مشاہیر پاکستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر پاکستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

ظفر سید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
10 اکتوبر 2018

سات اکتوبر 1958 کو لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے 65 سال مکمل ہونے کے موقع پر خصوصی تحریر جسے آج کی دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔‘

’میں نے پوچھا: کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟‘

’ہاں۔ کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا۔

’نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔‘

’میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔‘

محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟

محمد کاظم کی پیدائش 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ (ضلع بہاولپور) میں ہوئی ، ان کی وفات 9 اپریل 2014ء کو لا ہور میں  ہوئی۔ 
محمد کاظم عربی زبان و ادب
کی معروف شخصیت 

محمد کاظم صاحب کے بارے میں  ان کے دوست مسعود اشعر  معروف کالم نگار  کا یہ کالم پڑھیں !

میں انہیں سیّد محمد کاظم کہتا تو فوراً میری اصلاح کرتے ’’میں اپنے نام کے ساتھ سیّد نہیں لکھتا۔‘‘ بہت ہی شریف آدمی تھے ،اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے بھی ۔ 

بہت بڑے عالم تھے ،اور بڑے عالموں کی طرح منکسرالمزاج بھی ۔ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے ۔محفل باز نہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی ہو تے تھے ۔البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے۔

 جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر منگل کو گھر سے نکلتے ۔ پہلا پڑائوگارڈن ٹائون میں مشعل کا دفتر ہو تا ۔ گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہاں بیٹھتے۔ نہایت بے تکلفی سے ہر موضوع پر باتیں ہو تیں ۔اردو ادب ، عربی ادب، انگریزی ادب ،اسلام کی فکری اور علمی تاریخ، نئی اور پرانی کتابیںاور موسیقی۔ہاں،موسیقی بھی مغرب کی کلاسیکی موسیقی ۔ شایدمغرب کی کلاسیکی موسیقی کا چسکا انہیں اپنے جرمنی کے قیام میں لگا تھا ۔

 لیکن وہ اس موسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال مصطفےٰ کا ذکر کرتے اور افسردہ ہو جا تے ۔ کہتے اقبال مصطفےٰ کی پر اسرار موت کے بعدان کے ساتھ موتزارٹ اور بیتھو ون سننے والا کو ئی نہیں رہا ۔ مشعل سے اٹھتے توفیروز پور روڈ پر سید بھائیز کے ضمیر احمد خاں کے پاس چلے جا تے ۔ضمیر احمد خاں سے واپڈا کے زمانے کی دوستی تھی ۔ 

واپڈا کے ہی ایک اور ریٹائرڈ انجینئر جمیل صاحب کے پاس بھی ہفتے میںایک بار ضرور جاتے۔ کہتے جمیل صاحب کو کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ میں ان کے لئے کتابیں لے کر جا تا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب حیات تھے تو ہم ہفتے دو ہفتے میں مشعل سے اٹھ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر چلے جا تے ۔وہاں بھی ادب اور کتابیں ۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کون ہیں ؟

بی بی سی اردو، ۵ فروری  ۲۰۲۳ء 
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف


پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد [۵ فروری ۲۰۲۳ء] وفات پا گئے ہیں۔ وہ دبئی کے امریکن نیشنل ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔


پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی مسلح افواج کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔


پرویز مشرف تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔

مولانا محمد سعید احمد اسعد ؒ کی شخصیت

بروز بدھ  11 جنوری2023ء، ملک کے ممتاز عالم دین،مناظر، مفسر قرآن، شیخ الحدیث، اورکئی دینی و مذہبی کتب کے مصنف مولانا محمد سعید احمد اسعد،  مختصر علالت کے بعد انتقال پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون 
مولانا سعید احمد اسعد ؒ کی شخصیت 

مولانا محمد سعید احمد اسعد جماعت اہلسنت و جماعت کا ایک بڑا معتبر نام ہے جو کہ مذہبی اعتبار سے بڑا قد کاٹھ رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی قوت کے حامل تھے ۔ مولانا موصوف مشہور عالم دین مفتی محمد امین رحمہ اللہ کے بڑے بیٹے ہیں جو کہ نامور محدث مولانا سردار احمد قادری رحمہ اللہ علیہ کے شاگرد اول اور خلیفہ تھے۔ آپ شاہ احمد نورانی صدیقی اور مولانا عبدالستار خان نیازی رحمہما اللہ کے ساتھ سیاست میں بھی سرگرم عمل رہے اور 1974 کی تحریک نظام مصطفی ﷺ میں خوب بڑھ چڑھ کر نہ صرف حصہ لیا بلکہ سنی اتحاد و جمعیت علما پاکستان کے مرکزی عہدوں پر بھی متمکن رہے۔ 

معروف سیاسی قائد و مذہبی شخصیت مولانا شاہ احمد نورانی ان پر بڑا اعتماد کرتے اور ان کی کاوشوں کو سراہتے تھے۔ مولانا نے تبلیغ دین کے سلسلہ میں ملک و بیرون ملک کئی تبلیغی دورے بھی کیے۔ مولانا زبردست ادیب و مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مناظر بھی ہیں اور اہلسنت کے لیے تقرہباً ہر میدان میں مذہب حق کا جھنڈا بلند کرتےتھے۔

مولانا عرصہ دراز سے فیصل آباد میں جامعہ امینیہ رضویہ کے نام سے ایک مدرسہ چلا رہے تھے  جس سے ہزاروں علمائے دین فیضیاب ہو کر دنیا بھر میں تبلیغی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے برس کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کی صورتحال نے تمام دنیا کو معطل کر دیا جس کا اثر مولانا کے تبلیغی معاملات پر بھی پڑا اور انہوں نے ایک بڑے اور عظیم کام کی ٹھانی۔ مولانا موصوف نے یہ کام بڑی جانفشانی, وقت کی پابندی اور تسلسل کے ساتھ کیا۔ یہ کام قرآن مجید کی تفسیر کا تھا۔ عمومی طور پر تحریری طور پر تفاسیر قرآن ملتی ہیں جن کا پڑھنا موجودہ دور کے انسان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے  چنانچہ مولانا نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک سال کے مختصر عرصہ میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر کو ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کروادیا۔ 

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار

محمد یونس قاسمی

ڈاکٹر فضل الرحمن کے بنیادی افکار
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم  اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی  ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی  میں  Avecena's Psychology  پر شاندار مقالہ لکھا  جس پر انہیں  1949 میں  ڈی فل  کی ڈگری  سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان  اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک  علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل  نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک  اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور  کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔  1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو  ان کی شاندار علمی  شراکت کے اعتراف میں  ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے  اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں  کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے  ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔

مسلم عالمی تنظیموں میں مولانا مودودی کا کردار

 الطاف حسن قریشی 

ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء 

موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔

ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔

مولانا مفتی رفیع عثمانی رحمۃ اللہ عليہ

عزیز الرحمان ابن مفتی محمد کلیم۔

تعارف*:-
مفتي رفيع عثمانى رحمۃ اللہ عليہ

 آپ مفسرِ قرآن و مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کے فرزندِ ارجمند ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بڑے بھائی اور عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ کے ممتاز اور اخص الخواص خلفا میں سے ہیں ، آپ اپنے ملک و بیرونِ ملک کی جانی پہچانی علمی اور روحانی شخصیت ہیں۔

*نام*:- محمد رفیع ابن مفتی محمد شفیع ابن مولانا محمد یاسین عثمانی ، آپ حضرت عثمان غنیؓ کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ کا نامِ مبارک حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے رکھا۔

پاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئے

فاروق عادل مصنف، کالم نگار

اپنے وجود میں آنے کے ٹھیک 22 برس بعد یعنی 1969 میں پاکستان ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی نظریاتی منزل کیا ہو گی؟

مختلف پس منظر رکھنے والے لوگوں نے اس سوال کا مختلف جواب دیا۔ یہ جواب کیا رہے ہوں گے، انھیں سمجھنے کے لیے اس زمانے کی سیاسی صف بندی کو سمجھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں علمائے دیو بند کی ایک ممتاز شخصیت مولانا عبید اللہ انور کی سوانح سے اس تقسیم کی خبر ملتی ہے۔

’مولانا عبید اللہ انور: شخصیت اور جدوجہد‘ نامی کتاب میں مصنف امجد علی شاکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سیاست اس وقت پانچ سیاسی دھاروں میں بہہ رہی تھی۔

  • اسلامی سوشلزم یا سوشلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی)
  • نیشنلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی عوامی لیگ)
  • مسلم لیگ کے مختلف گروہ جن کا نعرہ ’اسلام‘ تھا
  • اسلام کی علم بردار جماعت جمیعت علمائے اسلام۔ (دینی جماعتوں کے ایک طبقے کا الزام تھا کہ یہ جماعت سوشلزم کو قابل قبول قرار دے کر بائیں بازو کی جماعتوں کی دست و بازو بن چکی ہے)
  • اسلامی نظام کی حامی اور سوشلزم کی مخالف جماعتیں (یعنی جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائے اسلام)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہ تقسیم کس طرح عمل میں آئی ہو گی، اس کے پس منظر میں مقامی حالات کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ


ممتاز مؤرخ اور پاکستان سٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں بائیں بازو کے رجحانات اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے سے پائے جاتے تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور یہ تمام عناصر اس تازہ لہر میں بہہ کر اس نئی جماعت کے دست و بازو بن گئے۔

اس نئی جماعت نے اپنے چار نکاتی نصب العین میں سوشلزم کو بطور معاشی نظام اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ یوں اس نعرے نے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے نظریاتی تالاب میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک یہ نعرہ پاکستان جیسے ملک میں نظریاتی انحراف کا درجہ رکھتا تھا۔

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

 عقیل عباس جعفری

محقق و مؤرخ، کراچی
بی بی سی اردو 24 فروری 2022 ء


ایوب خان کو اسلام آباد شہر کی سائٹ پر نقشوں کی مدد سے بریفننگ دی جا رہی ہے

ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی۔


یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

ڈاکٹر محمد رفيع الدين


ڈاکٹر محمد رفیع الدّین (مرحو
ڈاکٹر محمد رفيع الدين


شخصیت …… فکر

ایک جائزہ

پروفیسر محمد عارف خان

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ان نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ہیں، جنہوں نے علم و فکر کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے بعد علم و فکر کے افق پر جن چند افراد کا نام نمایاں ہے، ڈاکٹر صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحب کا شمار اہم ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔

حالاتِ زندگی

ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱) ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ ایف ایس سی نان میڈیکل میں، بی۔ اے فارسی میں آنرز اور ۱۹۲۴ء میں ایم اے عربی میں کیا۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۲ء تک سری پر تاپ کالج سری نگر میں عربی اور فارسی کے پروفیسر رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی ۱۲ سال تک تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران (۱۹۴۲ء) میں انگریزی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ لکھی۔ ڈاکٹر صاحب کا ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی یہی تھا۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک ڈاکٹر صاحب سری کرن سنگھ جی انٹر کالج میرپور جموں کشمیر کے پرنسپل رہے۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں کی وجہ سے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج میرپور بند ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب لاہور منتقل ہو گئے۔ یہیں سے پاکستان کے حلقہ علم و ادب میں ان کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۳ء لاہور میں محکمہ اسلامک ری کنسٹرکشن و انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر میں ریسرچ آفیسر رہے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک اقبال اکیڈمی کراچی کے ڈائریکٹر رہے۔ ۱۹۶۵ء میں ‘‘فرسٹ پرنسپلز آف ایجوکیشن’’ پر مقالہ پیش کر کے ڈاکٹر آف لٹریچر کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک ‘‘ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس لاہور’’ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۱۹۶۹ء میں ۶۵ برس کی عمر میں کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کیا۔ اور سیالکوٹ میں دفن کیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب درویش مزاج انسان تھے۔ طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ ذکر خدا پر بہت زور دیتے تھے۔ سلسلہ طریقت میں مفتی محمد حسنؒ سے بیعت تھے۔ اپنی اصلاح و روحانی ترقی کے لیے اپنے مرشد سے باقاعدہ ہدایات لیا کرتے تھے۔ خود فرمایا کرتے کہ ذکر کی برکت سے بہت اچھے اچھے خیالات خود بخود سوجھتے ہیں اور معمولی سی کوشش سے علمی حقائق منکشف ہو جاتے ہیں اور انسان کے لیے تھوڑا سا مطالعہ بھی کفایت کر جاتا ہے۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سید منور حسن کی سیاسی زندگی

سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی سیاسی زندگی
(بی سی اردو تاریخ اشاعت : 26 جون 2020م ) 
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کے روز (26 جون ، 2020م ) کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ مصنف و کالم نگار فاروق عادل نے سید منور حسن کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالی ہے۔

کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر انھیں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈالا، کچھ دیر کے لیے دراز ٹٹولی، فارغ ہو کر اچٹتی سی ایک نگاہ رقعے پر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

اٹھتے اٹھتے جیسے انھیں کچھ یاد آیا اور انھوں نے نگاہ التفات کے منتظر اجنبی کی طرف دیکھا اور بلا تمہید بولے کہ پھر چلیں؟

’کہاں؟‘

’ہمارے ہاں یہ وقت ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔‘

سننے والے نے اس مختصر جملے میں بے تکلف شگفتگی میں لپٹی ہوئی طنز کی گہری کاٹ کو محسوس کیا، ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سوچا، اس شخص کے ساتھ بات کرنا کتنا مشکل ہے۔

سید منور حسن سے قربت رکھنے والے ان کے بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ وہ سراپا دل تھے، سفر و حضر کے ساتھیوں کا مشاہدہ بالعموم درست ہوتا ہے لیکن یہ خیال بھی غلط نہیں کہ یہ زبان ہی تھی جو سید صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑی کمزوری بنی لیکن ٹھہریے، یہ تبصرہ ذرا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا تھوڑی تفصیل سے بات کرنی ضروری ہے۔
سید صاحب کے مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنے پیرو کار کہاں سے ملے؟

جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم کا انتقال (بی بی سی اردو )

مفتی محمد نعیم
پاکستان کے نامور عالم دین اور جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم ہفتے کے روز (20 جون ، 2020م) انتقال کر گئے ۔ ان کی عمر 62 برس تھی اور وہ گذشتہ کچھ عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مطابق سنیچر کی شام مفتی نعیم کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر انھیں ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ وہ راستے میں ہی انتقال کر گئے۔

مفتی نعیم کے آباؤ اجداد کا تعلق پارسی مذہب سے تھا جو بھارتی گجرات کے علاقے سورت میں آباد تھے۔ مفتی نعیم کے دادا نے اسلام قبول کیا اور اُس وقت ان کے والد قاری عبد الحلیم کی عمر چار برس تھی۔

قاری عبد الحلیم تقسیم ہند سے قبل ہی پاکستان آ گئے تھے۔

سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کا پس منظر

سید  ابوالاعلی مودودی ؒ کی شخصیت کا پس منظر 
عبد الحی عابد 

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے نہایت سرعت سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔) 

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘، چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔] سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔ 

علامہ محمد اسد اور پاکستان

علامہ محمد اسد 
یہودیت کو  چھوڑ اسلام قبول کرنے والے محمد اسد (سابق نام: لیوپولڈ ویز) جولائی 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

ابتدائی زندگی

لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔