کتابیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتابیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا امتیاز علی عرشی کی تصنیفات

 

مولانا امتیاز علی عرشی خان کی تصنیفات

مولانا متیاز علی عرشی 8 دسمبر 1904ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد میں  حاجی خلیل،  قبائل (سوات) کے سردار تھے۔ جب ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو رامپور کے آس پاس کے علاقوں پر قابض ہو گئے جو بعد میں نواب فیض اللہ خان کو سونپ دیے۔ مولانا کے والد وٹنری ڈاکٹر تھے جو ریاست رام پور کے ہسپتال کے انچارج تھے۔ 

تعلیم کے بعد بہت سے کاموں سے وابستہ رہے ، آخر سب سے سبکدوش ہوکر رامپور کے ایک عظیم ادارے رضا لائبریری سے وابستہ ہوگئے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک ذخیرہ اب بھی موجود ہے۔ اسی ذخیرے سے وہ خود فیض یاب ہوئے اور علمی دنیا کو اس سے فیض پہنچایا۔ ان کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں بھی ان کے کارنامہ نہایت اہم ہیں۔

مولانا نے عربی فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں تنقید و تحقیق کے  ایسے موتی سجائے جن کی مثالیں صرف متقدمین کے یہاں ملتی ہیں ۔  

قرآنیات اسلامیات اور عربی ادبیات میں عرشی صاحب کی بہت سی دریافت اضافہ ہیں ، آپ کی اسی علمی وقار کی بناء پر آپ کو عربی " نیشنل اسکالر " قرار دیا گیا ہے ۔ عرب اور یورپی ممالک میں آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ آپ کے تحقیقی کاموں ميں سب سے نمایا کا م مستشرقین کی غلطیوں پر گرفت ہے۔ 

 وہ تحقیق کے آخری پتھر کو چھولینے لے لئے سردھٹر کی بازی لگادیتے جس کی مثال تفسیر سفیان ثوری پر آپ کے حواشی اور تعلیقات ہے۔عرشی صاحب کی کاوش سے تفسیری لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیری دنیا میں اس تفسیر کی اشاعت سے نئی تاریخ رقم ہوئی ۔  کیونکہ تاریخ تفسیر میں  تفسیر ابن جریر سے قبل کسی مرتب تفسیر کا پتہ نہیں تھا ۔ مولانا نے اس تفسیر کو جس محنت اور ریاضت سے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ایک مثال بن گئی ۔

 اسی طرح آپ کا دوسرا کام " شواہد القرآن للطبری " ہے۔  طبری نے مفردات القرآن کی تفسیر اور توضیح کے لئے کلام عرب سے استدلال اور استشہاد کیا ہے ان عربی اشعار کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے عرشی صاحب نے ان کی تحقیق و تخریج میں نہ جانے کتنے ہفت خان طے کئے۔

 اس کے علاوہ آ پ کا ایک قابل قدر کام رضا لائبریری رام پور کے عربی اور اردو کے مخطوطات کی فہرست سازی ہے اس کا ایک بڑا حصہ قرآنیات سے بھی متعلق ہے۔  

مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات

مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات 
مولانا اسلم جیرا جپوری عالم دین، تاريخ دان اور مفسر تھے۔ قصبہ جیراج پور اعظم گڑھ (یو پی) بھارت میں پیدا ہوئے۔  1903ء میں پیسہ اخبار لاہور میں عربی کے مترجم اور 1906ء میں علی گڑھ کالج میں عربی فارسی کے معلم مقرر ہوئے۔ جامعہ ملیہ کی تاسیس پر مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر علی گڑھ سے چلے آئے اور جامعہ ملیہ میں تاریخ اسلام کے مدرس مقرر ہوئے۔ 28 دسمبر 1955ء کو 73 سال کی عمر میں ۔  دہلی میں رحلت فرما گئے۔

 مولانا بیک وقت مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے۔  وہ قرآن کریم کی باریکیوں حدیث کی قدر و قیمت فقہ کی نزاکتوں، اسلامیات کے مختلف مصادر عربی فارسی اور اردو ادب کی گہرائیوں سے بخوبی واقف تھے ۔ 

ان کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے عربی فارسی اور اردو میں اشعار بھی کہے ۔ 

مولانا کو مطالعہ کا  حد درجہ شوق تھا وہ اکثر تنہائیوں میں اوراق کتب میں گم رہتے، علامہ ابن تیمیہ ،  ابن قیم کی تصانیف نیز اس دور میں مصر سے چھپ کر آنے والی جدید کتب بھی زیر نظر رہیں ۔ آخر میں اپنی تمام تر توجہات مطالعہ قرآن پر مرکوز کردیں۔ 

مولانا مسلکی تعصبات سے بالاتر تھے مختلف مسالک کے ماننے والے ان کی نظر میں یکساں تھے جبکہ اہل حدیث گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ان کے والد ایک مشہور اہل حدیث عالم تھے لیکن ان کی دینی اور علمی بصیرت نے انہیں کسی مسلک تک محدود نہ رکھا ۔ 

وہ قرآن کریم کی حکمتوں و اسرار میں کھوکر رہ گئے مسلک اہل حدیث کے متعلق ان کا نقطہ نظر درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔

 " میں اس موقع پر ان نوجوان سعادت مند روحوں سے خطاب کرتا ہوں جن کے اندر امت کا درد اور حق کی محبت ہے کہ وہ اللہ کی اس کتاب کی طرف رجوع کریں جو ہر تاریکی کے لئے نور اور ہر دکھ لے لیے شفا ہے اور جس میں دین مکمل کردیا گیا ہے رہے اہل حدیث تو : 

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو         جوروایات پر قرآن کو فدا کرتے ہیں 

راویوں پر انہیں ایمان ہے نبیوں کی طرح             جو کہ تقلید کو بھی شرک کہا کرتے ہیں 

ان بزرگوں کا عقیدہ ہے کہ ناقص ہے کتاب             جس کی تکمیل حدیثوں سے کیا کرتے ہیں 

ماہنامہ فکرو نظر - ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد


شمارہ نمبر -002

فکرو نظر - سہ ماہی علمی اور ادبی رسالہ ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی


فکرونظر،علی گڑھ
شمارہ نمبر ـ 004

ماہنامہ البلاغ - دارالعلوم کراچی


شمارہ نمبر۔000

ششماہی مجلہ اقبالیات- اقبال اکادمی پاکستان


اشاریۂ اقبالیات

ماہنامہ معارف - دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ

ماہنامہ "معارف" ہندوستان کے علمی و تحقیقی ادارے دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کا ماہانہ علمی و تحقیقی جریدہ ہے، جسے سید سلیمان ندوی نے جولائی ۱۹۱۶ میں جاری کیا تھا۔ اس کا مقصد مذہب و فلسفہ و فکر کی ترجمانی اور نئی تحقیق اور تازہ خیالات کا فروغ عام ہے۔ اس رسالے نے علمِ مذہبی کے ارتقا کو منظر عام پر لانے، اکابرِ سلف کی سوانح عمریوں کو مرتب کرنے اور حکمتِ اسلامی پر تحقیقی مضامین پیش کرنے میں فوقیت حاصل کی۔ نیز مباحث و انتقاداتِ ادب میں اپنے بلند معیار کو برقرار رکھا اور قارئین کم ہونے کے باوجود اس رسالے کی روشنی اب تک قائم ہے۔ ماضی میں الطاف حسین حالی، عبد السلام ندوی، پروفیسر نواب علی، شیخ عبد القادر، عبد الماجد دریابادی، اقبال احمد سہیل، ڈاکٹر محمد اقبال اور نیاز فتحپوری جیسے زعما اس کے مقالہ نگاروں میں شامل تھے۔ معارف کی ادبی خدمات اس دور کے متعدد رسائل سے زیادہ ہیں۔ سلیمان ندوی نے "معارف" کے مقاصد پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے، "فلسفہ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔ عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے، علوم قدیمہ کو جدید طرز پراز سر نوترتیب دیا جائے، علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہا ں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا، علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد کی ترقیوں کی تاریخ ترتیب دی جائے، اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں، جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو، عربی زبان کی نادر الفن اور کم یاب کتابوں پر ریویو لکھے جائیں، اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول یہ کہ قرآن مجید سے متعلق، عقلی، ادبی، تاریخی، تمدنی اور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں، ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں۔" (ماہنامہ معارف جولائی ۱۹۱۶ء ص ۵) "معارف" کے ادبی حصہ میں جن شعرا کے کلام شائع ہوتے تھے ان میں مولانا محمد علی جوہر، اقبال سہیل، مولانا آزاد سبحانی، علامہ اقبال، اکبرالہ آبادی، اصغر گونڈوی، مولانا عبدالسلام ندوی، روش صدیقی، فراق گورکھ پوری، حسرت موہانی، فانی بدایونی اور جگر مرادآبادی جیسے شعرا شامل رہے ہیں۔ ماہنامہ "معارف" کی اردو ادبی تحقیقات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۱۔ قلمی نسخوں اور نادر مطبوعات سے متعلق مقالات و مضامین۔ ۲۔ ادبا وشعرا کے احوال سے متعلق تحریریں۔۳ - متفرق تحقیقی موضوعات۔ ۴- ذخیرہ ہائے مخطوطات کا تعارف اور۵۔ اردو شعرا کے تذکروں سے متعلق مقالات۔

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر

ماہنامہ برہان - ندوۃ المصنفین دہلی

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
برہان،دہلی
Shumara Number-006

ہفت روزہ الہلال - مولانا ابوالکلام آزاد

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
شمارہ نمبر -001

ماہنامہ پیغام حق لاہور

پیغام حق
ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
پیغام حق،لاہور
Shumara Number-004

ماہنامہ فاران کراچی

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر
شمارہ نمبر۔000

مجلہ المعارف ، ترجمان ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور

ترتیب بہ اعتبار : شمارہ نمبر

زندگی کے راستے - رفیع الزمان زبیری

زندگی کے راستے 
بچپن میں جب قائد اعظم کے اسکول جانے کا وقت آیا تو ان کے والد نے ان سے کہا: دیکھو بیٹے! کچھ سیکھنے کے دو طریقے ہیں۔ انھوں نے پوچھا بابا! وہ کیا؟والد نے کہا ایک یہ کہ اپنے بڑوں کی عقل و سمجھ پر بھروسہ کرو اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کرو۔ قائد اعظم نے سوال کیا: اور دوسرا طریقہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا اپنا راستہ خود بناؤ اور اپنی غلطیوں سے سیکھو۔

قائد اعظم نے توجہ سے یہ بات سنی اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اور اپنے راستے پر چلیں گے۔ مگر ہر شخص محمد علی جناح نہیں ہوتا۔ بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غلطیاں کرے اور راستہ تلاش کرنے میں ٹھوکریں کھائے۔ عبدالسلام سلامی نے اس موضوع پر ایک مفید کتاب لکھ دی ہے۔ زندگی کے راستے جینے کے ہنر وہ لکھتے ہیں

ابتدائی مدرسے کے بعد ثانوی مدرسے یا سیکنڈری اسکول بچے کی تعلیمی زندگی کا تیسرا اور اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ عمر کے اس دور میں اس کا شعور پختگی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں پہنچ رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد

ڈاکٹر طہ حسین 
(الوعد الحق: وعدہ برحق) طہ حسین (1889- 1973) كى اہم اسلامی کتابوں میں سے ايكـ ہے- (الوعد الحق: وعدہ برحق) 1949ء میں شا‏‏ئع ہوئی- انكى اسلامى كتابوں ميں (على ہامش السيرة)، (الشيخان)، (الفتنة الكبرى) اور (مرآة الإسلام) وغیرہ شامل ہيں۔ عربی ادب کے سرخیل پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی) میں انسانی فراخ دلی کے نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا پہلو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر نظریے اور مذہب کے قاری سے مخاطب ہونا ممکن ہوسکتا ہے، یہ پہلو مشترکہ انسانی اقدار، بھائی چارے کی پختگی، انصاف اور بھلائی پر مشتمل ہے۔

طہ حسین ہمہ پہلو فکری تحریک کے اس حصے میں جسے مصر نے بیسویں صدی نصف اول میں پہچانا- طہ حسین کے علاوہ روشن خيالات، تفسير قرآن كريم كے رجحانات اور اسلامى فكر كى تجديد كرنے ميں عباس محمود عقاد، محمد حسین ہیکل «في منزل الوحي»، ابراھیم المازنی «رحلة إلى الحجاز»، احمد حسن الزیات «ميگزين الرسالة»، امین خولی، توفیق حکیم، خالد محمد خالد وغيره جيسے اہم ادباء اور روشن خيال مفكرين نے بہت اہم رول ادا كيا-

یہ تمام ادباء اپنے افکار وخيالات، بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی مذمت، رواداری، ميانہ روى اور اعتدال پسندى کی روایات کی پختگی کے سفر میں عرب دنيا کے دوسرے حصوں میں اپنے ہم عصروں کے ساتھ مشترک ہیں ۔ (وعد الحق) یعنی وعدہ برحق صرف ناول نگاری نہیں بلکہ یہ تاریخ کی ساخت میں کہانی نویسی کا اسلوب ہے جو کبھی ڈرامائی انداز اختیار کر لیتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس شخص کے اندر پرانے خيالات اور جدید دین کے مابین رسہ کشی کا تصور پیش کرتا ہے یا مشرکین اور مؤمنین کے مابین گفتگو یا تاریخی واقعات- مثال کے طور پر حبشہ کے بادشاہ ابرہہ کا خانۂ کعبہ شریف کو منہدم کرنے کی کوشش اور اس عمل میں اس کی ناکامی۔

پروفیسر سلیم چستی ؒ کی تصنیفات

پرفیسر یوسف سلیم چشتی  محقق، مؤرخ اور مفسر کلام اقبال تھے۔  1895 کو  بریلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1918ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں بی۔ اے آنرز اور 1924ء میں احمد آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ پہلے کانپور کے ایک کالج اور پھر ایف سی کالج لاہور میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال اور غلام بھیک نیرنگ کی مساعی میں لاہور میں اشاعت اسلام کے پرنسپل رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ کالج بند ہو گیا تو ریاست منگرو اور بعد ازاںکوروائی چلے گئے۔ 1948ء میں کراچی آکر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا۔ 

پروفیسر سلیم چشتی کو 16 سال محمد اقبال کی صحبت کا شرف حاصل رہا۔ آپ نے اقبال کی تمام اردو اور فارسی کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب ،فلسفہ، تصوف، تاریخ اور سوانح پر متعدد کتابیں کے مصنف ہیں۔

تصانیف: 

Etiqad Publishing House, New Delhi
1982

Etiqad Publishing House, New Delhi
1981
Etiqad Publishing House, New Delhi

اردو میں اسلامی ادب کی تحریک ۔ پروفیسر مہر اختر وہاب

اردو میں اسلامی ادب کی تحریک -
پروفیسر مہر اختر وہاب
اسلامی ادب کی تحریک اردو ادب کی اہم ادبی تحریک ہے ۔ اسلامی ادب کا نظریہ ہر عہد ، ہر ملک اور ہر زبان کے ادب میں ایک توانا فکر رہا ہے۔اسلامی ادب کی تحریک کی فکری اساس میں توحید ، رسالت اور آخرت میں جواب دہی کے تصورات بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس نظریہ کی ہمہ گیری یہ ہے کہ حیات کائنات اور انسان کے بارے میں کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا واضح اور تسلی بخش جواب اس کے پاس نہ ہو۔ادب اسلامی کی اصطلاح کو ماضی میں اعتراضات اور غلط فہمیوں کی متعدد یلغاروں کا سامنا کرنا پڑا ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک ادب اسلامی کے ابتدائی ایّام میں اس کی صف میں کہنہ مشق مقام و مرتبہ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے شامل ہونے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ تحریک ادب اسلامی نے اردو ادب کو بلاشبہ ایک سمت و رفتار عطا کی ہے عصر حاضر میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک تیسرا واضح اور نمایاں رجحان تعمیری ادب یا اسلامی ادب کا سامنے آیا ہے اس حلقہ سے وابستہ فنکاروں نے ہر صنف ادب میں کچھ نمایاں کوششیں ضرور کی ہیں ۔پروفیسر فروغ احمد اسلامی ادیبوں میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ، ڈھاکہ میں رہتے ہوئے وہ اردو ادب میں اسلامی رجحانات کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ 1968ء میں ان کی ایک کتاب ’’ اسلامی ادب کا جائزہ‘‘ لاہور سے شائع ہوئی تھی جس میں اسلامی ادب کی نظریاتی اساس،اس کا تاریخی پس منظر اور اردو ادب پر اسلامی تحریکات کے اثرات پر مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح پروفیسر اسرار حمد سہاوری نے ’’ادب اور اسلامی قدریں ‘‘ کے عنوان سے باہمی تعلق، ادب اور مقصدیت ،ادب کے اجزائے ترکیبی جذبہ و حسن ادا ، اسلامی ادب کی خصوصیات ،اسلامی ادب کے موضوع وغیرہ پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔


 اسلامی تحقیق و تنقید کے میدان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ آپ نے ’’اسلامی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مضامین شائع کیا جس سے پہلی بار اسلامی ادب کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ زیر نظر کتاب ’’اردو میں اسلامی ادب کی تحریک‘‘ مہر اختر وہاب کی تصنیف ہے اس کتاب میں ان سیاسی ،تہذیبی ، دینی اور ادبی روایات کا جائزہ لیاگیا ہے جس کی روشنی میں اسلامی ادب کی تحریک نے اپنا سفر شروع کیا ۔ اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز ، نشور وارتقاء اس کے مختلف ادوار اور اسلامی ادب کی خصوصیات وغیرہ کو اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔اس تحریک کے فروغ میں محمد حسن عسکری کے کردار کو بالخصوص اجاگر کیا گیا ہے ۔نیز اس کتاب میں اسلامی ادب کی تحریک کے ردِّ عمل کا جائزہ لیتے ہوئے برصغیر کے اہم ادبیوں اور نقادوں کے اسلامی ادب پر کیے گئے اہم اعتراضات کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس میں اسلامی ادب کی تحریک پر مفصل بحث گئی ہے ۔(م۔ا)

 مطالعہ کیلے کتاب  آن لائن  دستیاب ہے  : 

معروف ادبی رسالہ نقوش کے شمارے

مولانا عبد السلام ندوی کی تصنیفات

مولانا عبد السلام ندوی کی تصنیفات 

Matba Maarif, Azamgarh
1922


Matba Maarif, Azamgarh



Matba Maarif, Azamgarh
1948


ڈاکٹر سید عابد حسین کی تصنیفات

ڈاکٹر سید عابد حسین ہندوستان کے مشہور محقق، ادیب اور ڈراما نگار  25 جولائی 1896ء کو بھوپال (ہندوستان) میں سید حامد حسین کے گھر پیدا ہوئے۔   “ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب”، “ترکی میں مغرب و مشرق کی کشمکش” اور “قومی تہذیب کا مسئلہ” جیسی کتب کے خالق ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے “شریر لڑکا”، “پردۂ غفلت” اور “فادسٹ” جیسے شاہکار ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ آپ نے 13 دسمبر 1978 ء کو دہلی میں وفات پائی۔



Syed Mohammad Shah
1944


Maktaba Jamia Limited, New Delhi
1976


Director Qaumi Council Bara-e- Farogh-e-Urdu Zaban New Delhi
2011