مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو اور اس پر تبصرہ

 یوال نوح حراری ایک اسرائیلی مؤرخ، مفکر، اور فلسفی ہیں، جنہوں نے تاریخ، انسانیت، اور مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی شہرت پائی ہے۔ وہ عبرانی یونیورسٹی یروشلم میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ان کی تحریریں انسانی تہذیب، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل دنیا، اور ارتقائی نفسیات جیسے موضوعات کو گہرائی سے چھوتی ہیں۔

یوال نوح حراری

حراری کی تین عالمی شہرت یافتہ کتابیں:

  1. Sapiens: A Brief History of Humankind – انسانی تاریخ کا ارتقائی جائزہ

  2. Homo Deus: A Brief History of Tomorrow – انسان کا مستقبل اور مصنوعی ذہانت کی حکمرانی

  3. 21 Lessons for the 21st Century – اکیسویں صدی کے فکری، اخلاقی، اور سماجی چیلنجز

وہ مذہب، قوم پرستی، سرمایہ داری، اور ڈیجیٹل کنٹرول جیسے موضوعات پر تنقیدی اور فکری انداز میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کا انداز تحریر سادہ مگر فکری طور پر گہرا ہوتا ہے۔ ان کے بقول:

"کہانیوں اور افسانوں کی طاقت نے انسان کو جانوروں سے ممتاز کیا، اور یہی کہانیاں آج بھی دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔"

آئیے اب ہم یوال نوح حراری کے خیالات، فلسفے، اور دنیا کے بارے میں ان کے وژن پر مبنی ایک فرضی مگر حقیقت پر مبنی مکالمہ ترتیب دیتے ہیں۔ اس مکالمے کا اسلوب ایسا ہو گا گویا کوئی معروف دانشور یا صحافی ان کا انٹرویو کر رہا ہو، اور ان کے خیالات انہی کی زبان سے سامنے آ رہے ہوں — جیسے کسی عالمی فکری ٹاک شو کا سیگمنٹ ہو۔


 یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو

عنوان: "انسان، ڈیٹا، اور مستقبل کا خدا: یوال نوح حراری کی زبانی"

میزبان: حراری صاحب، آپ کی کتاب Sapiens نے انسانی تاریخ کو نئے زاویے سے پیش کیا۔ آپ کا بنیادی نظریہ کیا ہے کہ انسان باقی جانوروں سے کیسے مختلف ہوا؟

یادوں کی چھاؤں

یادیں زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جس میں ہم اپنے آپ کو ایک نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ جب ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ہمیں ایک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی پرانے درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ لے رہے ہوں۔ کبھی کبھار، یہ یادیں خوشی کی ہوتی ہیں، تو کبھی غم کی، لیکن ہر یاد ہمیں اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔

یادیں جیسے دریا کی سیلابی لہریں ہیں، جو ایک وقت میں آپ کو ڈبو دیتی ہیں، تو دوسرے وقت میں آپ کو کنارے تک لے آتی ہیں۔ وہ لمحے جو کبھی اتنے واضح تھے، آج محض دھندلے نقوش کی صورت میں ہمارے دماغ میں رہ گئے ہیں۔ اور یہی دھندلے نقوش کبھی ہمیں ہنسا دیتے ہیں، کبھی رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

یادیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم کب خوش تھے، کب غمگین، اور کب ہم نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی جیت یا شکست سنی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یادیں، چاہے وہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہر لمحہ اہم ہے، اور ہر لمحے کی قدر کی جانی چاہیے۔

یادوں کا ایک اور پہلو ہے، جو ہمیں انسان بناتا ہے۔ ہم اپنی یادوں کے ذریعے اپنے ماضی کو زندہ رکھتے ہیں، اور ان یادوں کے ساتھ ہم اپنی موجودہ زندگی کی ہمت اور امید کا سفر طے کرتے ہیں۔

سجدۂ کائنات: اللہ کی عظمت ورضا کا پیغام

کائنات کی ہر شے میں ایک بے آواز سرگوشی ہے، ایک پُر اسرار گواہی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ ساری عظمت، یہ ساری زندگی، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ آسمان، زمین، دریا، ہوا، درخت، پرندے، اور حتیٰ کہ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بھی ایک ہی ہنر میں جُڑی ہوئی ہیں—سجدہ۔ سجدہ، جو نہ صرف جسمانی عمل ہے، بلکہ ایک گہرا روحانی پیغام بھی ہے، جو ہمیں اپنی حقیقت اور اس کائنات کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے ہمیں یہ حقیقت بتائی ہے کہ "آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے" (سورۃ الرعد 15)۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل کائناتی حقیقت ہے جس میں چھپے ہیں بے شمار راز اور پیغامات۔ ان رازوں کی گہرائی میں جا کر ہم ایک نئی حقیقت کو دریافت کرتے ہیں: اللہ کی حکمت، اس کا نظام، اور اس کی بے پناہ عظمت۔

خواب اور حقیقت کی سرحد پر – انسانی ذہن کی ماورائی کیفیات

ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر پردۂ تخیل پر روشنی کا ایک ہالہ سا ابھرتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ شکلیں بنتی اور بگڑتی ہیں، کبھی مانوس، کبھی اجنبی۔ ایک دروازہ کھلتا ہے، اور ہم کسی اور ہی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ یہ خواب کی دنیا ہے – حقیقت کے قریب مگر حقیقت سے ماورا۔ خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسانی ذہن، بیک وقت روشنی اور دھند میں لپٹا، حقیقت اور تصور کے سنگم پر حیرت انگیز مناظر تخلیق کرتا ہے۔

انسانی ذہن ایک پیچیدہ طلسمی قلعہ ہے، جس کے کئی دروازے ہیں۔ کچھ دروازے حقیقت کی جانب کھلتے ہیں، جہاں تجربات، مشاہدات اور منطق کی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔ مگر کچھ دروازے ایسے بھی ہیں جو خوابوں، تخیل، اور ماورائی کیفیات کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ دونوں دروازے آپس میں یوں جُڑ جاتے ہیں کہ حقیقت اور خواب کی لکیر مدھم ہو جاتی ہے۔ ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، وہ خواب ہے یا حقیقت؟

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو تو ہمارے نظام زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ایک بڑی قیامت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، تو یہ زمین کے موجودہ فزیکل، ماحولیاتی، اور سوشل سسٹمز پر انتہائی گہرے اور ناقابلِ تصور اثرات مرتب کرے گا۔ آئیے اس ممکنہ تغیر کے سائنسی اور سماجی پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں:

1. سائنسی اور ماحولیاتی اثرات:

(الف) زمین کی گردش میں بنیادی تبدیلی

  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ممکنہ طور پر زمین کی محوری گردش کی سمت میں تبدیلی یا الٹاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

  • یہ تبدیلی زمین کے مقناطیسی میدان میں بڑے پیمانے پر خلل پیدا کرے گی، جو مواصلاتی نظام، برقی آلات، اور جی پی ایس پر انحصار کرنے والے نیویگیشن سسٹمز کو تباہ کر سکتی ہے۔

(ب) دن اور رات کے معمولات میں زبردست خلل

  • موجودہ دن رات کے چکر میں شدید بے ترتیبی ہوگی، جس سے موسمیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

  • درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلیاں متوقع ہیں، کیونکہ زمین کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا۔

(ج) موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

  • موسموں کا حساب کتاب بدل جائے گا، اور زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

  • سمندری طوفان، زلزلے، اور سونامی جیسے قدرتی مظاہر شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ زمین کا اندرونی توازن متاثر ہوگا۔

2. معاشرتی، تکنیکی، اور اقتصادی اثرات:

(الف) ہوائی اور بحری نیویگیشن

  • ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور زمینی سفر کے تمام نیویگیشن سسٹمز کو ازسرِ نو ترتیب دینا پڑے گا کیونکہ جی پی ایس اور کمپاسز کی سمتیں تبدیل ہو جائیں گی۔

  • مقناطیسی شمال اور جغرافیائی شمال کے درمیان تعلق متاثر ہوگا، جس سے سفری راستے اور نیویگیشن کے اصول مکمل طور پر بدل جائیں گے۔

(ب) بنکنگ سسٹم اور تجارتی امور

  • عالمی وقت کے نظام (UTC) کو مکمل طور پر نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا، کیونکہ ٹائم زونز کی ترتیب بدل جائے گی۔

  • اسٹاک مارکیٹ، بینکنگ اوقات، اور دیگر مالیاتی نظام متاثر ہوں گے کیونکہ عالمی معیشت ایک مستحکم وقت کے نظام پر منحصر ہے۔

مقناطیس کی دریافت

 مقناطیس کی دریافت ایک قدیم اور دلچسپ تاریخ رکھتی ہے۔ سب سے پہلے انسان نے مقناطیس اور اس کی کشش کو قدرتی طور پر موجود "لوڈ اسٹون"(1) (Lodestone) یا "چمک پتھر" کی مدد سے دریافت کیا، جو قدرتی طور پر مقناطیسی صلاحیت رکھتا ہے۔

قدیم دور میں مقناطیس کی دریافت اور استعمال

1. قدیم یونان (600 ق م)

  • سب سے پہلے یونانی فلسفی "تھلیز آف ملیٹس" (Thales of Miletus) نے 600 قبل مسیح میں مشاہدہ کیا کہ لوڈ اسٹون لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

  • وہ اسے ایک قدرتی خاصیت سمجھتے تھے اور اس پر غور و فکر کرتے رہے، لیکن اسے سائنسی انداز میں بیان نہ کر سکے۔

2. چین (تقریباً 200 ق م)

  • چینیوں نے سب سے پہلے مقناطیس کو سمت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

  • قدیم چینی قطب نما (Magnetic Compass) 200 قبل مسیح میں استعمال ہونے لگا، جو سمندری جہازوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔

  • چینی لوگ "مقناطیسی پتھر" کو ایک چمچ کی شکل میں تراش کر پانی میں رکھتے، جس کا دستہ ہمیشہ جنوب کی طرف اشارہ کرتا۔

3. ہندوستان اور عرب دنیا

  • ہندوستانی اور عربی کتب میں بھی مقناطیس کا ذکر ملتا ہے۔

  • ابن سینا (980-1037) نے اپنی کتاب "کتاب الشفا" میں مقناطیس کی کشش کے اصولوں پر بحث کی۔

  • عرب بحری جہاز راہنمائی کے لیے مقناطیسی پتھر کا استعمال کرتے تھے۔

حضرت آدم علیہ السلام اور ابتدائی انسان: الہامی بیانات اور سائنسی تحقیقات

مقدمہ

حضرت آدم علیہ السلام کا تذکرہ تمام الہامی مذاہب میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید، تورات، زبور، اور انجیل میں ان کے تخلیق، خلافتِ ارضی، آزمائش، اور جنت سے زمین پر نزول کے بارے میں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ دوسری طرف، جدید سائنسی تحقیقات، خاص طور پر بشریات (Anthropology)، علم الحفریات (Paleontology)، اور جینیات (Genetics) نے انسانی نسل کے آغاز کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔

یہ مطالعہ بنیادی طور پر دو پہلوؤں پر مشتمل ہوگا:

  1. الہامی کتب میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر
  2. جدید سائنسی تحقیقات اور اکتشافات

حصہ اول: الہامی کتب میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر

1. قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام

قرآن مجید حضرت آدم علیہ السلام کو نوع انسانی کا پہلا فرد اور اللہ کا برگزیدہ نبی قرار دیتا ہے۔ مختلف آیات میں ان کے تخلیق، علم، آزمائش، شیطان کے دھوکے، اور زمین پر ان کے نزول کے واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

(الف) تخلیقِ آدم

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی:

"إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ"  (سورہ ص: 71)

"فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ"  (سورہ ص: 72)

(ب) خلافت اور علم

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کے سامنے ان کے علم کی برتری ثابت کی:

"وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا"  (البقرہ: 31)

(ج) آزمائش اور جنت سے زمین پر نزول

حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت میں رکھا گیا لیکن شیطان نے انہیں بہکا کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں انہیں زمین پر بھیج دیا گیا:

"قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا" (البقرہ: 38)

2. تورات، زبور، اور انجیل میں حضرت آدم علیہ السلام

تورات اور انجیل میں بھی آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے، لیکن ان میں بعض بیانات قرآن سے مختلف ہیں۔

زمین پر زندگی کا آغاز اور ارتقاء

کرہ ارض پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے ہوا، لیکن اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ یہ آغاز کیسے ہوا۔ مذہبی مفکرین اور سائنس دانوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، جن میں سے چند نمایاں خیالات درج ذیل ہیں:

1. خودبخود پیدائش کا نظریہ

قدیم زمانے میں یہ عام خیال تھا کہ زندگی بے جان اشیاء سے خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً، یہ تصور کیا جاتا تھا کہ خراب ہوتا ہوا شوربہ جراثیم کو جنم دیتا ہے یا گوشت گل سڑ کر کیڑوں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ لیکن 17ویں صدی میں اطالوی سائنس دان فرانسسکو ریڈی نے تجربات کے ذریعے اس نظریے کی تردید کی۔ اس نے ثابت کیا کہ کیڑے گوشت کے اندر سے خود بخود پیدا نہیں ہوتے، بلکہ وہ مکھیاں جو گوشت پر بیٹھتی ہیں، اپنے انڈے دیتی ہیں اور انہی سے کیڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مزید سائنسی تجربات سے یہ نظریہ مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔

2. زندگی کے ماورائے ارضی آغاز کا نظریہ

کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ زمین پر زندگی کسی اور سیارے سے آئی۔ اس نظریے کے حامی ایرک وان ڈینکن جیسے محققین کا خیال ہے کہ لاکھوں سال قبل کوئی مخلوق (دیوتا) کسی دوسرے سیارے سے زمین پر آئی، اس نے انسانی زندگی کی بنیاد رکھی اور پھر واپس چلی گئی۔ تاہم، یہ نظریہ اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ اس مخلوق کی اپنی ابتدا کیسے ہوئی۔ اس لیے سائنسی برادری میں اس نظریے کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔

3. خصوصی تخلیق کا نظریہ

یہ نظریہ کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام جاندار ایک مافوق الفطرت ہستی یا ہستیوں نے پیدا کیے۔ ہر جاندار اپنی مخصوص شکل میں پیدا ہوا اور یہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کئی بڑے سائنس دان بھی اس نظریے کے حامی رہے ہیں، لیکن جدید تحقیق نے اس پر متعدد سوالات کھڑے کیے ہیں۔

پتھر کا دور: ایک تحقیقی مطالعہ

تعارف:

مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ انسان کی زمین پر موجودگی کا بیشتر حصہ پتھر کے دور پر مشتمل ہے۔ تقریباً 99 فیصد انسانی تاریخ کا تعلق اسی دور سے ہے، جبکہ باقی تمام ترقی یافتہ ادوار محض ایک فیصد پر محیط ہیں۔ پتھر کے دور کا آغاز تقریباً دس لاکھ سال قبل ہوا اور اس کا اختتام تقریباً 8 ہزار قبل مسیح پر ہوتا ہے۔ اس دور کے متعلق معلومات زیادہ تر ان اوزاروں، جانوروں اور انسانی ڈھانچوں سے حاصل کی گئی ہیں جو کھدائی کے دوران دریافت ہوئے ہیں۔

پتھر کے دور کی درجہ بندی:

ماہرین آثار قدیمہ نے پتھر کے دور کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  1. قدیم سنگی دور (Paleolithic Age):

    • یہ دور تقریباً 25 لاکھ سال قبل سے 10 ہزار قبل مسیح تک محیط ہے۔
    • انسان شکار پر انحصار کرتا تھا اور غاروں یا کھلی جگہوں پر رہتا تھا۔
    • آگ کی دریافت اور اس کے استعمال کا آغاز اسی دور میں ہوا۔
    • ابتدائی اوزار پتھر کے بنے ہوئے تھے، جو شکار اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
  2. اوسط سنگی دور (Mesolithic Age):

    • یہ دور تقریباً 10 ہزار قبل مسیح سے 8 ہزار قبل مسیح تک جاری رہا۔
    • انسان نے زراعت کی ابتدائی شکلوں کی دریافت کی اور کچھ جانوروں کو پالتو بنانا شروع کیا۔
    • چھوٹے اور زیادہ ترقی یافتہ اوزار بنائے گئے، جنہیں مائیکرولیتھس (Microliths) کہا جاتا ہے۔
    • اس دور میں شکار کے ساتھ ساتھ ماہی گیری اور ابتدائی کھیتی باڑی کا آغاز بھی ہوا۔
  3. جدید سنگی دور (Neolithic Age):

    • یہ تقریباً 8 ہزار قبل مسیح سے 3 ہزار قبل مسیح تک جاری رہا۔
    • انسان نے زراعت کو مکمل طور پر اپنایا اور مستقل بستیوں کی بنیاد رکھی۔
    • مٹی کے برتن، کپڑے بنانے اور گھریلو جانوروں کو پالنے کا رواج عام ہوا۔
    • انسانی تہذیب کی بنیاد پڑی اور ابتدائی سماجی نظام تشکیل پانے لگے۔

پتھر کے دور کے شواہد:

پتھر کے دور کے شواہد زیادہ تر انسانی ڈھانچوں، غاروں میں بنی تصویروں، اور پتھروں سے بنے اوزاروں کی شکل میں موجود ہیں۔

روٹی ’دو وقت کی‘ لیکن کھانے کے اوقات تین: دن میں کتنی بار کھائیں اور کتنی دیر بھوکے رہیں



جیسیکا بریڈلی، عہدہ,بی بی سی نیوز 12 جنوری 2025

’انسان جو کچھ بھی کرتا ہے دو وقت کی روٹی کے لیے ہی تو کرتا ہے‘۔ یہ ڈائیلاگ یقیناً آپ کو اکثر سننے کو ملے گا لیکن پھر ہم کھانا تین وقت کیوں کھاتے ہیں؟

تین وقت کھانے کی روٹین نئی ہے اور یہ سوال اپنے آپ میں اہمیت رکھتا ہے کہ دن میں کتنی بار کھانا ہماری صحت کے لیے بہترین ہیں؟

اس بات کا امکان ہے کہ آپ دن میں تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں اور غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جدید زندگی کھانے کے اسی طریقے کے اردگرد گھومتی ہے۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے، ہمیں کام کے دوران لنچ بریک دیا جاتا ہے، اور پھر ہماری سماجی اور خاندانی زندگی شام کے کھانے کے گرد گھومتی ہے لیکن کیا یہ کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ ہے؟
اس بات پر غور کرنے سے پہلے کہ ہمیں کتنی بار کھانا چاہیے آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ سائنسدان اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں کب نہیں کھانا چاہیے۔

اگرچہ آپ آٹھ گھنٹے کے وقفے سے کھانے کے عادی ہیں لیکن وقفے وقفے سے روزہ رکھنا یا بھوکے رہنا پر تحقیق کی جا رہی ہے۔

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی

 

سگاتو مکھرجی
عہدہ,بی بی سی نیوز
26 فروری 2023
یہ سردیوں کی ایک صبح ہے۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہماری گاڑی سڑک پر بہار کی مشہور سواری تانگوں کے پیچھے سے گزرتی ہے۔ تیز بھاگتے گھوڑے اور خاص پگڑی میں کوچوان سفید دھند میں ’سائے‘ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیا کے ’بودھ گیا‘ قصبے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی، میں رات گزارنے کے بعد میں اس صبح نالندہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کی سرخ رنگ کی اینٹوں کے کھنڈرات ابھی تک قدیم دنیا کے سب سے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہیں۔

دنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان

بی بی سی اردو ، 18 دسمبر 2024

امریکی ادارے بلوم برگ نے دنیا کے دس امیر ترین خاندانوں کی فہرست جاری کی ہے اور اس برس ایک بار پھر وال مارٹ سُپر مارکیٹ کا مالک والٹن خاندان یہاں سرِفہرست نظر آتا ہے۔

تقریباً چھ دہائیوں قبل سیم والٹن نے پہلی سُپر مارکیٹ کھولی تھی اور آج ان کے خاندان سے منسلک افراد کا تعلق دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس برس ان کی وال مارٹ چین کے شیئرز کی قدر میں 80 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

بلوم برگ کے مطابق وال مارٹ کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثوں کا تحفظ کیا ہے اور ایسے کاروباری معاہدے کیے ہیں جس سے ان کی دولت میں کمی نہ آئے۔

اس فہرست میں مزید خاندانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے اور ان کے امیر ہونے کا راز کیا ہے۔

(1) والٹن خاندان


تقریباً چھ دہائیوں قبل سیم والٹن نے پہلی سُپر مارکیٹ کھولی تھی

کُل دولت: 432 ارب ڈالر

ملک: امریکہ

محمد‘ برطانیہ میں سب سے مقبول نام

 

کیچیلا اسمتھ

چارلس نہ جارج، ’محمد‘ برطانیہ میں سب سے مقبول نام

سنہ 2023 میں ’محمد‘ وہ نام تھا کہ جسے انگلینڈ اور ویلز میں رہنے والوں نے سب سے زیادہ پسند کیا اور اپنے بچوں کے ناموں کے لیے چُنا۔ اس نام کے ساتھ 4،600 سے زیادہ بچے رجسٹر ہوئے۔

برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) کے مطابق سنہ 2016 سے بچوں کے لیے چُنے جانے والے ناموں کی سرفہرست میں ابتدائی دس ناموں میں محمد شامل ہے، لیکن اب اس نام نے اس سے قبل سب سے پسندیدہ نام ’نوح‘ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

تاہم انگلینڈ کے تین علاقے اب بھی ایسے ہیں کہ جہاں یہ نام یعنی ’محمد‘ پسندیدہ ترین ناموں کی فہرست کے ابتدائی 10 ناموں میں موجود نہیں ہے۔

انگلینڈ اور ویلز میں ’محمد‘ نام کے انگریزی میں سپیلنگ یا ہجے میں بھی فرق موجود ہے تاہم اس نام کے دو سپیلنگز ایسے ہیں کہ جو ٹاپ 100 کی فہرست میں شامل ہیں۔او این ایس ہر ہجے کو ایک الگ نام کے طور پر دیکھتا ہے جس میں پچھلے سالوں میں محمد کی مختلف شکلیں مقبول ثابت ہوئیں۔

غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں!



غصہ آنا ایک نارمل رویہ ہے اور غصے کا اظہار بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

تاہم بہت زیادہ اور شدید غصہ آنا بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے، یہ نہ صرف صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ تعلقات اور سماجی زندگی میں بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

آج آپ کو غصے کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اپنا غصہ کنٹرول کرسکتے ہیں اور کسی ممکنہ نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

اظہار کرنے سے قبل پرسکون ہونے کا انتظار کریں


غصے میں کچھ بھی کہنے سے قبل انتظار کرنا بہتر ہے، جب آپ کا دماغ پرسکون ہوگا تب ہی اس کے بارے میں سوچنا آسان ہوگا کہ آپ کیا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔

غصے کی حالت میں اکثر غلط بات منہ سے نکل جاتی ہے یا غلط فیصلہ ہوجاتا ہے جو بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔

منظر سے ہٹ جائیں


جس لمحے آپ کو لگتا ہے کہ تناؤ بڑھ رہا ہے اور آپ غصے میں میں کچھ بھی کہہ دیں گے تو اس مقام سے دور ہو کر کسی قسم کی جسمانی ورزش کی کوشش کریں۔

پیدل چلنا، بائیک چلانا یا یہاں تک کہ چہل قدمی کرنا بھی آپ کے تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی، اس طرح آپ پرسکون ہو کر صورتحال کا صحیح انداز میں سامنا کر پائیں گے۔

گہری سانسیں لیں

سنیاس سے 10 کروڑ ڈالرسالانہ کی مراقبہ کمپنی تک کا سفر



بی بی سی اردو 
4 اکتوبر 2019
بی بی سی کی ہفتہ وار دی باس سیریز میں دنیا بھر کے مختلف کاروباری لیڈروں کی کہانی پر نظر ڈالی گئی۔ اس میں مراقبے میں مدد دینے والی موبائل ایپ ’ہیڈسپیس‘ کے شریک بانیوں اینڈی پڈیکومب اور رچرڈ پیئرسن سے بھی بات ہوئی۔

اینڈی پڈکومبے کی زندگی کو بالکل نیا رخ المیوں کے ایک سلسلہ نے دیا۔

جب وہ 22 سال کے تھے تو وہ ایک دن لندن کے ایک پب کے باہر کھڑے تھے جب ایک نشے میں دھت ڈرائیور نے ان کے دوستوں پر گاڑی چڑھا دی جس سے ان کے دو دوست ہلاک ہوگئے۔

کچھ ماہ بعد ان کی سوتیلی بہن سائیکلنگ کرتے ہوئے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئیں اور پھر اس کے بعد ان کی ایک سابق گرل فرینڈ سرجری کے دوران ہی چل بسی۔اینڈی اس وقت سپورٹس سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن اس صدمے کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ زندگی میں مکمل تبدیلی لانے کے لیے انھوں نے بدھ راہب بننے کے لیے ہمالیہ کے سفر کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے اگلے دس سال راہب کی حیثیت سے گزارے۔ اس دوران انھوں نے پورے ایشیا کا سفر کیا اور دن میں 16 گھنٹے تک مراقبہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مراقبے نے انھیں تمام تر حالات سے سمجھوتہ کرنے میں مدد دی ہے۔اب 46 برس کے اینڈی کا کہنا ہے کہ ’اس (مراقبہ) نے میرے نقطہ نظر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس نے مجھے اپنے آپ سے توجہ کم کر کے دوسروں کے لیے خوشیوں کا باعث بننا سکھایا۔‘

حرکت میں ہی برکت ہے: ’زیادہ دیر تک بیٹھنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘

 بی بی سی اردو 26 جولائی 2024
گھر ہو دفتر یا گاڑی، لوگ روزانہ کہیں نہ کہیں دیر تک بیٹھے ضرور رہتے ہیں لیکن بہت دیر تک بیٹھے رہنے سے شریانوں کی خرابی کی وجہ سے دل کی بیماری اور ٹائپ ٹو ذیابیطس جیسے سنگین صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

سنہ 1953 میں وبائی امراض کے ماہر جیریمی مورس نے دریافت کیا کہ لندن کے بس ڈرائیوروں میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان بس کنڈیکٹرز کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے (عمر، جنس اور آمدن کے لحاظ سے) دونوں گروہ ایک جیسے تھے تو پھر اتنا اہم فرق کیوں تھا؟

مورس کا جواب تھا: بس کنڈکٹرز کا کھڑا ہونا لازمی تھا اور باقاعدگی سے لندن کی مشہور ڈبل ڈیکر بسوں کی سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ مسافروں کو ٹکٹ فروخت کرتے تھے جبکہ ڈرائیور لمبے وقت تک بیٹھے رہتے تھے۔

ان کے تاریخی مطالعے نے جسمانی سرگرمی اور صحت کے درمیان روابط پر تحقیق کی بنیاد رکھی۔

اگرچہ لندن کی بسوں میں کنڈکٹرز اب ماضی کی بات ہو گئی ہے تاہم مورس کے نتائج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے گھر سے کام کے معاملے میں بہت بڑی تبدیلی آئی، جس سے ہمارے بیٹھنے کے مجموعی وقت میں اضافہ ہو گیا۔

میٹنگ روم سے واٹر کولر اور بیت الخلا تک کی چہل قدمی کے بغیر ڈیسک کے پیچھے گھنٹوں تک بیٹھنا آسان ہے۔

تاہم آفس کلچر نے 1980 کی دہائی تک ہماری کام کرنے کی زندگی کو اس قدر تبدیل کر دیا تھا کہ کچھ محققین نے مذاق کیا کہ ہماری نسل ہومو سیڈنز ’بیٹھے ہوئے انسان‘ بن گئی ہے۔

مولانا وحید الدین خان : سیرت و کردار


 مولانا وحیدالدین خان صاحب اپنے کردار کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ کے احیاءکی تحریک باہمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءملت کی یہ تحریکیں ننانوے فیصد کی حد تک اسی پہلو پر چل رہی ہے جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کی سماجی پہلووں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے، کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے ، کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربہ میں پایا کہ عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کا کام کوئی نہیں کررہا ۔ اس لئے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (Supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابل عمل ہے۔ احیاءملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پا رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک پراسس (Process) کی ہے، اس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اس پراسس کا ایک حصہ ہے ، یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس پراسس کے مختلف اجزاءمیں کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ کر رہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے، ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر پر ضرورت ہے، تنقید حدیث کے الفاظ میں (المومن مرآة المومن) ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے کے اصول کی تکمیل ہے علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقاءکا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہو گا کہ علمی تنقید باقی نہیں رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقاءکا عمل رُک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پید اہو جائے گا جو کسی گروہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔" (بحوالہ الرسالہ مارچ 2007، 142-3

برطانیہ کے لیے چار گولڈ میڈل جیتنے والا افغانستان کا نور ولی

بی بی سی اردو | 14 جولائی 2024

میرے زندہ بچنے کی امید نہیں تھی‘: برطانیہ کے لیے چار گولڈ میڈل جیتنے والا افغانستان کا نور ولی ولی نور سنہ افغانستان میں بطور مترجم برطانوی فوج کے ساتھ کام کر رہے تھے جب 2009 میں انھوں نے حادثاتی طور پر ایک بم پر پاؤں رکھ دیا
اس دھماکے کی وجہ سے وہ صرف 20 برس کی عمر میں ہی نابینا ہو گئے تھے۔
بچپن سے ہی ولی نور کو پہاڑوں پر بھاگنے کا شوق تھا لیکن بم دھماکے میں بینائی کھو دینے کے بعد انھیں ایسا لگا جیسے وہ زندگی میں کبھی دوبارہ دوڑ نہیں پائیں گے۔

انھوں نے ہار نہیں مانی اور کیسے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد ان کی زندگی بالکل تبدیل ہوگئی سنیے انھی کی زبانی:

’میں نے قبول کر لیا تھا کہ میں مر سکتا ہوں‘

میں نے کابل میں پرورش پائی، میں ایک اچھا باکسر تھا اور خود کو فِٹ رکھنا کے لیے دوڑتا بھی تھا۔ میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی بھی جانا چاہتا تھا لیکن میرا خاندان بہت غریب تھا اور مجھے ان کی مالی مدد بھی کرنی تھی۔
میری پانچ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ میرے خاندان کو بھوک کا سامنا تھا اور میرے والد ملازمت کرنے کے قابل نہیں تھے۔
اسی لیے 18 برس کی عمر میں میں نے بطور مترجم برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے سکول میں انگریزی پڑھی تھی اور مجھے اس زبان پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔

برطانوی فوج، افغان فورسز اور سویلینز کی بات چیت ایک دوسرے کو سمجھانا میری ذمہ داری تھی، میں یہ کام بخوبی انجام دیا کرتا تھا۔

پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں افغان صوبے ہلمند جانا پسند کروں گا اور میں نے جواب میں ہاں کہہ دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے یہ بات قبول کرنا پڑے گی کہ میں وہاں مر بھی سکتا ہوں۔