فلسفۂ دینیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فلسفۂ دینیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

قرآن مجید اور کائنات: جدید سائنس کی روشنی میں

قرآن مجید نہ صرف روحانی ہدایت کا سرچشمہ ہے، بلکہ اس میں کائنات، فطرت، اور تخلیق کے بارے میں گہرے اشارات بھی موجود ہیں۔ یہ اشارات جدید سائنس کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ہم آہنگ ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار انسانوں کو کائنات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن مجید کی چند آیات کو پیش کریں گے، جن میں کائنات کے بارے میں اشارات موجود ہیں، اور جدید دور کے مفسرین نے ان کی جو تفسیر کی ہے، اس کا مختصر ذکر کریں گے۔

۱۔ کائنات کی ابتدا: بگ بینگ تھیوری

قرآن مجید میں کائنات کی ابتدا کے بارے میں واضح اشارہ سورہ الانبیاء کی آیت 30 میں ملتا ہے:

"کیا وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا، نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا؟  کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟"  (الانبیاء: 30)

اس آیت میں "آسمان اور زمین کا باہم ملے ہوئے ہونا" اور پھر ان کا جدا ہونا، جدید سائنس کی بگ بینگ تھیوری سے مماثلت رکھتا ہے۔ جدید مفسرین، جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر موريس بوکائے، نے اس آیت کو بگ بینگ تھیوری کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کائنات ایک ابتدائی نقطے (singularity) سے پھیلی ہے، جو جدید سائنس کے مطابق بگ بینگ کا نظریہ ہے۔

۲۔ کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ

سورہ الذاریات کی آیت 47 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اور ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں۔"  (الذاریات: 47)

اس آیت میں "وسعت دینے والے ہیں" کا ذکر جدید سائنس کے "کائنات کے پھیلاؤ" (Expansion of the Universe) کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ 1920 کی دہائی میں ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ جدید مفسرین، جیسے ڈاکٹر نعیم احمد، نے اس آیت کو جدید فلکیات کے تناظر میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت کائنات کے پھیلاؤ کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔

کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات ۔ ساجد حمید

نومبر ۲۰۱۷ء کے اشراق کے شمارہ میں ہمارا ایک مضمون نظمِ قرآن کے حوالے سے شائع ہوا تھا۔ ہم نے اس میں مقدر مقدمات کو نظم قرآن کی کلید قرار دیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدمات کو مقدر کیوں رکھا، کلام کو بسیط کیوں نہیں بنایا کہ نظم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا؟

اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ جسے ہم نے عربوں کے طرز تخاطب کا پسندیدہ ترین وصف قرار دیا تھا کہ ’خیر الکلام قل ودل‘، اس لیے ان کے لیے موثر کلام وہی ہوسکتا تھا جو ان کے اس اسلوب پر بہ حسن و خوبی پورا اترتا ہو۔ ذیل میں ہم ایک مثال سے بات کو سمجھاتے ہیں، جس میں عربوں کا کلام مختصر کرنے کے طریقے کی ندرت شاید کچھ واضح ہوگی:
وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷)

’’اور اگر تم قول کو بلند آواز سے کہو، تو وہ مخفی، بلکہ مخفی تر باتوں کو جانتا ہے۔‘‘

اس آیت کا میں نے صرف ترجمہ کردیا ہے۔ترجمہ میں دیکھیے کہ ہم اردو مذاق لوگوں کو ایک خلا سا نظر آئے گا۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ اگر تم بلند آواز میں بولو، پھر کہا گیا کہ اللہ پوشیدہ اور مخفی باتوں کو جانتا ہے۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ وہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے یا نہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخفی بات آ کہاں سے گئی؟ اس لیے کہ بات تو بلند آواز سے کہے گئے قول کے بارے میں ہو رہی تھی۔ جملہ تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ اگر تم بلند آواز سے بولو تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ خلا ہمیں اس لیے نظر آرہے ہیں کہ ہم عربوں کے اسلوب میں بات نہیں کرتے۔لیکن اردو میں ہم ایک ملتا جلتا اسلوب رکھتے ہیں، لیکن وہ عموماًجملوں کے اختتام پر آتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی‘‘۔ یعنی ہم پانی کے بعد ’’پیا‘‘ کا فعل حذف کردیتے ہیں، اس لیے کہ پچھلے کلام اور ’’پانی‘‘ کے لفظ سے واضح تھا۔ تو پورا جملہ یوں تھا: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی پیا‘‘۔ جس طرح ہم نے اردو کا جملہ پورا کیا ہے،ایسے ہی قرآن کا جملہ مکمل کردیں تو وہ یوں ہو گا:
اگر تم بلند آواز سے بات کرو، تو اللہ اسے جانتا ہے، اور اگر مخفی طریقے سے کرو تو اللہ تمھاری مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کرمخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۔

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ پنجم ) ۔ جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑسے خواب میں حضرت اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟
2۔ کیا قربانی کی حقیقت سمجھانے کے لیے حضرت ابراہیم ؑکو خواب دکھایا گیا؟
3۔ کیا عمل کا امتحان انبیا کے لیے انسانوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے؟
4۔ کیا قربانی کی حقیقت خواب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے نہیں سمجھائی جا سکتی تھی؟
5۔ کیا حضرت اسمٰعیل ؑ بالکل بچے تھے جب حضرت ابراہیم ؑنے انھیں مکہ میں چھوڑا؟

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ چہارم ) ۔ جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ کیا دعا سے اللہ تعالیٰ کی ابتلا کی اسکیم میں کوئی مداخلت واقع ہوتی ہے؟
2۔ اگر دعا مانگنے سے قانون آزمائش میں مداخلت نہیں ہوتی تو خاص اوقات میں دعا مانگنے کی تلقین کیوں کی گئی ہے؟
3۔ کیا اللہ تعالیٰ نے دنیوی نعمتیں دینے کا کوئی اصول مقرر کیا ہوا ہے؟
4۔ کیا بددعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ براہ راست مداخلت کرتے ہیں؟
5۔ رحیم و کریم خدا اپنے بندوں کو اذیت ناک بیماریوں میں کیسے مبتلا کر سکتا ہے؟
6۔ کیا انسان اس کائنات میں ایک مجبور محض ہے؟
7۔ انسان اللہ تعالیٰ کے قانون آزمائش کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہے؟
8۔ کیا دنیا کی ناتمامی ہی انسان کے اندر یہاں رہنے کی آرزو پیدا کرتی ہے؟


خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ سوم) ۔ جاوید احمد غامدی


 اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ کیا جانوروں پر ظلم اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو چیر پھاڑ دینا بھی کسی آزمائش کا حصہ ہے؟

2۔ کیا کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے؟

3۔ جانوروں کے ذبح کرنے کے بارے میں ملحدین کے اعتراضات کا اسلام کیا جواب دیتا ہے؟

4۔ کیا قدرت کے معاملات میں مداخلت کے نتیجے میں انسان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

5۔ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کیے گئے جانور کا گوشت کھانا کیوں جائز نہیں ہے؟

6۔ اسلام نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی کس حد تک تاکید کی ہے؟

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ دوم ) - جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں کیا حکمت ہے کہ وہ کہیں ظلم کو روک دیتے ہیں اور کہیں ہونے دیتے ہیں؟
2۔ بچوں کو کس اصول کے تحت آزمایش میں ڈالا جاتا ہے؟
3۔ کیا آزمایش میں استثنا اس وجہ سے نہیں دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں آزمایش کی اسکیم ہی ختم ہو جاتی؟
4۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بچے کو مارنے کے واقعہ میں کیا حکمت ہے؟
5۔ قوموں پر عذاب کے نتیجے میں بچے کس گناہ کی بنیاد پر اس کا شکار ہوتے ہیں؟
6۔ معاندین کے خلاف جنگ میں بچوں اور عورتوں کو مارنے سے اسلام نے کیوں روکا ہے؟
7۔ کیا اللہ تعالیٰ خود بھی دنیوی اخلاقیات کے پابند ہیں؟
8۔ نماز نہ پڑھنے کے نتیجے میں بچے کو مارنے والی حدیث کی حقیقت کیا ہے؟
9۔ پیدایشی طور پر معذور بچے کس پہلو سے والدین کے لیے امتحان ہوتے ہیں؟

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات حصہ اول - جاوید احمد غامدی


 اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کو خود کیوں نہیں روکتے؟

2۔ اگر پیغمبروں کے معاملے میں اللہ نے براہ راست مداخلت کی ہے تو انسانوں کے معاملے میں کیوں نہیں کی؟

3۔ اگر پیغمبروں کے معاملے میں اللہ کی براہ راست مداخلت سے آزمایش ختم نہیں ہوئی تو انسانوں کے معاملے میں کیسے ختم ہو جاتی؟

4۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں ظالموں سے جو بدلہ و انتقام لیں گے، وہ دنیا میں کیوں نہیں لیتے؟

5۔ ظالموں اور سرکشوں کو دنیا میں نہ روکنا کیا ان کو خود جہنم کی طرف دھکیلنا نہیں ہے؟

6۔ ظلم کو خود روکنے کے بجائے اللہ نے انسانوں کو جہاد کا حکم کیوں دیا؟

7۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو خود نہیں روکتے، لیکن اپنے بندوں کو اس کا حکم کیوں دیتے ہیں؟

8۔ کیا خدا کے بارے میں الحاد کے اعتراضات خود ان کے نقطۂ نظر پر بھی وارد ہوتے ہیں؟

راسخ العقیدہ يہودى فرقہ ليو طھور

بى بى سى اردو کے مطابق، اس یہودی فرقے کے ارکان کو ’یہودی طالبان‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی عورتیں سر سے پاؤں تک کالے کپڑے پہنتی ہیں۔

تاہم میکسیکو اور گوئٹے مالا جیسے لاطینی امریکی ممالک میں قائم ہونے والے اس مذہبی گروہ کے بارے میں تنازع ان کے انتہائی قدامت پسند لباس سے کہیں بڑھ کر ہے۔


اس فرقے کا مرکز تاپاچولا شہر سے 17 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

انتہائی راسخ العقیدہ اور صہیونی مخالف

آئزک نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا



اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔‘


لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17 ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘ (یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)


یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘ اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔


لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘ سمجھا ہو گا۔


’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘


پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔ اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔


ان کی رہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔


جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔


یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘
نیوٹن کا خدا کا تصور


نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔


بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642 میں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643 کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727 میں بتائی جاتی ہے۔


ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انھوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘ کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

فلسفہِ رواقیت: زندگی میں غیر یقینی حالات سے نمٹنے کا ایک قدیم نسخہ

اماندہ روگری
بی بی سی فیوچر
23 مارچ 2022 ء 



بہت سارے لوگوں کے لیے دنیا مسلسل اتھل پتھل کا شکار ہے جس سے نمٹنا بعض افراد کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے، لیکن کیا رواقیت (Stoicism) کا فلسفہ ایسے دشوار ادوار کو برداشت کرنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟


ان کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل زندگی تھی۔ وہ غلامی میں پیدا ہوئے، ایک موقع پر ان کے مالک نے ان کی ٹانگ توڑ دی تھی جس کی وجہ سے وہ معذور ہوگئے تھے۔ آخر کار انھیں آزادی مل گئی، انھوں نے اگلے 25 سال اپنے شوق کو پورا کرنے میں بسر کیے۔ جس کا مقصد صرف یہ نکلا کہ ان کی تمام کوششوں کو ایک آمر نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ وہ بیرون ملک بھاگ گئے، اور باقی زندگی جلاوطنی اور غربت میں بسر کی۔


یہ سوانحی خاکہ اُس یونانی فلسفی ایپِکٹیٹس (Epictetus) کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے جو سنہ 55 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ وہ 'فلسفہِ رواقیت' (Stoicism) کا نظریہ پیش کرنے والے فلسفی تھے۔ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں مورخین کے اختلافات ہیں۔

عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ 
تیرھویں صدی میں کلیسیا کے مظالم کے خلاف کئی لوگوں نے آوازیں بلند کی۔ اُن میں مشہور پیٹر والڈو (1140-1218)، جان ٹولر (1290-1361) اور جان وائی کلف (1320-1384) ہیں۔ ان لوگوں کو سخت سزائیں دی گئی اور ان کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے گئے، اس کے علاوہ  جو شخص مذہبی احکامات کی تشریح سائنس سے کرتا یا پوپ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا اسے بھی  سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔   مگر اس سارے رویے نے مارٹن لوتھر(1483-1546) کے لیے راہ ہموار کی۔ سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی قیادت میں لوگوں نے کاتھولک فرقے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کو پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کہا جاتا ہے ۔

مارٹن لوتھر ایک جرمن راہب، پادری اور الٰہیات دان تھا۔ لوتھر جرمن ریاست سکسنی (Saxony) میں ایک غریب گھرانے میں 10 نومبر 1483 کو پیدا ہوا ۔ سولہویں صدی میں پاپائیت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں جس شخص نے انقلابی روح پھونکی، وہ مارٹن لوتھر تھا ۔

مارٹن لوتھر کا مشہور قول کہ"  شیطان اپنے عہد کی پیداوار ہے" اس نے پوپ کو مجسم شیطان یا مخالف مسیح (دجال)، جبکہ کاتھولک کلیسیا کو شیطان کی بادشاہت قرار دیا ۔ اس نے ہر جگہ پر شیطان کو دیکھا اور متواتر اس کے ساتھ نبرد آزما رہا اور خدا پر ایمان کے ساتھ اسے شکست دی۔ 

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کرسمس ایک تہوار کے طور پر کیسے وجود میں آیا۔ آج دنیا بھر میں کرسمس بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

لیکن مسیحی مذہب کے ابتدائی تین سو سالوں میں کرسمس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سنہ 239 عیسوی میں روم کے بادشاہ کونسٹینٹائن نے پہلی مرتبہ 25 دسمبر کو ایک تہوار کی شکل دی۔ وہ روم کا پہلا مسیحی حکمراں تھے۔ کچھ عرصے بعد پوپ جولیس اول نے 25 دسمبر کو رسمی طور پر عیسیٰ مسیح کا روز تولد قرار دیا۔

ابتدا میں یہ صرف سنجیدہ مذہبی تہوار تھا جس میں حضرت عیسیٰ مسیح کی قربانیوں کا ذکر ہوتا تھا اور ان کے دنیا میں آنے کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔
رفتہ رفتہ اس میں بہت سی رسومات شامل ہوتی گئیں اور نسل و نژاد کی قید سے آزاد یہ ایک اجتماعی تہوار بن گیا۔ تحفے تحائف کا سلسلہ شروع ہوا۔ سینٹ نکولس ’فادر کرسمس‘ بن گئے۔

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)

بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار

تعارف اور ترجمہ: قیصر شہزاؔد


باروخ یا بینے ڈکٹ اسپینوزا ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم کے یہودی محلے میں پیدا ہوئے۔ 
بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار 
ان کے آباؤ اجداد وہاں پرتگیزی مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ پہلے چھ میں سے چار درجوں تک ابتدائی تعلم مقامی  یہودی دینی مدرسے میں حاصل کی ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی کے ساتھ وہ  دیکارت کے فلسفے سے بھی متعارف ہوئے۔اسپینوزا کا تعلق ایک دیکارتی عالم اور مذکورہ ادارے کے بانی فرانسسکس فان ڈین اینڈن (۱۶۰۲ء۔۱۶۷۴ء) کے حلقہء فکر سے تھا جس میں کئی عقلیت پسند اور صحائفِ مقدسہ کے ناقد شامل تھے۔ 

یہودی راسخ العقیدگی سے مخالف نظریات رکھنے کی بنا ء پریہودیوں نے ۲۷ جولائی ۱۶۵۶ءکو اسپینوزا کا مذہبی مقاطعہ کردیا۔ بعض مصادر کے مطابق ان نظریات میں خدا کے شارع اور یہودیوں کے منتخب قوم ہونے سےانکار شامل تھا۔ مقاطعے کے کچھ عرصہ اور رسالہء اصلاحِ فکر (Treatise on the Emendation of Intellect) مکمل کرنے کے بعد ۱۶۶۱ ءمیں اسپینوزا ایک اور شہر رینسبرگ( Rijnsburg )منتقل ہوگئے وہاں انہوں نے اپنی کتاب اصول فلسفہء دیکارت (Descartes’ Principles of Philosophy) کا پہلا حصہ ایک شاگرد کو املاء کرایا۔۱۶۶۱ء سے ۱۶۶۲ ءکے درمیان ہی انہوں نے ولندیزی زبان میں خدا، انسان اور اس کی فلاح پرمختصر رسالہ (Short Treatise on God, Man and his Well-Being)تحریر کیا۔

امام غزالی ؒ کا ایک خط

"کسی مخلص نے امام غزالی کو خط لکھا اور اس صورتِ حال ( یعنی اشعری علماء کی مخالفت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو امام صاحب کے عقائد میں شبہات پیدا ہونے لگے)  کی اطلاع دیتے ہوئے اپنی قلبی تکلیف کا اظہار کیا امام صاحب نے ان کو مفصل جواب دیا،ایک مستقل رسالہ ( فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ) کے نام سے موجود ہے، اس کے شروع میں وہ تحریر فرماتے ہیں: 

"برادرِ شفیق!حاسدین کا گروہ جو میری بعض تصنیفات (متعلق باسرار دین) پر نکتہ چینی کررہاہے، اورخیال کرتا ہے کہ یہ تصنیفات قدمائے اسلام اور مشائخ اہل کلام کے خلاف ہیں ، اور یہ کہ اشعری کے عقیدے سے بال برابر بھی ہٹنا کفر ہے، اس پر جو تم کو صدمہ ہوتاہے، اور تمہارا دل جلتاہے، میں اس سے واقف ہوں۔

 لیکن عزیزمن! تم کو صبر کرناچاہئے ، جب رسول اللہ ﷺ مطاعنِ سے نہ بچ سکے، تومیری کیا ہستی ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اشاعرہ یا معتزلہ یا حنابلہ یا اور دیگر فرقوں کی مخالفت کفر ہے تو سمجھ لو کہ وہ اندھا مقلد ہے، اس کی اصلاح کی کوشش میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، اس کو خاموش کرنے کے لئے مخالفین کا دعویٰ کافی ہے، اس لئے کہ تمام مذاہب (کلامیہ) میں اشعری سے اختلافات پائے جاتے ہیں ، اب اگر کوئی دعویٰ کرتاہے کہ تمام تفصیلات وجزئیات میں اشعری کا اتباع ضروری ہے، اور ادنیٰ مخالفت بھی کفر ہے تو اس سے سوال کرو کہ یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ حق اشعری کے ساتھ مخصوص ہے، اور انہی کی اتباع میں منحصر ہے، اگر ایسا ہے تو وہ شاید باقلانی کے کفر کا فتویٰ دیں گے ۔

    اس لئے کہ صفت بقاء میں ان کو اشعری سے اختلاف ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتِ الہی سے زائد کوئی صفت نہیں ہے ، اور پھر سوال یہ ہے کہ باقلانی ہی اشعری کی مخالف کرکے کیوں کفر کے مستحق ہیں ، اشعریؒ باقلانی سے اختلاف کی بناء پر کیوں کفر کے مستحق نہیں ، اور حق ان میں سے کسی ایک میں کیوں منحصر سمجھا جائے، اگر کہا جائے کہ اشعری متقدم ہیں ، تو خود اشعری سے معتزلہ متقدم ہیں ، تو پھر معتزلہ کو برسرِ حق ہوناچاہئے یا یہ محض علم وفضل کے تفاوت کی بناء پر ہے؟ توبتلایا جائے کی علم وفضل کا موازنہ کرنے کے لئے کون سا ترازو ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اپنے پیشوا کو علم وفضل میں سب سے بلند مرتبہ مانتاہے ، اگر باقلانی کو اشعری سے اختلاف کرنے کی اجازت ہے تو باقلانی کے بعد آنے والے اس حق سے کیوں محروم رہیں ، اور اس میں کسی ایک شخص کی تخصیص کیوں کی جائے. (1) 

-------------------------------------

1 - "فیصل التفرقہ بین الاسلام و الزندقہ"  ۔ بحوالہ " تاریخ دعوت و عزیمت " حصہ اول ص 185-186 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی - ابوالبشر احمد طیب

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی 
فلسفہ یونان کا اصل موضوع ، ان کے غور و فکر کا اصل میدان طبیعات اور ریاضیات ہے۔  لیکن جس میدان میں ان کو ٹھوکر لگی وہ عقائد یا الہیات ہے۔ لیکن  ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو آج بھی عقائد کے مسائل میں  ان کو قرآن وحدیث کے مقابل لاتے ہیں ۔ حالانکہ جن  غیبی حقائق کی انبیاء علیہ السلام نے خبر دی  ان سے یونانی فلاسفر بالکل ناآشنا تھے ۔ 

 انسان محدود عقل اور مشاہدات سے ان موجودات کا مشاہدہ کسیے کرسکتا ہے جن تک اس کی رسائی نہیں ہے ۔ ان کا حال تو ایسا تھا جیسے قرآن نے بیان کیا" بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (یونس : 39) 

انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلا دیا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت  واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے والوں نے کیا ۔ 

اللہ کی ذات و صفات  کے بارے میں ایمان لا نے حکم تھا اس لئے یہ کسی علمی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا مسئلہ  نہیں تھا ، اس بارے میں انسانی کا ذریعہ علم صرف انبیاء کرام کی اطلاع اور وحی الہی ہے ۔ اسی سے ہی اللہ کی  معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقائد کی تفصیلات معلوم کرنے  کےلئے  قرآن و حدیث کی صورت میں  سب سے محکم بنیاد موجود ہے ۔ اس باب میں ان کو یونانی فلسفہ کی ذہنی موشگافیوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ کرام ، اور محدثین  اسی مسلک پر قائم تھے۔

عباسی دور میں یونان کا جو فلسفہ ترجمہ ہوکر عالم اسلام میں منتقل ہوا، پھر اس کے ذریعے پورپ تک پہنچا ، وہ اپنے قدیم مشرکانہ اعتقادات و تصورات کے ساتھ  منطق کی  ثقیل فرضی اصطلاحات میں منتقل ہواتھا۔  مسلم فلاسفر اور مترجمین  ابتدا میں اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی دفعہ دو ٹوک  انداز میں  امام غزالی اور ابن تیمیہ نے اس نکتہ کو فاش کیا،  یونان کے فلسفہ الہیات  اور علم الاصنام کے اصل راز سے بردہ اٹھایا ۔