گوشۂ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا اسلوب تحریر: جس کے پیرہن سے خوشبو آئے

ابو فہد ندوی 

ہم اس مضمون میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے اسلوب تحریر کے انشائی پہلو پر گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اس کی باطنیت یعنی جوش و جذبے، ذوق و شوق اور اس میں پنہاں وفور عشق و محبت اور وارفتگی کے حوالے سے بات کریں گے، جو ان کے قلم کو قوت و رعنائی اور آتش و زیبائی بہم پہنچاتی ہیں، اس میں شیرنی گھولتی ہیں اور ان کے قلم کو ہردم جواں اور ہر لحظہ رواں رکھتی ہیں۔ اور قاری دوران قرات ایسا کچھ محسوس کرتا ہے جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے جسم و جان اور قلب و روح کے تمام تار و پود کو بیک وقت معطر کر رہے ہیں۔

جیسے بھیگی بھیگی سی کوئی شام ہے اور قاری اس میں مزید بھیگ جانا چاہتا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ خود اپنے اوپر لکھی گئی تنقید پڑھ رہا ہوتا ہے اور تب بھی اس کی یہی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ مزید بھیگتا رہے۔ شاید اس کے شوق کو یہ احساس مہمیز کرتا ہے کہ یہ تحریر براہ راست اسی سے مخاطب ہے اور خاص کر اسی کے لیے ہمدردی و خیر خواہی کا بے پناہ جذبہ اپنے ظاہر و باطن میں سموئے ہوئے ہے۔

مولانا مرحوم کی تنقیدات کی اسی خصوصیت کے تعلق سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ”ان کی تحریر و تقریر میں جو اخلاص، دردمندی اور دل سوزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ ان کی سخت سے سخت بات کو مخاطب کے لیے قابل قبول بنا دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عربوں پر کھری کھری تنقید کے باوجود عرب ممالک میں ان کی مقبولیت کسی بھی غیر عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔“ [مفتی مولانا محمد تقی عثمانی، مضمون : ”توصیف کیا بیاں کریں ان کے کمال“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]

اسی حوالے سے ایک اور شہادت دیکھیں :

اصلاح و تجدید کی ضرورت اور تاریخ اسلام میں ان کا تسلسل - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی

 زندگی متحرک ہے اور تغیر پذیر ہے:

 اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدہ-3)ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔ ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔               

جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی

اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا

بہترین نمونہ ہے۔

 ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿الانعام:٩٦﴾

یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے کا۔

صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ  ﴿النمل:٨٨﴾

کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم کیا۔

اُمتِ اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات ہے

یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔