" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟
کوفیہ کا آغاز
انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟
بی بی سی اردو
تاریخ اشاعت: 1 جنوری 2023ء
انڈیا اور پاکستان تین دہائیوں سے ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟
انڈیا اور پاکستان کے درمیان 31 دسمبر 1988 کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور 27 جنوری 1991 کو اس معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ہر سال کے پہلے دن ایک دوسرے کو اپنی جوہری تنصیبات کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے کے تحت اتوار کو دفترِ خارجہ میں انڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو باضابطہ طور پر پاکستان نے اپنی فہرست فراہم کی جبکہ انڈین وزارتِ خارجہ نے بھی اپنی فہرست دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو فراہم کی ہے۔ دفترِ خارجہ نے بتایا ہے کہ فہرستوں کا یہ تبادلہ یکم جنوری 1992 سے جاری ہے۔
بی بی سی ہندی کے مطابق اس موقع پر انڈیا اور پاکستان نے اپنی اپنی حراست میں موجود عام قیدیوں اور ماہی گیروں کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا۔ انڈیا نے 339 عام پاکستانی قیدیوں اور 95 ماہی گیروں کی فہرست فراہم کی جبکہ پاکستان نے بتایا کہ ان کے پاس 51 عام انڈین قیدی اور 654 ماہی گیر ہیں۔ جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق سال 2022 کی شروعات میں نو ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور عوامی جمہوری کوریا (شمالی کوریا) کے پاس تقریباً 12 ہزار 705 جوہری ہتیھار ہیں جن میں سے نو ہزار 440 ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود ہیں۔
افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے
ناربرٹو پریڈیس
بی بی سی منڈو سروس
افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ |
اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔
19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔
اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔
ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟
16 اکتوبر کو ہر سال خوارک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔
ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟ |
بی بی سی کے رپورٹرسوامی ناتهن ناتاراجن کے مطابق دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔
قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔
غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔
شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔
یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔
سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘
امريکى صدر جو بائيڈن کى طرف سے طالبان حکومت سے بات چيت کا اشارہ
بى بى سے اردو کے مطابق پير 19 سبتمبر 2022 کو طالبان نے ایک امریکی انجینیئر کو رہا کر دیا ہے جسے انھوں نے 2020 سے یرغمال بنا رکھا تھا جبکہ اس رہائی کے بدلے میں امریکہ نے سنہ 2005 سے اپنی حراست میں رکھے گئے ایک افغان قبائلی رہنما کو رہا کیا ہے۔
امریکی بحریہ کے سابق افسر مارک فریرچ کو پیر کے روز کابل ہوائی اڈے پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔
بدلے میں طالبان کے اتحادی بشیر نورزئی کو طالبان کے حوالے کیا گیا ہے۔ نورزئی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
اس پر امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انجینیئر کی رہائی کے بدلے میں ’مشکل فیصلے کرنے‘ پڑے ہیں۔
صدر بائیڈن نے جنوری (2022) میں کہا تھا: ’اگر طالبان چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جائے تو انھیں مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔‘
60 سالہ مارک فریرچ کو طالبان نے افغانستان پر اگست 2021 میں دوبارہ قبضے سے ایک سال قبل يعنى 2020 میں اغوا کیا تھا۔
مارک فريرچ اور بشير نورزئى |
مارک فریرچ گذشتہ 10 سال سے سول انجینئر کے طور پر کابل میں رہ رہے تھے اور وہیں کام کرتے تھے۔
نورزئی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی۔
نورزئی ہیروئن کی سمگلنگ کے الزام میں 17 سال تک امریکی حراست میں رہ چکے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کے جنوب میں طالبان کے روایتی گڑھ صوبہ قندھار میں افیون کی کاشت کا ایک وسیع آپریشن چلایا۔
جوہری ہتھیار دنیا میں کتنے ہیں اور کن ممالک کے پاس ہیں؟
جوہری ہتھیار کیا ہیں؟
جوہری ہتھیار کیا ہیں ؟ |
روس یوکرین جنگ : پاکستان کا موقف
تاریخ اشاعت : 1 مارچ 2022ء : بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ : پاکستان کا موقف |
گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔
اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔
جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی سے کہا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔
پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی 'سیاسی دھڑے' کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔
دھڑوں کی سیاست سے ’نیوٹرل‘ ہونے تک
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔ 'اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔
پاکستان کے ’بنگالی‘ اور بنگلہ دیش کے ’بہاری‘، پچاس سال سے شناخت کے منتظر بے نام لوگ
انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى
انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى |
افغانستان میں 20 سال تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات
افغانستان میں دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات |
امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئی تھیں، اور بگرام کے فوجی اڈے کو ایک بہت ہی بڑے اور جدید فوجی اڈے کے طور پر جس میں دس ہزار فوجیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی، اس کی تعمیر بعد میں کی گئی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے یہ اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان افغانستان بھر میں مختلف ضلعوں پر قبضہ کرتے ہوئے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔
سکندر اعظم: صرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوان
حسین عسکری ، بی بی سی اردو،
سکندر اعظم کی فوجی مہمات کا نقشہ |
13 جون 2021،
اُس میں بچپن ہی سے کچھ ایسی صلاحیتیں تھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ تاریخ میں ایک غیر معمولی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
صرف 12 برس کی عمر میں اس نے ایک جنگلی اور بدمست گھوڑے کو قابو میں کر کے سدھا لیا۔ بیوسیفیلس نامی یہ ایک دیو قامت اور وحشی گھوڑا تھا جو بعد میں تقریباً ساری زندگی اس بچے کا ساتھی رہا۔
یہ بچہ بڑا ہو کر الیگزینڈر دی گریٹ یا سکندرِ اعظم کہلایا اور عہدِ قدیم کی مشہور ترین شخصیات میں شامل ہوا۔ مقدونیہ (میسیڈونیا) سے تعلق رکھنے والے سکندرِ اعظم 356 قبل مسیح میں پیدا ہوئے۔ میسیڈونیا شمالی یونان سے جزیرہ نما بالکان تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔
ان کے والد کو ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا اور جس کے بعد نئے بادشاہ کی کشمکش شروع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے تمام حریفوں کا صفایا کر دیا اور 20 برس کی عمر میں بادشاہ بنے۔
جنگ عظیم اول : سلطنت عثمانیہ کی شکست، جدید ترکی اور نیا ترکی 2023 کا خواب
سلطنت عثمانیہ کی شکست اور معاہدہ سیورے:
عثمانی حکومت کی جانب سے معاہدے پر دستخط کرنے والے نمائندے، بائیں سے دائیں جانب رضا توفیق، فرید پاشا، ہادی پاشا اور رشید خالص |
معاہدہ سیورے کے اہم نکات:
'باندھ دینے والی بیماری': 3200 سال پرانی وبا جس نے قدیم مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں مٹا دیں
سلطنت عثمانیہ : ابتداء سے سقوط تک
سلطنت عثمانیہ : تاریخ و جغرافیہ |
سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان
سلطنت عثمانیہ : تین بر اعظموں کے سلطان |
افغان طالبان اور امریکہ "امن معاہدہ " 2020 م
افغان طالبان اور امریکہ امن معاہدہ 2020م |
" ففتھ جنریشن وار فیئر" کی اصطلاح اور پاکستان میں اس کی حقیقت ! علی احمد ڈھلوں
عراق پر امریکی جنگی طیاری کی بمباری کا ایک منظر |
محمد رسول اللہ ﷺ کی 9 تلواریں اور ان کی تصاویر - ابو البشر احمد طیب
العضب سيف النبي ﷺ |
دراصل " العضب " ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا کئی ۔
العضب:
الذو الفقار، سیف النبی ﷺ |