منظرنامہ:
)ایک جدید طرز
کا اسٹوڈیو، جہاں مختلف مسلم دانشوروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ میزبان، ایک پُراثر
آواز رکھنے والا شخص، اپنی نشست سنبھالتا ہے۔ حاضرین کی ہلکی سرگوشیوں کے درمیان
پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔(
میزبان:
خواتین
و حضرات! آج کی اس تاریخی مجلس میں، ہم اسلامی فکر کے ان چراغوں کو دعوت دے رہے ہیں
جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے علم اور بصیرت سے روشنی پھیلائی۔ ہمارے
ساتھ موجود ہیں امام غزالی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، فلسفی ابن رشد، تاریخ و عمرانیات
کے ماہر ابن خلدون، اور مجدد شاہ ولی اللہ! ہم ان عظیم شخصیات سے علمی و فکری
مسائل پر گفتگو کریں گے۔
)تمام شخصیات
اپنی نشست سنبھالتی ہیں، ایک غیر مرئی روشنی ان کے چہروں پر پڑ رہی ہے۔ گفتگو کا
آغاز ہوتا ہے۔(
میزبان:
پہلا
سوال امام غزالی سے! آپ نے فلسفہ پر سخت تنقید کی اور "تہافۃ الفلاسفہ"
جیسی معرکہ آراء کتاب لکھی۔ آپ کے خیال میں اسلامی عقائد کے لیے فلسفہ کیوں خطرہ
تھا؟
امام
غزالی:
بسم
اللہ الرحمن الرحیم! فلسفہ جب اپنی حدود میں رہے تو مفید ہے، مگر جب یہ وحی کی جگہ
لینے کی کوشش کرے تو فکری گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔ میں نے یونانی فلسفے کا باریک
بینی سے مطالعہ کیا اور پایا کہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات بعض مقامات پر اسلامی
عقائد سے متصادم ہیں۔ میں نے ان فکری تضادات کو "تہافۃ الفلاسفہ" میں بے
نقاب کیا۔
میزبان:
لیکن
ابن رشد، آپ نے اس کا جواب "تہافۃ التہافۃ" میں دیا اور فلسفے کا دفاع کیا۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ امام غزالی کی تنقید درست نہ تھی؟
ابن
رشد:
امام
غزالی نے فلسفے کے بعض پہلوؤں کو غلط سمجھا۔ میرا ماننا ہے کہ وحی اور عقل ایک
دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکمیل کرنے والے ہیں۔ فلسفہ انسانی عقل کی
معراج ہے، اور اگر ہم نے اسے ترک کر دیا تو ہم سائنسی اور منطقی ترقی سے پیچھے رہ
جائیں گے۔ میں نے "فصل المقال" میں ثابت کیا کہ فلسفہ اور شریعت میں کوئی
تضاد نہیں، بلکہ دونوں یکجا ہو سکتے ہیں۔
میزبان:
ابن
تیمیہ! آپ نے فلسفہ اور تصوف دونوں پر تنقید کی اور "درء تعارض العقل
والنقل" میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عقل وحی کے تابع ہونی چاہیے۔ اس پر
آپ کیا کہیں گے؟
ابن
تیمیہ:
اللہ
کی کتاب اور نبی اکرمﷺ کی سنت ہمارے لیے کافی ہے۔ فلسفہ اور منطق کے پیچیدہ مباحث
میں الجھنے کے بجائے ہمیں خالص دین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسلامی عقائد کو کسی
فلسفیانہ توجیہ کی ضرورت نہیں، بلکہ سادہ اور فطری انداز میں انہیں اپنانا ضروری
ہے۔
میزبان:
ابن
خلدون! آپ نے تاریخ و عمرانیات کو ایک نئے انداز میں دیکھا اور "مقدمہ"
لکھی، جو آج بھی جدید سماجی علوم کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک مسلم تہذیب
کے زوال کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
ابن
خلدون:
ہر
تہذیب کی عمر ایک خاص دورانیے پر محیط ہوتی ہے۔ جب ایک قوم اپنے اصولوں سے انحراف
کرتی ہے، سہولت پسندی اختیار کرتی ہے، علم و تحقیق سے کنارہ کش ہو جاتی ہے، تو
زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ میں نے "عصبیت" کے اصول کے تحت ثابت کیا کہ
اتحاد اور مقصدیت کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
میزبان:
شاہ
ولی اللہ! آپ نے امت کے اتحاد پر زور دیا اور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان پل
بنانے کی کوشش کی۔ آج کی دنیا میں اس اتحاد کی کیا اہمیت ہے؟
شاہ
ولی اللہ:
امت
مسلمہ کو انتشار نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ میں نے "حجۃ اللہ
البالغہ" میں اجتہاد کی راہ ہموار کرنے کی بات کی تاکہ نئے فکری چیلنجز کا حل
نکالا جا سکے۔ ہمیں باہمی اختلافات کو ختم کر کے مشترکہ اسلامی اصولوں پر متحد
ہونا ہوگا۔
میزبان:
آخر
میں، آپ سب سے ایک سوال! کیا آج کا مسلم نوجوان ان فکری مسائل کا سامنا کرنے کے لیے
تیار ہے؟
امام
غزالی:
اگر
وہ اپنی عقل کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے اور وحی کو اپنی رہنمائی مانے، تو یقیناً!
ابن
رشد:
اگر
وہ علم و تحقیق کے دروازے کھولے، تو ہاں!
ابن
تیمیہ:
اگر
وہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، تو ضرور!
ابن
خلدون:
اگر
وہ اپنی تہذیب کی تاریخ سے سبق سیکھے، تو بالکل!
شاہ
ولی اللہ:
اگر
وہ اختلافات سے نکل کر اتحاد پر آ جائے، تو کامیاب ہوگا!
(تالیاں بجنے لگتی ہیں، منظر دھندلا ہوتا ہے، اور پروگرام کا
اختتام ہوتا ہے۔)