مسلم سیاحوں کا سفر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مسلم سیاحوں کا سفر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مصری کیسے لوگ ہیں ۔ جاوید چوہدری

(تاریخ اشاعت : 28 جنوری 2020ء روزنامہ ایکسپیریس )

جامعہ الازھر 
قاہرہ طلسماتی شہر ہے‘ مصر کی آبادی دس کروڑ ہے‘ آبادی کا بیس فیصد یعنی دو کروڑ لوگ قاہرہ شہر میں رہتے ہیں‘ مصری خوش گمان لوگ ہیں‘ یہ مصر کو پورا جہاں اور قاہرہ کو دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھتے ہیں‘ شہر ماضی اور حال کا خوبصورت ملاپ ہے‘ اس کے ایک بازو پر ماضی کی شوکت رکھی ہے اور دوسرے پر دمکتا چمکتا حال اور آپ ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر حیرت سے سوچتے ہیں ماضی کی حیرتوں کا تجزیہ کیاجائے یا حال کی چکا چوند پر توجہ دی جائے اور آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ یہ شہر صرف شہر نہیں طلسم ہے‘ دریائے نیل پر کشتیاں چلتی ہیں اور قدیم قاہرہ میں تاریخ کی موجیں بے رحم وقت کے قلعے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔



قاہرہ کا پہلا طلسم جامعہ الازہر ہے‘ یہ تاریخ اسلام کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے‘ یہ فاطمی خلافت کے دور میں 972ء میں بنی‘ یونیورسٹی مسجد میں قائم کی گئی تھی‘ جامعہ الازہر اب شہر کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو چکی ہے اور قدیم درس گاہ اب بطور مسجد استعمال ہوتی ہے‘ آپ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ہال کے چاروں اطراف درمیانے سائز کے کمرے ملتے ہیں‘ یہ قدیم دور میں کلاس رومز اور ہاسٹل ہوتے تھے‘ تمام کمرے اسلامی ریاست کے مختلف ممالک کے نام منسوب تھے‘ کسی پر شام لکھا ہے‘ کسی پر المغرب (مراکش) اور کسی پر ہندوستان۔ یہ نشان ظاہر کرتے ہیں کمروں میں ان ان ممالک کے طالب علم قیام کیا کرتے تھے‘ مسجد کے اندر درجنوں ستون ہیں‘ صبح کی نما زکے بعد ہر ستون کے ساتھ ایک استاد بیٹھ جاتا تھا‘ طالب علم اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور استاد انھیں چشمہ علم سے سیراب کرتا جاتا تھا۔

جس نے ماسکو فتح کرلیا - جاوید چوہدری

دیگر ممالک کے ساتھ  روس کی سرحدیں 
روس بیک وقت حیران کن اور دل چسپ ملک ہے‘یہ دنیا کے 11 فیصد رقبے پر محیط ہے‘ گیارہ ٹائم زون ہیں‘ ملک کے اندر 9گھنٹے کی فلائٹس بھی چلتی ہیں‘ سرحد گیارہ ملکوں سے ملتی ہے‘ یہ جنوب میں جاپان‘ چین‘ شمالی کوریا اور منگولیا سے ملتا ہے۔

درمیان میں سینٹرل ایشیا کے ملکوں قزاقستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘ آذر بائیجان‘ جارجیا اور آرمینیا‘ یورپ کی سائیڈ سے یوکرائن‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ بیلاروس‘ لتھونیا‘ لٹویا اور اسٹونیا‘ قطب شمالی کی طرف سے فن لینڈ اور ناروے اور یہ دنیا کے آخری سرے سے الاسکا کے ذریعے امریکا سے بھی جڑا ہوا ہے۔

روس کی تین سرحدیں انتہائی دل چسپ ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ سے فن لینڈ سے ملتا ہے‘ پیٹر برگ سے ٹرین یا فیری کے ذریعے فن لینڈ جانا ایک رومانوی تجربہ ہے‘ ناروے کے علاقے سورورینجر (Sor-Varanger)اور روس کے شہر پیچنگ سکی (Pechangsky)کے درمیان دس منٹ کا فاصلہ ہے‘ لوگ یہ فاصلہ پیدل عبور نہیں کر سکتے چناں چہ یہ روسی علاقے سے سائیکلیں لیتے ہیں‘ سائیکل پر ناروے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سائیکل سرحد پر پھینک کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں‘ سورورینجرشہر دنیا میں بے کار سائیکلوں کا قبرستان بن چکا ہے‘ شہر میں سائیکلوں کے ڈھیر کی وجہ معیار ہے۔

کوہ طور سے اترتے ہوئے ۔ جاوید چوہدری

تاریخ اشاعت : 1 فروری 2019 ء ، روزنامہ ایکسپریس 

کوہ طور مقدس پہاڑ ہے‘ یہ اگر مقدس نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی قسم نہ کھاتا‘ حضرت موسیٰ ؑ کو دنیا سے پردہ فرمائے تین ہزار دو سو سال ہو چکے ہیں‘ زائرین تین ہزارسال تک کوہ طور پر ننگے پاﺅں آتے رہے‘ سفر انتہائی مشکل اور دشوارہوتا تھا‘ پتھر بھی نوکیلے تھے چنانچہ 99فیصد زائرین کے پاﺅں زخمی ہو جاتے تھے‘ لوگ پہاڑ سے گر بھی جاتے تھے یوں ہر سال سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی جان چلی جاتی تھی‘ سو سال قبل عیسائی‘ یہودی اور مسلمان علماءنے تمام زائرین کو جوتوں سمیت پہاڑ پر چڑھنے کی اجازت دے دی یوں یہ سفرنسبتاً آسان ہو گیا‘

افریقہ کا پہلا شہر ، جاوید چوہدری

ہم نے طریفہ سے فیری لی اور آدھ گھنٹے میں اسپین سے طنجہ پہنچ گئے‘ طنجہ جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے حیران کن شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ یہ یورپ کی طرف سے براعظم افریقہ کا پہلا شہر ہے‘ یہ دو براعظموں‘ دو تہذیبوں اور دو جغرافیائی اکائیوں کا نقطہ اتصال بھی ہے‘ آپ سمندر میں بیس منٹ کا سفر کرتے ہیں اور ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے۔

کہاں یورپ کا سکون‘ صفائی اور آرام اور کہاں افریقہ کی افراتفری‘ گندگی اور شور‘ کہاں چرچز کی گھنٹیاں اور حرام کھانا اور کہاں حلال اور اذان کی آوازیں غرض بیس منٹ کے سفر نے ہر چیز بدل کر رکھ دی‘ طنجہ (تانجیر) دو سمندروں کا مقام وصل بھی ہے‘ یہاں بحراوقیانوس (اٹلانٹک اوشن) اور بحیرہ روم (میڈٹیرین سی) آپس میں ملتے ہیں‘ میڈٹیرین گرم اور اٹلانٹک ٹھنڈا سمندر ہے‘ یہ دونوں ملتے ہیں اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے سبز اور سرمئی پانیوں کو ساتھ ساتھ بہتا دیکھتے ہیں۔

شہر کا ایک حصہ میڈٹیرین سی پر آباد ہے‘ دوسرا اٹلانٹک اوشن پر ہے اور تیسرا حصہ دونوں سمندروں کے مقام وصل پر۔سمندروں کے درمیان ٹریفالگر نام کا وہ مقام بھی موجود ہے جہاں 1805ء میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خوفناک بحری جنگ ہوئی‘ یہ مہم نپولین وار کا حصہ تھی‘ اسپین نے فرانس کا ساتھ دیا تھا‘ یہ مقام بحری جہازوں کا قبرستان بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہاں دونوں فریقین کے درجنوں جہاز ٹوٹ کر ڈوب گئے تھے تاہم یہ جنگ برطانیہ جیت گیا اور اس نے اس جیت کی یاد میں لندن میں ٹریفالگر اسکوائر بنایا ‘ یہ اسکوائر لندن آنے والے ہر سیاح کی تصویر کا حصہ بنتا ہے‘ طنجہ میں زمانہ قدیم کے غار بھی ہیں‘ یہ غار ہرکولیس کیو کہلاتے ہیں‘ غار کا دھانہ سمندر کی طرف کھلتا ہے۔

دنیا کے 20 مقبول ترین سیاحتی مقامات

ماسٹر کارڈ نے گزشتہ دنوں دنیا بھر میں سب سے زیادہ گھومے جانے والے شہروں کی فہرست جاری کی ہے۔

اس فہرست میں 20 ایسے شہروں کو شامل کیا گیا ہے جہاں گزشتہ سات سال یعنی 2009 سے 2016 تک بہت بڑی تعداد میں سیاحوں کا جانا ہوا۔

اس فہرست میں 11 ایشیائی شہر، 4 مشرقی وسطیٰ کے شہر جبکہ باقی یورپی شہر شامل ہیں۔

تو آپ بھی ان کا جائزہ لیں ہوسکتا ہے کوئی شہر آپ کو بھی گھومنے کے لیے پسند آجائے۔

20۔ پراگ، چیک جمہوریہ
کریٹیو کامنز فوٹو

اردو ادب میں " سفر ناموں " کی روایت

ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﻦ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮯ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮﯾﮟ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺧﺎﺻﯽ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﮬﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﻢ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺸﺎﻭﺭ ﮐﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻗﺼﮧ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻂ ﺍﯾﺸﯿﺎﮦ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮﻭﮞ ، ﺗﺠﺎﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺭﻭﺩﺍﺩ ، ﻣﺸﺎﮨﺪﺍﺕ ، ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮯ ﺳﯿﻨﮧ ﺑﮧ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﺴﻞ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻧﺴﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﺭﮬﮯ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻥ ﻭﻣﮑﺎﻥ ﺳﻤﻮﯾﺎ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻧﺌﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ، ﻣﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﺭﻭﺍﺑﻂ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﺍﻍ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﮕﺎ ﺭﻧﮓ ﺍﻧﮑﺸﺎﻓﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

" ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮯ " ﮐﻮ " ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ OUT)" DOOR ) ﮐﺎ ﺍﺩﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔

ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﭘﯿﻼ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﯾﻮﺳﻒ ﮐﻤﺒﻞ ﭘﻮﺵ ﻧﮯ : " ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ ۔ ﻋﺠﺎﺋﺒﺎﺕ ﻓﺮﮨﻨﮓ :" ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺮﺳﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻔﺮ ﺍﮔﻠﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﺍﺕ ، ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﺎﺛﺮﺍﺗﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮯ "۔۔ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ ﺍﺧﺒﺎﺭ ۔۔" ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻏﯿﺮ ﺷﺮﻋﯽ ﮐﮧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ۔ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺎ " ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ " ﺍﯾﺮﺍﻥ ۔۔" ﺷﺒﻠﯽ ﺗﻌﻤﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﺼﺮ ﻭ ﺷﺎﻡ ، ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺳﯿﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺪﻧﯽ " ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﺳﯿﺮ ﻣﺎﻟﭩﺎ " ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻧﮕﯽ ﺳﺎﻣﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﻇﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﯽ " ﻣﺎﺭﮐﻮ ﭘﻮﻟﻮ " ﺑﮭﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮬﻮﭼﮑﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻧﻮﻉ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﮯ ﻟﮑﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﺷﺮﺗﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ، ﻣﮩﻤﺎﺗﯽ ﻣﺬﮬﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭﯾﺎﺕ ﮎ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﺍﺭﺩﻭ ﺳﻔﺮﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﻋﮑﺲ ﭼﻞ ﺭﮬﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﯾﻞ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﮬﮯ ۔ ﺟﺲ ﮐﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﺭﺝ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﻈﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺭﮬﮯ۔

آہ ! اشبیلیہ ۔ جاوید چوہدری

اور میں پھر بالآخر سیویا پہنچ گیا اور یوں رومیوں کا ہسپالس‘ مسلمانوں کا اشبیلیہ اور ہسپانیوں کا سیویا میرے سامنے تھا۔

مؤرخین1500ء سے 2000ء تک پانچ سو سال کی تاریخ کو دنیا کا جدید ترین دور کہتے ہیں اور سیویا (Seville) اس دور کا نقطہآغاز تھا‘ امریکا اس شہر سے دریافت ہوا ‘ سگریٹ‘ سگار اور بیڑی نے اس شہر میں جنم لیا‘ مکئی‘ آلو اور چاکلیٹ اس شہر سے جدید دنیا میں داخل ہوئے‘ افریقہ کے سیاہ فام غلام پہلی مرتبہ اس شہر سے امریکا پہنچائے گئے۔

کافی‘ گھوڑے اور گنا اس شہر سے لاطینی امریکا کا حصے بنے ‘ یہ وہ شہر تھا جس نے پوری دنیا میں آتشک اور سوزاک جیسی جنسی بیماریاں پھیلائیں اور یہ وہ شہر تھا جو اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی پہلی اینٹ بنا غرض آپ جدید دنیا کو جس زاویئے‘ جس اینگل سے بھی دیکھیںگے سیویا آپ کو درمیان میں نظر آئے گا اور میں دس نومبر 2018ء کو اس عظیم سیویا پہنچ گیا‘ کرسٹوفرکولمبس‘ ابن بطوطہ اور ابن خلدون کے سیویا میں۔

سیویا کا پہلا حوالہ یونان کی رزمیہ داستان ہیلن آف ٹرائے میں ملتا ہے‘ داستان کا مرکزی کردار ٹروجن ہسپالس (سیویا) میں پیدا ہوا تھا‘ دوسرا اہم حوالہ مورش مسلمان ہیں‘ طارق بن زیاد کے قدموں نے 711ء میں اسپین کی سرزمین کو چھوا‘ وہ بربر غلامزادہ اسپین میں جس جگہ اترا وہاں طریفہ کے نام سے شہر آباد ہوا‘ یہ شہر آج بھی 13 سو سال سے قائم ہے اور یہ اسپیناور مراکش کے درمیان اہم بندرگاہ ہے‘ مراکش کا شہر طنجہ (تانجیر) طریفہ سے صرف بیس منٹ کے آبی سفر کے فاصلے پر واقع ہے‘ طریفہ اور طنجہ کے درمیان ہر گھنٹے بعد فیری چلتی ہے‘ یہ فیری دو تہذیبوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ دو براعظموں کے درمیان رابطہ بھی ہے‘ بنو امیہ کے زمانے میں موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے کمانڈر اور گورنر تھے۔