جنگ کی اہم تاریخی واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جنگ کی اہم تاریخی واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کیا امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے؟

غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:

"کیا واقعی امت مسلمہ کا تصور محض ایک خیالی، کتابی بات ہے؟"

یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔

❓ امت مسلمہ: حقیقت یا خیال؟

یہ کہنا کہ امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے، ایک سطحی، وقتی اور جذباتی نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور:

  • قرآن سے نکلا ہے:

    "إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ"   (الأنبیاء: 92)

  • نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:

    "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً"  (بخاری و مسلم)

یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

احیائے اسلام کی تحریکیں عہد بعہد ۔ جاوید احمد غامدی



 ٹائم اور موضوعات کی فہرست

0:03 | خارجی تحریک
51:56 | شیعہ تحریک
2:04:07 | تصوف کی تحریک
2:58:19 | تحریک خلافت
3:34:02 | جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی تحریک
4:13:02 | امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال
5:44:12 | المورد کا تعارف اور موجودہ صورت حال
7:01:08 | خلافت یا جمہوریت
7:27:37 | ہماری دینی ذمہ داریاں
8:36:26 | سوال و جواب


غزہ کی پٹی میں 15 ماہ کی جنگ سے کتنا نقصان ہوا اور بحالی میں کتنا وقت لگے گا؟

وژیول جرنلزم ٹیم

عہدہ,بی بی سی نیوز

غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے لیکن 15 ماہ سے جاری لڑائی اور جنگ کے ساحلی فلسطینی علاقے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر فضائی حملے اور زمینی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی سرحد پار حملے کے جواب میں شروع ہوئے، حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔

حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوران 46 ہزار 600 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔غزہ کے باسیوں کو اس بات کی امید ہے کہ تازہ ترین جنگ بندی بالآخر امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس جنگ میں ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی میں کئی سال یا دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

بی بی سی کی ان تصاویر کی مدد سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہاں (غزہ) میں جنگ کے دوران زندگی کس تیزی سے تبدیل ہوئی۔

تباہی کیسے پھیلی

اسرائیلی انتظامیہ کی توجہ ابتدا میں شمالی غزہ پر مرکوز تھی، اسی مقام اور علاقے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ حماس کے جنگجو انھیں گنجان آباد شہری آبادی کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔

سرحد سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی قصبہ بیت حنون اسرائیلی حملوں کا پہلا نشانہ بننے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے بھاری نقصان پہنچا۔اسرائیل نے غزہ شہر اور شمال میں دیگر شہری مراکز پر بمباری جاری رکھی اور اکتوبر کے آخر میں زمینی حملہ شروع کرنے سے پہلے شہریوں کو اپنی حفاظت کو مدِنظر رکھنے کی خاطر اس علاقے کو خالی کرنے اور 'وادی غزہ' کے جنوب میں منتقل ہونے کا حکم دیا۔

وہ مبینہ چینی سائبر حملے جن میں ٹرمپ کے فون تک کو نشانہ بنایا گیا



مائیک وینڈلنگ
عہدہ,بی بی سی نیوز

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہیکرز جو امریکہ کی بڑی مواصلاتی کمپنیوں اور اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا تعلق چین کی حکومت سے ہے۔

ہیکنگ کے ایک تازہ ترین واقعے میں امریکی وزارت خزانہ کو نشانہ بنایا گیا جسے امریکی حکام ’بڑا واقعہ‘ قرار دے رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہیکرز ملازمین کے ورک سٹیشن اور اہم دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم چین نے ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف یہ تازہ ترین سائبر حملے حالیہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

ان سائبر حملوں میں ہیک کیا ہوا؟


امریکی وزارت خزانہ میں ہیکنگ کے واقعے کے بعد اکتوبر میں دو اہم امریکی صدارتی مہمات کو ہدف بنایا گیا۔

ایف بی آئی اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی مہمات کو ہدف بنانے والے کرداروں کا تعلق ’عوامی جمہوریہ چین‘ سے ہے۔

بدلتا عالمی منظرنامہ اور تنازعات: 2024 کی جنگوں نے نئی دشمنیاں کیسے پیدا کیں اور 2025 میں کیا ہو گا؟


فرینک گارڈنر
عہدہ,بی بی سی نامہ نگار برائے سکیورٹی
1 جنوری 2025
سنہ 2001 میں جب نائین الیون حملوں کے بعد میں نے بی بی سی کے لیے گلوبل سکیورٹی کے نامہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب سے لے کر اب تک یہ سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز رہا ہے۔

شام میں صدر بشارالاسد کی اچانک معزولی، شمالی کوریا کے فوجیوں کا روس کے لیے جنگ لڑنا، یوکرین کا برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے میزائلوں سے روس پر حملہ، روس کو ایرانی میزائلوں کی فراہمی، امریکی اسلحے سے مسلح اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر فضائی حملے، یمن سے اسرائیل پر میزائلوں کا داغا جانا۔

تنازعات کا ایک جال دکھائی دیتا ہے جس میں سب پھنسے نظر آتے ہیں: اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں جاری تنازعات اور جنگیں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آپس میں منسلک ہیں۔

لیکن اس سب سے پہلے ایک چیز واضح کرتے چلیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہے۔ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن مغربی ممالک کو یوکرین کو مزید اسلحہ فراہم کرنے سے باز رکھنے کے لیے تیسری عالمی جنگ سے ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ 

تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں چل رہے بیشتر تنازعات کا ایک عالمی تناظر ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری چزیں ایک دوسری سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے لیے ہم مشرقی یورپ میں فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے چل رہی جنگ سے شروع کرتے ہیں۔

ہماری دہلیز پر جاری یورپ کی جنگ


’ان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ یہاں مرنے آ رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا سر پرائز ہوگا۔‘ یہ کہنا تھا یوکرینی فوج کے رستم نوگودین کا۔یوکرین میں میدانِ جنگ سے ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئیں کہ روس کی جانب سے لڑنے کے لیے آنے والے شمالی کوریا کے بیشر فوجی انٹرنیٹ پر پورن دیکھنے میں مگن ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ان کو اپنے ملک میں دستیاب نہیں۔

تاہم ان سب خبروں سے ہٹ کر جو بات سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ کہ شمالی کوریا کے فوجیوں کی اس جنگ میں شرکت نے اس تنازع کو نیا رخ دے دیا ہے۔ ان کی آمد کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین سے پابندی ہٹالی کہ وہ ان کے فراہم کردہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے روس کی حدود کے اندر حملہ نہیں کر سکتا۔

شمالی کوریا سے آنے والے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے 12 ہزار کے درمیان ہے۔ تاہم اتنی تعداد بھی یوکرین جیسے ملک کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جسے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔

اگلے مورچوں پر موجود یوکرینی کمانڈر رستم نوگودین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا سے آنے والے فوجی اتنے اچھے نہیں لیکن اس کے باوجود 10 ہزار فوجی تقریباً دو بریگیڈ کی مشترکہ تعداد ہوتی ہے۔ ’یاد رکھیے کہ محض دو بریگیڈ نے روس کو خارکیو سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔‘

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ

بی بی سی اردو 

ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔

یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔

عالمی تنازعات اور اسلحہ سازوں کی ’چاندی‘: وہ کمپنیاں جنھوں نے صرف ایک سال میں 632 ارب ڈالر کمائے



شکیل اختر
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
دنیا بھر میں جاری تنازعات یوکرین، روس اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کو ہوا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹٹیوٹ (سپری) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان صرف امریکی کمپنیوں نے بنایا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس امریکی کمپنیوں نے 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔

سپری کے مطابق امریکہ کے بعد اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی کمپنیوں نے گذشتہ برس دنیا بھر میں 130 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ہتھیار بنانے والی دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا جو کہ 2022 کے مقابلے میں چار اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں جاری تنازعات کے سبب روس اور اسرائیل میں واقع چھوٹی کمپنیوں کے منافع میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

حماس کے کون کون سے سرکردہ رہنما اسرائیلی حملوں میں مارے گئے؟

بی بی سی اردو | 2 اگست 2024 


 احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی

اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ تاحال جاری ہے اور اس دوران اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے متعدد رہنما مارے جا چکے ہیں۔

حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔

ایران نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال اس دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی عسکری سرگرمیوں کے سربراہ محمد الضیف کی گذشتہ ماہ غزہ کی پٹی میں ایک فضائی حملے میں ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

القسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا تاہم حماس نے ابھی تک ان کی موت کی بھی تصدیق نہیں کی۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس سمیت دیگر فلسطینی مسلح دھڑوں کے درمیان جنگ اس وقت سے جاری ہے جب مولوی احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی۔

اس تنظیم کے قیام کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک محاذ آرائی شروع ہوئی جس نے تشدد، قتل و غارت اور خودکش حملوں کے سلسلے کو جنم دیا۔

حماس نے اسرائیل کے اندر درجنوں خودکش کارروائیاں کیں۔ پہلے انتفادہ کے دوران سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوئے جو سنہ 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوا جب یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔

یہ تحریک مغربی کنارے تک پھیل گئی اور سنہ 1993 میں اس وقت رُکی جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔

دوسرا انتفادہ سنہ 2000 میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوا، یہ پہلے انتفادہ سے زیادہ خونی اور پرتشدد تھا، جس میں دونوں طرف کے تقریباً چار ہزار 200 افراد مارے گئے۔

فلسطینی مزاحمت کے ابھرنے کے بعد ہی سے اسرائیل نے فلسطینی دھڑوں کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس دوران حماس کے درجنوں رہنما قتل ہوئے۔

یہ کارروائیاں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان امن مذاکرات کے دوران عارضی طور پر روک دی گئی تھیں۔

اسرائیل نے گذشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے آغاز سے حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر قاتلانہ کارروائیاں کی ہیں اور اس نے تحریک کے سیاسی اور فوجی حکام میں کوئی فرق نہیں کیا۔

اس رپورٹ میں حماس سے منسلک ان شخصیات کا ذکر ہے جنھیں قتل کیا گیا۔

اسماعیل ہنیہ


 اسماعیل ہنیہ کو 1997 میں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا


ایران میں میں مارے جارنے والے اسماعیل عبدالسلام ہنیہ کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔

پہلے انتفادہ کے دوران ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے کی بنا پر انھیں اسرائیل حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔ 1988 میں حماس منظرِ عام پر آگئی اور اسماعیل ہنیہ کو چھ مہینے قید کی سزا ہو گئی۔

اس سے اگلے برس 1989 میں اسماعیل ہنیہ ایک مرتبہ پھر گرفتار کیے گئے اور انھیں مزید تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں بعد میں حماس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ غزہ سے بے دخل کیا گیا اور لبنان بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک برس تک جلا وطن رہے۔

اسماعیل ہنیہ: اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈرکی شہادت



بی بی سی اردو 31 جولائی 2024 ء  

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں مارے گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انھیں نشانہ بنایا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے جس پر اب تک اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی کہ جہاں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔

چین کی ثالثی میں حماس اور فتح کا معاہدہ جو فلسطینی دھڑے بندی ختم کر سکتا ہے



بی بی سی اردو 24 جولائی 2024

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نےچین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کیے ہیں۔

14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔

واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔

چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘

اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔

اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:

  • اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
  • غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
  • تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
  • غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: عالمی عدالت انصاف

بی بی سی  20جولائی 2024
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آباد کاری روکے اور غزہ کی پٹی سمیت ان علاقوں سے غیرقانونی قبضہ فوری ختم کر دے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسے ایک جھوٹ پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کا وطن ہے جبکہ فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

زبیر احمد
عہدہ,بی بی سی نیوز
مقام دہلی
3 مار چ 2023
یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔

لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

گذشتہ برس سلوواکیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے، انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ اس ذہنیت سے اوپر اٹھے کہ ’یورپ کے مسائل دنیا کا درد سر ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

متعدد محاذ اور حکمت عملی کا فہم

ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024 

 ’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔ 

ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔

’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)

لینن کون تھے ؟

 لینن

 خدا کے حضور میں

(شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ )

اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات

محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات

ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات!

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

جب تک میں جیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟

مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندۂ فلزات

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات


  لینن کون تھے ؟ 

لیون ٹراٹسکی

ترجمہ: حسن جان

انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن کی 152 ویں سالگرہ کے موقع پر اُن کی مختصر سوانح حیات، جو لیون ٹراٹسکی نے 1929ء میں تحریر کی،  قارئین کے لئے خصوصی طور پر شائع کی جا رہی ہے۔

لینن کون تھے ؟

سوویت جمہوریہ اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے بانی اور روح رواں، مارکس کے شاگرد، بالشویک پارٹی کے رہنما اور روس میں اکتوبر انقلاب کے منتظم ولادیمیر لینن 9 اپریل 1870ء کو سمبرسک کے قصبے (موجودہ الیانوسک) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الیانکولاوچ ایک سکول ماسٹر تھے۔ اس کی والدہ ماریہ الیگزنڈرانوا برگ نامی ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ بڑا بھائی ایک انقلابی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور الیگزنڈر دوئم کی زندگی پر ناکام حملوں میں حصہ لیا۔ اسے 1891ء میں پھانسی دے دی گئی۔ یہ لینن کی زندگی میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوا۔

ابتدائی زندگی

چھ افراد کے خاندان میں تیسرے لینن نے 1887ء میں سمبرسک جمنازیم سے گولڈ میڈل جیت کر اپنا کورس مکمل کیا۔ اس نے قانون کی تعلیم کے لیے کازان یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن طلبہ کے اجتماعات میں حصہ لینے کی پاداش میں اُسی سال یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور مضافاتی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ 1889ء کے موسم خزاں میں اسے کازان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ جہاں اس نے مارکس کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور مقامی مارکسی سرکل کے ممبران سے ملاقات کی۔ 1891ء میں لینن نے سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا اور 1892ء میں سمارا میں ایک بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور کئی مقدمات میں وکیل صفائی کے طور پر پیش ہوا۔ لیکن وہ مارکسزم کے مطالعے، روس اور بعد ازاں پوری دنیا کے معاشی اور سیاسی ارتقا پر اس کے اطلاق میں مصروف رہا۔

امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام ہونے والا عالمی کرنسی کا وہ پراجیکٹ جس نے دنیا پر ڈالر کی بالادستی یقینی بنائی

گیلرمو ڈی اولمو
بی بی سی ورلڈ نیوز

یہ 1944 کے موسم گرما کی بات ہے جب نصف دہائی سے جاری دوسری عالمی جنگ کے شعلے کچھ بجھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایڈولف ہٹلر اور اُن کے اتحادیوں کی شکست واضح ہونا شروع ہو گئی تھی۔
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین


ایسے میں امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن ووڈس میں 44 ممالک کے مندوبین نے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی جو 22 روز تک جاری رہا۔ اُن کا مقصد: پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی معیشت کی بنیاد طے کرنا تھا۔ 

یہ کانفرنس تاریخ میں ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جہاں اس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف) کی تشکیل اور ورلڈ بینک کے خدوخال پر اتفاق ہوا، وہیں اِن ملاقاتوں میں پیش کیے گئے سب سے انقلابی خیالات میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا: یعنی بینکور۔

بینکور کا تصور دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ کرنسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تاہم بینکور کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کی موت نے دنیا میں امریکی ڈالر کی بالادستی کو یقینی بنا دیا۔

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟

بی بی سی اردو   4 دسمبر 2023


سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور جوابی کارروائی کے طور پر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے نے ایک طرف تباہی اور موت کی کہانیوں کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب دنیا بھر میں دونوں اطراف کے حق میں یا صرف خطے میں امن کے قیام کے لیے مظاہرے بھی شروع ہوئے۔


فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد، چاہے وہ عرب ہوں یا نہ ہوں، کو روایتی کوفیہ پہنچے دیکھا گیا۔ کسی نے اسے سر پر اوڑھا تو کسی نے گردن میں کوفیہ ڈال کر فلسطین کی حمایت کا اظہار کیا۔

کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔

کچھ لوگ اسے فلسطین کا ’غیر سرکاری پرچم‘ بھی کہتے ہیں۔

لیکن اس مخصوص کپڑے کی کہانی کیا ہے اور اس کی علامتی حیثیت اور اہمیت کی کہانی کیا ہے؟

کوفیہ کا آغاز


چند مورخین کے مطابق کوفیہ کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ سے ہوئی اور اسی کی وجہ سے کوفیہ کا نام پڑا۔ ایک اور وضاحت کے مطابق کوفیہ اسلام سے پہلے ہی وجود رکھتا تھا۔

سچ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن ابتدا میں اس کی وجوہات سیاسی یا ثقافتی نہیں تھیں۔

انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت: 1 جنوری 2023ء 

انڈیا اور پاکستان تین دہائیوں سے ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟


 پاکستان اور انڈیا نے 30 سالہ پرانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہر سال کی طرح 2023 کے پہلے دن اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست کا تبادلہ کیا ہے۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان 31 دسمبر 1988 کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور 27 جنوری 1991 کو اس معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔ 

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ہر سال کے پہلے دن ایک دوسرے کو اپنی جوہری تنصیبات کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔ 

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے کے تحت اتوار کو دفترِ خارجہ میں انڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو باضابطہ طور پر پاکستان نے اپنی فہرست فراہم کی جبکہ انڈین وزارتِ خارجہ نے بھی اپنی فہرست دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو فراہم کی ہے۔ دفترِ خارجہ نے بتایا ہے کہ فہرستوں کا یہ تبادلہ یکم جنوری 1992 سے جاری ہے۔ 

بی بی سی ہندی کے مطابق اس موقع پر انڈیا اور پاکستان نے اپنی اپنی حراست میں موجود عام قیدیوں اور ماہی گیروں کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا۔ انڈیا نے 339 عام پاکستانی قیدیوں اور 95 ماہی گیروں کی فہرست فراہم کی جبکہ پاکستان نے بتایا کہ ان کے پاس 51 عام انڈین قیدی اور 654 ماہی گیر ہیں۔ جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق سال 2022 کی شروعات میں نو ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور عوامی جمہوری کوریا (شمالی کوریا) کے پاس تقریباً 12 ہزار 705 جوہری ہتیھار ہیں جن میں سے نو ہزار 440 ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود ہیں۔ 

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

ناربرٹو پریڈیس

بی بی سی منڈو سروس

افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ 
22 اگست 2021

اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔

19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔