ملفوظات اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ملفوظات اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خطبہ عید الفطر، 1932ء - علامہ اقبال ؒ

خطبہ عید الفطر 1932 ء علامہ اقبال 
علامہ اقبالؒ  کا یہ خطبہ 1350ھ / 1932ء کی عید الفطر کے موقع پر انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور سے پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا: 


ملّت اسلامیہ!

قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔ 

یہی ارشاد خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہ رمضان کا پورا مہینہ روزے رھے اور اس اطاعت  الہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالی کی یادگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے جمع  ہوئے۔ 

بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی  بجا آوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم  ہے جو خدائے پاک کی فرما نبراداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔ 

مؤرخین کے بیان کے مطابق 2 ھ میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقہ عید الفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک خطبہ دیا، جس میں اس صدقہ کے فصائل بیان فرمائے۔ پھر صدقہ کا حکم دیا۔عید الفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں  اسی سال ادا فرمائی۔ 2 ھ سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔ 

حکیم مشرق ، حکیم محمد حسن قرشی

حکیم مشرق
حکیم محمد حسن قرشی

میں نے اپریل 1909 ء کی ایک سہہ پہر کو پہلے پہل ڈاکٹر محمد اقبال کو دیکھا۔ اس وقت وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں اپنی مشہور عالم نظم شکوہ کو سنا کر عوام و خواص سے خراج تحسین حاصل کر رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی عمر ان دنوں پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی مگر اس وقت بھی ان کی شہرت پنجاب کے حدود سے باہر نکل چکی تھی۔ اور پنجاب میں تو ان کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔
میں خود بھی ابھی بچہ تھا۔ تیرہ سال کی عمر ہو گی۔ فورتھ ہائی میں پڑھتا تھا۔ اقبال کی نظم ’’بلبل کی فریاد‘‘ مجھے بے حد پسند تھی مگر اس زمانے میں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ نظم اقبال کی ہے۔ البتہ ہندوستان ہمارا اور چین و عرب ہمارا نے ڈاکٹر اقبال سے وابستگی پیدا کر دی تھی۔ اور انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں زیادہ تر ڈاکٹر اقبال کی زبان سے ان کا کلام سننے کے لیے گجرات سے آیا تھا۔
انجمن حمایت اسلام کے جلسے ان دنوں علمی اور ادبی میلے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد‘ خواجہ الطاف حسین حالی‘ شہزادہ ارشد گورگانی ‘ حضرت ناظم شاہ سلیمان سیوہاروی وغیرہ سحڑ بیان خطیب اور شاعر اس مجلس قومی میں شریک ہوتے اور پرستاران علم و ادب ہندوستان کے ہر گوشہ سے کھینچ کر چلے آتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے اس مجلس میں دو ایک ہی سال کے اندر نمایاں جگہ حاصل کر لی تھی۔ اور یورپ سے واپسی کے بعد تو اس مجلس کی شوکت وعظمت زیادہ تر اقبا ل کے نغموں کی رہین منت تھی۔
1909ء کے سالانہ جلسہ میں بھی سب کو اقبال کی نظم کا انتظار تھا اور جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سحر انگیز لے میں ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو تمام مجمع مسحور نظر آتا تھا۔
نظم کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔ اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں ایک جگہ اکابرکا مجمع تھا۔ میں وہاں چلا گیا۔ سب نظم کی تعریف کر رہے تھے۔ مولوی محبوب عالم اس وقت جسٹس کرامت حسین صاحب جج ہائیکورٹ الہ آباد کو سٹیشن پر چھوڑنے گئے تھے اس لیے نظم نہیں سن سکے۔ ان سے سب کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ تو اقبال نے کلام کر دیا۔ افسو س آپ نہیں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اقبال کی نظمیں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں۔ اقبال کے مشہور عاشق خواجہ صمد جو ککڑو ان کے بارہ میں کہہ رہے تھے کہ میرے اقبال کا تخیل بہت بلند ہے۔
گجرات میں ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے میں لاہور میں مقیم رہا اور پھر دہلی چلا گیا۔ یہاں طبیہ کالج کے ساتھ پہلے متعلم اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہا۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں سننے کے لیے انجمن کے جلسوں میں شریک ہوتا رہا۔ جواب شکوہ انجمن کے جلسہ میں نہیں پڑھا گیا۔ جنگ بلقان کے متعلق موچی دروازہ کے ایک جلسہ میں سنایا گیا۔ اس جلسہ کا انتظام مولوی ظفر علی خاں صاحب  1؎ نے کیا تھا ۔ جلسہ میں آغا حشر مرحوم  2؎ بھی شریک تھے ۔ انہوں نے ایک نہایت دلچسپ تقریر میں بیان کیا کہ وہ بھی ایک نظم سنانا چاہتے تھے مگر حضرت اقبال کے سامنے کسی کا رنگ جمنا مشکل ہے۔ اس لیے وہ نظم نہیں کہہ سکے۔ غالباً آغا صاحب کے ذہن میں آپ وقت ان کی مشہور نظم ’’شکریہ یورپ‘‘ کا تخیل آ چکا تھا۔
نظم سے پہلے جو مظاہرہ ہوا وہ اس زمانہ میں بھی اقبال کی ہر دل عزیزی کا ایک دلآویز منظر تھا۔ پہلے تو رونمائی کا سوال پیداہوا۔ جب میں جواب شکوہ کے ہر صفحہ کو مختلف اصحاب نے خریدا۔ اس کے بعد جب نظم شرو ع ہوئی تو ہر طرف سے آواز بلند ہوئی گا کر گا کر مگر جب ڈاکٹر صاحب نے پکار کر کہا کہ اس نظم کا مفہوم گانے سے ادا نہیں ہو سکے گا۔ تو سب خاموش ہو گئے نظم کے اختتام پر سینکڑوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں یہ تمام روپیہ بلقان فنڈ  3؎ میں دیا گیا۔
شکوہ کے علاوہ میں نے اسرار خودی کے بعض اجزا اور خضر راہ اور طلوع اسلام کو انجمن کے جلسوں میں سنا۔ خضر راہ کو ڈاکٹر صاحب نے نہایت درد انگیز لہجے میں پڑھا تھا اور جس سے مجمع پر رقت کا عالم طاری ہو گیا تھا اور جب وہ
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
کہہ کر خو دہی آبدیدہ ہو گئے تو تمام مجمع کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
انجمن کے جلسوں میں ڈاکٹر صاحب کی نظمیں اکثر طویل ہوا کرتی تھیں۔ بعض اوقات نظم ایک ہی مجلس میں ہوتی تھی اور بعض اوقات دو جلسوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک ایسی ہی صورت میں ڈاکٹر صاحب نے یہ شعر پڑھا:
درمیان انجمن معشوق ہرجائی مباش
گاہ با سلطان باشی گاہ باشی با فقیر
اس وقت ایک جلسہ کے صدر مرزا سلطان احمد اور دوسرے جلسہ کے صدر فقیر افتخار الدین 4؎ تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے علاوہ ان کی متعدد سیاسی اور علمی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے بعض اہم علمی خطبات انگریزی میں پڑھے گئے جو اپنے بلند علمی مطالب کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔
دہلی اور بمبئی میں مطب کرن یکے بعد صحٹ کی خرابی کی وجہ سے جب مجھے لاہور میں ٹھہرنا پڑا تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضر ہونے کا بارہا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ شفا ء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی مرحوم کے ساتھ جانے کی سعی کی تھی۔ مگر ایک صاحب راستے میں مل گئے اور یہ آرزو بر نہ آ سکی۔
ایک عرصہ کے بعد پنجاب طبی کانفرنس کی تحریک شروع ہوئی۔ اس سلسلہ میں پبلک جلسے ہوتے رہے جن کے صدر سر محمد شفیع مرحوم سر عبدالقادر وغیرہ ہوتے تھے ۔ ایک جلسہ کی صدارت ڈاکٹر صاحب کے متعلق تجویز کی گئی۔ یہ غالباً 28کا ذکر ہے۔ کچھ اطبا ان کی خدمت میں گئے او ر ان سے اس تجویز کا اظہار کیا ڈاکٹر صاحب جلسوں کی صدارت سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں طب یونانی کے چنداں معترف بھی نہیں تھے۔ اس لیے انہوںنے انکار کیا ارو طب یونانی کے متعلق چند شبہات ظاہر کیے۔ ان اطباء نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگر آپ کو ان اعتراضات کے جواب مطلوب ہیں تو ہم ایک دوسرے طبیب کو لائیں گے  آپ ان سے سوال و جواب کر لیں‘ مگر مطمئن ہونے کے بعد جلسہ کی صدارت ضرور فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا اور وقت کا تعین فرمایا۔ چنانچہ دوسرے روز اطباء کرام مجھے ساتھ لے کر گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد اعتراضات کیے جن کے جوا ب میں دیتا رہا۔ مگر وہ پھر برابر اعتراضات کرتے رہے۔ یہ سلسلہ دو تین گھنٹے جاری رہا۔ معلوم نہیں وہ مطمئن ہوئے یا نہیں مگر انہوںنے صدارت کا وعدہ کر لیا۔ اس کے چند دن بعد محمڈن ہال میں جلسہ ہوا۔ میں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر طب یونانی کی صفت ارو خوبیوں پر ایک طویل تقریر کی جسے پسند کیا گیا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں طب یونانی کی حقیقت و اہمیت کے متعلق حوصلہ افزا الفاظ ارشاد فرمائے۔ سب نے خیال کیا کہ میری محنت اکارت نہیں گئی۔
اس کے بعد صرف دو ایک مرتبہ حاضری کا اتفاق ہوا۔ اور بعض امور کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔
آج سے تین سال پہلے جب وہ میکلود روڈ سے جاوید منزل چلے گئے اور ان کی بیگم صاحبہ شدید علالت میں مبتلا ہوئیں تو انہوںنے یاد فرمایا۔ بیگم صاحبہ ڈاکٹروں کے زیر علاج تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ یونانی علاج شروع کیا جائے۔ اس کے متعلق وہ چاہتے تھے کہ حکیم نابینا صاحب دہلی سے تشریف لائیں اور میں بھی مشورہ میںشریک ہوں۔ مگر اس انتظام سے پہلے بھی بیگم صاحبہ رحلت فرما گئیں۔
میں نے اس ملاقات میںمحسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے خیالات میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے ۔ اور اس کی بڑی وجہ حکیم عبدالوہاب صاحب 6؎کی معجز نما کامیابی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عرصہ تک سنگ گردہ میں مبتلا رہے اور جب ڈاکٹر حضرات ان ک لیے عمیلہ (اپریشن) کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں بتلاتے تھے اور عمیلہ کے لیے بھی وہ آنا جانا ضروری قراردیتے تھے۔ تو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے ان کو فائدہ ہو گیا اور وہ طب یونانی کے مداح و معترف ہو گئے۔
بیگم صاحبہ کی رحلت سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کو ایک خاص تکلیف شروع ہو گئی تھی۔ وہ عید کی نماز پڑھ کر گھر آئے گرم دودھ ملا کر سویاں کھائیں سویاں کھاتے ہی ان کی آواز بیٹھ گئی۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر آواز نہ کھلی۔ آخر مجبور ہو کر پھر ان کو حکیم نابینا صاحب کی طرف رجوع کیا جن کے علاج سے ان کو معتدبہ فائدہ ہوا۔
اگرچہ ان کو حکیم نابینا صاحب کے علاج سے بہت فائدہ تھا اور ان کی دوائیں مستقل طور پر جاری رکھتے تھے۔ مگر کچھ عرصہ سے وہ کبھی کبھی مجھے بھی یاد فرما لیا کرتے تھے اور اپنے مرض کے متعلق مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں خود بھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس وقت بھی پہلے عموماً وہ اپنے مرض علاج اور غذا کے متعلق سوالات کرتے اس کے بعد ادبی سیاسی مذہبی مذاکرا ت کرتے۔
اس عرصہ میں ان کا قلب ضعیف معلوم ہوتا تھا۔ نبض ضعیف و رقیق تھی اور غسل خان تک جانے سے بھی دم پھول جاتا تھا۔ اس کے ساتھ بعض اوقات دم کشی بھی شروع ہو جاتی تھی جو درحقیقت ضعف قلب کا نتیجہ تھی۔
گزشتہ دسمبر سے ان کی صحت زیادہ گرنا شروع ہوئی۔ سانس کے دورے ہر رات کو ہونے لگے۔ ضعف قلب کی شکایت بھی ہو جاتی تھی۔ اور کبھی کبھی بائیں شانے میں درد بھی ہو جاتاتھا۔ درحقیقت ان کا قلب عرصہ سے مائو ف تھا اور اب تدریجاً پھیل گیا تھا۔ اس کے ساتھ جگر بھی بڑھ گیا تھا اور پائوں پر بھی ورم آ گیا تھا۔
اس عرصہ میں زیادہ تر یونانی علاج ہوتا رہا جن سے ا ن کو نسبتاً فائدہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی بعض اصحاب کے توجہ دلانے پر ایلوپیتھی کی طرف رجوع کرتے اور بہترین ڈاکٹر نہایت کاوش سے علاج کر تے مگر عموماً ان سے فائدہ کم ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ پھر یونانی علا ج کی طرف رجوع کر لیتے۔
اسی عرصہ میں مجھے روزانہ حاضری کا اتفاق ہوتا رہا ۔ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تو سید نذیر نیازی صاحب یا میاں محمد شفیع صاحب یا میاں علی بخش کو بھیج دیتے۔ میں اکثر رات کو آٹھ نو بجے جاتا اور گیارہ بجے تک وہیں ٹھہرتا۔ بعض اوقات شام کو سات بجے اس خیال سے جاتا کہ نو بجے واپس آ جائوں گا۔ مگرپھر بھی گیارہ بجے تک ٹھہرا لیتے۔
شام کے علاوہ کبھی کبھی میں صبح کو سیر کرتے ہوئے چلا جاتا تھا بعض اوقات رات کو تکلیف ہوتی تھی تو صبح پانچ بجے ہی شفیع صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ اکثر مجھے جگا کر ساتھ لے جاتے۔ کبھی کبھی دو تین بجے دن کو بھی یاد فرما لیتے تھے۔ مگر ایسا عموماً کم ہوتا تھا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں نے اضطراب سا محسوس کیا اور اسی وقت چلا گیا اور جا کر دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب بے چین ہیں ۔ اضطراب کا تذکرہ کرنے پر فرمانے لگے کہ میں تکلیف محسوس کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ آپ آ جائیں۔
رات کی صحبت میں چوھدری محمد حسین صاحب سید نذیر صاحب نیازی اور میاں محمد شفیع صاحب بالتزام ہوا کرتے تھے۔ اکثر راجہ حسن اختر صاحب بھی شریک ہو جایا کرتے تھے۔ خواجہ عبدالرحیم صاحب اور دوسرے حضرات بھی کبھی کبھی آ جایا کرتے تھے۔ میں وہاں بیٹھ کر پہلے حالات معلوم کرتا پھر نبض دیکھتا اور جگر اور پائوں وغیرہ کی حالت دیکھتا۔ اس کے بعد دوائوں میں مناسب ردوبدل کرتا۔ پھر ڈاکٹر صاحب مرض کے متعلق سوالات کیا کرتے جن کے میں جواب دیتا۔ وہ ہمیشہ سے بہت بڑ ے نقاد تھے۔ مگر آخری ایام یں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور میں خود بھی بعض اوقات پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ خود انہیں یہ احساس تھا کہ ان کو مطمئن کرنا کسی قدر مشکل ہے۔ آخری ایام میں مجھے راولپنڈی جانا پڑا اور میں نے یہ تجویز کیا کہ میری غیر حاضری میں بعض دوسرے اطباء ان کی نگرانی کرتے رہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ مجھے مطمئن نہیں کر سکیں گے۔
مرض کے متعلق ان کے سوالات کے جوابات دینے میں ایک بہت بڑی دقت ی تھی کہ ان کے مزاج میں بے حد ذکاوت اور نزاکت پیدا ہو چکی تھی۔ اور اگر ان کو یہ معلوم ہو جاتا یکہ ان کی بعض علامات کو دوسرے اسباب کا نتیجہ قرار دیا جا تا ہے تو وہ ا س پر اس طرح سے جرح کرتے کہ معالج پریشان ہو جاتا ۔
غذا کے متعلق ان کی حس اور بھی لطیف  ہو چکی تھی۔ تقریباً ہر دوسرے اور تیسرے روز اور امر کی خواہش کرتے تھے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضاف کیا جائے ’’اگرپلائو کی اجازت نہیں تو کھچڑی میں کیا حرج ہے۔ یہ سادہ غذا ہے‘‘ آپ ایک دو روز کھچڑی کھا لیا کیجیے۔ ہاں تو کھرچڑی بھنی ہوئی ہونی چاہیے۔ جس میں گھی کافی ہو۔ گھی کم ہونا چاہیے کیونکہ جگر بڑھا ہوا ہے  تو پھر کھچڑی میں لذت کیا ہو گی۔ اچھا کم از کم اس میں دہی تو ملا لیا جائے۔ مگر آپ کو کھانسی اور تولید بلغم کی شکایت ہے۔ جس میں دہی مضر ہے تو پھر اس میں کھچڑی کھانے سے نہ کھانا اچھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو پلائو اور کباب بے حد مرغوب تھے۔ اور اسے وہ اسلامی غذا کہا کرتے تھے۔ ان کے لیی بے حد اصرار تھا ار ب لطائف الحیل میں سے انہیں ٹالتا رہا تو راولپنڈی جانے سے پہلے انہوں نے دو تین مرتبہ اصرار کیا کہ ایک روز آپ کی دعوت یہاں ہو اور آ میرے سامنے پلائو کھائیں تاکہ اگر میں پلائو کھا نہیں سکتا تو کم از کم کھاتے دیکھ لوں۔
دوا کے بارے میں بھی ان کی طبیعت بہت لطافت پسند تھی وہ چاہتے تھے کہ دوا خوش ذائقہ ہو۔ قلیل المقدار اور سریع الاثر ہو۔ حکیم نابینا صاحب کی دوائوں کو وہ اسی لیے پسند فرماتے تھے اور مجھے بھی ان کے رجحان کی وجہ سے ایسی ہی دوائیں تیار کرانا پڑیں جن کی وہ اکثر تعریف کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سے جس قدر میں قریب ہوتا گیا‘ اسی قدران کی عظمت کامجھے زیادہ احساس ہوتا گیا۔ یہ امر تعجب انگیز تھا کہ فلسفہ کی گہرائیوں پر اس قدر عبور ہونے کے باوجود وہ مذہب سے اس قدر متاثر تھے۔ جب تک ان کو قریب سے نہ دیکھا جائے اس شیفتگی اور عشق کا انداز کرنا مشکل ہے جو ان کو اسلم اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام سے تھا۔ ایک رات میں ان کی خدمت میں تھا کہ حضورؐ کی سنت کا ذکر شروع ہو گیا تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ کی اس پیروی کی بے حد تاکید فرمائی ثابت کیا کہ آپ کا پیکر اطہر مجسم اسلام ہے آپ اسلام اور ایمان کی تفسیر ہیں اور خود حضورؐ کے اسوہ حسنہ دریافت کرتا ہو تو قرآن مجید کا ہر حرف اس کی طرف اشار ہ کرتا ہے۔
قرآن حکیم سے تو ان کے بے حد شغف تھا۔ وہ بچپن سے بلند آواز سے قرآن حکیم پڑھنے کے عادی تھے۔ قرآن حکیم پڑھتے ہوئے وہ بے حد متاثر معلوم ہوتے تھے۔ آواز بیٹھ جانے کا انہین زیادہ قلق یہ تھا کہ وہ قرآن عزیز بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے بیماری کے دنوں میں بھی جب کبھی کسی نے قرآن حکیم کو خوش الحانی سے پڑھا تو ان کے آنسو جاری ہو گئے اور ان پر لرزش اور احتراز کی کیفیت طاری ہو گئی۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا بے حد احترام کرتے تھے اور اگر جدید تعلیم یافتہ مسلمان محمد صاحب کہتا تو بہت تکلیف محسوس کرتے۔
اگرچہ جمہور ان کو زیادہ تر شاعر کی حیثیت سے جانتے تھے مگر خود شاعری کو اپنے افکار کے پھلانے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے ۔ ان کو اس وقت بے حد تکلیف ہوتی تھی جب کوئی ان سے دوسرے شاعروں کی طرح اشعار سنانے کی فرمائش کرتا تھا۔ میں نے ان سے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ غالب نے یہ آپ کے لیے کہا ہے:
مانبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہش آں کرد کہ گردد فن ما
ان کے شعر کہنے کی حالت بھی دوسرے شعرا سے کچھ الگ تھی۔ فرماتے تھے کہ سال میں چار پانچ ماہ تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک خاص قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے میں بلا ارادہ شعر کہتا رہتا ہوں۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے گھر میں دوسرے کام بھی کرتا رہتا ہوں‘ مگر زیادہ تر طبیعت کا رجحان شعر گوئی کی طرف ہوتا ہے۔ ان دنوں عموما ً رات کو شعر گوئی کے لیے بیدار رہنا پڑتا ہے۔ میرے استفسار کرنے پر فرمایا کہ چار پانچ ماہ کے بعد یہ قوت ختم ہو جاتی ہے توغور و فکر کے بعد کچھ شعر کہے جا سکتے ہیں مگر یہ آورد ہوتی ہے اور وہ آمد دونوں طرح کے کہے ہوئے اشعار میں تمیز کی جا سکتی ہے۔ اس حالت کو ڈاکٹر صاحب حمل سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس حالت کے اختتام کو وضع حمل سے
حضرت علامہ اقبال کی صحبت میں ان کی سیرت کے متعلق جو تاثرات ہوئے‘ ان کی تفصیل ایک دوسرے مضمون کی مقتضی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مرض کی حالت میں مدوجذر ہوتا رہتا تھا مگر یونانی علاج سے انہٰں کافی فائدہ ہو گیاتھا۔ یہ ظاہر ایک حد تک ان کی حالت امید افزا ہو گئی تھی۔ تاہم اندرونی عوارض و اثرات کم و بیش باقی رہتے تھے۔ اسی عرصہ میں مجھے پنجاب کے طبی کانفرنس میں راولپنڈی جانا پڑا۔ میرے جناے کے کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر صاحب کی طبیعت یک بیک زیادہ خراب ہو گئی۔ یہ صورت دیکھ کر انہوںنے مجھے واپس آنے کے لیے تحریر فرمایا مگر میں جلد تعمیل نہ کر سکا۔ میرے پہنچنے سے پہلے لاہور کے معروف ترین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ علاج شروع کر چکا تھا جس سے دو روز کچھ فائدہ محسوس ہوا مگر انیس اپریل یکو حالت خراب ہونی شروع ہوئی۔ شام کو جب میں ںے اور تین چار ڈاکٹروں نے دیکھا تو حالت اطمینان بخش نہیںتھی۔ تاہم حواس اس طرح صحیح و سلیم تھے اور ظاہری حالت میں کویء خاص تغیر نہیں معلوم ہوتا تھا۔ میں اس رات بارہ بجے تک پاس بیٹھا رہا۔ چودھری محمد حسین صاحب‘ سید نذیر نیازی صاحب پروفیسر مظفر الدین صاحب اور شفیع صاحب بھی موجود تھے ۔ ایک آدھ دفعہ میں ںے اجازت چاہی تو فرمایا کہ ابھی ٹھہریں اور علی بخش کو بلا کر کہا کہ حکیم صاحب کے لیے چائے بنائو۔ میں ںے رض کیا کہ ابھیمیں نے کھانا نہیں کھایا۔گھر جا کر کھانا کھائوں گا۔ فرمانے لگے پھر تو آپ کو کھانا کھانا چاہیے تھا۔ شفیع صاحب نے کہا کہ سب نے حکیم صاحب کو کہا تھا‘ مگر انہوں نے اعتراض کیا۔ فرمانے لگے یہ ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں۔ جب آخری دفعہ رکا تو میں ںے علی بخش سے کہا کہ اب چائے بنوا لائو۔ اس پر علی بخش نے فرمایا کہ میم صاحبہ نے جو بسکٹ بنائے ہیں حکیم صاحب کو کھلائو۔ چنانچہ میں نے اور چودھری صاحب نے اور نیازی صاحب نے چائے پی۔
اس عرصہ میں شفیع صاحب ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دوا لے آئے اور حضرت نے ایک خوراک پی لی۔ پینے کے بعد بہت بے چینی محسوس کی اور فرمانے لگے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے۔ میں اسے قے کرنا چاہتا ہوں چنانچہ خون آ رہا تھا اور خطرہ تھا کہ قے سے رگ نہ پھٹ جائے ۔ میں نے گرم پانے ارو نمک کے غرغرے کرنے اور دانہ الائچہ چبانے کے لے کہا اس سے بے چینی کم ہوئی مگر فرمانے لگے کہ ابھی متلی باقی ہے۔ پھر میں نے اکسیر عبنری دی تو اس سے متعلی رفع ہو گئی۔
اس کے بعد ایک اور دوسری ڈاکٹری دوا پینی تھیل مگر اس سے انکار کیا اور فرمانے لگے کہ ڈاکٹری دوائیں خلاف انسانیت ہیں کیونکہ ان میں مریض کے ذوق کا خیال نہیںرکھا جاتا۔ پھر فرمایا کہ میڈیکل سائنس زندگی کی سائنس معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہے۔
ڈاکٹر قیوم صاحب نے کہا کہ دوسری دوا خواب آور ہے اور اس کا پینا ضروری ہے۔ فرمانے لگ کہ مجھھے ان دونوں سے نیند نہیں آت۔ اجزا بھی ہیں تو فرمایا کہ اگر اس مکسچر میں سے دافع درد اجزا کو الگ کر کے دے سکیں تو پی لوں گا۔ کیونکہ خواب آور اجزا سے مجھے نیند نہیں آتی۔
جب ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بحال ہو گئی تو میں اجازت لے کر اپنے رفقا کے ساتھ چلا آیا۔ میرے آنے کے بعد کچھ دیر تک نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی ارو بے چینی شروع ہوئی۔ تین بجے کے قریب میاں محمد شفیع صاحب کو میرے پاس بھیجا۔ مکان کا دروازہ بند تھا مگر ملاز مباہر سویا ہوا تھا۔ شفیع صاحؓ نے اسے کوئی دوسرا آدمی سمجھ کر نہ جگایا اور چند آوازیں دیں۔ جواب نہ پا کر وہ واپس چلے گئے۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کو رات کو بلانا ہو تو کس طرح بلایا جائے۔ میں نے کہا کہ آپ بلا تکلف آدمی بھیج دیں۔ نیچے ملازم سوتا ہے وہ جگا لے گا۔ اس پر خاموش ہو گئے مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جگا لے گا کہ مطمئن نہیں ہوئے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ ایک گھنٹی (بیل ) لگوائی جائے۔ میں نے انتظام کرنا چاہا مگر بدقسمتی سے جلد ہی میں راولپنڈی چلا گیا۔ واپسی پر ڈاکٹروں کا علاج شروع ہو چکا تھا اس لیے اس طرف خیال نہ آیا۔ اس سے پہلے جب رات کو تکلیف ہوت تو عموماً ڈاکٹر صاحب جمعتی سنگھ صاحب کو بلا لیتے تھے۔ مگر آخری رات کو ڈاکٹری علاج ہونے کے باوجود مجھے بلایا اور جب شفیع صاحب ویسے ہی واپس چلے گئے تو فرمایا کہ افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ اس کے بعد پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر صاحب کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ قرشی کو بلا لائیںَ انہوں نے فرمایا کہ وہ را ت کو بہت دیر سے گئے ہیں اور اس وقت اس کو بیدار کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اس پر یہ قطعہ ارشاد فرمایا جس کی اس قدر شہرت ہو چکی ہے:
سرود رفتہ بازآید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید


سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید 10؎
راجہ صاحب نے اس قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی کہا کہ میں ابھی حکیم صاحب کو لا رہا ہوں۔ وہ پانچ منٹ پر جاوید منزل سے نکلے۔ اس کے بعد فرمایا کہ پلگ ساتھ کے کمرے میں لے چلو۔ جب اندر پلنگ لے گئے تو فرمایا کہ کندھا دبایا جائے۔ علی بخش نے شانہ دبایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ دل پر تکلیف ہے اور اس کے ساتھ ہی پانچ بج کر چودہ منٹ پر جن جان آفرین کے سپرد کر دی۔
میں جب جاوید منزل کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ طلوع آفتاب کے ساتھ علم و ادب کا یہ آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکا ہے۔ وہ اس وقت پہلو کے کمرے میں پلنگ پراکیلے پڑے تھے۔ میں نے چادر منہ سے سرکائی اور یہ خیال کیا کہ حسب معمول آئیے حکیم صاحب کی شیریں آواز سامع نواز ہو گی مگر یہ خیال ایک ایسی آواز بن کر رہ گیا کہ جس سے ہمیشہ دل میں خلش ہوتی رہے گی ۔آخری وقت میں ان کے  یاد کرنے کی یا تو یہ وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ میں آخری لمحات میں ان کے پاس رہوں ۔ یا ان کا خیال ہو گا کہ ان خطرناک لمحات میں جواہر مہرہ اکسیر عنبری وغیرہ استعمال کرائوں تاکہ بارہا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی نبض بہت کمزور اور نڈھال ہو گئی اور جواہر مہرہ وغیرہ کے استعمال سے طبیعت سنبھل گئی۔ بہرحال کوئی بھی وجہ ہو میرے لیے یہ امر موجب اضطراب رہے گا کہ میں ان کی خواہش کے باوجود آخری لمحات میں ان کے پا س نہیں تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی موت کا ہم میں سے کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔ جب رات کو گیارہ بجے تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو سب کا خیال تھا کہ ہم سب جاوید منزل جائیں گے۔ چودھری محمد حسین صاحب ان کو دن بھر کے واقعات سنائیں گے جو ان کے جنازے پر عظمت جلوس‘ جمہور کی اشک باری اور شاہی مسجد کے باغ میں ان کی تجہیز و تکفین کے انتظامات پر مشتمل ہوں گے۔ راجہ حسن اختر صاحب مزار کے نقشے اور مجلس اقبال ک تشکیل کے متعلق ان سے مشورہ کریں گے۔
سید نذیر نیازی صاحب ان کو بغداد کا کوئی ایسا خواب آور افسانہ سنائیں گے کہ جس سے وہ ہمیشہ کے لیے سکھ کی نیند سو جائیں ۔ میں محمد شفیع اور میاں علی بخش ان کے کندھے کو اس طرح دبائیں گے کہ پھر وہ کبھی درد کی شکایت نہ کریں گے اور میں ان کی نبض دیکھ کر ایسی خوشگوار دوائیں اور لذیذ غذائیں تجویز کروں گا کہ ان کے کام و دہن جنت کے لذائذ و نعائم کا سا لطف محسوس کرنے لگیں:
اب بھی صبح کی نماز کے وقت کوئی جگانے کے لیے آواز دیتا ہے تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے سات اٹھ بیٹھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو پھر کچھ تکلیف ہو گئی ہے جو صبح ہی سے صبح انہوںنے یاد فرمایا ہے۔ شفیع صاحب دوسرے تیسرے روز مطب پر آتے ہیں اور ان کو دیکھ کر بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے ارو میں سمجھتا ہو ں کہ ڈاکٹر صاحب کی حالت بتانے کے لیے آئے ہیں ۔ مگر پھر جب وہ کہتے ہیں کہ شیخ عطا محمد صاحب (ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی) بخار میں مبتلا ہیں علی بخش کو سینہ میں در د ہے عزیز جاوید اقبال کو کھانسی ہے تو میں کھو سا جاتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں چھوڑ کر بادلوں سے بھی بڑے دور کسی ایسے مقام پر چلے گئے ہیں جو ان کے تخیل کی طرح بلند و بے پایاں ہے اور جہاں دوستوں کی آہ و بکا اور عزیزوں کے نالہ و شیون کا گزر نہیں ہے۔

حکیم محمد حسن قرشی

مئے شبانہ ، عبدالرشید طارق ایم ۔ اے

مئے شبانہ
عبدالرشید طارق   ایم ۔ اے

میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ بچپن ہی سے اقبال کے نام گرامی سے واقف ہو گیا۔ میری والدہ اکثر ’’ ماں کا خواب‘‘ ،’’ بلبل‘‘ اور ہمدردی کی نظمیں1؎ سنایا کرتی تھیں، چنانچہ سب سے پہلی نظمیں جو میں نے ازبر کیں یہی تھیں۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو دادا جان حاجی احمد بخش صاحب حضرت علامہ (رحمتہ اللہ علیہ) اور گرامی مرحوم کے واقعات سنایا کرتے، اس زمانے کے جب حضرت علامہ (رحمتہ اللہ علیہ) بھاٹی دروازے میں سکونت پذیر تھے اور یہ تینوں بزرگوار گاہے گاہے اکٹھے مل بیٹھتے تھے۔ جب تک میں ثانوی درسگاہ میں داخل نہ ہوا، میرے دل میں ان سے ملاقات کی خواہش پیدا نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو میں اسے محسوس نہ کر سکا کیونکہ اپنی بے بضاعتی کے پیش نظر ایسی خواہش کو دل میں جگہ دینا مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا لیکن ایک موقعہ پر مجھے اس کا احساس بڑا زور دار ہوا۔ 1923ء یا1924ء میں مجھے سال بخوبی یاد نہیں، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کا مقام انعقاد ہمارا مدرسہ واقع بیرون بھاٹی دروازہ قرار پایا اور یہ بھی سننے میں آیا کہ ڈاکٹر اقبال جلسے میں ضرور شریک ہوں گے اور اپنی نظم سنائیں گے۔ یہ خبر جس قدر سرور اور انبساط کی حامل تھی، نتیجہ میں اتنی ہی مایوس کن ثابت ہوئی۔ علامہ مرحوم کو دیکھنے کی آرزو بر نہ آئی اور مزید بہت مدت تک شرمندۂ تکمیل نہ ہوئی۔ بہر کیف میری آتش شوق پیہم مایوسی کے باعث سرد پڑ گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد کونسل کے انتخابات کا چرچا اٹھا اور معلوم ہوا کہ علامہ بھی امیدوار ہیں۔ ہمارے خاندان کے ہر فرد کی دلی تمنا تھی کہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو لیکن ملک محمد دین نے مخالفت کا اعلان کر دیا اور لاہور اور اس کے مضافات کے مسلمان بدقسمتی سے فرقہ پرستی کے گرداب میں الجھ گئے۔ کشمیری اور ارائیں کا سوال پیدا ہوا۔ لڑائی، جھگڑے، دنگا و فساد تک نوبت پہنچی، ارائیں ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اعانت کرنے کی وجہ سے ہمارے خاندان کو بائیکاٹ کی دھمکیاں دی گئیں۔ پڑوس کے ایک صاحب ریش بزرگ سے میری جھڑپ بھی ہو گئی۔ میں اقبال اقبال پکار رہا تھا۔ ہم نے اپنے مکان کے در و دیوار ’’ اقبال‘‘ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالے تھے۔ اس بزرگ کو ہمارے افعال بالکل نہ بھائے۔ خواہ مخواہ برہم ہو گئے۔ کہنے لگے’’ اقبال آخر ہے کیا، صرف شاعر اور بیت گو۔ حقہ لے کر تمام دن گڑگڑاتا رہتا ہے۔ دو کش لگائے، دھواں چھوڑا اور ایک آدھ شعر لکھ دیا اور کام ہی کیا ہے۔ مسلمانوں کی کیا خدمت کی ہے اس نے؟‘‘ میری عمر ہی کیا تھی بمشکل پندرہ ہو گی۔ لازماً تند ہو گیا۔ اتنے میں دادا آ گئے اور میں پٹنے سے بچ گیا۔
اس الیکشن کا بھلا ہو کیونکہ انہی ایام میں مجھے ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے کے متعدد مواقع ملے۔ جہاں کہیں جلسہ ہوتا ہم اپنے محلے کی والنٹیر کور لے کر ان کے اشعار پڑھتے وہاں جا پہنچتے اور عین سٹیج کے قریب جگہ پاتے۔ ہماری کور کا گیت جواب شکوہ میں سے ذیل کے بند ہوا کرتے تھے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک


حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک


فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں


شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟


وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


یوں تو سید بھی ہو ‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو‘ بتائو تو مسلمان بھی ہو
الیکشن کا نتیجہ نکلا‘ علامہ اقبال اپنے حریف کو زبردست شکست دی اور ان کا جلوس نکالا گیا۔ جب جلوس بھاٹی دروازہ میں اونچی مسجد کے پاس آ کر رکا تو  ہم سب پھولوں کے ہار لے کر آگے بڑھے اوران کے گلے میں ڈال دیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے ان کا قرب اس قدر زیادہ میسر ہوا اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ان کے سامنے لب کشائی کی۔ اس کے بعد یہ آرزو اور بھی بڑھ گئی۔ کہ ان کے نیاز زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جائیں۔ بالآخر کافی عرصہ کے بعد دادا جان ہم تینوں بھائیوں کو لے کر اس مرغوب آستانے پر پہنچے۔ یہ شاید 1927ء کا واقعہ ہے۔ ان کی کوٹھی میکلوڈ روڈ پر کئی بار آتے جاتے دیکھی تھی۔ کوٹھی اور سڑک کے درمیان ایک لمبی سی گلی تھی جس کے بائیں جانب کھلی زمین تھی جہاں مکی کے لمبے لمبے پودے میں نے اکثر کھڑے دیکھے تھے ۔ دروازے پر دو پست اور بوسیدہ ستون اس کی حدود کو واضح کرتے تھے۔ وہاں سے دور کوئی ڈیڑھ سو قدم کے فاصلے پر کوٹھی کے دو تین ستون اور لکڑیکی سرخ جھالر سی دکھائی دیتی تھی۔ سامنے ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ اس کے جنوب میں زنان خانہ کا دروازہ تھا اور شمال میں ڈائننگ روم کے مسقف برآمدے سے ملا ہوا ایک غیر مسقف تھڑا تھا۔ کوٹھی کی ظاہری ہئیت (بعد میں باطنی کے متعلق بھی یہی رائے قائم کی) غیر دقیع اور ٹوٹی پھوٹی تھی۔ شکست و ریخت کے آثار متعدد مقامات سے ہویدا تھے۔ رہائش کی مانورزونی ہمیں کھٹکی ‘ ہم تینوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو سراپا حیرت و استفسار پایا۔ مگر یارائے سخن کسے تھا۔ دل آنے والی ملاقات کے لیے دھڑک رہا تھا۔ اور حضرت علامی کو ڈرائنگ روم کے باہر کھڑکی کے نیچے آرام کرسی پر نیم دراز دیکھ کر دل کی دھڑکن اور بھی تیز ہوگئی۔ تھڑے میں ایک چارپائی بچھی تھی۔ آرام کرسی کے سامنے اور ادھر ادھر دو تین کرسیاں دھری تھیں ہم ذرا قریب پہنچے تو شمال کی جانب اور کمرے نظر آئے۔ جہاں دو چارپائیوں پر دو آدمی بیٹھے تھے۔ یہ ملازمین کے کوارٹر تھے۔ اور ان سے ذرا پرے ڈاکٹر صاحب کا کتب خانہ تھا۔ اس کے اور ڈرائنگ روم کے درمیان ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ ان دو بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے ایک پتلا دبلا آدمی اٹھا اور ہماری طرف بڑھا۔ اس کے سر پر بغیر پھندنے والی رومی ٹوپی تھی۔ جس کی لالہ رنگی زمانے کے ہاتھوں مٹیالی ہو گئی تھی۔ ڈاڑھی خشخشی اور مونچھیں بھوری تھیں‘ آنکھیں ہنستی ہوئی یہ ڈاکٹر صاحب کا ملازم علی بخش تھا۔ دادا جان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جا کر اطلاع دی  ڈاکٹر صاحب نے وہیں سے آئیے حاجی صاحب کہہ کر بلایا۔ ہم بارگاہ میں بصد عجز و نیاز پہنچے‘ مصافحہ کیا اور کرسیوں پہ جن میں علی بخش نے اور بھی شامل کر دی تھیں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب حاجی صاحب سے باتیں کرنے لگے۔ مولانا گرامی مرحوم کا ذکر آیا تو فرمانے لگے کہ کسی کو چاہیے کہ ان کے ہمراہ رہ کر ان کا کلام قلم بند کرتا جائے۔ انہیں اپناکلام سارا زبانی یاد ہے۔ مگر لکھایا لکھایا بہت کم ہے‘ ہماری جانب دیکھ کر پوچھا کہ کون ہیںِ؟ حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے پوتے ہیں آپ کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے نام اور پڑھائی کی بابت پوچھا ہم نے بتایا کہ حاجی صاحب کہنے لگے یہ لوگ مدت سے مصر تھے کہ آپ کے نیاز حاصل کریںَ ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آ ہی کے اشعارگنگناتے رہتے ہیں۔ ان کو تو ااپ سے غائبانہ عشق ہو گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے حقہ کی نے کو منہ میں لیا۔ ہلکے ہلکے کش لگائے اور مسکرا کر فرمایا حاجی صاحب نوجوانوں کی آئندہ نسلیں میری مٹھی میں ہیں‘‘۔
کس قدر الہامی اور صداقت سے لبریز فقرہ ہے۔ نوجوانوں کے قلوب پر ان کی زبردست گرفت کا اندازہ آج بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
رخصت ہونے کو اٹھے تو دوبارہ مصافحہ کرتے وقت بھائی حمید نے ڈاکٹر صاحب کا ہات چوم لیا جس سے بھائی مجید اور میرے دل میں رشک کے جذبات موجزن ہوئے۔ ہم مصافحہ پہلے کر چکے تھے اور دوبارہ کرتے ہوئے حجاب اور آداب مانع ہوئے اس لیے تمام راستہ تاسف ہوتا رہا کہ اس سعادت سے ہم کیوں محروم رہے۔
گفتگو میں بیشتر حصہ عموماًڈاکٹر صاحب کا ہوتا تھا۔ ہم ذرا سی بات چھیڑ دیتے۔ کوئی سوال پوچھ بیٹھتے اور وہ حقائق و معارف کے دریا بہانا شروع کر دیتے  ایک ہی صحبت میں مختلف موضوعات زیر بحث آتے۔ اسلامیات‘ فلسفہ‘ اور سیاسیات‘ سے لے کر روز مرہ کے مشاغل پر بھی اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ گویا انہیں ہر علم و فن پر احاطہ ہے۔ یہ احساس ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ محض ٹالنے کی خاطر یا اپنا تبحر منوانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ خلوص اور خیالات و جذبات کی صحت ان کے اسلوب بیان سے مترشح تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ اگر انہیں موضوع ناپسند ہو ا یا اگر یہ کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی تو صرف ’’ہوں‘‘ فرما دیا کرتے۔ لیکن اس سے کسی کی دل شکنی کبھی مقصود نہ ہوتی۔ بے معنی سوالات سے البتہ ضرور چڑھ جایا کرتے تھے۔ میرے سامنے ایک واقعہ پیش آیا وہ عرض کرتا ہوں:
پچھلی گرمیوں میںایک روز شام کے وقت میں اور صوفی تبسم نے ڈاکٹر صاحب کے یہاں چلنے کی ٹھانی ایک اور صاحب بھی موجو دتھے۔ انہوں نے بھی رفاقت کی خواہش ظاہر کی ۔ وہ سائیکل پر تھے کہ ہم تانگے میں لہٰذا وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ جب ہم جاوید منزل پہنچے تو ڈاکٹر صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اوریہ صاحب پاس بیٹحے تھے ڈاکٹر صاحب بہت برہم نظر آتے تھے۔ میں نے اس سے قبل اہیں برہمی و غیظ و غضب کی حالت میں صرف ایک مرتبہ دیکھا تھا اور وہ بھی ای نوجوان مرزائی مبلغ کو انہوں نے دھکے دے کر اپنی کوٹھی سے باہر نکال دیا تھا۔ لیکن موجودہ کیفیت اس سے قدرے مختلف تھی۔ اس میں افسوس کا عنصر غالب تھا۔ ہم ابھی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ صوفی صاحب کو کہنے لگے۔
Sufi Who is this young man?
صوفی یہ نوجوان کون ہے؟
ہمیں حیرت ہوئی کہ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ چنانچہ نہ تو صوفی صاحب جواب دے سکے اور نہ ہی کوئی اور اس لیے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ فرمانے لگے۔
He comes here asks Dr. Sahib
Wht is your opinion about psychology. Now what opinion can I give him about psychology.
دیکھیے نا یہ مجھ سے آ کر پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی نفسیات کی بابت کیا رائے ہے؟ آپ ہی کہیے میں نفسیات کی بابت کیا رائے دوںَ؟
ہمیں اک گونہ تسلی ہوئی کہ خیر معاملہ اتنا نازک نہیں‘ لیکن ڈاکٹر صاحب کے بشرے اور لہجے سے ظاہر تھا کہ انہیں اس سے کافی تکلیف ہوئی ہے۔
اس واقعہ سے صرف یہی چیزنہیں ہوتی کہ وہ مہمل استفسارات سے تنگ پڑ جاتے تھے بلکہ ان کی جبلی کم آزاری بھی عیاں ہو جاتی تھی۔ انہوںنے انگریزی میں اس لیے پوچھا کہ ان صاحب کی ظاہری ہئیت اور ملانی صورت سے یہ گمان نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انگریزی زبان سے واقف ہیں اور اس کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی زبان میں بے حد رس اور شیرینی تھی۔ ایک بار ان کے پا س بیٹھ کر گھنٹوں اٹھنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ ان کے سامنے کوئی بھی بیٹھا ہو اسے اپنی علمی کم مائیگی اور ان کی رفعت و بلند مرتبی کا احسا س ہرگز نہ ہوتا تھا۔ جیسے کوئی نہایت ہی مشفق اور بے تکلف دوست کے سامنے بیٹھا ہو۔ ایک روز جون 1929ء کو ہم تینوں دادا جان بھائی مجیدا ور میں ان کے آستانہ پر پہنچے ڈاکٹر صاحب ڈرائنگ روم میں صوفے پہ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کرلکھنا چھوڑ دیا اور بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ اس روز ان کی ذات کے کئی اور پہلو مشاہدہ کیے۔ ہماری گفتگو کا رخ اسلام اور مشاہیر اسلام کی طرف پھرا تو انہوں نے ہمیں عہد اولیٰ کے مسلمانوںکے ایثار اور الوالعزمی کے واقعات سناتے ہوئے تاریخ اسلامی میں سے ایک ورق سنایا جس کا تعلق حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور قسطنطنیہ کی اولین فتح سے تھا۔ نوے برس کی عمر میں ان کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو یاد کر ے ڈاکٹر صاحب پر کمال رقت طاری ہو گئی ان کا چہرہ گلاب کی طرح سرخ ہو گیا آواز حلق میں رک گئی اور بولنے کی ہر سعی کے ساتھ ان کا چہرہ زیادہ گلگوں ہوتا گیا یہاں تک کہ آنسوئوں کا تانتا بندھ گیا۔ اس قصے کے بعد کامل سکوت چھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب سب سے زیادہ متاثر تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہماری موجودگی کو بھول گئے ہیں۔ کمر ے میں شام کی تاریکی پیدا ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ چلیے باہر برآمدے میں چل کر بیٹھیں۔ علی بخش نے پلنگ اورکرسیاں پہلے ہی بچھا رکھی تھیںَ پانی کا چھڑکائو بھی کر دیا تھا علی بخش نے حقہ اٹھایا اور ہم سب باہر آ گئے۔ ایک ملاقاتی کے آنے کی اطلاع دی گئی۔ اجازت پر ایک نوجوان بغل میں چند کتابیں دبائے آگے بڑھا ارو جھک کر آداب بجا لایا۔ شکل و صورت اورلباس سے ہندوستانی معلوم ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے استفسار پر بولا کہ حیدر آباد (دکن) سے محض حضور کے نیا ز رنے آیا ہوں۔ تھوڑے توقف کے بعد اٹھا اور ایک کتاب ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا اور کہا کہ اس پر اپنے ہاتھوں سیکوئی شعر لکھ دیں۔ وہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصنیف پیام مشرق تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ کر فرمایا کہ بھئی اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب میرا ہی توہے پھر اور کیا لکھوں؟ اس نے اصرار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اوراق زرا الٹے پلٹے قدرے توقف کیا جیسے کچھ سوچ رہے ہیں پھر علی بخش کو آواز دے کر کہا کہ قلمدان اٹھا لائو۔ علی بخش ایک بڑا سا سیاہی مائل قلمدان لایا جس میں شیشے کی ایک بڑی دوات اورشاید د و قلم تھے۔ قلمدان کے وسط میں اٹھانے کے لیے ایک لوہے کا محرابی کند تھا۔ علی بخش نے قلم سیاہی میں ڈبو کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں دبا دیا اور انہوں نے کتاب کے سرورق پر ذیل کا شعر رقم فرما دیا:
سروری در دین ما خدمت گری است
عدل فاروقی و فقر حیدری است ۳
وہ نوجوان بہت خوش ہوا اور ذرا دیر اور بیٹھ کر چلا گیا۔ اتنے میں پاس کے سینما سے شور و غوغا بلند ہوا۔ ایک شاعر اور فلسفی کی قیام گاہ جسے کامل سکون اور سکوت میسر ہونا چاہیے تھا غوغا آرائی کے اس سیل بے پناہ میں غرق ہو گئی۔ ہم خاموش بیٹھے تھے اس نے چونکا دیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب ! یہ شور تو آ پ کے آرام میں بہت مخل ہوتا ہو گا‘‘؟
انہوںنے فرمایا’’ہاں مگر اب عادت ہو گئی ہے‘‘۔
’’آپ اس کوٹھی کو بدل کیوں نہیںدیتے یہ تو یوں بھی بہت بوسیدہ اور پرانی ہے۔ آپ اس کا کتنا کرایہ دیتے ہیں‘‘؟
’’ایک سو تیس روپے‘‘۔
’’اتنے روپوں میں تو آپ کو ایک بہت اچھی کوٹھی مل سکتی ہے ‘‘۔
’’ٹھیک ہے مگر میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ کوٹھی دو یتیم ہندو بچوں کی وراثت ہے‘ میرے چلے جانے سے ان کو بہت تکلیف ہو گی۔ انتا کرایہ شاید اور کوئی نہ دے‘‘۔
اس پاکیزہ جذبے کے اظہار سے ہم عش عش کر اٹھے۔ اللہ اللہ! یہ وہ اقبال ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں عجیب و غریب خیالات اور نظریے جاگزیں تھے۔ کوئی ملحد قرار دیتا تھا کوئی دہریہ ۔ متذکرہ الیکشن کے دوران میں مخالف پارٹی کا پروپیگنڈہ ان کی ذات گرامی میں خردہ گیری تک محدود رہا اور ان کی نامسلمانی کو ثابت کرنے کے لیے عموماً ان کے اس شعر کا حوالہ دیا جاتاتھا:
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اور نادان یہ نہ سمجھے کہ وہ اس ڈھنگ سے مسلم قوم کے مذہبی جمود کو غیرت کی گرمی سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کم نظر ان کی بیتابی جان کا اندازہ نہ کر سکے اس لیے کہ انہیں کبھی توفیق نہ ہوئی کہ ان کا قرب حاصل کریں‘ ان کے پاس بیٹھیں اور ظاہر کی بجائے باطن کی جھلک  دیکھیں۔ وہ ا ن کے کلام کی روح کو نہ پہنچ سکے۔ جب یہ شعر جو خود قوم کی دوں ہمتی اور ہنگامی جوش و خروش کا آئینہ دار ہے سنا کہ:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
تو اسے بے دین کہا۔ شکوہ سن کر تو اسے پہلے ہی زندیق بنا دیا تھا۔ یہ سب تعصب بے عقلی اور جہالت کی کارفرمائیاں ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کیجواب نے میرے خیلات کی رو کو اس بہائو میں پھینک دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ باقی دونوں حضرات بھی یہی کچھ سوچتے ہوں گے۔ اتنے میں علی بخش ڈاکٹر صاحب ک لیے کھانا لے آیا۔ لکڑی کے درمیانہ سائز کے خوان میں تولیے کے اوپر ایک چینی کی طشتری میں دلیا تھا۔ دودھ اور چمچے کے پاس تھے بس ان کی یہ غذا تھی۔ ڈاکٹر صاحب چارپائی پر ہی کھانے لگیل۔ وہ کھا چکے تو ہم ذرا اور ٹھہر کر چلے آئے۔
اب ہم اکثر ان کی ملاقات کو جانے لگے۔ جس روز دادا نہ جا سکتے ہم دونوں بھائی جا پہنچتے۔ میں واپس آ کر عموماًہر ملاقات کی تفصیل اپنی ڈائری میں رج کر لیا کرتا تھا۔ مجھے ڈائری لکھنے کی عادت سکول ہی میں پڑ گئی تھی۔ اور آج جب میں ان پرانی تاریخوں کو الٹ پلٹ کر دوبارہ دیکھتا ہوں تو اک عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ان خوش قسمت اور گراں بہا لمحات کی یاد قلب کی گہرائیوں میں بھی ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ تب کیا پتا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان یادداشتوں کی قدر و منزلت نہ صرف میری بلکہ ہر اقبال پرست کی نگاہ میں افزوں ہو جائے گی۔ میں یہاں 1930ء کی ایک ملاقات ڈائری سے من و عن نقل کرتا ہوں:
23جون 1930ء
عشق درد انگیز را ہر جادہ در کوے تو برد
بر تلاش خود چہ می نازد کہ رہ سوے تو برد
شام کے کوئی سات بجے کے قریب بھائی مجید اور میں ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی واقع میکلوڈ روڈ پہنچے۔ تمازت آفتاب کے اثرات ابھی کافی تیز تھے‘ لیکن ملاقات کی دھن میں ہم نے کوئی پروا نہ کی اور تیزی سے قدم اٹھاتے چلے گئے۔ دادا جان نے ایک مخملی جائے نماز‘ سفید سیپ کی تسبیح اور کچھ کھجوریں (خاص مدینہ منورہ کی جن میں گٹھلی نہ تھی) حجاز سے ڈاکٹر صاحب کے لیے بھیجی تھیںَ انہیں ان کی خدمت میں پیش کرنے جا رہے تھے تمام راستہ لبوں سے یہی دعا نکلتی رہی کہ وہ کہیں باہر نہ تشریف لے گئے ہوں۔ دروازے میں داخل ہوئے تو نگاہ شوق دور ہی سے اٹھی اور بے حد مسرور ہوئی کہ وہ محبوب انسان حسب معمول باہر برآمدے میں چارپائی پر گائو تکیے سے ٹیک لگائے کسی ملاقاتی سے محو گفتگو تھے۔
علی بخش آیا اور ہمیں ڈاکٹر صاحب کے حضور میں لے گیا۔ ہم نے مودبانہ سلام عرض کیا‘ ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ اٹھایا اور کمال تلطف سے ’’آئیے‘‘ فرمایا اور کرسیوں کی طرف اشارہ کیا ہم قریب ترین خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
کونسل سے آنے والے انتخابات اور امیدوار زیر بحث تھے۔ ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کی غوغا آرائی ارو فضول سے متاسف تھے آپ کو افسوس تھا کہ مسلمان انتخابات میں اپنی انفرادی اور ملی طاقت کو ضائع کر کے اپنی ذہنی‘ اخلاقی اور سیاسی پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے مخاطب سے فرمایا:
’’قومیت ۴ ؎ کا سوال نہایت ناپسندیدہ سوال ہے۔ کوشش کرنا چہیے کہ یہ نہ اٹھے۔ اس کے لیے چاہیے کہ ایسے لوگوں کی ایک کانفرنس بلائی جائے جو انتخابات اور ووٹوں کے سلسلے میں بہت زیادہ گرم جوش (Enthusiastic)ہوں امیدواروں کے کوائف اور حالات معلوم کرنے کے لیے اس کانفرنس کی یہ کوشش ہو کہ رائے عامہ کا جائزہ لے اور معلوم کرے کہ عوام کا رخ کیا ہے۔ اور وہ زیادہ تر کس امیدوار کے حق میں ہیں۔ اس کے بعد کانفرنس کے اراکین‘ جن کی تعداد طاق ہو تاکہ رائے شماری میں آسانی ہو‘ کی رائے لینا چاہیے اور اکثریت کے فیصلے کے مطابق مجوزہ امیدوار کی اعانت اور مدد کریں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب چپ ہو گئے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر میں کنگھی کرنے لگے۔ ان کے بال چھوٹے چھوٹے اور سپید مگر سیاہی مائل وہ انگلیوں کے درمیان اور ان کے زور سے اس طرح نگوں ہو جاتے تھے جیسے گندم کے زرد اور سنہری کھیت ہوا کی موجودگی میں۔ اسی انداز میں وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور دادا جان کی بابت پرسش کی۔ عرض کیا کہ زیارت حرمین سے واپس آئے اور کراچی ہی سے بغداد کی جانب روانہ ہوگئے ہیں آپ کی خدمت میں سلام بھیجا ہے۔
’’خدا کرے اس مقدس ارض کی زیارت مجھے بھی نصیب ہو دیکھو بھئی حاجی صاحب سے کہنا کہ اس سفر سے فائدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان اس سے بہت عرصہ بیشتر ایک حج ادا کر چکے تھے ڈاکٹر صاحب انہیں حاجی صاحب کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ہم سب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھائیں ان سے کہنا کہ فارسی نظم یا نثر میں اپنا سفر نامہ مرتب کریں یہ چیز یقینا بڑی اچھی ہو گی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی عظیم شخصیت کا خوف میرے دل سے اب اٹھ چکا تھا اور اس کی جگہ اب کمال محبت بلکہ پرستتش نے لے لی تھی مگر انہیں براہ راست مخاطب کرنے میں ابھی ذرا جھنک محسوس کرتا ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس شرف اور سعادت سے محروم رہنا بھی سخت ناپسند ہے۔ چنانچہ میں نے جسارت سے کام لیا اور عرض کی کہ حاجی صاحب ہر خط میں آپ کی خیریت پوچھتے ہیں ارو آپ کو اشعار تو ضرور لکھتے ہیں اور آپ کا یہ شعر تو بڑے مسرور ہو کر لکھا ہے:
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
ڈاکٹر صاحب بھی اس سے بہت مسرور ہوئے اور ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ میں نے عرض کیا کہ اس شعر کے پیش نظر انہوںنے اپنی عقیدت اور نیاز کا اظہار کرنے کے لیے جو ان کو آپ کی ذات سے ہے جائے نماز تسبیح اور کھجوریں بطور تحفہ بھیجی ہیں زمزم کا نام بھی نہیں لیا۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا خوب! مجھے ان دنوں ایک تسبیح اور جائے نماز کی ضرورت ھتی جائے نماز تو ان شا ء اللہ بڑی احتیاط اور حفاظت سے رکھی جائے گی۔ دیار حبیب کا تحفہ ہے اور تم جانتے ہو کہ اس پر کھڑے ہونا اس کو خراب کرنے کے مترادف ہے (اپنی اس بات پہ وہ خود ہی ہنس پڑے) پھر علی بخش کو بلا کر اسے ہدایت فرمائی کہ ان چیزوں کو ان کے ملاحظہ کے لیے  پیش کیاجائے۔
ذرا وقفہ کے بعد پھر فرمایا : ’’یہ کھجوریں مجھے حقیقت میں بڑی پسند ہیںَ مرتبہ سالک صاحب کو منگانے کے لیے کہا ہے مگر وہ عموماً بھو ل جاتے ہیںَ اچھا اب تم حاجی صاحب کو کب خط لکھو گے؟‘‘‘
عرض کیا کہ اس جمعرات کو۔
’’تو میری طرف سے شکریہ ادا کر دینا۔ پھر جب وہ واپس آئیں گے تو میں زبانی بھی شکریہ ادا کر دوں گا۔ ان سے کہنا کہ ان کی جائے نماز بہت دلپسند اور مرغوب تحفہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دینا کہ (ڈاکٹر صاحب ذرا سا ہنسے اور کہا):
’’من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا‘‘
تھوڑے سے سکوت کے بعد پھر کہنے لگے۔ ’’چند دنوں تک شاید میں بھی بغداد جائوں‘‘َ 18جولائی کے بعد یقین سے کہہ سکوں گا۔ پہلے فلسطین جائوں گا جہاں دیوار گریہ کی تقسیم اوقات کی بابت شہادت دینا ہے۔ وہاں سے پھر تمام قابل دید مقامات اور زیارت گاہوں سے پھرتا پھراتا واپس آئوں گا۔ اس کے بعد غالباً افغانستان کا سفرا ختیار کروں گا جہاں امیر نادر خاں نے آنے کی دعوت دی ہے‘‘۔
سفر کی باتیں جو شروع ہوئیں تو انہیں اپنے سفر مدراس کے تجربات اور مشاہدات یاد آ گئے جہاں وہ لیکچر دینے کے لیے گئے تھے یا شاید ایک مسلمان جرنیل کی یاد نے ایک اور جلیل القدر مسلمان جرنیل کی یاد تازہ کر دی فرمانے لگے :
’’میسور میں جہاں کہیں بھی گیا تو دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی نام ہے اور وہ سلطان شہید کا تھا۔ ہر مقام پہ جہاں
۱۔  Time Division of the Wailing Wall
دو تین آدمیوں کی محفل گرم ہوئی ایک ہی قصہ تھا‘ ایک ہی رنگین داستان تھی جسے ہر کوئی بیان کرتا اور سارے ادب سے سر جھکائے سنتے اور سلطان شہید کی معرکہ آراء زندگی تھی۔ بازاوں میں دوکانداروں کا موضوع سخن بھی یہی تھا۔ دو تین مجلسوںمیںجہاں مجھے جانے کا اتفاق ہوا یہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے عمداً کئی مرتبہ گفتگو کا رخ دوسری باتوں کی طرف پھیرا لیکن ہر بار پھر سلطان ٹیپو کا تذکرہ آ جاتا اور پھر اخیر تک گریز نہ ہوتا‘ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ سلطان مرا نہیں زندہ ہے اور عنقریب ان کے درمیان آ ئے گا‘‘۔
مسلمانوں کے اس عقید ے کے باعث گفتگو کا رخ مرزا غلام احمد قادیانی اور بہاء اللہ کی تعلیمات کی طرف پلٹا  اور فرمایا: ’’پچھلے دنوں ایک امریکن خاتون جس نے بہائی مذہب اختیار کر رکھا تھا میرے پاس آئی اور بہاء اللہ کی بات باتیں کرتی رہی۔ میں نے قرآن پاک کی چند آیات پڑھ کر سنائیں ارو جب اسے ان کے مطالب اور معانی سے آگاہ کیا تو اچھل پڑی کہ ہیں یہ تعلیمات تو ہمارے بہا آقا کی ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ نہیں یہ تو خدا کے احکام ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے۔ بہاء اللہ نے صرف ان میں تھوڑا سا تغیر کر کے اپنا لی ہیں۔ اس کا ددعویٰ در حقیقت سراسر باطل ہے۔ تم دونوں کی تعلیمات میں بے حد مشابہت اور مماثلت پائو گی۔ یا اگر سچ پوچھو تو بہا ء اللہ کی تعلیمات علوم قرآنیہ کی فرع ہے۔ اس سے اس کی تشفی ہو گئی مگر جاتے ہوئے باہء اللہ ک تعلیمات کا ایک مختصر سار سالہ چھوڑ گئی‘‘۔
پھر مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور آئندہ پہنچائے گی اگر اس کا استیصال نہ کیا گیا۔ اس ضمن میں کہنے لگے ’’سیالکوٹ کی ایک مسجد میں مرزا صاحب دعوی مسیحیت کے ابتدائی ایام میں صبح صبح اپنے عقیدت مندوں کے حلقہ میں تازہ الہامات سنایا کرتے تھے۔ ایک روزمجھے جو دل لگی سوجھی تو میں بھی وہاں جا پہنچا۔ اور کہا کہ مجھے بھی کچھ الہامات ہوئے ہیں۔ سنیے میں نے عربی کے چند جملے جن میں احمدیوں اور ان کے مذہب کی بابت مزاحیہ رنگ میں نوک جھونک تھی سنائے جس سے وہ طائفہ سخت برہم ہوا اور مجھے بھاگنا پڑا‘‘۔
ا س کے بعد او ر بہت سے موضوعات پر باتیں کرتے رہے جن کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ آپ مسلمانوں کے تنزل اور زبوں حالی سے بہت متاثرتھے۔
کہنے لگے ’’مغل بادشاہوں میں بہت سی کمزوریاں تھیں اور ان کی سلطنت کے انحطاط کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بحری طاقت کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۸۔ ہسپانیہ اور دیگر ممالک میں ان کے سیاسی زوال اور ادبار کی وجہ بھی بحری طاقت کا نہ ہونا تھا‘‘۔
اب دس بجنے والے تھے اٹھنے کو جینہ چاہتا تھا اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب نے کوفت یا اکتا جانے کا کوئی اظہار کیا لیکن ان کے آرام ہی کے پیش نظر ہم نے مناسب سمجھا کہ رخصت کی اجازت لیں ڈاکٹر صاحب نے ’’اچھا‘‘ فرمایا اور ہم چلے آئے۔
حضرت علامہ اپنے ہندو دوستوں ۹ کے بہت مداح تھے‘ مگر وہ بحیثیت قوم ان کی سو د خوارانہ ذہنیت اور مسلم آزار سرشت کی شکایت بھی کیا کرتے اور اس چیز کو قطعا ناپسند فرماتے تھے کہ مسلمان سیاسی معاشرتی یا اقتصادی پہلو میں ان کے غلام بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک روز جبکہ میں صوفی غلام مصطفے تبسم اور بدر الدین بدر اورپنجابی کے ایک مشہور شاعر بابو کرم سراج الدین نظامی صاحب اور دو ایک اور دوست ان کے پاس بیٹھے تھے تو کانگرس اور مسلم لیگ کا تذکرہ چھڑا۔ نئے انڈیا ایکٹ کے نفاذ کی آمد آمد تھی اور کوششیں ہو رہی تھیں کہ مسلمانوں کو کانگرس میں شامل کیا جائے۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اچھے خاصے مخلص کارکن ہیں۔ اور دل سے خواہاں ہیں کہ مسلمان بھی کانگرس کے دوش بدوش جہاد حریت میں شریک ہوں آپ فرمائیے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہاں جواہر لال نہرو مخلص ہیں مگر کانگرس ساری مخلص نہیں وہ خالص ہندوئوں کی جماعت ہے ۔ اس لیے ہر حال میں انہی کے حقوق اور مفاد کو مدنظر رکھتی ہے اگر مسلمان اکے دکے ہو کے کانگرس میں شامل ہوں تو ملت اور اس کے مفاد سے غداری کریں گے۔ اپنی وحت ملی کو پارہ پارہ کریں گے یہ بات نہ ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کو اپنی سیاسی شخصیت کو کسی صورت بھی کھونا نہ چاہیے اورانہیںیہ کوشش کرنا چاہیے کہ جب تک کانگرس بحیثیت ایک قوم کے ان کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے۔ اس میں ہرگز شامل نہ ہوں اور علیحدہ رہ کر اپنے حقوق آزادی کے لیے لڑیں۔ میراایمان ہے کہ مسلمان دل میں آزادی کی تڑپ ہندو سے زیادہ ہے‘‘۔
اسی ملاقات میں صوفی صاحب نے بابو کرم کا تعارف کرایا۔ بابو کرم نے اپنی چند پنجابی نظمیں سنائیں جو ڈاکٹر صاحب نے پسند فرمائیںَ کہنے لگے بابوصاحب آپ کی پنجابی زبان بڑی ستھری اور ٹھیٹ ہے۔ آپ اگر مولانا روم (رحمتہ اللہ علیہ) کی مثنوی کی کچھ حکایات خالص پنجابی میں منتقلکرنے کی کوشش کریں تو ضرو رکامیاب ہو سکتے ہیںَ صوفی صاھب آپ کو موزوں حکایات بتا سکتے ہیںَ یہ فارسی اور پنجابی دونوں زبانوں کی خدمت ہو گی‘‘۔ انہوںنے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ ڈاکٹر  صاحب کہنے لگے کہ پنجابی نظم ۱۰ میں تصوف کے بڑے بڑے ذخیرے پنہاں ہیں خصوصاً فرید (رحمتہ اللہ علیہ) کے دوہے  ٭۔ فارسی کے بعد شاید یہ دوسری زبا ہے جو تصوف سے مملو ہے۔
اس روز سراج الدین نظامی کو ہم اس لیے اپنے ہمراہ لے گئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو ان کا کلام سنائیں چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی گئی تو وہ خوب فرما کر تکیے پر آدھا لیٹ کر بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ نظامی صاحب نے دبی زبان میں پہلے لے کو دہرایا اور پھر ’’بال جبریل‘‘ سے وہ غزل گائی جس کا مطلع ہے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
سراج الدین نظامی کی آواز بڑی میٹھی اور رسیلی ہے‘ کسی ساز کی ہم آہنگی کے بغیر بھی سننے والے پر اک کیفیت طاری ہو جاتی ہے ار پھر جب اقبال کے کلام کو موسیقی کے پردوں میں نظر بند کیا جائے تو یہ کیفیت اور بھی موثر اور دیرپا ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ڈاکٹر صاحب نے فرید کا یہ مشہور بیت سنایا:
اٹھ وے فریدا جاگ سویرے تے جھاڑو دے مسیت
تو ستا تے رب جاگدا تیری ڈاہڈے نال پریت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب بہت محظوظ ہوئے اس لیے کہ تھوڑی دیر کے بعدفرمانے لگے بھئی کوئی فارسی کی غزل یاد ہے تو سنائو! جس پرنظامی صاحب نے زبور عجم میں سے وہ غزل سنائی جس کا مطلع یہ ہے:
آشنا ہر خار را از قصہ ما ساختی
در بیابان جنون بردی و رسوا ساختی
ڈاکٹر صاحب اور بھی سننے کے تمنائی تھے کہ لیکن نظامی صاحب کو صرف یہی غزل ازبر تھی‘ لہٰذا وعدہ کیا کہ کچھ دنوں تک فارسی کی چند غزلیں یاد کر کے حاضر خدمت ہوں گا۔ یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ اگرچہ متعدد موقعوںپر جب ہم گئے تو ڈاکٹر صاحب نے نظامی صاحب کو یاد فرمایا۔
جنوری 1935ء مٰں میں صوفی صاحب اورمیرے دوست سید الطاب حسین ان کی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ ایک پست قامت سپید رنگ ‘ کہنہ سال اجنبی حاضر ہوا۔ ا س کے پائوں میں بھاری بھرکم فل بوٹ تھے۔ بدن پر سیاہ لبادہ تھا۔ اور سر پر سیا ہ رنگ کی قراقولی اور ہاتھ میں ’’جاوید نامہ‘‘ کا ایک نسخہ تھا۔ سلام علیکم کہا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا لہجہ غیر مانوس لیکن فاضلانہ تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ ایرانی النسل ہے ور جب اس نے فارسی میں گفتگو آغاز کی تو اندازہ پختہ ہو گیا ۔ اس کی فارسی بالکل جدید تھی کچھ لہجہ بھی ویسا تھا۔ میں پوری طرح نہ سمجھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمار ا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ نو وارد کا نام موسیٰ جار اللہ ہے اور وہ روسی عالم اور جید ہیں۔ ادھر ادھر کی بہت سی باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس بزرگ نے ’’جاوید نامہ‘‘ نکالا تعریفیں ہونے لگیں اور کہنے لگا کہ دو باتیں آپ سے سمجھنے آیا ہوں۔ اس کے بعد دین اور سیاست اور نظریہ لادینی کی بابت استفسار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس مسئلے پر بہت روشنی ڈالی مغربی سیاست اور وطنیت کے زہر آلود نظریے کو وضاحت سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہے۔ اس میں رنگ نسل اور قومیت کی تمیز نہیں۔ اسلام میں دین اور سیاست کو علیحدہ نہیںکیا جا سکتا۔
دوسری چیز جس کی بابت روسی عالم نے وضاحت چاہی وہ یہ شعر تھا:
ایں ز حج بیگانہ کرد آں از جہاد ۱۲
جس پر ڈاکٹر صاحب نے بہاء اللہ ایرانی اور مرزا غلام احمد قادیا نی کے مخترع مذاہب‘ ان کے اسباب و علل اثرات و نتائج بد پوری تفصیل سے بیان فرمائے۔
اسی سال انہوںنے قادیانی مذہب کے خلاف اپنا پہلا بیان دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ پیر کا دن تھا اور مئی کی چھ تاریخ چار کو میرا امتحان ختم ہوا جس سے فراغت حاصل کر کے اک گونیہ آزادی اور سرور کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے کھانا کھایا اور ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی کی راہ لی۔ شاید باہ بجنے والے تھے اور وہاں پہنچا۔ دل میں پہلے خیال آیا کہ بڑا ناموزوں سا وقت ہے شاید ڈاکٹر صاحب آرام فرما رہے ہوں یا فرمانے والے ہوں اور میں خواہ مخواہ مخل ہوں مگر اس بارگاہ میں ناامیدی اور مایوسی مفقود ہے میں نے ذر ا ٹھٹک کر سامنے والے کمرے کی چق اٹھا کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کائچ پر بیٹھے کسی امتحانکے پرچ ملاحظہ کر رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور اجازت چاہی انہوں نے عینک  میں سے دیکھا اورکہا آئو بھئی طارق۔ مجھے اس سے بے اندازہ خوشی ہوئی۔ میں جا کر دیوار سے لگی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی کی اور کہنے لگے طبیعت اچھی ہے البتہ آواز ویسی ہی ہے بھوپال پھر علاج کے لیے جائوں گا۔ اس اثنا می وہ پرچہ دیکھتے رہے بڑے غور سے ایک ایک لفظ پڑھتے جوابات پرکھتے پھر کہیں جا کر نمبر لگاتے۔ آخر ایک پرچوں کے ڈھیر پر رکھ دیا۔ حقہ پینے لگے اور پوچھا۔ حاجی صاحب کا کیا حال ہے  اب عرصے سے ادھر نہیںآئے۔ ذرا دیر اور بیٹح کر اٹھے اور کہنے لگے۔ چلو دوسرے کمرے میں چلیں۔ ہم اٹھ کر ساتھ والے چھوٹے کمرے میں آ بیٹھے اور جسے ڈاکٹر صاحب بطور خواب گاہ استعمال کرتے تھے وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے ۔ وہاں ایک پلنگ ایک کرسی اور چند سوٹ کیس دھرے تھے چند کتابیں بکھری پڑی تھیں علی بخش ڈاکٹر صاحب کے لیے کھانا لے آیا۔ شاید شوربا پکا تھا۔ ان کے کھاتے کھاتے چودھری محمد حسین صاحب بھی تشریف لے آئے۔ ان دنوں مسلمانوں کی طرف سے شور بلند ہو رہا تھا کہ مرزائیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت شمار کیا جائے۔ قادیانی عقائد کے خلاف مسلمانوں میں کافی جوش و خروش تھا اور طبقہ علماء نے اس فرقہ پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اس نوع کے  ریزولیوشن بھی پیش کیے گئے جن سے ہلچل مچ گئی۔ گورنر پنجاب نے ایڈریس کے جواب میں مسلمان قو م کی بے ربطی‘ باہم نفاق و افتراق اور بے لیڈری پر اظہار تاسف بھی کیا۔ میں نے مرزائی ریشہ دوانیو ں اور طرز تبلیغ کی چند مثٓلیں اپنے اسلامیہ کالج کے زمانے کی سنائیں۔ ڈاکٹر صاحب اس بارے میں ایک بیان کی فکر کر چکے تھے۔ اب جو یہ موضوع چھیڑا تو ان میں جوش و خروش پیدا ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ مزید باختر کے بغیر اسے شائع کرا دیا جائے۔ انہوںنے علی بخش کو آوا ز دی اور کاغذ قلم دوات لانے کو کہا۔ مجھ سے فرمایا کہ میں بیان لکھتا جائوں۔ چنانچہ میں نیچے دری پر بیٹھ گیا۔ ایک سوٹ کیس سے میز کا کام لیا۔ میں بیان لکھتا جاتا اور ڈاکٹر صاحب بڑے غور سے سنتے اور درمیان میںمتعدد مقامات پر تصحیح فرماتے جاتے تھے۔ کئی ایک جملے کٹوا کر دوبارہ لکھوائے وہ یقینا ماسبق سے زیادہ واضح اور برجستہ ہوتے۔ خصوصا اکبر مرحوم کے اس شعر کا پہلا ترجمہ :
گورنمنٹ کی خیر یارو منائو
انا الحق کہو اور پھانسی نہ پائو
موجودہ ترجمے سے بالکل مختلف ہے۔ لفظی اور کم وقیع تھا۔ کراس اور چین کے الفاظ اور آخری جملہ بعد کی سوجھ کا نتیجہ تھے پہلی سعی جس قدر منثو ر تھی دوسری اتنی ہی مترنم اور دلکش تھی۔ یہ ان کا شاعرانہ کمال تھا۔ کہ ترجمہ پر اصل کا گما ن ہوتا ہے۔
اس ترجمہ کی بات سے یاد آیا کہ استاد محترم ڈاکٹرتاثیر ایک روز کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کی تحریر میں بڑی شیرینی اور روانی ہے۔ لیکن جب کبھی انہیں اپنے اشعار کا مطلب ا س زبان میں بیان کرنا ہوتا تو عموماً مجھے ترجمہ کرنے کو کہتے جس پر میں نے کہا کہ آپ تو خود بہت اچھا ترجمہ کر سکتے ہیں جو مجھ سے ممکن نہیں تو فرمانے لگے کہ جب میں اپنے اشعار کاترجمہ انگریزی میں کرنے لگتا ہوں تو وہ ترجمہ کے بجائے خود ایک دوسری نظم بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭  موجودہ ترجمہ یہ ہے:
O friend pray for the Glory of the Briton's name No more the claim of Persia's Mystic Saint Say I am God sans Chains sans Cross sans Shame.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات دور نکل گئی ڈاکٹر صاحب اس قسم کے بیانات لکھواتے وقت آہستہ آہستہ اور سوچ سمجھ کر لکھوایا کرتے تھے۔ نہ صرف معانی و مطالب بلکہ الفاظ کی برجستگی ‘موزونی اور نشست کا خیال بھی رکھتے‘ لیکن اس کوشش میں تکلف اور آورد کا شائبہ تک نہ تھا ان کی نگاہیں اپنے سامنے دور کسی غیر مرئی شے پر جم جاتیں جس کی حقیقت اور وجود سے گویا ہم لوگوں کو آشنا کرتے جاتے۔ بیان لکھ چکنے کے بعد ان کو پڑھ کر سنایا کرتے۔ انہوں نے دوایک اور تبدیلیاں کیں۔ اب اس کی نشر و اشاعت کا سوا ل درپیش ہوا۔ چودھری صاحب نے شاید انگریزی اخبارات میں چھپوانے کاذمہ لیا مجھ سے فرمایا کہ اردو اخبارات مٰں سب سے پہلے زمیندار کے دفتر جائوں اور مولانا ظفر علی خاں سے کہوں کہ وہ خود اسکا ترجمہ کریں ڈاکٹر صاحب کا یقین تھا کہ اس کا بہترین ترجمہ وہی کر سکتے ہیں۔ میں وہیں سے بائسکل لے کر زمیندار کے دفتر دوڑا۔ لیکن مولانا سے ملاقات نہ ہو سی۔ وہ لاہور سے باہر تھے۔ واپس آ کر صورت احوال بیان کی ا سکے بعد یاد نہیں کیا فیصلہ ہوا۔ بہرکیف وہ اخبارات میں چھپا اور اک شور برپا ہوا۔ لوگوںنے حسب عادت اسے صحیح بھی سمجھا اور غلط بھی۔ دوست بھی برہم ہوئے اور دشمن بھی‘ ڈاکٹر صاحب کی سیاست دانی کی صحت پہ بحث و تمحیص کے دفتر کھلے۔
تکلیف اور بیماری کے وقت بھی ڈاکٹر صاحب کی شگفتہ مزاجی اور خوش دلی نہ جاتی‘ نہ صرف اشعار میں بلکہ زندگی میں بھی ان سے بڑھ کر خوش امید اور رجا پسند شاید ہی کوئی ہو۔ ان کی مزاج پرسی کرنے والے کو ان کی تکلیف کی شدت کا ہرگز احساس نہ ہونے پاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب ہم عیادت کو گئے تو گلے کی شکایت کے باوجود کوئی دوگھنٹہ لطیفہ بازی کرتے رہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی دکھ اور غم کے عالم میں بھی دیکھا مگر ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ غم و اندوہ کے احساس نے انہیںمغلوب کر لیا ہو‘ ان کے لب پر حرف شکایت کبھی بھی نہ سنا‘ نہ کبھی وہ تقدیر اور قدرت کی سخت گیری سے نالاں ہوئے چہرے پر کبھی ایسی شکن نظر نہ آئی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ الم و یاس یا ناامیدی ایام نے ان کی روح کو صدمہ پہنچایا ہے۔
اگست 1930ء میں ان کے والد محترم نے وفات پائی  ۱۳۔ ہم فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوئے تو اپنے کتب خانے کے باہر تشریف رکھتے تھے۔ والد محترم کی دو چار باتیں کیں کچھ واقعات سنائے اور پھر گفتو کا رخ پھیر دیا۔ اپنی کوٹھی بنانے کے  ارادے سے اور اس کی تکمیل کے امکانات کی بابت باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ ہمارے دلوں سے ان کے صدمے کا خیال جاتا رہا۔
اس کے پانچ سال بعد ان کے انتہائی ضبط کی بہترین مثال دیکھنے میں آئی۔ 23مئی1935ء کو اپنی خواہش سے مجبور ہو کر میں اور صوفی صاحب شام کو کوئی چھ بجے جاوید منزل پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب کو نئی کوٹھی میں سکونت پذیر ہوئے بمشکل آٹھ دن ہوئے ہوں گے۔ ہم مبارک باد عرض کرنے گئے  تھے علی بخش نے ہمیں پرچ میں سے دیکھا اور آگے بڑھ کر پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے آ گئے ہیں؟ کیا آپ کو اطلاع مل گئی ہے؟ ہم سراپا حیرت و استفسار پا کر علی بخش سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ جاوید کی والدہ ابھی ابھی رحلت کر گئی ہیںَ ہمارے دل پر جو گزری وہ محتاج بیان نہیں۔ ہم دونو ں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ‘ درمیانی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب دائیں جانب طعام گاہ کے دروازے کے قریب فرش پر سر جھکائے بیٹحے تھے ۔ ہمارے سلام کی آواز سن کر انہوںنے سراٹھایا اور ہمیں پہچان کر کہا اچھا ہوا آپ آ گئے میں بالکل اکیلا تھا۔ ان کی آواز دھیمی مگر پر سکون تھی۔ چہرہ اداس اور مغموم تھا۔ لیکن اس کے باوجود صبر و شکیب کا حامل تھا۔ اس پر اشک آفرینی اور آہ و بکا کا کوئی اثر پیدا نہ تھا جو کہ انسانی کمزوری کا خاصہ ہے اور اس لیے کہ عام انسان موت کی ماہیت سے بے خبر اور ا س کی حقیقت سوے ناآشنا ہوتا ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا اور کیسے گفتگو کریں اور ڈاکٹر صاحب کامل سکوت میں بیٹھے نہ جانے کیا سوچ رہے تھے کہ آخر صوفی صاحب نے زبان کھوی اور افسوس کے چند کلمات کہے میںنے بھی وہی دہرا دیے۔ اور پوچھا کہ بیگم صاحبہ کو کیا تکلیف تھی؟ اب اچھی طرح یادنہیں ہے کہ گمان ہ کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ فرمایا کہ وہ عرصے ی سے صاحب فراش تھیں۔ دل کے پاس پھوڑ ا ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اپریشن کامشورہ دیا مگر وہ نہ مانیں اور آخر کار ختم ہو گئیں۔ ان کی زبان میں رقت آ گئی‘ ذرا دیر خاموشی کے بعد کہنے لگے‘ بڑی نیک بخت عورت تھی‘ بیماری کی حالت میں بھی لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھانے سے احتراز نہ کرتی ۔ حقی المقدور گھر کا سارا کام کاج خود ہی کرتی۔ اس قدر سمجھ دار اور باسلیقہ تھی کہ جی خو ش ہوتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں آئے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ ایک وہ بیمار دوسرے نئی کوٹھی میں آنے کی افراتفری روز مرہ کی استعمال کی اشیاء بھی کہیں سے کہیں رکھی  جا سکتی ہیں لیکن مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ اپنی موت کو سر پر دیکھ کر اس نے چارپائی پر ہی فہرست مرتب کی اور اس میں لکھا کہ فلا ںچیز فلاں جگہ پڑی ہے۔ اور فلاں چیز فلاں جگہ۔ تاکہ ہم لوگوں کو تلاش و جستجو میں تکلیف کا سامنا نہ ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئے اور ذر ا دیر کے بعد کہا: ’’مجھے زیادہ فکر اب جاوید اور منیرہ کی ہے۔ ان کی دیکھ بھال مشکل ہو جائے گی‘‘۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مرزا جلال الدین صاحب تشریف لے آئے اور تجہیز و تکفین کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا‘ انہوںنے ہدایا ت دیں ور وہ رخصت ہو گئے۔ ا س کے بعد خواجہ عبدالوحید آئے اور افسوس کرنے لگے کہ باوجوداتنی قربت کے انہیں تاخیر سے اطلاع ملی۔ اب احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے کمرہ بھر گیا اور مشک کافور کی بو سے دماغ میں موت کا بھیانک خیال سما گیا۔ گرمیوں کی راتیں تھیں حدت کافی تھی۔ مجھے شہر واپس آنا پڑا یہ یاد نہیں کہ کس کام چند دوستوں کو بھی اطلاع کر دی اور پھر جاوید منزل کا رخ کیا۔ جنازہ نماز عشا کے کافی دیر بعد اٹھایا گیا اور بی بی پاکدامناں کے قبرستان میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو زیادہ چلنے پھرنے کی عادت پہلے ہی نہ تھی۔ اب تو کمزوری اور نقاہت کے باعث قدم اٹھانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے پائوں میں پمپ شو تھا۔ شلوار اور بند گلے کا کوٹ پہنے ہوئے تھے اور سر پر سیاہ رنگ کی مخملی ٹوپی تھی۔ جنازے میں کافی پیچھے سر کو نیچے ڈالی خاموشی سے چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے جا رہے تھے۔ جب قبرستان میں پہنچے تو لحد ابھی تیار نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ذرا ہٹ کر اس کی جانب منہ کر کے ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ لوگ گورکنوں کو مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ کوئی اس کی لمبائی اور چوڑائی پوچھ رہا تھا تو دوسرا پتھر کی سلوں کی بابت پوچھ رہا تھا۔ کوئی سقے کو آوازیں دے رہا تھا تو کوئی قرات خواں مولوی کو بلا رہا تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس تمام عرصے میں زبان سے شایدایک لفظ نہ نکالا۔ وہ کامل سکون میں قبر پر نظر جمائے بیٹھے تھے۔ گیارہ بج چکے ہوں گے جب ہم سب وہاں سے لوٹے۔
مادر جاوید کی وفات ڈاکٹر صاحب کے دل پر ایک زخم چھوڑ گئی جو ان کی اپنی موت سے مندمل ہوا۔ لیکن اس اثناء میں بھی ان کی خوش طبعی اور مزاح پرستی میں فرق نہ آیا۔ اس حادثے کے کچھ  دن بعد ہم تین چار دوست شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پلنگ کے اردگرد بیٹھے تھے۔ پلنگ پورچ کی شمالی جانب بچھا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب تکیے پہ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ صنف نازک کی باتیں چھوڑ یں تو مسکرا کر بولے ’’عورتیں جب میرا کلام پڑھتی ہیں تو خیال کرتی ہیں کہ میں بڑا جوان ہوں۔ جاوید کی والدہ کی وفات کے بعد سے مجھے شادی کے کئی پیغامات آ چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بڑی ذہین اور پڑھی لکھی لڑکی کا خط آیا‘ لکھا تھا کہ میں ہر وقت آپ کا کلام پڑھتی رہتی ہوں‘ آپ مجھ سے شادی کر لیں! میں نے جواب دیا کہ میرا کلام پڑھتی رہو تو اچھا ہو گا‘‘۔ یہ سنا کر آپ بھی ہنسے اور ہمیں بھی خوب ہنسایا۔
بھوپال سے وظیفہ کا اعلان ہوا تو 2جون کو میں ان کی خدمت میں ہدیہ تہنیت پیش کرنے گیا۔ وہ وسطی کمرے میں پلنگ پر لیٹے تھے۔ بے حد کمزور اور لاغر ہو گئے تھے نظام کی خاموشی پر جب میں نے اظہار تاسف کیا تو کہنے لگے’’بھئی وہاں معاملہ اٹھا تھا اور منظوری ملنے والی تھی کہ یہاں کے دو آدمیوں 14؎ نے اس کی سخت مخالفت کی‘‘۔ میں حیرت زدہ ہو گیا کہ وہ کون بدبخت انسان ہو سکتے ہیں اور جب انہوںنے نام بتائے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ وہ دونوں مسلمانان ہند کی جلیل القدر ہستیاں مانی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب وفات پا چکے ہیں‘ دوسرے سرکاری فرائض کی ادائیگی میں ہوائی جہازوں پر دنیا کے چکر کاٹتے پھرتے ہیں۔
پھر میں نے Introduction to the Study of Quran جو وہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے‘ کے متعلق تذکرہ چھیڑا تو فرمانے لگے ’’ہاں ذر ا صحت اچھی ہو تو لکھنا شروع کروں گا چاہتا ہوں کہ کوئی پڑحا لکھا‘ وسیع النظر اور صحٰح المشرب فاضل دیوبند میسر آ جائے۔ مجھے حوالجات تلاش کر کے دیتا رہے اور لکھتا جائے۔ انگریزی سے واقف ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے۔ میں تنخواہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ ایک بار کتاب شروع کی تو انشاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کی تمام Theories(نظریات) کو توڑ پھوڑ کے رکھ دوں گا۔ ارادہ ہے کہ قانون کی تمام کتب بیچ کر فقہ‘ حدیث اور تفاسیر خرید لوں۔ یہ اب میرے کسی کام کی ہیں‘‘۔ اس کے بعد میں جب کبھی جاتا تو اس کتاب کی بابت ضرور استفسار کرتا اور ہمیشہ خدا سے صحٹ کی دعا کرتے۔
9ستمبر 1935ء کو وہ بھوپال سے لوٹے (جہاں وہ علاج کی غرض سے جاتے تھے) تو صحت قدرے اچھی تھی۔ کھانسی کو افاقہ تھا‘ البتہ یہاں آ کر انہیں نزلہ اور زکام کی شکایت ہو گئی۔ شہید گنج کے حادثے کو دو ماہ کے قریب ہوئے تھے۔ انہیں اس کا بڑا رنج ہوا تھا۔ بہر کیف ان کی رائے تھی کہ مسلمانوں کو قانون شکنی نہ کرنا چاہیے۔ کہنے لگے ’’حکومت نے گولی چلا کر سخت ٹھوکر کھائی ہے! دراصل بات یوں ہے کہ خود حکومت کے قبضے میں بے شمار مسجدیں ہیں اور ان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کی غرض سے مسجدشہید گنج پر سکھوں کے تصرف کو جائز قرار دیا ہے‘‘۔
1935ء کا سال میرے لیے بڑا باسعادت سال ثابت ہوا۔ اس میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے متعدد مواقع میسر آئے‘ خصوصاً 25جون کے بعد اس روز علی بخش آیا اور کہنے لگا کہ جاوید کو پڑھا دیجیے۔ بھلا مجھے کیا عذر ہو سکتا تھا؟ دوسرے دن میں چھ بجے جاوید منزل پہنچ گیا۔ علی بخش نے دو کرسیاں اور ایک میز بچھا رکھی تھی۔ جاوید آ گیا اور ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ وہ انگریزی کی کتاب پڑھ رہا تھا‘ تلفظ اچھا تھا اور یوں بھی رواں لیکن جب میں نے مطلب بیان کرنے کو کہا تو نہ کر سکا۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ اس نے اپنے والد بزرگور کی فطانت سے زیادہ حصہ نہ پایا۔ البتہ اس میں ایک بات ضرور تھی۔ وہ عام معلومات ضرور حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اور بات بات پر سوال کرتا تھا۔تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر صٓحب بھی باہر تشریف لے آئے۔ وہ بنیان اور دھوتی میں ملبوس تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہماری جانب بڑھے ۔ اور کہنے لگے:’’بھئی طارق تمہیں تکلیف دی ہے ‘ میں نے علی بخش کو بھی منع کر دیا تھا اور لیکن وہ کہنے لگا کہ کیا حرج ہے!‘‘ میں نے اس ی تائید کی اور کہا کہ میں تو بلکہ ا پر نازاں ہوں۔ کہ آپ کی خدمت کا موقع ملا۔ اس کے بعد جاوید کی بابت باتیں ہوتی رہیں ۔ انہیں بھی گلہ تھا کہ جاوید دل لگا کر محنت نہیں کرتا اور دوسری باتوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ پھر ہمیں چھوڑ کر وہ ٹہلنے لگ پڑے جتنے روز میں گیا یونہی ہوتا رہا۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر میں ان کے پاس جا بیٹھتا۔ کچھ دیر فیض یاب ہو کر چلا آتا۔ اس زمانے میں میں نے ایک مقالہ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر لکھا تھا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ صوفی نہ تھے۔ ایک شام میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہی سوال کیا تو فرمانے گے کہ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ حقیقت میں صوفی نہ تھے۔ اس کے ثبوت میں انہوںنے مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب نفحات الانس کا حوالہ دیا اور کہا کہ صوفیوں کی اصطلاحات اور زبان کے استعمال سے کوئی صوفی تھوڑا ہی بن جائے گا۔ جس طرح Cowl پہننے سے کوئی پادری نہیں بن جاتا۔
اس سلسلے میں انہوںنے خواجہ حافظ (رحمتہ اللہ علیہ) کی شاعری‘ ان کی سہل نگاری‘ تن آسانی اور حجرہ نشینی کی تعلیم اور جبر و قدر کے غلط نظریے کے تباہ کن نتائج پر روشنی ڈالی فرمانے لگے’’ صوفی عمل کی تلقین کرتا ہے اور یہ خواجہ حافظ (رحمتہ اللہ علیہ) کے یہاں مفقود ہے اس کا اثر جو کچھ ہندی مسلمانوں پر ہوا وہ ظاہر ہے‘‘َ یہاں سے پلٹے تو فرمانے لگے ’’میں ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل سے ناامید نہیں ہوں مجھے یقین ہے کہ عنقریب ان میں سے کوئی Guiding Spirit 15؎ نمودار ہو گی۔ ‘ ‘ فقر کی بابت پوچھا تو فرمایا ’’فقر سے میری مراد افلاس اور تنگدستی نہیں بلکہ استغناء دولت سے لاپروائی ہے۔ دولت جو ہر مردانگی کی موت ہے ۔ اس سے جرات اور بہادری جاتی رہتی ہے:
میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
اس کی مثال میں انہوںنے اپنے سفر انگلستان کے مشاہدات بیان فرمائے اور کہنے لگے کہ جہاں روپے پیسے کا سوال ہو وہاں انگریز کی ذہنیت ارو ہندو کے بنیا پن میں سر مو فرق نہیں رہتا۔ انگریز پیدائشی طور پر جوئے باز اور قمار باز ہے معمولی سے معمولی خدمت کے صلے میں بھی وہ انعام اور اکرام کا خواہاں رہتا ہے۔
اس سلسلے میں انہوںنے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے ’’میں لندن جا رہا تھا گاڑی میں کئی مسافر تھے اور میرے سامنے تاش کھیلی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دو پارٹنر ہیں جو جیتے ہی جاتے ہیںَ انہوںنے ہر مسافر کو کھیلنے کی دعوت دی اور کوئی بیس پونڈ ہتھیالیے۔ میں انہیں غور سے دیکھنے لگا تو ان کی چالوں(Trick)کو بھانپ گیا۔ میں نے جوا کبھی نہیں کھیلا مگر جب انہوںنے مجھے بھی دعوت دی تو میں تیار ہو گیا۔ چنانچہ میں کھیلا ارلندن پہنچتے پہنچتے ان سے بیس کے بیس پونڈ جیت لیے۔ جب میں گاڑی سے اترا تو وہ دونوں قمار باز میرے دائیں بائیں ہو گئے خوشامد اور چاپلوسی کی باتیںکرنے لگے۔ کہ میں کسی طرح وہ جیتی ہوئی رقم ان کے حوالے کر دوں‘ اپنی غریبی کا دکھڑا روئے اور ہندوستانیوں کی فراخدلی کی تعریفیں کرنے لگیل مگر میں نے جب یہ کہا کہ تم کھیل میں دغا اور فریب کاری سے کام لیتے ہو اور میں پولیس میںتمہاری رپورٹ کر دوں گا تو فوراً نو دو گیارہ ہو گئے۔‘‘
بال جبریل میں جہاں انہوںنے کئی مقامات پر اہل مغرب کی قمار بازی اور زر پرستی کا تذکرہ کیا ہے ۔ وہاں ملا اور پیر کے خلاف بھی جائز درشتی سے کام لیا ہے۔ اکثر احباب کو شک تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا غیض کسی اصلیت پر مبنی نہیں‘ وہ محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اس طبقہ کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ شکوک جب ان پر آشکار کیے گئے تو انہوںنے موجودہ زمانے کے پیروں کی دوں ہمتی‘ فرومائیگی اور کم سوادی کے ذیل میں دو واقعات سنائے کہنے لگے ’’جن دنوں میری رہائش انارکلی میں تھی تو ایک سرحدی پیر چند مریدوں کی معیت میں آئے اور کہا کہ وہاں سرحد میںہمارے مریدوں کا سال کے سال اجتماع ہوا کرتا ہے‘ ایک تو جگہ تنگ ہے اور دوسرے اشیائے خوردنی کم ملتی ہیں‘ آپ گورنر بہادر کی طرف سے ایک درخواست لکھ دیں اور کہ ہمیں اس مقام پر چند مربع اراضی مرحمت فرمائیں کہ کاشت سے آمدنی کی صورت بھی بن جائے۔ پیر صاحب میرے پرانے دوست تھے مجھے یہ سن کر صدمہ ہوا کہ پیر صاحب آپ سید ہیںَ سید کونینؐ کی اولاد میں سے ہیں جس نے غیر کے سامنے کبھی دست سوا ل دراز نہ کیا۔ آپ زمین انگریز سے مانگتے ہیں جس کا اس پر کوئی حق نہیں‘ آپ اس سے کیوں نہیں مانگتے جو ارض و سما کا مالک ہے۔ اس وقت تو پیر صاحب برہم ہو کر چل دیے۔ لیکن یہ الفاظ میری زبان سے کچھ ایسے درد سے نکلے تھے کہ بغیر اثر کیے نہ رہے‘ دوسرے روز پیر صاحب اکیلے آئے آنکھوں میں آنسو تھے‘ کہنے لگے کل مریدوں کی موجودگی میں مجھے آپ کے الفاظ گراں گزرے لیکن جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے سچ فرمایا تھا۔ میں اب ایسی دریوزہ گری نہ کروں گا۔ ان کے چلے جانے کے کوئی ہفتہ عشرہ بعد مجھے ان کا تار موصول ہوا جس میں لھا تھا کہ زمین مل گئی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہوئی کہ پیر صاحب جب دہلی گئے تو ان کے بے شمار فوجی مریدوں نے ان کا تعارف کمانڈ انچیف سے کرایا۔ سپاہیوں کو خوش کرنے کے لیے ان سے پوچھا کہ تمہارے پیر صاحب کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو کہو۔ مریدوں نے زمین کی احتیاج ظاہر کی تو کمانڈر ان چیف نے اسی وقت سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کو خط لکھا اور زمین دلوا دی‘‘۔
دوسرا واقعہ
جب میں یہاں جاوید منزل میں آ گیا تو ایک روز ایک پیر صاحب مجھے ملنے آئے۔ دوپہر کا وقت تھا‘ گرمی پورے زوروں پر تھی‘ دھوپ پر نظر نہ جمتی تھی کہ ایک شخص پسینے میں شرابور ہانپتا ہوا آیا اور پیر صاحب کے قدموں میں گرا۔ یہ ان کا مرید تھا۔ کہنے لگا حضور کی آمد کی اطلاع ملی تھی صبح صبح ہی مغلپورہ سے چل پڑا کئی مقامات پر گیا لیکن آپ وہاں سے تشریف لے گئے تھے آخر معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ مل گئے حضور میری حالت بڑی خراب ہے۔ فاقہ مست ہو گیا ہوں دو سو روپیہ کا قرض دار ہو چکا ہوں‘ ملازمت ملتی نہیں آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری مشکلات کا خاتمہ ہو۔ یہ کہا اور جیب سے دو روپے نکال کر پیر صاحب کی نذر گزاری۔ پیر صاحب نے روپے جیب میں ڈالے اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب آئیے دعا کیجیے۔ میں نے کہا آپ دعا پہلے مانگ لیجیے میں بعد میں مانگوں گا۔ پیر صاحب نے آنکھیں میچ لیں اور زیر لب کچھ کہنے لگے۔ دعا ختم کی ہاتھ منہ اور داڑھی پر پھیرے مرید پر پھونک ماری۔ وہ پھولا نہ سمایا‘ خوش تھا کہا پیر صاحب اب میری باری ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند کہنا شروع کیا ۔ ’’اے خدا ! آج کل کے پیر و مرشد بھٹک گئے ہیں انہیں راہ ہدایت دے پیر صاحت نے صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہوش کی دوا کیجیے۔ میں نے کہا کہ دیکھنے پیر صاحب میں آ پ کی دعا میں مخل نہ ہوا تھا مجھے بھی اطمینان سے دعا مانگ لیجے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا اے خدا آج کل کے مریدوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ اپنے پیروں کے کہنے میں نہ آئیں پیر صاحب نے پھر ٹوکا‘ لیکن میں نہ رکا‘ یہ نادان مرید کہتا ہے کہ میں دو سو روپے کا قرض دار ہو گیا ہوں‘ لیکن نہیں جانتا کہ اب دو سو دو روپے کا قرض دار ہو گیا ہے۔ پیر صاحب اب زیادہ برہم ہو گئے کہنے لگے دیکھیے یہ نامناسب ہے آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ میں ںے کہا اچھا دعا ختم کر دیتا ہوں لیکن ایک شرط پر کہ آپ یہ دو روپے مرید کو واپس کیجیے اور اسے قرضے سے سبکدوش کرنے کا بندوبست کیجیے۔ اور اسے نوکری دلائیے۔ پیر صاحب ناراض تو بہت ہوئے لیکن اسی وقت دو روپے واپس کر دیے ۔ اور باقی شرائط پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ تو پیروں کی کیفیت ہے‘‘۔
’’جی ہاں‘‘ ہم میں سے کسی نے کہا۔
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
اگر ڈاٹر صاحب نے ’’بال جبریل ‘‘ میں یہ شعر کہا:
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب‘ میرا سجود بھی حجاب
تو اس میں کوئی تعجب نہیں وہ نماز کو صحیح معنوں میں مومن کی معراج سمجھتے تھے۔ اس چیز کا وہ اکثر خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ ایک روز نماز کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’بعض مقامات ایسے ہیں جہاں خدا کے آگے سر بہ سجود ہونے میں اک کیف اور سرور حاصل ہوتاہے ۔ لیکن بعض مقامات میں اس کا الٹ ۔ میں صبح کی نماز حتی الامکان قضا نہیں ہونے دیتا۔ اور مجھے اس کی ادائیگی میں خاص لطف اور سکون میسر ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں جب افغانستان گیا تو وہاں نماز فجر ادا کی تو مجھے قطعاً سرور حاصل نہ ہوا اوراک خلا سا محسوس کیامجھے سخت حیرانی ہوئی ۔ جب اپنے محترم رفیق سید سلیمان ندوی  16؎ سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوںنے بھی انہی احساسات کی تائید کی اور کہا کہ نماز میں باوجود کامل خضوع کے پہلا سا سرور نہیں ملا۔
جب ڈاکٹر صاحب دوسری گول میز کانفرنس سے واپس تشریف لائے توکہنے لگے ’’ہندوستان واپس آتے ہوئے میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے تاریخی مقامات کا معائنہ کیا۔ مسجد قرطبہ میں جس کی فضا صدیوں سے بے اذاں پڑی تھی حکام کی اجازت لے کر نماز ادا کی‘ سجدے میں گر کر خدا کے حضور گڑگڑایا کہ اللہ اللہ! یہ وہی سر زمین ہے جہاں مسلمانوں نے سینکڑوں برس حکومت کی‘ یونیورسٹیاں قائم کیں اور یورپ کو علم اور فضل سکھایا۔ جن کے دبدبے سے شیروں کے دل ہلتے تھے اور جن کے احسان کے نیچے آج تمام فرنگستان دبا ہوا ہے۔ آج بھی اسی قوم کا ایک فرد انہی کی تعمیر کردہ مسجد میں اغیار کی اجازت لے کر نماز پڑھ رہا ہوں۔ میری آنکھوں سے خون جگر آنسو بن کر ٹپک رہا تھا۔ اور میرے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ اے خدا یہ تیرے پاک بندوں کی سرزمین ہے۔ یہ پرشکوہ مسجد یہ قصر حمراء اور یہ عالیشان قلعے ان کی عظمت کے گواہ ہیں اے خدا تو ان کو محفوظ رکھ۔ ‘‘
اس دعا کو ڈاکٹر صاحب اس وقت بھی دہرا رہے تھے ان کی آواز بھاری ہو گئی اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ ہم سب کی زبان سے آمین نکلا۔ تو فرمانے لگے:
’’ہسپانیہ میں میں نے ایک چیز کا مشاہدہ کیا ہے اوروہ مسلمانوں کا انمٹ نقش ہے جو وہاں کی درودیوار سے ہویدا ہے۔ وہاں کی فضا میں عربوں کی نشاۃ ثانیہ Moorish Revivalکے آثار پیدا ہیں‘‘۔
یہ چند یادداشتیں ان بیش قیمت لمحوں کی باقی رہ گئی ہیں جو کبھی کبھار ا س محبوب ہستی کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا۔ اپنی قسمت پر نازاں ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی عمر میں ہی اس آستاں تک رسائی حاصل ہوگئی۔ اب ان شاء اللہ یہ سعادت اپنی موت تک جاری رہے گی۔ د ل میں یہ خیال تک بھی نہ آیا تھا کہ وہ اتنی جلد خود وفات پا جائیں گے اور ہم تشنہ کام رہ جائیں گے۔ اس محرومی کو اب عمر بھر رویا کریں گے۔ افسوس:
وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا
عبدالرشید طارق   ایم ۔ اے