مشاہیر پاکستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر پاکستان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پتھروں کے بیچ ایک گلاب "بادشاہ خان"

خان عبد الغفار خان 
شمال کی خشک پہاڑیوں میں، جہاں صدیوں سے تلوار ہی انصاف کی زبان سمجھی جاتی تھی، ایک مختلف انسان نے جنم لیا — بلند قامت، نرم گفتار اور فولادی ارادے والا۔ اس کا نام عبدالغفار خان تھا، مگر لوگ اُسے محبت سے "بادشاہ خان" کہتے تھے۔ کچھ نے اُسے "فرنٹیئر گاندھی" بھی پکارا — کیونکہ وہ پٹھانوں کے بیچ عدم تشدد کا چراغ جلانے والا پہلا مردِ مجاہد تھا۔

بچپن سے ہی وہ پٹھانوں کی جہالت، انتقام اور خونریزی سے دکھی تھا۔ اُس نے سوچا: کیا میری قوم صرف لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ تبھی اُس نے تعلیم اور خدمت کا راستہ چنا۔ جب انگریز حکمرانوں نے بندوق سے حکومت قائم کر رکھی تھی، تب بادشاہ خان نے ہاتھ میں قرآن اور دل میں عدم تشدد کا پیغام لے کر ایک تحریک چلائی — خدائی خدمت گار۔

وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہ گھبرایا، حتیٰ کہ 27 سال جیل کی کال کوٹھریوں میں گزار دیے، مگر اپنے اصول نہ چھوڑے۔ وہ کہتے تھے: "عدم تشدد کمزوروں کا ہتھیار نہیں، یہ بہادروں کا راستہ ہے۔"

امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ڈاکٹر حافظ عبد الکریم: دین، سیاست اور قیادت کا نقیب

پاکستانی مذہبی و سیاسی منظرنامے میں ایسے افراد خال خال نظر آتے ہیں جو دین، سیاست اور قومی خدمت کی تینوں راہوں پر یکساں توازن کے ساتھ سفر کرتے ہوں۔ ڈاکٹر حافظ عبد الکریم ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے علم و عمل، دعوت و قیادت، اور سیاست و بصیرت کو ہم آہنگ کر کے ایک منفرد شناخت قائم کی۔
ڈاکٹر حافظ عبد الکریم امیر جمعیت اہل حدیث

علمی و دینی پس منظر

یکم جنوری 1960 کو پیدا ہونے والے حافظ عبد الکریم نے ابتدا سے ہی دینی تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ گوجرانوالہ کے معروف مدرسہ جامعہ محمدیہ میں درسِ نظامی سے آراستہ ہوئے، اور پھر جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہیں سے فاضل کی سند لے کر وطن واپس آئے اور بعد ازاں پاکستان کی ایک یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ مکمل کی — ایک ایسا امتزاج جو علم و فضل کی گہرائی کے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث سے وابستگی

آپ کی جماعتی وابستگی مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے رہی ہے، جہاں آپ نے 2006 سے 2025 تک ناظم اعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ ساجد میر مرحوم کی قیادت میں جماعت کے انتظامی امور کو مؤثر انداز میں سنبھالنے والے حافظ عبد الکریم نے ہمیشہ اتحاد، نظم و ضبط اور مشاورت کی فضا قائم رکھی۔ بالآخر، 25 مئی 2025 کو، ساجد میر کی وفات کے بعد، آپ بلامقابلہ امیر منتخب ہوئے — جو جماعت کے اندر ان پر اعتماد کی علامت ہے۔

سیاست میں سرگرم کردار

حافظ عبد الکریم کا سیاسی سفر بھی دین سے جدا نہیں، بلکہ دینی فکر کے تسلسل کے طور پر سامنے آیا۔ وہ 2008 اور 2011 کے انتخابات میں ناکامیوں کے باوجود ثابت قدم رہے، اور 2013 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر سیاسی افق پر نمایاں ہوئے۔ 49,230 ووٹ لے کر جمال لغاری کو شکست دینا جنوبی پنجاب کے تناظر میں ایک بڑی سیاسی فتح تھی۔
وفاقی وزیر کی حیثیت سے خدمات

2017 میں شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ عبد الکریم نہ صرف مذہبی حلقوں میں بلکہ قومی سطح پر بھی قابلِ اعتماد شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے وزارت مواصلات میں مختصر مگر فعال دورانیہ گزارا، جس میں شفافیت اور کارکردگی کو فوقیت دی گئی۔

ایوان بالا میں نمائندگی

2018 میں سینیٹ کے انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی اور سینیٹر کے طور پر خدمات ان کی سیاسی دانش اور بردباری کی مظہر ہیں۔ انہوں نے سینیٹ میں علمی انداز، مہذب لب و لہجہ، اور جماعتی وقار کے ساتھ اپنی موجودگی کو برقرار رکھا۔ 2024 تک سینیٹر رہ کر انہوں نے کئی قومی امور میں حصہ لیا، اور ایوان میں جماعت اہل حدیث کی علمی نمائندگی کی۔

دینی سیاست کا مثالی امتزاج

حافظ عبد الکریم کی شخصیت اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ وہ فرقہ وارانہ سیاست سے بلند ہو کر ملکی مفادات کی بات کرتے ہیں۔ ان کا انداز خطابت علمی و متوازن، اور طرز سیاست مہذب اور مدبرانہ ہے۔ ان کی قیادت میں توقع کی جا رہی ہے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث نہ صرف منظم انداز میں آگے بڑھے گی بلکہ ملکی سیاست میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گی۔

قیادت کا ایک نیا باب

ڈاکٹر حافظ عبد الکریم کی حالیہ بطور امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان بلامقابلہ انتخاب نہ صرف جماعت کے اندر ان کی مقبولیت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس بات کی نوید بھی ہے کہ ایک عالمِ دین، مدبر سیاست دان اور قومی خدمت گزار قیادت کا نیا باب شروع ہونے والا ہے۔ ان کی علمی گہرائی، سیاسی بصیرت اور اخلاقی وقار آنے والے وقت میں جماعت اور ملک دونوں کے لیے باعث خیر ہو سکتے ہیں۔

کارہائے نمایاں
  • بطور ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان آپ نے پیغام ٹی وی کے نام سے سیٹلائٹ چینل کا قیام عمل میں لایا ۔
  • رابطہ عالم اسلامی کے ممبر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے ہر سال نمائندگی کرتے ہیں۔
  • ایوان بالا پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو کم کرنے کے لئے ناموس صحابہ و اہل بیت بل کو پیش کرنے اور پاس کروانے کے حوالے سے آپ کا نام ذرائع ابلاغ میں معروف رہا۔

پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات : وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر اور ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما تھے۔

 پروفیسر ساجد میرؒ، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر اور ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما، 3 مئی 2025 کو 86 برس کی عمر میں ساہیوال میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہوئی۔ ان کی نماز جنازہ آج رات 10 بجے ساہیوال میں ادا کی جائے گی۔

پروفیسر ساجد میرؒ 2 اکتوبر 1938 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز (1960) اور اسلامیات میں ماسٹرز (1969) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے نائجیریا میں تدریسی خدمات انجام دیں اور 1985 میں وطن واپس آ کر مذہبی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔

پروفیسر ساجد میرؒ نے 1994 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو کر پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا۔ انہوں نے پانچ مرتبہ سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر کی حیثیت سے انہوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ قیادت کی، اور فروری 2025 میں ساتویں مرتبہ امیر منتخب ہوئے۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ مذہبی سفارت کاری میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات پر وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایک بصیرت افروز رہنما قرار دیا گیا۔

پروفیسر خورشید احمدؒ: ایک فکری قافلہ سالار، اسلامی دانش کا مینارِ نور

ملتِ اسلامیہ ایک اور فکری و روحانی ستون سے محروم ہو گئی۔ جماعت اسلامی کے بانی اراکین میں سے ایک، نامور اسلامی مفکر، ماہرِ معیشت، مدبر، معلم، محقق، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی فکر کے سفیر، پروفیسر خورشید احمدؒ، رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے۔ ان کے انتقال سے اسلامی تحریک، فکر و دانش اور معاشی بصیرت کی ایک توانا آواز خاموش ہو گئی، مگر ان کا چھوڑا ہوا فکری سرمایہ تا قیامت چراغِ ہدایت بنا رہے گا۔

شخصیت 

پروفیسر خورشید احمدؒ 1932ء میں دہلی (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کم عمری ہی میں علم، مطالعہ اور فکر کے ایسے جوہر دکھائے جو غیر معمولی تھے۔ آپ کی شخصیت میں علم و عمل، بصیرت و حکمت، تدبر و تدریس اور قیادت و خاکساری کا ایک حسین امتزاج تھا۔ آپ علامہ اقبالؒ کے فکری وارث اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نظریاتی و تنظیمی رفیقِ خاص تھے۔

تعلیم و علمی پس منظر

خورشید احمدؒ نے معاشیات میں گریجویشن اور پھر ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں، بین الاقوامی اسلامی معاشیات کے میدان میں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے مغرب کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا، مگر اسے آنکھیں بند کر کے قبول نہ کیا بلکہ اسے اسلامی اصولوں کے آئینے میں پرکھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اسلامی معاشیات کا ایک نیا بیانیہ پیش کیا، جس نے پوری دنیا کے علمی حلقوں میں اسلامی معاشی فکر کو ایک سنجیدہ اور مربوط نظام کے طور پر متعارف کروایا۔

مولانا ظفر احمد انصاری : شخصیت اور کردار



مولانا محمد ظفر احمد انصاری (پیدائش: 1908ء - وفات: 20 دسمبر، 1991ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین، ماہر قانون، دانشور، مصنف اور سابق رکن قومی اسمبلی تھے۔

مولانا ظفر احمد انصاری 1908ء کو منڈارہ، الہ آباد ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن،1933ء اسی یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1942ء میں ان کی ملاقات نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی جن کی تحریک پر آپ نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر خود کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ 

قیام پاکستان کے بعد انھیں قرارداد مقاصد کا متن تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1951ء میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انھیں مشہور 22نکات پر متفق کرنے کا مشکل کام بھی ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کی تدوین اور تسوید میں بھی انھوں نے فعال کردار کیا۔ 

1970ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہوئے۔

 1983ء میں انھیں پاکستان کے سیاسی نظام کے تعین کے لیے دستوری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا، ضعیف العمری کے باوجود انھوں نے دن رات ایک کرکے یہ رپورٹ مکمل کی جو انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس رپورٹ میں انھوں نے ان اقدامات کی سفارش کی جو مستقبل کی حکومت کے لیے بنیاد بن سکتے تھے مگر اس وقت کے صدر، صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کمیشن کی رپورٹ سے کوئی استفادہ نہیں کیا اور یوں مولانا ظفر احمد انصاری کی یہ محنت رائیگاں گئی۔ 

مولانا ظفر احمد انصاری نے اسلامی آئین اور ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کی

 ۱۔ اسلامی آئین

۲۔ ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو

۳۔ 1956ء اور 1973ء کے آئین کی تدوین اور تسوید

۴۔ انصاری کمیشن رپورٹ کی سفارشات 

مولانا ظفر احمد انصاری 20 دسمبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ 

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری کی شخصیت

محمد کرم شاہ الازہری' ایک صوفی و روحانی بزرگ 1971ء سے مسلسل حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔


نام و نسب
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ 'حضرت پیر کھارا صاحب'،پیرمحمدکرم شاہ المعروف 'ٹوپی والے سرکار' کے ساتھ آپ کے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لیے آپ کے جدِ امجد پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ السلام مخدوم بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔

کنیت
آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔

پیدائش
آپ کی پیدائش رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ، ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔

تعلیمی مراحل
خاندانی روایت کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کے لیے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔ جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی کتابیں



نامور فلسفی محقق ماہر اقبالیات ،مترجم اور افکار غالب ، حکمت رومی، تشبیہات رومی، فکر اقبال اور داستان دانش جیسی کتابوں کے خالق



افکار غالب


1954
علامہ اقبال

داستان دانش
1943

فکر اقبال
1988

فکر اقبال
1992

فکراقبال
1968

نوجوان لکھنے والوں کو کیا پڑھنا چاہیے؟

(وجاہت مسعود کے مضمون سے انتخاب)

 کچھ نوجوان دوستوں نے استفسار کیا ہے کہ اردو غیر افسانوی نثر کی کون سی کتابیں پڑھنا مفید ہو گا تا کہ ان کی اپنی تحریر میں سلاست اور روانی پیدا ہو سکے۔ نیز وہ اردو نثر کے مختلف اسالیب سے آشنا ہو سکیں۔ مجھے اس سوال سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ وسیع مطالعے کے بغیر ہمارے نوجوان اردو زبان پر کماحقہ عبور حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر ان کی تحریر غیر مؤثر ہو گی تو ان کے دلائل بھی اپنا وزن کھو دیں گے۔

کوشش کیجئے کہ اس استاد سے رابطہ کریں جس کا مطالعہ تازہ ہو۔ ایسے اساتذہ جنہوں نے گزشتہ تیس برس سے کسی نئی کتاب کو ہاتھ نہ لگایا ہو انہیں نہایت احترام سے ملیے لیکن یاد رکھیے کہ ادب کی فہم ان پر نہیں اترتی جو مطالعے سے بے نیاز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ اردو ادب کے بارے میں صرف اسی استاد کی رائے مستند ہو گی جس نے اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہو گا۔ اردو کے خزانے زیادہ امکان ہے کہ آپ کو انگریزی یا سائنس کے اساتذہ میں مل سکیں۔

اسی طرح افسانوی نثر کے شناور بالکل مختلف ہوں گے۔ شعر کی دنیا البتہ الگ ہے اور یہاں اس سے بحث نہیں ہو رہی۔ فہرست سازی کتب کی ہو یا اساتذہ کی اس میں سہو اور غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ خاکسار ایک مبتدی ہے اور اس کی رائے محض ایک ابتدائی نصابی خاکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں تو اس امید پر کچھ نام تجویز کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوان اردو ادب کے ان جواہر پاروں سے آشنا ہوں گے تو ان کا ذوق جاگے گا اور پھر وہ اپنی ذاتی جستجو سے نئے نئے موتی اور گوہر نکال لائیں گے۔

تعارف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن

   پیدائش اور خاندانی پس منظر


 جماعت اسلامی پاکستان کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمٰن 1972 میں حیدرآباد، سندھ کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔  ان کے والدین کا  تعلق  علی گڑھ سے تھا۔ وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے ماشاءاللہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے حافظ قرآن بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں اور جماعت اسلامی کی فعال رکن ہیں۔ وہ نارتھ ناظم آباد ، بلاک اے میں ایک  کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ۔ 

تعلیم
حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی


جامع مسجد دارالعلوم،  لطیف آباد، یونٹ 10 سے حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم نورالاسلام پرائمری اسکول، حیدرآباد سے حاصل کی اور میٹرک علامہ اقبال ہائی اسکول سے کیا۔ حیدرآباد سے میٹرک کے بعد حافظ نعیم الرحمٰن کی فیملی کراچی منتقل ہوگئی۔ انھوں نے پاکستان شپ اونرز کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ میں کیا۔ بعد ازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز  کیا۔

اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق


زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال اور متحرک طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ 

طلبہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہوئے اور مختلف مواقع پر تین بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم  رہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کو 1998 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ وہ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔