ابو فہد ندوی
ہم اس مضمون میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے اسلوب تحریر کے انشائی پہلو پر گفتگو نہیں کریں گے بلکہ اس کی باطنیت یعنی جوش و جذبے، ذوق و شوق اور اس میں پنہاں وفور عشق و محبت اور وارفتگی کے حوالے سے بات کریں گے، جو ان کے قلم کو قوت و رعنائی اور آتش و زیبائی بہم پہنچاتی ہیں، اس میں شیرنی گھولتی ہیں اور ان کے قلم کو ہردم جواں اور ہر لحظہ رواں رکھتی ہیں۔ اور قاری دوران قرات ایسا کچھ محسوس کرتا ہے جیسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے جسم و جان اور قلب و روح کے تمام تار و پود کو بیک وقت معطر کر رہے ہیں۔
جیسے بھیگی بھیگی سی کوئی شام ہے اور قاری اس میں مزید بھیگ جانا چاہتا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ خود اپنے اوپر لکھی گئی تنقید پڑھ رہا ہوتا ہے اور تب بھی اس کی یہی خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ مزید بھیگتا رہے۔ شاید اس کے شوق کو یہ احساس مہمیز کرتا ہے کہ یہ تحریر براہ راست اسی سے مخاطب ہے اور خاص کر اسی کے لیے ہمدردی و خیر خواہی کا بے پناہ جذبہ اپنے ظاہر و باطن میں سموئے ہوئے ہے۔
مولانا مرحوم کی تنقیدات کی اسی خصوصیت کے تعلق سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ”ان کی تحریر و تقریر میں جو اخلاص، دردمندی اور دل سوزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ ان کی سخت سے سخت بات کو مخاطب کے لیے قابل قبول بنا دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عربوں پر کھری کھری تنقید کے باوجود عرب ممالک میں ان کی مقبولیت کسی بھی غیر عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔“ [مفتی مولانا محمد تقی عثمانی، مضمون : ”توصیف کیا بیاں کریں ان کے کمال“ مطبوعہ: فکر انقلاب، فروری 2019، نئی دہلی]
اسی حوالے سے ایک اور شہادت دیکھیں :