فکر اقبال ، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فکر اقبال ، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
(مختصر سوانح)
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا تعلق کشمیریوں کی مشہور گوت ’’ ڈار‘‘ سے تھا۔ ان کے بزرگ ہندو راجوں کی افواج میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ سکھوں کے عہد میں ان کے دادا کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور (پنجاب) میں سکونت پذیر ہوئے۔ لاہور میں ان کی رہائش محلہ چہل بیبیاں اندرون اکبری دروازہ میں تھی۔ کشمیر میں حکیم صاحب کے بزرگ پشمینے وغیرہ کا کام کرتے تھے اور اکثر لوگ اس ضمن میں ان سے اکتساب فن کی بناء پر انہیں ’’ خلیفہ‘‘ (استاد) کے لفظ سے پکارتے۔ یوں یہ لفظ اس خاندان کے افراد کے ناموں کا پہلا جزء ٹھہرا۔
حکیم صاحب کے والد خلیفہ عبدالرحمن ایک نیک دل اور متقی شخص تھے، انہیں گلستان و بوستان سعدی ایسی اخلاقی کتب سے دلی شغف تھا اور اپنے بچوں کی تربیت میں وہ ان سے کام لیتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ حکیم مرحوم کی والدہ رحیم بی بی دوسری بیوی تھیں۔ حکیم مرحوم کی ولادت ان کے آبائی مکان (محلہ چہل بیبیاں) میں ۱۸۹۳ یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ بارہ برس کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ چار برس کی عمر میں قریبی مسجد میں پڑھنے بیٹھے۔ پھر اندرون موچی دروازہ کے کوچہ لال کھوہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت سے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ جانے لگے اور وہیں سے انہوں نے ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچاؤں نے جائیداد میں سے انہیں کچھ نہ دیا۔ جس کے سبب ان کی زندگی عسرت میں بسر ہونے لگی۔ ان کی والدہ کو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہر طرح کی مصیبت جھیلی۔ خلیفہ مرحوم نے بھی دل لگا کر محنت کی اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔
سکول ہی کے زمانے میں انہوں نے شاعری شروع کی اور سکول کی ادبی مجالس میں حصہ لیا جس سے اساتذہ کی نظروں میں ہر دلعزیز ہوئے۔ سکول سے فراغت پائی تو ایف سی کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنس سے رغبت نہ ہونے کے سبب سلسلہ تعلیم منقطع کر کے علی گڑھ میں سال اول (آرٹس) میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی ان کی قابلیت کے جوہر نمایاں ہوئے یہ ۱۹۱۲ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۱۵ء میں بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں آ کر فلسفہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
میاں فضل حسین نے (جو اس وقت انجمن حمایت اسلام اسلامیہ کالج کے سیکرٹری تھے) انہیں لیکچر شپ پیش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ۱۹۱۷ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کے ممتحین میں علامہ اقبال بھی تھے۔ ان کا ایم اے میں مقالہ مولانا جلال الدین رومی پر تھا۔ اس دوران میں وہ شعر و شاعری بھی اور مشاعروں میں شرکت بھی کرتے رہے۔ کچھ عرصہ انگریزی اخبار ’’ آبزرور‘‘ کی ادارت کی، جس میں انہوں نے بڑے تند لہجے میں مسلمانوں سے متعلق انگریز حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی، جس کے نتیجے میں اخبا رکی ضمانت ضبط ہوئی اور وہ بند کر دیا گیا۔
۱۹۱۹ء میں حکیم مرحوم، حضرت علامہ کی سفارش پر، عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے اور منطق کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں ان کی شادی خدیجہ بیگم سے ہوئی اور ۱۹۲۲ء میں وہ جامعہ عثمانیہ کے وظیفے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے ’’ ما بعد الطبیعیات رومی‘‘ پر مقالہ لکھا۔(یہ مقالہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہو گیا۔) ۱۹۲۵ء میں وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن لوٹے۔ ۱۹۲۵ء سے ان کی ملازمت کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور اب وہ صدر شعبہ فلسفہ بنا دیے گئے، حیدر آباد میں ان کی زیادہ تر سرگرمیاں علمی اور تدریسی حد تک ہی رہیں۔ اس عرصے میں وہ یونیورسٹی کے جریدے ’’ مجلہ عثمانیہ‘‘ میں وقیع مقالے لکھتے رہے۔ انہوں نے فلسفے کی بعض کتب کے اردو تراجم بھی کیے۔ اپنی انہی علمی، ادبی اور تدریسی سرگرمیوں کی بناء پر وہ یونیورسٹی کے چوٹی کے اساتذہ میں شمار ہونے لگے۔
۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک خلیفہ مرحوم نے کشمیر میں ملازمت کی۔ دراصل ۱۹۴۳ء میں وہاں کے امر سنگھ کالج میں پرنسپل کی اسامی خالی ہوئی اور خلیفہ مرحوم کی خدمات حکومت کشمیر نے نظام دکن سے مستعار لے لیں۔ یہاں کچھ عرصہ وہ ناظم تعلیمات بھی رہے۔
خلیفہ مرحوم کی ملازمت کا تیسرا دور ۱۹۴۷ء یا ۱۹۴۹ء کا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں کشمیر چھوڑنے کے بعد خلیفہ مرحوم دوبارہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) پہنچے، جہاں انہیں ڈین آف آرٹس بنا دیا گیا۔ دو سال بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور میں اقامت گزیں ہو گئے۔
۱۹۵۰ء میں انہوں نے اپنے پرانے رفیق اور دوست اور اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان
1؎ یہ مختصر سوانح ڈاکٹر وحید عشرت صاحب (نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان لاہور) کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ سے ماخوذ ہیں۔
ملک غلام محمد کی مدد سے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی جو آج بھی کلب روڈ کی ایک عمدہ عمارت میں کام کر رہا ہے۔ خلیفہ مرحوم دس برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اقبال اور اسلام کے موضوعات پر کئی لیکچر بھی دیے۔ پھر بیرون ملک بھی سفر کیے، بالخصوص ایران کے سفر میں انہوں نے حضرت علامہ سے متعلق لیکچر دے کر ایرانیوں کو متاثر کیا۔ ۱۹۵۴ء میں لبنان میں ایک بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی نے انہیں کانووکیشن ایڈریس پڑھنے کی دعوت دی۔ اس ایڈریس کو امریکہ کے علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ۱۹۵۷ء کے کانووکیشن میں یونیورسٹی نے انہیں ایم ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے ایسے علمی سفروں کی فہرست کسی حد تک طویل ہے۔
گوناگوں علمی صفات اور ہمہ پہلو خصائص کی حامل اس شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری سال انتہائی مصروفیت میں گزار کر ۳۰ جنوری ۱۹۵۹ء کو دل کے دورے کے باعث اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اس وقت وہ کراچی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں اپنے دوست ڈاکٹر ممتاز حسن کے یہاں مقیم تھے۔ دل کے دورے نے اتنی بھی مہلت نہ دی کہ ڈاکٹر ان کا کوئی علاج کر سکتا۔ آخری وقت جب ان کی سانس پھولی ہوئی تھی، دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ رہے تھے:
Oh my heart, this has never happened before.
انا للہ وانا الیہ راجعوان
حکیم مرحوم کی تصنیفات: حکمت رومی، فکر اقبال، افکار غالب، تشبیہات رومی
علاوہ ازیں بہت سے خطبات جو انہوں نے مختلف تقاریب میں پڑھے، یا ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ بیسیوں مقالات جو ملک کے موقر مجلات میں شائع ہوئے اور اب ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے انہیں کتابی صورت میں مقالات حکیم (تین جلدیں) کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ خلیفہ مرحوم نے کئی ایک انگریزی کتب و مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا،
جن میں دیبر کی کتاب History of Philosophy کو تاریخ فلسفہ کے نام سے اور ہیرلڈ ہونڈنگ کی کتاب ہسٹری آف ماڈرن فلاسفی کو تاریخ فلسفہ جدید کے نام سے اردو کا روپ دیا۔ ان کے علاو ہ ان دو کتابوں کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا:
Outline of Greak Philosophy کا ترجمہ مختصر تاریخ فلسفہ یونان کے نام سے کیا۔
Varieties of Religious Experience از ولیم جیمز کا اردو نام: نفسیات واردات روحانی رکھا۔
کئی مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا۔ پھر بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ کیا اور اردو منظومات کا ایک مجموعہ کلام حکیم کے نام سے بھی ان سے یادگار ہے۔
حواشی و تعلیقات

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے فکر اقبال میں بہت سے حوالوں سے کام لیا ہے جو ان کی وسعت مطالعہ پر دال ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہاں متعلقہ حوالے کی کتاب کو سامنے رکھا ہے وہاں تو وہ حوالہ (شعر کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں) درست ہے لیکن جہاں انہوں نے یادداشت سے کام لینے کی کوشش کی ہے وہاں غلط ملط ہو گیا ہے اور غلط ملط والے مقامات کئی ہیں، جس کے نتیجے میں راقم کو متعلقہ شعر یا حوالہ ڈھونڈنے میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اکثر اشعار غلط، پہلا مصرع دوسرے مصرع کی جگہ اور دوسرا مصرع پہلے کی جگہ پر پھر بعض اشعار کا آغاز انہوں نے کچھ اور الفاظ سے کیا ہے جب کہ اصل شعر کسی اور لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مثنوی رومی کی مثال دی جاسکتی ہے یا مثلاً گہ از دست تو کار نادر آید ہے لیکن فکر اقبال میں چو از دست۔ الخ ہے اسی طرح بعض اشعار کی نسبت بھی غلط ہے۔ امیر خسرو کا ایک مشہور شعر حافظ منسوب کیا ہے۔ یہاں تک کہ حافظے سے کام لینے کے باعث وہ دو ایک آیات قرآنی میں تھوڑی سی تاخیر و تقدیم کر گئے ہیں، بہرحال یہ غلطی درست کر دی گئی ہے۔ جو حوالے میسر آ سکے انہیں حواشی و تعلیقات میں جگہ دی گئی ہے اور جو اس کام کی تکمیل کے بعد ملے انہیں ’’ ضمیمہ‘‘ میں درج کر دیا گیا ہے۔ اشعار کے معاملے میں حاشیے کا انداز یہ ہے کہ صفحہ کے ساتھ پہلے مصرعے والی سطر کا نمبر دیا گیا ہے اس کے ساتھ جتنے بھی اشعار ہیں سبھی اسی حوالے سے متعلق ہیں۔ جہاں کہیں مسلسل دو صفحوں پر اشعار آئے ہیں۔ وہاں حوالہ اس طرح دیا گیا ہے : ۱۱۷/۲۔ بعض حوالے کئی جگہ آ گئے ہیں۔ ایسے حوالے میں تفصیل صرف ایک جگہ دی گئی ہے۔ آیات قرآنی کے ترجمے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے ترجمے سے استفادہ کیا گیا ہے۔

اقبال کے افکار کا خلاصہ


خلاصہ افکار
اقبال کے افکار میں اتنا تنوع اور اتنی ثروت ہے کہ اگر اس کے تفکر و تاثر کے ہر پہلو کی توضیح و تشریح اختصار سے بھی کی جائے تو ہزار ہا صفحات بھی اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کم از کم سہ ہزار سالہ ارتقاے فکر کا وارث ہے۔
اقبال سے کئی صدیاں پیشتر، مسلمان حکما، صوفیائ، شعراء اور مفکرین نے انسان کے ماضی کی تمام دولت علم و ہنر کو سمیٹ کر اس کو کیمیائے اسلام سے اکسیر حیات بنا دیا تھا۔ اسلام ادیان عالیہ کی آخری ارتقائی شکل تھی۔ اسلام کے بعد مذاہب تو ابھرتے رہتے تھے اور ابھرتے رہیں گے لیکن اسلام کے بعد کوئی دین اپنی وسعت زمانی او رمکانی میں عالمگیر نہیں ہو سکا۔ تاریخ ادیان خود ختم نبوت کی سب سے قوی شہادت ہے۔ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے کتب خانہ دار نے راقم الحروف سے کہا کہ اسلام کی توحید اور اخلاقیات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ختم نبوت کا عقیدۂ سمجھ میں نہیں آتا۔ نبوت کی ضرورت جیسے پہلے تھی ویسے اب بھی ہے اور ہمیشہ انسانوں کو خدا سے ہدایت یافتہ انسانوں کی ہدایت کی ضرورت رہے گی۔ اس فیضان الٰہی کے کسی ایک انسان پر ایک زمانے میں ختم ہو جانے کے کیا معنی؟ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق کچھ سمجھانے کی کوشش کی؟ معلوم نہیں میرے دلائل اس کے لیے دل نشین ہوئے یا نہیں لیکن وہ خود ہی بول اٹھا کہ تاریخ نے تو اس عقیدے کو سچ ہی کر دکھایا ہے کیوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد نوع انسان پر اتنا اثر انداز نبی تو کہیں پیدا نہیں ہوا۔
اسلام نے جامع حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی کہ مسلسل مشاہدۂ فطرت کرتے رہو تاکہ تم پر انفس و آفاق کے لامتناہی حقائق بتدریج منکشف ہوتے رہیں۔ کلمات الٰہی جو اعیان مظاہر ہستی ہیں، از روے قرآن لامتناہی ہیں، ان کو لکھتے لکھتے تمام سمندروں کی روشنائی ختم ہو جائے پیشتر اس کے کہ ان کا شمار انجام کو پہنچے۔
مسلمانوں نے ترقی کے دور میں ’’ اطلب العلم و لو کان بالصین‘‘ پر عمل کرتے ہوئے او رہر قسم کے علم کو اپنا گم شدہ مال سمجھتے ہوئے، ہر قوم کے علوم و فنون کو سمیٹ لیا اور پھر اس ورثے میں گراں بہا اضافہ کیا لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے قریب ان قوموں میں انحطاط آ گیا اور اس کے بعد وہ یا ساکن و جامد ہو گئیں اور یا گرتی چلی گئیں کیوں کہ زندگی کا عالم گیر قانون یہی ہے کہ اگر آگے نہ بڑھو تو ضرور پیچھے ہٹو گے رفعت کی طرف نہ اٹھو گے تو پستی میں گرو گے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ زوال پذیری کا دور ابھی ختم ہوا یا نہیں، بہرحال بیداری کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔
جب مسلمان بیدار تھے تو مغربی اقوام خفتہ تھیں۔ جب مسلمانوں پر خفتگی طاری ہوئی تو مغربی اقوام صدیوں کی نیند سے چونکیں اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔ بیداری کے آغاز میں بہت سا فیض ان اقوام نے مسلمانوں کے سرمایہ افکار سے حاصل کیا لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ کرتی چلی گئیں، بقول اکبر الٰہ آبادی:ـ
رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی
نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی
دور انحطاط میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہ حال ہو گیا کہ پرانے قیمتی سرمائے میں سے بھی فقط جامد چیزوں کا الٹ پھیر کرتے رہے۔ تفکر میں اجتہاد ختم ہو گیا اور فقہا نے کہنا شروع کر دیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے:
دروازہ میکدے کا نہ کر بند محتسب
ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے
(ذوق)
در توبہ تو باز رہا لیکن در اجتہاد بن ہو گیا۔ فکر و عمل سے تسخیر کائنات عبادت کا جزو نہ رہی۔ طبعی علوم ، فلسفہ، دینیات، سب ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ علم کلام کی فرسودہ اور دور از کار موشگافیاں در سیات کا جزو بن گئیں۔
اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افزاء عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہا آشنا تھے اور نہ ہمارے شعراء کو ان کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا۔ اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔ حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی، اس نے انسانی ترقی کو یک طرفہ کر کے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔
تمام ملت اسلامیہ میں دور حاضر میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور شرق و غرب کے افکار کا جامع ہو ۔ اس جامعیت کے ساتھ وہ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھا۔ اس تمام دولت کو اس نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثر انداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیونکہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہو گئے تھے۔ مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے، وہ اس سے قبل کہیں نہیں ملتی:
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت


بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت
معارف کے بیان میں اقبال جابجا اپنے مرشد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک پڑھنے والے کا تاثر ہے اگرچہ اقبال خود اپنے تئیں رومی سے فیض یافتہ اور مرشد سے کسی قدر کم ہی سمجھتا تھا۔ اقبال جہاں آگے نکل گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ بھی رومی کے بعد چھ سو برس آگے بڑھ چکا تھا۔ا س دوران میں زندگی نے نئے اطوار اور نئے مسائل پیدا کیے اور انسان اپنے فکر و عمل سے ان کے نئے نئے حل تلاش کرتا گیا۔ اقبال اگر کہیں رومی سے اونچا دکھائی دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ رومی اس سے پہلے عقل و عشق کی بہت سی گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ برناڈشا نے ایک مرتبہ کسی قدر تعلیٰ سے کہا کہ میں اپنے تئیں شیکسپیئر سے اونچا سمجھتا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوں۔ اقبال نہ صرف رومی کے کندھوں پر سوار ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام حکما و صوفیہ کے افکار پر قدم رکھ کر ان سے اونچا ہو گیا ہے۔ ایران کے ملک الشعراء بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکماء کے بھی بہترین افکار سے اقبال نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کہیں ان کا نام لیا ہے اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ مگر وہ کسی کا مقلد اور خوشہ چین نہیں، اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادۂ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔ کتاب کو ختم کرتے ہوئے اس مختصر تلخیص میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں کہ یہ محقق و مفکر اور اہل دل مبصر آخر میں کس یقین و ایمان اور کس زاویہ نظر کو پہنچا اور سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا ثمرہ اس کو کیا ملا جس میں اس نے بقول خود زندگی کی راتیں بسر کیں۔
آئیے اقبال کے افکار و تاثرات کے بحر بے پایاں کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں۔
اقبال کے نظریہ حیات کا لب لباب ہمارے نزدیک مفصلہ ذیل ہے:
۱۔ تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے۔ اس کی ماہیت نہ مادی ہے اور نہ نفسی۔ اس کی کنہ حیات ابدی ہے۔ جو خلاق اور ارتقاء کوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔
۲۔ حقیقت مطلقہ خدا ہے جو حی و قیوم اور ازلیٰ اور ابدی طور پر خلاق ہے۔ اس کی خلقت اور تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ نقص سے کمال کی طرف نہیں ہے بلکہ لامتناہی اور مسلسل خلاقی کمال ہی کمال ہے۔ تجلی میں تکرار نہیں اور خدا اپنی آفرینش میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
۳۔ مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کا ایک مظہر ہے۔ وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔
۴۔ زمان و مکان کی بھی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ یہ خاص مراحل میں زندگی کے اپنے پیدا کردہ زاویہ نگاہ ہیں اور اس عالم میں ادراک ان سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔
۵۔ خدا فرد مطلق ہے اسے ایک مقصد کوش نفس تصور کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فرد مطلق اور نفس مطلق کی ماہیت ادراک میں نہیں آ سکتی۔ خدا انائے مطلق ہے۔
۶۔ تمام مخلوقات خدا کی ہستی مطلق میں سے سرزد ہوئی ہے لیکن خدا چونکہ خود ایک ’’ انا‘‘ ہے اس لیے وہ اناؤں ہی کا خالق ہے۔ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو مختلف مدارج ارتقاء میں ہیں۔
۷۔ نفوس کے عالم میں انسانی نفس درجہ ارتقاء میں سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ انسان کی خودی خدا سے ہم آغوش ہے۔
۸۔ قرآن میں آدم کا تصور اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ حیات ابدی کے تمام ممکنات انسان میں مضمر ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد ان ممکنات کو مسلسل معرض وجود میں لانا ہے۔
۹۔ تمام ارتقاء کا مدار آرزو اور جستجو پر ہے۔ آرزو کی شدت کا نام عشق ہے۔
۱۰۔ خدا کی ذات اور انسان کی خودی نت نئے عوالم پیدا کرتی ہے۔ انسان اسی لحاظ سے خدا کا نائب یا خلیقہ ہے کہ اس کا وظیفہ حیات بھی عوالم کو پیدا کرنا اور ان کو مسخر کرنا ہے۔
۱۱۔ تکمیل و ارتقائے حیات کے لیے عقل ایک اعلیٰ درجے کا وسیلہ ہے۔ عقل کا مقصود کلیت حیات کا احاطہ کرنا ہے مگر استدلالی عقل جزوی حقائق میں الجھ جاتی ہے اور جزو کو کل سمجھنے لگتی ہے۔ عقل جزوی محسوس پرست اور ہوس پرست ہو جاتی ہے لیکن عقل اگر اپنی پوری قوت و وسعت سے کام لے تو وہ بھی حقیقت رس ہو سکتی ہے۔ عقل اجزائے حیات کا تجزیہ کر کے ان کے روابط تلاش کرتی رہتی ہے اور جزئیات کو استقراء اور استخراج سے کلیات کے تحت لانے میں کوشاں رہتی ہے۔
۱۲۔ عقل کے مقابلے میں انسان کے اندر براہ راست بھی ماہیت حیات کا وجدان ہے، جس میں نہ زمان و مکان کو دخل ہے اور نہ منطقی استدلال کو۔ اسی وجدان سے عشق پیدا ہوتا ہے جو عقل سے زیادہ منکشف ماہیت حیات ہے۔ زمان و مکان کی لامتناہی اس میں غرق ہے۔ اس کی وحدت اجزا سے مرکب نہیں۔ ایک دوسرے سے خارج اجسام و اجزاء مکانیت کے تصور کی پیداوار ہیں۔
۱۳۔ عشق اور وجدان اگرچہ باطن حیات کے چشمے ہیں لیکن عقل کو برطرف کر کے وہ بھی تکمیل حیات کا باعث نہیں بن سکتے۔ زندگی کا تقاضا عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہے۔
۱۴۔ جسم اور نفس کی کوئی الگ الگ مستقل حیثیت نہیں۔ روح جسم کے اندر اس طرح نہیں جس طرح کہ کوئی طائر قفس عنصری میں بند ہو۔ جسم اور نفس دونوں حیات کے توام مظاہر ہیں۔ خودی کا مقام ان دونوں سے عمیق تر ہے۔ حیات ابدی کی ماہیت خودی کے اندر ہے۔
۱۵۔ خدا کے سامنے ازل سے ابد تک کی حیات و کائنات کا کوئی تفصیلی نقطہ نہیں۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ سرمدیت میں تمام حوادث لوح محفوظ پر مثبت ہیں اور وہ مرور ایام میں یکے بعد دیگرے معرض شہود میں آتے ہیں۔ خدا کی خلاقی آزاد ہے وہ فعال لما یرید ہے۔ وہ پہلے سے بنے بنائے خاکوں کے مطابق عمل نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو خدا آزاد نہ ہوتا بلکہ پابند ہوتا۔
۱۶۔ مسلمانوں نے عام طور پر تقدیر کا مفہوم غلط سمجھا۔ خدا صاحب اختیار ہستی ہے۔ انسان جو حیات الٰہی کا بہترین مظہر ہے وہ بھی اختیار سے بہرہ اندوز ہے۔ اختیار کے بغیر زندگی ایک میکانکی چیز ہے۔ جبر کا تصور مادیت کی پیداوار ہے۔ انسان کے ممکنت کے آئندہ مظاہر انسان کی خودی کے ارتقاء میں سرزد ہوں گے، جب تک وہ وجود میں نہ آ جائیں تب تک نہ وہ انسان کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ خدا کے علم میں۔
۱۷۔ حیات ابدی خود اپنے ارتقاء کے لیے مزاحم قوتیں پیدا کرتی ہے کیوں کہ رکاوٹوں پر غالب آنے اور عمل تسخیر ہی سے زندگی ترقی کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ابلیس جو نفی و افکار کا ایک تمثیلی تصور ہے، تکمیل حیات کے لیے ایک لابدی حقیقت ہے۔ ترقی کا ہر قدم نفسی سے اثبات کی طرف اٹھتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کے لیے اس بات کی نفی کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسلسل فنا کے بغیر زندگی بقا کوش نہیں ہو سکتی۔ مقصود و منزل سے فراق ہی زندگی کا تازیانہ ہے قوت نفی کا ابلیس جسے اقبا خواجہ اہل فراق کہتا ہے، ارتقاے حیات کے لیے معاون ہے۔ لیکن اگر نفی و افکار کا پہلو غائب ہو جائے تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔
۱۸۔ سکونی جنت جس میں عشرت دوام ہو اور جس میں تمام جستجو و آرزو ختم ہو جائے، مقصود حیات نہیں ہو سکتی۔ عروج کوش زندگی کو بادہ و جام اور حور و خیام سے گزر جانا چاہیے:
مزی اندر جہان کور ذوقے
کہ یزداں وارد و شیطان ندارد
٭٭٭
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اس مرحلہ شوق میں جستجو اور آرزو اور نفی و افکار کے بغیر کوئی تگ و دو نہیں ہو سکتی۔ فقط دنیا ہی دار العمل نہیں، بلکہ آخرت بھی دار العمل ہے۔ زندگی اور عمل ایک ہی چیز ہیں۔ زندگی کا مقصود ہر درجہ حیات سے آگے گزرتے رہنا ہے۔
۱۹۔فرد کی خودی کے علاوہ ملت کی بھی ایک خودی ہے۔ فرد کی خودی رہبانی تنہائی میں محض خدائے واحد کی طرف رجوع کر کے ترقی نہیں کر سکتی، اس لیے اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا۔
۲۰۔ خدا اسلام کی تلقین سے ایک نصب العینی ملت کو وجود میں لانا چاہتا ہے جو مذکورہ صدر حقائق حیات سے آشنا ہو کر تمام نوع انسان کے لیے نمونہ بن سکے۔
۲۱۔ اس ملت کی امتیازی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ رموز توحید کی عارف ہو کر زندگی کی کثرت کو وحدت میں منسلک کرے گی۔
۲۲۔ تمام نوع انسان از روے قرآن ایک نفس واحدہ کے شجر کی شاخوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں نے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور قبائلی قومیتوں کو معبود بنا کر نوع انسان کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اس کی وجہ سے اخوت و محبت عالم گیر نہیں بن سکی۔ اس وحدت آفرینی کی واضح تعلیم اسلام میں ملتی ہے جس کو معروض وجود میں لانے کی ایک جھلک طلوع اسلام کے زمانے میں ملتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمان خود اس حقیقت سے غافل ہو گئے، قوموں اور فرقوں میں بٹ گئے اور فرنگ کی تقلید میں نسلی اور لسانی قومیتوں کے شعائر اختیار کرنے لگے۔
۲۳۔ مومنوں کی جو ملت خدا کا مقصود تھی وہ اس وقت نظر نہیں آتی لیکن اگر اسلام کی تعلیم صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے تو اسی تعلیم کی بدولت ایک نصب العینی ملت وجود میں آ سکتی ہے۔ خدا خود اسلام کا کفیل و محافظ ہے اس لیے اس گری ہوئی ملت اسلامیہ پر موجودہ حالت کی وجہ سے مایوسی طاری نہیں ہونی چاہیے۔ تمام اقوام کے صالح مفکرین اور مفسرین کا رخ اس وقت انہیں حقائق کی طرف پھر رہا ہے جو تعلیم اسلامی کا اہم جزو تھے۔
۲۴۔ اس وقت مسلمانوں کو خالص قرآنی اسلام اور سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی تہذیب و تمدن کی کورانہ تقلید اور کسی انداز فکر و عمل کی نقل سے وہ دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ روحانیت کے لحاظ سے مشرق بھی مردہ اور مغرب بھی مردہ۔ اس وقت امت وسطیٰ اور ملت بیضا نہ شرق کی جامد زندگی کی تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ فرنگ کی نقالی سے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو
۲۵۔ اقبال اسلامی شریعت کی اساسی چیزوں کو لازوال حقائق سمجھتا ہے جو ہر دور میں تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ حیات بن سکتی ہیں۔ لیکن اس کے نزدیک فقہ کا تمام دفتر نظر ثانی کا محتاج ہے، زندگی کے سانچے بہت بدل گئے ہیں، فقہی مسائل میں سے بعض مسائل اب بھی دیگر اقوام کی شریعتوں اور قوانین سے افضل ہیں، لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جسے کچھ بدلتی ہوئی زندگی نے منسوخ کر دیا ہے۔ تشکیل فقہ جدید کا کام بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایسے مجتہدوں کی ضرورت ہے جو اسلامی شریعت کی روح سے بخوبی آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ تہذیب و تمدن، سیاست و معاشرت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ افسوس ہے کہ اس کام کے اہل لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔
۲۶۔ فقہ کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات حیات کو بھی قدیم فلسفے اور علم الکلام کے انداز میں پیش کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ زمانے کا عقلی مزاج بدل گیا ہے ۔ فرنگ کے طبعی علوم اور فلسفے نے مسائل کا رخ بدل دیا ہے۔ خود اہل مغرب میں بعض مفکرین میں گہری بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔ جس سے مسلمان بھی استدلال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ہر چیز سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ خود اس کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی افکار کے محرکات موجود تھے۔ تجربی سائنس کی ابتداء مسلمانوں نے کی اور جس عادلانہ معیشت کے لیے مغرب میں جمہور جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے بہت سے عناصر اسلامی ہیں۔ کورانہ تقلید فرنگ تو یقینا نفع سے زیادہ نقصان رساں ہو گی لیکن علم کے معاملے میں مسلمان کا رویہ ’’ خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ ہونا چاہیے۔ خود فرنگ کی زندگی میں اسلامی محرکات بھی موجود ہیں۔
۲۷۔ محض نقالی سے فرد اور ملت دونوں کی زندگی بے روح ہو جاتی ہے۔ اسلام کا ایک مخصوص اور جامع نظریہ حیات ہے۔ وہی مومن کی خودی اور خود داری کو استوار کر سکتا ہے، آج تک کوئی بلند پایہ ملت محض نقالی کی بدولت پیدا نہیں ہوئی۔ ملت اسلامی کا احیاء اسی سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی خودی میں غوطہ زن ہو اور زندگی کو دوسروں کی نگاہ سے نہ پرکھے۔ اس وقت اسلامی ملتیں نقل فرنگ پر آمادہ معلوم ہوتی ہیں اور اسی کو ترقی سمجھتی ہیں لیکن:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

٭٭٭

اقبال پر تین اعتراضات کا جواب

اقبال پر تین  اعتراضات کا جواب 
علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، جو اس سے قبل نہ شعراء میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے، وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجودہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسانی میں ایک زوال ناپذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذاہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسانی کو عقائد کا محور و مقصود بنا لیا تھا۔ تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفتہ اللہ، مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔ اسی میں لا محدود ارتقاء کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدا یا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لیے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی۔ خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔ اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پس پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے، نہ ترقی، نہ آرزو، نہ جستجو، اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔ نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کے لیے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔

اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔ تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر و اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں: ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔ اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ، کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھوکر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لیے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کے لیے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے:
نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا
اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا
(ذوق)
اس لیے عجز اختیار کر، تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کی، جو کچھ ہے وہ ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔ مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے، جدوجہد سے، تسخیر نفس سے، تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے جو طرز نگاہا ور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے، جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔
اقبال کو عجمی شاعری، صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کر کے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
(غالب)
اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوؤں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو، دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔ مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ’’ الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کے لیے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کے لیے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف، مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔
کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب اقبال کامل میں نظام اخلاق کے باب میں دیا ہے جو کسی کوتاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
’’ صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنگ مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔ بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے درپے ہوتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے رونڈ ڈالیں گے۔ بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو، شیر کا چیتا بنو، سانپ بنو، اژدہا بنو، عقاب بنو، شہباز بنو ، اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حواین جامے میں رہنا چاہتو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو۔ وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔
اس اقتباس کو پڑھ کر ’’ یھدی بہ کثیر و یضل بہ کثیرا‘‘ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم فہم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقاے قوت اور ارتقائے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کے لیے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔ زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کر گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقاء ہو سکتا ہے۔ مذہب، تہذیب، تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کر کے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت، نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔ وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں، جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف اقوام کو مغلوب کرنے کی جگنوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔
ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔
معترض کا یہ کہنا کہ اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ’’ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں او رنہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی صرف دو صورتیں ہیں، محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیات ۴۹:۹ میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائز سمجھا ہو) جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کے لیے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔ جنگ ایک ناخوش آئند، زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کے لیے ایک عمل جراحی ہے، الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ، بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے، مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو، دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو، دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔‘‘
عصر حاضر میں مسلمانوں میں ہر قسم کی جدوجہت غائب ہو گئی تھی۔ امیر ہو یا غریب کوئی حال مست، کوئی قال مست، کوئی مال مست، اور کثیر گروہ مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے آفات ارضی و سماوی اور دستبرد حکام ظلام کو مشیت الٰہی سمجھ کر صابر یا آسودہ رسوائی۔ ایسی حالت میں سلبی اور انفعالی اخلاق کی بجائے ایجابی اور فعالی اخلاق کی ضرورت تھی۔ اقبال نے اس ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور بڑے زور و شور سے ایجابی نفسیات و اخلاقیات کی تلقین کی۔ اخلاق کا انفعالی پہلو اگر خاص حدود کے اندر رہے اور حیات فعال کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھے تو اس سے بھی زندگی میں خصائل محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔ توکل، قناعت، تواضع، خاکساری، عفو و در گذر، تسلیم و رضا، حلم، بردباری یہ بھی اخلاقی زندگی کے لیے لازمی اور پاکیزہ عناصر ہیں۔ لیکن افراد اور اقوام کی خاص حالتوں میں ان کے مقابلے میں ایجادبی اخلاقیات کی تلقین ضروری ہو جاتی ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ تواضح اچھی چیز ہے مگر عاجزوں کے مقابلے میں گردن کشوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے:
تواضع ز گردن فرازان نکوست
گدا گر تواضع کند خوے اوست
چپ چاپ ظلم سہنے والا ہی ظالم کو ظالم بناتا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی مظلوم بننے پر تیار نہ ہو تو ظالموں کا وجود بھی نہ رہے۔ ہماری قوم میں لوگ اپنے مظلوم ہونے اور بدطینت امرا یا حکام کے ظالم ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عام شکایت لوگوں کو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یہ خودی کے ضعف کا نتیجہ ہے اگر مظلوموں کی خودی بیدار اور آمادہ بہ ایثار ہو جائے توچشم زدن میں ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال مغلوب و مظلوم و مفتوح و مایوس کو خود داری کا پیغام دیتا ہے جو افراد کے اخلاقی ضعف اور تمام امراض ملی کا علاج ہے۔ ایسی حالت میں مسکینی کی تلقین مرض میں اور اضافہ کر دے گی۔ اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کی تسخیر سے اسباب حیات میں فراوانی پیدا کرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ منعم محتاج سے افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا لینے والے کے ہاتھ سے اشرف ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے لیے او راپنی امت کے لیے محتاجی سے پناہ مانگی ہے اور فرمایا ہے کہ محتاجی انسان کو کفر سے بہت زیادہ قریب لے آتی ہے۔ قرآن پوچھتا ہے کہ خدا کی نعمتوں اور آرائشوں کو نے حرام کیا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے نہاں خانوں میں سے رزق نکالنے کی کوشش کرو۔ اہل فرنگ کی یہ ہمت کی تو اس کی بدولت وہاں ہماری طرح کے بھوکے اور ننگے ناپید ہو گئے۔ بہت سی بیماریاں ناپید ہو گئیں۔ ہمارے ہاں کے سست عناصر مذہبی پیشوا اس کو محض مادی ترقی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو روحانیت اور نجات کا اجارہ دار سمجھتے ہیں۔ خدا نے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کی تلقین کی کیوں کہ انسان آخر اس دنیا میں رہتا ہے۔ ایک مادی جسم رکھتا ہے اور مادی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان خالی روح کا نام نہیں جو جسم اور عالم سے بے تعلق ہو کر بھی تزکیہ اور قوت پیدا کر سکے۔ مسلمانوں میں غیر اسلامی راہبانہ تصوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ جدوجہد غائب ہو کر خالی انفعال رہ گیا اور اس عقیدے کی تعلیم دل نشین بن گئی کہ احتیاج دولتمندی سے اور بھوک پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھوکے سے نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ خدمت خلق:
خداوند روزی بحق مشتغل
پرا گندہ روزی پرا گندہ دل
٭٭٭
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بدامداد فرزندم
(سعدی)
خدا نے مومن کی معراج ’’ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘ بتائی تھی کہ مومن اپنے کمال میں خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے ہا ں غم کی مدح سرائی سے تمام شاعری بھر گئی اور اردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔ اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے۔ غم روزگار نہیں تو غم عشق ہی سہی۔ تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ایسے ماتم کدوں میں خودی کا کیا احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ہماری شاعری میںاقبال سے قبل زیادہ تر یا غم ہے یا غلامی، خواہ امراء کی غلامی ہو اور خواہ ہوس کی غلامی۔ اور عشق ہیں کہ ’’ آوارہ و مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ ہونا قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔ کوئی مصلح جو احیاے ملت کا خواہاں ہو اس کے لیے لازم ہو گیا کہ اس تمام حیات کش میلان کے خلاف شدید رد عمل پیدا کرے۔ اسی رد عمل نے اقبال کو خودی کا مبلغ بنا دیا۔ اس کی خودی میں نہ تکبر ہے اور نہ نخوت اور نہ ہی وہ محبت کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں خودی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اس کی ماہیت وہ عشق ہے جو انسان کو رسوا نہیں کرتا بلکہ خود دار بناتا ہے اور اپنے نور و نار سے تمام زندگی کو حرارت اور فروغ بخشتا ہے۔ اقبال زندگی کی ہمہ سمتی جدوجہد کے لیے قوت کا طالب ہے مگر اس جدوجہد کا مقصود عشق کی فراوانی ہے۔ عجمی شاعری کا اثر اردو شاعری پر پڑا تو اس میں بھی وہی غلامانہ اور قنوطی تصورات پیدا ہو گئے، اسی لیے اقبال اس سے گریز کی تلقین کرتا ہے:
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
مولانا شبلی نے شعر العجم کی چوتھی جلد میں لکھا ہے:’’ عرب میں قوم کی باگ شعراء کے ہاتھ میں تھی وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے، جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے۔ افسوس ہے کہ ایران نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا۔ یہاں شعراء ابتدا سے غلامی میں پلے اور ہمیشہ غلام رہے۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیدا ہوئے تھے۔‘‘
اقبال نے فارسی اور اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس سے وہی کام لیا جو عربی شاعر لیا کرتے تھے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری۔
ایک دوسرا اعتراض اقبال پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لیے نہیں بلکہ محض ملت اسلامیہ تک محدود ہے۔ کہ وہ مغربی قومیت پر معترض ہے لیکن خود بھی ملت پرست ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسلامی قومیت کوجغرافیائی، لسانی اور نسلی حدود و قیود میں مقید کرنا نہیں چاہتا۔ وہ دوسروں کو برطرف کر کے فقط اپنی قوم کو ابھارنا چاہتا ہے۔ بعض ہندوؤں اور بعض فرنگیوں نے اس پر یہی اعتراض کیا، لیکن یہ اعتراض بھی کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال تو خیر ایک مفکر اور صاحب بصیرت شاعر ہی ہے، اگر کوئی نبی بھی ہو تو اس کی براہ راست اور اولین مخاطب اس کی اپنی قوم ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی اصلاح کو فرض اولین اس لیے قرار دیتا ہے کہ اس قسم سے اس کا گہرا نفسی رابطہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے مزاج کو خوب سمجھتا ہے، اس کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے، اس کے امراض کا داخلی علم رکھتا ہے۔ اس لیے ان کی حکیمانہ تشخیص کر کے ان کا محبوب علاج تجویز کر سکتا ہے۔ وہ ایک گروہ کو صالح بنا کر تمام انسانوں کے لیے اس کو نمونہ بنانے میں کوشاں ہوتا ہے۔ جو مصلح مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا فطری وظیفہ یہی ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ مسلمانوں کی زندگی کو صالح بنانے کی کوشش کرے۔ ’’ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ فقط کہنے کی بات ہے ورنہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ان افراد سے انسان کو جتنا قرب ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر مصلح کی مخاطب پہلے اس کی اپنی قوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلاح میں عالمگیر عناصر ہوتے ہیں جو زمان و مکان اور حدود ملل سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ سقراط کو اخلاقی حکمت کا نبی کہتے ہیں مگر وہ ایشیا کا شہری تھا اس لیے تمام عمر اپنے شہر والوں کی عقلی اور اخلاقی اصلاح میں کوشاں رہا لیکن اصلاح کے جو اصول بیان کرتا تھا وہ انسان کی عام نفسیات پر حاوی تھے، اسی لیے آج تک فلسفہ اخلاق میں تمام دنیا اس کو امام سمجھتی ہے۔ وہ ایشیا سے باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ جب خود غرض اقتدار پسندوں نے عوام کو بھڑکا کر اس کے لیے موت کا فتویٰ صدر کیا تو اس کے معتقدوں نے اس کو زندان سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم نے انتظام کر لیا ہے کہ تم بے روک ٹوک کسی اور شہر میں جا سکو گے۔ اس نے فرار سے انکار کر دیا کہ میرا مشن اپنے شہر والوں سے وابستہ تھا میں غیر اقوام میں رہ کر کیا کروں گا؟ یہی حال اقبال کی تعلیم کا ہے وہ توحید اور عشق اور خودی کی تعلیم اپنی قوم کو دیتا ہے اور اسے اپنے دین کی فراموش شدہ حقیقت یاد دلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ قوم اصلاح یافتہ ہو کر تمام نوع انسان کو توحید اور عالمگیر اخوت کا سبق دے۔ وہ اپنی قوم کو دوسری اقوام کے خلاف ابھرتا نہیں، نہ ہی دوسروں سے نفرت برتنے کو کہتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک نظریہ حیات کا مبلغ ہے۔ جو قوم اس پر جتنی کاربند ہے اتنا ہی وہ اسے اسلام سے قریب سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کو کسی تنگ معنوں میں ملت پرست نہیں کہہ سکتے۔ جس ملت کے وہ راگ الاپتا ہے، وہ اس کو اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ نوع انسان کے لیے ایک نصبا لعین پیش کرتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ آئندہ وہ اس کو اپنا لائحہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے انسانیت کا اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ اخوت و محبت کو عالمگیر بنا دیں۔ محض اسلام کے نام لیواؤں کی ملت اس کے نزدیک وہ نصب العینی ملت نہیں۔ اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے جس میں بھی وہ پیدا ہو جائے وہ مسلم ہے۔ ملتوں میں تفریق محض نظریہ حیات سے پیدا ہو سکتی ہے باقی تمام تفریقیں یوں ہی تفرقہ ہیں۔
تیسرا اعتراض اقبال کے کلام پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ہم آہنگی نہیں۔ زندگی کے اہم مسائل میں دو یا اس سے زیادہ باہم متخالف پہلوؤں میں سے ہر پہلو کی حمایت میں اقبال کے کلام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض ہر بڑے مفکر کی نسبت ہو سکتا ہے۔ جس کے نظریات حیات میں مزید غور و فکر یا نئے حالات نے وقتاً فوقتاً تبدیلی پیدا کی ہو۔ وطن پرستی پر ولولہ انگیز نظمیں اقبال کے ابتدائی کلام میں موجود ہیں۔ لیکن وسعت فکر اور ترقی عرفان نے بعد میں اقبال کو اس کا شدید مخالف بنا دیا۔ یہ تو کوئی خوبی کی بات نہیں کہ انسان کے افکار میں تغیر اور ترقی دکھائی نہ دے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال نبی نہیں ہے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر ہے اور شاعر کی طبیعت میں جس وقت جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ اس کو موثر انداز میں پیش کر دیتا ہے، لیکن تاثرات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ انسان پر کبھی غم طاری ہوتا ہے اور کبھی مسرت موجزن ہوتی ہے۔ کبھی یاس کا اندھیرا ہوتا ہے اور کبھی آس کی روشنی۔ ایک بلند پایہ شاعر یا وسیع النظر مفکر میں یہ امتیازی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل نہیں ہوتا۔ اقبال نے جن اہم مسائل حیات کو اپنا موضوع سخن بنایا کم نظر لوگ ان کے متعلق تعصب اور طرف داری سے کام لیتے ہیں۔ یہ جاہلوں کا شیوہ ہے کہ ان کے رد و قبول میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ اقبال سے یہ توقع کرنا بے جا ہے کہ وہ کسی ایک مشرب کی موافقت اور دوسرے مشرب کی مخالفت میں ایسا غلو کرے کہ ایک طرف سفیدی ہی سفیدی نظر آئے اور دوسری طرف سیاہی ہی سیاہی۔ اقبال وطن سے محبت رکھتا ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن وطن پرستی کا مخالف ہے۔ وہ عشق کا ثنا خواں ہے لیکن عقل کا دشمن نہیں۔ وہ اسلام اک راسخ العقیدہ معتقد ہے لیکن ملت اسلامیہ سے باہر خدا کے موحد اور نیک بندوں کو کافر نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت اسلامیہ کے اساسی حقائق کو حقائق ازلی سمجھتا ہے لیکن فقط ظواہر کی پابندی کو اسلام نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت کا حامی ہے لیکن اس کے نزدیک اکثر مدعیان حمایت شریعت روح دین سے بیگانہ ہیں۔ وہ ایک نصب العینی جمہوریت کا حامی ہے لیکن اس کی موجودہ صورتوں کو ابلہ فریبی تصور کرتا ہے۔ وہ اشتراکیت کے بہت سے کارناموں کا مداح ہے لیکن اس کے ساتھ جو الحاد اور مادیت وابستہ ہے، اس کا شدید مخالف ہے وہ کورانہ تقلید کو خود کشی کے مرادف خیال کرتا ہے اور بڑی شدت سے تحقیق کی تلقین کرتا ہے لیکن قوم کی موجودہ حالت میں اس کو اچھے اجتہاد کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی تو مشورہ دیتا ہے کہ ایسی حالت میں بے بصر مجتہدوں کے اجتہاد سے یہی بہتر ہے کہ مسلمان ائمہ قدیم ہی کی تقلید کریں۔ وہ صلح جو انسان ہے لیکن پست بینی اور رسوائی میں آسودہ رہنے کا قائل نہیں۔ وہ رزم میں گرمی اور بزم میں نرمی دونوں کی تلقین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے لیے خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ کبھی تنہائی سے لطف اٹھاتا ہے اور کبھی انجمن آرائی سے وہ خودی اور بے خودی دونوں کا مبلغ ہے وہ ان کے ظاہری تضاد کو رفع کر کے ان میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن جب وہ ایک پہلو کو نمایاں کرنا چاہتا ہے تو دوسرا پہلو اس وقت پس پشت اور نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اقبال جیسے وسیع النظر، وسیع التجربہ اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے اور ان کا حق ادا کرنے والے شاعر کے کلام کا بھی وہی حال ہے جو مذہبی صحیفوں کا ہے ایک ہی مذہبی صحیفے میں سے فرقہ ساز اور تفرقہ انداز ہفتاد و دو ملت پیدا کر لیتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ کسی ایک جزو کو لے کر کل بنا دیتے ہیں اور اس کو دوسرے اجزاء کے ساتھ ملا کر کوئی متوازن رائے قائم نہیں کرتے۔ انگریزی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ شیطان بھی اپنی حمایت میں مذہبی صحیفے کی کچھ آیات پیش کر سکتا ہے۔ زندگی میں جبر و اختیار دونوں موجود ہیں لیکن فقط ایک طرف دیکھنے والے یا جبری ہو جاتے ہیں یا قدری اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ’’ الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اقبال کے کلام کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے اور ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تضاد رفع ہو جائے۔ یہ اقبال کے کلام اور اس کے انداز فکر کی خوبی اور وسعت ہے کہ اس میں یک طرفگی نہیں۔ انسانی زندگی کے خواہ وہ انفرادی ہو اور خواہ اجتماعی، کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اقبال نے خود اپنی بابت کہا ہے کہ میں ایک ترشا ہوا ہیرا ہوں جس کے مختلف پہلوؤں میں شعائیں مختلف انداز سے منعکس ہوتی ہیں۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ذہنی لحاظ سے ایک شخص پر اس وقت موت طاری ہوتی ہے جب نئے افکار کو قبول کرنے کی صلاحیت اس میں نہ رہے۔
آج کل اکثر تحریروں اور تقریروں میں اقبال کے کلام کے حوالے نظر آتے ہیں لیکن کہنے والا اپنی حمایت میں کچھ اشعار چن لیتا ہے اور اقبال کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے:
متفق گردید راے بو علی با راے من
اقبال میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ یا ارتقائے فکر کا نتیجہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف عبور کر گیا ہے، جس طرح انسان طفولیت سے شباب اور شباب سے شیب کی جانب بڑھتا ہے۔ علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں تشکیک اور تفلسف کی ظلمات میں سے ہوتا ہوا ایمان و یقین کے آب حیات تک پہنچا ہوں۔ اسے تضاد نہیں کہہ سکتے، یہ ارتقاء کوش زندگی ہے۔ اقبال نے زندگی کے کسی پہلو کو چھوڑا نہیں اس لیے ہر شخص کے لیے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی باتیں اس سے اخذ کر کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردے۔ مثلاً تصوف کوئی ایک ہی چیز نہیں ہے۔ جس کی وہ بیک وقت موافقت بھی کر رہا ہو اور مخالفت بھی۔
حیات و کائنات میں گوناگوئی اور کثرت بھی ہے لیکن اس تنوع کی تہ میں وحدت بھ پائی جاتی ہے ۔ بظاہر مظاہر میں تضاد نظر آتا ہے لیکن علم و بصیرت کے مسلسل اضافے سے وحدت پنہاں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جس شخص کا کلام حیات و کائنات کے حقائق کا مظہر ہو اس کے سطحی اور سرسری مطالعے سے جا بجا تضاد بیانی کا شبہ پیدا ہو گا لیکن صحیح جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی وسیع الفکر انسان کے افکار اور نظریات پر ایک ہمہ گیر نظر ڈالی جائے۔ جوں جوں اقبال کے افکار میں پختگی پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے وحدت فکر نمایاں ہوتی گئی۔ کسی شاعر نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے:
من نہ آنم کہ دو صد مصرع رنگین گویم
مثل فرہاد یکے گویم و شیریں گویم

لیکن اس سے بہتر دعویٰ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک قادر الکلام شاعر دو صد مصرع رنگین کہے لیکن اس تمام بو قلمونی میں وحدت فکر، وحدت نظر اور تاثر ناپید نہ ہو۔ اقبال کی متضاد بیانی پر جو اعتراض بعض سطحی مطالعہ کرنے والوں کو سوجھتا ہے اس کے بالکل برعکس ایک دوسرا گروہ اس پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ حضرت اقبال اپنی شاعری کے آخری اور تبلیغی دور میں فقط ایک ہی راگ الاپتے ہیں۔ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کا محور ان کا نظریہ خودی یا نظریہ عشق ہی ہوتا ہے جس کے ساتھ احیاء سے ملت کا جذبہ موجود رہتا ہے۔ اس خیال میں بہت کچھ حقیقت ہے لیکن بطور اعتراض ایسی تنقید وہی لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک شاعر کو علی الاطلاق ہمیشہ ایک فنکار ہی رہنا چاہیے جو آخر تک نہ کسی پختہ یقین اور زاویہ نگاہ تک پہنچے اور نہ اس کی تبلیغ کو اپنا فرض جانے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک نامعقول تقاضا ہے۔