احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

میڈیا، فیک نیوز اور قرآن حکیم : ایک تجزیاتی مطالعہ

دورِ جدید میں میڈیا انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ معلومات کی تیز رفتار ترسیل نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی فیک نیوز (Fake News) اور گمراہ کن اطلاعات کا سیلاب بھی آیا ہے۔ قرآنِ کریم، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہمیں اس فتنے سے محفوظ رہنے کے اصول فراہم کرتا ہے۔ اس تحریر میں ہم میڈیا کے کردار، فیک نیوز کے اثرات، اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس کے سدباب پر غور کریں گے۔

1. میڈیا اور معلومات کی ترسیل

میڈیا کا بنیادی کام معلومات کی فراہمی ہے، جو مختلف شکلوں میں ہوسکتی ہے:

  • روایتی میڈیا: اخبارات، ریڈیو، ٹی وی

  • ڈیجیٹل میڈیا: ویب سائٹس، سوشل میڈیا، یوٹیوب

  • سوشل میڈیا: فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، ٹیلیگرام

ان ذرائع نے جہاں معلومات کی رسائی کو آسان بنایا ہے، وہیں افواہوں اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو بھی ممکن بنایا ہے۔

2. فیک نیوز: ایک خطرناک ہتھیار

فیک نیوز کسی بھی غلط، جھوٹی یا گمراہ کن خبر کو کہتے ہیں جسے کسی مخصوص ایجنڈے، پروپیگنڈے، یا سنسنی پھیلانے کے لیے پھیلایا جاتا ہے۔

فیک نیوز کے مقاصد:

  • عوام کو گمراہ کرنا

  • کسی خاص نظریے یا سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا

  • شخصیات یا گروہوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا

  • فرقہ واریت اور انتشار کو ہوا دینا

دانش کی مجلس: "فقہائے اسلام کا مکالمہ"

یہ مکالمہ ایک علمی، غیر جانبدار اور فکری نشست کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے، تاکہ قاری کو اسلامی فقہ کے بنیادی اختلافات اور ان میں ہم آہنگی کا راستہ سمجھنے میں مدد ملے۔

(ایک فکری نشست جس میں اسلامی تاریخ کے پانچ عظیم فقہاء ایک ہی میز پر جمع ہیں، اور میزبان ان سے فقہی اختلافات، ان کے دلائل اور امت کے لیے یکجہتی کا راستہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔)


📺 سیٹ اپ:
ایک پُروقار اسٹوڈیو، جہاں پانچ ممتاز فقہاء: امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق تشریف فرما ہیں۔ درمیان میں میزبان، جو سوالات کے ذریعے اس علمی مکالمے کو آگے بڑھا رہا ہے۔

🎙 میزبان:
"ناظرین! آج کی یہ نشست فقہِ اسلامی کی تاریخ کے سب سے بڑے ناموں کے ساتھ ہے۔ امتِ مسلمہ کے ان جلیل القدر ائمہ نے اسلامی قانون اور فقہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی آرا میں نمایاں اختلافات موجود ہیں۔ آخر یہ اختلافات کیوں پیدا ہوئے؟ اور کیا یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے یا زحمت؟ آئیے، براہِ راست انہی سے گفتگو کرتے ہیں!"

علامہ اقبال ؒ سے ایک مکالمہ

(نوٹ : یہ مکالمہ علامہ اقبال ؒ کی شخصیت، افکار، شاعری، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔)
 
میزبان: خوش آمدید، محترم قاریین ! آج ہمارے ساتھ ایک ایسی عظیم شخصیت موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو جگانے کا کام کیا، بلکہ ان کے افکار نے برصغیر کی تاریخ کو نئی سمت دی۔ ہمارے آج کے مہمان ہیں: شاعر مشرق، مفکر اسلام، فلسفی، اور مصور پاکستان، علامہ اقبال ؒ ! ان کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں۔  

میزبان: علامہ صاحب، سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کی شاعری اور فکر کا بنیادی محور کیا ہے؟ آپ کے نزدیک شاعری کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟  

علامہ اقبال:  شاعری میرے نزدیک صرف الفاظ کا کھیل نہیں ہے۔ شاعری کا مقصد انسان کو جگانا، اس کے اندر کے جذبے کو بیدار کرنا، اور اسے اپنی حقیقی منزل کی طرف راغب کرنا ہے۔ میری شاعری کا بنیادی محور "خودی" ہے، یعنی انسان کا اپنے اندر کی طاقت کو پہچاننا۔ میں نے کہا ہے:  

 "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے  
 خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔"  

میرا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پہچانیں اور اپنے اندر کے جوہر کو اجاگر کریں۔  

میزبان: بہت خوب! آپ کی شاعری میں "خودی" کا تصور بار بار آیا ہے۔ کیا آپ اسے مزید واضح کر سکتے ہیں؟  

علامہ اقبال: بالکل۔ "خودی" دراصل انسان کی اپنی ذات کی پہچان ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے روشناس کراتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان اپنی خودی کو بھول چکے ہیں، وہ دوسروں کے محتاج ہو گئے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنے اندر کی طاقت کو پہچانیں اور اپنی منزل کی طرف بڑھیں۔ "خودی" کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود غرض بن جائے، بلکہ یہ کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں بروئے کار لائے۔  

دانش کی مجلس

 منظرنامہ:

)ایک جدید طرز کا اسٹوڈیو، جہاں مختلف مسلم دانشوروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ میزبان، ایک پُراثر آواز رکھنے والا شخص، اپنی نشست سنبھالتا ہے۔ حاضرین کی ہلکی سرگوشیوں کے درمیان پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔(

میزبان:

خواتین و حضرات! آج کی اس تاریخی مجلس میں، ہم اسلامی فکر کے ان چراغوں کو دعوت دے رہے ہیں جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے علم اور بصیرت سے روشنی پھیلائی۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں امام غزالی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، فلسفی ابن رشد، تاریخ و عمرانیات کے ماہر ابن خلدون، اور مجدد شاہ ولی اللہ! ہم ان عظیم شخصیات سے علمی و فکری مسائل پر گفتگو کریں گے۔

)تمام شخصیات اپنی نشست سنبھالتی ہیں، ایک غیر مرئی روشنی ان کے چہروں پر پڑ رہی ہے۔ گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔(

میزبان:

پہلا سوال امام غزالی سے! آپ نے فلسفہ پر سخت تنقید کی اور "تہافۃ الفلاسفہ" جیسی معرکہ آراء کتاب لکھی۔ آپ کے خیال میں اسلامی عقائد کے لیے فلسفہ کیوں خطرہ تھا؟

امام غزالی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم! فلسفہ جب اپنی حدود میں رہے تو مفید ہے، مگر جب یہ وحی کی جگہ لینے کی کوشش کرے تو فکری گمراہی کا سبب بن جاتا ہے۔ میں نے یونانی فلسفے کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور پایا کہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات بعض مقامات پر اسلامی عقائد سے متصادم ہیں۔ میں نے ان فکری تضادات کو "تہافۃ الفلاسفہ" میں بے نقاب کیا۔

میزبان:

لیکن ابن رشد، آپ نے اس کا جواب "تہافۃ التہافۃ" میں دیا اور فلسفے کا دفاع کیا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ امام غزالی کی تنقید درست نہ تھی؟

ابن رشد:

امام غزالی نے فلسفے کے بعض پہلوؤں کو غلط سمجھا۔ میرا ماننا ہے کہ وحی اور عقل ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکمیل کرنے والے ہیں۔ فلسفہ انسانی عقل کی معراج ہے، اور اگر ہم نے اسے ترک کر دیا تو ہم سائنسی اور منطقی ترقی سے پیچھے رہ جائیں گے۔ میں نے "فصل المقال" میں ثابت کیا کہ فلسفہ اور شریعت میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ دونوں یکجا ہو سکتے ہیں۔

میزبان:

ابن تیمیہ! آپ نے فلسفہ اور تصوف دونوں پر تنقید کی اور "درء تعارض العقل والنقل" میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عقل وحی کے تابع ہونی چاہیے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

ابن تیمیہ:

اللہ کی کتاب اور نبی اکرمﷺ کی سنت ہمارے لیے کافی ہے۔ فلسفہ اور منطق کے پیچیدہ مباحث میں الجھنے کے بجائے ہمیں خالص دین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسلامی عقائد کو کسی فلسفیانہ توجیہ کی ضرورت نہیں، بلکہ سادہ اور فطری انداز میں انہیں اپنانا ضروری ہے۔

میزبان:

ابن خلدون! آپ نے تاریخ و عمرانیات کو ایک نئے انداز میں دیکھا اور "مقدمہ" لکھی، جو آج بھی جدید سماجی علوم کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک مسلم تہذیب کے زوال کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

ابن خلدون:

ہر تہذیب کی عمر ایک خاص دورانیے پر محیط ہوتی ہے۔ جب ایک قوم اپنے اصولوں سے انحراف کرتی ہے، سہولت پسندی اختیار کرتی ہے، علم و تحقیق سے کنارہ کش ہو جاتی ہے، تو زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ میں نے "عصبیت" کے اصول کے تحت ثابت کیا کہ اتحاد اور مقصدیت کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

میزبان:

شاہ ولی اللہ! آپ نے امت کے اتحاد پر زور دیا اور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان پل بنانے کی کوشش کی۔ آج کی دنیا میں اس اتحاد کی کیا اہمیت ہے؟

شاہ ولی اللہ:

امت مسلمہ کو انتشار نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ میں نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں اجتہاد کی راہ ہموار کرنے کی بات کی تاکہ نئے فکری چیلنجز کا حل نکالا جا سکے۔ ہمیں باہمی اختلافات کو ختم کر کے مشترکہ اسلامی اصولوں پر متحد ہونا ہوگا۔

میزبان:

آخر میں، آپ سب سے ایک سوال! کیا آج کا مسلم نوجوان ان فکری مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟

امام غزالی:

اگر وہ اپنی عقل کو صحیح بنیادوں پر استوار کرے اور وحی کو اپنی رہنمائی مانے، تو یقیناً!

ابن رشد:

اگر وہ علم و تحقیق کے دروازے کھولے، تو ہاں!

ابن تیمیہ:

اگر وہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، تو ضرور!

ابن خلدون:

اگر وہ اپنی تہذیب کی تاریخ سے سبق سیکھے، تو بالکل!

شاہ ولی اللہ:

اگر وہ اختلافات سے نکل کر اتحاد پر آ جائے، تو کامیاب ہوگا!

(تالیاں بجنے لگتی ہیں، منظر دھندلا ہوتا ہے، اور پروگرام کا اختتام ہوتا ہے۔)

اسلامی قانون وراثت

اسلام سے پہلے کے زمانے میں عرب میں ورثہ صرف مردوں میں تقسیم ہوتا تھا۔[1][2] اسلام ہر وارث کا حصہ مقرر کرتا ہے اور وراثت کی بنیاد قریبی رشتہ داری قرار دیتا ہے نہ کہ ضرورت مند کی ضرورت۔ قریبی رشتہ داری سے مراد خون کا رشتہ یا نکاح کا رشتہ ہے۔

سنی عقیدے کے مطابق قرانی احکامات پرانے عرب دستور کو رد نہیں کرتے بلکہ انھیں صرف بہتر بناتے ہیں تا کہ عورتوں کو بھی وراثت میں شامل کیا جائے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق چونکہ قرآن نے پرانے عرب دستور کی تائید نہیں کی ہے اس لیے اسے مکمل طور پر مسترد کر کے نیا قرآنی طریقہ اپنانا چاہیے۔

پس منظر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت سعد بن الربيع کی بیوہ نے شکایت کی کہ میرا شوہر آپ کے ہمراہ غزوہ احد میں شریک تھا اور شہید ہو گیا۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے چچا انھیں کچھ ورثہ نہیں دے رہے۔ اگر ان لڑکیوں کے پاس کچھ مال نہیں ہو گا تو ان کی شادی نہیں ہو سکے گی۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ کے حکم پر ورثہ کا دو تہائی حصہ سعد بن الربيع کی بیٹیوں کا اور آٹھواں حصہ بیوہ کا قرار پایا اور لگ بھگ 20 فیصد حصہ چچاوں میں تقسیم ہوا۔[3]

ورثہ تقسیم کرنے سے پہلے

کفن دفن کے اخراجات نکال لیے جائیں۔

عام اور خاص ۔ جاوید احمد غامدی

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2011 

دنیا کی کسی زبان میں بھی یہ طریقہ نہیں ہے کہ ہر لفظ ایک معنی اور ہر اسلوب ایک ہی مدعا کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ یہ بالعموم متعدد معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ فیصلہ کہ کسی کلام میں یہ کس مفہوم کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ہمیشہ اِسی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ جملے کی تالیف، متکلم کا عرف، نظم کلام ، سیاق و سباق اور اِس نوعیت کے بعض دوسرے قرائن کیا حکم لگاتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ذہن تمام احتمالات کو سامنے رکھ کر کبھی فکر و تدبر کے بعد اور کبھی بادنیٰ تامل اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ زبان سے متعلق یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں قرآن کے خاص و عام سے متعلق فرمایا ہے کہ زبان محتمل المعانی ہوتی ہے۔ اُس کے خاص و عام بھی جب کسی کلام کا جزو بن کر آتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اُسی معنی کے لیے آئیں جس کے لیے وہ اصلاً وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی کتاب اِس طرح نازل ہوئی ہے کہ اُس میں لفظ عام ہوتا ہے، مگر اُس سے خاص مراد لیا جاتا ہے اور خاص ہوتا ہے، مگر اُس سے عام مراد لیا جاتا ہے*۔لہٰذا نہ خاص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مدلول کے لیے قطعی ہے اور نہ عام کے بارے میں کہ وہ اپنے تحت تمام افراد پر لازماً دلالت کرے گا۔ ائمۂ اصول کے ایک گروہ کو اِس سے اختلاف ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اِس معاملے میں امام شافعی کا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے، اِس لیے کہ یہ مجرد لفظ نہیں، بلکہ اُس کا موقع استعمال ہے جو سامع یا قاری کو اُس کے مفہوم سے متعلق کسی حتمی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں لکھا ہے:

’’...قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں،لیکن سیاق و سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُن سے مراد عام نہیں ہے ۔ قرآن ’النَّاس‘کہتا ہے ،لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر ،بارہا اِس سے عرب کے سب لوگ بھی اُس کے پیش نظر نہیں ہوتے ۔وہ ’عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘کی تعبیر اختیار کرتا ہے ،لیکن اِس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا ۔ وہ ’ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، لیکن اِسے سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا ۔ وہ ’ اِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اِس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے ۔ وہ ’الْاِنْسَان‘کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے ،لیکن اِس سے ساری اولادآدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا ۔یہ قرآن کا عام اسلوب ہے، جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اِس معاملے میں قرآن کے عرف اور اُس کے سیاق و سباق کی حکومت اُس کے الفاظ پر ہرحال میں قائم ر کھی جائے۔‘‘(۲۳)

زبان کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر قرآن کے علما و محققین تقاضا کرتے ہیں کہ متکلم کے منشا تک پہنچنا ہو تو محض ظاہر الفاظ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اُن کے باطن کو سمجھ کر حکم لگانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الٰہی کی یہی خدمت انجام دی ہے اور اپنے ارشادات سے اُن مضمرات و تضمنات کو واضح کر دیا ہے جن تک رسائی اُن لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جو لفظ و معنی کی اِن نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔امام شافعی بجا طور پر اصرار کرتے ہیں کہ ظاہر الفاظ کی بنیاد پر آپ کی اِس تفہیم و تبیین سے صرف نظر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کا بیان ہے، اِس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہوتی۔ خدا کا پیغمبر کتاب الٰہی کا تابع ہے۔ وہ اُس کے مدعا کی تبیین کرتا ہے، اُس میں کبھی تغیر و تبدل نہیں کرتا۔ امام اپنی کتاب میں اِس کی مثالیں دیتے اور بار بار متنبہ کرتے ہیں کہ قرآن کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ بیان اور صرف بیان ہے۔ اُسے نہیں مانا جائے گا تو یہ قرآن کی پیروی نہیں، اُس کے حکم سے انحراف ہو گا، اِس لیے کہ اُس کا متکلم وہی چاہتا ہے جو پیغمبر کی تفہیم و تبیین سے واضح ہو رہا ہے، اُس کا منشا اُس سے مختلف نہیں ہے۔

امام شافعی کی اِس بات سے زیادہ سچی بات کیا ہو سکتی ہے! لیکن امام کے استدلال کی کمزوری یہ ہے کہ بیش تر موقعوں پروہ مبرہن نہیں کر سکے کہ لفظ اور معنی کے جس تعلق کو وہ بیان سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اُن میں پیدا کس طرح ہوتا ہے؟ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کی چند ایسی روایتوں پر بھی مطمئن ہو گئے ہیں جنھیں کسی طرح بیان قرار نہیں دیا جا سکتا ، دراں حالیکہ اُن کے بارے میں یہ بحث ہو سکتی تھی کہ اُن کے راویوں نے آپ کا مدعا ٹھیک طریقے سے سمجھا اور بیان بھی کیا ہے یا نہیں؟ امام شافعی کے نقطۂ نظر سے جو لوگ اختلاف کرتے ہیں، اُن کی اصلی الجھن یہی ہے۔

ہم نے ’’میزان‘‘ میں کوشش کی ہے کہ امام کے موقف کو پوری طرح مبرہن کر دیں، اِس لیے کہ اصولاً وہ بالکل صحیح ہے۔ اہل نظر ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’میزان اور فرقان‘‘ کے زیر عنوان یہ مباحث دیکھ سکتے ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قرآن مجید کے احکام سے متعلق روایتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اُس کے الفاظ کا مضمر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریحات سے ظاہر کر دیا ہے۔ قرآن کے طالب علموں کو اِس سے لفظ کے باطن میں اتر کر اُس کو سمجھنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے، اِسے رد کر دینے یا اِس سے قرآن کے نسخ پر استدلال کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔

* الرسالہ، الشافعی۲۳۰۔ یہی وہ بات ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ امام شافعی بھی الفاظ کی دلالت کو اُن کے معانی پر ظنی مانتے ہیں۔ دراں حالیکہ وہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زبان میں ایک سے زیادہ مفاہیم کا احتمال ہوتاہے، اِس لیے کسی ایک احتمال کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنانے کے لیے مبادرت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ تدبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ کسی خاص موقع پر کون سا مفہوم ہے جسے متکلم کا منشا قرار دیا جا سکتا ہے۔

سورج رکنے سے متعلق روایت کی تحقیق

دارالافتاء ، جامعہ العلوم الاسلامیہ 
علامہ محمد یوسف بنوری ٹاون ، کراچی 

سوال: 

دنیا میں وقت یا سورج کتنی مرتبہ رک گیا؟


 سنا ہے ایک مرتبہ معراج کے وقت. دوسری دفعہ بی بی فاطمہ کے سر پر دوپٹہ نہ ہونے کے وقت. تیسری دفعہ حضرت علی کرم اللہ کی نماز قضا ہونے کے وقت۔ اور چوتھی دفعہ بلال کے اذان نہ دینے کے وقت۔

کیا یہ صحیح روایت ہے؟ 

جواب

مذکورہ سوال میں  دو امور کے بارے میں پوچھا گیا ہے:

 ۱۔دنیا میں سورج یا وقت  کے رکنے کے بارے میں۔    ۲۔چار  واقعات میں سورج رکنے کے بارے میں ۔

سب سے پہلے یہ  واضح رہے کہ دنیا میں سورج کا رکنا یا واپس ہونا اس کا  تذکرہ حدیث  میں صرف تین مواقع پر آیا ہے:

۱۔  حضرت یوشع بن نون کے بارے میں ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں۔

۱۔ حضرت یوشع بن نون  علیہ السلام کے بارے  میں   حدیث:

"حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لايتبعني رجل ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها؟ ولما يبن بها، ولا أحد بنى بيوتًا ولم يرفع سقوفها، ولا أحد اشترى غنمًا أو خلفات وهو ينتظر ولادها، فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبًا من ذلك، فقال للشمس: إنك مأمورة وأنا مأمور، اللهم احبسها علينا، فحبست حتى فتح الله عليه، فجمع الغنائم، فجاءت يعني النار لتأكلها، فلم تطعمها فقال: إن فيكم غلولًا، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فلزقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فليبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فجاءوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب، فوضعوها، فجاءت النار، فأكلتها ثم أحل الله لنا الغنائم، رأى ضعفنا، وعجزنا؛ فأحلها لنا".  (صحيح البخاري، أحلت لكم الغنائم: 4/ 86،ط.الأولى، 1422هـ .دار طوق النجاة) ( صحيح مسلم: باب تحليل الغنائم لهذه الأمة خاصة: 3/ 1366،دار إحياء التراث)

"حدثنا أسود بن عامر، أخبرنا أبو بكر، عن هشام، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس". ( مسند أحمد ط الرسالة: مسند ابي هريرة رضي الله عنه:14/ 65ط:الأولى، 1421 هـ - 2001 م)

اور اس حدیث کو شیخین کے علاوہ  امام طحاوی ؒنے بھی شرح مشکل الآثار میں  ذکر کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :

( شرح مشكل الاثار: باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسألته الله عز وجل أن يرد الشمس عليه بعد غيبوبتها 3/95 ط:  الأولى، موسسة الرسالة)

۲۔ رسو ل اللہ صلی اللہ کے لیے سورج رکنے کے بارے میں حدیث:

"وروى يونس بن بكير في زيادة المغازي روايته عن ابن إسحق لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم وأخبر قومه بالرفقة والعلامة التي في العير، قالوا: متى تجئ؟ قال: يوم الأربعاء، فلما كان ذلك اليوم أشرفت قريش ينظرون وقد ولى النهار ولم تجئ، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فزيد له في النهار ساعة وفحبست عليه الشمس".

یہ حدیث  قاضی عیاضؒ نے  ’’ الشفاء‘‘ میں، علامہ قسطلانی ؒ نے  "المواهب اللدنية بالمنح المحمدية"میں اور  علامہ ابن العراقی ؒ نے ’’طرح التثریب في شرح التقریب‘‘  میں  یونس بن بکیر  کے حوالے  سے ذکر کی ہے۔  (الشفا بتعريف حقوق المصطفى - وحاشية الشمني (1/ 284) (المواهب اللدنية بالمنح المحمديةعلامه قسطلاني(المتوفی: 923هـ) 2/260)

(طرح التثريب في شرح التقريبابنالعراقي (المتوفى: 806هـ) 7/247)

علامہ طبرانی ؒ نے ’’ المعجم الاوسط‘‘ میں اسی طرح کی ایک اور روایت ذکر کی ہے جو اس حدیث کی تائید کر رہی ہے:

"حدثنا علي بن سعيد قال: نا أحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني قال: نا الوليد بن عبد الواحد التميمي قال: نا معقل بن عبيد الله، عن أبي الزبير، عن جابر: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الشمس فتأخرت ساعة من نهار».  لم يرو هذا الحديث عن معقل إلا الوليد، تفرد به: أحمد بن عبد الرحمن، ولم يروه عن أبي الزبير إلا معقل ". (المعجم الأوسط: باب من اسمه علي 4/ 224،دار الحرمين)

نکاح پڑھانے کا طریقہ

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

فتوی نمبر : 144111201126

سوال

نکاح کس طرح پڑھاتے ہیں اور وہاں کیا کیا بولنا ہے؟

جواب

نکاح پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نکاح کے موقع پر پڑھے جانا والا خطبہ پڑھا جائے اس کے بعد لڑکے سے ایجاب کروانے کے لیے کہا جائے کہ میں نے اتنی مقدار مہر کے عوض فلانی (لڑکی کا نام) بنت فلاں (لڑکی کے والد کا نام) کے ساتھ آپ کا نکاح کرادیا ہے، کیا آپ کو قبول ہے؟ پھر جب لڑکا کہہ دے کہ ’’قبول ہے‘‘ تو نکاح خواں لڑکی کی طرف سے مقررہ وکیل کی وکالت ملنے کی تصدیق کرنے کے بعد اس سے کہے کہ میں نے فلانی بنت فلاں (جس نے آپ کو اپنے نکاح کا وکیل بنایا ہے) کا نکاح اتنی مقدار مہر کے عوض فلاں ابن فلاں سے کردیا ہے، کیا آپ کو قبول ہے؟ اور لڑکی خود مجلس میں موجود ہو تو اس سے کہے کہ میں نے آپ کا نکاح اتنی مقدار مہر کے عوض فلاں ابن فلاں سے کرادیا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟ جیسے ہی لڑکی یا اس کا وکیل ’’قبول ہے‘‘ کہہ دے تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

ایجاب و قبول میں یہ ترتیب لازم نہیں ہے، پہلے لڑکی یا اس کے وکیل سے ایجاب اور لڑکے سے بعد میں قبول بھی کروایا جاسکتاہے۔ نیز نکاح خواں یہ بھی کرسکتاہے لڑکی یا اس کے وکیل سے اختیار لے کر لڑکے سے یوں کہہ دے کہ "میں نے فلانہ بنت فلاں کو نکاح آپ کے ساتھ کردیا" اور لڑکا کہے کہ میں نے قبول کیا، اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر لڑکا اور لڑکی دونوں ہی اپنا اختیار نکاح خواں کو سپرد کردیں، اور نکاح خواں گواہوں کے روبرو ایک ہی جملے میں یوں کہہ دے: " میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح فلاں بن فلاں کے ساتھ کردیا" تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔

خطبہ نکاح کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر: ۱۰۲ ، سورہ نساء کی آیت نمبر: ۱ ، اور سورہ احزاب کی آیت نمبر : ۷۰،۷۱ پڑھی جائے، اس کے بعد نکاح سے متعلق چند احادیث پڑھ لی جائیں۔ 

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ چہارم )۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

حذف السیاق

یہ چوتھا تصرف ہے جوراویوں، محدثین اور مصنفینِ حدیث نے کیا ہے۔ حذف السیاق یہ ہے کہ حدیث کے بعض ایسے اجزا کا بیان نہ کرنا جو بات کا سیاق و سباق یا موقع محل تشکیل کرتے ہیں۔موقع محل کی بہت اہمیت ہے،یہ نہ ہو تو سادہ سے سادہ جملے بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔تصرفات کے نتیجے میں بہت سی احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے محروم کردیا گیا ہے۔پچھلے تینوں تصرفات میں اس کی کچھ مثالیں گزری ہیں ۔سیاق و سباق کے کھو جانے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتاہے، وہ ذیل کی مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
جملہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیا بجھا کر سویا کرو۔
سیاق و سباق
سیاق و سباق نہ بتایا جائے تو 

معنی

رات کو دیا بجھانا کارِ ثواب ہو گا۔ شاید بعض علما سوتے وقت دیا جلانے کوحرام بھی کہہ دیں۔ آج کے زمانے میں بلب بھی بجھا کر سونا پڑے گا۔

سیاق و سباق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بتائی کہ چوہا آئے گا، تیل کھانے کے لیے بتی کو لے جانا چاہے گا، جس سے گھر میں آگ لگ سکتی ہے۔ یہ سیاق و سباق معلوم ہو تو

معنی

اب یہ گناہ ثواب کا مسئلہ نہیں ، بلکہ عام زندگی کی ایک اچھی نصیحت ہے ۔ بلب اور چوہے کا تعلق وہ نہیں ہے، اس لیے بلب جلا کر سوسکتے ہیں۔
یہاں دیکھیے کہ سیاق و سباق کا نہ ہونا معنی میں کیا تبدیلی کردیتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ ہر ہر حدیث میں سیاق و سباق یا موقع محل بیان کیا جاتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ تقریباً تمام روایات کسی نہ کسی طریقہ میں اپنے سیاق و سباق سے محروم ہوکر روایت ہوئی ہیں۔ہم نے انضمام المتون والے تصرف کے تحت کچھ روایات کا ذکر کیا تھا، جن کا موقع محل یا سیاق وسباق کسی ایک روایت سے بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ اس مضمون میں ہم جو روایت بطور مثال پیش کرنے جارہے ہیں، اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ تصرفات کے کئی مراحل سے گزر کر اس کا موقع محل چند طرق میں تو آیا ہے، لیکن اکثر میں نہیں۔آئیے سب سے پہلے موقع محل سے منقطع روایت کو دیکھتے ہیں:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: ہَلَکْتُ، قَالَ: ’’وَلِمَ؟‘‘ قَالَ: وَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: ’’فَأَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘ قَالَ: لَیْسَ عِنْدِي، قَالَ: ’’فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: لاَ أَسْتَطِیْعُ، قَالَ: ’’فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: لاَ أَجِدُ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْہِ تَمْرٌ، فَقَالَ: ’’أَیْنَ السَّاءِلُ؟‘‘، قَالَ: ہَا أَنَا ذَا، قَالَ: ’’تَصَدَّقْ بِہٰذَا‘‘، قَالَ: عَلٰی أَحْوَجَ مِنَّا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، فَوَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالحَقِّ، مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، فَضَحِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہُ، قَالَ: ’’فَأَنْتُمْ إِذًا‘‘.(بخاری، رقم ۵۳۶۸)

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ سوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

انضمام المتون

ایک حدیث کے متن کا دوسرے متن میں ضم کرنا یا پیوند لگانا تیسرا تصرف ہے، جو حدیث کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دو مختلف احادیث کے متون یا جملوں کو ملا کر ایک نئی حدیث بنا لی جاتی ہے۔اس میں دونوں جملے یا متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوسکتے ہیں، مگران کے پیوندسے جو نئی بات بنتی ہے، وہ ہر گز ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی۔ پہلے ہم ایک سادہ جملے سے اس بات کو سمجھتے ہیں، پھر احادیث کی مثالوں سے سمجھیں گے۔
ایک محقق کسی موقع پر کہے:
(بات نمبر ۱): ’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ خداے حقیقی کے سوا میں کسی خداکو نہیں مانتا۔ یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں۔‘‘
یہی محقق کسی دوسرے موقع پر کہے:
(بات نمبر۲): ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
کوئی اخباری رپورٹراس محقق کی دونوں باتوں میں سے ٹکڑے لے کر پیوند لگا کرایک اور بات بنائے، اور کہے:
(بات نمبر۳ جو دونوں کا مجموعہ ہے) ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ (میں کسی خداکو نہیں مانتا، یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں)۔‘‘
بلاشبہ، پہلی دونوں باتیں اسی آدمی کی تھیں، لیکن اب یہ تیسری پیوند شدہ عبارت اس آدمی کی ہرگز نہیں ہے، اگرچہ اجزا اسی کے کلام سے لیے گئے ہیں ۔ اس انضمامِ عبارت کے پیوند کو ہم نے بریکٹوں میں (...) کے نشان سے نمایاں کردیا ہے۔آپ اس پیوند کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔ اوپر کی مثال میں واضح ہے کہ ایک موحد اور مومن آدمی ملحد بن گیا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی مثالیں احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔جن میں خود دوسری حدیثوں میں حلال اور جائز رکھا گیا معاملہ ان حدیثوں میں حرام ہو گیا ہے۔

پہلی مثال

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھیے:

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف، فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘. (مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ دوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

تمہید

میں نے اس مضمون کا عنوان ’’متنِ حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ باندھا تھا۔ لفظ ’تصرف‘ کے معنی معاملہ کرنا، الٹنا پلٹنا، استعمال میں لانا وغیرہ کے آتے ہیں۔ دورِ تدوین سے آج تک حدیث کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا ہے، تصرف ہی اس کے بیان کے لیے ایک اچھا لفظ ہے، لیکن بعض لوگوں نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر یہ تاثر بیان کیا ہے کہ اس لفظ میں ایک سختی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شایدعلما نے جانتے بوجھتے ایسا کیا ہے۔لغوی اعتبار سے یہ لفظ نہ منفی ہے اور نہ مثبت۔ان مضامین میں میرا مقصد علما کی تنقیص نہیں ہے، نہ میں نے اسے اس قسم کے کسی منفی مقصد کے لیے لکھا ہے ۔ اس لیے میں نے اس مضمون کا عنوان تبدیل کردیا ہے، اور عنوان میں سے ’علما‘ کا لفظ نکال دیا ہے۔

میں نے اپنے مضمون کی پہلی قسط اور اس قسط میں بھی یہی بات عرض کی ہے کہ یہ تصرفات بیان و حکایت کا فطری تقاضا ہیں، راویوں اور علما نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیے۔ ’علما‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ اس میں رواۃِ حدیث کے ساتھ ساتھ صوفیہ، محدثین ، فقہا، شارحین، مفسرین اور مصنفین سب شامل تھے، ان کے لیے علما ہی کی تعبیر سب سے زیادہ موزوں تھی۔بہرحال کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو زائل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں اس کے عنوان میں تبدیلی کردوں۔ اب یہ مضمون اسی عنوان سے چھپے گا تاآنکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خطا سامنے آجائے۔

اس سلسلے کے مضامین کے دو حصے ہیں: ایک تصرفات کے بیان کا اور دوسرا مسئلے کی توجیہ کا۔ واضح رہے کہ یہ دوسرا حصہ میرے ان مضامین کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوسرے حصے، یعنی توجیہ و توضیح کے لیے ان مضامین میں میرا اصول یہ ہے کہ اگر میں مختلف درجے کی احادیث سے اخذ و استفادہ کروں گا، تو اس میں کوئی بھی حدیث حسن یا حسن لغیرہ کے درجے سے نیچے کی نہ ہو، یعنی یہ کہ ان احادیث کو میں اس اصول پر لوں کہ کم ازکم صحیح تر احادیث میں ان مضامین کی تائید اور بنیاد موجود ہو، اوریہ بھی میری کوشش ہوگی کہ اسی حدیث سے استشہاد کروں جسے کسی نہ کسی محدث نے قابلِ احتجاج قرار دیا ہو، میں اپنی راے پر اس کو منحصر نہیں کروں گا۔ البتہ تصرفات کے بیان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز میرے خیال میں ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ بھی تصرف ہی کی ایک صورت ہے۔اور اس لیے بھی کہ ان ضعیف حدیثوں کو حدیث کی حیثیت نہ بھی دیں، ایک تاریخی دستاویزی حیثیت تو انھیں حاصل ہے ہی، اس لیے تصرف کے تحت تو اسے لایا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ ضعیف روایات کا وجود اور ان کو کتابوں میں لکھنا بذات خود ایک تصرف ہے،یعنی باوجود ضعفِ سند کے اسے کسی مجموعۂ حدیث میں درج کرناوغیرہ اقوال رسول پر ایک تصرف ہی تو ہے۔ اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ضعیف احادیث سے اخذو استفادہ کرتا ہے۔۱؂ جس مضمون پر ’’اشراق‘‘ کے اداریے میں تبصرہ ہوا، اس میں بحمد اللہ ایک بھی روایت اس اصول سے ہٹی ہوئی نہیں ہے، جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ۔

اسی طرح بعض احباب نے کہا کہ تمھارا مضمون جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خاصا مشکل تھا، ان کی آسانی کے لیے میں نے حسب ضرورت مشکل الفاظ کے انگریزی مترادف دے دیے ہیں۔


متن حدیث میں لفظی و معنوی ادراج

تجزۂ حدیث کے بعد اگلا اہم تصرف ادراج ہے ۔ ادراج سے ہماری مراد راوی کا عمداً یا سہواً کلام نبوی میں اپنی بات شامل کرنا ہے۔اس سے دو قسم کی چیزیں متنِ حدیث میں شامل ہوئی ہیں:

ایک الفاظ ،یعنی راوی نے اپنے یا کسی اور راوی کے الفاظ و جمل کو اس طر ح سے بیان کردیا کہ وہ حدیث کے متن کا حصہ قرار پا گئے ۔

دوسری راے ، اس کی دو صورتیں ہیں، 

۱۔ ایک یہ کہ کسی صحابی یا راوی کی راے یا فتویٰ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حدیث کی حیثیت پاگیا، قطع نظر اس کے کہ یہ عمل عمداً ہوا ہو یا سہواً۔

۲۔ دوسرے یہ کہ احادیث کا معتد بہ حصہ روایت بالمعنیٰ۲؂ کے طریقے پر منتقل ہوا ہے،اور فقیہ (prudent) سے فقیہ آدمی بھی جب کسی بات کو سمجھ کردوسروں کواپنے لفظوں میں سناتا ہے، تو وہ دراصل متکلم کا نہیں، بلکہ اپنا فہم آگے بیان کررہا ہوتا ہے ۔۳؂ 

متن حدیث میں علما کے تصرفات ۔ ساجد حمید

[یہ مضمون میری ایک تحریر کا جزوہے۔ جسے افادۂ عام کے لیے تحریرکے مکمل ہونے سے پہلے شائع کیا جارہا ہے تاکہ نقد و جرح کے عمل سے گزر جائے ۔ احادیث مبارکہ کے متون میں جو باتیں آئی ہیں، وہ اہل علم کے تصرفات کے نتیجے میں بہت حد تک بدل چکی ہیں۔یہ تحریر اس بات کی سعی ہے کہ متون حدیث کو ان تصرفات سے پاک کرکے دیکھا جائے۔اس تحریر میں ہر ایک تصرف کی چند مثالوں سے بات کو قابل فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تصرفات سے پاک کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بات کسی حد تک سامنے آجاتی ہے، جس پر پھر عقل ونقل کے اعتراض وارد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گویایہ دفاع حدیث کا ایک اسلوب ہے، جسے میں متعارف کرانا چاہتا ہوں۔ یہ مدرسۂ فراہی کا خاص طرز فکر ہے ۔ اس عمل سے چونکہ حدیث کی بنا پر بنی ہوئی ہماری پہلے سے موجود آرا تبدیل ہو جاتی ہیں، جس سے لوگوں کو توحش اوراجنبیت سی محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل بات کی طرف لوٹنا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اصل بات کی طرف جو ہمارے تصرفات سے پاک ہو۔یہ بلاشبہ ایک مشکل اور نازک کام ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ کوتاہیوں ، خطاؤں، لغزشوں اور نفس کے بہکاووں سے بچائے، آمین۔ مصنف]

——۱——

حدیث کے ساتھ ہمارے تصرفات کی ایک اہم صورت متن حدیث کو اجزامیں بانٹنا ہے۔ اس کے لیے ہم اس مضمون میں تجزۂ حدیث اور تجزۂ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ تجزۂ کا یہ عمل کئی وجوہات سے ہوا ہے۔ مثلاً یہ کہ راوی نے ،فطری طور پر، برسر موقع، جتنی بات کی ضرورت تھی، اتنی بات بیان کی، باقی بات یا اس سے متعلق دیگر تفصیلات بیان نہیں کیں۔ مصنف محدثین نے اپنی کتاب کی موضوعاتی ترتیب کے لحاظ سے حدیث کا جتنا متن ایک موضوع سے متعلق تھا، وہ ایک جگہ لکھ دیا باقی دوسری جگہ، وغیرہ۔ اس عمل سے حدیث کے ٹکڑے مختلف ابواب میں بکھر گئے ، جس سے پوری بات ہمارے سامنے موجود نہ رہی، اور ہر ٹکڑا الگ الگ حیثیت سے مکمل بات کے طور پر لے لیا گیا۔ تجزۂ حدیث کی ایک مثال ذیل میں دی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل حدیث جب اسبال ازار کے باب میں لکھی تو اس کے الفاظ یہ تھے:

میراث کے بارے میں قرآن مجید کے اصولی احکام (سورۃ النساء آیات ۱۱۔۱۲ کی روشنی میں )

        1-        اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔  اگر  میت  اپنی وصیت میں کوئی ناجائز کرے، یا اپنے اختیار  کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے وارثین میں سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے  حکم یہ ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے۔

       2-         میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔

       3-        اگر   میت کا کوئی بیٹا  نہ ہو بلکہ صرف بیٹیاں  ہوں ، خواہ  دو  بیٹیاں ہوں یا دو سے زیادہ ،  تو میت کے کل ترکہ کے دو تہائی 2/3حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، باقی ایک تہائی  1/3 حصہ دوسرے وارثوں میں۔اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو  کل میراث کا آدھا حصہ ملے گا۔  لیکن اگر میت کا صرف ایک بیٹا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا۔

       4-         میت  کے والدین میں سے ہر ایک کو  کل میراث کا  چھٹا  1/6 حصہ ملے گا  اگر میت کی کوئی اولاد  ہو ۔ خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو  اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو  ایک تہائی  1/3 حصہ ملے گا  اور باقی  2/3 حصہ  والد کو ملے گا ۔  ہاں اگر اس کے کئی بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا  1/6 حصہ ملے گا۔  ( بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کے بجائے 1/6 کردیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو حصہ لیا گیا ہے وہ باپ کو ملے گا۔ کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا۔)

       5-        اگر بیوی   فوت ہوجائے خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ ،   اگر اس کی یا ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو آدھا حصہ ملے گا ۔ اگر  بیوی کی کوئی اولاد ہو تو  شوہر کو  میراث کا چوتھا 1/4  حصہ ملے گا ۔  اور اسی طرح اگر شوہر فوت  ہوجائے تو  چوتھا 1/4  حصہ بیوی کو ملے گا  اگر شوہر کی کوئی  اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کو  آٹھواں  1/8حصہ ملے گا ۔ اگر بیوی  ایک سے زیادہ ہوں تو یہ  1/4 یا 1/8 حصہ سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا۔

       6-         اگر میت  خواہ مرد ہو یا عورت ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں اور نہ کوئی اولاد (جس کو کلالہ کہتے ہیں)  اگر اس کا ماں شریک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک  کو چھٹا 1/6حصہ ملے گا۔  باقی 5/6 یا 2/3جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی  وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا۔ اگر سگے بھائی بہن، یا  وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے  ہوں،   تو جیسے پہلے ذکر ہوا ہے کہ  اس طرح کے بھائی کو  بہن کے مقابلے  میں دوگنا حصہ ملے گا ۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے ‏گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید ‏میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ‏ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر ‏صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی ‏صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ ‏السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار ‏کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت ‏سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں ‏میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے ‏گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص ‏عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ‏اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور ‏اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ‏ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا ‏منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، ‏فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص ‏پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم ‏کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ ‏قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے ‏سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود ‏انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن ‏المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، ‏تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح ‏کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ ‏لیں۔

ختنے کی رسم کا تاریخی جائزہ

 ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟

بی بی سی اردو 

2 جنوری 2023ء

اپنی پیدائش کے آٹھویں دن حضرت عیسیٰ کے بھی ختنے کیے گئے مگر ان کے بعد آنے والوں نے اس رسم کو ترک کر دیا۔ حالانکہ یہودیوں اور مسیحیوں میں کئی روایات اب بھی مشترکہ ہیں مثلاً اہم دنوں پر اجتماعی عبادات۔ 

مسیحی لوگ کیوں اپنے نومولود بچوں کے ختنے نہیں کرتے، اس کا جواب بائبل میں موجود ہے۔ 

بائبل کے عہد نامہ جدید یا نیو ٹیسٹامینٹ کے مطابق یہودیت اور مسیحیت میں ختنوں کے بارے میں تضاد سنہ 50 عیسوی میں آیا اور سینٹ پال (پولُس) اور سینٹ پیٹر (پِطرس) کے درمیان اس موضوع پر سخت بحث ہوئی۔ 

کیتھولک یونیورسٹی آف یوراگوئے میں مذہبی فلسفے کے پروفیسر میگیل پاستورینو نے بی بی سی مُنڈو سروس کو بتایا: ’یہ کلیسا کا پہلا ادارہ جاتی اختلاف تھا۔‘ 

سینٹ پال کو اس وقت تک سینٹ یا بزرگ کا درجہ نہیں دیا گیا تھا اور وہ صرف پال آف طرسوس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پال شروع میں شریعتِ موسوی کے فقیہ یعنی فریسی تھے اور حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو ستایا کرتے تھے مگر پھر بائبل کے مطابق وہ بدل گئے اور اُنھوں نے پوری دنیا میں یسوع مسیح کا پیغام پھیلایا۔ 

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت -
 ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی 
 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

سوال: مسلمان قوم اگر ہندوستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ پھر کیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟ اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں اور موجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں۔
ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ 

جواب: آپ نے جن بڑے بڑے’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔

شب برات کی بدعتیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

شب برات کی بدعتیں - عبد الماجد دریابادی
شب برات آگئی۔ گھر گھر حلوے کے سامان ہورہے ہوں گے اور جن کے پاس روپیہ نہ ہوگا ، وہ قرض لے کر اس کی فکر کررہے ہوں گے۔ میدہ، گھی، شکر، وغیرہ کی خریداری دل کھول کر ہورہی ہوگی۔ آتشبازی الگ بڑے پیمانہ پر تیار ہورہی ہوگی۔ آتشباز خوش ہورہے ہوں گے، کہ ابکی انار، پھلجھڑی، پٹاخے، چھچھوندر، کی خوب بکری ہوگی۔ یہ تیاریاں کہاں ہورہی ہوں گی؟ ان کے ہاں جو اپنے تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھتے ہیں، جن کے لئے خدا نے اسراف کو حرام قراردیاہے، جن کے رسول کی زندگی کا دامن اس قسم کے تمام لغویات سے یکسر پاک ہے، اور جن کے عقائد میں شب برات کے یہ تمام مراسم جواز کا کوئی پہلو ہی نہیں رکھتے۔

کتنے مسلمان ہیں ، جو حج نہ کرنے کا عذر اپنی ناداری کو بتاتے ہیں، جو زکوۃ نہ ادا کرنے کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں ، کہ ضروریات زندگی سے اتنی رقم بچنے ہی نہیں پاتی، اور جو اپنے عزیزوں میں ترکہ کی شرعی حیثیت تقسیم بھی محض اسی خوف سے نہیں کرتے کہ خود مفلس رہ جائیں گے۔ ان سے جب کہا جاتاہے کہ اپنی قوم کے یتیموں ، مسکینوں اور اپاہجوں کی بسراوقات کا انتظام کرو، تو مفلسی کا عذر پیش کیاجاتاہے ۔ جب کہاجاتا ہے کہ اپنی قوم کی تعلیم وتنظیم کے لئے سرمایہ جمع کرو، تو پھر ناداری ہی کے عذر کو دوہرایا جاتاہے۔ جب کہاجاتاہے کہ تحفظِ اسلام کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہے تو ایک بار پھر عذرِ افلاس ہی کو پیش کرکے اپنے تئیں بچایاجاتاہے، لیکن شب برات کے آتے ہی اسی مفلس قوم کے مفلس اشخاص یک بیک زردار ہوجاتے ہیں ، ہر گھر میں حلوا تیار ہونے لگتاہے، ہر گھرمیں آتشبازی چھوٹنے لگتی ہے، اور ہر گھر میں یہ تہوار پوری چہل پہل اور صورت جشن پیدا کردیتاہے۔

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج (قسط دوم ) - عرفان شہزاد

ماہنامہ اشراق ، تاریخ اشاعت : جون 2018ء 

مصارف زکوٰۃ

سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں جو لفظ ’الصَّدَقٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں عام صدقات کے علاوہ زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ یہ دراصل مملکت کا وہ تمام ریوینیو ہے جو مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے مصارف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

i۔ فقیر و مسکین

مصارف زکوٰۃ میں فقیر اور مسکین کی تعریف میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ دونوں سے مراد سماج کے حاجت مند طبقات ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی سادہ تعریف یہ ہے:

’’فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔