مشاہیر اسلام : امام غزالی ، ابن حزم ، ابن رشد ، ابن خلدون

1- امام غزالی ؒ 

ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔

نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کر دیا تو انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہو گئے۔

488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہو گئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور یہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے۔ پھر حج کرنے چلے گئے۔ اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔

ان کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کا انتقال 505ھ کو طوس میں ہوا۔


آپ کی تصانیف

امام غزالی نے سلطان سنجر کو لکھے خط میں یہ بتایا تھا کہ آپ کی تصانیف تقریباً دو سو ہیں ۔ لیکن یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد 400 سے زیادہ ہے۔ لیکن مغربی سکالرز نے تحقیقات کرکے طے کیا ہے کہ ذیل کی فہرست آپ کی تصانیف ہیں۔ ان میں عربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گی تصانیف ہیں۔

آخر کار ایک مصری سکالر نے بھی ایک فہرست بنائی جن میں 457 کتابوں کا ذکر ہے، جس میں 1 تا 72 مکمل طور پر امام غزالی کی تصنیفات ہیں۔ اور 73 تا 95 تک کے تصانیف پر شک ہے کہ یہ تصانیف امام غزالی کی ہیں ۔

صوفی طریقہ

میزان العمل
احیاء علوم الدین
بدعت الہدایت
کیمیائے سعادت
منہاج العابدین
فلسفہ

مقاصد فلسفہ
تہافت الفلسفہ، اس کا رد ابن رشد نے تہافت التہافت کے نام سے کیا۔

شریعت

فتاوی ال غزالی
الواسط فی المذہب
کتاب تہذیب الاصول
المستسفی فی علم الاصول
اسس ال قیاس

2- علامہ ابن حزم ؒ 

ابن حزم کا پورا نام علی بن احمد بن سعید بن حزم، کنیت ابو محمّد ہے اور ابن حزم کے نام سے شہرت پائی۔ آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں پیدا ہونے اور عمر کی 72 بھاریں دیکھ کر 452 ہجری میں فوت ہویے۔

ابن حزم تقریباّ چار صد کتب کے مولف کہلاتے ہیں۔ آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ "المحلی"  اور" الإحکام فی اصول الاحکام" ہیں۔ المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے۔ یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں۔ المحلی کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس ذریعہ سے پہنچا ہے، وہ ذریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں۔

3- علامہ ابن رشدؒ 

ابن رشد (پیدائش: 14 اپریل 1126ء– وفات: 10 دسمبر [[1198ء) مسلم فلسفی، طبیب، ماہر فلکیات اور مقنن تھے۔ بارہویں صدی میں ابن رشد مشہور ترین شخصیت ہیں۔


ان کا پورا نام “ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی” ہے، 520 ہجری کو پیدا ہوئے، فلسفہ اور طبی علوم میں شہرت پائی، وہ نہ صرف فلسفی اور طبیب تھے بلکہ قاضی القضاہ اور کمال کے محدث بھی تھے . نحو اور لغت پر بھی دسترس رکھتے تھے ساتھ ہی متنبی اور حبیب کے شعر کے حافظ بھی تھے، وہ انتہائی با ادب، زبان کے میٹھے، راسخ العقیدہ اور حجت کے قوی شخص تھے، وہ جس مجلس میں بھی شرکت کرتے تھے ان کے ماتھے پر وضو کے پانی کے آثار ہوتے تھے .

فلسفہ دان، ریاضی دان، ماہر علم فلکیات، ماہر فن طب اور مقنن۔ قرطبہ میں پیداہوئے۔ ابن طفیل اور ابن اظہر جیسے مشہور عالموں سے دینیات، فلسفہ، قانون، علم الحساب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل کی۔ خلیفہ یعقوب یوسف ک عہد میں اشبیلیہ اور قرطبہ کے قاضی رہے۔ ہسپانوی خلیفہ المنصور نے کفر کا فتویٰ عائد کرکے ان کی تمام کتب جلادیں اور انہیں نظر بند کر دیا۔ چند ماہ کی نظر بندی کے بعد مراکش چلے گئے۔ اور وہیں وفات پائی۔ 

ارسطو کے فلسفے پر نہایت سیر حاصل شرحیں لکھیں جن کے لاطینی اور عربی کے علاوہ یورپ کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ 

ابن رشد کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ انسان کا ذہن محض ایک طرح کی صلاحیت یا طبع ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کرکے اُسے عملی شکل دیتا ہے۔ انسان از خود یا پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ تمام انسانوں میں ذہانت مشترک ہے اور شخصی دوام کا نظریہ بے بنیاد ہے۔ نیز مذہب اور فلسفیانہ حقیقت میں تضاد ممکن ہے۔

 یوں تو ابن رشد نے قانون، منطق، قواعد عربی زبان۔ علم فلکیات اور طب پر متعدد کتب لکھی ہیں۔ مگر ان کی وہ تصانیف زیادہ مقبول ہوئی ہیں۔ جو ارسطو کی مابعدالطبیعات کی وضاحت اور تشریح کے سلسلے میں ہیں۔



حالات زندگی

ان سے پہلے ان کے والد اور دادا قرطبہ کے قاضی رہ چکے تھے، انہیں قرطبہ سے بہت محب تھی، ابنِ رشد نے عرب عقلیت پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور یہ یقیناً ان کی اتاہ محنت کا نتیجہ تھا، انہوں نے اپنی ساری زندگی تلاش اور صفحات سیاہ کرنے میں گزاری، ان کے ہم عصر گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں سوائے دو راتوں کے کبھی بھی پڑھنا نہیں چھوڑا۔. پہلی رات وہ تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور دوسری رات جب ان کی شادی ہوئی۔

انہیں شہرت کی کبھی طلب نہیں رہی، وہ علم ومعرفت کے ذریعے کمالِ انسانی پر یقین رکھتے تھے، ان کے ہاں انسان نامی بولنے اور سمجھنے والی مخلوق کی پہچان اس کی ثقافتی اور علمی ما حاصل پر ہے۔

طب کی تعلیم انہوں نے ابی جعفر ہارون اور ابی مروان بن جربول الاندلسی سے حاصل کی، معلوم ہوتا ہے کہ اپنے زمانے کے مشہور طبیب ابی مروان بن زہر سے ان کی کافی دوستی تھی، حالانکہ طب کے شعبہ میں وہ بہت ابھرے، مگر ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کا فلسفہ اور وہ کردار تھا جس نے نہ صرف عرب عقلیت پر گہرے اثرات مرتب کیے بلکہ لاطینی فکر کو بھی خوب اثر انداز کیا۔

وہ اول تو فلسفہ اور شریعت میں موافقت پیدا کرنا چاہتے تھے اور عقیدہ کو متکلمین کے مغالطات اور خاص طور سے امام غزالی (1176-1182) کی “آمیزش” سے پاک کرنا چاہتے تھے، دوم یہ کہ وہ ارسطو کے فلسفہ کو مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت حل پیش کرنے اور اسے انجان عناصر سے پاک کرکے اس سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔

ابن رشد نے اشبیلیہ میں قاضی کا منصب سنبھالا اور خلیفہ الموحدی ابی یعقوب یوسف کے کہنے پر ارسطو کے آثار کی تفسیر لکھنی شروع کی، وہ خلیفہ کی خدمت میں مشہور فلسفی ابن طفیل کے ذریعے سے آئے تھے، پھر وہ قرطبہ چلے گئے اور قاضی القضاہ کا منصب سنبھالا، اس سے دس سال بعد مراکش میں خلیفہ کے خاص طبیب کی حیثیت سے متعین ہوئے۔

مگر سیاست اور نئے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلیفہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے قاضی القضاہ اور طبیبِ خاص پر کفر کا الزام لگا کر اسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں زیادہ تر یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کر دے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کردی۔

آگ نے حاقدین کے الزامات کی بیچ کہ یہ فلسفی حق وہدایت کے راستہ سے بہک گیا ہے ایک عظیم دماغ کے نچوڑ اور برسا برس کی محنت کو جلاکر خاکستر کر دیا۔. بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ ابی الولید سے راضی ہو گئے اور انہیں اپنے دربار میں پھر سے شامل کر لیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور زندگی کے چار دن دونوں ہی کے پورے ہوچکے تھے .. ابن رشد اور خلیفہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی 1198ء عیسوی کو مراکش میں انتقال کر گئے۔

تصانیف

ابن رشد کی تصانیف کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے : فلسفی اور عملی تصانیف، طبی تصانیف، فقہی وکلامی تصانیف، ادبی اور لغوی تصانیف۔

جمال الدین العلوی نے ابن رشد کی 108 تصانیف شمار کی ہیں جن میں سے ہم تک عربی متن میں 58 تصانیف پہنچی ہیں، ابن رشد کی اس قدر تصانیف میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ارسطو کے سارے ورثے کی شرح لکھی، ارسطو پر ان کی تشریحات کو تین زمروں میں تقسیم کیا گيا ہے :

مختصرات اور جوامع: یہ ان پر مشتمل ہیں جو انہوں نے ارسطو سے سمجھا مگر شرح متن سے براہ راست نہیں کی گئی۔

تلاخیص یا شروحاتِ صغری: ان میں ارسطو پر گفتگو ہے مگر متون کے حوالے نہیں دیے گئے .

شروحاتِ کبری: یہاں ابن رشد قولِ ارسطو کا حوالہ دے کر اپنے انداز میں شرح لکھتے ہیں .

ذیل میں ابن رشد کی کچھ تصانیف مع تقریبی عیسوی تاریخ کے درج کی جا رہی ہیں :

الکلیات 1162: یہ کتاب اصولِ طب میں ہے۔ 
بدایہ المجتہد ونہایہ المقتصد 1168: یہ کتاب اصولِ فقہ میں ہے۔
 تلخیص القیاس 1166: چھوٹی شرح۔ 
تلخیص الجدل 1168: چھوٹی شرح۔
 جوامع الحس والمحسوس 1170.
 تلخیص الجمہوریہ 1177: یہ “جمہوریہ افلاطون” کا خلاصہ ہے جس کا عربی متن مفقود ہے مگر اس کا ترجمہ 1999 کو کر دیا گیا تھا۔ 
مقالہ فی العلم الالہی 1178: علمِ الہی پر مقالہ۔ 
فصل المقال وتقریر ما بین الشریعہ والحکمہ من الاتصال 1178: یہ کتاب فلسفہ کی شرعیت پر ہے اور انی کی مشہور ترین تصنیف ہے۔ 
الکشف عن مناہج الادلہ فی عقائد الملہ 1179: اس کتاب میں اسلامی عقیدے کی تصحیح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 شرح ارجوزہ ابن سینا فی الطب 1180.
 تہافت التہافت 1181: امام غزالی کی کتاب “تہافت الفلاسفہ” پر تنقید، یہ ان کی مشہور ترین کتابوں میں شامل ہے۔ 
شرح الب رہان 1183: ارسطو پر ایک بڑی شرح۔ 
شرح السماء والعالم 1188: ارسطو پر ایک بڑی شرح۔ 
شرح کتاب النفس 1190: ارسطو پر ایک بڑی شرح۔
 شرح ما بعد الطبیعہ 1192-1194: ان کی زرخیز ترین اور مشہور ترین کتابوں میں شامل ہے۔

اضافی تصانیف

تلخیص کتاب المزاج لجالینوس
کتاب التعرق لجالینوس
کتاب القوی الطبیعیہ لجالینوس
کتاب العلل والاعراض لجالینوس
کتاب الحمیات لجالینوس
کتاب الاسطقسات لجالینوس
تلخیص اول کتاب الادویہ المفردہ لجالینوس
تلخیص النصف الثانی من کتاب حیلہ البرء لجالینوس
مقالہ فی المزاج
مقالہ فی نوائب الحمی
مقالہ فی التریاق


4- ابن خلدون ؒ 

ابن خلدون (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء) عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ ان کا مکمل نام ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی تھا ۔
وہ تیونس میں پیدا ہوئے اور تعلیم سے فراغت کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کے وزیر مقرر ہوئے۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلے گئے۔ 

یہ سر زمین بھی راس نہ آئی تو مصر آگئے اور جامعہ الازہر میں درس و تدریس پر مامور ہوئے۔ مصر میں انہیں فقہ مالکی کا منصبِ قضا تفویض کیا گیا۔ اسی عہدے پر انہوں وفات پائی۔ ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے العبر کے نام سے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ مقدمتہ فی التاریخ ہے جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاست، عمرانیات، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے۔