علوم اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علوم اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دانش کی مجلس: "فقہائے اسلام کا مکالمہ"

یہ مکالمہ ایک علمی، غیر جانبدار اور فکری نشست کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے، تاکہ قاری کو اسلامی فقہ کے بنیادی اختلافات اور ان میں ہم آہنگی کا راستہ سمجھنے میں مدد ملے۔

(ایک فکری نشست جس میں اسلامی تاریخ کے پانچ عظیم فقہاء ایک ہی میز پر جمع ہیں، اور میزبان ان سے فقہی اختلافات، ان کے دلائل اور امت کے لیے یکجہتی کا راستہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔)


📺 سیٹ اپ:
ایک پُروقار اسٹوڈیو، جہاں پانچ ممتاز فقہاء: امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق تشریف فرما ہیں۔ درمیان میں میزبان، جو سوالات کے ذریعے اس علمی مکالمے کو آگے بڑھا رہا ہے۔

🎙 میزبان:
"ناظرین! آج کی یہ نشست فقہِ اسلامی کی تاریخ کے سب سے بڑے ناموں کے ساتھ ہے۔ امتِ مسلمہ کے ان جلیل القدر ائمہ نے اسلامی قانون اور فقہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی آرا میں نمایاں اختلافات موجود ہیں۔ آخر یہ اختلافات کیوں پیدا ہوئے؟ اور کیا یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے یا زحمت؟ آئیے، براہِ راست انہی سے گفتگو کرتے ہیں!"

عہد نبوی میں لکھی گئی کتب احادیث

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 249 سال بعد تک کسی حدیث کی کتاب کا وجود نہیں رہا۔ حدیث کی جملہ کتب فارسی مصنفین نے 249 سال کے بعد لکھی۔
ذیل میں اصل حقیقت ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح کتابی شکل میں احادیث کے جمع کرنے کا کام دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ہی شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

1۔ کتاب الصدقۃ

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب زکوٰۃ لکھوائی لیکن ابھی اپنے عمال کو بھیج نہ پائے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات ہو گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ٠رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک ۔
ترمذی ، كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : ما جاء في النهى عن المسالة ، حدیث : 624

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 12 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 9 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 8 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 7 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 6) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 5) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 3) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 2) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ سوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

انضمام المتون

ایک حدیث کے متن کا دوسرے متن میں ضم کرنا یا پیوند لگانا تیسرا تصرف ہے، جو حدیث کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دو مختلف احادیث کے متون یا جملوں کو ملا کر ایک نئی حدیث بنا لی جاتی ہے۔اس میں دونوں جملے یا متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوسکتے ہیں، مگران کے پیوندسے جو نئی بات بنتی ہے، وہ ہر گز ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی۔ پہلے ہم ایک سادہ جملے سے اس بات کو سمجھتے ہیں، پھر احادیث کی مثالوں سے سمجھیں گے۔
ایک محقق کسی موقع پر کہے:
(بات نمبر ۱): ’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ خداے حقیقی کے سوا میں کسی خداکو نہیں مانتا۔ یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں۔‘‘
یہی محقق کسی دوسرے موقع پر کہے:
(بات نمبر۲): ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
کوئی اخباری رپورٹراس محقق کی دونوں باتوں میں سے ٹکڑے لے کر پیوند لگا کرایک اور بات بنائے، اور کہے:
(بات نمبر۳ جو دونوں کا مجموعہ ہے) ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ (میں کسی خداکو نہیں مانتا، یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں)۔‘‘
بلاشبہ، پہلی دونوں باتیں اسی آدمی کی تھیں، لیکن اب یہ تیسری پیوند شدہ عبارت اس آدمی کی ہرگز نہیں ہے، اگرچہ اجزا اسی کے کلام سے لیے گئے ہیں ۔ اس انضمامِ عبارت کے پیوند کو ہم نے بریکٹوں میں (...) کے نشان سے نمایاں کردیا ہے۔آپ اس پیوند کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔ اوپر کی مثال میں واضح ہے کہ ایک موحد اور مومن آدمی ملحد بن گیا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی مثالیں احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔جن میں خود دوسری حدیثوں میں حلال اور جائز رکھا گیا معاملہ ان حدیثوں میں حرام ہو گیا ہے۔

پہلی مثال

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھیے:

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف، فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘. (مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ دوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

تمہید

میں نے اس مضمون کا عنوان ’’متنِ حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ باندھا تھا۔ لفظ ’تصرف‘ کے معنی معاملہ کرنا، الٹنا پلٹنا، استعمال میں لانا وغیرہ کے آتے ہیں۔ دورِ تدوین سے آج تک حدیث کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا ہے، تصرف ہی اس کے بیان کے لیے ایک اچھا لفظ ہے، لیکن بعض لوگوں نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر یہ تاثر بیان کیا ہے کہ اس لفظ میں ایک سختی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شایدعلما نے جانتے بوجھتے ایسا کیا ہے۔لغوی اعتبار سے یہ لفظ نہ منفی ہے اور نہ مثبت۔ان مضامین میں میرا مقصد علما کی تنقیص نہیں ہے، نہ میں نے اسے اس قسم کے کسی منفی مقصد کے لیے لکھا ہے ۔ اس لیے میں نے اس مضمون کا عنوان تبدیل کردیا ہے، اور عنوان میں سے ’علما‘ کا لفظ نکال دیا ہے۔

میں نے اپنے مضمون کی پہلی قسط اور اس قسط میں بھی یہی بات عرض کی ہے کہ یہ تصرفات بیان و حکایت کا فطری تقاضا ہیں، راویوں اور علما نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیے۔ ’علما‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ اس میں رواۃِ حدیث کے ساتھ ساتھ صوفیہ، محدثین ، فقہا، شارحین، مفسرین اور مصنفین سب شامل تھے، ان کے لیے علما ہی کی تعبیر سب سے زیادہ موزوں تھی۔بہرحال کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو زائل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں اس کے عنوان میں تبدیلی کردوں۔ اب یہ مضمون اسی عنوان سے چھپے گا تاآنکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خطا سامنے آجائے۔

اس سلسلے کے مضامین کے دو حصے ہیں: ایک تصرفات کے بیان کا اور دوسرا مسئلے کی توجیہ کا۔ واضح رہے کہ یہ دوسرا حصہ میرے ان مضامین کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوسرے حصے، یعنی توجیہ و توضیح کے لیے ان مضامین میں میرا اصول یہ ہے کہ اگر میں مختلف درجے کی احادیث سے اخذ و استفادہ کروں گا، تو اس میں کوئی بھی حدیث حسن یا حسن لغیرہ کے درجے سے نیچے کی نہ ہو، یعنی یہ کہ ان احادیث کو میں اس اصول پر لوں کہ کم ازکم صحیح تر احادیث میں ان مضامین کی تائید اور بنیاد موجود ہو، اوریہ بھی میری کوشش ہوگی کہ اسی حدیث سے استشہاد کروں جسے کسی نہ کسی محدث نے قابلِ احتجاج قرار دیا ہو، میں اپنی راے پر اس کو منحصر نہیں کروں گا۔ البتہ تصرفات کے بیان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز میرے خیال میں ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ بھی تصرف ہی کی ایک صورت ہے۔اور اس لیے بھی کہ ان ضعیف حدیثوں کو حدیث کی حیثیت نہ بھی دیں، ایک تاریخی دستاویزی حیثیت تو انھیں حاصل ہے ہی، اس لیے تصرف کے تحت تو اسے لایا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ ضعیف روایات کا وجود اور ان کو کتابوں میں لکھنا بذات خود ایک تصرف ہے،یعنی باوجود ضعفِ سند کے اسے کسی مجموعۂ حدیث میں درج کرناوغیرہ اقوال رسول پر ایک تصرف ہی تو ہے۔ اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ضعیف احادیث سے اخذو استفادہ کرتا ہے۔۱؂ جس مضمون پر ’’اشراق‘‘ کے اداریے میں تبصرہ ہوا، اس میں بحمد اللہ ایک بھی روایت اس اصول سے ہٹی ہوئی نہیں ہے، جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ۔

اسی طرح بعض احباب نے کہا کہ تمھارا مضمون جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خاصا مشکل تھا، ان کی آسانی کے لیے میں نے حسب ضرورت مشکل الفاظ کے انگریزی مترادف دے دیے ہیں۔


متن حدیث میں لفظی و معنوی ادراج

تجزۂ حدیث کے بعد اگلا اہم تصرف ادراج ہے ۔ ادراج سے ہماری مراد راوی کا عمداً یا سہواً کلام نبوی میں اپنی بات شامل کرنا ہے۔اس سے دو قسم کی چیزیں متنِ حدیث میں شامل ہوئی ہیں:

ایک الفاظ ،یعنی راوی نے اپنے یا کسی اور راوی کے الفاظ و جمل کو اس طر ح سے بیان کردیا کہ وہ حدیث کے متن کا حصہ قرار پا گئے ۔

دوسری راے ، اس کی دو صورتیں ہیں، 

۱۔ ایک یہ کہ کسی صحابی یا راوی کی راے یا فتویٰ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حدیث کی حیثیت پاگیا، قطع نظر اس کے کہ یہ عمل عمداً ہوا ہو یا سہواً۔

۲۔ دوسرے یہ کہ احادیث کا معتد بہ حصہ روایت بالمعنیٰ۲؂ کے طریقے پر منتقل ہوا ہے،اور فقیہ (prudent) سے فقیہ آدمی بھی جب کسی بات کو سمجھ کردوسروں کواپنے لفظوں میں سناتا ہے، تو وہ دراصل متکلم کا نہیں، بلکہ اپنا فہم آگے بیان کررہا ہوتا ہے ۔۳؂ 

متن حدیث میں علما کے تصرفات ۔ ساجد حمید

[یہ مضمون میری ایک تحریر کا جزوہے۔ جسے افادۂ عام کے لیے تحریرکے مکمل ہونے سے پہلے شائع کیا جارہا ہے تاکہ نقد و جرح کے عمل سے گزر جائے ۔ احادیث مبارکہ کے متون میں جو باتیں آئی ہیں، وہ اہل علم کے تصرفات کے نتیجے میں بہت حد تک بدل چکی ہیں۔یہ تحریر اس بات کی سعی ہے کہ متون حدیث کو ان تصرفات سے پاک کرکے دیکھا جائے۔اس تحریر میں ہر ایک تصرف کی چند مثالوں سے بات کو قابل فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تصرفات سے پاک کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بات کسی حد تک سامنے آجاتی ہے، جس پر پھر عقل ونقل کے اعتراض وارد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گویایہ دفاع حدیث کا ایک اسلوب ہے، جسے میں متعارف کرانا چاہتا ہوں۔ یہ مدرسۂ فراہی کا خاص طرز فکر ہے ۔ اس عمل سے چونکہ حدیث کی بنا پر بنی ہوئی ہماری پہلے سے موجود آرا تبدیل ہو جاتی ہیں، جس سے لوگوں کو توحش اوراجنبیت سی محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل بات کی طرف لوٹنا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اصل بات کی طرف جو ہمارے تصرفات سے پاک ہو۔یہ بلاشبہ ایک مشکل اور نازک کام ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ کوتاہیوں ، خطاؤں، لغزشوں اور نفس کے بہکاووں سے بچائے، آمین۔ مصنف]

——۱——

حدیث کے ساتھ ہمارے تصرفات کی ایک اہم صورت متن حدیث کو اجزامیں بانٹنا ہے۔ اس کے لیے ہم اس مضمون میں تجزۂ حدیث اور تجزۂ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ تجزۂ کا یہ عمل کئی وجوہات سے ہوا ہے۔ مثلاً یہ کہ راوی نے ،فطری طور پر، برسر موقع، جتنی بات کی ضرورت تھی، اتنی بات بیان کی، باقی بات یا اس سے متعلق دیگر تفصیلات بیان نہیں کیں۔ مصنف محدثین نے اپنی کتاب کی موضوعاتی ترتیب کے لحاظ سے حدیث کا جتنا متن ایک موضوع سے متعلق تھا، وہ ایک جگہ لکھ دیا باقی دوسری جگہ، وغیرہ۔ اس عمل سے حدیث کے ٹکڑے مختلف ابواب میں بکھر گئے ، جس سے پوری بات ہمارے سامنے موجود نہ رہی، اور ہر ٹکڑا الگ الگ حیثیت سے مکمل بات کے طور پر لے لیا گیا۔ تجزۂ حدیث کی ایک مثال ذیل میں دی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل حدیث جب اسبال ازار کے باب میں لکھی تو اس کے الفاظ یہ تھے:

اعجازِ قرآن ۔ ایک مختصر جائزہ

محمد حسنین
ماہنامہ الشریعہ 
علوم قرآن کے تمام مباحث پر قرن اول سے اب تک ہر پہلو اور ہر زاویہ سے بحث کی جاتی رہی ہے لیکن پھر بھی ان کا حق ادا نہ ہو سکا اور اب بھی وہ تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے مباحث کی طرح ’’اعجاز قرآن‘‘ کا موضوع بھی ابتدا ہی سے زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی صدیوں میں متکلمین کے کلامی مباحث یا مفسرین کی تفسیروں کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہوتا تھا، لیکن بہت جلد اس موضوع پر مستقل تالیفات وجود میں آنے لگیں۔ چنانچہ کوئی صدی ایسی نہیں ملتی جس میں اعجاز قرآن کے موضوع پر پائے جانے والے علمی سرمایہ میں اضافہ نہ ہوا ہو۔

اعجاز قرآن کے مسئلہ کو شروع شروع میں مستقل بحث و تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ اسے دیگر ان مسائل کے ساتھ شامل رکھا گیا جن میں اس زمانے میں زبردست کلامی بحثیں ہوتی تھیں اور ان کے سلسلہ میں اسلامی فرقوں کے درمیان باہم اختلاف تھا، خاص طور پر ان مسائل کے ساتھ جو نبوت اور معجزہ سے متعلق تھے۔ تیسری صدی ہجری میں اسلامی معاشرہ میں اعجاز قرآن کے بارے میں مختلف اقوال تھے جن کی وجہ سے اسلامی فرقوں میں کشمکش کی نازک صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ہر فرقہ کے لوگ اعجاز قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اثبات اور اپنے مخالفین کی آواز کا ابطال کرتے تھے۔ اس قسم کی کتابوں میں ابن قتیبہ کی ’’تاویل مشکل القرآن‘‘ ابوالحسن اشعری کی ’’مقالات الاسلامیین‘‘ جاحظ کی ’’حجج النبوۃ‘‘ اور ابوالحین خیاط کی ’’الانتصار‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ہر صدی میں ’’اعجاز قرآن‘‘ پر لکھی جانے والی تالیفات کے مصنفین نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اعجاز قرآن پر جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ حرفِ آخر ہے، لیکن اگلی صدی نے ان کے اس دعویٰ پر خط نسخ کھینچ دیا۔

معجزہ
معجزہ کی حقیقت پر بات کرتے ہوئے علامہ جلال الدین السیوطی ؒ المتوفی ۹۱۱ھ ؁ رقمطراز ہیں کہ 

’’اعلم أنَّ المعجزۃ أمر خارق للعادۃ ، مقرون بالتحدی، سالم من المعارضۃ‘‘ ۱؂
ترجمہ’’ معجزہ ایسے خارق عادت امر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تحدی بھی کی گئی ہو اور وہ معارضہ سے سالم رہے۔‘‘
جہاں تک معجزہ کی اقسام کا تعلق ہے حضرات علماء نے اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ 

۱۔ حسی معجزہ 

۲۔ عقلی معجزہ

قوم بنی اسرائیل کے اکثر معجزات کا تعلق حسی معجزات سے تھا جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ قوم بڑی کند ذہن اور کم فہم تھی جبکہ امت محمدیہ کے زیادہ تر معجزات عقلی ہیں جس کا سبب اس امت کے افراد کی ذکاوت اور ان کے عقل کا کمال ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شریعت محمدیہ چونکہ آخری اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، اس لحاظ سے بھی اس کو عقلی معجزہ دیا گیا تاکہ اہل بصیرت اسے ہر وقت اور ہر زمانہ میں دیکھیں۔۲؂

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے ‏گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید ‏میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ‏ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر ‏صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی ‏صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ ‏السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار ‏کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت ‏سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں ‏میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے ‏گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص ‏عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ‏اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور ‏اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ‏ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا ‏منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، ‏فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص ‏پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم ‏کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ ‏قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے ‏سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود ‏انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن ‏المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، ‏تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح ‏کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ ‏لیں۔

دار الافتاء ڈاٹ انفو۔۔ مختصر تعارف

دار الافتاء ڈاٹ انفو-مختصر تعارف
- دیوبند مکتبہ فکر کے مختلف دار الافتاؤں کے فتاوی سے استفادہ کرنے کے لئے ایک منفرد سرچ انجن۔ 
- دنیا بھر کے دیوبند مکتبہ فکر کے دار الافتاؤں کی ویب سائٹس پر موجود فتاوی یکجا کیا گیا ۔ 
- تمام فتاوی یونیکوڈ، پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب۔
- مستند با حوالہ فتاوی
درج ذیل دارالافتاوں کی ویپ سائٹس دیکھیں 

دار الافتاء دار العلوم دیوبند
دار الافتاء دار العلوم (وقف) دیوبند
دار الافتاء دار العلوم کراچی
دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
دار الافتاء اشرف المدارس کراچی
دار الافتاء خیر المدارس ملتان
دار الافتاء جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن کراچی
دار الافتاء صادق آباد
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
دار الافتاء الاخلاص کراچی
دار الافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور

ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی

حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔

پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے 'حدیث' کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار

محمد یونس قاسمی

ڈاکٹر فضل الرحمن کے بنیادی افکار
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم  اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی  ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی  میں  Avecena's Psychology  پر شاندار مقالہ لکھا  جس پر انہیں  1949 میں  ڈی فل  کی ڈگری  سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان  اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک  علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل  نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک  اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور  کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔  1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو  ان کی شاندار علمی  شراکت کے اعتراف میں  ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے  اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں  کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے  ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ کے حوالہ نمبروں میں اختلاف کا مسئلہ -

 ڈاکٹر محمد عامر گزدر

کتبِ حدیث کے تمام اصلی مراجع عربی زبان میں ہیں جو زیادہ تر عرب دنیا سے شائع ہوتے ہیں۔صحیح بخاری ہو یا صحیح مسلم یا حدیث کی دوسری کوئی بھی کتاب؛ یہ سب کتب مختلف زمانوں میں متفرق شہروں اور پبلشرز کی خدمات سے عربی زبان میں بار با ر شائع ہوتی رہتی ہیں۔اِن اصل کتابوں کے مختلف ایڈیشنز میں احادیث کے نمبروں کا کچھ نہ کچھ فرق بھی قارئین کے سامنےآتا ہے۔

در اصل اِن کتابوں میں احادیث کو اِس طرح نمبر دینا خود ائمۂ محدثین کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدمت بعد میں لوگوں نے پرنٹنگ پریس کے دور میں آکر اِن کتابوں کی طباعت کرتے ہوئے حدیثوں کا حوالہ دینے کے لیے قارئین کی سہولت کے پیش نظر انجام دی ہے۔ اِس کام میں بھی اہلِ علم کی مدد لی گئی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے روایتوں کو گننے کے طریقوں میں علما کا طرزِ عمل مختلف ومتنوع رہا ہے۔ بعض حضرات کتاب میں وارد ہونے والی ہر ہر روایت کو بالترتیب شمار کرتے ہیں۔ بعض نے مکرر روایتوں کو شمار نہیں کیا۔ بعض مرسل احادیث کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں، جب کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے۔ بعض حضرات صرف مرفوع احادیث، یعنی نبی ﷺ کے قول وفعل کی روایتوں کو شمار کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ بعض موقوف ومقطوع روایتوں، یعنی صحابہ وتابعین کے آثار کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی بنا پر اصل مؤلفات کے مطبوعہ مختلف نسخوں میں احادیث کے نمبر ہمیں مختلف بھی ملتے ہیں۔