" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
جب انڈیا نے خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی کتب خانوں کا سہارا لیا
مولانا امتیاز علی عرشی کی تصنیفات
![]() |
مولانا امتیاز علی عرشی خان کی تصنیفات |
مولانا متیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں حاجی خلیل، قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔
تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔
مولانا نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔
قرآنیات اسلامیات اور عربی ادبیات میں عرشی صاحب کی بہت سی دریافت اضافہ ہیں ، آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔
وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے لے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے جس کی مثال تفسیر سفیان ثوری پر آپ کے حواشی اور تعلیقات ہے۔عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیری دنیا میں اس تفسیر کی اشاعت سے نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ کیونکہ تاریخ تفسیر میں تفسیر ابن جریر سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی ۔
اسی طرح آپ کا دوسرا کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔ طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان عربی اشعار کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔
اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔
مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات
![]() |
مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات |
ماہنامہ معارف - دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ
زندگی کے راستے - رفیع الزمان زبیری
![]() |
زندگی کے راستے |
ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد
![]() |
ڈاکٹر طہ حسین |
پروفیسر سلیم چستی ؒ کی تصنیفات
اردو میں اسلامی ادب کی تحریک ۔ پروفیسر مہر اختر وہاب
![]() |
اردو میں اسلامی ادب کی تحریک - پروفیسر مہر اختر وہاب |
اسلامی تحقیق و تنقید کے میدان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ آپ نے ’’اسلامی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مضامین شائع کیا جس سے پہلی بار اسلامی ادب کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ زیر نظر کتاب ’’اردو میں اسلامی ادب کی تحریک‘‘ مہر اختر وہاب کی تصنیف ہے اس کتاب میں ان سیاسی ،تہذیبی ، دینی اور ادبی روایات کا جائزہ لیاگیا ہے جس کی روشنی میں اسلامی ادب کی تحریک نے اپنا سفر شروع کیا ۔ اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز ، نشور وارتقاء اس کے مختلف ادوار اور اسلامی ادب کی خصوصیات وغیرہ کو اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔اس تحریک کے فروغ میں محمد حسن عسکری کے کردار کو بالخصوص اجاگر کیا گیا ہے ۔نیز اس کتاب میں اسلامی ادب کی تحریک کے ردِّ عمل کا جائزہ لیتے ہوئے برصغیر کے اہم ادبیوں اور نقادوں کے اسلامی ادب پر کیے گئے اہم اعتراضات کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس میں اسلامی ادب کی تحریک پر مفصل بحث گئی ہے ۔(م۔ا)