوں کے مطابق دنیا میں ایسے مقامات کی تعداد دس سے بیس کے درمیان ہے جہاں انسانوں نے مقامی طور پر کھیتی باڑی شروع کی اور اپنی ضرورت کے لیے فصلیں پیدا کیں اور سب کا طریقہ فرق تھا۔


لیکن جہاں تک گندم کی بات ہے، زبنسکی نے اپنی کتاب میں گندم کی کہانی کے آغاز کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ہزاروں برس پیچھے ترکی اور شام میں پھیلے پہاڑی سلسلے زاگروس میں دریائے فرات کے کنارے جانا پڑے گا۔

ابوھریرہ  

ہماری منزل حلب سے تین دن کے فاصلے پر واقع وہ مقام ہے جو تاریخ میں آگے چل کر ابوھریرہ کہلایا۔ یہ دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کے مطابق سب سے پہلے انسان نے اپنی ضرورت کے لیے اناج اُگایا تھا۔


اس مقام سے ’آپ شمال مغرب میں 30 کلومیٹر تک دریائے فرات کے مناظر دیکھ سکتے ہیں اور مشرق میں دس کلومیٹر تک۔ دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور بہاؤ تیز، خاص طور پر موسم بہار میں جب زاگروس کے پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور سرخ اور خاکی مٹی بہہ کر آتی ہے۔


’دریا کے کنارے شوخ سبز سرکنڈوں اور نم گیاہ یا جھمکے دار پھولوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور پانی میں بگلے اور دیگر پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بید کے درختوں کے جھنڈ پانی کے بہاؤ کو سست کر رہے ہیں۔ دریا سے ہٹیں تو چنار اور آھ درختوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے جو موسم سرما میں پناہ فراہم کرتا ہے۔ دریا کی سطح سے بلندی پر تا حد نگاہ درخت، جھاڑیاں اور گھاس کا میدان ہے۔‘


’یہ علاقہ دریا سے اونچا ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ تھا اور ساتھ ہی ایک زرخیز دریائی میدان کے قریب بھی تھا۔‘


ماہرین کا اندازہ ہے کہ علاقے کی زرخیزی کی وجہ سے ابو ھریرہ کے ابتدائی باسیوں کو کچھ کاشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور ان کا گزارا شکار اور پھل چننے سے ہو جاتا تھا کیونکہ وہاں ممکنہ طور پر ’پودوں کی 120 اقسام پیدا ہوتی تھیں۔‘

بلیک فرائیڈے کيا ہے؟

نومبر 2008ء کو امريکہ ميں بليک فرائيڈے
 پر خريدارى کا منظر

کالا جمعہ یا بلیک فرائیڈے (انگریزی: Black Friday) سے مراد ریاست ہائے متحدہ میں یوم شکرانہ (نومبر کی چوتھی جمعرات) کے بعد آنے والا جمعہ ہے۔ 2000ء دہائی کے اوائل سے، ریاست ہائے متحدہ میں یہ دن کرسمس کی خریداری کرنے کے آغاز کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اس موقع پر، خریداری کے بیشتر مراکز صبح سویرے سے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور خریداری کی اشیا پر خصوصی رعایت کی پیش کش بھی کرتے ہیں۔ بلیک فرائیڈے کو اگرچہ سرکاری تعطیل نہیں ہوتی، تاہم کیلیفورنیا اور بعض دیگر ریاستوں میں سرکاری ملازمین کسی دوسری وفاقی تعطیل (مثلاً یوم کولمبس) کے بدلے ’’یومِ شکرانہ سے اگلا دن‘‘ چھٹی کے طور پر مناتے ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں یومِ شکرانہ اور اس سے اگلے دن جمعہ کو بھی چھٹی ہوتی ہے، یوں وہ چار چھٹیوں پر مشتمل طویل ویکینڈ مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خریداروں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے مصروف ترین دن بنتا جا رہا ہے۔

2014ء میں، بلیک فرائیڈے کے چار تعطیلات پر مشتمل ویکینڈ میں خریداری پر 50.9 بلین ڈالر خرچ کیے گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فی صد کم تھے۔ جب کہ اس عرصے کے دوران، ریاست ہائے متحدہ کے 133 ملین صارفین نے خریداری کی، جو پچھلے سال کے 144 ملین کے مقابلے میں 5.2 فی صد کم تھے۰

سکندر اعظم: صرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوان

حسین عسکری ، بی بی سی اردو، 

سکندر اعظم کی فوجی مہمات کا نقشہ 

13 جون 2021،

اُس میں بچپن ہی سے کچھ ایسی صلاحیتیں تھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ تاریخ میں ایک غیر معمولی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

صرف 12 برس کی عمر میں اس نے ایک جنگلی اور بدمست گھوڑے کو قابو میں کر کے سدھا لیا۔ بیوسیفیلس نامی یہ ایک دیو قامت اور وحشی گھوڑا تھا جو بعد میں تقریباً ساری زندگی اس بچے کا ساتھی رہا۔

یہ بچہ بڑا ہو کر الیگزینڈر دی گریٹ یا سکندرِ اعظم کہلایا اور عہدِ قدیم کی مشہور ترین شخصیات میں شامل ہوا۔ مقدونیہ (میسیڈونیا) سے تعلق رکھنے والے سکندرِ اعظم 356 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ میسیڈونیا شمالی یونان سے جزیرہ نما بالکان تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔

ان کے والد کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا اور جس کے بعد نئے بادشاہ کی کشمکش شروع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے تمام حریفوں کا صفایا کر دیا اور 20 برس کی عمر میں بادشاہ بنے۔

سنہرا اسلامی دور: عربوں نے کس طرح یورپ میں کاغذ متعارف کروایا ؟

(28 اگست 2020 بی بی سی اردو )

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔

جنگ عظیم اول : سلطنت عثمانیہ کی شکست، جدید ترکی اور نیا ترکی 2023 کا خواب

سلطنت عثمانیہ کی شکست اور معاہدہ سیورے: 

معاہدہ سیورے (انگریزی:Treaty of Sevres) جنگ عظیم اول کے بعد 10 اگست 1920ء کو اتحادی قوتوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکی کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکی کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اور قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنادیا۔

عثمانی حکومت کی جانب سے
 معاہدے پر دستخط کرنے والے
 نمائندے، بائیں سے دائیں جانب
رضا توفیق، فرید پاشا، ہادی پاشا
اور رشید خالص
معاہدے سیورے  کو سلطنت عثمانیہ کی ایک عظیم شکست سمجھا جاتا ہے جو اپریل 1920ء میں اتحادیوں کے درمیان سان ریمو کانفرنس کے بعد طے پانے والے معاہدوں کی ایک کڑی تھا۔ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ تحلیل کر دی گئی۔ 

معاہدہ سیورے کے اہم نکات:


معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی سرحدات کا تعین کیا گیا، جس میں سلطنت عثمانیہ کا رقبہ موجودہ ترکی کے رقبے سے کم تھا۔ متعدد جزائر جیسے جزیرہ امبروز وغیرہ یونان کی حوالے کر دیے گئے، ترکی عسکری طور پہ اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے زیر قبضہ آ گیا۔ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ ولایت، عراق اور مصر برطانیہ کے قبضے میں، شام، تیونس اور الجزائر فرانس کے قبضے میں اور لیبیا اٹلی کے قبضے میں چلے گئے۔ سعودی عرب شریف مکہ کے زیر تسلط سلطنت حجاز قرار پائی۔

پاکستان کا اصل یوم آزادی کیا ہے ؟ ایک تحقیقی مطالعہ

عقیل عباس جعفری ، محقق و  مورخ 
تاریخ اشاعت : 22 جولائی 2020م ، بی بی سی اردو

پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے ہی گوشوں سے ناواقف رہے۔ ہم اپنی یوم آزادی کی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک انڈیا اپنی یہی تقریبات 15 اگست کو مناتا ہے اور ہر سال یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو ملک جو ایک ساتھ آزاد ہوئے ہوں، ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے آگیا؟ اس تحریر میں ہم نے اسی معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی 27ویں شب کو آزاد ہوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن 14 اگست 1947 کی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے 'ایک دن بڑے' ہیں۔

لیکن جب ہم 14 اگست 1947 کی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ بھی 27 نہیں 26 رمضان تھی۔

پھر ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے 11 ماہ بعد 9 جولائی 1948 کو جاری ہوئے تھے۔ ان ڈاک ٹکٹوں پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست 1947 طبع ہوا ہے۔

کانوے ناٹ: ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے سے کم وقت میں حل کرنے والی طالبہ

ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے میں حل کرنی والی طالبہ
(بی بی سی اردو 24 جون 2020م )

امریکہ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے ریاضی کا 50 سال پرانا ایک سوال اپنے فالتو وقت میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حل کر دیا ہے۔

لیزا پکاریلو نامی طالبہ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں اپنے مقالے پر کام کر رہی تھیں جب انھوں نے کانوے ناٹ یا کانوے گانٹھ کا مسئلہ حل کیا۔ جب وہ یونیورسٹی میں ریاضی کے ماہر پروفیسر کیمرون گورڈن سے بات کر رہی تھیں تو انھوں نے بلا ارادہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے حساب کا ذکر ان سے کیا۔

لیزا پکاریلو نے سائنسی خبروں کی ویب سائٹ قوانٹا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے زور سے کہا کہ تمھیں تو بہت خوش ہونا چاہئے۔ وہ تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے۔‘

کانوے ناٹ کا مسئلہ سب سے پہلے برطانوی ریاضی دان جان ہورٹن کانوے نے 1970 میں پیش کیا تھا، مگر لیزا پکاریلو کو پہلی بار اس معمے کا علم سنہ 2018 میں ایک سمینار کے دوران ہوا تھا۔

پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ کتنا پرانا اور مشہور مسئلہ ہے۔‘

میر انیس اور ان کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

 میر انیس 
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔

تعلیم

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔

شاعری و مرثیہ گوئی

شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

غزل سے مرثیے تک

میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ

والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے

نسیم حجازی کى شخصیت اور ان کی تصانیف

نسیم حجازی کی شخصت 
نسیم حجازی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

حالات زندگی


ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔

عملی زندگی کا آغاز

نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ،روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔