پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سید ابوالاعلٰی صاحب مودودی کی تقریر- سابقہ مشرقی پاکستان میں ۱۹۶۳ ء


 

مذاکرہ : راجہ صاحب آف محمود آباد، مولانا جمال میاں فرنگی محلی اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی ۔ ریڈیو پاکستان سنہ ۱۹۷۲ ء


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 03


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 01


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 02


 

مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘

شکیل اختر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی | 6 جولائی 2024 

بنگلہ دیش میں تقریباً 300 حکومت مخالف مظاہرین کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد وزیر ا‏عظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا تو وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

وہ ڈھاکہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا کے شہر اگرتلہ پہنچیں اور پھر ایک فوجی طیارے کے ذریعے دلی کے نواح میں انڈین فضائیہ کے ہینڈن فضائی اڈے پر اتریں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔
بعض خبروں کے مطابق ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں پناہ لے لیں۔

بعض خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے وہ کہیں اور جانے سے پہلے دلی میں کچھ دن قیام کر سکتی ہیں۔

جس وقت ان کا طیارہ انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوا اس وقت لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں ان کے فرار ہونے کا جشن منا رہے تھے۔

ملک کا نظم و نسق فوج نے اپنی کمانڈ میں لے لیا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل وقارالزماں سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

دلی میں شیخ حسینہ کے پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔

شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی سے انڈیا کا گہرا رشتہ

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب انڈیا میں ہینڈن کے فضائی اڈے پر پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔

انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔

1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

ظفر سید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
10 اکتوبر 2018

سات اکتوبر 1958 کو لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے 65 سال مکمل ہونے کے موقع پر خصوصی تحریر جسے آج کی دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔‘

’میں نے پوچھا: کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟‘

’ہاں۔ کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا۔

’نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔‘

’میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔‘

3 جون 1947: برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدار اور تقسیم ہند کا اہم فیصلہ کیسے ہوا ؟

برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدارکے اعلان پر (قاعد اعظم) محمد علی جناح کا رد عمل  

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 3 جون 2017 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

70 پرس پہلے 3 جون 1947 کو برطانوی حکومت نے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور وائس رائے لارڈ ماؤٰنٹ بیٹن کی تقریر کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ برطانوی حکومت کے اس اعلان پر انتہائی تحمل اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کچھ اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا لیکن اس پر حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں لیا جائے گا۔

محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:

ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔

اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔

میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فوج ہی کیوں جیتتی رہی ہے؟

بی بی سی اردو ۲۳مئی ۲۰۲۳
احمد اعجاز

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعے کی ابتدا تو اُن کی وزارت عظمیٰ کے دور کے آخری مہینوں سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے رائے میں نو مئی کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا مستقبل قریب میں کوئی خاص امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

17 مئی کو ایک ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا تھا ’اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروائے اور ملک کو بچائے۔ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی ہم سے بات کرے۔‘
۹ مئی ۲۰۲۳ م کو عمران خان کی گرفتاری کا ایک منظر

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق معاملات جس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں اس کے پیش نظر عمران خان کی بات چیت کی پیشکش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔

قیام پاکستان سے پاور ایلیٹ کے مابین اختیارات پر کھینچا تانی


یہ اپریل 1953 کا واقعہ ہے جب اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى


 

جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

ریحان فضل

بی بی سی ہندی، دہلی

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا-

بنگلہ ديش کى پہلى عبورى حکومت

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

قرارداد مقاصد: وہ ’مقدس‘ دستاویز جو ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنے کا باعث بنی

فاروق عادل

مصنف، کالم نگار

قرار داد مقاصد کا انگریزی متن 
بی بی سی اردو ، 12 مارچ 2022 ء 

وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا

پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’تقدس‘ کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:

'ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے'۔

یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔

آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔

سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:

'قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں'۔