اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم
مقرر کیے گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے
دور جدید میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی
ایک صورت ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی
ضروریات پر صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر
تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق
کی ذیلی صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم
علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت
کا اظہار کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔
قربانی کے گوشت سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے،
ورنہ پہلی شریعتوں میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں
جانور کو ذبح کر کے گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس امت پر اللہ نے خاص عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ
محتاجوں کی مدد اور اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب
الٰہی کے لیے جانور ہی ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف
کرنے سے شریعت کا منشا پورا نہیں ہوگا۔
قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔