احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
احکام اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے ‏گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید ‏میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ‏ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر ‏صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی ‏صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ ‏السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار ‏کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت ‏سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں ‏میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے ‏گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص ‏عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ‏اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور ‏اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ‏ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا ‏منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، ‏فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص ‏پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم ‏کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ ‏قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے ‏سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود ‏انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن ‏المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، ‏تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح ‏کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ ‏لیں۔

ختنے کی رسم کا تاریخی جائزہ

 ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟

بی بی سی اردو 

2 جنوری 2023ء

اپنی پیدائش کے آٹھویں دن حضرت عیسیٰ کے بھی ختنے کیے گئے مگر ان کے بعد آنے والوں نے اس رسم کو ترک کر دیا۔ حالانکہ یہودیوں اور مسیحیوں میں کئی روایات اب بھی مشترکہ ہیں مثلاً اہم دنوں پر اجتماعی عبادات۔ 

مسیحی لوگ کیوں اپنے نومولود بچوں کے ختنے نہیں کرتے، اس کا جواب بائبل میں موجود ہے۔ 

بائبل کے عہد نامہ جدید یا نیو ٹیسٹامینٹ کے مطابق یہودیت اور مسیحیت میں ختنوں کے بارے میں تضاد سنہ 50 عیسوی میں آیا اور سینٹ پال (پولُس) اور سینٹ پیٹر (پِطرس) کے درمیان اس موضوع پر سخت بحث ہوئی۔ 

کیتھولک یونیورسٹی آف یوراگوئے میں مذہبی فلسفے کے پروفیسر میگیل پاستورینو نے بی بی سی مُنڈو سروس کو بتایا: ’یہ کلیسا کا پہلا ادارہ جاتی اختلاف تھا۔‘ 

سینٹ پال کو اس وقت تک سینٹ یا بزرگ کا درجہ نہیں دیا گیا تھا اور وہ صرف پال آف طرسوس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پال شروع میں شریعتِ موسوی کے فقیہ یعنی فریسی تھے اور حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو ستایا کرتے تھے مگر پھر بائبل کے مطابق وہ بدل گئے اور اُنھوں نے پوری دنیا میں یسوع مسیح کا پیغام پھیلایا۔ 

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت -
 ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی 
 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

سوال: مسلمان قوم اگر ہندوستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ پھر کیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟ اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں اور موجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں۔
ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ 

جواب: آپ نے جن بڑے بڑے’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔

شب برات کی بدعتیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

شب برات کی بدعتیں - عبد الماجد دریابادی
شب برات آگئی۔ گھر گھر حلوے کے سامان ہورہے ہوں گے اور جن کے پاس روپیہ نہ ہوگا ، وہ قرض لے کر اس کی فکر کررہے ہوں گے۔ میدہ، گھی، شکر، وغیرہ کی خریداری دل کھول کر ہورہی ہوگی۔ آتشبازی الگ بڑے پیمانہ پر تیار ہورہی ہوگی۔ آتشباز خوش ہورہے ہوں گے، کہ ابکی انار، پھلجھڑی، پٹاخے، چھچھوندر، کی خوب بکری ہوگی۔ یہ تیاریاں کہاں ہورہی ہوں گی؟ ان کے ہاں جو اپنے تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھتے ہیں، جن کے لئے خدا نے اسراف کو حرام قراردیاہے، جن کے رسول کی زندگی کا دامن اس قسم کے تمام لغویات سے یکسر پاک ہے، اور جن کے عقائد میں شب برات کے یہ تمام مراسم جواز کا کوئی پہلو ہی نہیں رکھتے۔

کتنے مسلمان ہیں ، جو حج نہ کرنے کا عذر اپنی ناداری کو بتاتے ہیں، جو زکوۃ نہ ادا کرنے کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں ، کہ ضروریات زندگی سے اتنی رقم بچنے ہی نہیں پاتی، اور جو اپنے عزیزوں میں ترکہ کی شرعی حیثیت تقسیم بھی محض اسی خوف سے نہیں کرتے کہ خود مفلس رہ جائیں گے۔ ان سے جب کہا جاتاہے کہ اپنی قوم کے یتیموں ، مسکینوں اور اپاہجوں کی بسراوقات کا انتظام کرو، تو مفلسی کا عذر پیش کیاجاتاہے ۔ جب کہاجاتا ہے کہ اپنی قوم کی تعلیم وتنظیم کے لئے سرمایہ جمع کرو، تو پھر ناداری ہی کے عذر کو دوہرایا جاتاہے۔ جب کہاجاتاہے کہ تحفظِ اسلام کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہے تو ایک بار پھر عذرِ افلاس ہی کو پیش کرکے اپنے تئیں بچایاجاتاہے، لیکن شب برات کے آتے ہی اسی مفلس قوم کے مفلس اشخاص یک بیک زردار ہوجاتے ہیں ، ہر گھر میں حلوا تیار ہونے لگتاہے، ہر گھرمیں آتشبازی چھوٹنے لگتی ہے، اور ہر گھر میں یہ تہوار پوری چہل پہل اور صورت جشن پیدا کردیتاہے۔

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج (قسط دوم ) - عرفان شہزاد

ماہنامہ اشراق ، تاریخ اشاعت : جون 2018ء 

مصارف زکوٰۃ

سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں جو لفظ ’الصَّدَقٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں عام صدقات کے علاوہ زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ یہ دراصل مملکت کا وہ تمام ریوینیو ہے جو مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے مصارف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

i۔ فقیر و مسکین

مصارف زکوٰۃ میں فقیر اور مسکین کی تعریف میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ دونوں سے مراد سماج کے حاجت مند طبقات ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی سادہ تعریف یہ ہے:

’’فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔

فن تصویر اور مجسمہ سازی کی شرعی حیثیت

فن تصویر او رمجسمہ سازی کی شرعی حیثیت 
ارشاد باری تعالی :   یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ﴿۱۳﴾ ( سورہ سبا) 

 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے 19۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں تصویریں20، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں21۔۔۔۔ اے آلِ داؤد عمل کو شکر کے طریقے پر 22، میرے بندوں میں کم ہی شکر گذار ہیں۔

سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے سورہ سبا کی  مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے تمثال یعنی تصویر اور مجسمہ سازی کی شرعی حیثیت کا تفصیل سے جائزہ لیا اور بعض قدیم اور جدید مغرب زدہ مفسرین پرغلط فہمی پر سخت تنقید کی ہے وہ لکھتے ہیں:  

" اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔التمشال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلا من خلق اللہ (لسان العرب)"" تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جب سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔

قربانی : جاوید احمد غامدی


وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ  بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ، فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.(الحج۲۲: ۳۴) 
’’ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی عبادت مشروع کی ہے تاکہ اللہ نے جو مواشی جانور اُن کو بخشے ہیں ، اُن پر وہ اللہ کا نام لیں، (کسی اور کا نہیں)۔ سو تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کرو (اور اُسی کے آگے جھکے رہو)، اور اُنھیں خوش خبری دو، (اے پیغمبر)، جن کے دل اُس کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘
قربانی : جاوید احمد غامدی 

دنیا کے تمام قدیم مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے ۔ اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جواُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرنا ہے، لیکن غور کیجیے تو یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ، بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ‘۱؂ (اور جو لوگ اللہ کی اِس راہ میں مارے جائیں، اُنھیں یہ نہ کہو کہ مردہ ہیں۔ وہ مردہ نہیں، بلکہ زندہ ہیں، لیکن تم اُس زندگی کی حقیقت نہیں سمجھتے)۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے کہ نماز جس طرح اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اِسی طرح قربانی اُس کی راہ میں ہماری موت ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۲) 

’’ کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔‘‘

اسلام کا نظام زکوۃ اور چند جدید مسائل ۔ مبشر حسین (ماہنامہ محدث میگزین نومبر 2003 ء )

نصابِ زکوٰۃ کے حوالے سے شریعت دو پہلوؤں سے گفتگو کرتی ہے :ایک تو یہ کہ کون کون سا مال موجب ِزکوٰۃ ہے اور دوسرا یہ کہ اس مال کی کتنی مقدار پرکس قدر زکوٰۃ اداکرنا ہوگی۔ آئندہ سطور میں ان دونوں پہلوؤں پر بالتفصیل روشنی ڈالی جائے گی۔

موجب ِزکوٰۃ اموال کون سے؟


شریعت نے جن اَموال پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے وہ یہ ہیں :

(i)حیوانات (ii) سونا، چاندی (اور نقدی، کرنسی) (iii)زمینی پیداوار(ان کی زکوٰۃ کو فقہی اصطلاح میں 'عشر 'سے موسوم کیا جاتا ہے ) اور (iv) تجارتی اموال ان کی مزید تفصیل حسب ِذیل ہے :

1. حیوانات کی زکوٰۃ


حیوانات کی زکوٰۃ سے متعلقہ چند اہم شروط درج ذیل ہیں:

1.ایک سال کا دورانیہ: حیوانات پرزکاۃ کے لئے ضروری ہے کہ ان پرایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو، اس شرط کی تفصیل گذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔

2. حیوانات سائمہ (چرنے والے) ہوں: حیوانات کے حوالے سے دوسری شرط یہ ہے کہ متعلقہ حیوانات پورا سال یا سال کا اکثر و بیشتر حصہ باہرجنگلوں میں چرتے ہوں یا دوسرے لفظوں میں انہیں چارہ ڈالنے کا کوئی خرچہ نہ آتا ہو(ایسے جانوروں کو احادیث میں 'سائمہ' سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ لیکن اگر پورے سال یا سال کے اکثر حصے کا چارہ قیمتاً حاصل کیا جاتا ہو تو پھر ان جانوروں پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :

(i ''في کل خمس من الإبل السائمة شاة'' (حاکم:۱؍۳۹۶)

''ہر پانچ سائمہ (باہرجنگل میں چرنے والے) اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''

(ii ''في کل سائمة إبل في أربعین بنت لبون'' (ابوداؤد:۱۵۷۵،احمد: ۵؍۲،۴،نسائی:۲۴۴۹)

''ہر چالیس سائمہ (باہر چرنے والے) اونٹوں پر ایک بنت ِلبون (وہ اونٹنی جس کا تیسرا سال شروع ہو) زکوٰۃ پڑتی ہے۔''

(iii ''في صدقة الغنم في سائمتھا إذا کانت أربعین إلی عشرین ومائة شاة'' (بخاری:۱۴۵۴،ابوداود:۱۵۶۷)

''چالیس سے ۱۲۰ تک سائمہ بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''

واضح رہے کہ 'سائمہ' کے الفاظ اونٹوں اور بکریوں کے بارے میں ہیں تاہم جمہور فقہا نے اس پر قیاس کرتے ہوئے گائیوں کے بارے میں بھی یہی شرط بیان کی ہے اور وہ احادیث جن میں سائمہ یا غیرسائمہ (معلوفہ) کاکوئی فرق مذکور نہیں، ایسی (مطلق) احادیث کو انہوں نے ان مقید احادیث پر محمول کیا ہے جن میں سائمہ کا ذکر ہے۔ البتہ امام مالک غیر سائمہ پربھی زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں اور سائمہ کی شرط کو قید ِاتفاقی قرار دیتے ہیں۔(حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر:ج۱؍ص۴۳۲، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱؍۵۹۶) لیکن ان کا یہ مسلک أقرب إلی السنة معلوم نہیں ہوتا۔

3. حیوانات 'غیر عاملہ' ہوں: غیر عاملہ کامعنی یہ ہے کہ وہ جانور افزائش نسل کے لئے ہوں، بار برداری، کھیتی باڑی اور ایسی ہی دیگر خدمات کیلئے نہ ہوں جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی ہے: ''لیس علی العوامل شيء'' (ابوداؤد:۱۵۷۲ ، دارقطنی ۲؍۱۰۳، نصب الرایۃ ۲؍۳۵۳)

''کام کرنے والے جانوروں پرکوئی زکوٰۃ نہیں۔''

اسلامی ریاست کی بنیاد ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

قرآن کریم کی تعلیمات سے واضح اور قطعی ثابت ہے کہ بعثت ِ انبیا ؑ کا مقصد روے زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا قیام ہے۔ جملہ انبیاے کرام نے اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کی۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عبادت ،بندگی کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تعمیر اور ہر قسم کے طاغوت،بغاوت، سرکشی ، بد اخلاقی اور بد اعمالی سے مکمل اجتناب رہا ہے :
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ (النحل۱۶:۳۶) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
 اللہ کی بندگی ، عبادت اور اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سپرد کر دینا ہی اسلام اور ایمان ہے ۔گویا صالح فرد، خاندان ، معاشرہ اورریاست کے قیام میں جو منطقی ربط پایا جاتا ہے، وہ اسلامی ریاست کے قیام کا منہج اور انسانی معاشرے میں معروف کے قیام اور منکر کے رفع کرنے کا اسوۂ انبیاؑ اور خصوصاًاسوۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔قرآن کریم نے اس پورے عمل کو صرف ایک اصطلاح ’اقامتِ دین‘ میں سمو دیا۔ نہ صرف حضرت یوسفؑ کے ہاتھوں قیامِ عدل و اصلاح بلکہ ہر دور میں اور ہر مقام پر دعوت،اصلاح اور معروف کے قیام کے لیے اس ایک اصطلاح میں وہ تمام پہلو شامل ہیں، جن کی تفصیل مقاصد ِشریعہ کی شکل میں ہمارے فقہا اور علما نے بیان کی ہے۔ جس کے تحت پورے دین کا قیام یا بالفاظِ دیگر قیام حاکمیت ِالٰہی ہے:

عقیدۂ توحید اور انسانی زندگی - علامہ یوسف القرضاوی

شرک کے شائبوں سے پاک عقیدۂ توحید جب کسی فرد کی زندگی میں آ جائے ، یا کسی قوم کی اجتماعی زندگی اس عقیدے پر اُستوار ہو جائے، تو زندگی میں اس کے بہترین ثمرات اور نہایت مفید اثرات سامنے آتے ہیں۔ ان ثمرات واثرات میں سے چند درج کیے جاتے ہیں:

انسانی آزادی

شرک اپنی تمام صورتوں اور مظاہر میں انسان کی ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ شرک انسان کو مخلوقات کے سامنے جھکاتا اور ان اشیا اور انسانوں کی بندگی اس سے کراتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں ۔ وہ خود اپنے کسی نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں ، اور نہ زندگی اور موت ان کے ہاتھ میں ہے، جب کہ توحید دراصل اللہ کی بندگی کے سوا ہرطرح کی بندگی سے انسان کی نجات اور آزادی کا نام ہے۔ توہمات وخرافات سے انسانی دل ودماغ کی آزادی ہے اور انسانی ضمیر کے کسی بھی چیز کے سامنے حقیر وذلیل ہونے سے آزادی ہے۔ وقت کے فرعونوں ،خدائوں اور جھوٹے معبودوں کے تسلط سے انسانی زندگی کی آزادی ہے۔

حسد سے نجات؟۔ ڈاکٹر تابش مہدی


’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔

اسلامی مملکت کی خصوصیات، علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ

اسلام اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کا راستہ

’’اسلام‘‘حق تعالیٰ کی وہ آخری نعمت ہے جس سے دنیا کو سرفراز کیا گیا ہے۔ اس نعمتِ اسلام سے صحیح اور کامل فائدہ اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب صحیح اسلامی حکومت دنیا میں قائم ہو اور اسلام کے احکام وقوانین جاری کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی سرپرستی حاصل ہو۔ عہدِنبوت میں بھی جب مدینہ طیبہ اسلامی مرکز بن گیا اور دارالاسلام وجود میں آگیا تب جا کر دینِ اسلام کی برکات کا ظہور ہونا شروع ہوا۔ غرض اسلام اور حکومتِ اسلام کا تعلق چولی دامن کا سا تعلق ہے، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا۔ حکومتِ اسلامی ہی وہ عظیم الشان سر چشمۂ برکات ہے جس کی بدولت اسلام پر صحیح عمل کی توفیق میسر آتی ہے۔ حکومتِ اسلامی کے قیام کے بعد مسلمانوں کی جان ومال وآبرو کی حفاظت ہوجاتی ہے اور قلب کو سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی حدودو تعزیرات کے نافذ ہوجانے کے بعد پرسکون ماحول میسر آجاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا حقیقی بیت المال قائم ہوجاتا ہے، جس کی بدولت کوئی یتیم‘ لاوارث، کوئی بیوہ، کوئی مسکین، کوئی فقیر‘ پریشان حال نہیں رہ سکتا، ان کی ہر قسم کی پریشانیوں اور تہی دستی وافلاس کا علاج ہوجاتا ہے۔ صحیح زکاۃ، صحیح عشرو خراج ادا کرنے کے بعد زمین کی پیداوار میں فوق العادۃ برکت ہونے لگتی ہے اور اس کے نتیجہ میں حقیقی اسلامی ہمدردی سے جمع شدہ اموال خرچ کرنے کی بنا پر مزید برکت نازل ہوتی ہے۔

’’فقہ‘‘ حدیث کی نظر میں اور مذہبِ ’’ظاہریّہ‘‘ پر ایک نظر۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ

عقل اور اس کا منصب 

’’عقل وادراک ‘‘ حق جل ذکرہٗ کا وہ ربانی عطیہ ہے جو علمی وعملی ’’کمالات ‘‘ اور فطری وکسبی ’’ملکات ‘‘ کے لیے بنیاد ہے، بلکہ علمی وروحانی منازل طے کرنے کے لیے سرچشمہ ہے۔ نظام عالم کی اصلاح کے لیے جو نوامیسِ الٰہیہ آئے ہیں، ان کا بڑی حد تک اسی پر مدار ہے۔ تہذیبِ نفوس وتزکیۂ اخلاق کا بھی یہی دارومدار ہے۔ انسان کے روحانی کمالات کا انتہائی عروج جسے ہم نبوت یا رسالت سے تعبیر کرتے ہیں، جن نفوسِ قدسیہ کو نصیب ہوا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے عقل وادراک کے انتہائی کمال کی ضرورت ہے۔

تشریعی قوانین اور تکلیفی احکام جس کے ذریعہ سے انسان ابدی نعیم کا مستحق ہوتا ہے‘ عقل وادراک اس کے لیے شرطِ اول ہے۔ غرض اس نعمت ِ عظمیٰ کی عظمت سے کوئی عاقل انکار نہیں کرسکتا ہے۔ کائناتِ عالم کی مادی وروحانی حیرت انگیز ترقیات سب اس کے کمال کی دلیل ہیں: ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ لیکن ہر چیز کے لیے خالقِ برحق اور قادرِ مطلق نے ایک حد مقرر کردی ہے، اس قانونِ قدرت کے مطابق عقل وادراک کے لیے بھی ایک منصب منتخب کردیا گیا ہے، اس کی حدود متعین ہوگئی ہیں۔ دیکھیے!

اسلامی قانون کے مآخذ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ

ہمارے اصول فقہ کے علما اسلامی قانون کے عموماً چار مآخذ بتاتے ہیں: کتاب، سنت، اجماع اور قیاس

مسئلے کی یہ تعبیر اگرچہ غلط نہیں ہے لیکن اس تعبیر میں بعض ایسے خلا ہیں جن کے سبب سے موجودہ زمانے کے ذہنوں کو اصل حقیقت کے سمجھنے میں بعض الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مَیں پہلے اس تعبیر کے خلا کی طرف اشارہ کروں گا۔ تاکہ وہ الجھنیں دور ہو سکیں جو اس تعبیر کے سبب سے ذہنوں میں پیدا ہوتی ہیں، اس کے بعد تفصیل کے ساتھ بتاؤں گا کہ اسلامی قانون کے ماخذ فی الواقع کیا کیا ہیں، ان ماخذوں کے حدود کیا ہیں اور ان سے استفادے کے شرائط کیا ہیں؟

مذکورہ تعبیر میں کھٹکنے والی باتیں تین ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اس میں اجماع کو تیسرے ماخذ قانون کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ کتاب و سنت کے بعد تیسرا ماخذ اسلام میں اجتہاد ہے۔ اجماع اجتہاد کی ایک قسم، بلکہ سب سے اعلی قسم تو ضرور ہے، لیکن اس کو تیسرے ماخذ قانون سے تعبیر کرنا اس عہد کے بہت سے لوگوں کو اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اجتہاد ایک تو کسی مجتہد کا انفرادی اجتہاد ہوتا ہے، ایک وہ اجتہاد ہوتا ہے جس پر وقت کے مجتہدین متفق ہو گئے ہوں۔ اس موخر الذکر اجتہاد کو اجماع کہتے ہیں۔ یہ سابق الذکر اجتہاد سے اس اعتبار سے بالکل مختلف ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت صرف ایک رائے کی نہیں رہ جاتی، بلکہ یہ دین میں بجائے خود ایک حجت کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

(تاریخ اشاعت : 24 نومبر 2018)


’انسانی حقوق‘ (Human Rights)کا موضوع زبان زد عام و خاص ہے۔ اس کا تذکرہ ہر مجلس میں ہوتاہے۔ ہر ادارہ ، ہر انجمن، ہر ملک اس کا چرچا کرتاہے اور اس کی دہائی دیتاہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق پر عمل نہیں کرتے ، دوسرے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں اور انہیں غصب کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں ، وہ بھی ان حقوق کی دہائی دینے سے نہیں تھکتے۔ آئندہ سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے انسانی حقوق کا کیا تصور دیاہے ؟ آپؐ نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ انسانی حقوق کے موجودہ رویوں اور بیانات سے کس قدر مختلف ہیں؟ آپؐ نے ان پر کس طرح خود عمل کرکے دکھایا ہے ؟ اور آپؐ کے پیروکار وں نے بھی کس طرح ان پر عمل کیا ہے۔

توہین رسالت کا مسئلہ - مولانا عمار ناصر

ماہنامہ اشراق ، مارچ 2011

( اس میں  توہین رسالت کے بارے میں  مختلف ادوار کے فقہائے کرام و  ائمہ مجتہدین کے نقطۂ نظر کا جائزہ لیا گیا )

چند اہم سوالات کا جائزہ

بنیادی سوالات

توہین رسالت اور اس کی سزا کے مسئلے نے ایک بار پھر ذرائع ابلاغ میں ہونے والی بحثوں میں خصوصی اہمیت حاصل کر لی ہے اور مختلف طبقہ ہاے فکر اس کے متنوع پہلووں پر اپنے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں جو مختلف سوالات زیر بحث ہیں، ان میں سے اہم یہ ہیں: 

۱۔ توہین رسالت کے جرم کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ آیا انھیں اس حوالے سے مذہبی وجذباتی حساسیت کا اظہار کرنا چاہیے یا اسے نظر انداز کر دینے اور تحمل وبرداشت کا رویہ اپنانا چاہیے؟ خاص طور پر یہ کہ اس قسم کے واقعات کی محض اخلاقی سطح پر مذمت کافی ہے یا اسے باقاعدہ قانونی سزا کا موضوع بنانا چاہیے؟

۲۔ اگر اسلام کی نظر میں توہین رسالت کوئی ایسا جرم ہے جس کے حوالے سے نہ صرف مسلمانوں کے معاشرے کو حساس ہونا چاہیے بلکہ مسلمانوں کی ریاست میں قانونی سطح پر بھی اس کے سدباب کی تدبیر کی جانی چاہیے تو پھر کیا شریعت نے اس جرم کے بارے میں کوئی ایسی متعین سزا بیان کی ہے جس کا نفاذ ہر حال میں لازمی ہو یا اس معاملے کو مسلمانوں کے اولو الامر کی صواب دید اور اجتہاد پر چھوڑ دیا گیا ہے؟

۳۔ کیا اس معاملے کو ہر حال میں خالصتاً قانون کے زاویے سے دیکھنا چاہیے یا اسلامی ریاست کی سیاسی حکمت عملی کا بھی اس میں کوئی دخل ہے؟ دوسرے لفظوں میں ، کیا اس معاملے میں قانون کا بے لچک نفاذ ہی دین وشریعت کا منشا ہے یا اسلام اور اہل اسلام کے وسیع تر مذہبی وسیاسی مصالح کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے؟ اسی سوال کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تو عام انسانی سطح پر رد عمل کے اظہار میں کیا ’ہر چہ بادا باد‘ کا طریقہ شارع کی نظر میں جذبہ ایمانی کا معیار ہے یا وہ اس ضمن میں افراد کی افتاد طبع اور مزاج اور مختلف گروہوں کے معاشرتی پس منظر کے لحاظ سے رد عمل کے تنوع اور اس کی شدت میں تفاوت کی گنجائش بھی تسلیم کرتا ہے؟

۴۔ اگر کوئی شخص توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دینے کا قانونی اختیار کس کے پاس ہے؟ آیا ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تئیں ایسے مجرموں کے خلاف اقدام کر ڈالے یا دوسرے جرائم کی طرح یہاں بھی سزا کے نفاذ کے لیے قانون اور عدالت ہی سے رجوع کرنا لازم ہے؟

یہ تمام سوالات بدیہی طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ آئندہ صفحات میں ہم انھی سوالات کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کریں گے۔

اسلامی ریاست کی ذمہ داری

توہین رسالت کے ارتکاب پر مجرم کو سزا دینے کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک نقطہ نظر یہ پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو اس نوعیت کے واقعات پر تحمل اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور خاص طور پر قانون کی سطح پر اسے کسی تعزیری اقدام کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر دو الگ الگ فکری پس منظر رکھنے والے حلقوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اور ظاہری نتیجے پر اتفاق کے باوجود ان دونوں کی استدلالی بنیادیں باہم بالکل مختلف ہیں۔

ان میں سے پہلے گروہ کا زاویہ نظر بنیادی طور پر ایک مذہبی استدلال پر مبنی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں بہت سی دینی، دعوتی اور اجتماعی مصلحتوں کی خاطر اپنی ذات گرامی کے بارے میں سب وشتم، ہجو گوئی اور توہین وتنقیص کا رویہ اختیار کرنے والے لوگوں سے صرف نظر فرمایا تھا اور شان کریمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے جرم کو معاف کر دیا تھا، اس لیے آج مسلمانوں کو بھی آپ کے اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی چاہیے اور توہین رسالت کے واقعات کی اخلاقی مذمت پر اکتفا کرتے ہوئے اس کے جواب میں اسلام کے پیغام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بہتر سے بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

توہین رسالت کی سزا - مولانا عمار ناصر

’’محاربہ اور فساد فی الارض‘‘ کے زیر عنوان ہم نے واضح کیا ہے کہ محاربہ کو ریاست کے خلاف جرم کی کسی مخصوص صورت میں منحصر کر دینا درست نہیں اوراقتدار اعلیٰ کے خلاف بغاوت، سرکشی اور اس کے اختیار کو چیلنج کرنے کی ہرصورت اس کے دائرۂ اطلاق میں شامل ہے۔ ہم نے وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ:


’’ہماری راے میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کا جرم اور اس پرسزا کا معاملہ بھی اپنی قانونی اساس کے لحاظ سے آیت ’محاربہ‘ ہی پر مبنی ہے، اس لیے کہ ایک اسلامی معاشرے میں، جو ایمان واعتقاد اور قانونی وسیاسی سطح پر اطاعت وسرافگندگی کے آخری مرجع خدا اور اس کے رسول کو مانتا اوراپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو رسول اللہ ہی کی لائی ہوئی ہدایت کا مرہونمنت سمجھتا ہے، خدا کے رسول کی توہین وتحقیر بھی ’محاربہ‘ اور ’فساد فیالارض‘ کی ایک صورت ہے اور اگر کوئی شخص دانستہ ایسا کرتا اور اس پر مصررہتا ہے تو وہ نہ صرف اس کے باشندوں کے مذہبی جذبات واحساسات کو مجروح کرتاہے، بلکہ ریاست کے مذہبی تشخص کو بھی چیلنج کرتا اور اسے پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ جرم انھی سزاؤں کا مستوجب قرار پانا چاہیے جو آیتمحاربہ میں بیان ہوئی ہیں۔‘‘

یہاں ہم اپنے اس نقطۂ نظر کی تفصیل کرنے کے علاوہ اس مسئلے کے بعض دیگر اہم پہلووں کی بھی وضاحت کریں گے۔

۱۔ جمہور فقہا نے توہین رسالت پرسزاے موت کو ’عقد ذمہ‘ کی خلاف ورزی سےمتعلق قرار دیا ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ اہل ذمہ کے ساتھ جزیہ کیادائیگی کی شرط کے ساتھ اسلامی ریاست میں رہنے کا معاہدہ اس بنیاد پر کیاجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں گے اور اسمیں یہ بات ازخود شامل ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہب اور مذہبی شخصیات اورشعائر کا احترام ملحوظ رکھیں گے۔ چنانچہ اگر کوئی ذمی شتم رسول کا مرتکبہوتا ہے تو وہ اس معاہدے کو جس کی وجہ سے اس کی جان کو تحفظ حاصل تھا، توڑدیتا ہے اور نتیجتاً مباح الدم قرار پاتا ہے، اس وجہ سے اسے قتل کر دیاجائے گا۔ ۱؂ہماری راے میں فقہا کا شتم رسول کو نقض عہد کے ہم معنی قراردینا درست ہے، ۲؂تاہم اس پر سزا کے معاملے کو اصلاً عقد ذمہ کی خلافورزی کا نتیجہ قرار دینا اس وجہ سے محل نظر ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہوسلم کے دور میں شتم رسول کے جن مجرموں کو موت کی سزا دی گئی، وہ سب کے سبیا تو ’معاہد‘ تھے یا مسلمانوں کے کھلم کھلا دشمن اور ان میں سے کوئی بھیفقہی اصطلاح کے مطابق ’ذمی‘ نہیں تھا۔ ۳؂