تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

حضرت آدم علیہ السلام اور ابتدائی انسان: الہامی بیانات اور سائنسی تحقیقات

مقدمہ

حضرت آدم علیہ السلام کا تذکرہ تمام الہامی مذاہب میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید، تورات، زبور، اور انجیل میں ان کے تخلیق، خلافتِ ارضی، آزمائش، اور جنت سے زمین پر نزول کے بارے میں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ دوسری طرف، جدید سائنسی تحقیقات، خاص طور پر بشریات (Anthropology)، علم الحفریات (Paleontology)، اور جینیات (Genetics) نے انسانی نسل کے آغاز کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔

یہ مطالعہ بنیادی طور پر دو پہلوؤں پر مشتمل ہوگا:

  1. الہامی کتب میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر
  2. جدید سائنسی تحقیقات اور اکتشافات

حصہ اول: الہامی کتب میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر

1. قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام

قرآن مجید حضرت آدم علیہ السلام کو نوع انسانی کا پہلا فرد اور اللہ کا برگزیدہ نبی قرار دیتا ہے۔ مختلف آیات میں ان کے تخلیق، علم، آزمائش، شیطان کے دھوکے، اور زمین پر ان کے نزول کے واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

(الف) تخلیقِ آدم

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی:

"إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ"  (سورہ ص: 71)

"فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ"  (سورہ ص: 72)

(ب) خلافت اور علم

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کے سامنے ان کے علم کی برتری ثابت کی:

"وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا"  (البقرہ: 31)

(ج) آزمائش اور جنت سے زمین پر نزول

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت میں رکھا گیا لیکن شیطان نے انہیں بہکا کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں انہیں زمین پر بھیج دیا گیا:

"قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا" (البقرہ: 38)

2. تورات، زبور، اور انجیل میں حضرت آدم علیہ السلام

تورات اور انجیل میں بھی آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، لیکن ان میں بعض بیانات قرآن سے مختلف ہیں۔

زمین پر زندگی کا آغاز اور ارتقاء

کرہ ارض پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے ہوا، لیکن اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ یہ آغاز کیسے ہوا۔ مذہبی مفکرین اور سائنس دانوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، جن میں سے چند نمایاں خیالات درج ذیل ہیں:

1. خودبخود پیدائش کا نظریہ

قدیم زمانے میں یہ عام خیال تھا کہ زندگی بے جان اشیاء سے خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً، یہ تصور کیا جاتا تھا کہ خراب ہوتا ہوا شوربہ جراثیم کو جنم دیتا ہے یا گوشت گل سڑ کر کیڑوں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ لیکن 17ویں صدی میں اطالوی سائنس دان فرانسسکو ریڈی نے تجربات کے ذریعے اس نظریے کی تردید کی۔ اس نے ثابت کیا کہ کیڑے گوشت کے اندر سے خود بخود پیدا نہیں ہوتے، بلکہ وہ مکھیاں جو گوشت پر بیٹھتی ہیں، اپنے انڈے دیتی ہیں اور انہی سے کیڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مزید سائنسی تجربات سے یہ نظریہ مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔

2. زندگی کے ماورائے ارضی آغاز کا نظریہ

کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ زمین پر زندگی کسی اور سیارے سے آئی۔ اس نظریے کے حامی ایرک وان ڈینکن جیسے محققین کا خیال ہے کہ لاکھوں سال قبل کوئی مخلوق (دیوتا) کسی دوسرے سیارے سے زمین پر آئی، اس نے انسانی زندگی کی بنیاد رکھی اور پھر واپس چلی گئی۔ تاہم، یہ نظریہ اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ اس مخلوق کی اپنی ابتدا کیسے ہوئی۔ اس لیے سائنسی برادری میں اس نظریے کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔

3. خصوصی تخلیق کا نظریہ

یہ نظریہ کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام جاندار ایک مافوق الفطرت ہستی یا ہستیوں نے پیدا کیے۔ ہر جاندار اپنی مخصوص شکل میں پیدا ہوا اور یہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کئی بڑے سائنس دان بھی اس نظریے کے حامی رہے ہیں، لیکن جدید تحقیق نے اس پر متعدد سوالات کھڑے کیے ہیں۔

پتھر کا دور: ایک تحقیقی مطالعہ

تعارف:

مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ انسان کی زمین پر موجودگی کا بیشتر حصہ پتھر کے دور پر مشتمل ہے۔ تقریباً 99 فیصد انسانی تاریخ کا تعلق اسی دور سے ہے، جبکہ باقی تمام ترقی یافتہ ادوار محض ایک فیصد پر محیط ہیں۔ پتھر کے دور کا آغاز تقریباً دس لاکھ سال قبل ہوا اور اس کا اختتام تقریباً 8 ہزار قبل مسیح پر ہوتا ہے۔ اس دور کے متعلق معلومات زیادہ تر ان اوزاروں، جانوروں اور انسانی ڈھانچوں سے حاصل کی گئی ہیں جو کھدائی کے دوران دریافت ہوئے ہیں۔

پتھر کے دور کی درجہ بندی:

ماہرین آثار قدیمہ نے پتھر کے دور کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  1. قدیم سنگی دور (Paleolithic Age):

    • یہ دور تقریباً 25 لاکھ سال قبل سے 10 ہزار قبل مسیح تک محیط ہے۔
    • انسان شکار پر انحصار کرتا تھا اور غاروں یا کھلی جگہوں پر رہتا تھا۔
    • آگ کی دریافت اور اس کے استعمال کا آغاز اسی دور میں ہوا۔
    • ابتدائی اوزار پتھر کے بنے ہوئے تھے، جو شکار اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
  2. اوسط سنگی دور (Mesolithic Age):

    • یہ دور تقریباً 10 ہزار قبل مسیح سے 8 ہزار قبل مسیح تک جاری رہا۔
    • انسان نے زراعت کی ابتدائی شکلوں کی دریافت کی اور کچھ جانوروں کو پالتو بنانا شروع کیا۔
    • چھوٹے اور زیادہ ترقی یافتہ اوزار بنائے گئے، جنہیں مائیکرولیتھس (Microliths) کہا جاتا ہے۔
    • اس دور میں شکار کے ساتھ ساتھ ماہی گیری اور ابتدائی کھیتی باڑی کا آغاز بھی ہوا۔
  3. جدید سنگی دور (Neolithic Age):

    • یہ تقریباً 8 ہزار قبل مسیح سے 3 ہزار قبل مسیح تک جاری رہا۔
    • انسان نے زراعت کو مکمل طور پر اپنایا اور مستقل بستیوں کی بنیاد رکھی۔
    • مٹی کے برتن، کپڑے بنانے اور گھریلو جانوروں کو پالنے کا رواج عام ہوا۔
    • انسانی تہذیب کی بنیاد پڑی اور ابتدائی سماجی نظام تشکیل پانے لگے۔

پتھر کے دور کے شواہد:

پتھر کے دور کے شواہد زیادہ تر انسانی ڈھانچوں، غاروں میں بنی تصویروں، اور پتھروں سے بنے اوزاروں کی شکل میں موجود ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے 1946 میں ’بنگلہ دیش‘ کے قیام کی پیشگوئی کی

 عارف محمد خان
عہدہ,بی بی سی ہندی کے لیے
22 فروری 2022

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔

ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں رہنے لگے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔

سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ یہ رسالہ اپنے انقلابی مضامین کی وجہ سے کافی زیر بحث رہا اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر اس کی سکیورٹی منی یعنی حفاظتی رقم ضبط کر لی اور بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کر دیا۔

آزاد کو سنہ 1916 تک بنگال چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور انھیں آج کی ریاست جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔

دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی


سیاسی منظرنامے میں ابھرنے کے بعد آزاد نے قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔ سنہ 1921 میں آگرہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران انھوں نے الہلال کے بنیادی مقاصد کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا پہلا مقصد ہندو مسلم اتحاد ہے۔ میں مسلمانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کریں تا کہ ہم ایک کامیاب قوم کی تعمیر کر سکیں۔‘

مولانا آزاد کے لیے قوم کا اتحاد آزادی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ سنہ 1923 میں کانگریس کے خصوصی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آج بھی اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمیں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔‘

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی

 

سگاتو مکھرجی
عہدہ,بی بی سی نیوز
26 فروری 2023
یہ سردیوں کی ایک صبح ہے۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہماری گاڑی سڑک پر بہار کی مشہور سواری تانگوں کے پیچھے سے گزرتی ہے۔ تیز بھاگتے گھوڑے اور خاص پگڑی میں کوچوان سفید دھند میں ’سائے‘ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیا کے ’بودھ گیا‘ قصبے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی، میں رات گزارنے کے بعد میں اس صبح نالندہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کی سرخ رنگ کی اینٹوں کے کھنڈرات ابھی تک قدیم دنیا کے سب سے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہیں۔

اولمپکس کھیل ، اس کے میسکوٹ اور پیرس اولمپکس 2024 ء

جدید اولمپکس کھیل 


جدید اولمپکس کھیل یا اولمپکس عالمی سطح پر کھیلوں کے مقبول ترین مقابلے ہیں جو موسم گرما اور موسم جاند کے کھیلوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اُن میں دنیا بھر سے ہزاروں کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ اولمپک کھیلوں کو دنیا کا اہم ترین مقابلہ تصور کیا جاتا ہے جس میں 200 سے زائد اقوام شریک ہوتی ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں موسم سرما اور موسم گرما کے مقابلے ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں، یعنی دو اولمپک مقابلوں کے درمیان دو سال کا وقفہ ہوتا ہے۔

یہ مقابلے قدیم اولمپک کھیلوں سے متاثر ہیں جو اولمپیا، یونان میں آٹھویں صدی قبل مسیح سے چوتھی صدی عیسوی تک منعقد ہوتے رہے۔ نواب پیری دی کوبرٹن نے 1894ء میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) کی بنیاد رکھی۔ یہ کمیٹی اولمپک تحریک کی مجلس انتظامیہ ہے، جبکہ اولمپک منشور میں اس کا ڈھانچہ اور اختیارات بیان کیے گئے ہیں۔
قدیم اولمپکس گراونڈ کی تصویر 

20ویں اور 21ویں صدی کے دوران اولمپک تحریک کے احیا کے نتیجے میں اولمپک کھیلوں میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ ان تبدیلیوں میں سے ایک برف اور سرد موسم سے مخصوص کھیلوں کے لیے سرمائی اولمپک مقابلوں کی شمولیت تھی۔ اس کے علاوہ معذور کھلاڑیوں کے لیے پیرالمپک کھیل اور نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یوتھ اولمپک کھیل شامل کیے گئے۔ اولمپک کمیٹی مختلف معاشی، سیاسی اور تکنیکی پہلوؤں کے مطابق تبدیلیاں لاتی رہتی ہے۔ جیسے کہ، کوبرٹن نے اولمپک مقابلوں میں خالص غیر پیشہ ورانہ انداز کا تصور دیا تھا، لیکن اب پیشہ ور کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت ہے۔

اولمپک تحریک، انٹرنیشنل اسپورٹس فیڈریشن (IFs)، قومی اولمپک کمیٹیوں (NOCs) اور ہر اولمپک مقابلے کی انتظامی کمیٹی پر مشتمل ہوتی ہے۔ فیصلہ ساز مجلس ہونے کے ناتے، اولمپک منشور کے مطابق اولمپک کمیٹی ہر مقابلے کے لیے میزبان شہر کا انتخاب اور اخراجات کا انتظام کرتی ہے۔ اولمپک کمیٹی ہی اس بات کا فیصلہ بھی کرتی ہے کہ مقابلوں میں کون کون سے کھیل شامل کیے جائیں گے۔ اولمپک سے منسوب کئی رسوم و رواج اور علامتیں بھی ہیں، جن میں اولمپک پرچم، اولمپک مشعل اور اولمپک کی افتتاحی اور اختتامی تقاریب شامل ہیں۔ گرمائی اور سرمائی اولمپکس میں 33 مختلف کھیلوں کے لیے 13 ہزار سے زائد کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ ہر کھیل کے حتمی مقابلے میں، پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے پر آنے والوں کو بالترتیب طلائی، نقرئی اور کانسی کے اولمپک تمغے دیے جاتے ہیں۔

سقوط غرناطہ: ابوعبداللہ وہ مسلمان حکمران جنھوں نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں

وقارمصطفیٰ | بی بی سی اردو | 15 جولائی 2024

ابو عبد اللہ محمد سنہ 1459 میں سپین کے الحمرا محل میں پیدا ہوئے تو نجومی نے پیش گوئی کی کہ وہ بڑے ہو کر مسلم غرناطہ کے حکمران بنیں گے، لیکن آخری۔
سقوط غرناطہ 

آٹھویں صدی کی ابتدا سے اگلے 300 سال تک سپین میں علم و ایجاد کو فروغ دیتی اموی خلافت رہی، پھر 40 سال تک سپین چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا۔

مراکش سے آنے والے مرابطون نے انھیں متحد کر کے 1086 سے1147 تک چلایا۔ ان کے بعد موحدون نے شمالی افریقہ اورسپین کے بڑے حصے پر حکومت قائم کی۔

تیرھویں صدی میں عرب کے بنو خزرج قبیلے کے نصر خاندان کے محمد اول نے جب غرناطہ سنبھالا تب تک مسلم سپین کا رقبہ کافی سمٹ چکا تھا۔

نصریوں نے مراکش کے مرینوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم کیا۔ ان کے دور میں غرناطہ اسلامی ثقافت کا مرکز رہا جس میں علم، دست کاری اورسرامکس کو فروغ ملا۔ 14ویں صدی میں نصری اپنے فن تعمیر کے لیے مشہورتھے۔ الحمرا اسماعیل اول اور محمد پنجم کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

سوا دو سو سال سے حکومت کرتے اسی خاندان کے سلطان ابوالحسن علی کے ہاں، تاریخ میں بوعبدل کہلاتے، ابوعبداللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

خاندانی جھگڑے اور سوتن کا حسد

ایلزبتھ ڈریسن اپنی کتاب ’دی مورز لاسٹ سٹینڈ‘ میں بتاتی ہیں کہ ابوالحسن علی، جنھیں مولائے حسن بھی کہا جاتا تھا، کے دور میں غرناطہ کو اندرونی اور بیرونی دباؤ اور سیاسی خلفشار کا سامنا تھا۔

ریکونکوِسٹا کے نام سے جانے جاتے تقریباً آٹھ صدیوں پر محیط مہمات کے ایک سلسلے میں پندرہویں صدی کے اواخر میں تیزی آ گئی۔ ان مہمات سے مسیحی سلطنتوں کا مقصد مسلمانوں کے زیرِاثر آیبیرین علاقوں پر دوبارہ حکومت کرنا تھا، جنھیں اجتماعی طور پر الاندلس کہا جاتا تھا۔

کیا دنیا میں واقعی آٹھ ارب افراد موجود ہیں؟

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا کی موجودہ آبادی 8.2 ارب ہے جو چند برسوں میں 10.8 ارب تک پہنچ جائے گی۔

11 جولائی کو شائع ہونے والی ’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد 2080 کی دہائی میں اپنے عروج پر ہو گی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگے گی۔‘

رپورٹ میں مزید پیشگوئی کی گئی ہے کہ حالیہ برسوں میں پیدا ہونے والے لوگ اوسطاً 73.3 سال تک زندہ رہیں گے۔

واضح رہے کہ یہ عمر سنہ 1995 میں پیدا ہونے والوں کی عمر کے مقابلے میں 8.4 سال زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ تقریباً نصف صدی سے اپنے ارکان ممالک میں ہونے والی مردم شماری، ان ملکوں میں شرح پیدائش اور اموات اور دیگر ڈیموگرافِک سروے کو جمع کر کے عالمی آبادی کا تخمینہ لگاتا ہے لیکن کیا ہم ان اعدادوشمار پر یقین کر سکتے ہیں؟

دنیا کی کل آبادی کا پتا لگانا آسان نہیں‘

ماہر آبادیات (ڈیموگرافر) جیکب بژاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد کا پتا لگانا آسان نہیں اور اس میں کمی بیشی کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے پروفیسر بژاک نے بتایا کہ دنیا کی کل آبادی کے بارے میں آپ یقینی طور پر ایک ہی بات کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس میں شک کی کافی گنجائش ہے۔

واشنگٹن میں ’پاپولیشن ریفرنس بیورو‘ نامی تحقیقی تنظیم سے منسلک ماہر ڈاکٹر ٹوشیکو کنیڈا نے زور دیا کہ ہمارے پاس دنیا کی کل آبادی کے بارے میں جاننے کے لیے ’جادو کا کوئی چراغ موجود نہیں۔‘

تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ صرف اندازوں کی مدد سے ہی دنیا کی آبادی کا پتا لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کنیڈا نے بتاہا کہ ’یہ بہت پیچیدہ کام ہے۔ ہمیں اپنے تجربے، علم اور اپنے پاس موجود ہر چھوٹی سے چھوٹی معلومات کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔‘

اس کے علاوہ مسلسل ان تخمینوں کو اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ایک دہائی پہلے اقوام متحدہ نے جو پیشگوئی کی تھی، اس کے برعکس اس نے اب کہا ہے کہ سنہ 2100 تک دنیا کی آبادی چھ فیصد کم ہو گی۔

تاہم ان تبدیلیوں کے باوجود آبادی سے متعلق اعدادوشمار حکومت اور پالیسی بنانے والوں کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ ان اعداد و شمار کے مطابق مستقبل کے لیے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے تارہ ترین اعداد و شمار ہمیں کیا بتاتے ہیں؟

مزید تین دہائیوں تک آبادی میں اضافہ ہو گا‘

سنہ 2024 کے ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کے مطابق دنیا میں ہر چار افراد میں سے ایک شخص ایسے ملک میں رہتا ہے جس کی آبادی پہلے سے ہی اپنے عروج پر ہے۔

تاہم 126 ممالک اور علاقوں میں مزید تین دہائیوں کے لیے آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور ان میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک شامل ہیں جیسے انڈیا، انڈونیشیا، نائجیریا، پاکستان اور امریکہ۔

اس رپورٹ میں ایک اور قابلِ ذکر بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں عمر کا دورانیہ پھر سے بڑھ رہا ہے جبکہ یہ شرح کورونا کی وبا کے دوران تھوڑی کم ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ’موت کی شرح میں مزید کمی کے نتیجے میں سال 2054 میں عالمی سطح پر لوگوں کی عمر اوسطاً 77.4 سال ہونے کا امکان ہے۔‘

امیگریشن کی وجہ سے آبادی میں اضافہ

دنیا کے مختلف حصوں میں آبادی میں اضافہ بہت مختلف نظر آتا ہے۔ اگلے 30 سال میں انگولا، سینٹرل افریقی ریپبلک، کانگو، نائجر اور صومالیہ جیسے ممالک میں پیدائش کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔

پیشگوئی ہے کہ ان ممالک کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔

پروفیسر بژاک نے بتایا کہ ’لوگوں میں نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آبادی دوبارہ سے تقسیم ہو رہی ہے لیکن زیدہ تر ممالک ترک وطن لوگوں کو گنتی میں شامل نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو دہائی میں صرف ایک مرتبہ جب وہ مردم شماری کرتے ہیں۔ اس میں بھی وہ باریکی میں نہیں جاتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ ممالک ہیں جو آبادی کے لیے مخصوص رجسٹرز استعمال کرتے ہیں لیکن ایسے بہت کم ممالک ہیں، ان میں سے زیادہ تر ممالک ترقی یافتہ ہیں جسیے یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔‘

پروفیسر بژاک نے مزید وضاحت کی کہ کچھ ممالک متبادل طریقوں سے یہ اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’اس کی ایک مثال موبائل فونز میں مقام پتا لگانے والی ٹیکنالوجی ہے تاہم اس طریقہ کار کو ابھی مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس کی مدد سے حاصل کیے اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے سمجھ سکیں۔‘

ڈاکٹر کنیڈا نے بتایا کہ نقل مکانی کے عمل کو جانچنا اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ شرح پیدائش سے زیادہ تیزی سے بدل سکتا ہے۔

’میں یہ کبھی نہیں سوچ سکتا کہ کسی ملک کی شرح پیدائش صفر ہو سکتی ہے تاہم وہ ممالک جہاں کم سے کم شرح پیدائش ہو، وہاں بھی آبادی اتنی تیزی سے نہیں بدلتی تاہم جنگ یا قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے بعد آبادی راتوں رات بدل سکتی ہے۔‘

اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کی کلیئر مینوزی کہتی ہیں کہ دنیا میں لوگوں کی تعداد پتا لگانے کے لیے بین الاقوامی نقل مکانی پر انحصار کرنا اتنا بھی صحیح نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اکیلے نقل مکانی ’دنیا کی آبادی میں زیادتی یا کمی کا باعث نہیں ہوتی اور اسے اس پرانے مسئلے کا حل نہیں سمجھنا چاہیے۔ اصل میں مسئلہ ڈیموگرافِک تبدیلی کا ہے۔‘

مردم شماری کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

مردم شماری کے ذریعے آبادی کا پتا لگانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تاریخ 4000 قبل مسیح میں شروع ہوئی جب میسوپوٹیمیا (جو تقریباً موجودہ عراق ہے) میں بابلی سلطنت نے پہلی مردم شماری کی۔

اس وقت سے اب تک مردم شماری کی ٹیکنالوجی میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن یہ کام ابھی بھی اتنا آسان نہیں۔

ڈاکٹر کنیڈا کہتے ہیں کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک سمیت تمام ممالک کو ’چیلنجز کا سامنا ہے جیسے لوگوں کا حکومت پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد اور پرائیوسی سے متعلق خدشات۔‘

’اعداد و شمار جمع کرنے پر خرچ ہونے والے ہر ڈالر پر 32 ڈالر کا فائدہ‘

ڈاکٹر کنیڈا نے کہا کہ اعدادوشمار جمع کرنے والی تنظیموں کے بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد مسئلہ اور سنگین ہو گیا ہے کیونکہ آبادی کے اعداد و شمار جمع کرنا ایک پیچیدہ کام ہے اور اس میں بہت خرچہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ مسئلہ ہے جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں یہ مزید بڑا چیلنج ہے تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ’ڈیٹا کے اس نظام کو بہتر کرنے میں جو ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں 32 ڈالر معاشی فوائد کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ تجویز کرتا ہے کہ دنیا کے سب سے کمزور طبقے کے اعداد و شمار جمع کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ 
ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کی یہ تازہ ترین رپورٹ اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق 28ویں ایڈیشن کا حصہ ہے۔ اس میں سنہ 1950 سے لے کر سنہ 2023 کے دوران مختلف ممالک کی تقریباً 1700 مردم شماریوں کے اعدادوشمار شامل ہیں۔


یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ’انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اور ایویلوئیشن‘ (آئی ایچ ایم ای) اور آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی ’آئی آئی اے ایس اے وٹگنسٹائین‘ نامی تنظیموں نے عالمی آبادی کے اس تخمینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی

بی بی سی اردو نیوزاشاعت ۱جولائی ۲۰۲۴

نپور شہر عراق میں واقع ایک قدیم تہذیب کی باقیات ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ سات ہزار سال پہلے قائم ہونے والی یہ آبادی قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی تھی۔


بغداد سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ مقام اب وقت کے ہاتھوں کھنڈرات کی شکل میں ہی موجود ہے جہاں سیاحوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ابھی وقت کا تصور بھی تازہ تازہ ہی تھا اور نپور دنیا کے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور دراز علاقوں سے زائرین میسوپوٹامیا کے اس مقدس شہر پہنچا کرتے جہاں سمیری تہذیب کے بادشاہ تک دنیا کے قدیم خداؤں کو پوجا کرتے۔

قدیم سمیری شہری، جو موجودہ وسطی عراق کے باسی تھے، ہی جدید تہذیب کے موجد بھی مانے جاتے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے شہر آباد کیے اور زراعت کا آغاز کیا۔ پہیہ، تحریر، حساب حتی کہ 60 منٹ پر محیط گھنٹے کی ایجاد کا سہرا بھی اسی تہذیب کو دیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مورخوں کے مطابق منظم مذہب اور زیارت کا تصور بھی یہی پیدا ہوا۔

وقت کے ساتھ سمیری تہذیب تو قصہ پارینہ ہوئی جس کی جگہ نئی تہزیبوں نے لی اور ان کے خدا بھی مختلف تھے۔ ہزاروں سال کا سفر کرنے کے بعد میسوپوٹامیا عراق بن گیا جہاں اب اسلام مرکزی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اگرچہ اب خدا بدل چکے ہیں لیکن جدید عراق میں بھی زیارت کا تصور اتنا ہی اہم ہے جتنا نپور کے قدیم مقدس شہر میں ہوا کرتا تھا۔

نپور کے کھنڈرات سے مغرب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر نجف اور کربلا کے مقدس مانے جانے والے شہر ہیں جو شیعہ مسلمانوں کی زیارت کے اہم منزل ہیں۔ ان شہروں کا سفر کرنے والے اس خطے کی طویل اور افسانوی تاریخ سمیت جدید عراق سے بھی واقف ہوتے ہیں۔

نپور: جہاں سمیری تہذیب کے مطابق ’خدا پیدا ہوا‘


قدیم سمیری تہذیب میں نپور کو جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام مانا جاتا تھا۔ سب سے پہلی تصویر میں نظر آنے والی پہاڑی ’انلل‘ کا گھر سمجھا جاتا تھا جو سمیری تہذیب کا سب سے اہم خدا اور کائنات کا حکمران مانا جاتا تھا۔

اگرچہ نپور خود سیاسی طاقت کا مرکز نہیں تھا لیکن اس شہر پر کنٹرول اہم سمجھا جاتا تھا کیوں کہ انلل ہی دوسری شہری ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہت کا اختیار سونپنے کا مجاز تھا۔ اس روحانی اہمیت کی وجہ سے ہی خطے سے زائرین یہاں کا رخ کرتے۔

سمیری تہذیب تکنیکی اعتبار سے مہارت رکھتی تھی اور منظم مذہب کے علاوہ دنیا کا سب سے پہلا تحریر کا نظام بھی انھوں نے ہی تیار کیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے نپور سے 30 ہزار مٹی کی بنی تختیاں برآمد کی ہیں تاہم زیادہ تر کھنڈرات کو اب تک کھود کر تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔

اس تصویر میں ایسے برتنوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں جو وسیع و عریض کھنڈرات میں پھیلے ہوئے ہیں اور شاید یہی بات نپور کو محسور کن بناتی ہے کیونکہ اس مقام کا انسانی ترقی سے بہت گہرا تعلق ہے جو شاید دنیا میں کہیں اور موجود ہوتا تو سیاحوں سے بھرپور ہوتا۔

لیکن عراق کے ایک صحرا کے کونے پر موجود اس جگہ پر ہوا، مٹی، ریت اور چند قابل شناخت دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

زیارت کی طویل تاریخ

نپور کے سات ہزار سال بعد بھی مشرق وسطی کے اس خطے میں زیارت کا تصور مضبوط ہے۔ ہر دن ہزاروں شیعہ مسلمان دنیا بھر سے کربلا اور نجف پہنچتے ہیں۔


بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

ناربرٹو پریڈیس

بی بی سی منڈو سروس

افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ 
22 اگست 2021

اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔

19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

انڈیا کا سب سے امیر مندر جس کے پاس 10 ٹن سونا اور اربوں روپے ہیں

بی بی سی اردو 7 نومبر 2022، میں یہ خبر شائع ہوئی کہ  انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی (پریس ٹرسٹ آف انڈیا) کے مطابق گذشتہ روز انڈیا کے امیر ترین مندر کے ٹرسٹ نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، جس میں انھوں نے مندر کی دولت کی تفیصلات پیش کی ہیں۔

یہ مندر انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں ہے اور اسے عرف عام میں ’تروپتی مندر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مندر کے تروملا تروپتی دیوستھانم (ٹی ٹی ڈی) ٹرسٹ نے بتایا ہے کہ اس کے پاس 10.3 ٹن سونا اور بینکوں میں 5,300 کروڑ روپے ہیں۔

اس کے علاوہ اس کے پاس 15,938 کروڑ روپے کی نقد رقم بھی ہے۔

تروملا تروپتی دیوستھانم تروپتی مندر کا انتظام و انصرام چلاتی ہے اور اس نے ایک وائٹ پیپر جاری کرکے اپنے اثاثوں کا اعلان کیا ہے۔

ٹی ٹی ڈی کے مطابق سنہ 2019 میں مختلف بینکوں میں اس کے 13,025 کروڑ روپے کے فکسڈ ڈیپازٹ تھے جو اب بڑھ کر 15,938 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔

خوراک اور صحت

پکوانوں کی تاریخ 

پکوانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے والے مختلف ممالک کے سائنسدان، ذائقوں کے ماہرین اور پکوانوں کے قدیم ترین نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خوراک اور صحت
لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسدانوں کے ہاتھ لگنے والے ہزاروں برس پرانے نسخے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ’دنبے کا سٹو‘ پکانے کے لیے لکھا طریقہ محض اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی فہرست جیسا معلوم ہوتا ہے۔ ’گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پانی تیار کیجیے۔ باریک دانوں والا نمک ڈالیے۔ سوکھا جُو ڈالیے۔ پیاز اور تھوڑا دودھ۔، پیاز اور لہسن کچل کر ڈالیں۔‘

تاہم اس طریقہ کار کو لکھنے والے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ کون سی چیز کب ڈالنی ہے؟ اسے لکھنے والا تو چار ہزار برس قبل انتقال کر چکا ہے۔چند بین الاقوامی محققین، پکوانوں کی تاریخ کے ماہرین اور کھانا پکانے کے نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے چار قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ اسی طرح تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے گوژکو بارژامووچ کہتے ہیں ’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پرانے گانے کو دوبارہ بنانا۔ کوئی ایک نوٹ پوری دھن بدل سکتا ہے۔‘

یہ ترکیبیں تختیوں پر لکھی ہیں جو ییل یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ میں بابل کی تہذیب کی کلیکشن سے حاصل کی گئی ہیں، تاکہ ذائقے کے ذریعے اس تہذیب کو بہتر سمجھا جا سکے۔

نظر بد‘ کی پُراسرار طاقت پر لوگوں کو اندھا یقین کیوں ہے؟

کوین ہرجیتائی
بی بی سی فیچرز

قدیم مصر میں تحفظ، شاہی طاقت اور اچھی صحت کی علامت عین حورس (آئی آف حورس) سے لے کر امریکی ماڈل جیجی حدید تک ہزاروں برسوں سے آنکھ نے انسانی تخیل پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔


جب دنیا کی پُراسرار شیطانی قوتوں سے بچنے کی بات آتی ہے تو شاید 'نظرِ بد' سے زیادہ جانی پہچانی اور تسلیم کی جانی والی چیز اور کوئی نہیں۔

اسے ظاہر کرنے والی اور اس سے بچنے کے لیے مؤثر سمجھے جانے والے ٹوٹکوں کا ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ نیلے رنگ کی آنکھ کی تصویر نہ صرف استنبول کے بازاروں میں، بلکہ ہوائی جہازوں کے اطراف سے لے کر مزاحیہ کتابوں کے صفحات تک میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

گذشتہ دہائی میں ایسی تصویریں اکثر فیشن کی دنیا میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ امریکی ماڈل کِم کارڈیشین نے متعدد مواقع پر کھیلوں کے کڑے اور ہیڈ پیس کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں جس میں یہ علامت (شیطانی آنکھ) موجود ہے۔ جبکہ جیجی حدید نے آئی لو نامی جوتوں کا برانڈ متعارف کروا کر سنہ 2017 میں اس رجحان کو مزید فروغ دیا۔

چارلس سوم برطانیہ کے نئے بادشاہ بن گئے

جیسے ہی ملکہ برطانیہ  الزبتھ  نے اپنی آخری سانسیں لیں، برطانیہ کی حکمرانی فوری طور پر بغیر کسی تقریب کے ان کے جانشین اور سابق پرنس آف ویلز چارلس کو منتقل ہو گئی۔

چارلس سوم برطانیہ کے نئے بادشاہ بن گئے 

برطانیہ پر سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم 96 برس کی عمر میں بیلمورل میں،( بروز جمعرات 8 سبتمر 2022م کو) وفات پا گئی ہیں۔ انھوں نے 70 سال تک برطانیہ پر حکمرانی کی۔

ملکہ الزبتھ 21 اپریل 1926 کو لندن کے علاقے مے فیئر میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا پورا نام الزبتھ الیگزینڈرا میری ونڈزر رکھا گیا تھا۔  

تاہم ستمبر 1936 میں جب ان کے تایا ایڈورڈ ہشتم نے تخت سے کنارہ کشی اختیار کر کے دو بار کی طلاق یافتہ امریکی شہری والس سمپسن سے شادی کی تو الزبتھ کے والد جارج ششم بادشاہ بن گئے اور 10 سال کی عمر میں الزبتھ تخت کی وارث بن گئیں تھیں۔

الزبتھ 1952 میں ملکہ بنی تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے بڑے پیمانے پر سماجی تبدیلی دیکھی۔

الزبتھ کی تاج پوشی دو جون 1953 کو 27 سال کی عمر میں ویسٹ منسٹر ایبے میں ہوئی تھی۔ اس تقریب کو اس وقت ریکارڈ دو کروڑ ٹی وی شائقین نے دیکھا تھا۔ 

ان کے دورِ حکمرانی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کفایت شعاری کی مہم، برطانوی راج کی کامن ویلتھ میں تبدیلی، سرد جنگ کا خاتمہ اور برطانیہ کا یورپی یونین میں جانا اور نکلنا سب شامل ہیں۔

تقسیم کی لکیر (1885-1947) -

اشلین کور ،  بی بی سی اردو 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

یہ کہانی ہے 70 سال پہلے کی جب انگریزوں کے جانے کے ساتھ ہی ایک بھارت دو حصوں میں بٹ گیا اور دو آزاد ممالک کا جنم ہوا انڈیا اور پاکستان۔ تقسیمِ ہند کی تاریخ سے جڑی کچھ اہم تاریخوں پر ایک نظر۔

دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے 20 برسوں میں کانگریس کو آزادی یا سیلف گوورننس کی تشہیر میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

 عقیل عباس جعفری

محقق و مؤرخ، کراچی
بی بی سی اردو 24 فروری 2022 ء


ایوب خان کو اسلام آباد شہر کی سائٹ پر نقشوں کی مدد سے بریفننگ دی جا رہی ہے

ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی۔


یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى


انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى
انسان نے زراعت کب شروع کی اور کیا اُگایا، مختلف اندازوں کے مطابق دنیا میں ایسے مقامات کی تعداد دس سے بیس کے درمیان ہے جہاں انسانوں نے مقامی طور پر کھیتی باڑی شروع کی اور اپنی ضرورت کے لیے فصلیں پیدا کیں اور سب کا طریقہ فرق تھا۔


لیکن جہاں تک گندم کی بات ہے، زبنسکی نے اپنی کتاب میں گندم کی کہانی کے آغاز کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ہزاروں برس پیچھے ترکی اور شام میں پھیلے پہاڑی سلسلے زاگروس میں دریائے فرات کے کنارے جانا پڑے گا۔

ابوھریرہ  

ہماری منزل حلب سے تین دن کے فاصلے پر واقع وہ مقام ہے جو تاریخ میں آگے چل کر ابوھریرہ کہلایا۔ یہ دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کے مطابق سب سے پہلے انسان نے اپنی ضرورت کے لیے اناج اُگایا تھا۔


اس مقام سے ’آپ شمال مغرب میں 30 کلومیٹر تک دریائے فرات کے مناظر دیکھ سکتے ہیں اور مشرق میں دس کلومیٹر تک۔ دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور بہاؤ تیز، خاص طور پر موسم بہار میں جب زاگروس کے پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور سرخ اور خاکی مٹی بہہ کر آتی ہے۔


’دریا کے کنارے شوخ سبز سرکنڈوں اور نم گیاہ یا جھمکے دار پھولوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور پانی میں بگلے اور دیگر پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بید کے درختوں کے جھنڈ پانی کے بہاؤ کو سست کر رہے ہیں۔ دریا سے ہٹیں تو چنار اور آھ درختوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے جو موسم سرما میں پناہ فراہم کرتا ہے۔ دریا کی سطح سے بلندی پر تا حد نگاہ درخت، جھاڑیاں اور گھاس کا میدان ہے۔‘


’یہ علاقہ دریا سے اونچا ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ تھا اور ساتھ ہی ایک زرخیز دریائی میدان کے قریب بھی تھا۔‘


ماہرین کا اندازہ ہے کہ علاقے کی زرخیزی کی وجہ سے ابو ھریرہ کے ابتدائی باسیوں کو کچھ کاشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور ان کا گزارا شکار اور پھل چننے سے ہو جاتا تھا کیونکہ وہاں ممکنہ طور پر ’پودوں کی 120 اقسام پیدا ہوتی تھیں۔‘

بلیک فرائیڈے کيا ہے؟

نومبر 2008ء کو امريکہ ميں بليک فرائيڈے
 پر خريدارى کا منظر

کالا جمعہ یا بلیک فرائیڈے (انگریزی: Black Friday) سے مراد ریاست ہائے متحدہ میں یوم شکرانہ (نومبر کی چوتھی جمعرات) کے بعد آنے والا جمعہ ہے۔ 2000ء دہائی کے اوائل سے، ریاست ہائے متحدہ میں یہ دن کرسمس کی خریداری کرنے کے آغاز کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اس موقع پر، خریداری کے بیشتر مراکز صبح سویرے سے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور خریداری کی اشیا پر خصوصی رعایت کی پیش کش بھی کرتے ہیں۔ بلیک فرائیڈے کو اگرچہ سرکاری تعطیل نہیں ہوتی، تاہم کیلیفورنیا اور بعض دیگر ریاستوں میں سرکاری ملازمین کسی دوسری وفاقی تعطیل (مثلاً یوم کولمبس) کے بدلے ’’یومِ شکرانہ سے اگلا دن‘‘ چھٹی کے طور پر مناتے ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں یومِ شکرانہ اور اس سے اگلے دن جمعہ کو بھی چھٹی ہوتی ہے، یوں وہ چار چھٹیوں پر مشتمل طویل ویکینڈ مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خریداروں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے مصروف ترین دن بنتا جا رہا ہے۔

2014ء میں، بلیک فرائیڈے کے چار تعطیلات پر مشتمل ویکینڈ میں خریداری پر 50.9 بلین ڈالر خرچ کیے گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فی صد کم تھے۔ جب کہ اس عرصے کے دوران، ریاست ہائے متحدہ کے 133 ملین صارفین نے خریداری کی، جو پچھلے سال کے 144 ملین کے مقابلے میں 5.2 فی صد کم تھے۰