پاکستانی سیاستدانوں کا خطاب 1970ء کے انتخابات کے موقع پر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستانی سیاستدانوں کا خطاب 1970ء کے انتخابات کے موقع پر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فضل القادر چودھری کا خطاب ( 1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )




فضل القادر چودھری (19 نومبر 1963ء تا بارہ جون 1965ء) پاکستان کی قومی اسمبلی کے پانچویں اسپیکر فضل القادر چودھری 26مارچ 1919ء کو ضلع چاٹگام کے مقام  راؤزن میں پیدا ہوئے۔ 1962ء میں کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اورمرکزی کابینہ میں شامل ہوئے۔ مولوی تمیز الدین کی وفات کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوامی لیگ نے انھیں پاکستان کا حامی ہونے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا جہاں 17 جولائی 1973ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔  

خان عبدالقیوم خان کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )


خان عبد الولی خان کا خطاب ( 1970ء کے انتخابات کے موقع پر اپنی سیاسی جماعت کا منشورپیش کرتے ہوئے )


ایئرمارشل (ر) اصغر خان کا خطاب (1970 ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )


عطاء الرحمان خان کا خطاب (1970 ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )


قائد ملت لیاقت علی خان کا خطاب ( قائد اعظم کی برسی کے موقع پر، جہانگیر پارک کراچی)


نورالامین کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )



نور الامین (بنگالی: নূরুল আমীন) (پیدائش: 15 جولائی 1893ء، وفات: 2 اکتوبر 1974ء) پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے تھا۔ ان کا دورِ وزارتِ عظمیٰ 7 دسمبر 1971ء سے 20 دسمبر 1971ء تک رہا۔ نور الامین پاکستان مسلم لیگ مشرقی پاکستان کے رہنما تھے۔ آپ بنیادی طور پر قانون دان تھے۔ مشرقی پاکستان کے حالات کا آپ کو بہت دکھ تھا اور آپ چاہتے تھے کہ پاکستان قائم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یحییٰ خان جب ڈھاکہ کی شکست کو ابھی چھپا رہا تھا تو انہوں  نے کہا تھا کہ 'ڈھاکہ میں شکست ہو چکی ہے۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا ہے اور تم عیاشیاں کر رہے ہو'[حوالہ درکار ہے]۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد نور الامین مغربی پاکستان ہی میں رہے اور 1974ء میں وفات پائی۔

مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )



عالم دین قصبہ تھانہ بھون (یو۔ پی، بھارت ) میں پیداہوئے۔ دارلعلوم دیوبند سے دینی علوم میں سند فضیلت لی۔ 
تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ ١٩٤٧ء میں کراچی آ گئے اور جیکب لائین میں مسجد تعمیر کرائی۔ حافظ قرآن اور خوش الحان قاری تھے۔ 
١٩٤٨ء میں ٹنڈوالہ یار (سندھ) میں دیوبند کے نمونے پر ایک دارلعلوم قائم کیا۔ مدراس (ہندوستان) میں، جہاں سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ کمالات سے نوازا تھا۔آپ کی تلاوت اور شعر خوانی میں عجیب حسن پایا جاتا تھا کہ سامع مسحور ہوجاتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب ( 1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کے منشور کا اعلان کرتے ہوئے )


عبدالحمید خان بھاشانی کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )




عبد الحمید خان بھاشانی۔ برصغیر کے ممتاز سیاست دان۔ سراج گنج ضلع پٹنہ ’’بہار، بھارت‘‘ میں پیدا ہوئے۔ 12 سال کی عمر میں مشرقی بنگال کے علاوہ تانگیل میں سکونت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد آسام منتقل ہو گئے اور جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینا شروع کیا۔ 1919ء میں تحریک خلافت میں شامل ہو گئے اور 18 ماہ قید و بند میں گزارے۔

شروع میں مولانا کی ہمدردیاں کانگرس کے ساتھ تھیں لیکن جلد ہی کانگریسی لیڈروں سے مایوس ہو گئے اور مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی پرجوش حمایت کرنے لگے۔ پاکستان کے قیام کے وقت آسام مسلم لیگ کے صدر تھے۔ انھی کی کوششوں سے آسام کے ضلع سلہٹ ’’جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘‘ کے مسلمانوں نے 1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔

قیام پاکستان کے بعد مولانا نے لیگی لیڈروں سے بد دل ہو کرعوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1949ء میں عوامی لیگ سے بھی علاحدہ ہو گئے اور اپنی ایک جماعت نیشنل عوامی پارٹی قائم کی۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل گئے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں شیخ مجیب الرحمن کی بھرپور مدد کی۔ مشرقی پاکستان میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں باغیوں کا جو پہلا جتھا فرار ہو کر بھارت پہنچا اس میں بھاشانی بھی شامل تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد واپس آ گئے اور ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اکتوبر 1976ء میں پیرانہ سالی کے سبب عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ شعلہ نفس اور سیماب طبع بزرگ تھے۔

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی ؒ کا خطاب ( 1970ء کے انتخابات کے موقع پراپنی سیاسی جماعت کا منشورکرتے ہوئے)