" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟
كلمة الأستاذ محمود شاكر في حفل تسلم جائزة الملك فيصل
كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1986م
كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1406 هـ - 1986 م في الأدب العربي عن الدراسات التي تناولت الأدب العربي في القرنين الخامس والسادس الهجريين.
كلمة العلامة عبدالسلام هارون في حفل تكريمه بجائزة الملك فيصل للأدب العربي - ( ١٩٨١م)
عرب دنیا کی عربی زبان و ادب کی سرکاری اکیڈمیوں کا تعارف
مجمع اللغة العربية - قاھرہ
مجمع اللغۃ العربیۃ 14 شعبان 1351 ھ، بمطابق 13 دسمبر 1932ء مصر کے بادشاہ فواد اول کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔ اس میں بقاعدہ کام 1934ء سے شروع ہوا۔
اس کے کل ممبران 20 ہیں، 10 مصری ہوتے ہیں اور 10 عرب اور غیر عرب۔ ارکان کے لیے کسی مذہبی پس منظر رکھنے کی ضرورت نہیں صرف علمی اور لسانی مہارت ہی بنیادی شرط ہے ۔
پچھلے نصف صدی میں درج ذیل شخصیات نے اس کی صدارت کی ہے:
1- محمد توفيق رفعت (1934 - 1944)2- أحمد لطفي السيد (1945 -1963)4- الدكتور إبراهيم مدكور (1974 - 1995)5- الدكتور شوقي ضيف (1996 -2005)6- الدكتور محمود حافظ (2005 -2011)7- الدكتور حسن محمود عبد اللطيف الشافعي فروری 2012م سے رئیس ہیں۔
مجمع مین بطور نائب رئیس خدمات انجام دینے والوں کے اسمائے گرامی :
الأستاذ الدكتور طه حسين
الأستاذ زكى المهندس
الأستاذ الدكتور أحمد عمار
الأستاذ الدكتور محمد مهدى علام
الأستاذ الدكتور شوقى ضيف
الأستاذ الدكتور محمود حافظ
مولانا امتیاز علی عرشی کی تصنیفات
مولانا امتیاز علی عرشی خان کی تصنیفات |
مولانا متیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں حاجی خلیل، قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔
تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔
مولانا نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔
قرآنیات اسلامیات اور عربی ادبیات میں عرشی صاحب کی بہت سی دریافت اضافہ ہیں ، آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔
وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے لے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے جس کی مثال تفسیر سفیان ثوری پر آپ کے حواشی اور تعلیقات ہے۔عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیری دنیا میں اس تفسیر کی اشاعت سے نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ کیونکہ تاریخ تفسیر میں تفسیر ابن جریر سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی ۔
اسی طرح آپ کا دوسرا کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔ طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان عربی اشعار کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔
اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔
سنہرا اسلامی دور: عربوں نے کس طرح یورپ میں کاغذ متعارف کروایا ؟
(28 اگست 2020 بی بی سی اردو )
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔
کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔