انسانیت کے مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
انسانیت کے مسائل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جوہری ہتھیار دنیا میں کتنے ہیں اور کن ممالک کے پاس ہیں؟

بی بی سی اردو 27 فروری 2022ء

جوہری ہتھیار کیا ہیں؟


یہ انتہائی طاقتور دھماکہ خیز ہتھیار ہوتے ہیں۔ آپ نے سکول میں سائنس کی کلاسوں میں ایٹم اور آئسوٹوپ کا ذکر سنا ہو گا۔

یہ دونوں جوہری دھماکہ کرنے میں اہم ہوتے ہیں۔ بم کو ایٹم توڑنے یا ان کے اندر موجود خفیف ذرات کو ملانے سے توانائی ملتی ہے۔ اسی لیے جوہری بم کو اکثر ایٹم بم بھی کہا جاتا ہے۔
جوہری ہتھیار کیا ہیں ؟


جوہری بم تاریخ میں صرف دو بار استعمال ہوئے ہیں سنہ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے جن سے شدید تباہی اور بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔


ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم کے اثرات کئی ماہ تک رہے اور اندازے کے مطابق 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ناگاساکی پر گرائے جانے والے بم سے 70 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد کسی بھی جنگ میں ان کا استعمال نہیں ہوا۔

جوہری ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں تابکاری خارج ہوتی ہے۔ دھماکے کے بعد بھی اس کے اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں جس سے متلی، الٹیاں، اسہال، سر درد اور بخار ہو جاتا ہے۔

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا جہاز کیسے ڈوبا ؟

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا جہاز کیسے ڈوبا ؟
 2مارچ 2022ء بی بی سی اردو کے مطابق : 

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا مال بردار بحری جہاز سمندر میں ڈوب گیا

’فلیسیٹی ایس‘ نامی مال بردار بحری جہاز شمالی بحر اوقیانوس کے ٹھنڈے پانیوں میں جب آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا تو جہاز پر سوار کپتان سمیت عملے کے 22 خوش قسمت افراد کی جان بچائی جا چکی تھی۔

لیکن اس جہاز پر لدا مال اتنا خوش قسمت نہیں رہا۔ اور یہ کوئی عام مال نہیں بلکہ دنیا کی مہنگی ترین چار ہزار گاڑیاں تھیں جن کی مالیت تقریبا 27 ارب روپے تھی۔

جی ہاں۔ آپ نے درست پڑھا۔ 27 ارب پاکستانی روپے جو تقریبا 155 ملین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

ان چار ہزار گاڑیوں میں زیادہ تر لگژری کارز تھیں۔ ان میں پورشے اور بینٹلے جیسی مہنگی ترین گاڑیاں بھی شامل تھیں جن کی انفرادی قیمت ہی 70 ہزار برطانوی پاؤنڈ تک ہوتی ہے۔

لگژری کاریں بنانے والی بینٹلے کمپنی کے مطابق جہاز پر اُن کی 189 نئی نویلی گاڑیاں موجود تھیں جبکہ پورشے کمپنی نے کہا ہے کہ ڈوبنے والے جہاز پر ان کی 1100 گاڑیاں لدی ہوئی تھیں۔یہ گاڑیاں جرمنی سے امریکہ کے ’روڈ آئی لینڈ‘ پہنچائی جانی تھیں جہاں اُن کو صارفین کے حوالے کر دیا جاتا مگر دوران سفر ہی بحری جہاز آہستہ آہستہ پانی میں غرق ہونے لگا۔

" ففتھ جنریشن وار فیئر" کی اصطلاح اور پاکستان میں اس کی حقیقت ! علی احمد ڈھلوں

عراق پر امریکی جنگی طیاری کی بمباری کا  ایک منظر  
( روزنامہ ایکسپریس ، 24 جنوری 2020ء )

پاکستان میں آج کل ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کافی عام ہو گیا ہے۔ مختلف مواقع پر  دہرایا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اس اصطلاح کو سمجھنے کے سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ اب جنگیں لڑنے کا اسٹائل بدل گیا۔

کسی زمانے میں فوجیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی تھیں، جس کی فوجی تعداد زیادہ ہوتی وہ جیت جاتا تھا۔ پھر ہتھیار اہم ہوئے، جدید ہتھیار، ٹیکنالوجی والے میدان مار لیتے۔ پھر معیشت زیادہ اہم ہوئی۔یہ سب اصطلاح کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر، سیکنڈ جنریشن وارفیئر ، تھرڈ جنریشن وار فیئر تھے۔ فورتھ جنریشن وار فیئر میں دہشت گردی کے ہتھیار کو برتا گیا۔ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیمیںپیدا ہوئیں یا کی گئیں۔

بعض ماہرین کے خیال میں روس کو زچ کرنے کے لیے ان ڈائریکٹ طریقے سے چیچن مسلح مزاحمت کو بھی سپورٹ کیا گیا۔ یہاں پر چلتے چلتے سمجھ لیں کہ جنریشن سے مراد زیادہ جدید ، ایڈوانس معاملہ ہے۔ خیر عالمی قوتوں کو یہ محسوس ہوا کہ تھرڈجنریشن اور فورتھ جنریشن وار فیئر کے امتزاج کے باوجود بعض جگہوں پر کامیابی نہیں ہو رہی۔ یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں کہیں پر خراب معیشت ، کم عسکری قوت کے باوجود مکمل شکست نہیں ہو پا رہی۔

وہاں قوم کا اتحاد اور یک جہتی رکاوٹ تھی،وطن پرستی اور ایک قوم ہونے کی وجہ سے مزاحمت جاری ہے۔ تب نیا فیز آیا، جسے ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جا رہا ہے۔یہ نظریات کی جنگ ہے۔مختلف نظریاتی، مسلکی، فکری ایشو کھڑے کر کے کسی بھی قوم کو تقسیم کرنا۔ان کے مابین ایسی نفرتیں پیدا کر دینا، جس سے کوئی خاص مسلکی، لسانی، علاقائی گروہ یا آبادی اس قدر ناخوش، بیزار اور ناراض ہوجائے کہ ملکی سالمیت کی جنگ اس کے لیے اہم نہ رہے۔ مختلف جگہوں پر اس کے مختلف ماڈل آزمائے گئے۔

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ

31 اگست 2019ء کو بی بی سی اردو میں ایک رپورٹ شائع ہوئی انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نژاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔


حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔

یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔

آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔