قدیم جغرافیہ عرب



قدیم جغرافیہ عرب کے ماخذ پر ایک نظر

قدیم جغرافیہ عرب کے ماخذ پر ایک نظر


عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، "عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔

علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی  جنوبی عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔۔۔۔ ۔
اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما " عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔
اسد بن جاحل کہتا ہے۔
وعربۃ ارض جدّ فی الشر اھلھا     کما جدّ فی شرب النقاخ ظماء
ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔
لنا ابل لم یطمث الذُّل بینھا    بعربۃ ماواھا بقرن فابطھا
ولوا ن قومی طاوعتنی سراتۃ      امرتھم الامر الذی  کان اریحا
اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔
ابونا رسول اللہ و ابن خلیلہ      بعربۃ بوَّانا فنعم المرکب
ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب ہے ، (گو صحیح نہیں ) اس کا ایک شعر ہے ۔
وعربۃ دار لا یحل حرامھا                 من الناس الا اللوذعی الحلاحل
(ان مذکورہ اشعار کی تفصیل لے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام " عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟ اصل یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔ عبرانی میں  "عربا" عرابۃ کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔
چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ ہے اور خصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو " عرب " کہنے لگے ۔
قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت " اس کو کہا گیا ہے اکثر لوگ اس نام  کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے ، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ  کا مسکن  " مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔
تورات میں لفظ " عربا" کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔
لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات  میں  800ق ،م  میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔
عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق ، م  سے تقریبا 800ء یونان و رومان بیان 500م ، ق (ہیروڈوٹس ) اسے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔
خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف  مسکن عاد ،  مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ  کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب  دیا ہے ۔
( تاریخ  ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69،  علامہ سید سلیمان ندویؒ )