مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

 بی بی سی اردو 
۱۴ جنوری ۲۰۲۴

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدرت کے راز جاننے سے زیادہ دلچسپ ہیں اور ان کے بارے میں جاننا صرف ذہین لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہ لطف ہے جو ہر کسی کو میسر ہے۔

اس وقت کے بارے میں سوچے جب آپ نے کسی پہیلی کا جواب تلاش کر لیا ہوں کیونکہ اکثر ایسی کسی پہیلی کے جواب کی تلاش میں لوگ بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ایسے ہی آج سائنسی تحقیق نے جہاں بے پناہ ترقی کر لی ہے لیکن اب بھی چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔

ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔

لہٰذا سائیکل کس طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات کا ایک وسیع سمندر ہے۔

یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔

لیکن قدرت کے ان ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک کسوٹی بنے رہے ہیں۔

 

1.    کائنات کس چیز سے بنی ہے؟

 

کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بہ پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

صحت کی حفاظت کے لیے کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟

بی بی سی اردو ۱۸ اگست ۲۰۲۳
صحت کی حفاظت کے لیے کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیے۔

مشہور مقولہ ہے کہ احتیاط، علاج سے کہیں بہتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور کیا ہمیں اپنی صحت کی کوئی فکر بھی لاحق رہتی ہے؟

آج کے دور میں 30 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اولاد خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اُن پر کام کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہمارے لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔

اپنے جسم پر توجہ دے کر ہم ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق 30 کی دہائی میں طرز زندگی کی بیماریاں جیسے دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ایسی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے ؟


کیا مصنوعی ذہانت بقائے  انسانیت کے لیے خطرہ ہوسکتی  ہے ؟ 

برطانیہ کے معروف سائنس دان سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں ایک سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔‘

اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

سٹیون ہاکنگ بات چیت کے لیے امریکی کمپنی انٹیل کا بنایا ہوا نظام استعمال کرتے ہیں جس کی تخلیق میں برطانوی کمپنی سوئفٹ سے تعلق رکھنے والے مشینوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم انھیں ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔

انھوں نے کہا ’یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔‘

جینیئس یا نابغہ افراد میں کونسی خصوصیات ہوتی ہیں؟

ڈیوڈ رابسن : عہدہ,بی بی سی ، فیوچر، 20 نومبر 2022

سنہ 1920 کے عشرے کے آخر میں ایک محنت کش گھرانے کا نوجوان جس کا عرفی نام ’رِٹی‘ تھا، نیو یارک کے علاقے راکوے میں اپنے گھر پر زیادہ تر وقت اپنی ’لیبارٹری‘ میں گزارتا تھا۔ اس کی تجربہ گاہ کیا تھی محض لکڑی کا ایک پرانا کھوکھا، جس میں کئی شیلف تھے اور اسی کھوکھے میں رٹی نے ایک بیٹری، بجلی کے بلب کا ایک سرکٹ، کچھ سوئچ اور ایک ریزسٹرلگا رکھا تھا۔

رِٹی کو اپنی ایجادات میں سے ایک پر سب سے زیادہ ناز تھا۔ یہ ایک چور الارم تھا اور اس کے والدین جب بھی اس کی لیبارٹری میں آتے تو الارم بج اٹھتا اور رٹی کو معلوم ہو جاتا ہے کوئی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔

اپنے اردگرد کی قدرتی دنیا کا مطالعہ کرنے کے لیے رٹی ایک خوردبین استعمال کرتا تھا، اور بعض اوقات دوسرے بچوں کو کرتب دکھانے کے لیے اپنی کیمسٹری کٹ باہر گلی میں بھی لے جاتا تھا۔

رٹی کے ابتدائی تعلیمی ریکارڈ میں کوئی خاص بات نہ تھی۔

اسے ادب کے مضامین اور غیر ملکی زبانیں پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی حالانکہ مبینہ طور پر بچپن میں ذہانت یا آئی کیو کے ٹیسٹٹ میں اُس کا سکور 125 کے قریب تھا جو کہ اوسط سے زیادہ تھا لیکن کسی بھی طرح اس سکور کا شمار ’جینیئس‘ میں نہیں ہو سکتا تھا۔

چیلنج قبول کیجیے اور فاتح بنیے - مرزا یاور بیگ

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

آپ اپنی انا پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو ۲۴ فروری ۲۰۲۱ 

اگر آپ کی شخصیت ایسی ہے جو دوسروں کے کسی عمل یا رد عمل سے پریشان ہو جاتے ہیں تو آپ کو فریڈرک ایمبو کو سننا چاہیے۔

جب ایمبو کو یہ محسوس ہوا کہ وہ زندگی میں ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ردعمل ظاہر کر کے خود کو پریشان کرتے ہیں جیسے اگر کوئی پریشان ڈرائیور ہارن بجا رہا ہے یا ان سے پچھلی والی کار کا ڈرائیور انھیں ہائی بیم لائیٹیں مار رہا ہے، یا اگر ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے شخص نے ان کا گرمی جوشی سے استقبال نہیں کیا تو وہ پریشان ہو جاتے تھے۔

فیڈرک نے فیصلہ کیا کہ اس مسلسل پریشانی سے چھٹکارے کے لیے انھیں کچھ کرنا ہو گا۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے وہ فٹبال ریفری بن گئے۔

ان دونوں چیزوں میں بظاہر کوئی چیز مشترک نہیں ہے، لیکن ایمبو نے بی بی سی کو بتایا کہ ریفری بننے سے انھیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے جو انھیں اپنی انا پر قابو پانے پر مجبور کرتی ہے۔

یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں 

فریڈرک ایمبو نے ایک ٹیڈ ٹاک میں بتایا ‘میں قربانی کا بکرا ہوں، بظاہر میں ہی غلط ہوں، ہمیشہ میری ہی غلطی ہوتی ہے۔ اور میں یہ سیکھنا چاہتا تھا کہ میں اسے اپنی ذات پر نہ لوں۔‘بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ ایمبو کے لیے سیٹیاں بجانے والے ریفری کا کام کافی نیا ہے۔ انھوں نے ایمبورلنگ نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے جو لوگوں کو اپنی بات کو موثر انداز میں دوسروں تک پہنچانے کی تربیت دیتی ہے۔

’کائنڈنس ٹیسٹ‘ دنیا کا سب سے بڑا سروے ہے

بی بی سی اردو ۲ فروری ۲۰۲۳م 

یہ تحقیق ان عوامل پر روشنی ڈالتی ہے جو ہمیں مہربانی کرنے سے روکتے ہیں اور یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ ہر جگہ موجود ہے۔

یہ ایک آن لائن سوالنامہ تھا جسے یونیورسٹی آف سسکس کے ماہر نفسیات رابن بینرجی کی سرکردگی میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس میں 144 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 60 ہزار سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس طرح یہ مہربانی کے موضوع پر کی جانے والی سب سے وسیع تحقیق بن گئی۔

’کہیں مہربانی کا غلط مطلب نہ لے لیا جائے‘

لوگوں کی شخصیت، صحت اور جذبۂ ہمدردی کو جانچنے کے ساتھ مہربانی کا اندازہ لگانے کے لیے ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس قدر تواتر کے ساتھ دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ لوگوں نے مختلف طرح کے جواب دیے۔

بعض نے تو بڑی ایمانداری کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ اکثر مہربانی کا مظاہرہ نہیں کرتے جبکہ دوسرے بہت زیادہ مہربان تھے۔

خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔

دنیا کے ’سب سے خوش انسان‘ کی خوشی کا راز آخر کیا ہے؟

 بی بی سی اردو ، ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ء 

وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان گذشتہ کئی برسوں سے نیپال کی ’شیچن ٹینیئی ڈارجیلنگ‘ خانقاہ میں بودھ بھکشو (راہب) میتھیو رکارڈ نامی شخص کے دماغ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ میتھیو رکارڈ مولیکیولیر بائیولوجی کے ماہر اور ڈاکٹر بھی ہیں۔ وہ دلائی لامہ کے ذاتی مشیر اور اُن کے مترجم بھی ہیں۔

74 سالہ میتھیو کے دماغ کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج دیکھ کر سائنسدان دنگ رہ گئے ہیں۔

محققین نے رکارڈ کے دماغ کا نیوکلیئر ایم آر آئی کیا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔

سائنسدانوں نے اُن کے سر پر 256 سینسر لگائے تاکہ ان کے ذہنی دباؤ، چڑچڑے پن، غصے، خوشی، اطمینان اور درجنوں دیگر مختلف کیفیات اور احساسات کی سطح کا اندازہ لگا سکیں۔ انھوں نے دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے دماغ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

حاصل کردہ نتائج نے اس تجربے میں شریک ہر ایک شخص کی خوشی کی سطح کو ایک مخصوص پیمانے پر ناپا جس میں 0.3 (بہت ناخوش) سے منفی 0.3 (بہت خوش) تھا۔

میتھیو رکارڈ کو اس پیمانے پر منفی 0.45 نمبر حاصل ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ میتھیو اتنے خوش تھے کہ ان کی خوشی کا نمبر اسے ناپنے والے پیمانے پر بھی دستیاب نہیں تھا۔

اور یوں انھیں ’دنیا کا سب سے زیادہ خوش آدمی‘ قرار دیا گیا۔میتھیو رکارڈ، معروف فرانسیسی فلاسفر ژان فرانسوا ریویل اور مصور یحنی لی ٹوملین کے بیٹے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوست اور فلسفی الیگزانڈر جولیئن اور نفسیاتی ماہر کرسٹوف آندرے کے ساتھ مل کر ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی ہے اور اب یہ ہسپانوی زبان میں ’لانگ لئیو فریڈم!‘ کے عنوان سے چھپ رہی ہے۔

ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے ؟

بی بی سی اردو  ، ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۱ء
ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے؟


آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔


اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟


اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی محفوظ ہے۔


بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں۔


حالیہ برسوں میں بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔


لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے 'دماغ' کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟

سائنسدانوں نے وہ گھڑی آگے کر دی ہے جس کا کام دنیا کے خاتمے کا وقت بتانا ہے۔

بی بی سی اردو :  ۲۷ جنوری ۲۰۲۳ء 

اس گھڑی کے منتظم ادارے ’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کے مطابق یہ گھڑی دن کے اختتام کے 90 سیکنڈ قریب کر دی گئی ہے۔

یہ گھڑی سنہ 1947 میں شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری دنیا انسانوں کے اقدامات کی وجہ سے خاتمے کے کس قدر قریب پہنچ چکی ہے۔

اسے ایٹمی جنگوں کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

جب سائنسدان حالیہ کچھ مہینوں میں انسانیت کو لاحق خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس گھڑی کو آگے یا پیچھے کر دیا جاتا ہے۔

فی الوقت یہ نصف شب سے صرف 90 سیکنڈ دور ہے جبکہ نصف شب کا مطلب انسانیت کی اپنے ہی ہاتھوں تباہی ہے۔

پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟

 فری لانسنگ کیا ہے؟

ٹیکنالوجی کی زبان میں فری لانسنگ سے مراد انٹرنیٹ پر کسی بھی ملک میں موجود ایک فرد یا کمپنی کے لیے کام کے عوض پیسے وصول کرنا ہے۔

پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کئی طریقوں سے کما سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک طریقہ ای کامرس یعنی آن لائن کاروبار ہے جبکہ دوسرا طریقہ کونٹینٹ یعنی ایسا مواد لکھنا، تصاویر یا ویڈیوز بنانا جو لوگوں میں مقبولیت حاصل کر سکے۔

اسی طرح فری لانسنگ ایک تیسرا ذریعہ ہے جو پاکستان کے نوجوانوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ایمن کے مطابق: ’ایک اچھا انٹرنیٹ اور لیپ ٹام موجود ہو تو آپ کہیں سے بھی فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘

آمنہ کمال پاکستان کے فری لانسنرز کی ترتیب کرنے والے ایک حکومتی ادارے ڈیجی سکلز سے منسلک ہیں۔ وہاں وہ ہر عمر کے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ: ’ایک زمانے میں کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا تھا۔ پہلے پڑھائی کے بعد لوگ نوکریاں تلاش کرتے تھے۔

’اب یہ بدلتا جا رہا ہے اور لوگوں کو جسمانی طور پر کسی دفتر میں موجود ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ورچوئلی (یعنی عدم موجودگی میں کمپیوٹر کے ذریعے) کام کر سکتے ہیں۔

چھٹی حس یا پروپریوسیپشن کیا ہے ؟

بی بی سی اردو 

9 جنوری 2023ء 

 ہم نیند کے دوران بیڈ سے گِرتے کیوں نہیں؟

اگر آپ رات کو آنکھیں بند کریں اور آپ کی آنکھیں صبح سویرے خود بخود ہی کُھل جائیں تو آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اچھی اور پُرسکون نیند میسر ہوتی ہے۔

ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم اور دماغ دونوں حرکت میں ہوتے ہیں۔

ہم خواب دیکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لوگوں پر چیختے ہیں۔ کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو بستر پر گھومتے، جھومتے اور جھول لیتے ہیں۔

مگر چاہے ہم 65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ خواب خرگوش میں رات کتنی ہی مصروف گزری ہو۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟

Stress Management


 

نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

بی بی سی اردو 

2جنوری 2023ء 

 نئے سال میں جم جانے یا سگریٹ نوشی ترک کرنے جیسے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

جم شروع کرنی ہے، پیسے بھی بچانے ہیں، سگریٹ نوشی بھی ترک کرنی ہے اور اپنی شخصیت پر بھی کام کرنا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی اہداف آج کل یقیناً آپ سب کے ذہنوں میں ہوں گے۔

نئے سال کے اہداف پورے کرنے کے پانچ آسان طریقے

نئے سال کی ابتدا ہو چکی ہے اور یوں تو نئے پراجیکٹس کا آغاز کرنے اور بری عادتوں کو پیچھے چھوڑنے کا کوئی اچھا، برا وقت نہیں ہوتا لیکن نئے سال کی ابتدا ایسا کرنے کے لیا موقع ضرور فراہم کرتا ہے۔

اکثر افراد کے لیے نئے سال کے آغاز پر کیے گئے عہد ایک ’تازہ آغاز‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ نئے سال کی ’قراردادوں‘ کا مقصد دراصل خود کو بہتر بنانے کے لیے نئے اہداف کا تعین کرنا ہوتا ہے۔

شاید آپ اس سال بچت کرنے کا عہد کرنا چاہتے ہوں یا ہو سکتا ہے آپ کو ایک نئے شوق کو اپنانے کی جستجو ہو۔

آپ نے سال کے آغاز میں جو بھی عہد کر لیے ہیں، انھیں پورا کرنے کے لیے ایک چیز بہت ضروری ہے اور وہ حوصلہ افزائی کی مسلسل موجودگی ہے۔

تاہم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے۔

سکرینٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نئے سال کے آغاز پر اپنے لیے اہداف مقرر کرنے والے افراد میں سے صرف آٹھ فیصد ان پر قائم رہ سکے۔

تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ ان 92 فیصد افراد میں سے نہ ہوں۔

اس تحریر میں ہم اس ناکامی سے بچنے اور سال کے آخر تک ایک عہد کو نبھانے کے پانچ آسان طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے اہداف پورے کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟

کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہوجاتے ہیں ؟ 
بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت: 24 دسمبر 2022ء 

 ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں! کچھ لوگ ہر موقع پر لیٹ کیوں ہو جاتے ہیں؟

اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کا کوئی نہ کوئی جاننے والا ایسا ضرور ہو گا جو ہمیشہ لیٹ ہو جاتا ہے۔ وہ لیٹ آنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بھی آپ کو سنائے گا، مگر اگلی مرتبہ پھر لیٹ ہو گا۔

کیا یہ بہانے واقعی جھوٹے بہانے ہوتے ہیں یا ہمیشہ لیٹ ہونے والے افراد اپنی ’عادت کے ہاتھوں مجبور‘ ہوتے ہیں

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ حد تک لیٹ ہونا انسانی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے اور لیٹ ہونے والے افراد ذہنی طور پر مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔

سنہ 2014 کے ایک سروے کے مطابق پانچ میں سے ایک امریکی ہر ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لیٹ ہو جاتا ہے یعنی ہفتے کے دوران ایک نا ایک موقع ایسا ضرور آتا ہے جب وہ مقررہ وقت پر کہیں پہنچ نہیں پاتا۔  

کتاب ’لیٹ!‘ کی مصنف گریس پیسی کہتی ہیں کہ عام افراد دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ٹائم کیپر یعنی وقت کے پابند جو ہمیشہ وقت پر پہنچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، اور دوسرے ٹائم بینڈر، یعنی جو ہمیشہ وقت سے پیچھے رہتے ہیں۔ 

وہ کہتی ہیں کہ ٹائم بینڈر (یعنی ہمیشہ وقت سے پیچھے رہنے والے) افراد کو روٹین پسند نہیں ہوتی اور اُنھیں یکسانیت سے بہت کوفت ہوتی ہے اس لیے وہ بہت جلدی بور ہو جاتے ہیں۔ 

کیا عقل و شعور کے سنہری دور میں رہنے والا انسان ’ذہانت کی معراج‘ پر ہے؟

آپ نے شاید محسوس نہ کیا ہو، لیکن ہم عقل و شعور کے سنہری دور میں رہ رہے ہیں۔

سو سال پہلے جب سے ذہانت جانچنے کا پیمانہ آئی کیو ایجاد ہوا ہے ہمارا سکور بڑھتا ہی رہا ہے۔ آج ایک اوسط درجے کی ذہانت کے حامل شخص کو سنہ 1919 میں پیدا ہونے والے شخص کے مقابلے میں جینیس یعنی اعلی ذہانت رکھنے والا سمجھا جاتا۔ اس اصول کو فلِن اِیفیکٹ کہتے ہیں۔

ہماری اس ذہنی صلاحیت میں یہ اضافہ خوشی کی بات ہے، مگر کب تک؟ حالیہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ صلاحیت ماند پڑ رہی ہے، بلکہ انحطاط پذیر ہے۔ یعنی ہم عقل و شعور کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہانت کی انتہا کو پہنچا بھی جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو   پھر مستقبل کے انسان کے لیے عروج کے بعد زوال کا مطلب کیا ہوگا۔
ازمنۂ قدیم میں انسانی ذہانت کی ابتدا کیسی ہوئی؟ یعنی وہ وقت جب تیس لاکھ برس پہلے ہمارے اجداد نے دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر چلنا شروع کیا۔ متحجر یا پتھر بن جانے والی کھوپڑیوں کے سکین سے پتا چلاتا ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے بِن مانَس، آسٹرالوپیِتھیکس، کا دماغ 400 مکعب سینٹی میٹر بڑا تھا جو آج کے انسانی دماغ کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔

بور ہونا آپ کی ذہنی صحت کے لیے کیسے مفید ہے؟

بی بی سی اردو 

تاریخ : 22 دسمبر 2022ء 

اگر کوئی آپ سے کہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آرام سے بیٹھو اور کچھ نہ کرو، تو آپ کا دماغ اسے قبول نہیں کرے گا، بلکہ یہ خیال بار بار آپ کے ذہن میں آئے گا کہ کچھ ادھورے کاموں اور دیگر ضروری کاموں کو کیسے پورا کیا جائے۔

آج کی مصروف زندگی میں یہ عام بات ہے کہ ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹس سے لے کر تمام ای میلز کو چیک کرنے، تمام کاموں کو مکمل کرنے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے تک ہر چیز کے لیے دن کے 24 گھنٹے کم پڑ جاتے ہیں۔

اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تو آپ تفریح کے لیے اپنے موبائل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصروں کا جواب دینا اور کبھی کچھ اور چیزوں کو تلاش کرنا۔

لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ بور ہونا بھی ایک آسان اور مفید آپشن ہے۔

کچھ لوگ اپنے خیالات اور نظریات کے ساتھ تنہا رہنے کے بجائے خود کو ’بجلی کا جھٹکا‘ دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ بات مشہور سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔

ایک تحقیقی تجربے کے حصے کے طور پر، کچھ لوگوں کو ایک کمرے میں 15 منٹ تک اکیلے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔

ان تمام لوگوں کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں کچھ نہیں کرنا ہے۔ ایک ہی آپشن تھا، ایک بٹن دبانا، جس سے انھیں ہلکے بجلی کے جھٹکے لگیں گے۔

تجربے میں شامل 42 افراد میں سے تقریباً نصف نے کم از کم ایک بار وہ بٹن دبایا، جب کہ انھیں بجلی کے جھٹکے کا احساس پہلے ہی ہو چکا تھا۔