سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

 بی بی سی اردو 
۱۴ جنوری ۲۰۲۴

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدرت کے راز جاننے سے زیادہ دلچسپ ہیں اور ان کے بارے میں جاننا صرف ذہین لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہ لطف ہے جو ہر کسی کو میسر ہے۔

اس وقت کے بارے میں سوچے جب آپ نے کسی پہیلی کا جواب تلاش کر لیا ہوں کیونکہ اکثر ایسی کسی پہیلی کے جواب کی تلاش میں لوگ بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ایسے ہی آج سائنسی تحقیق نے جہاں بے پناہ ترقی کر لی ہے لیکن اب بھی چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔

ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔

لہٰذا سائیکل کس طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات کا ایک وسیع سمندر ہے۔

یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔

لیکن قدرت کے ان ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک کسوٹی بنے رہے ہیں۔

 

1.    کائنات کس چیز سے بنی ہے؟

 

کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بہ پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

صحت کی حفاظت کے لیے کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟

بی بی سی اردو ۱۸ اگست ۲۰۲۳
صحت کی حفاظت کے لیے کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیے۔

مشہور مقولہ ہے کہ احتیاط، علاج سے کہیں بہتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور کیا ہمیں اپنی صحت کی کوئی فکر بھی لاحق رہتی ہے؟

آج کے دور میں 30 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اولاد خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اُن پر کام کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہمارے لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔

اپنے جسم پر توجہ دے کر ہم ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق 30 کی دہائی میں طرز زندگی کی بیماریاں جیسے دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ایسی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔


مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔
بی بی سی اردو
اشاعت : 6 جون 2023 م

مستقبل میں جن ملازمتوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی وہ پہلے ہی ہمارے آس پاس موجود ہیں۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی کے اس خدشے کے باوجود کہ ٹیکنالوجی میں ترقی ملازمتیں ختم کر دے گی، آنے والے برسوں میں متعدد نئے مواقع ہمارے سامنے ہوں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور سینٹر فار نیو اکانومی اینڈ سوسائٹی کی سربراہ سعدیہ زاہدی نے کہا کہ ’ہم سب نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے اور اسے مختلف صنعتوں میں کتنی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔‘

اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر جن دو پیشوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی ان میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سرِ فہرست ہیں تاہم ڈبلیو ای ایف کے مطابق ایسے دیگر مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ماحولیاتی پائیداری کے ماہرین یا زرعی آلات کے آپریٹرز کی خدمات ایسی ملازمتیں ہیں جن کی اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ مانگ ہو گی۔

یہ تخمینے سوئس تنظیم نے 803 بڑی کمپنیوں کے تفصیلی سروے کی بنیاد پر لگائے ہیں جو دنیا کے تمام خطوں کی 45 معیشتوں میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت دیتی ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے ؟


کیا مصنوعی ذہانت بقائے  انسانیت کے لیے خطرہ ہوسکتی  ہے ؟ 

برطانیہ کے معروف سائنس دان سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں ایک سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔‘

اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

سٹیون ہاکنگ بات چیت کے لیے امریکی کمپنی انٹیل کا بنایا ہوا نظام استعمال کرتے ہیں جس کی تخلیق میں برطانوی کمپنی سوئفٹ سے تعلق رکھنے والے مشینوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم انھیں ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔

انھوں نے کہا ’یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔‘

جینیئس یا نابغہ افراد میں کونسی خصوصیات ہوتی ہیں؟

ڈیوڈ رابسن : عہدہ,بی بی سی ، فیوچر، 20 نومبر 2022

سنہ 1920 کے عشرے کے آخر میں ایک محنت کش گھرانے کا نوجوان جس کا عرفی نام ’رِٹی‘ تھا، نیو یارک کے علاقے راکوے میں اپنے گھر پر زیادہ تر وقت اپنی ’لیبارٹری‘ میں گزارتا تھا۔ اس کی تجربہ گاہ کیا تھی محض لکڑی کا ایک پرانا کھوکھا، جس میں کئی شیلف تھے اور اسی کھوکھے میں رٹی نے ایک بیٹری، بجلی کے بلب کا ایک سرکٹ، کچھ سوئچ اور ایک ریزسٹرلگا رکھا تھا۔

رِٹی کو اپنی ایجادات میں سے ایک پر سب سے زیادہ ناز تھا۔ یہ ایک چور الارم تھا اور اس کے والدین جب بھی اس کی لیبارٹری میں آتے تو الارم بج اٹھتا اور رٹی کو معلوم ہو جاتا ہے کوئی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔

اپنے اردگرد کی قدرتی دنیا کا مطالعہ کرنے کے لیے رٹی ایک خوردبین استعمال کرتا تھا، اور بعض اوقات دوسرے بچوں کو کرتب دکھانے کے لیے اپنی کیمسٹری کٹ باہر گلی میں بھی لے جاتا تھا۔

رٹی کے ابتدائی تعلیمی ریکارڈ میں کوئی خاص بات نہ تھی۔

اسے ادب کے مضامین اور غیر ملکی زبانیں پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی حالانکہ مبینہ طور پر بچپن میں ذہانت یا آئی کیو کے ٹیسٹٹ میں اُس کا سکور 125 کے قریب تھا جو کہ اوسط سے زیادہ تھا لیکن کسی بھی طرح اس سکور کا شمار ’جینیئس‘ میں نہیں ہو سکتا تھا۔

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی

 بی بی سی اردو 

15 ستمبر 2020ء 

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی، جن کے کام کو ’خطرناک‘ اور ’جادو‘ گردانا گیا

ریاضی دان محمد ابن موسی الخوارزمی

بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسلامی دور‘ کی اِس قسط میں لکھاری اور براڈ کاسٹر جم الخلیل ہمیں الخوارزمی کی بارے میں بتا رہے ہیں۔ محمد ابن موسیٰ الخوارزمی ایک فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات، نجومی، جغرافیہ نگار اور بغداد کے بیت الحکمت سے منسلک ایک سکالر تھے۔ اس دور میں بیت الحکمت سائنسی تحقیق اور تعلیم کا ایک معروف مرکز تھا اور سنہرے اسلامی دور کے بہترین دماغ یہاں جمع ہوتے تھے۔ الخوارزمی فارس میں 780 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے اور وہ اُن پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے جنھیں بیت الحکمت میں خلیفہ المامون کی رہنمائی میں کام کرنے کا موقع ملا جو خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے تھے۔ بی بی سی اردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔

’فرض کریں کہ ایک شخص بیماری کی حالت میں دو غلاموں کو آزاد کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک غلام کی قیمت 300 درہم اور دوسرے کی 500 درہم ہوتی ہے۔ جس غلام کی قیمت 300 درہم تھی وہ کچھ عرصے میں وفات پا جاتا ہے اور اپنے ورثا میں صرف ایک بیٹی چھوڑتا ہے۔ پھر اُن غلاموں کا مالک بھی وفات پا جاتا ہے اور ان کی وارث بھی اُن کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے۔ وفات پانے والا غلام 400 درہم مالیت کی جائیداد چھوڑ ترکے میں چھوڑ جاتا ہے۔ تو اب ہر کسی کے حصے میں ترکے میں سے کتنا حصہ آئے گا؟‘

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

بی بی سی اردو
10 جنوری 2023ء

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیا کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ اصطلاح لاطینی لفظ ’کیلر‘ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیولر نیورو اینڈ کرائنولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جائلز ییو بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ 'نکولس کلیمنٹ نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے لی جانے والی حرارت کی مقدار ہے۔‘

چھٹی حس یا پروپریوسیپشن کیا ہے ؟

بی بی سی اردو 

9 جنوری 2023ء 

 ہم نیند کے دوران بیڈ سے گِرتے کیوں نہیں؟

اگر آپ رات کو آنکھیں بند کریں اور آپ کی آنکھیں صبح سویرے خود بخود ہی کُھل جائیں تو آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اچھی اور پُرسکون نیند میسر ہوتی ہے۔

ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم اور دماغ دونوں حرکت میں ہوتے ہیں۔

ہم خواب دیکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لوگوں پر چیختے ہیں۔ کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو بستر پر گھومتے، جھومتے اور جھول لیتے ہیں۔

مگر چاہے ہم 65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ خواب خرگوش میں رات کتنی ہی مصروف گزری ہو۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟

گوگل کو ٹکر دینے والے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کیا ہے ؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 6 جنوری 2023ء 

 گوگل کو ٹکر دینے والے ’چیٹ جی پی ٹی‘ میں نیا کیا اور طلبا اس سے اتنے خوش کیوں ہیں؟

یوں تو انٹرنیٹ پر چیزیں سرچ کرنے کے لیے متعدد سرچ انجن موجود ہیں لیکن گذشتہ دو دہائیوں سے گوگل نے اس حوالے سے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔

تاہم گذشتہ برس کے اواخر میں لانچ ہونے والے تہلکہ خیز چیٹ باٹ کی بے پناہ مقبولیت کے باعث اب بظاہر اسے بھی خطرہ درپیش ہے۔

مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے نومبر کے اواخر میں چیٹ جی پی ٹی کے نام سے ایک چیٹ باٹ لانچ کیا گیا تھا جسے ایک ہفتے کے اندر 10 لاکھ سے زیادہ صارفین نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

تاہم کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی سے صارفین کو ان کے سوالات کے متنازع جوابات بھی مل سکتے ہیں اور اس کا رویہ کچھ معاملات میں متعصبانہ بھی ہو سکتا ہے۔

تاہم اس وقت سوشل میڈیا پر نوجوان طلبا اے آئی چیٹ بوٹ سے سب سے زیادہ خوش ہیں کیونکہ اب انھیں لگتا ہے کہ ان کے لیے سکول، کالج یا یونیورسٹی کا کام کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 27 دسمبر 2022ء 

 یہ دنیا کے لیے 10 ارب ڈالر کا تحفہ تھا، ایسی مشین جو اس کائنات میں ہمیں ہماری حیثیت سے روشناس کروانے والی تھی۔ 

آج سے ایک برس قبل جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ (یعنی دسمبر 2021 ء) کرسمس کے موقع پر لانچ کی گئی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی، ڈیزائننگ اور تیاری میں تین دہائیاں لگی تھیں۔ 

جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟ 

کئی لوگوں کو اس حوالے سے خدشات تھے کہ مشہورِ زمانہ ہبل سپیس ٹیلیسکوپ کی جانشین کہلائی جانے والی یہ دوربین کیا واقعی توقعات پر پوری اتر سکے گی۔ 

ہمیں اس کی لانچ کے بعد کچھ مہینے انتظار کرنا پڑا جس دوران اس کا شاندار ساڑھے چھ میٹر قطر والا شیشہ کھلا اور اس نے خود کو فوکس کیا۔ اس دوران اس کے دیگر سسٹمز بھی ٹیسٹنگ اور کیلیبریشن سے گزرتے رہے۔

مگر پھر یہ بالکل وہی چیز ثابت ہوئی جو کہ کہا جا رہا تھا۔ امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے جولائی میں اس کی پہلی رنگین تصوایر جاری کیں۔ 

اس صفحے پر آگے موجود تصاویر وہ ہیں جو شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہوں۔ 

جیمز ویب ٹیلیسکوپ کے بارے میں آپ سب سے پہلے جو چیز نوٹ کریں گے وہ یہ کہ یہ ایک انفراریڈ ٹیلیسکوپ ہے۔ یہ آسمان کو روشنی کی اُن ویو لینتھس (طول الموج) میں بھی دیکھ سکتی ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ 

ماہرینِ فلکیات اس کے مختلف کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں، جیسے کہ گیس اور دھول کے ان بلند و بالا ٹاورز کا۔ 

کیا عقل و شعور کے سنہری دور میں رہنے والا انسان ’ذہانت کی معراج‘ پر ہے؟

آپ نے شاید محسوس نہ کیا ہو، لیکن ہم عقل و شعور کے سنہری دور میں رہ رہے ہیں۔

سو سال پہلے جب سے ذہانت جانچنے کا پیمانہ آئی کیو ایجاد ہوا ہے ہمارا سکور بڑھتا ہی رہا ہے۔ آج ایک اوسط درجے کی ذہانت کے حامل شخص کو سنہ 1919 میں پیدا ہونے والے شخص کے مقابلے میں جینیس یعنی اعلی ذہانت رکھنے والا سمجھا جاتا۔ اس اصول کو فلِن اِیفیکٹ کہتے ہیں۔

ہماری اس ذہنی صلاحیت میں یہ اضافہ خوشی کی بات ہے، مگر کب تک؟ حالیہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ صلاحیت ماند پڑ رہی ہے، بلکہ انحطاط پذیر ہے۔ یعنی ہم عقل و شعور کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذہانت کی انتہا کو پہنچا بھی جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو   پھر مستقبل کے انسان کے لیے عروج کے بعد زوال کا مطلب کیا ہوگا۔
ازمنۂ قدیم میں انسانی ذہانت کی ابتدا کیسی ہوئی؟ یعنی وہ وقت جب تیس لاکھ برس پہلے ہمارے اجداد نے دو ٹانگوں پر کھڑے ہو کر چلنا شروع کیا۔ متحجر یا پتھر بن جانے والی کھوپڑیوں کے سکین سے پتا چلاتا ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے بِن مانَس، آسٹرالوپیِتھیکس، کا دماغ 400 مکعب سینٹی میٹر بڑا تھا جو آج کے انسانی دماغ کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

ایلون مسک: دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے ’چھ‘ راز کون سے ہیں؟

ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز کون سے ہیں ؟
بی بی سی کا نمائندہ جسٹن روالٹ نے 11جون 2021 کو ایک رپوٹ شائع کی ہے، اس میں انہوں نے انکشاف کیاہے کہ ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز ہیں، جو ایمازون کے بانی جیف بیزوس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے سب سے امیر شخص بن گئے ہیں۔

الیکٹرک کار کمپنی کے حصص کی قیمت میں اضافے کے بعد ’ٹیسلا‘ اور ’سپیس ایکس‘ کے مالک کی دولت کی مجموعی مالیت 185ارب ڈالر کو عبور کر چکی ہے۔

تو ایلون مسک کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ آئیے اس رپوٹ میں جائزہ لیتے ہیں ۔ 

1. صرف اور صرف پیسے کمانے کے بارے میں مت سوچیں

یہ رول کاروبار کے بارے میں ایلون مسک کے رویے کے مرکزی خیال کا عکاس ہے۔
جب میں نے 2014 میں ان سے انٹرویو لیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کتنے امیر ہیں۔

انھوں نے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ کہیں نقدی کا ڈھیر پڑا ہو۔ یہ صرف اتنی سی بات ہے کہ میرے پاس ٹیسلا، سپیس ایکس اور سولر سٹی میں ووٹوں کی ایک خاص تعداد ہے اور مارکیٹ میں ان ووٹوں کی اہمیت ہے۔‘

ایلون مسک دولت کمانے کے شوقین افراد کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں دولت کے پیچھے ضرور دوڑیے ’بشرطیہ کہ یہ اخلاقی اور اچھے انداز میں ہو‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز (دولت) ان کی آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
یقینی طور پر ان کا یہ طرزِ عمل کام کر رہا ہے۔

ان کی الیکٹرک کاروں کی کمپنی، ٹیسلا نے خاص طور پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گذشتہ سال کے دوران اس کمپنی کے حصص میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 700 ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ چکی ہے۔

اور آپ صرف ایک کمپنی ٹیسلا کی مالیت کے ذریعے فورڈ، جنرل موٹرز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن اور فیاٹ کرسلر جیسی کمپنیاں خرید سکتے ہیں، اور اس کے باوجود آپ کے پاس فراری خریدنے کے لیے رقم بچ جائے گی۔

ہم سوتے کيوں ہيں؟

 سائنسدان اب بھی واضح طور پر یہ بات نہیں جانتے مگر یہ واضح ہے کہ نیند دماغ کو یادداشت مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے اور مزاج، توجہ اور اندرونی نظام کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔

اس کے علاوہ نیند دماغ کو اپنے آپ کو صاف کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

اچھی نیند کے لیے مشورے

خود کو دن میں مصروف اور متحرک رکھ کر تھکائیں مگر جیسے جیسے سونے کا وقت قریب آنے لگے تو سرگرمیاں سست کر دیں

دن کے وقت سونے سے گریز کریں

رات کے وقت کا اچھا معمول بنائیں اور یہ یقینی بنائیں کہ آپ کا بیڈ روم آرامدہ اور نیند کے لیے سازگار ہے۔ موٹے پردے یا سیاہ بلائنڈز، کمرے کا آرامدہ ٹمپریچر اور بستر ضروری ہیں جبکہ بستر میں سمارٹ فون وغیرہ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

نیند کے وقت سے پہلے کیفین یا الکوحل کا استعمال بند کر دیں

اگر آپ نہ سو پائیں تو زبردستی نہ کریں اور نہ ہی پریشان ہوں۔ بلکہ اٹھ جائیں اور کتاب پڑھنے جیسا کوئی سکون آور کام کریں اور جب نیند کا غلبہ محسوس ہو تو واپس بستر پر لوٹ جائیں

آگر آپ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں تو نائٹ شفٹ شروع ہونے سے پہلے ایک مختصر نیند لے لیں۔ اگر آپ رات کی شفٹوں سے ہٹ رہے ہیں تو دن میں تھوڑا سا آرام کر لیں تاکہ دن گزر جائے اور پھر اس شام جلدی سونے چلے جائیں۔

بليک واٹر کيا ہے ؟

بلیک واٹر کو ’الکلائن واٹر‘ یا ’الکلائن آیونائزڈ واٹر` بھی کہا جاتا ہے۔

طبی جریدے ’ایویڈنس بیسڈ کمپلیمنٹری اینڈ آلٹرنیٹو میڈیسن‘ (ای بی سی اے ایم) کے مطابق جم یا جسمانی ورزش کے بعد یا جسم سے بہت زیادہ پسینہ بہہ چکا ہو تو بلیک واٹر کا استعمال کچھ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دراصل، یہ جسم میں الیکٹرولائٹس کی فراہمی کو بڑھاتا ہے۔

ای بی سی اے ایم کے مطابق لیب میں چوہوں پر کیے گئے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ الکلائن پانی جسمانی وزن کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے میٹابولزم (میٹابولزم) کا عمل بھی تیز ہوتا ہے۔

ہبل خلائی دوربین جس نے کائنات کے بہت سارے راز فاش کیے

بی بی سی اردو ، 6 مئی 2019

 ہبل ٹیلیسکوپ کیا ہے؟



ہبل ایک خلائی دوربین ہے جسے امریکہ کی خلائی ایجنسی ناسا نے سنہ 1990 میں خلا میں بھیجا تھا۔ یہ اُس وقت کی بڑی اہم پیش رفت تھی کیونکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دوربین کو خلا میں بھیجا گیا۔


یہ خلائی دوربین زمین کے مدار میں ہی سفر کرتی ہے اور اس میں ایک ڈیجیٹل کیمرا بھی موجود ہے جس سے وہ پچھلے کئی برسوں سے خلا کی تصویریں لے کر زمین پر بھیج رہی ہے۔


ناسا کے مطابق ہبل ایک سکول بس جتنی بڑی ہے اور اس کا وزن دو بالغ ہاتھیوں جتنا ہے۔


ہبل ایک گھنٹے میں 27،300 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے لہذا یہ محض 95 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کر لیتی ہے۔


ہبل نے کیا کچھ دیکھا ہے؟

ناسا کا کہنا ہے کہ ہبل نے ستاروں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا ہے اور اس نے ایسی کہکشاؤں کو بھی دیکھا ہے جو اس سے کئی کھرب میل دور موجود ہیں۔

ڈبلیو ٹی او معاہدہ جس نے چین اور دنیا کی معاشی تقدیر بدل دی


فیصل اسلام، اکنامکس ایڈیٹر 
بى بى سى اردو،  11دسمبر 2021ء



2001 میں امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے اور اس کے نتائج ہی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے۔ لیکن اس حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا پر 9/11 کے اثرات سے بھی زیادہ بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر اس وقت زیادہ دھیان نہیں دیا گیا لیکن اس کے معاشی اور جغرافیائی اثرات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ یہی معاہدہ عالمی مالیاتی بحران کی جڑ بنا۔ اسی کی بنا پر صنعتی پیداوار سے جڑی نوکریاں چین کے حوالے کر دی گئیں جس نے مغربی دنیا خصوصاً جی سیون ممالک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا۔

اس وقت اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں، جن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی شامل تھے، کا ماننا تھا کہ 'جمہوریت کی سب سے مضبوط اقدار سمجھی جانے والی معاشی آزادی کی چین تک رسائی سے دنیا کے سب سے زیادہ آّبادی والے ملک میں سیاسی آزادی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔'

ناسا کی دوربین جیمز ویب

 22نومبر 2021، بى بى سے اردو

سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔

ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کی ماہر فلکیات ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کہتی ہیں کہ ’اس قدر بڑی اور بلند نظر ٹیلی سکوپ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ خیال ہے کہ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کو پوچھنے کے بارے میں ہم نے ابھی تک سوچا بھی ںہیں۔‘

’یہ خیال کہ ہم کائنات کے بارے میں وہ چیزیں جان سکیں گے جو مکمل طور پر ہمیں حیران کر دیں گی، میرے لیے یہ اس دوربین کا سب سے دلچسپ پہلو ہے۔‘

لیکن یہ کام کیسے کرے گی اور یہ کب تک ممکن ہو گا کہ ہم اس کے ذریعے اصل کہکشاؤں کو دیکھ سکیں گے؟

بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ مدار میں اب تک بھیجے جانے والے سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی جس کا قطر ساڑھے چھ میٹر ہے۔ یہ فلکیاتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے مکمل طور پر کھلنے میں دو ہفتے تک کا وقت لگے گا۔

جمیز ویب ٹیلی سکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا 10 ارب ڈالر کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کو آریان فائیو راکٹ کے ذریعے فرانسیسی گنی سے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں چھوڑا جائے گا۔

زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کے اپنے مشاہداتی مقام تک پہنچنے کے لیے اس ٹیلی سکوپ کو 30 دن تک سفر کرنا پڑے گا۔

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟
 سونا (Gold) ایک عنصر اور دھات کا نام ہے۔ جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے انتہائی مہنگا ہے۔ اس کا ایٹمی نمبر 79 ہے۔ قیمتی دھات ہونے کی وجہ سے یہ صدیوں سے روپے پیسے کے بدل کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ دولت کی علامت ہے، اس کے سکے بنائے جاتے ہیں، زیورات میں استعمال ہوتا ہے، یہ چٹانوں میں ذروں یا پتھروں جیسی شکل میں ملتا ہے، یہ نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

زیادہ تر دھاتیں چاندی یا ایلومینیئم کی طرح سفید ہوتی ہیں لیکن صرف سونے اور سیزیئم کا رنگ نمایاں پیلا ہوتا ہے جبکہ تانبا واضح گلابی رنگ کا ہوتا ہے۔

خالص سونا بے حد نرم دھات ہے جس سے بنے زیور بڑی آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے سونے میں کوئی دوسری دھات ملائی جاتی ہے تاکہ زیورات پائیدار ہوں۔ سونے میں دوسری دھاتیں ملانے سے سونے کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور زیورات کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔