مسلم اقلیتوں کے مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مسلم اقلیتوں کے مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کشمیری حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی

بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی شخصیت
 سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے  سیاسی رہنما تھے،  ان کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔  وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا-  جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ وہ  معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔  یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہونے والے 88 سالہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر 72 سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز ہیں۔ ۔ پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت رہنماؤں نے وصول کیا۔ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔ 

نقل مکانی اور شہریت کا مسئلہ: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

نقل مکانی اور شہریت کا مسئلہ - جاوید احمد غامدی
 (بھارت کے متنازع شہریت بل پر ایک سوال کے جواب میں استاذ گرامی کی گفتگو سے ماخوذ)

بھارت کی پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) نے رائج قانون شہریت میں ترمیم کا بل پاس کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کے وہ مہاجرین بھارتی شہریت کے مستحق قرار پائے ہیں جو کم از کم پانچ سال سے بھارت میں مقیم ہیں اور جن کا تعلق ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی مذہب کے ساتھ ہے۔ مسلمان مہاجرین کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے، کیونکہ اُنھیں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک سکونت کے لیے میسر ہو سکتے ہیں۔ اِس بل میں استحقاق کی بنا چونکہ مذہب کو بنایا گیا ہے، لہٰذا اِسے بھارت کے سیکولر اسٹیٹ ہونے کے تصور کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح اِس کی زد مسلمانوں پر پڑی ہے، اِس لیے اُن کی جانب سے تنقید اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس تناظر میں ایک سوال کے جواب میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے اصولی موقف کو واضح کیا ہے۔ اُن کے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے۔


میں ریاستوں کے نقل مکانی پر پابندی کے قانون کو اصولی طور پر غلط سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ انسانوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ زمین اللہ کی زمین ہے اور اِس میں سب انسانوں کو یکساں طور پر رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے کہ انسان اپنے حالات اور ضرورتوں کے لحاظ سے جس خطے میں چاہیں، جا کر رہیں اورجس علاقے کو چاہیں، اپنا وطن بنائیں۔ یہ نقل مکانی بعض حالات میں اختیاری نہیں رہتی، بلکہ دین کا ناگزیر مطالبہ بن جاتی ہے۔ اگر کسی علاقے میں اللہ کی عبادت پر قائم رہنا مشکل ہو جائے اور لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا نہ ہو سکیں تو ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُسے چھوڑ کر ایسی جگہ منتقل ہو جائیں جہاں وہ کھلم کھلا اپنے دین کا اظہار کر سکیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اُس پر عمل کر سکیں۔ اِسی کو قرآن مجید نے ’’ہجرت ‘‘سے تعبیر کیا ہے اور ایسے حالات میں نقل مکانی سے گریز کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْﵧ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِﵧ قَالُوْ٘ا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاﵧ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُﵧ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا.(النساء ۴: ۹۷)

بھارت کے مسلمان کیا کریں؟ ۔ خورشید ندیم

بھارت کے مسلمان کیا کریں ؟ 
وہی اکثریت کا جبر اور وہی بے بسی۔ کیا ہندوستان کے مسلمان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947ء میں کھڑے تھے؟ پاکستان نام کی ایک آزاد مسلم مملکت، جس نے ایسے ہی ایک جبر کے نتیجے میں جنم لیا، کیا آج ان کی کوئی مدد کر سکتی ہے؟ کیا بھارت کے مسلمانوں کے پاس آج بھی علیحدگی کا متبادل موجود ہے؟

یہ سوال 1947ء میں بھی اٹھے تھے۔ اُس وقت انہیں جب کوئی پذیرائی نہیں ملی تو یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک نوحے میں ڈھل گئے۔ یہ نوحہ دلی کی جامع مسجد کے میناروں نے سنا اور مسلمانوں نے بھی۔ دونوں ساکت رہے۔ آج مولانا کے الفاظ کی صدائے بازگزشت پورے جنوبی ایشیا میں گونج رہی ہے۔ وقت کا قافلہ مگر رواں دواں ہے۔ اب ان سوالوں کو گزرے وقت کی بازگشت کے بجائے، نئے دور کی صدا سمجھنا ہو گا۔ موجودہ حالات کی روشنی میں ان کے جواب تلاش کرنا ہوں گے، ہمیں بھی اور بھارت کے مسلمانوں کو بھی۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد وزیر اعظم ملائشیا کے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی 2019ء میں خطاب کا اردو ترجمہ

 اقوام متحدہ 2019ء میں مہاتر محمد کا خطاب 
’’ محترم صدرِ مجلس۔لگ بھگ پچھتر برس پہلے پانچ ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے فاتح ہونے کا دعویٰ کیا اور اس دعویٰ کی بنیاد پر انھوں نے خود کو ویٹو کا اختیار دے کر باقی دنیا پر حکمرانی کا حق اپنے تئیں اپنے نام کر لیا۔یہ حق اس تنظیم ( اقوامِ متحدہ ) کو قائم کرتے ہوئے حاصل کیا گیا جس کا منشور ہی جنگوں کا خاتمہ اور تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا قرارپایا۔یہ ممالک بھول گئے کہ جن انسانی حقوق اور مساوات کے وہ چیمپئن ہیں۔ ویٹو پاور بذاتِ خود ان کے اس دعویٰ کی کتنی بڑی نفی ہے۔

ویٹو پاور کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی بنیادوں پر بٹی ان طاقتوں نے نہ صرف عالمی مسائل کے پرامن حل کا دروازہ بند کر دیا بلکہ تنظیم کے رکن باقی دو سو ارکان کی خواہشات کے احترام سے بھی انکار کر دیا۔مگر ان ویٹو پاورز کی ڈھٹائی ملاخطہ کیجیے کہ وہ دیگر ممالک کو کہتی ہیں کہ وہ مناسب حد تک جمہوری نہیں۔یہ پانچوں اپنے ویٹو کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کی دوڑ اور جنگوں کے فروغ کو جائز سمجھتے ہیں۔  لڑائی کی وجوہات ایجاد کرتے ہیں تاکہ کاروبار پھلتا رہے اور کوئی انھیں چیلنج نہ کر سکے۔کیا یہی مقصد تھا اقوامِ متحدہ کے قیام کا ؟ کیا یہ ڈھانچہ تاحیات اسی طرح رہے گا ؟

بھارت بکھر رہا ہے - اکرم سہگل

بھارت بکھر رہا ہے ۔ اکرم سہگل 
متعدد قومیتوں، زبانوں اور مقامی قومی گروہوں کی وجہ سے ہندوستان ایک ملک کے بجائے برصغیر ہے۔ انھی زمینی حقائق کی وجہ سے بھارت کو اس حوالے سے چلینجز کا سامنا رہا۔اس وقت کے حکمرانوں کو ان مسائل کا اندازہ ضرور تھا لیکن رفتہ رفتہ علیحدگی پسند تحریکیں جڑ پکڑتی گئیں۔

مختلف حکومتی ادوار میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پولیس میں بہتری کی گئی، خصوصی نیم فوجی دستے ترتیب دیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اراضی سے متعلق اصلاحات اور نئے قوانین کے سختی سے اطلاق کے ذریعے مقامی افراد کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔

بھارت کے ثقافتی اور مذہبی تنوع اور رنگا رنگی کے پیش نظر برطانوی راج کے خاتمے کے بعد اس کے حکمرانوں کو اچھی طرح اس بات کا اندازہ تھا کہ انھیں اسے ایک سیکولر ریاست بنانا ہوگا، جس میں مختلف مذہبی گروہوں کو اپنے مذہب کی تعلیمات پر نجی و عوامی زندگی میں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی اور کسی مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

قوم اور قومیت سے متعلق مغربی تفہیم سے مربوط اس تصور کو انڈین نیشنل کانگریس کی سربراہی میں اٹھنے والی نوآبادیات مخالف تحریک نے اپنا نصب العین بنایا۔ تاہم یورپ میں جس سیکولرازم کا تجربہ کام یاب ہوا تھا برصغیر میں نہ تو اس کی ویسی تفہیم ہوسکی اور نہ یورپ کی طرح اس پر عمل درآمد کیا جاسکا۔ برصغیر میں مذہب نجی زندگی تک محدود نہیں، اسے یہاں پیدائش سے موت تک مکمل طرز حیات تصور کیا جاتا ہے۔

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ

31 اگست 2019ء کو بی بی سی اردو میں ایک رپورٹ شائع ہوئی انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نژاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔


حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔

یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔

آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔