حکمت اقبال، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حکمت اقبال، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
لہٰذا مغربی تہذیب یا تو مٹ جائے گی یا پھر اس عقیدہ کو اپنا کر فلسفہ خودی سے جو قرآن حکیم کا بنیادی فلسفہ ہے ہمکنار ہو جائے گی اور اسلامی تہذیب کے نام سے تا قیامت زندہ رہے گی۔
(نظریات و علوم مروجہ کی علمی اور عقلی خامیوں کی مزید تفصیلات کے لئے قارئین میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر ملاحظہ فرمائیں)

خودی اور فلسفہ سیاست، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ سیاست
خودی کی فطرت ہمیں اس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ انسان کی ہر فعلیت کی طرح اس کی سیاسی فعلیت بھی خدا کی جستجو اور خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب خودی کا جذبہ اپنے صحیح اور فطری مقصود اور مطلوب یعنی خدا کی طرف راستہ نہیں پا سکتا تو کسی قائم مقام غلط تصور کے راستہ سے اپنا اظہار پانے لگتا ہے۔ جب ایک ہی نصب العین کو چاہنے والے افراد اپنے مشترک نصب العین کی جستجو کے لئے ایک قائد کے ماتحت متحد اور منظم ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ریاست کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ریاست اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ماتحت اپنے نصب العین کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق تعلیمی، اخلاقی، مالی، زراعتی، صنعتی، تجارتی، قانونی اور فوجی ادارے قائم کرتی ہے۔ ان اداروں کا کام ان کے مقاصد کے لحاظ سے اتنا ہی اچھا یا برا ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس پر ریاست اور اس کے یہ ادارے قائم ہوتے ہیں۔ اگر ایک ریاست خدا کے نصب العین پر مبنی نہ ہو تو چونکہ اس کا نصب العین اس کے افراد کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکتا وہ ریاست ناپائیدار ہوتی ہے۔ کیونکہ اس ریاست کے افراد زود یا بدیر اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے نصب العین کو چھوڑ کر کسی اور زیادہ تسلی بخش نصب العین کو اختیار کریں۔ ایک پائیدار اور کامل ریاست وہی ہوتی ہے جو خدا کے نصب العین پر مبنی ہو کیونکہ یہ واحد نصب العین ہے جو کامل بھی ہے اور پائیدار بھی ایسی ریاست کے تعلیمی، اخلاقی، فنی، علمی،صنعتی، تجارتی، مالی، زرعی، اطلاعاتی، قانونی اور فوجی ادارے اس کے بلند نصب العین کے بلند مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور وہ ان کو پورا کرتے ہیں یہاں تک کہ ریاست ہر لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اپنے حسی صداقت کے بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد کی وجہ سے مغرب کے حکمائے سیاست خدا کے تصور کو جو فلسفہ سیاست کی بلکہ انسانی اشغال کے تمام فلسفوں کی روح ہے اپنی کتابوں میں راہ پانے نہیں دیتے۔
خودی اور فلسفہ تعلیم
مغرب کے حکمائے تعلیم اس حقیقت پر متفق ہیں کہ تعلیم ایک نشوونما کا عمل ہے جس سے کوئی چیز انسان کے اندر بڑھتی اور پھولتی ہے لیکن افسوس کہ انہوں نے اس حقیقت کے علمی اور عقلی نتائج اور مضمرات پر غور نہیں کیا اور علمی تحقیق اور تجسس سے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ تعلیم سے انسان کے اندر جو چیز نشوونما پاتی ہے وہ کیا ہے۔ اس کے اوصاف و خواص کیا ہیں کون سا ماحول اس کی نشوونما کے لئے مفید ہے اور کون سا مضر۔ اس کی نشوونما کے لئے کون سی چیز غذا کا حکم رکھتی ہے اور کون سی چیزیں حیاتین اور پروتین اور قلزات کا کام دیتی ہیں اور وہ چیز آخر کیوں نشوونما پاتی ہے اور ارتقائے عالم کے ساتھ اس کی نشوونما کا کیا تعلق ہے۔ جس طرح قدرت نے انسان کے بدن کی نشوونما کے لئے انسان سے باہر سورج اور چاند اور مینہ برسانے والے بادل اور ہوا اور پانی اور زمین اور قدرتی کھاد اور انسان کے اندر خوراک کی اشتہا اور کھیتی باڑی کرنے اور غلہ اگانے کی صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔ کیا اسی طرح سے قدرت نے اس چیز کی نشوونما کے لئے بھی کوئی اپنا اہتمام کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ تعلیم سے نشوونما پانے والی چیز انسان کا بدن نہیں بلکہ اس کی شخصیت ہے یہی شخصیت انسان کی خودی ہے اور خودی کا مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کا مطلوب اور مقصود اور محبوب خدا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی صحیح تعلیمی نشوونما صرف ایک سمت میں ممکن ہے اور وہ خدا کے نصب العین کی سمت ہے اور یہ تعلیمی نشوونما بیک وقت خودی کی نشوونما بھی ہے اور خدا کی محبت کی نشوونما بھی خودی ایک ایسے تعلیمی ماحول میں تربیت پا سکتی ہے جو خدا کی محبت کو ترقی دینے کے لئے سازگار ہو۔ انسان کا جسم غذا کو جذب کر کے تربیت پاتا ہے لیکن انسان کی خودی حسن کو جذب کر کے تربیت پاتی ہے۔ حسن کا مبداء اور منتہا ء خدا ہے۔ خدا کی صفات حسن گویا خودی کی غذا کے اندر حیاتین اور پروتنیات کا حکم رکھتی ہیں۔ اگر کوئی نصب العین ان صفات سے عاری ہو گا ( اور خدا کے سوائے ہر نصب العین ان صفات سے عاری ہوتا ہے) تو وہ خودی کی تربیت نہ کر سکے گا لہٰذا معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کے سوائے اور کسی نصب العین کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تعلیم کی بنیاد نہ بننے دے۔ خودی کی تربیت پر انسان کی تکمیل اور تخلیق اور ارتقائے کائنات کے مقصد کی کامیابی کا دار ومدار ہے۔ لہٰذا خدا نے خودی کی تربیت کے لئے اپنا اہتمام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف سے خودی کی فطرت میں آرزوئے حسن رکھی ہے جو خدا کی محبت سے اطمینان پاتی ہے اور دوسری طرف سے نبوت کے سلسلہ کو شروع کر کے ایک خاص نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں جو آخری نبی ہیں کمال پر پہنچایا ہے تاکہ ہر انسان ان کی مکمل نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مکمل مثال سے خدا کی محبت کے طور طریقوں کو سیکھ کر اپنی خودی کی تشفی اور تربیت کر سکے۔ خودی کے لئے حسن کا جذب کرنا سچے خدا کی مخلصانہ عبادت کرنے، سچے خدا کی رضا مندی کے لئے نیکی کرنے اور سچے خدا کو جاننے کے لئے علم کی جستجو کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا تعلیم کے یہ تین بڑے ستون ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی تعلیم کی عمارت کو شکستہ کرنے اور خودی کی نشوونما کو نقصان پہنچانے کے بغیر گرایا نہیں جا سکتا۔
مغرب کے حکمائے تعلیم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر قوم یا سوسائٹی کا نصب العین الگ ہوتا ہے اور ہر قوم یا سوسائٹی کا نظام تعلیم بھی جو ان کے نصب العین کے مطابق ہوتا ہے اور اسی کی محبت کی پرورش کے لئے وجود میں آتا ہے جدا ہوتا ہے۔ ہر سوسائٹی کے افراد کی تعلیم کے ذریعہ سے اپنی نئی نسل کو اپنے قومی نصب العین کی محبت اور اس کی تشفی کے لئے اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی قابلیتوں کا وارث بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قوم ایک خاص نصب العین کی پرستار کی حیثیت سے صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مغرب کے حکماء ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کہ شخصیت انسانی کی مکمل اور آزادانہ نشوونما صرف خدا کے نصب العین کے ماتحت ممکن ہے اور اس کی وجہ پھر ان کا یہی بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد ہے کہ خدا کا تصور حسی دنیا سے ماوراء ہے لہٰذا دائرہ علم میں لایا نہیں جا سکتا۔
جب کسی قوم کا نصب العین خدا نہ ہو تو اس کے فرد کی خودی قوم کے مشترک غلط اور ناقص نصب العین کی طرف نشوونما پاتی ہے۔ جو حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف سے بہرہ ور نہیں ہوتا اور اس کی تعلیمی نشوونما اتنی ہی غلط اور ناقص ہوتی ہے جتنا کہ یہ نصب العین غلط اور ناقص ہوتا ہے وہ بھی ایک طرح کی عبادت کرتا ہے لیکن اپنی عبادت سے حسن کو جذب نہیں کرتا کیونکہ اس کی عبادت ایک ایسے معبود کے لئے ہوتی ہے جس حسن سے عاری ہوتا ہے وہ بھی اخلاقی اعمال میں مشغول ہوتا، لیکن اس کے اخلاقی اعمال صفات حسن کے مطابق نہیں ہوتے۔ وہ بھی علم کی جستجو کرتا ہے، لیکن وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے دریافت کئے ہوئے علمی حقائق اس کے غلط نصب العین سے مطابقت رکھیں گے اسی پر روشنی ڈالیں گے اور اسی کی معرفت میں اضافہ کریں گے۔ لہٰذا وہ کئی سچے علمی حقائق تک یا تو پہنچ ہی نہیں سکتا یا پہنچتا ہے تو ان کو غلط اور بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس کی تعلیمی نشوونما غلط سمت میں ہوتی ہے اور صرف اس کے غلط اور ناقص نصب العین کی محبت میں اضافہ کرتی ہے۔

خودی اور علم الاقتصاد، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور علم الاقتصاد
علم الاقتصاد انسان کی اس فعلیت کی سائنس ہے جس کے ذریعہ سے وہ دولت کو پیدا کرتا تقسیم کرتا اور صرف کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے اقتصاد نے جن میں کارل مارکس بھی شامل ہے۔ علم الاقتصاد کو اس طرح سے مدون کیا ہے گویا انسان فقط ایک اقتصادی روبٹ یا مشین ہے اور اس کے علاوہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی وجہ انسانی خودی کے اسرار سے ان کی ناواقفیت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی اقتصادی فعلیت جس منبع سے صادر ہوتی ہے وہ وہی ہے جس سے اس کی تمام دوسری فعلیتیں صادر ہوتی ہیں۔یعنی خودی کا جذبہ محبت جس کا فطری مقصود سوائے خدا کے اور کچھ نہیں انسان کی اقتصادی فعلیت کی فطری غرض و غایت بھی انسان کی دوسری فعلیتوں کی طرح جسم کے قیام اور بقاء کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی ہے اور دولت آفرینی، تقسیم دولت اور صرف دولت ایسے اعمال و افعال کی فطری اہمیت فقط یہ ہے کہ وہ اسی بڑے مقصد کی تکمیل کے ذرائع ہیں۔
اقتصادی انسان فقط اقتصادی انسان ہی نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی انسان، روحانی انسان اور سیاسی انسان بھی ہوتا ہے اس کی اقتصادی، اخلاقی، روحانی اور سیاسی فعلیتوں میں سے ہر ایک کے اندر اس کی باقی تمام فعلیتیں گم ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کو فقط اقتصادی انسان اور حرص کا پتلا اور دولت کا پرستار فرض کر کے اس کا جو مطالعہ کیا جائے گا وہ درست نہیں ہو گا اور اس کی بنا پر جو نتائج مرتب کئے جائیں گے وہ صحیح نہیں ہوں گے۔ بعض وقت انسان کے نصب العین کے بلند ہونے سے اس کے بظاہر اقتصادی افعال کے محرکات اور دواعی کچھ اس طرح سے بدل جاتے ہیں کہ ان کو محض اقتصادی نقطہ نظر سے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب انسان کی اقتصادی فعلیت خدا کے نصب العین کے ماتحت نہ ہو تو وہ کسی غلط ناقص اور باطل نصب العین کے ماتحت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اس کے اندر وہ تمام خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کو جلب منفعت، استحصال اور مزدور کی حق تلفی وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغرب کی بے خدا سوسائٹی کے اقتصادی مشاغل میں یہ تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اس صورت حال کے رد عمل کے طور پر ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کارل مارکس نے جو حل پیش کیا۔ اسے سائنٹفک سوشلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حل مصنوعی، غیر فطری، جبری اور خارجی ہے اور انسان کی فطرت سے مزاحم ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ زود یا بدیر خود بخود ناکام ہو جائے۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کا فطری اور کامیاب طریق یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ سے سوسائٹی کو باخدا بنایا جائے۔ اور اس طرح سے ان کے نصب العین کو جو ان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے ان کی فطرت کے مطابق کر دیا جائے۔
حسی صداقتوں کا عقیدہ اور مغربی تہذیب کی ناگزیر تباہی
مغربی حکماء کے اس عقیدہ نے کہ صداقت وہی ہے جسے حواس کے ذریعہ سے معلوم کیا جا سکے نہ صرف مغربی علوم کو صحیح اور معیاری علوم کے درجہ سے گرا دیا ہے اور انسان اور کائنات کے ایسے فلسفوں کو جنم دیا ہے۔ تہذیب مغرب کے بعض فریب خوردہ شاید اس بات کو باور نہ کر سکیں۔ اس لئے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ حکیم پروفیسر پٹی رم سوروکن کی کتاب ’’ ہمارے عہد کا بحران‘‘ (The Crisis of our age) سے کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جن سے معلوم ہو گا کہ پروفیسر سورو کن اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مغربی تہذیب ایک ’’ المناک بحران‘‘ میں مبتلا ہے جو عنقریب اس کی ’’ تباہی‘‘ کا موجب ہو گا اور یہ تباہی ’’ دور حاضر کے انسان کے لئے ذلت اور نکبت‘‘ کا پیغام اپنے ساتھ لائے گی۔ وہ لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اس بحران کا سبب یہ ہے کہ مغربی تہذیب
’’ اس اعتقاد کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی کہ سچی صداقت اور سچی نیکی دونوں کلیتہً یا بیشتر حسی یا مادی ہیں۔ ہر وہ چیز جو حواس خمسہ کی گرفت سے بالا ہے بطور صداقت کے فرضی ہے یا تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں یا اگر کوئی وجود ہے تو چونکہ وہ حواس خمسہ سے معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا وہ غیر موجود کے حکم میں ہے۔ چونکہ سچی صداقت اور سچی نیکی کو مادی یا حسی قرار دے لیا گیا تھا ہر وہ چیز جو حواس کے ادراک سے ماوراء تھی خواہ وہ خدا کا تصور تھا یا انسان کا شعور۔ ہر وہ چیز جو غیر حسی اور غیر مادی تھی اور جو روز مرہ کے تجربات سے دیکھی، سنی، چکھی، چھوئی یا سونگھی نہیں جا سکتی تھی۔ ضروری تھا کہ اسے غیر حقیقی، غیر موجود اور بے سود قرار دیا جاتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اس شجرکاری کا پہلا زہر آلود پھل یہ تھا کہ سچی صداقت اور سچی نیکی کے دائرہ کو مہلک حدود تک محدود کر دیا گیا اور جب تہذیب ایک بار اس راستہ میں داخل ہو گئی تو پھر اس کو اسی راستہ پر آگے جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صداقت اور نیکی کی دنیا ہر روز اور زیادہ حسیت اور مادیت کے تنگ سانچوں میں ڈھلتی گئی۔‘‘
سوروکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ دور حاضر کی حسیت زدہ تہذیب (Sensate Civilization) کو موت کے منہ سے بچانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جس قدر مکمل ہو وہ اپنے حسیت نواز بنیادی مفروضہ کو بدل کر اس کی جگہ کسی روحانی مفروضہ کو اپنی بنیاد بنائے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس’’ حسیت زدہ تہذیب کے تمام عقیدوں اور اس کی تمام قدروں کا نئے سرے سے گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی خارج از وقت کاذب اقدار کو رد کیا جائے اور ان سچی قدروں کو بحال کیا جائے جو اس نے رد کر دی ہیں۔۔۔۔ مذہب اور سائنس کا موجودہ اختلاف حد درجہ تباہ کن ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر سچی صداقت اور سچی نیکی کے معقول اور تسلی بخش نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس دونوں ایک ہی ہے اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ قادر مطلق خدا کی صفات کو اس مرئی دنیا کے اندر آشکار کی اجائے تاکہ خدا کے نام کا بول بالا ہو اور انسان کی عظمت پایہ ثبوت کو پہنچے۔‘‘
خودی کی فطرت پر نگاہ رکھنے والے لوگ محترم پروفیسر سوروکن کو پورے اعتماد کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ وہ روحانی عقیدہ جو نہایت معقولیت کے ساتھ مغرب کے حسی اور مادی عقیدہ کی جگہ لے سکتا ہے اور مغربی تہذیب کو موت کے منہ سے بچا سکتا ہے یہ ہے کہ ’’ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو بھٹک کر کسی غلط نصب العین کی صورت میں اپنا اظہار کرنے لگتی ہے۔‘‘ یہ بیان علمی زبان میں لا الہ الا اللہ کا ترجمہ ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
لہٰذا مغربی تہذیب یا تو مٹ جائے گی یا پھر اس عقیدہ کو اپنا کر فلسفہ خودی سے جو قرآن حکیم کا بنیادی فلسفہ ہے ہمکنار ہو جائے گی اور اسلامی تہذیب کے نام سے تا قیامت زندہ رہے گی۔
(نظریات و علوم مروجہ کی علمی اور عقلی خامیوں کی مزید تفصیلات کے لئے قارئین میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر ملاحظہ فرمائیں)

٭٭٭

خودی اور فلسفہ اخلاق (Ethics)، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ اخلاق (Ethics)
انسان کے اخلاقی افعال بھی خودی کے عمل کی قوت محرکہ یعنی خدا کی محبت کے مظاہر ہیں۔ جب خدا کی محبت کا فطری جذبہ بھٹک کر ایک غلط نصب العین کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تو انسان کے اخلاقی افعال بھی بھٹک کر اس نصب العین کی مطابقت کرتے ہوئے اسی غلط راستہ پر پڑ جاتے ہیں اور غلط ہو جاتے ہیں۔ ہر نصب العین کا چاہنے والا، اپنے نصب العین سے محبت رکھنے کی وجہ سے جانتا ہے کہ اپنی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ کون سا فعل نصب العین کی محبت کی تشفی کر سکتا ہے اور کون سا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ا س نصب العین کے نقطہ نظر سے کون سا فعل صحیح ہے اور کون سا غلط کون سا نیک ہے اور کون سا بد۔ کون سا اچھا ہے اور کون سا برا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نصب العین کا ایک اپنا ضابطہ اوامر و نواہی یا ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو اتنا ہی بلند یا پست یا اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے یہ صادر ہوتا ہے بلند یا پست، اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے یہ صادر ہوتا ہے بلند یا پست، اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ بلند، اچھا اور صحیح ضابطہ اخلاق وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بلند اچھے اور صحیح نصب العین سے پیدا ہو اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ خودی کی فطرت کی رو سے یہ نصب العین خدا ہے۔
مغرب کے فلسفہ اخلاق کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسان کے اخلاقی افعال کی غایت الغایات یا ان کو متعین کرنے والا آخری اصول یا سمم بونم(Summum Bonum) کیا ہے۔ اس سوال کا کوئی معقول جواب ابھی تک نہیں دیا جا سکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا معقول جواب خدا ہے اور خدا کا تصور مغرب کے کسی علم میں جگہ نہیں پا سکتا۔ یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ دو نصب العینوں سے بیک وقت محبت نہیں کر سکتا اور نہ ہی بیک وقت دو نصب العینوں کے اخلاقی ضابطوں پر عمل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے فرمایا ہے ہر شخص کو ایک ہی دل دیا گیا ہے اور کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں ہوتے کہ وہ دو الگ الگ نصب العینوں اور دو الگ الگ اخلاقی ضابطوں کو جمع کر کے یہ حقیقت ان لوگوں کے لئے قابل غور ہے جو اسلام کے ساتھ سوشلزم کا جوڑ لگانا چاہتے ہیں یہ جوڑ اس لئے ممکن نہیں کہ سوشلزم اور اسلام دو مختلف نصب العین ہیں اور ان کے اخلاقی ضابطے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ا گر دونوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے گی تو نہ اسلام ہی موثر رہے گا اور نہ سوشلزم فلسفہ اخلاق کے عنوان کے تحت مفصل بحث پہلے گذر چکی ہے۔

خودی اور فلسفہ تاریخ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ تاریخ

تمام انسانی فعلیتیں خودی کے عمل کی قوت محرکہ کے مظاہر ہیں اور تاریخ کا عمل نوع انسانی کی ایک مسلسل فعلیت ہے۔ لہٰذا وہ بھی انسانی اعمال کی قوت محرکہ کا ایک مظہر ہے اور وہ اپنی اسی حیثیت سے صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو اگر بھٹکی ہوئی ہو تو کسی غلط نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے سارے واقعات جن سے افراد کی زندگیاں اور انسانی قبیلوں، گروہوں، قوموں، بادشاہوں، سلطنتوں اور ریاستوں کی سیاسی، قانونی، اخلاقی، تعلیمی، علمی، فنی اور جنگی سرگرمیاں اور قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں تشکیل پاتی ہیں۔ خدا کی صحیح یا غلط جستجو کے مظاہر ہیں جو کبھی سچے خدا کی جستجو کے ضمن میں رونما ہوتے ہیں اور کبھی خدا کے کسی قائم مقام غلط نصب العین کی محبت کی تشفی کی سلسلہ میں ظہور پاتے ہیں۔ ہر ریاست اور ہر تہذیب کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے اگر وہ کسی غلط نصب العین پر مبنی ہو گی تو انسان کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکے گی اور لہٰذا ناپائیدار ہو گی۔ لیکن اگر وہ صحیح نصب العین یعنی خدا کے نصب العین پر مبنی ہو گی تو پھر وہ جس حد تک اس پر مبنی ہو گی مستقل اور پائیدار ہو گی یہ حقیقت ایک صحیح معقول اور مدلل فلسفہ تاریخ کے مرکزی تصور کا درجہ رکھتی ہے۔ تاریخ کا کوئی فلسفہ جو اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہو۔ صحیح اور معقول اور مدلل نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کے جو فلسفے آج تک مغرب میں لکھے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور لہٰذا ان میں سے کوئی بھی صحت اور معقولیت کے معیاروں پر پورا نہیں اترتا۔ ان فلسفوں میں سب سے زیادہ مشہور سپنگلر، ٹائن بی، سوروکن، ڈینی لیوسکی اور کروبر کے فلسفے ہیں۔ اس عنوان کے ماتحت مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے۔

خودی اور وجودیت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور وجودیت
وجودیت (Existentialism) کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کے عملی علاج کو زیر بحث لاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے مبلغین کے خیالات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خدا کو مانتے ہیں اور عیسائیت کی تعلیم کو قبول کر کے آگے چلتے ہیں اور بعض خدا کے منکر ہیں اور عیسائیت سے بیزار ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ایک عقلی نظام کی حیثیت سے وجودیت کا فکر اپنی کسی شکل میں بھی فلسفہ خودی کا مد مقابل یا حریف نہیں۔ فلسفہ خودی ایک عقلی اور علمی نظام ہے اور عقل اور علم کی روشنی میں ہی انسانی شخصیت کی علمی مشکلات کو سمجھتا اور سمجھاتا ہے اور ان کا واحد اور صحیح اور کافی اور شافی علاج پیش کرتا ہے۔ وجودیت کے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا بریٹا نیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
’’ وجودیت ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو پہلی عالمگیر جنگ کے چند سال بعد جرمنی میں ظہور پذیر ہوا اور بعد میں فرانس اور اٹلی میں پھیل گیا یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے فوراً بعد یہ نہ صرف وہاں کے علمی حلقوں میں اثر پیدا کر چکا تھا بلکہ ادبی قہوہ خانوں اور نیم مقبول اخباروں اور رسالوں میں بھی عام طور پر زیر بحث آتا تھا۔ چونکہ یہ کوئی فلسفیانہ مکتب نہیں بلکہ ایک رحجان خیال یازاویہ نگاہ کا نام ہے۔ ایسے عقائد بہت کم ہیں جو اس کے تمام مبلغین کے درمیان مشترک ہوں لیکن اس کی ایک عام خصوصیت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ وہ کائنات کے ایسے نظریات اور کام کے ایسے طریقوں کے خلاف ایک احتجاج ہے جن میں انسانی افراد کو تاریخ کی قوتوں کے بے بس کھلونے سمجھ لیا گیا ہو یا یہ باو رکر لیا گیا ہو کہ وہ قوانین قدرت کے اعمال کا نتیجہ ہیں تمام وجود دیتی مصنفین کسی نہ کسی شکل میں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی آزادی اور اہمیت کی حمایت کریں۔ اسی طرح سے وہ سب کے سب انسانی عقل کے برخلاف انسانی ارادہ یا عزم (Will) پر زور دیتے ہیں۔‘‘
کیئر کیگارڈ کا فکر
دور حاضر کی وجودیت کا پیش رو پاسکل (Pascal) (1662-1613) تھا لیکن سورن آبے کیئر کیگارڈ(Saren abye Kierkegaard) (1813-1855) پہلا مفکر ہے جس نے وجود (Existence) کے لفظ کو وہ معنی پہنائے جو اسے وجودیتی فکر کی ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت دئیے جاتے ہیں لہٰذا وہی دور حاضر کی وجودیت کا بانی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تمام وجودیتی حکماء خواہ وہ دہریہ ہوں یا قائلین مذہب اپنے شدید اختلافات کے باوجود اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کیئر کیگارڈ کی تصنیفات کو اس کی زندگی میں تو فقط مقامی شہرت ہی حاصل ہو سکی لیکن جب 1909ء اور 1913ء کے درمیان ان کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا تو ان کا اثر پورے یورپ میں پھیلنے لگا۔
کیئر کیگارڈ انسان کی حقیقت (Essence) اور انسان کے وجود (Existence) میں فرق کرتا ہے جس طرح اینٹ ہونا ایک اینٹ کی حقیقت ہے اسی طرح انسان ہونا ایک انسان کی حقیقت ہے لیکن انسان کا وجود وہ قلبی واردات اور کیفیات ہیں۔ وہ خواہشات اور احساسات اور جذبات ہیں۔ وہ تمنائیں آرزوئیں اور امیدیں ہیں۔ وہ پشیمانیاں اور حسرتیں ہیں اور وہ پریشانیاں اور مایوسیاں اور صدمے ہیں اور وہ رحمتیں اور خوشیاں اور مسرتیں ہیں جن میں سے انسان کی شخصیت گزرتی ہے۔ ہر انسان کا وجود ایک داخلی یا اندرونی شے ہے جس کا کسی دوسرے انسان کو علم نہیں۔ انسان کا وجود اس کی داخلیت یا موضوعیت کا نام ہے اس کی معروضی حقیقت کا نام نہیں۔ ہر انسان کا وجود بے مثل اور بے نظیر ہے اور اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ آزاد ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور اپنی راہیں خود چنتا ہے انسان کا ہر فیصلہ اگر غلط ہو تو اسے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر اپنی ذات کی طرف سے بڑی بھاری ذمہ داری اس بات کی عائد ہوتی ہے کہ اس کے فیصلے صحیح ہوں۔ کیئر کیگارڈ کو اعتراض ہے کہ فلسفیوں نے حقیقت انسان پر بڑی بحثیں کی ہیں لیکن انسان کے وجود کو جو زیادہ اہم ہے نظر انداز کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ فلسفہ خودی جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی گتھیوں کو بھی سلجھاتا ہے اس اعتراض سے بالا ہے۔ کیئر کیگارڈ کے فکر کو عیسائیت کا تصوف کہنا چاہئے۔ اس نے شخصیت انسانی کے بعض چھپے ہوئے گوشوں کو بے نقاب کر کے ایسے سوالات پیدا کئے ہیں جن کا صحیح جواب فقط فلسفہ خودی ہی دے سکتا ہے لہٰذا اس کے وجودیتی فکر نے دراصل فلسفہ خودی کی عالمگیر اشاعت کے لئے راستہ صاف کیا ہے۔
سارٹر کا فکر
اس زمانہ کا سب سے زیادہ نامور وجودیتی مفکر جین پال سارتر(Jean paul sartre) ہے۔ پچھلے چند سالوں میں وجودیت کا لفظ اسی کی تصنیفات کے ذریعہ سے مشہور ہوا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے اس کے ناولوں، ڈراموں اور مقالوں کو پڑھا ہے اور لہٰذا عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وجودیت سے مراد اسی کی پیش کی ہوئی لاشیئیت ہے جس میں خدا اور مذہب اور اخلاق کا انکار شامل ہے۔ اس وقت عام انسان بہت کم جانتا ہے کہ وجودیت کی ابتداء کیئر کیگارڈ کے فکر میں عیسائیت کے ایک تصوف کی شکل میں ہوئی تھی اور وہی اس کی اصل ہے۔ چونکہ اصل وجودیت انسانی شخصیت کی آزادی پر زور دیتی ہے۔ سارتر ایسے دور حاضر کے بعض بے خدا مفکرین کو یہ بات ہاتھ آ گئی ہے کہ آزادی کے احساس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس یقین پر پہنچ جائے کہ وہ خود مختار اور خود مکتفی ہے اور اس کا خدا پر بھروسہ کرنا ایک قسم کی غلامی ہے۔ جب تک انسان خدا اور مذہب اور اخلاق سے بھی آزاد نہ ہو وہ پوری طرح سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ ایسا وجودیتی فکر شخصیت انسانی کی مشکلات کا علاج کرنے کی بجائے اس کی مشکلات کو انتہا تک پہنچاتا ہے اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایک مجنونانہ جرات کے ساتھ انتہائی مایوسی، مصیبت، خلائ، تاریکی اور موت کا سامنا کر کے اپنے آپ کو فنا کر دے۔ لیکن فلسفہ خودی اس قسم کے غلط اندیش اور بے راہ رو وجودیتی مفکرین کو بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت ایسی ایک متحرک چیز کی آزادی کس سمت کو چاہتی ہے اور وہ اس کی تکمیل ہی کی سمت ہو سکتی ہے جو اس کی محبت کی کامل تشفی کرنے والے کامل تصور کی نشاندہی کرتی ہو اور یہ تصور خدا کے سوائے کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا انسان کی آزادی کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی محبت کے لئے آزاد ہو اور خدا کی محبت سے انسانی شخصیت اس بات کی عملی تحقیق کر لیتی ہے کہ وہی اس کی مشکلات کا تسلی بخش علاج ہے۔
عیسائیت اور لادینیت کی کشمکش
اس طرح وجودیت کے فکر کا مطالعہ دور حاضر میں عیسائیت اور بے خدائیت کی بنیادی کشمکش کی واضح تصویر پیش کرتاہے۔ اس تحریک میں دونوں طرف کے مفکرین حصہ لے رہے ہیں اور کچھ ایسے مفکرین بھی شامل ہیں جن کا موقف بین بین ہے۔ ایک انتہا پر جبریل مارسل (Gabriel Marcel) فرانسیسی رومن کیتھولک نکولاس برڈی ایو(Nicolas Bergyaev) روسی کٹر عیسائی مارٹن بوبر (Martin Buber) یہودی فلسفی اور کئی پروٹسٹنٹ مفکرین ہیں، جن کو وجودیت کا فکر اپنے مذہبی اعتقاد کی تصدیق اورتفہیم کا ایک موثر ذریعہ نظر آتا ہے اور دوسری انتہا پر مارٹن ہیڈیگر (Martin Heidegger) اور سارتر (Sartre) ایسے مفکرین ہیں جو پکے دہریہ ہیں۔ کارل جاسپرز(Karl Jaspers) دہریہ نہیں لیکن عیسائیت کے مرکزی عقائد پر حملے کرتا ہے۔
تاہم وجودیت اپنی تمام قسموں کے سمیت فلسفہ خودی کے ساتھ اس بات میں اشتراک رکھتی ہے کہ وہ فرد کی آزادی کی علمبردار ہے اور ان سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ انسانی شخصیت کیا ہے اور کیا چاہتی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اور اسے تامرگ کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں ایساکیوں ہے کہ ہر فرد ان مسائل کو فقط اپنی ہی کوشش اور جدوجہد سے حل کر سکتا ہے اور کسی دوسرے فرد کے حل کو مستعار نہیں لے سکتا۔ لیکن ان سوالات کا صحیح اور تسلی بخش جواب فقط فلسفہ خودی سے مل سکتا ہے جس کی تشریح اس کتاب میں کی گئی ہے۔
فکر وجودیت کا انتشار
وجودیت کے فکر میں اتنا انتشار ہے کہ اس کی عارضی اور مشروط تعریف کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجودیتی مفکرین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے فکر میں کوئی عقلی تنظیم یا ترتیب موجود ہو۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کا مقالہ نگار اپنے مقالہ کے آخر میں لکھتا ہے:
’’ وجودیتی فکر کے خلاف جو اعتراض اکثر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وجودیت ایک قسم کی نامعقولیت(Irrationalism) ہے۔ یہ ایک ایسی حریت پسندی ہے جو اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ انسانی معاشرہ میں قوانین قدرت کے عمل سے ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور اس بات سے نا امید ہے کہ انسان ترقی کر کے کمال پر پہنچ سکتا ہے۔‘‘
وجودیت کے برعکس فلسفہ خودی کا موقف یہ ہے کہ انسان ترقی پذیر ہے اور ایک دن اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچے گا۔ کائنات کی ہر چیز کے اندر ایک نظم ایک قاعدہ اور ایک مدعا رکھا گیا ہے اور ہر چیز ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ انسانی شخصیت کائنات میں کسی بڑے نظم کے اندر اپنا مقام نہ رکھتی ہو۔ مقصد یا مدعا کے بغیر ہو اور متحرک ہونے کے باوجود کسی منزل کمال پر نہ پہنچ سکتی ہو۔ وجودیت کی یہ غلط فہمی کہ انسانی شخصیت قوانین قدرت کے عمل سے ترقی نہیں کر سکتی در حقیقت اس کے عیسائیت پسند بانیوں کے فکر میں نمودار ہو کر آگے منتقل ہوئی ہے اور اس کا سبب عیسائیت کی یہ تعلیم ہے کہ انسانی شخصیت اور قدرت کے درمیان ایک مستقل تضاد ہے جو رفع نہیں کیا جا سکتا۔

وجودیت اس مسئلہ سے الجھتی ہے کہ انسانی شخصیت ہونے کے معنی کیا ہیں لیکن فلسفہ خودی یہ بتا کر کہ انسانی شخصیت خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جو ذکر اور فکر اور فعل جمیل کی مداومت سے مکمل تشفی حاصل کر سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرتا ہے جیسا کہ اس پوری کتاب کے مطالعہ سے قارئین پر آشکار ہو گا فلسفہ خودی میں انسانی حقیقت اور انسانی وجود الگ الگ نہیں رہتے بلکہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں اور فلسفہ خودی وجودیت کہ ہر سچائی اور روشنی سے آراستہ اور ہر غلطی اور تاریکی سے مبرا ہو کر وجودیت سے بہت دور آگے نکل جاتا ہے۔

خودی اور منطقی اثباتیت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور منطقی اثباتیت
حکمائے مغرب کا یہ غیر عقلی عقیدہ کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہمارے حواس براہ راست دریافت کر سکیں جن غلط فلسفوں کو وجوہ میں لانے کا باعث ہوا ہے ان میں سے ایک منطقی اثباتیت یا لاجیکل پازیٹوزم کا فلسفہ بھی ہے۔ پروفیسر اے ار کارنپ (Ayer Carnap) رائیل (Rule) اور وذڈم (Wisdom) وغیرہ حکماء اس کے مشہور مبلغوں میں سے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق
’’ سائنسی (یعنی حسی۔ مصنف) علم ہی حقائق (Factual) علم ہے اور تمام روایتی اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ علم کی آخری بنیاد ذاتی احساس پر نہیں بلکہ تجربہ اور تصدیق پر ہے۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)
اس حوالہ میں تین دعوئے کئے گئے ہیں۔
اول: حسی علم ہی حقائقی علم ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی علم حقائقی علم نہیں۔
دوم: ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں
سوم: علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ منطقی اثباتیت کے حکماء کو یہ علم کیسے حاصل ہوا کہ حسی علم ہی حقائقی علم ہے۔ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں اور علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ کیونکہ اس علم کو ان حکماء میں سے کسی نے بھی سائنسی طریق تحقیق یا تجربہ سے حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو تصدیق کے عمل میں سے گزارا ہے اور نہ ہی کوئی اس کو کسی اور بنا پر حواس کے تجربات میں سے شمار کر سکتا ہے لہٰذا ان دعوؤں میں سے ہر ایک خود ایک ما بعد الطبیعیاتی عقیدہ ہے اور ان حکماء کے اپنے قول کے مطابق بے معنی ہے۔ منطقی اثباتیت کے قائلین ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ لیکن خود ایسے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ان کا مطلب دراصل یہ ہے کہ لوگ دوسرے مابعد الطبیعیاتی فلسفوں کو چھوڑ کر صرف ان کے پیش کئے ہوئے ما بعد الطبیعیاتی فلسفہ کو تسلیم کریں۔
ایک حسی حقیقت کا اعتراف
انسائیکلو پیڈیا کے اس حوالہ میں علم کا ذکر ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اثباتیت کے حکماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک چیز ایسی بھی موجود ہے جسے علم کہا جاتا ہے۔ مثلاً ان حکماء کا یہ علم ہی حقائقی علم ہے یا یہ علم کہ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں یا یہ علم کہ علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ ہم بعض چیزوں کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے جانتے ہیں۔ لیکن ان کے علم کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے نہیں جان سکتے۔ میرے سامنے کرسی ایک خاص جگہ پر پڑی ہے لہٰذا اسے دیکھا جا سکتا ہے لیکن کرسی کی موجودگی کا علم جو کرسی کو دیکھنے کا نتیجہ ہے کسی خاص جگہ پڑا ہوا نہیں۔ لہٰذا اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تاہم دنیا کی دوسری حقیقتوں کی طرح وہ بھی ایک حقیقت ہے جو اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ دنیا کی دوسری حقیقتوں کو جاننے کے لئے اس کا وجود ایک ضروری شرط ہے اس سے انکار ممکن نہیں کہ علم ایک حقیقت ہے لیکن وہ حسی حقیقت نہیں وہ حسی صداقتوں کا علم ہو تو پھر بھی ایک حسی صداقت نہیں ہوتا لہٰذا منطقی اثباتیت کے حکماء کا یہ کہنا درست نہیں کہ سارا علم حسی حقائق کا علم ہے۔
بالواسطہ علم سے انکار ممکن نہیں
اثباتیت کے قائلین اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کسی چیز کا علم ہمیں حواس کے براہ راست مشاہدہ سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے آثار ونتائج کے براہ راست مشاہدہ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ آگ اور دھواں الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ دونوں کے اوصاف و خواص الگ الگ ہیں اور ہم دونوں کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دونوں سے الگ الگ برتاؤ کرتے ہیں اس کے باوجود اگر دور سے آگ نظر نہ آتی ہو تو ہم دھوئیں کو دیکھنے سے آگ کی موجودگی کا یقینی علم حاصل کر لیتے ہیں۔ دھوئیں کا حسی علم آگ کے غیر حسی علم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اثباتیت کو کہنا چاہئے کہ آگ کا علم ما بعد الطبیعیاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آگ کا علم دھوئیں کے علم سے کم یقینی نہیں اگرچہ حال میں ایک خاص قسم کی خوردبین کے ذریعہ سے ایٹم کو دیکھا گیا ہے لیکن ایٹم کا جس قدر علم سائنس دانوں کو اس وقت حاصل ہے وہ ایٹم کو براہ راست دیکھنے کے بغیر اور فقط اس کے آثار و نتائج کو براہ راست دیکھنے سے حاصل ہوا ہے۔ آج کون کہہ سکتا ہے کہ ایٹم کا علم یقینی نہیں یہ علم اس قدر یقینی ہے کہ اس کی مدد سے ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ علم غیر حسی ہے خودی اور خدا کا علم بھی اسی طرح سے غیر حسی ہونے کے باوجود یقینی ہے کیونکہ اس کی طرف خودی اور خدا کے وجود کے حسی نتائج و اثرات راہنمائی کرتے ہیں۔
جب میں ایک کرسی کو دیکھتا ہوں تو میرے حواس کچھ حسی اثرات قبول کرتے ہیں لیکن یہ حسی اثرات کرسی نہیں پھر وہ کون سی چیز ہے جو ان کو منظم کر کے ایک معنی پہناتی ہے اور اس وحدت کی شکل دیتی ہے جسے میں کرسی کا نام دیتا ہوں یہ چیز میرا شعور یا خودی ہے اثباتیت کے قائلین حسی اثرات کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں لیکن اگر خودی ان اثرات کو کوئی معنی نہ پہنائے اور یہ فیصلہ صادر نہ کرے کہ یہ اثرات مل کر مثلاً کرسی بنتے ہیں تو ان سے کوئی علم پیدا نہیں ہو سکتا۔
فرض کیا کہ صرف حسی علم ہی علم ہے اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں۔ لیکن یہ بے معنی یا با معنی ہونے کا یا علم یا غیر علم ہونے کا امتیاز کون کرتا ہے۔ اگر منطقی اثباتیت کے دعویٰ بلا دلیل کے مطابق خودی کو حسی مشمولات(Sense-Contents) کہا جائے تو کیا ان مشمولات کا کام یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ علم کیا ہے اور کیا نہیں۔ بامعنی کیا چیز ہے اور کیا نہیں اثباتیت کے قائلین مانتے ہیں کہ خودی سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھتی ہے لیکن اگر یہ خودی حسی مشمولات کے سوائے اور کچھ نہیں تو کیا ان مشمولات کے لئے ممکن ہے کہ وہ سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھیں اور انسان کی زندگی کے سارے جذبات اور احساسات کا منبع اور اس کے بڑے بڑے منصوبوں اور ارادوں کا مرکز اور تاریخ کے سارے واقعات کا سرچشمہ بنیں۔
تعصب اور تحکم
لارڈ جوڈ (Joad) اپنی کتاب ’’ منطقی اثباتیت کی تنقید‘‘ (A Critique of Logical Positivism) میں لکھتا ہے:
’’ نئے الہامی مذاہب کے مبلغوں میں دو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تعصب اور دوسرے بے دلیل دعاوی۔ منطقی اثباتیت میں یہ دونوں خصوصیتیں موجود ہیں۔۔ نا ممکن ہے کہ ہم منطقی اثباتیت کی کتابیں پڑھیں اور یہ اثر نہ لیں کہ ان میں بار بار بے دلیل بیانات کا اعادہ کیا گیا ہے۔ مثلاً تصدیق کا اصول اور اخلاق کا جذباتی نظریہ یا منطقی تعمیرات کا نظریہ ایسے عقائد کو فقط بیان کر دینا ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے گویا کہ وہ خدا کی وحی کے اقتباسات ہیں۔‘‘ (ص12,11)
بیروز ڈن ہام (Barrows Dunham) اپنی کتاب ’’ انسان فرضی کہانیوں کے بالمقابل ‘‘ (Man against Myth) میں لکھتا ہے:
’’ اگر منطقی اثباتیت کا فلسفہ درست ہے تو پھر نہ نوع انسانی موجود ہے۔ نہ نفع کی جستجو ہے نہ کوئی پارٹیاں ہیں۔ نہ فسطائیت ہے۔ نہ بھوکے اور مفلس انسان ہیں۔ نہ کافی جائے رہائش رکھنے والے لوگ ہیں اور نہ کوئی علمی مسئلہ موجود ہے اور نہ سماجی۔‘‘
(جوڈ کی محولہ بالا کتاب صفحہ147)

حاصل یہ ہے کہ منطقی اثباتیت اس بات کی ایک اور عمدہ مثال ہے کہ جو علم یا نظریہ بھی خودی اور اس کے اوصاف و خواص کو نظر انداز کر کے لکھا جائے گا ضروری ہے کہ اس میں ایک بنیادی علمی تصور کے مخذوف ہو جانے کی وجہ سے طرح طرح کی استدلالی اور منطقی ناہمواریاں اور علمی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ خودی ہر علم کی ابتداء اور انتہا ہے۔

خودی اور کرداریت (Behaciourisim)، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور کرداریت (Behaciourisim)
یہاں تک تو بعض ایسے مغربی حکماء کا ذکر تھا جنہوں نے حسی صداقت کا مفروضہ صرف اس خیال کی حد تک اپنایا تھا کہ چونکہ خدا ایک غیر حسی تصور ہے اسے علم کے دائرہ میں نہیں آنا چاہئے لیکن وہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی شعور کے قائل تھے۔ تاہم جوں جوں وقت گذرتا تھا مغرب کا علم جیسا کہ توقع کی جا سکتی تھی۔ اس مفروضہ کی دلدل میں اور غرق ہوتا گیا یہاں تک کہ مغرب کی علمی دنیا میں بعض ایسے نام نہاد حکماء بھی پیدا ہوئے جنہوں نے یہ آواز بلند کی کہ انسانی شعور یا ذہن بھی ایک غیر حسی تصور ہے۔ آج تک کس نے انسانی شعور کا مشاہدہ براہ راست اپنے حواس سے نیں کیا۔ لہٰذا وہ بھی یا تو موجود ہی نہیں یا موجود ہے تو حواس کی دسترس سے باہر ہونے کی وجہ سے معدوم کے حکم میں ہے۔ ان حکماء میں سے ایک حکیم نفسیات جان براڈس واٹس (John Breadus Watson) ہے جس نے نفسیات کرداریت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی ایک کتاب بعنوان ’’ کرداریت ‘‘ (Behaciourism)1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں وہ یہ بتاتے ہوئے کہ کرداریت کے نقطہ نظر سے نفسیات کا علم کیا ہے۔ لکھتا ہے:
’’ درون بینی اس کے طریق تحقیق کا کوئی ضروری عنصر نہیں۔۔۔۔ اور نہ ہی اس کے نتائج کی علمی قدر و قیمت کا دار و مدار کسی ایسی تشریح پر ہے جو شعور کی وساطت سے کی گئی ہو۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت آ گیا ہے جب نفسیات کے علم کو شعور کا ہر ذکر یا حوالہ مسترد کر دینا چاہئے جب اس کو اس بات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ یہ خیال کر کے اپنے آپ کو مزید دھوکا دیتا رہے کہ وہ ذہنی حالتوں کو اپنے مشاہدات کا موضوع بنا رہا ہے۔۔۔۔۔ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک علم نفسیات کی تدوین کریں اور اس میں شعور، ذہنی حالتیں، خیال، ارادہ، تصور ایسی اطلاعات کبھی استعمال نہ کریں۔۔۔۔ اسے ہم ’’ تحریک ‘‘ اور’’ جواب‘‘ کی اصطلاحات میں اور تشکیل عادت یا الحاق عادت کی اصطلاحات کو کام میں لا کر انجام دے سکتے ہیں۔‘‘
کرداریت کا موضوع حیوانات کے وہ افعال ہیں جو معروضی طور پر مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ حیوان (یا انسان) کا تصور اس طرح کیا جاتا ہے کہ بعض واقعات کے بالمقابل جو بیرونی ماحول کے تغیرات اور اندرونی حیاتیاتی اعمال وظائف سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور جن کے لئے مجموعی طور پر ’’ تحریک‘‘ (Stimulus) کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔ ایک رد عمل کرتا ہے جسے ’’جواب ‘‘ (Response) کا نام دیا جاتا ہے۔ نفسیات کا پہلا تصور یہ تھا کہ شعور، قلبی واردات اور ذہنی حالتوں کی سائنس ہے اور اگرچہ اس سے بدنی حرکات کے مطالعہ کو الگ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ان حرکات سے ماہر نفسیات کی دلچسپی کا دار و مدار زیادہ تر اس بات پر تھا کہ ذہنی کیفیات کے ساتھ ان کے تعلقات کیا ہیں۔ نفسیات کا مخصوص طریق تحقیق درون بینی (Introspection) ہوا کرتا تھا واٹن کا بی ہیوہیئرزم چونکہ شعور کو نظر انداز کرتا ہے لہٰذا درون بینی کو خیر باد کہتا ہے اور ادراک، جذبہ، احساس، توجہ، مقصد اور مدعا ایسے ذہنیاتی تصورات کو رد کرتا ہے اور فقط جاندار کی بیرونی مرئی حرکات کے مشاہدات کو قابل قبول سمجھتا ہے۔
واٹسن کی اس کتاب کو پچاس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس اثناء میں واٹسن کے پیش کئے ہوئے نظریہ کرداریت میں مختلف حکمائے نفسیات نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کئی تبدیلیاں اور درستیاں کی ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ کہنا صحیح ہے کہ موجودہ نظریہ کرداریت کسی خاص مکتب فکر کسی خاص نظریاتی موقف یا حکمائے نفسیات کے کسی خاص گروہ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ نفسیات کے متعلق ایک عام نقطہ نظر کا نام ہے جسے اکثر حکمائے نفسیات نے قبول کر لیا ہے اور یہ تمام حکماء کسی نہ کسی رنگ میں واٹسن کے مرہون منت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرداریت کی اکثر اقسام میں واٹسن کی اصل کرداریت کے یہ دو عقائد مشترک ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لئے شعور کو نظر انداز کر دینا چاہئے اور دوسرا جو اس کا لازمی نتیجہ ہے یہ کہ درون بینی سے اجتناب کرنا چاہئے اور ان عقائد کی عام قبولیت کا باعث یہی حقیقت ہے کہ مغرب کے حکماء خدا اور شعور ایسی ناقابل انکار صداقتوں کو غیر حسی تصورات سمجھ کر علمی تصورات کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔
ایک غلط خیال
لیکن یہ واٹسن اور اس کے ہم خیال علمائے نفسیات کی سادگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ شعور یا درون بینی سے نجات پا سکتے ہیں۔ اپنے شعور کے احساس سے ہی وہ اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہیں اور شعور خودی کا دوسرا نام ہے جس طرح چمک سونے کی خاصیت ہے درون بینی خودی کی خاصیت ہے جو اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔ خودی ہر وقت اپنے آپ پر نگاہ رکھتی ہے اور اسے خودی (Self- Consciousness) بھی اس لئے کہا جاتا ہے۔ خودی جو کچھ کرتی ہے خواہ وہ حسن کی جستجو ہو یا نیکی کی یا نفسیات کے علم کی یا کسی اور علم کی وہ اپنے لئے کرتی ہے اور وہ اپنے آپ پر نگاہ نہ رکھے تو اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتی۔ نہ وہ جان سکتی ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے اور نہ یہ کہ اب تک اس نے کیا حاصل کیا ہے اور کیا حاصل کرنا باقی رہتا ہے۔ غرض جب تک کوئی انسان زندہ ہے اور اپنے کسی عمل سے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے وہ اپنے شعور کے احساس سے اور درون بینی سے الگ نہیں ہو سکتا۔
از کہ بگریزیم از خود ایں محال
از کہ روتابیم از خود ایں خیال
درون بینی کے بغیر واٹسن اپنی زندگی میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’’ میں ہوں‘‘ چہ جائیکہ کہ وہ یہ کہ سکتا کہ میں موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں ہوں اور نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہوں اور اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہوں اور اس کو غلط۔ اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔ درون بینی کے بغیر اس کو کس نے بتایا تھا کہ وہ ہے۔ کس نے بتایا تھا کہ وہ موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں اور وہ نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہے کس نے بتایا تھا کہ وہ اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کو غلط فلاں بات پر یقین رکھتا ہے اور فلاں پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا یہ مشورہ کہ حکمائے نفسیات کو انسان کی نفسیات کا علم اس کی حرکات کے معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے انسان کی نفسیات کے علم کی جستجو کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور اس کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے کوئی علم حاصل کر لیا ہے یا کوئی حقیقت دریافت کر لی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جونہی کہ وہ کسی چیز کو علم یا حقیقت کا نام دیتا ہے وہ اپنے ایک اندرونی فیصلہ کا اعلان کرتا ہے جس کی خبر اسے درون بینی کے ذریعہ سے ملتی ہے اور پھر انسانی نفسیات کے حقائق کا علم اسے جن معروضی تجربات اور خارجی مشاہدات کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس کی اور اس کے معمول کی درون بینی کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔ جب اس کا معمول کہتا ہے ’’ میں سرخ رنگ دیکھ رہا ہوں‘‘ تو وہ درون بینی سے کام لے رہا ہوتا ہے کیونکہ سرخ رنگ دیکھنے کا احساس ایک اندرونی کیفیت یا ذہنی حالت ہے اور عامل اگرچہ اس کو ایک رپورٹ سمجھ کر اپنے بیرونی معروضی مشاہدہ کے طور پر درج کرتا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ بے معنی نہیں ہوتی بلکہ اس کو یہ علم بہم پہنچاتی ہے کہ اس کے معمول نے سرخ رنگ دیکھا ہے اور یہ علم عامل کا بھی ایک ذاتی اندرونی تجربہ ہوتا ہے جو درون بینی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ درون بینی خارجی دنیا کا علم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہمارے پاس موجود ہے اگر ہم اسے ترک کر دیں تو پھر ہم معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے بھی کوئی علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اوپر میں نے واٹسن کی کتاب سے جو عبارت درج کی ہے اس کے ہر فقرہ سے واٹسن کے کسی علم یا یقین یا اندرونی تاثر کا اظہار ہوتا ہے اور یہ علم یا یقین یا تاثر ایک ذہنی حالت ہے جسے درون بینی کے بغیر نہ وہ جان سکتا تھا نہ بیان کر سکتا تھا گویا واٹسن درون بینی کے بل بوتے پر ہی یہ دعوت دے رہا ہے کہ درون بینی کو ترک کر دیا جائے۔ یا للعجب!
قول اور فعل کا تضاد

واٹسن علمائے نفسیات کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ مقصد اور مدعا اور مقصد کے لئے کوشش کرنا ایسے تصورات سے قطع نظر کریں کیونکہ ان تصورات کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ انسان کی حرکات شعور سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن خود ایک لمحہ کے لئے ان سے قطع نظر نہیں کر سکتا مثلاً اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی کردار کی ایسی تشریح کرے جس میں مقصد کا کوئی ذکر نہ ہو۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے سمجھا جائے کہ اس میں مدعا طلبی کی طرف کوئی اشارہ نہ ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے پیش کرے کہ اس میں کوشش کا کوئی مقام نہ ہو۔ اگر انسان کی حرکات شعور سے پیدا نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غصہ میں آ کر کسی دوسرے شخص کو مارے اور ضرب شدید پہنچائے تو وہ کسی سزا کا حق دار نہیں۔ اسے جج کو کہنا چاہئے کہ قصور مرا نہیں بلکہ میرے بازو کے پٹھوں کا میرے اعصاب کا میری غداد کا یا میری قدرتی بے ساختہ حرکات (Reflexes) کا یا میری عادات کا ہے جن پر میرے شعور کو تصرف نہیں اور جج کو چاہئے کہ اسے درست سمجھے اور بری کر دے۔ لیکن دنیا بھر میں فوجداری قانون کی بنیاد ہی نیت جرم پر رکھی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کا فیصلہ یہ ہے کہ انسان کی تمام حرکات کا منبع اس کا شعور ہے۔ اگر مقصد انسان کی حرکات کا سبب نہیں تو پھر ہم اس بیہودہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان کے بڑے بڑے کارنامے (اہرام مصر اور دیوار چین اور عظیم الشان سیاسی، تعلیمی، قانونی، مالی، صنعتی، تجارتی، اطلاعاتی اور فوجی نظامات۔ فوجی قائدین کی شاندار فتوحات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایجادات اور تعمیرات اور آخر کار چاند کی سطح پر انسان کا پہنچنا اور چلنا پھرنا) جو آج تاریخ کے اوراق کی زینت ہیں وہ سب انسان کی بے اختیار اور بے مقصد حرکات پر مشتمل تھے جن کے لئے وہ کسی اعتراف یا ستائش کا حق دار نہیں۔

ایک قابل غور بات،‘‘ ایک واضح اعتراف، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

ایک قابل غور بات
یہ بات قابل غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے مشتملات شعور یا ہمارے نصب العین (خواہ مارکسی انہیں اقتصادی حالات کی پیداوار یا اقتصادی ضروریات کی کاذب اور بگڑی ہوئی شکلیں ہی کیوں نہ سمجھیں) ہمیشہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان ہی صفات سے حصہ لیتے ہیں اور جوں جوں اپنے آپ کے متعلق ہمارا علم ترقی کرتا جا رہا ہے وہ ان صفات سے اور قریب ہوتے جا رہے ہیں اگر ہم اقتصادی ناہمواریوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی ہم انصاف، انسداد ظلم، مساوات، اخوت، آزادی، جمہوریت ایسے تصورات کا نام لیتے ہیں جو حسن نیکی اور صداقت اور خدا کی دوسری صفات سے ماخوذ ہیں اور حسن کی تمنا خدا کی آرزو کا ایک عنصر ہے۔ ان اوصاف کی تمنا ہمارے تمام انقلابات کا مشترک پس منظر ہوتی ہے۔ خواہ یہ انقلابات اقتصادی ہوں یا اخلاقی یا مذہبی یا علمی یا سیاسی کیا یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ حسن، نیکی اور صداقت کی آرزو انسان کے شعور کی ایک مستقل خاصیت ہے جس کی تشفی کے لئے ہم وقتاً فوقتاً اپنے اقتصادی، اخلاقی، علمی اور سیاسی حالات کو بدلنے کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
مشتملات شعور میں کارل مارکس نے عقل اور استدلال کو بھی شمار کیا ہے چونکہ عقل بھی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہے وہ صداقت کی جستجو کرنے کے لئے آزاد نہیں اور لہٰذا صداقت کو دریافت نہیں کر سکتی۔ یہ نقطہ نظر سراسر غیر عقلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی یہ سمجھے کہ وہ گرد و پیش کے اقتصادی حالات سے آزاد ہو کر عقلی استدلال کر رہا ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ وہ ایک وہم میں مبتلا ہے لیکن اگر صداقت دریافت نہیں کی جا سکتی تو مارکس کے پیرو اپنے فلسفہ کو ایک صداقت کے طور پر کیوں پیش کرتے ہیں۔
مارکس اور اینجلز نے اپنے فلسفہ کی بنیاد عقلی استدلال پر رکھی ہے اور وہ عقلی استدلال ہی سے دوسروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے اگر انسان کی عقل بھی وہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہے جو مروجہ اقتصادی حالات مقرر کریں تو پھر اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی اور نہ وہ اس قابل ہی ہو سکتی ہے کہ صداقت کی طرف راہنمائی کرے۔ اگر اشتراکیت کا فلسفہ بھی اقتصادی ضروریات کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے تو پھر نہ وہ عقل پر مبنی ہو سکتا ہے اور نہ درست۔
ایک نا قابل انکار حقیقت
فلسفہ خودی کا یہ اہم تصور کہ نصب العین (جو ایک فلسفیانہ نظریہ حیات کی صورت اختیار کرتا ہے) اقتصادی حالات کو پیدا کرتا ہے اور خود اقتصادی حالات سے پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی زور دار اور نا قابل انکار حقیقت ہے کہ مارکس کے اس زمانہ کے شاگرد یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا سکیں۔ اگرچہ وہ مجبور ہیں کہ وہ مارکس کے اس متضاد عقیدہ پر بھی ایمان رکھیں کہ نصب العین اقتصادی حالات سے پیدا ہوتا ہے اور اقتصادی حالات کو پیدا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بعض وقت متضاد باتیں کہنے لگ جاتے ہیں۔ مارکس صاف طور پر کہتا ہے کہ ’’ انسانی افراد اپنی بار آور قوتوں کی ترقی کے کسی خاص مرحلہ سے متعین ہوتے ہیں اور بار آور تعلقات کے ظہور میں ان کی مرضیوں کو دخل نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی مرضی سب کچھ ہے۔ وہی بار آور قوتوں کو پیدا کرتی ہے اور وہی بار آور تعلقات کو معرض وجود میں لاتی ہے۔ یا اگر بار آور قوتیں انسان کی مرضی کے بغیر خود بخود پیدا ہو رہی ہوں تو انسان کی مرضی ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان قوتوں کو ترقی دی جائے یا نہ دی جائے ان کو قائم رکھا جائے یا فنا کیا جائے یا کس حد تک قائم رکھا جائے اور کس حد تک فنا کیا جائے۔ لہٰذا انسان ایک بے جان چیز کی طرح بار آور قوتوں کا کھلونا نہیں کہ وہ جس طرح سے چاہیں اس کے ساتھ کھیلیں۔ انسان زندہ آرزوؤں کا ایک طوفان ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی تمنا اور قوت رکھتا ہے۔ وہ بار آور قوتوں سے معین نہیں ہوتا بلکہ خود ان کو معین کرتا ہے اور انسان کی مرضی اس کی وہی آرزوئے حسن ہے جو کسی نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے اور خدا کی محبت سے پوری طرح مطمئن ہوتی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مارکس کے دور حاضر کے شاگردوں نے اپنے استاد کے اس بنیادی مفروضہ کو حقائق کے مطابق نہ پا کر اسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو نہیں سوچا کہ ایسا کرنے سے اس کے فلسفہ کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے گی۔ روس میں شائع ہونے والی ’’ مارکسی فلسفہ کی درسی کتاب‘‘ کو اشتراکی فلسفہ کے کئی نامور ماہرین نے مل کر مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مارکس کے اس مفروضہ کو بدل کر اس طرح سے لکھا ہے:
’’ انسانی افراد معاشرتی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے کسی مرحلہ سے معین نہیں ہوتے بلکہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
پھر نصب العین اور اقتصادی حالات کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ لیکن ایک روسی جانتا ہے کہ انسان کا نصب العین (یا نظریہ) اہمیت رکھتا ہے۔ وہ استحصال اور طفیلیت کے پیچھے ایک مثبت قوت کے طور پر موجود ہوتا ہے اور اگر آپ اپنی سیاسی اور صنعتی تدبیروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ فلسفہ کی تردید اور ایک متبادل فلسفہ کی تبلیغ نہ کریں تو آپ معاشرہ کی بیماری کو دور نہیں کر سکتے۔ روسی جس فلسفہ کی تردید کرتے ہیں۔ اس کے مغالطوں کو جانتے ہیں اور ان کے پاس ایک اپنا فلسفہ ہے جو ان کو ہر چیز کے دیکھنے کے لئے روشنی بخشتا ہے۔‘‘
’’ اس بات سے ان لوگوں کو تعجب ہو گاجنہوں نے ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ اشتراکی فلسفہ کا پہلا اصول یہ ہے کہ نظریات اقتصادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگرچہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ تاہم جب کوئی نظریہ ایک دفعہ جنم لے لے تو پھر وہ ایک مستقل قوت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اگر اس پر یقین کیا جائے تو جس اقتصادی نظام کی یہ پیداوار ہوتا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اور اگر اسے باطل ثابت کر دیا جائے تو اس نظام کی ایک بنیاد گر جاتی ہے۔ اس لئے ایک روسی چیسٹرٹن سے اتفاق رکھتا ہے کہ انسان کی جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ کائنات کے متعلق اس کا نظریہ ہے۔‘‘
’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ہوٹل کی ایک مالکہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسافر پوچھے کہ اس کی آمدنی کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضرور یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ اس کا نظریہ کائنات کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سپہ سالار کے لئے جو دشمن سے جنگ کر رہا ہو یہ دریافت کرنا ضروری ہے کہ دشمن کی فوجوں کی تعداد کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ وہ دریافت کرے کہ دشمن کا فلسفہ کیا ہے۔‘‘ (چیسٹرٹن)
’’ تاریخ عالم میں کوئی بڑی تحریک ایسی وجود میں نہیں آئی جو ایک فلسفیانہ تحریک نہ تھی۔ بڑے بڑے نظریات کے ابھرنے کا زمانہ بڑے بڑے نتائج کے رونما ہونے کا زمانہ تھا۔‘‘
’’ درحقیقت یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ وہ شخص جو کہتا ہے کہ وہ فلسفی نہیں ایک گھٹیا فلسفی ہے۔‘‘
ایک واضح اعتراف
اس تحریر میں ذیل کے روشن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
1۔یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ گویا کسی نہ کسی نظریہ یا نصب العین کو ماننا ہر انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔
2 ۔انسان کا نظریہ استحصال کے پیچھے ایک مثبت قوت کی طرح کام کرتا ہے جب تک ایک نظریہ کو باطل ثابت کر کے اس کی جگہ دوسرے نظریہ کی تبلیغ نہ کی جائے معاشرہ کی بیماری دور نہیں ہو سکتی۔
3۔انسان کی زندگی میں جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ اس کا نظریہ ہے۔
4۔بڑے بڑے نظریات بڑے بڑے واقعات کا سبب ہوتے ہیں ان کا نتیجہ نہیں ہوتے۔
اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف اور کیا ہو گا کہ نصب العین یا نظریہ ہی اقتصادی حالات کو پیدا کرتا اور قائم رکھتا ہے۔ ایسے زور دار الفاظ میں نظریات کو اقتصادی حالات پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی ایک قوت تسلیم کرنے کے بعد ’’ درسی کتاب‘‘ کے مصنفین کا یہ کہنا کہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ اس حقیقت کے خلاف جس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ کوئی بات ثابت نہیں کرتا۔ کون کہتا ہے کہ ایک نیا نظریہ محض پرواز خیال کا نتیجہ ہوتا ہے اور معاشرہ کے اقتصادی حالات سے بے تعلق ہوتا ہے؟ اقتصادی حالات اور نظریہ کا فطری اور صحیح تعلق (جسے مارکسی نہیں سمجھتے نا سمجھنا چاہتے ہیں) یہ ہے کہ ہر نظریہ ایسے اقتصادی اور اخلاقی حالات پیدا کرتا ہے جو اس کے مطابق ہوتے ہیں۔ اگر نظریہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف سے مکمل طور پر بہرہ ور نہ ہو اور ناقص ہو تو یہ حالات بھی ناقص ہوتے ہیں اور ان کا نقص نظریہ کے نقص کی نشاندہی کرتا ہے اور ہمیں نظریہ کو تبدیل کرنے کے لئے اکساتا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے نظریہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ثابت کرتی ہے کہ حالات کو پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی قوت نظریہ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف خودی کی فطرت راہنمائی پیدا کرتی ہے۔ نہ ہر نظریہ کا ابطال ممکن ہے اور نہ ہر نظریہ کا اثبات، عقل اور علم کے مسلمہ معیاروں کے مطابق صرف صحیح نظریہ کا اثبات اور صرف غلط نظریہ کی تردید ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کی بیماریاں صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جو علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست نہ ہو اور صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے دور ہو سکتی ہیں جو عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق درست ہو۔ کائنات اور انسان کے حقائق پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمی اور عقلی بنیادوں کے مطابق مارکسی فلسفہ غلط ہے اور فلسفہ خودی صحیح ہے اور فلسفہ خودی کی کامیاب تردید ممکن نہیں۔ اس صورت میں مارکسیوں کے اپنے فیصلہ کے مطابق یہی وہ فلسفہ ہے جو معاشرہ کی تمام بیماریوں کا علاج کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔

مارکس کے اس عقیدہ نے کہ اقتصادی حالات نظریہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ نظریہ کو پیدا کرتے ہیں اسے اس بے بنیاد خطرناک اور مہلک تصور کو اپنانے پر مجبور کیا ہے کہ حقیقت کائنات مادہ ہے شعور نہیں اور اس سے مزید خرابی یہ پیدا ہوئی ہے کہ اس کا نظریہ تاریخ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب لوگوں نے اعتراضات شروع کئے کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح نہیں کر سکتا تو مارکس کے رفیق اینجلز نے کہا کہ ہم کب کہتے ہیں کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح کر سکتا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا محرک ہے اور اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اینجلز کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ تاریخ کے عمل میں دوسرے محرکات کا حصہ کیا ہے، لیکن یہ بتانا نا ممکن تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ جب عمل تاریخ کا محرک ایک نہ ہو تو تاریخ کا کوئی فلسفہ ممکن ہی نہیں۔ یہ عذر دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ مارکسیوں کا کوئی فلسفہ تاریخ سرے سے موجود نہیں۔