فقہ و اصول فقہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فقہ و اصول فقہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 12 (فقہ اسلامی دور جدید میں ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 11 (مسلمانوں کے بے مثال فقہی ذخرے کا سرسری جائزہ ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 10 (اسلام کا قانون تجارت و مالیات ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 9 (اسلام کا قانون جرم اور سزا ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 8(اسلام کا دستوری اور انتظامی قانون ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 7(مقاصد شریعت اور اجتہاد ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 6 ( اسلامی قانون کے بنیادی تصورات ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 5 ( تدوین فقہ اور مناہج فقہ ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 4 ( اہم فقہی علوم : ایک تعارف) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر3 (علم اصول فقہ ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 2(فقہ اسلامی کے امتیازی خصائص ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

ؒ محاضرات فقہ ، خطبہ نمبر 1(فقہ اسلامی علوم اسلامیہ کا گل سرسبد ) - ڈاکٹر محمود احمد غازی

’’فقہ‘‘ حدیث کی نظر میں اور مذہبِ ’’ظاہریّہ‘‘ پر ایک نظر۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ

عقل اور اس کا منصب 

’’عقل وادراک ‘‘ حق جل ذکرہٗ کا وہ ربانی عطیہ ہے جو علمی وعملی ’’کمالات ‘‘ اور فطری وکسبی ’’ملکات ‘‘ کے لیے بنیاد ہے، بلکہ علمی وروحانی منازل طے کرنے کے لیے سرچشمہ ہے۔ نظام عالم کی اصلاح کے لیے جو نوامیسِ الٰہیہ آئے ہیں، ان کا بڑی حد تک اسی پر مدار ہے۔ تہذیبِ نفوس وتزکیۂ اخلاق کا بھی یہی دارومدار ہے۔ انسان کے روحانی کمالات کا انتہائی عروج جسے ہم نبوت یا رسالت سے تعبیر کرتے ہیں، جن نفوسِ قدسیہ کو نصیب ہوا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے عقل وادراک کے انتہائی کمال کی ضرورت ہے۔

تشریعی قوانین اور تکلیفی احکام جس کے ذریعہ سے انسان ابدی نعیم کا مستحق ہوتا ہے‘ عقل وادراک اس کے لیے شرطِ اول ہے۔ غرض اس نعمت ِ عظمیٰ کی عظمت سے کوئی عاقل انکار نہیں کرسکتا ہے۔ کائناتِ عالم کی مادی وروحانی حیرت انگیز ترقیات سب اس کے کمال کی دلیل ہیں: ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ لیکن ہر چیز کے لیے خالقِ برحق اور قادرِ مطلق نے ایک حد مقرر کردی ہے، اس قانونِ قدرت کے مطابق عقل وادراک کے لیے بھی ایک منصب منتخب کردیا گیا ہے، اس کی حدود متعین ہوگئی ہیں۔ دیکھیے!

اسلامی قانون کے مآخذ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ

ہمارے اصول فقہ کے علما اسلامی قانون کے عموماً چار مآخذ بتاتے ہیں: کتاب، سنت، اجماع اور قیاس

مسئلے کی یہ تعبیر اگرچہ غلط نہیں ہے لیکن اس تعبیر میں بعض ایسے خلا ہیں جن کے سبب سے موجودہ زمانے کے ذہنوں کو اصل حقیقت کے سمجھنے میں بعض الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مَیں پہلے اس تعبیر کے خلا کی طرف اشارہ کروں گا۔ تاکہ وہ الجھنیں دور ہو سکیں جو اس تعبیر کے سبب سے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہیں، اس کے بعد تفصیل کے ساتھ بتاؤں گا کہ اسلامی قانون کے ماخذ فی الواقع کیا کیا ہیں، ان ماخذوں کے حدود کیا ہیں اور ان سے استفادے کے شرائط کیا ہیں؟

مذکورہ تعبیر میں کھٹکنے والی باتیں تین ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اس میں اجماع کو تیسرے ماخذ قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت کے بعد تیسرا ماخذ اسلام میں اجتہاد ہے۔ اجماع اجتہاد کی ایک قسم، بلکہ سب سے اعلی قسم تو ضرور ہے، لیکن اس کو تیسرے ماخذ قانون سے تعبیر کرنا اس عہد کے بہت سے لوگوں کو اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اجتہاد ایک تو کسی مجتہد کا انفرادی اجتہاد ہوتا ہے، ایک وہ اجتہاد ہوتا ہے جس پر وقت کے مجتہدین متفق ہو گئے ہوں۔ اس موخر الذکر اجتہاد کو اجماع کہتے ہیں۔ یہ سابق الذکر اجتہاد سے اس اعتبار سے بالکل مختلف ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت صرف ایک رائے کی نہیں رہ جاتی، بلکہ یہ دین میں بجائے خود ایک حجت کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔

امام شافعی ؒ کی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں ماخذ دین کی بحث: جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو

منظور الحسن 

ماہنامہ اشراق ، 

تاریخ اشاعت : دسمبر 2018ء

[یہ سوال و جواب استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ میری ایک گفتگو سے ماخوذ ہیں۔۲۰۱۳ء میں امام شافعی کی کتاب ’’الرسالہ‘‘کی تدریس کے دوران میں ایک مبتدی طالب علم کے اشکالات کو رفع کرنے کے لیے استاذ گرامی نے جوگفتگو فرمائی، اسے میں نے اپنے فہم کے لحاظ سے مرتب کیا ہے۔امید ہے کہ ماخذ دین کی بحث میں دل چسپی رکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ افادیت کا باعث ہوگی۔]

     سوال: گذشتہ نشست میں آپ نے جو گفتگو فرمائی تھی، اس سے ماخذ دین کی بحث کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ اخبار آحاد کے معاملے کو ہمارے جلیل القدر علما کیسے دیکھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک خبر واحد کے محفوف بالقرائن ہو کر درجۂ اطمینان کو پہنچنے کا تعلق ہے تو اس پر ذہن مطمئن نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ عقلی اطمینان کے بغیر محض نفسیاتی اطمینان کی بنا پر کیسے کسی بات کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟ یعنی ہمارے اہل علم سے اس بات کا صدور کیسے ہوا ہے کہ ظنی کو قطعی کے متوازی، حتیٰ کہ اس پر حاکم سمجھ لیا گیا ہے؟ پھر ہمارے ائمہ کے زمانے تک علم حدیث باقاعدہ سائنس بھی نہیں بنا تھا ۔تحقیق کے، تدلیس کے، وضع کے، روایت بالمعنیٰ کے اور تناقض وغیرہ کے مسائل غیر معمولی تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے محض قرائن اور نفسیاتی اطمینان کی بنیاد پر کسی خبر واحد کو علماً یا عملاً درجۂ یقین تک پہنچا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟

     جواب: اگر آپ اصل واقعے سے صرف نظر کریں گے تو بات کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کچھ باتیں نقل ہو کر سامنے آگئی ہیں۔ یعنی اِن کی نسبت اُس ہستی کے ساتھ ہے جو دین کا تنہا ماخذ ہے، جس کا علم بے خطا ہے اور جس کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود۔ مزید یہ کہ اِن باتوں کے الفاظ، اِن کا علم ، اِن کی حکمت، اِن کی شان کلام ، اِن کی عالمانہ بلندی، اِن کی قرآن و سنت سے موافقت، سب گواہی دے رہے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہو سکتی ہیں ۔اب کیا اِنھیں صرف اِس لیے رد کر دیا جائے کہ یہ ہم تک ان

اسلاف کے کام کے بارے میں صحیح علمی رویہ: غامدی صاحب کی ایک گفتگو کا خلاصہ

منظور الحسن 

ماہنامہ اشراق 
تاریخ اشاعت : اپریل 2018

(1)

[امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’الرسالہ‘‘ کی تدریس کے دوران میں ایک بحث کے ضمن میں میں نے استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جو بات مجھ جیسے ادنیٰ طالب کی سمجھ میں آ گئی ہے، وہ امام شافعی جیسے امام الائمہ پر واضح نہیں ہو سکی؟ اس کے جواب میں استاذ گرامی نے جو گفتگو فرمائی، وہ دین کے طالب علموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس کے چند نکات افادۂ عام کے لیے پیش خدمت ہیں۔]

۱۔ جو بات ہماری سمجھ میں آ گئی ہے، وہ ہمارے اسلاف کی سمجھ میں کیوں نہیں آسکی؟ یہ سوال ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، بلکہ علمی دائرے کا گناہ ہے۔ اس طرح سوچنے سے علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ جب آپ کسی صاحب علم کو پڑھیں تو سارا زور اُس کی بات، اُس کی پوزیشن اور اُس کی جگہ کو سمجھنے میں لگائیں۔ اُس کی بات کو اُسی کے زاویۂ نظر سے اور اُسی کے انداز فکر کے مطابق پڑھنا چاہیے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اس کو اپنے زاویۂ نظر سے پڑھنے لگیں۔ جب کوئی شخص اپنے زاویۂ نظر سے کسی صاحب علم کی تحریر کو پڑھتا ہے تو یہ درحقیقت تنقید ہوتی ہے جو نہ صرف خود اُس کے لیے اُس صاحب علم کا موقف سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، بلکہ اگر وہ اسی ذہن کے ساتھ اُس تنقید کو بیان کر دے تو وہ دوسروں کے لیے بھی مغالطے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طریقے میں تنقید کی صورت یہ نہیں ہوتی کہ مثلاً امام شافعی نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے ، اس کا مطلب انھوں نے ٹھیک نہیں سمجھا، بلکہ یہ ہو تی ہے کہ چونکہ میں اس کا مطلب بالکل ٹھیک سمجھتا ہوں ہے، اس لیے امام شافعی کی بات غلط ہے۔ چنانچہ یہ تربیت ضروری ہے کہ آپ اصحاب علم کے موقف کو ویسے سمجھیں جیسے کہ وہ کہہ رہے ہیں۔ لہٰذا پہلا مرحلہ یہ نہیں ہے کہ آپ کسی صاحب علم کی غلطی کو سمجھنے کی کوشش کریں، بلکہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ اُس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔