فلسفۂ دینیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فلسفۂ دینیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

راسخ العقیدہ يہودى فرقہ ليو طھور

بى بى سى اردو کے مطابق، اس یہودی فرقے کے ارکان کو ’یہودی طالبان‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی عورتیں سر سے پاؤں تک کالے کپڑے پہنتی ہیں۔

تاہم میکسیکو اور گوئٹے مالا جیسے لاطینی امریکی ممالک میں قائم ہونے والے اس مذہبی گروہ کے بارے میں تنازع ان کے انتہائی قدامت پسند لباس سے کہیں بڑھ کر ہے۔


اس فرقے کا مرکز تاپاچولا شہر سے 17 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

انتہائی راسخ العقیدہ اور صہیونی مخالف

آئزک نیوٹن، جنھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا



اردو کے معروف شاعر مرزا غالب نے خدا کے بارے میں لکھا تھا کہ ’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا۔‘


لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر اور 17 ویں صدی کے سائنسی انقلاب کی آخری شخصیت کے مذہبی عقائد کا مطالعہ کرنے والی ایک ماہر شخصیت رابرٹ ایلیف کہتے ہیں کہ دنیا کو کشش ثقل سے آگاہ کرنے والے سائنسدان کے نزدیک ’خدا، بہت سی چیزوں کے درمیان، سب سے بڑا جیومیٹر یا مہندس ہے‘ (یعنی ایک کامل ریاضی دان اور طبیعیات دان ہے۔)


یعنی معروف سائنسدان نیوٹن کے مطابق خدا نے دنیا کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا، جسے بائبل میں ’پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ’فطرت میں بھی‘ اس کی جلوہ گری دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح سے یہ تخلیق کی گئی تھی۔


لیکن محقق کہتے ہیں کہ خدا کے بارے میں سائنس دان نیوٹن کا نظریہ جس نے ہمارے عقلی عالمی نظریہ کو تشکیل دینے میں مدد کی وہ ’کافی روایتی، بہت ہی توحید پرست‘ تھا لیکن مذہب کے بارے میں ان کے کچھ خیالات کو اس کے زمانے کے ماہرینِ الہٰیات نے ’کافرانہ‘ یا ’ملحدانہ‘ سمجھا ہو گا۔


’نیوٹن خدا کے بارے میں یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جزوی طور پر ایک ریاضی دان ہے جس نے دنیا کو اس طرح تخلیق کیا تاکہ اس پر ریاضی کا قانون لکھا جائے۔‘


پروفیسر ایلیف ’دی نیوٹن پروجیکٹ‘ نامی غیر منافع بخش تنظیم کے جنرل ایڈیٹر ہیں۔ اس تنظیم نے سائنسدان نیوٹن کی تحریروں کو اکٹھا اور شائع کیا اور اس کے ساتھ وہ A Very Short Introduction to Newton and Priest of Nature: the Religious Worlds of Isaac Newton نامی تصنیف کے مصنف بھی ہیں۔


ان کی رہنمائی کے ساتھ ہم آئزک نیوٹن کے مذہبی پہلو کو تلاش کرتے ہیں، جو کہ ایک دین دار مسیحی تھے لیکن انھوں نے اپنے بعض خیالات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔


جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک حالیہ مضمون میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کے ساتھ نیوٹن کا تعلق ’پیچیدہ اور غیر روایتی‘ تھا۔


یعنی ’نیوٹن ایک غیر معمولی مسیحی تھے۔‘
نیوٹن کا خدا کا تصور


نیوٹن ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب فطرت کے اصول و ضوابط ایک معمہ تھے اور وہ درحقیقت ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے کائنات کو سمجھنے اور دیکھنے کے ہمارے طریقے کو بدل کر رکھ دیا۔


بعض محققین اُن کی پیدائش دسمبر 1642 میں بتاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے جنوری 1643 کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ان کی وفات سنہ 1727 میں بتائی جاتی ہے۔


ایلیف نے انگریز سائنسدان کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور انھوں نے نیوٹن کی تصانیف ’پرنسپیا‘ اور ’آپٹکس‘ کی بعد کی مطبوعات میں یہ پایا کہ نیوٹن نے مذہب پر تبصرہ کیا تھا۔

فلسفہِ رواقیت: زندگی میں غیر یقینی حالات سے نمٹنے کا ایک قدیم نسخہ

اماندہ روگری
بی بی سی فیوچر
23 مارچ 2022 ء 



بہت سارے لوگوں کے لیے دنیا مسلسل اتھل پتھل کا شکار ہے جس سے نمٹنا بعض افراد کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے، لیکن کیا رواقیت (Stoicism) کا فلسفہ ایسے دشوار ادوار کو برداشت کرنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟


ان کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل زندگی تھی۔ وہ غلامی میں پیدا ہوئے، ایک موقع پر ان کے مالک نے ان کی ٹانگ توڑ دی تھی جس کی وجہ سے وہ معذور ہوگئے تھے۔ آخر کار انھیں آزادی مل گئی، انھوں نے اگلے 25 سال اپنے شوق کو پورا کرنے میں بسر کیے۔ جس کا مقصد صرف یہ نکلا کہ ان کی تمام کوششوں کو ایک آمر نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ وہ بیرون ملک بھاگ گئے، اور باقی زندگی جلاوطنی اور غربت میں بسر کی۔


یہ سوانحی خاکہ اُس یونانی فلسفی ایپِکٹیٹس (Epictetus) کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے جو سنہ 55 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ وہ 'فلسفہِ رواقیت' (Stoicism) کا نظریہ پیش کرنے والے فلسفی تھے۔ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں مورخین کے اختلافات ہیں۔

عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ

مارٹن لوتھر اور فرقہ پروٹسٹنٹ 
تیرھویں صدی میں کلیسیا کے مظالم کے خلاف کئی لوگوں نے آوازیں بلند کی۔ اُن میں مشہور پیٹر والڈو (1140-1218)، جان ٹولر (1290-1361) اور جان وائی کلف (1320-1384) ہیں۔ ان لوگوں کو سخت سزائیں دی گئی اور ان کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے گئے، اس کے علاوہ  جو شخص مذہبی احکامات کی تشریح سائنس سے کرتا یا پوپ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا اسے بھی  سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔   مگر اس سارے رویے نے مارٹن لوتھر(1483-1546) کے لیے راہ ہموار کی۔ سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی قیادت میں لوگوں نے کاتھولک فرقے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کو پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کہا جاتا ہے ۔

مارٹن لوتھر ایک جرمن راہب، پادری اور الٰہیات دان تھا۔ لوتھر جرمن ریاست سکسنی (Saxony) میں ایک غریب گھرانے میں 10 نومبر 1483 کو پیدا ہوا ۔ سولہویں صدی میں پاپائیت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں جس شخص نے انقلابی روح پھونکی، وہ مارٹن لوتھر تھا ۔

مارٹن لوتھر کا مشہور قول کہ"  شیطان اپنے عہد کی پیداوار ہے" اس نے پوپ کو مجسم شیطان یا مخالف مسیح (دجال)، جبکہ کاتھولک کلیسیا کو شیطان کی بادشاہت قرار دیا ۔ اس نے ہر جگہ پر شیطان کو دیکھا اور متواتر اس کے ساتھ نبرد آزما رہا اور خدا پر ایمان کے ساتھ اسے شکست دی۔ 

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کرسمس ایک تہوار کے طور پر کیسے وجود میں آیا۔ آج دنیا بھر میں کرسمس بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

لیکن مسیحی مذہب کے ابتدائی تین سو سالوں میں کرسمس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سنہ 239 عیسوی میں روم کے بادشاہ کونسٹینٹائن نے پہلی مرتبہ 25 دسمبر کو ایک تہوار کی شکل دی۔ وہ روم کا پہلا مسیحی حکمراں تھے۔ کچھ عرصے بعد پوپ جولیس اول نے 25 دسمبر کو رسمی طور پر عیسیٰ مسیح کا روز تولد قرار دیا۔

ابتدا میں یہ صرف سنجیدہ مذہبی تہوار تھا جس میں حضرت عیسیٰ مسیح کی قربانیوں کا ذکر ہوتا تھا اور ان کے دنیا میں آنے کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔
رفتہ رفتہ اس میں بہت سی رسومات شامل ہوتی گئیں اور نسل و نژاد کی قید سے آزاد یہ ایک اجتماعی تہوار بن گیا۔ تحفے تحائف کا سلسلہ شروع ہوا۔ سینٹ نکولس ’فادر کرسمس‘ بن گئے۔

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)

بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار

تعارف اور ترجمہ: قیصر شہزاؔد


باروخ یا بینے ڈکٹ اسپینوزا ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم کے یہودی محلے میں پیدا ہوئے۔ 
بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار 
ان کے آباؤ اجداد وہاں پرتگیزی مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ پہلے چھ میں سے چار درجوں تک ابتدائی تعلم مقامی  یہودی دینی مدرسے میں حاصل کی ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی کے ساتھ وہ  دیکارت کے فلسفے سے بھی متعارف ہوئے۔اسپینوزا کا تعلق ایک دیکارتی عالم اور مذکورہ ادارے کے بانی فرانسسکس فان ڈین اینڈن (۱۶۰۲ء۔۱۶۷۴ء) کے حلقہء فکر سے تھا جس میں کئی عقلیت پسند اور صحائفِ مقدسہ کے ناقد شامل تھے۔ 

یہودی راسخ العقیدگی سے مخالف نظریات رکھنے کی بنا ء پریہودیوں نے ۲۷ جولائی ۱۶۵۶ءکو اسپینوزا کا مذہبی مقاطعہ کردیا۔ بعض مصادر کے مطابق ان نظریات میں خدا کے شارع اور یہودیوں کے منتخب قوم ہونے سےانکار شامل تھا۔ مقاطعے کے کچھ عرصہ اور رسالہء اصلاحِ فکر (Treatise on the Emendation of Intellect) مکمل کرنے کے بعد ۱۶۶۱ ءمیں اسپینوزا ایک اور شہر رینسبرگ( Rijnsburg )منتقل ہوگئے وہاں انہوں نے اپنی کتاب اصول فلسفہء دیکارت (Descartes’ Principles of Philosophy) کا پہلا حصہ ایک شاگرد کو املاء کرایا۔۱۶۶۱ء سے ۱۶۶۲ ءکے درمیان ہی انہوں نے ولندیزی زبان میں خدا، انسان اور اس کی فلاح پرمختصر رسالہ (Short Treatise on God, Man and his Well-Being)تحریر کیا۔

امام غزالی ؒ کا ایک خط

"کسی مخلص نے امام غزالی کو خط لکھا اور اس صورتِ حال ( یعنی اشعری علماء کی مخالفت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو امام صاحب کے عقائد میں شبہات پیدا ہونے لگے)  کی اطلاع دیتے ہوئے اپنی قلبی تکلیف کا اظہار کیا امام صاحب نے ان کو مفصل جواب دیا،ایک مستقل رسالہ ( فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ) کے نام سے موجود ہے، اس کے شروع میں وہ تحریر فرماتے ہیں: 

"برادرِ شفیق!حاسدین کا گروہ جو میری بعض تصنیفات (متعلق باسرار دین) پر نکتہ چینی کررہاہے، اورخیال کرتا ہے کہ یہ تصنیفات قدمائے اسلام اور مشائخ اہل کلام کے خلاف ہیں ، اور یہ کہ اشعری کے عقیدے سے بال برابر بھی ہٹنا کفر ہے، اس پر جو تم کو صدمہ ہوتاہے، اور تمہارا دل جلتاہے، میں اس سے واقف ہوں۔

 لیکن عزیزمن! تم کو صبر کرناچاہئے ، جب رسول اللہ ﷺ مطاعنِ سے نہ بچ سکے، تومیری کیا ہستی ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اشاعرہ یا معتزلہ یا حنابلہ یا اور دیگر فرقوں کی مخالفت کفر ہے تو سمجھ لو کہ وہ اندھا مقلد ہے، اس کی اصلاح کی کوشش میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، اس کو خاموش کرنے کے لئے مخالفین کا دعویٰ کافی ہے، اس لئے کہ تمام مذاہب (کلامیہ) میں اشعری سے اختلافات پائے جاتے ہیں ، اب اگر کوئی دعویٰ کرتاہے کہ تمام تفصیلات وجزئیات میں اشعری کا اتباع ضروری ہے، اور ادنیٰ مخالفت بھی کفر ہے تو اس سے سوال کرو کہ یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ حق اشعری کے ساتھ مخصوص ہے، اور انہی کی اتباع میں منحصر ہے، اگر ایسا ہے تو وہ شاید باقلانی کے کفر کا فتویٰ دیں گے ۔

    اس لئے کہ صفت بقاء میں ان کو اشعری سے اختلاف ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتِ الہی سے زائد کوئی صفت نہیں ہے ، اور پھر سوال یہ ہے کہ باقلانی ہی اشعری کی مخالف کرکے کیوں کفر کے مستحق ہیں ، اشعریؒ باقلانی سے اختلاف کی بناء پر کیوں کفر کے مستحق نہیں ، اور حق ان میں سے کسی ایک میں کیوں منحصر سمجھا جائے، اگر کہا جائے کہ اشعری متقدم ہیں ، تو خود اشعری سے معتزلہ متقدم ہیں ، تو پھر معتزلہ کو برسرِ حق ہوناچاہئے یا یہ محض علم وفضل کے تفاوت کی بناء پر ہے؟ توبتلایا جائے کی علم وفضل کا موازنہ کرنے کے لئے کون سا ترازو ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اپنے پیشوا کو علم وفضل میں سب سے بلند مرتبہ مانتاہے ، اگر باقلانی کو اشعری سے اختلاف کرنے کی اجازت ہے تو باقلانی کے بعد آنے والے اس حق سے کیوں محروم رہیں ، اور اس میں کسی ایک شخص کی تخصیص کیوں کی جائے. (1) 

-------------------------------------

1 - "فیصل التفرقہ بین الاسلام و الزندقہ"  ۔ بحوالہ " تاریخ دعوت و عزیمت " حصہ اول ص 185-186 ، مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی - ابوالبشر احمد طیب

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی 
فلسفہ یونان کا اصل موضوع ، ان کے غور و فکر کا اصل میدان طبیعات اور ریاضیات ہے۔  لیکن جس میدان میں ان کو ٹھوکر لگی وہ عقائد یا الہیات ہے۔ لیکن  ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو آج بھی عقائد کے مسائل میں  ان کو قرآن وحدیث کے مقابل لاتے ہیں ۔ حالانکہ جن  غیبی حقائق کی انبیاء علیہ السلام نے خبر دی  ان سے یونانی فلاسفر بالکل ناآشنا تھے ۔ 

 انسان محدود عقل اور مشاہدات سے ان موجودات کا مشاہدہ کسیے کرسکتا ہے جن تک اس کی رسائی نہیں ہے ۔ ان کا حال تو ایسا تھا جیسے قرآن نے بیان کیا" بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (یونس : 39) 

انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلا دیا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت  واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے والوں نے کیا ۔ 

اللہ کی ذات و صفات  کے بارے میں ایمان لا نے حکم تھا اس لئے یہ کسی علمی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا مسئلہ  نہیں تھا ، اس بارے میں انسانی کا ذریعہ علم صرف انبیاء کرام کی اطلاع اور وحی الہی ہے ۔ اسی سے ہی اللہ کی  معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقائد کی تفصیلات معلوم کرنے  کےلئے  قرآن و حدیث کی صورت میں  سب سے محکم بنیاد موجود ہے ۔ اس باب میں ان کو یونانی فلسفہ کی ذہنی موشگافیوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ کرام ، اور محدثین  اسی مسلک پر قائم تھے۔

عباسی دور میں یونان کا جو فلسفہ ترجمہ ہوکر عالم اسلام میں منتقل ہوا، پھر اس کے ذریعے پورپ تک پہنچا ، وہ اپنے قدیم مشرکانہ اعتقادات و تصورات کے ساتھ  منطق کی  ثقیل فرضی اصطلاحات میں منتقل ہواتھا۔  مسلم فلاسفر اور مترجمین  ابتدا میں اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی دفعہ دو ٹوک  انداز میں  امام غزالی اور ابن تیمیہ نے اس نکتہ کو فاش کیا،  یونان کے فلسفہ الہیات  اور علم الاصنام کے اصل راز سے بردہ اٹھایا ۔

"جدید " مسلم

طالب محسن 

ماہنامہ اشراق ،  نومبر 2018

( نوٹ:  بلاگر کا مضمون نگار کی رائی سے متفق ہونا لازمی نہیں )

کیا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کے لیے ’جدید‘ ہونا جرم ہے؟

اگر کسی ایسے آدمی سے یہ سوال پوچھا جائے جو اپنے پرکھوں سے پائی دینی روایت پر عامل ہے اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ روایت سمجھتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اِس کا جواب اثبات میں دے۔ 

دین اسلام کے ساتھ وابستگی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اِس کے علم وعمل کو اُس کی اصل صورت پر قائم رکھا جائے۔

اسلام کی اصل صورت کیا ہے؟

 عملاً اِس سے مراد وہ عقائد ، اوامرو نواہی اور مناسک ہیں جو کسی شخص یا گروہ نے اپنے آبا سے پائے ہیں اور وہ اِنھیں صحیح بھی سمجھتا ہے۔ چنانچہ بریلوی کے لیے اصل دین بریلویت ہے، دیوبندی کے لیے اصل دین دیوبندیت ہے، اہل حدیث کے لیے اصل دین اہل حدیثیت ہے اور اِسی طرح شیعہ کے لیے اصل دین شیعیت ہے۔ 

لہٰذا جب کوئی شخص کسی شخص کو متجدد کہتا یا کسی نئی فکر کو تجدد قرار دیتا ہے تو اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ ’’اپنی روایت‘‘ کو اصل کہہ رہا ہے۔ اِس نئی بات کو جدید قرار دے کر، ایک طرف وہ اپنے ضمیر کو اِس کی تردید کا جواز فراہم کرتا اور دوسری طرف اپنے ہم خیالوں سے داد وصول کرتا ہے، حالاں کہ جس نقطۂ نظر پر وہ خود کھڑا ہے، چندصدیاں پہلے وہ بھی ’’جدید‘‘ تھا۔ ’طرزجدید‘ اور ’انداز کہن‘ جیسے القاب کسی فرد کی نوک زبان اور نوک قلم پر اُس کے موقف کے اعتبار سے آتے ہیں۔ ہر فرد اپنے نقطۂ نظر کو صحیح اسلام قرار دیتا ہے اور اس کا یہ قول اُس کے اِس اعتماد کا مظہرہے کہ وہ حق پر ہے، ورنہ حقیقت اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اُس کی راے آرا میں سے ایک راے ہے اور یہ راے درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔

یہ بات واضح رہے کہ اِس تحریر کا تعلق کارتجدید سے ہے، یعنی یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ تجدید کی ضرورت کیوں ہے؟ تجدد کا عنوان صرف اس فکر پر صادق آتا ہے جو غیر اسلام کو اسلام بنانے کی سعی کا نتیجہ ہو۔ کوئی ’’غیر اسلام‘‘ سے متاثر ہو اور اسلام کی قطع وبرید کرکے اُسے اُس کے مطابق بنادے یا غیر اسلام کو لفاظی یا استدلال کے زور پر اسلام ثابت کر دے۔ اِس شخص کا کام کارتجدد ہے۔ لیکن اسلام کے اپنے نظام استدلال میں رہتے ہوئے نئی آرا قائم کرنا تجدد نہیں ہے، یہ تجدید ہے۔ تجدید کا یہ سلسلہ اسلام کے دور اول میں جاری ہوا اور قیاس یہی ہے کہ قیامت تک جاری رہے گا۔

کسی دینی موقف کے اصل ہونے کی دلیل کیا ہے؟

اِس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ جو دینی موقف قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، وہ اصل دین ہے، لیکن روایتی مکاتب فکر اپنے جواب کو کلام الٰہی اور سنت پیغمبر تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ اِس میں فقہا کے اجماع کا اضافہ کرتے ہیں۔ اور اِس اضافے کا نتیجہ یہ ہے کہ بالفعل اجماع دین کا ماخذ بن جاتا ہے اور قرآن و سنت محض اِس کے دینی استناد کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

 اگر یہ سوال کیا جائے کہ اِس اضافے کی ضرورت کیا ہے؟ 

تحریک استشراق کی حقیقت اور ان کے لٹریچر کے اثرات

حافظ سیف الاسلام     
                     
پی ایچ ڈی اسکالر، اسلامیہ یونیورسٹی، بھاولپور، پاکستان


تعارف: استشراق(Orientalism) اور مستشرق کا لغوی و اصطلاحی معنی

استشراق عربی زبان کے مادہ( ش۔ر۔ق) سے مشتق ہے جس کے معنی شر ق شناسی کے ہیں، یہ اصطلاح زیادہ قدیم نہیں ہے؛ اس لیے قدیم عربی ،فارسی اور اردو معاجم میں شرق تو موجود ہے؛ لیکن زیر بحث الفاظ ، یعنی باب استفعال میں اس کے معنی ومفہوم یا بطور فعل ان لغات سے بحث نہیں پائی جاتی؛ البتہ جدید لغات میں استشراق کا ذکر موجود ہے۔

شرف الدین اصلاحی اس”Orientalist “ کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ لفظ انگریزوں کا وضع کردہ ہے جس کے لیے عربی میں استشراق کا لفظ وضع کیا گیا ہے لفظ ”orient“ بمعنی مشرق اور ”Orientalism“کا معنی شرق شناسی یا مشرقی علوم وفنون اور ادب میں مہارت حاصل کرنے کے ہیں۔ مستشرق ( اشتشرق کے فعل سے اسم فاعل ) سے مراد ایک ایسا شخص ہے جو بہ تکلف مشرقی بنتا ہے ۔(۱)

مولوی عبد الحق صاحب Orientalist کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس شخص کو کہتے ہیں جو ماہر مشرقیات ہو۔ (۲)

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق استشراق اور مستشرق کی اصطلاحات orient سے مشتق ہیں(۳)۔

(Han's Wahr)نے ”عربی ، انگریزی معجم “میں استشراق کے معنی مشرقی علوم اور مستشرق کے معنی مشرقی آداب سے آگاہ یا مشرقی علوم کے ماہر بتائے ہیں۔(۴)

”عربی اعتبار سے ” استشراق “کا سہ حرفی مادہ ” شرق“ ہے ، جس کا مطلب ” روشنی “ اور ”چمک “ ہے ،اس لفظ کو مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اس اعتبار سے شر ق اور مشرق اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں سے سورج طلوع ہو۔(۵)

غامدی صاحب کا تصور سنت

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت:  جون ۲۰۰۸ء

(بلاگر کا مضمون نگار کی رائی سے اتفاق لازمی نہیں ، ہم اس کو  قاریین کے غور وفکر کے لیے  شائع کر رہے ہیں )

محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور سنت کے بارے میں ’الشریعہ‘ کے صفحات میں ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے مختلف اصحاب قلم اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے بھی بعض مضامین میں اس کا تذکرہ کیا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے سنت نبوی کے بارے میں جو انوکھا تصور پیش کیا ہے، اس کے جزوی پہلووں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کی اصولی حیثیت کے بارے میں بھی بحث ومکالمہ ضروری ہے تاکہ وہ جس تصور سنت سے آج کی نسل کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس کا صحیح تناظر سامنے آئے اور اس کو قبول یا رد کرنے کے بارے میں متعلقہ حضرات پورے اطمینان کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔

اسی پس منظر میں گفتگو کے آغاز کے طور پر چند گزارشات قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ محترم غامدی صاحب بھی اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اس مکالمہ میں خود شریک ہوں گے اور اپنے قارئین، سامعین اور مخاطبین کی راہ نمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ

سید ابوالاعلی مودوی ؒ 

ارشاد باری تعالی ہے : 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا   ( سورۃ النساء  59؀ۧ)

ترجمہ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو  اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔"

-----------------------------
مولانا سید ابوالاعلی  مودودی ؒ نے اس آیت کی روشنی میں اسلامی ریاست کے  دستور پر روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں :

" وہ درج زیل اصول پر قائم کیے گئے ہیں :


(۱) اسلامی نظام زندگی میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، سب کچھ اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت ہے۔ دُوسری تماسم اطاعتیں اور وفاداریاں اس کے تحت اورتابع ہوں۔ کوئی امر اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف نہ ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔

(2)اس کے بعد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔“ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔

پارلیمنٹ کی بالادستی

جاوید احمد غامدی 

ماہنامہ اشراق ، 
تاریخ اشاعت،  جولائی 2018ء 

[’’اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]

اسلام اور جمہوریت، دونوں کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے سامنے عملاً سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ اِس کے معنی یہ ہیں اور سیاسی اقدار سے واقف ہر شخص یہی سمجھے گا کہ جو فیصلہ ہو جائے، اُس کے نفاذ میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے، اُس کے خلاف شورش نہ برپا کی جائے، کاروبار حکومت کو اُسی کے مطابق چلنے دیا جائے، اپنے حامیوں کے جتھے منظم کر کے اُن کے ذریعے سے نظم و نسق کو معطل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اُس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں اور لوگوں کو آمادۂ بغاوت نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اُس فیصلے کے نتیجے میں اگر حکومت کسی فرد کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو اُس کو بھی صبر کے ساتھ برداشت کر لیا جائے۔ میں جس ہستی کوخدا کا پیغمبر مانتا ہوں، اُس نے مجھے یہی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

’’تم پر لازم ہے کہ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو، چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اِس کے باوجود کہ تمھارا حق تمھیں نہ پہنچے۔‘‘ (مسلم، رقم ۴۷۵۴)
اِس میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ یہ کہ مجھے خدا کی نافرمانی کا حکم دیا جائے۔ اِس صورت میں، البتہ میں اُس فیصلے کو عملاً بھی رد کر سکتا ہوں، بلکہ میرا فرض ہے کہ رد کر دوں۔

سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد رفعت 


معروف اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۹ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ گویا بیسویں صدی کے بڑے حصے پر آپ کی زندگی محیط ہے۔ اس زمانہ کا مطالعہ کریں تو سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی معنویت سمجھی جاسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ کی ہدایت پر مبنی فکر وپیغام کو خود سمجھنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ دینی فکر کسی شخص کی طرف منسوب نہیں، بلکہ اس کا موزوں نام فکر اسلامی ہے۔ یعنی وہ فکر جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین پر ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں مسلمانوں کے اہلِ علم نے اہم رول ادا کیا ہے۔ وحی الٰہی پر مبنی اس فکر کی مستند تشریح خود نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ آپ کے بعد امت کی ہر نسل اسلامی فکر کو سمجھنے کی، اسے ترقی دینے کی اور اس کا انطباق کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ امت کے اہلِ علم میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اسلامی فکر کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔

کچھ عرصے سے بعض دوستوں نے ’فکر مودودیؒ‘ کی اصطلاح کا استعمال شروع کردیا ہے۔ یہ اصطلاح مناسب نہیں۔ جس فکر کو داعیانِ حق کو پیش کرنا ہے، وہ ’فکر مودودی‘ نہیں بلکہ فکر اسلامی ہے۔ اس کو سمجھنا، فروغ دینا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر صاحبِ علم کی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا کارنامہ یقیناً انجام دیا ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ انھوں نے اسلامی فکر کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

مغربی فکروفلسفہ پر مولانا مودودیؒ کا تبصرہ

ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی

(صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )

اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔

امتِ اسلامیہ کا مقام اور اس کی دعوت

مفکّرِ اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

امتِ اسلامیہ آخری دینی پیغام کی حامل ہے، اور یہ پیغام اس کے تمام اعمال اور حرکات و سکنات پر حاوی ہے، اس کامنصب قیادت و رہنمائی اور دنیا کی نگرانی و احتساب کا منصب ہے، قرآن مجید نے بہت قوت اور صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے:-

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ  (آل عمران - ۱۱۰)

(اےپیروان دعوتِ ایمانی) تم تمام امتوں میں"بہتر امت" ہو جو لوگوں(کی ارشاد و اصلاح) کے لئے ظہور میں آئی ہے، تم نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے ہو۔

دوسری جگہ کہا گیا ہے:-

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ  (البقرہ ۱۴۳)

اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک " امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کےلوگوں پر گواہ ہو۔