پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

ظفر سید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
10 اکتوبر 2018

سات اکتوبر 1958 کو لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے 65 سال مکمل ہونے کے موقع پر خصوصی تحریر جسے آج کی دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔‘

’میں نے پوچھا: کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟‘

’ہاں۔ کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا۔

’نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔‘

’میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔‘

3 جون 1947: برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدار اور تقسیم ہند کا اہم فیصلہ کیسے ہوا ؟

برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدارکے اعلان پر (قاعد اعظم) محمد علی جناح کا رد عمل  

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 3 جون 2017 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

70 پرس پہلے 3 جون 1947 کو برطانوی حکومت نے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور وائس رائے لارڈ ماؤٰنٹ بیٹن کی تقریر کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ برطانوی حکومت کے اس اعلان پر انتہائی تحمل اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کچھ اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا لیکن اس پر حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں لیا جائے گا۔

محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:

ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔

اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔

میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فوج ہی کیوں جیتتی رہی ہے؟

بی بی سی اردو ۲۳مئی ۲۰۲۳
احمد اعجاز

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعے کی ابتدا تو اُن کی وزارت عظمیٰ کے دور کے آخری مہینوں سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے رائے میں نو مئی کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا مستقبل قریب میں کوئی خاص امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

17 مئی کو ایک ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا تھا ’اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروائے اور ملک کو بچائے۔ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی ہم سے بات کرے۔‘
۹ مئی ۲۰۲۳ م کو عمران خان کی گرفتاری کا ایک منظر

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق معاملات جس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں اس کے پیش نظر عمران خان کی بات چیت کی پیشکش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔

قیام پاکستان سے پاور ایلیٹ کے مابین اختیارات پر کھینچا تانی


یہ اپریل 1953 کا واقعہ ہے جب اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى


 

جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

ریحان فضل

بی بی سی ہندی، دہلی

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا-

بنگلہ ديش کى پہلى عبورى حکومت

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

قرارداد مقاصد: وہ ’مقدس‘ دستاویز جو ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنے کا باعث بنی

فاروق عادل

مصنف، کالم نگار

قرار داد مقاصد کا انگریزی متن 
بی بی سی اردو ، 12 مارچ 2022 ء 

وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا

پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’تقدس‘ کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:

'ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے'۔

یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔

آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔

سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:

'قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں'۔

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

 عقیل عباس جعفری

محقق و مؤرخ، کراچی
بی بی سی اردو 24 فروری 2022 ء


ایوب خان کو اسلام آباد شہر کی سائٹ پر نقشوں کی مدد سے بریفننگ دی جا رہی ہے

ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی۔


یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

پاکستان کے ’بنگالی‘ اور بنگلہ دیش کے ’بہاری‘، پچاس سال سے شناخت کے منتظر بے نام لوگ


کریم الاسلام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچى

تاریخ ہے سولہ دسمبر سنہ انیس سو اکہتر۔۔۔

وقت ہے شام کے چار بج کر اکتیس منٹ۔۔۔


مقام ہے ڈھاکہ کا رمنا ریس گراؤنڈ۔۔۔


میدان میں لاکھوں لوگ جمع ہیں جو نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔

ہجوم کے درمیان تھوڑی سی جگہ میں ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں رکھی گئی ہیں۔۔۔ میز پر پہلے سے ٹائپ شدہ ایک دستاویز رکھی ہے۔۔۔


مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پاکستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اور انڈین آرمی کے لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔


پھر وہ لوگوں کے شور اور میڈیا کے کیمروں کی چُندھیا دینے والی فلیش لائٹوں کے درمیان باری باری ایک ہی پین سے 'انسٹرومنٹ آف سرینڈر' یا ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرتے ہیں۔ جنرل نیازی کرسی سے اُٹھتے ہیں اور ہولسٹر سے اپنا ریوالور نکال کر جنرل اروڑہ کو پیش کر دیتے ہیں۔

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی 
(حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ )

اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
 اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
 سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

سولہ دسمبر - محمد اظہار الحق

سولہ دسمبر - محمد  اظہار الحق 
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا!جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎

کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروںکو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب  آبروئے  شیوئہ اہلِ   نظر  گئی

احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔

نام "پاکستان " کا خالق چودھری رحمت علی ؒ

چودھری رحمت علی پاكستان كا نام تجويز كرنے والے ايك مخلص سیاست دان تھے۔ انہیں دنیا کا پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔
چودھری رحمت علی 16 نومبر، 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں مو ہراں میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ایک مکتب سے حاصل کی جو ایک عالم دین چلا رہے تھے۔ میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر سے کیا۔ 1914ءمیں مزید تعلیم کے لیے لاہور تشریف لائے انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔1915ء میں ایف اے اور 1918ء میں بی اے کیا۔

نام "پاکستان " کا خالق چودھری رحمت علی 
1915ء میں اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ مولانا شبلی سے بہت متاثر تھے اور پھر اس کے پلیٹ فارم سے 1915ء میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ 1918ء میں بی اے کرنے کے بعد جناب محمد دین فوق کے اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے کیئریر کا آغاز بھی کیا۔ 1928ء میں ایچی سن کالج میں اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگلستان تشریف لےگئے جہاں جنوری 1931ء میں انھوں نے کیمبرج کے کالج ایمنویل میں شعبہ قانون میں اعلٰی تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔

اسلامیہ کالج کے مجلے "دی کریسنٹ" کے ایڈیٹر اور اور کئی دیگر طلبہ سے متعلق بزموں کے عہدیدار بھی رہے۔ اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کے 1915ء کے اجلاس میں محض 18 برس کی عمر میں تقسیم ملک کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کیا، جس کی مخالفت پر آپ اس بزم سے الگ ہو گئے۔ آپ نے یہ نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا  "ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔ اسلام اور خود ہمارے لیے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں"