گوشۂ شبلی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ شبلی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : ایران پر عام لشکر کشی - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642ء)

اس وقت تک حضرت عمرؓ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق، البتہ ممالک محروسہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن وہ در حقیقت عرب کا ایک حصہ تھا کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمرؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’ کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے، نہ ہم ان پر چڑھ سکتے۔‘‘

لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہ آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے، وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکے سے حضرت عمرؓ کو اس پر خیال ہوا او راکابر صحابہ ؓ کو بلا کر پوچھا کہ ’’ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا جب تک یزد گرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک ایرانیوں کا یہ خیال رہے گا کہ تخت کیان کا وارث موجود ہے، اس وقت تک ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام اور ہجرت - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 قبول اسلام 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوایعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیاتھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک اسلام سے بالکل بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صداپہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان ے خاندان میںایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ذرا دم لے لوں پھر مارو ں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زدوکوب سے دریغ نہیںکرتے تھے لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتاتھا اترتا نہ تھا ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کر سکے ۔ آخر مجبور ہوکر فیصلہ کر لیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں۔ تلوارکمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے ۔ کارکنان قضانے کہا:

آمد آں یارے کہ مامے خواستیم

راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر ہے؟ بولے کہ ’’محمد کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں‘‘۔ انہوںنے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیَ فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی؟َ بہن نے کہا کچھ نہیں بولے کہ نہیںمیں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر ہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اورجب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہولہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ عمر! جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب ان کے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر ایک خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھیا۔ یہ دریکھ کر اور بھی رقت ہوئی۔ فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سنائو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے قرآ کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکاھ تو یہ سورۃ تھی۔

کتاب " الفارق " کا دیباچہ - شمس العلما علامہ شبلی نعمانی ؒ

’’الفاروق‘ ‘ جس کا غلغلہ وجود میں آنے سے پہلے تما م ہندوستان میں بلند ہو چکا ہے۔ اول اول اس کا نام زبانوں پر اس تقریب سے آیا ہے کہ المامون طبع اول کے دیباچہ میں ضمناً اس کا ذکر آگیا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ مصنف کی طرف سے بالکل سکوت اختیار کرگیا‘ تاہم نام میں کچھ ایسی دلچسپی تھی کہ خود بخود پھیلتا گیا‘ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی اجزاء بھی تیار نہیں ہوئے تھے کہ تمام ملک میں اس سرے سے ا س سرے تک الفاروق کابچہ بچہ کی زبان پر تھا۔

ادھر کچھ ایسے اسباب پیش آئے کہ الفاروق کا سلسلہ رک گیا اوراس کی بجائے دوسرے کام چھڑ گئے۔ چنانچہ ا س اثنا میں متعدد تصنیفیں مصنف کے قلم سے نکلیں اور شائع ہوئیں لیکن جونگاہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کوکبہ جلال کا انتظا ر کر رہی تھیں ان کو کسی دوسرے جلوہ سے سیری نہیں ہو سکتی تھی۔ سوئے اتفاق یہ کہ مجھ کو الفاروق کی طرف سے بے دلی کے بعض ایسے اسباب پیدا ہوگئے تھے کہ میں نے اس تصنیف سے گویا ہاتھ اٹھا لیا تھا لیکن ملک کی طرف سے تقاضے کی صدائیں رہ رہ کر اس قدر بلند ہوتی تھیں کہ میں مجبوراً قلم ہاتھ میں رکھ رکھ کر اٹھا لیتا تھا ‘ بالآخر ۱۸ اگشت ۱۸۹۴ء کو میں نے ایک قطعی فیصلہ کر لیا اور مستقل اور مسلسل طریقے پر اس کام کو شروع کیا۔ ملازمت کے فرائض اور اتفاقی موانع وقتاً فوقتاً اب بھی سد راہ ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ متعدد دفعہ کئی کئی مہینے کاناغہ پیش آگیا‘ لیکن چونکہ کام کا یہ سلسلہ مطلقاً بند نہیں ہوا اس لیے کچھ نہ کچھ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آج پورے چار برس کے بعد یہ منزل طے ہوئی اور قلم کے مسافر نے کچھ دنوں کے لیے آرام لیا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : فتوحات شام - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 فتوحات شام

سلسلہ واقعات کے لحاظ سے ہم اس موقع پر شام کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات بھی نہایت اجال کے ساتھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آغاز ۱۳ھ (۶۳۴ئ) میں شام پر کئی طرف سے لشکرکشی کی۔ ابوعبیدہؓ کو حمص پر یزید بن ابی سفیانؓ کو دمشق پر شرجیل ؓ کو اردن پر عمرو بن العاص ؓ کو فلسطین پر مامور کیا۔ فوجوں کی مجموعی تعداد ۲۴۰۰۰ تھی عرب کی سرحد سے نکل کر ان افسروں کو ہر قدم پر رومیوںکے برے بڑے جتھے ملے جو پہلے سے مقابلہ کے لیے تیار تھے۔ ان کے علاوہ قیصر نے تمام ملک سے فوجیں جمع کرکے الگ الگ افسروں کے مقابلے پر بھیجیں۔ یہ دیکھ کر افسران اسلا نے اس پر اتفاق کیا کہ ک فوجیں یکجا جمع ہو جائیںَ ا س کے ساتھ ابوبکرؓ کو خط لکھا اور فوجیں دد کو روانہ کیں۔ چنانچہ خالد بن ولیدؓ جو عراق کے مہم پر مامور تھے عراق سے چل کر راہ میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑتے اور فتح حاصل کرتے دمشق پہنچے اوراس کو صدرمقام قرار دے کر وہاں مقام کیا۔ قیصر نے ایک بری فوج مقابلے کے لیے روانہ کی جس نے اجنادین پرپہنچ کر جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ خالد اور ابوعبیدہؓ خود پیش قدمی کر کے اجنادین پر بڑھے اور افسروں کو لکھ بھیجا کہ وہیں آکر مل جائیں چنانچہ شرجیل یزید عمر و بن العال ؓ وقت مقررہ پر اجنادین پہنچ گئے۔ خالدؓ نے بڑھ کر حملہ کیا اور بہت بڑے معرکے کے بعد جس میں تین ہزار مسلمان مارے گئے کامل فتح حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ حسب روایت ابن اسحاق ۲۸ جماد ی الاول ۱۳ ھ (۶۳۴ئ) میں واقع ہوا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر خالدؓ نے پھر دمشق کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ اگرچہ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں شروع ہوا لیکن چونکہ فتح حضرت عمرؓ کے عہد میں حاصل ہوئی ہم اس معرکہ کا حال تفصیل سے لکھتے ہیں۔

فتح دمشق

یہ شہر شام کا ایک بڑا صدر مقام تھا اور چونکہ جاہلیت میں اہل عرب تجارت کے تعلق سے وہاں اکثر آیا جایاکرتے تھے۔ اس کی عظمت کا شہرہ تمام عرب میںتھا۔ ان وجوہ سے خالدؓ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کے سامان کیے۔ شہر پناہ کے بڑے بڑے دروازوں پر ان افسروں کو قرر کیا جو شام کے صوبوں کی فتح پر مامور ہو کر آئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاسؓ باب توما پر شرجیل ؓ باب الفرادیس پر ابوعبیدہؓ باب الجابیہ پر متین ہوئے اور خود خالدؓ نے پانچ ہزار فوج ساتھ لے کر باب الشرق کے قریب ڈیرے ڈالے۔ محاصرہ کی سختی سے عیسائی ہمت ہارے جاتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ ان کے جاسوس جو دریافت کے لیے مسلمانوں کی فوج میں آتے تھے۔ آ کر دیکھتے تھے کہ تمام فوج میں ایک جوش کا عالم ہے۔ ہر شخص پر ایک نشہ سا چھایا ہے ہر ہر فرد میں دلیری ثابت قدمی راست بازی عزم اور استقلال پایا جاتا ہے۔ تاہم ان کو یہ سہارا تھا کہ ہرق سرپر موجود ہے اور حمص سے امدادی فوجیں چل چکی ہیں۔ اسی اثناء میں ابوبکرؓ نے انتقال کیا۔ اور حضرت عمرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔

عیسائیوں کوبھی خیال تھا کہ اہل عرب ان ممالک کی سردی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ا س لیے موسم سرما تک یہ بادل آ پ سے آپ چھٹ جائے گا۔ لیک ان کی دونوں امیدیں بیکار گئیں مسلمانوں کی سرگرمی جاڑوں کی شدت می بھی کم نہ ہوئی۔ ادھر خالدؓ نے والکلاع کو کچھ فوج دے کر دمشق سے ایک منزل کے فاصلے پر متعین کردیا تھا۔ کہ ادھر سے مدد نہ آنے پائے۔ چنانچہ ہرقل نے حمص سے جو فوجیں بھیجیں تھیں وہیں روک لی گئیں۔ دمشق والوں کو اب بالکل مایوسی ہو گئی اسی اثنا میں اتفاق سے ایک واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں تائید غیبی کا کام دے گیا عینی بطریق دمشق کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کی تقریب میں تمام شہر نے خوشی سے جلسے کیے اور اس کثرت سے شرابیں پیں کہ شام سے پڑ کرسو رہے۔ خالدؓ راتوں کو سوتے کم تھے اور محصورین کی ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے تھے۔ اس سے عمدہ موقع کہاں ہاتھ آ سکتا ہے کہ اسی وقت اٹھے ارو چند بہادر افسروں کو ساتھ لیا۔ شہر پناہ کے نیچے خندق پانی سے لبریز تھی۔ مشک کے سہارے پار اترے اور کمند کے ذریعے دیوار پر چڑھ گئے۔ اوپر جا کر رسی کی سیڑھی کمند سے اٹکاکر نیچے لٹکا دی اور اس ترکیب سے تھوڑی سی دیر میں بہت جانثار فصیل پر پہنچ گئے۔ ۱؎خالد نے اتر کر پہلے دربانوںکو تہ تیغ کیا پھر قفل توڑ کر دروازے کھول دیے۔ ادھر فوج پہلے سے تیار کھڑی تھی دروازہ کھلنے کے ساتھ سیالب کی طرح گھس آئی اور پہرہ کی فوج کو تہہ تیغ کر دیا۔ عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھ کر شہر پناہ کے تمام دروازے خود کھول دیے اور ابوعبیدہؓ سے ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالدؓ سے بچائیے۔ مقسلا ط میں جو ٹھیٹروں کا بازار تھا ابوعبید و خالڈؓ کا سامنا ہوا۔

۱؎  یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری کا بیان ہے کہ خالدؓکو عیسائیوں نے جنشن کی خبر خود ایک عیسائی نے سنائی تھی اور سیڑھی بھی عیسائی لائے تھے۔

خالدؓ نے شہر کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا اگرچہ لڑ کر فتح کیا تھا لیکن ابوعبیدؓ نے چونکہ صلح منظور کر لی تھی۔ مفتوحہ حصے میںبھی صلح کی شرطیں تسلیم کر لی گئیں یعنی نہ غنیمت کی اجازت دی گئی اور نہ کوئی شخص لونڈی یا غلام بنایا گیا۔ یہ مبارک فتح جو تمام بلاد شامیہ کی فتح کا دیباچہ تھی رجب ۱۴ ھ (۶۳۵ء میں ہوئی۔

فحل زوقعدہ ۱۴ھ (۶۳۵ء )

دمشق کی شکست نے رومیوں کو سخت برہم کیا او ر وہ ہر طرف سے جمع ہو کر بڑے زور اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے آمادہ ہوئے۔ دمشق کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا اس لیے انہوںنے اسی صوبے کے ایک مشہور شہر بیسان میں فوجیں جمع کرنی شروع کیں۔ شہنشاہ ہرقل نے دمشق کی امداد کے لیے جو فوجیں بھیجی تھیں اور دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں وہ بھی اس میں آکر شامل ہو گئیں۔ اس طرح تیس چالیس ہزار کا مجمع ہو گیا جس کا سپہ سالار رسلکار نام کا ایک رومی افسر تھا۔

موقعہ جنگ کے سمجھنے کے لیے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شام کا ملک چھ ضلعوں میں منقسم تھا۔ جن سے د مشق‘ حمص‘ اردن‘ فلسطن مشہور اضلاع تھے۔۔ اردن کا صدر مقام طبریہ تھا جو دمشق سے چار منزل تھا طبریہ کے مشرقی جانب بارہ میل کی لمبی ایک جھیل ہے اسی ک قریب چند میل پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کا نام پرانا نام سلا اور نیا یعنی عرب نام فجل ہے۔ یہ لڑائی اسی شہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام اب بالکل ویران ہے تاہم اس کے کچھ کچھ آثار اب بھی سمندر کی سطح سے چھ سو فٹ بلندی پر محسو س ہوتے ہیں۔ بیسان طبریہ کی جنوبی طرف ۱۸ میل پر واقع ہے۔

رومی فوجیں بیسان میں جمع ہوئیں اور مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑائو ڈالا۔ رومیوںنے اس ڈر سے کہ مسلمان دفعتہ نہ آ پڑیں۔ آس پاس جس قدر نہریںتھیں سب کے بند توڑ دیے وارفحل سے بیسان تک تمام عالم آب ہو گیا۔ کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب کب رک سکتا تھا۔ مسلمانو ں کااستقلال دیکھ کر عیسائی صلح  پر آمادہ ہوئے۔ اور ابوعبیدہؓ کے پاس پیغا م بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابوعبیدہ ؓ نے معاذ بن جبلؓ کو بھیجا معاذ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے وہیں ٹھہر گئے۔ ایک عیسائی نے آ کر کہا کہ میں گھوڑ ا تھام لیتا ہوں۔ آپ دربار میں جا کر بیٹھیے۔ معاذ ؓ کی بزرگی اور تقدس کا عام چرچاتھا اور عیسائی تک اس سے واقف تھے۔ اس لیے وہ واقعی ان کی عزت کرنی چاہتے تھے اور ان کاباہر کھڑا رہنا ان کو گراں گزرتا تھا۔ معاذؓ نے کہا میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہواہے بیٹھنا نہیں چاہتا یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عیسائیوں نے  افسوس کیا اور کہا کہ ہم تمہاری عزت کرنا چاہتے تھے لیکن تم کو خود اپنی عزت کا خیا ل نہیں تو مجبوری ہے۔ معاذؓ کو غصہ آیا گھٹنوںکے بل کھڑے ہوگئے اور کہا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہومجھے اس کی پرواہ نہیںَ اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر کون اللہ کا غلام ہو سکتاہے؟ رومی ان کی بے پروائی اور آزدی پر حیرت زدہ تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بڑھ کر بھی کوء ہے؟َ انہوںنے کہا معاذ اللہ  یہی بہت ہے کہ یں سب سے بدتر نہ ہوں۔ رومی چپ ہو گئے۔ معاذ ؓ نے کچھ دیر تک انتظار کیا اور مترجم سے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ گر تم کو مجھ سے کچھ کہنا نہیں ہے تو  میں واپس جاتا ہوں۔ رومیوں نے کہا ہ کو یہ پوچھنا ہے کہ تم اس طرف کس غرض سے آئے ہو۔ ابی سینیا کا ملک تم سے قریب ہے۔ فارس کا بادشاہ مر چکا ہے۔ اور سلطنت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو چھوڑ کر تم ہماری طرف کیوں رخ کیا۔ حالانکہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسامان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں۔معاذؓ نے کہا سب سے پہلے یہ ہماری درخواست ہے کہ تم مسلمان ہو جائو۔ ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو شراب پینا چھوڑ دو سور کا گوشت نہ کھائو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہارے بھائی ہیںَ اگر اسلام لانا منظور نہیں ہے تو جزیہ دو۔ اس سے بھی انکار ہو تو آگے تلوار ہے۔ اگر تم آسمان کے ستاروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت اور کثرت کی پراوہ نہیں ہمارے اللہ نے کہا ہے

کم من فیہ قلیلۃ غلبت فیۃ کثیرۃ باذن اللہ

تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شنہشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیںَ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کوہم سے بڑا نہیں سمجھتا مال و دولت میں اس کو ہم پر کوئی ترجیح نہیں۔ رومیوںنے کہا اچھا ہم تم کو بلقا کا ضع اور ارد ن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں تم یہ لک چھوڑ کر فارس جائو معاذؓ نے انکار کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔ رومیوںنے براہ راست ابوعبیدہؓ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک قاصد بھیجا جس وقت وہ پہنچا ابوعبیدہ ؓ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ قاصد نے خیال کیا کہ سپہ سالار بڑا جاہ و ہشم رکھتا ہو گا اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا لیکن وہ جس طرح آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا وہ حیران رہ گای اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو ابوعبیدہؓ نے کہا ہاںَ قاصد نے کہا ہم تمہاری فوج  کو فی کس دو د و اشرفیاں دیں گے تم یہاں سے چلے جائو۔ ابوعبیدہ ؓ نے انکار کیا تو برہم ہو کر اٹھا۔ ابوعبیدہؓ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمرؓ کو لکھ بھیجے ۱؎۔ حضرت عمرؓ نے جواب مناسب لکھا اور حوصلہ دیا کہ ثابت قدم رہو اللہ تمہارا یاور اور مددگار ہے۔

ابوعبیدہؓ نے اسی دن کمربندی کا حکم دے دیا تھا لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے۔ اگلے دن تنہا خالدؓ میدان میں گئے صر ف سواروں کا ایک رسالہ رکاب دار تھا۔ رومیوںنے بھی جنگ کی تیاری کی اور فوج کے تین حصے کر کے باری باری میدان میں بھیجے۔ پہا دستہ خالدؓ کی طرف باگیں اٹھائے چل آ رہا تھا کہ خالدؓ کے اشارے سے قیس بن ہبیرہ نے صف سے نکل کر ان کا آگا روکا اور سخت کشت و خون ہوا۔ یہ معرکہ ابھی سر نہیں ہو ا تھا کہ دوسری فوج نکلی۔ خالدؓ نے میسرہ بن مسروق کو اشارہ کیا وہ اپنے رکاب کی فوج لے کر مقابل ہوئے تیسرا لشکر بڑے سروسامان سے نکلا۔ ایک مشہور سپہ سالار تھا اور بڑی تدبیر سے فوج کوبڑھاتا آتا تھا۔ قریب پہنچ کر خود ٹھہر گیا اور ایک افسر کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ خالدؓ کے مقابلے کو بھیجا خالدؓ نے بھی یہ حملہ نہایت استقلال سے سنبھالا۔ آخر سپہ سالار نے خود حملہ کای اورپہلی دونون فوجیں آ کر مل گئیںَ دیر تک معرکہ رہا۔ مسلمانوںکی ثابت قدمی دیکھ کر رومیوںنے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور الٹا بھاگنا چاہا۔ خالدؓ نے ساتھیوں سے کہا کہ رومی اپنا زور صرف کر چکے اب ہماری باری ہے اس صدا کے ساتھ مسلمان دفعتہ ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو برابر د باتے چلے گئے۔

عیسائی مدد کے انتظارمیں لڑائی ٹالتے جا رہے تھے۔ خالدؓ ان کی یہ چال سمجھ گئے اور ابوعبیدہؓ سے کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ حملے کا یہی وقت ہے چنانچہ اسی وقت نقیب فوج میں جا کر پکار آئے کہ حملہ کل ہوگا۔ فوج سروسامان سے تیار رہے۔ رات کے پچھلے پہر ابوعبیدہ ؓ بستر خواب سے اٹھے اور فوج کی ترتیب شروع کی۔ معاذ بن جبلؓ کومیمنہ پر مقرر کیا سوار خالدؓ کی ماتحتی میں دیے گئے۔ فوج آراستہ ہو چکی تو ابوعبیدہؓ نے اس سرے سے اس سرے تک ایک چکر لگایا۔ ایک ایک علم کے پاس جا کر کھڑ ے ہوتے تھے اورکہتے تھے۔

عباد اللہ استو جبو من اللہ النصر بالصبر فان اللہ مع الصبرین

’’یعنی اللہ سے مدد چاہتے ہوتو ثابت قدم رہو کیونکہ اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔

۱؎  فتوح الشام ازدی میں ہے کہ یہ خط ایک شامی لے کر گیا تھا اور حضرت عمرؓ کی ترغیب سے مسلمان ہو گیا۔

رومیوںنے جو تقریباً پچاس ہزارتھے‘ آگے پیچھے پانچ صفیں قائم کیں جن کی ترتیب یہ تھی کہ پہلی صف میں ہر ہر سوار کے دائیں بائیں دو دو قدر انداز میمنہ اور میسرہ پر سواروں کے رسالے پیچھے پیادہ فوجیں۔ اس ترتیب سے نقارہ و دمامہ بجاتے ہوئے مسلمانوں کی طرف بڑھے۔ خالدؓ چونکہ ہر اول پر تھے انہی سے مقابلہ ہوا۔ رومی قدر اندازوں نے تیروں کا اس قدر مینہ  برسایا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ خالد ؓ ادھرسے پلو دے کر مہمنہ کی طرف جھکے یونکہ اس مین سوار ہی سوار تھے۔ قدر انداز نہ تھے رومیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے تھے کہ میمنہ کا رسالہ فوج سے الگ ہو کر خالدؓ پر حملہ آور ہوا۔ خالدؓ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے یہاں تک کہ رسالہ فوج سے دورنکل آیا۔ خالدؓ نے موقع پا کر اس زور شو رسے حملہ کیا کی صفیںکی صفیں الٹ دیں۔ گیارہ بڑے بڑے افسر ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔ ادھر قیس بن ہبیرہ نے میسرہ پر حملہ کرکے رومیوں کا دوسرا باز و بھی کمزور کر دیا۔ تاہم قلب کی فوج تیر اندازوں کی وجہ سے محفوظ تھی۔ ہاشم بن عتبہؓ نے جو میسرہ کے سردار تھے علم ہلا کر کہا اللہ کی قسم جب تک اس کو قلب میں پہنچ کر نہ گاڑدوں گا پھر کر نہ آئوں گا۔ یہ کہہ کر گھوڑے سے کو دپڑے اور ہاتھ میں سپر لے کر لڑتے بھڑتے اس قدر قریب پہنچ گئے کہ تیر و خدنگ سے گزر کر تیغ و شمشیر کی نوبت آئی۔ کامل گھنٹہ بھر لڑائی رہی اور تمام میدان خون سے رنگین ہو گیا۔ آخر رومیوں کے پائو ں اکھڑ گئے اور نہایت بدحواسی سے بھاگے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو فتح نامہ لکھا اور پوچھا کہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۱؎ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ رعایا ذمی قرار دی جائے اور زمین بدستور زمینداروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے۔

اس معرکے کے بعد ضلع اردن کے تمام شہر اورمقامات نہایت آسانی سے فتح ہو گئے اور ہر جگہ شرائط صلح میں یہ لکھ دیا گیا کہ مفتوحین کی جان و مال زمین مکانات گرجے عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گی صر ف مسجدوں کی تعمیر کے لیے کسی قدر زمین لے لی جائے گی۔

حمص ۱۴ھ (۶۳۵ء )

شام کے اضلاع میں یہ ایک بڑا ضلع ہ اور قدیم شہر ہے۔ انگریزی میں اس کو امیساء کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کی شہرت اس وجہ سے ہوئی کہ یہاں آفتاب کے نام پر ایک بڑا دیوہیکل تھا جس کے تیرتھ کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے اوراس کا پجاری ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جات تھی۔ دمشق اور اردن کے بعد تین بڑے شہررہ گئے تھے جن کا مفتوح ہونا شام کا مفتوح ہونا تھا۔ بیت المقدس حمص اور انطاکیہ جہاں خود ہرقل مقیم تھا‘ حمص ان دونوں کی نسبت زیادہ قریب او ر جمعیت و سامان میں دونوں سے کم تھا۔

۱؎  واقعہ فحل کی تفصیل فتوح الشام ازدی سے لی گئی ہے طبری وغیرہ ؤمیں اس کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے واقعہ کی کیفیت بھی خلاف ہے ۔

اس لیے لشکر اسلام نے اول اسی کا ارادہ کیا۔ راہ میں بعلبک پڑتا تھا وہ خفیف سی لڑائی کے بعد فتح ہو گیا۔ حمص کے قریب رومیوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چنانچہ ایک فوج کثیر حمص سے نکل کر جوسیہ میں مسلمانوں سے مقابل ہوئی لیکن خالدؓ کے پہلے ہی حملے میں ان کے پائوں اکھڑ گئے۔ خالدؓ نے بہرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص روانہ کیا راہ میں رومیوں کی ٹوٹی پھوٹی فوجوں سے جو ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھی مڈبھیڑ ہوئی اور مسلمان کامیاب رہے۔

اس معرکے میں شرجیل حمیری نے اکیلے سات سواروں کو قتل کیا اورفوج سے الگ ہو کر جریدہ حمص کی طرف بڑھے۔ شہر کے قریب رومیوں کے ایک رسالے نے ان کو تنہا دیکھ کر حملہ  کیا۔ انہوں ے بڑی ثابت قدمی سے جنگ کی یہاں تک کہ جب دس گیارہ شخص ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو رومی بھا گ نکلے اور ایک گرجا میںجو دیر مسحل کے نام سے مشہورتھا جا کر پناہ لی ساتھ ہی یہ بھی پہنچے گرجا میں اییک جماعت کثیر موجود تھی۔ یہ چاروں طرف سے گھر گئے اور ڈھیلوں اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی ہو کر شہادت حاصل کی۔ میسرہ کے بعد خالدؓ اور ابوعبیدہؓ نے بھی حمص کا رخ کیا اور محاصرہ کے ساما پھیلا دیے۔ چونکہ نہایت سردی تھی رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہ لڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہرقل کا قاصد آ چکا تھا کہ بہت جلد مدد بھیجی جات ہے۔ چنانچہ اس کے حکم کے موافق جزیرہ سے ایک  جمعیت عظیم روانہ ہوئی لیکن سعد بن ابی وقاصؓ نے جو عراق کی مہم پر مامورتھے یہ خبر سن کر کچھ فوجیں بھیج دیں۔ جس نے ان کو وہیں روک لیا اور آگے بڑھنے نہ دیا ۱؎۔ حمص والوں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر صلح کی درخواست کی۔ ابوعبیدہؓ نے عبادہ بن صامت کو وہاں چھوڑا اور خود حماۃ ۲؎ کی طرف روانہ ہوئے۔ حماۃ والوںنے ان کے پہنچنے کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا منظور کیا وہاں سے روانہ ہو کر شیزر اور شیزر سے معرۃ السمعان پہنچے اور ان مقامات کے لوگوں نے خود اطاعت قبول کر لی۔ ان سے فارغ ہو کر لاذقیہ کا رخ کیا۔ یہ ایک نہایت قدیم شہر ہے۔ فینیشن کے عہد میں اس کو امانثا کہتے تھے حضرت ابوعبیدہؓ نے یہاں سے کچھ فاصلے پر مقام کیا اور اس کی مضبوطی اور استواری دیکھ کر ایک نئی تدبیر اختیار کی یعنی میدان میں بہت سے غار کھدوائے۔ یہ غار اس تدبیر اور احتیاط سے تیار ہوئے کہ دشمنوں کو خبر تک نہ ہونے پائی ایک د فوج کو کوچ کا حکم دیا اور محاصرہ چھوڑ کر حمص کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر والوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ ا ٓگئے تھے اوران کا تمام کاروبار بند تھا۔ اس کو تائید غیبی سمجھا اور شہر کادرواز ہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہوئے۔

۱؎  کامل ابن الاثیر

۲؎  یہ ایک قدیم شہر حمص اور قسرین کے درمیان واقع ہے۔

مسلمان اسی رات کو واپس آ کر غاروں میں چھپ رہے تھے۔ صبح کے وقت کمین گاہوں سے نکل کر دفعتہ حملہ کیا اور دم کی دم میں شہر فتح ہو گیا۔ حمص کی فتح کے بعد ابوعبیدہؓ نے خاص ہرقل کے پائے تخت کا ارادہ کیا اور کچھ فوجیں اس طرح بھیج بھی دیں لیکن دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال اور آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس ارشاد کے موافق فوجیں واپس بلا لی گئیں۔ ۱؎ اور بڑے بڑے شہر وںمیں افسروں اور نائب بھیج دیے گئے کہ وہاں کسی طرح کی ابتری نہ ہونے پائے۔ خالدؓ ایک ہزار فوج لے کر دمشق کو گئے۔ عمرو بن العاص ؓ نے اردن میں قیام کیا۔ ابوعبیدہؓ نے خود حمص میں اقامت کی۔

یرموک ۵ رجب ۱۵ ھ (۶۳۶ء )

رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے انطاکیہ پہنچے اورہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامال کر دیا ہے۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ عرب تم سے زور میں جمعیت میں سروسامان میں کم ہیں پھر تم ان سے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن ایک تجربہ کار بوڑھے نے عرض کیا کہ عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کوروزہ رکھتے ہیں کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک ایک سے برابری سے ملتاہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں بدکاریاں کرتے ہیں اقرار کی پابندی نہیںکرتے۔ اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے ہر کام میں جوش و استقلال پایاجاتا ہے۔ اور ہمارا جو کا ہوتا ہے ہمت و استقلال سے خالی ہوتا ہے۔ قیصر درحقیقت شامل سے نکل جانے کاارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیر ت آئی اورنہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہواکہ شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے  میں صرف کر دیا جائے۔ روم قسطنطنیہ جزیرہ آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروںکو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو ں سکیں روانہ کیے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امڈ آیا انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھیں فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔

۱؎  فتوح ازردی ص ۱۳۱

حضرت ابوعبیدہؓ نے جو مقامات فتح کر لیے تھے وہاں کے امراء اور رئیس ا ن کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود تخالف مذہب کے خود اپنے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقر ر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت ابوعبیدہؓ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہو ںنے تمام افسروںکو جمع کیا اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانو! اللہ نے تم کو باربار جانچا اور تم اس کی جانچ میں پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلے میں اللہ نے ہمیشہ تم کو مظفر و مصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس سروسامان سے تمہارے مقابلے کے لیی چلا ہے کہ ز مین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتائو کیا صلاح ہے؟ یزید بن ابی سفیان ؓ (معاویہؓ کے بھائی) کھڑ ہوئے اورکہا کہ میرے رائے ہے کہ بچوں اور عورتو کو شہرمیں رہنے دیں اورہم خود شہر کے باہر لشکر آراء ہوں ا س کے ساتھ خالد ؓ اورعمرو بن العاص ؓ کو خط لکھاجائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں شرجیل بن حسنہ نے کہاکہ ا س موقعہ پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینا چاہیے یزید نے جو رائے دی بے شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تما عیسائی ہیں ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کوپکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں یا خودمار ڈالیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اس ی تدبیریہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیںَ شرجیل نے اٹھ کر کہا امیر تجھ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے عیسائیوں کو اس شرط پرامن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں اس لیے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہ ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے؟ عام حاضرین نے رائے دیکہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے ابوعبیدہؓ نے کہا اتنا وقت کہاں ہے؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت عبیدہؓ نے حبیب بن سلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج وصول کیاجاتاہے اس معاوضہ میں لیا جاتا ہے کہ ہم ان کو دشمنوں سے بچا سکیں۔ لیکن ا س وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیںاٹھا سکتے۔ اس لیے جو کچھ وصول ہوا ہے سب ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق ہے اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تم کو واپس کیاجاتاہے۔ چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں کو اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوںنے کہا توریت کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہرپناہ کے دروازے بند کر دیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔

ابوعبیدہؓ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتائو نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جذیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ ۱؎

غرض ابو عبیدہ ؓ دمشق کو روانہ ہوئے وار ان تمام حالات سے حضرت عمر ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے‘ نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہو اکہ ک فوج اور افسران فوج نے یہی فیصلہ کیا تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ اللہ نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ ابوعبیدہؓ کو جواب میں لکھا کہ میں مدد کے لیے سعید بن عامرؓ کو بھیجتا ہوں لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہے۔ ابوعبیدہؓ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورت کی۔ یزید بن ابی سفیان‘ معاذ بن جبلؓ سب نے مختلف رائے دیںَ اسی اثناء میںعمرو بن العاص ؓ کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضون تھا کہ اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوںکی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص چھوڑ کر چلاآنا نہایت بے رعبی کا سبب ہوا ہے۔ ابوعبیدہؓ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجی جو جا بجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہوجائیں خط میں ٰہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۲؎۔

دوسرے دن ابوعبیدہؓ دمشق سے روانہ ہوئے اوراردن کی حدود پر یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عرمو بن العاصؓ بھی یہیں آ کر ملے۔ یہ موقع جنب کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد کی بہ  نسبت اورتمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں حضرت عمرؓ نے سعید بن عامرؓ کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان اور حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک اور قاصد دوڑایا اور لکھا کہ رومی بحر وبر سے ابل پڑے ہیں اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوںنے کبھی خلوت سے باہر قدم نہیں نکالا ‘ نک نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیںَ خط پہنچا تو حضرت عمرؓ نے مہاجرین اورانصار کو جمع کیا اور خط پڑ ھ کر سنایا۔

۱؎  ان واقعات کو بلاذری نے فتوح البلدان میں ص ۱۳۷ میں قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں (صفحہ ۸۱) ازدی نے فتوح الشام (صفحہ ۱۳۸) میں تفصل سے لکھا ہے۔

۲؎  میں نے یہ تفصیلی واقعات فتوح الشام ازدی سے لیے ہیں لیکن ابوعبیدہؓ کا حمص چھوڑ کر چلا آنا ابن واضح عباسی اور دیگر مورخوں نے بھی بیان کیا ہے۔

تمام صحابہؓ بے اختیار رو پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ امیر المومنین! اللہ کے لیے ہم کو اجازت دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیںَ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجرین و انصار کا جوش برابر بڑھتاجاتاتھا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ امیر المومنین تو خود سپہ سالار بن کر اورہم کو ساتھ لے کر چل لیکن اور صحابہؓ نے اس رائے سے اختلاف کیا اوررائے یہ ٹھہری کہ امدادی فوجیں بھیجی جائیںَ حضرت عمرؓ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کافاصلہرہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نہایت غم زدہ ہوئے اور فرمایا کہ افسوس اب کیا ہو سکتاہے کہ اتنے عرصے میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے۔ ابوعبیدہؓکے نام نہایت پر تاثیر الفاظ ین ایک خط لکھااور قاصد سے کاہ کہ خود ایک ایک صف میںجا کریہ خط سنانا اور زبان کہنا:

الاعمر یقرنک السلام ویقول لکم یا اھل الاسلام اصدقوا اللقاء وشدو اعلیھم شد اللیوث ولتکونو اھون علیکم من الذر فانا قد کنا علمنا انکم علیھم منصورون

یہ عجیب حسن اتفاق ہو اکہ جس دن قاصد ابوعبیدہؓ کے پاس آیا اسی دن عامرؓ بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ملی اورانہوںںے نہایت استقلال سے لڑای کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر البجل میں اتریں۔ خالدؓ نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیںمعاذ بن جبلؓ کوو جو بڑے رتبہ کے صحابی تھی میمنہ پر مقرر کیا۔ قباث بن اثیم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج پر افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کیے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا باقی پر قیس بن ہبیرہ‘ میسرہ بن مسروق عمرو بن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں منتخب تھے اوراس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے ۔ رومی بھی بڑے سروسامان سے نکلے دو لاکھ سے زیادہ جمعیت تھی اور ۲۴ صفیں تھیں جن کے آگے آگے ان کے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لیے جوش دلاتے جاتے تھے فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا میں تنہا لڑنا چاہتاہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا خالدؓ نے روکا اور قیس بن ہبیرہ کی طر ف دیکھا وہ یہ اشعار پڑھتے بڑھے۔

سائل نساء الحی فی حجالھا

الست یوم الحرب من ابطالھا

’’پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو میں لڑائی کے دن بہادروں کے کام نہیں کرتا‘‘۔

قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر آئی ۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کانعرہ مارا۔ خالدؓ نے کہا شگون اچھا ہوا اور اب اللہ نے چاہا تو آگے فتح ہے۔ عیسائیوں نے خالد ؓ ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کی تھیں لیکن سب نے شکست کھائی۔ اس دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی رہ گئی۔

رات کو باہاں نے سرداروں کوجمع کر ے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت و نعمت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالاجائے۔ سب نے اس رائے پر اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابوعبیدہ ؓ کے پاس قاصد بھیجا کہ کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو۔ ہم اس سے صلح کرنا چاہتے ہیں ابوعبیدہب نے خالدؓ کا انتخاب کیا۔ قاصد جو پیغام لے کرآیا س کا نام جارج تھا۔ جس وقت وہ پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق و شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت سکون وقار ادب خضوع سے انہوںنے نماز ادا کی قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب نماز ختم ہو چکی تو اس نے ابوعبیدہؓ سے ؤچند سوالات کیے جن میںسے ایک یہ بھی تھا کہ عیسیٰؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابوعبیدہ ؓ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں:

یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکموا تقولو علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسی ابن المریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الی مریم سے لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ولا الملائکۃ المقربون

مترجم نے ان الفاظ کا ترجمہ کیا تو جارج بے اختیار پکار اٹھا بے شک عیسیٰ کے یہی اوصاف ہی اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اورمسلمان ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیںچاہتا تھا لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بدعہدی کا گمان نہ ہو مجبور کیا اور کہا کہ ک یہان سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے جانا۔

دوسرے دن خالدؓ رومیوں کی لشکر گاہ میںگئے۔ رومیوںنے اپنی شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کررکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب دور تک سواروں کی صفیںقائم کی تھیں جو سر سے پائوں تک لوہے میں غرق تھے لیکن خالدؓ اس بے پروائی او رتھقیر کی نگاہ سے ان پ رنظر ڈالتے جاتے تھے کہ جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیرتا چلا جاتاہے۔ باہان کے خیمے کے پاس رکے تونہایت احترام کے ساتھ اس نے استقبال کیا ار لا کراپنے برابر بٹھایا۔ مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ باہان نے معمولی بات چیت کے بعد لیکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیااور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ مترجم ان الفاظ کا پورا ترجمہ نہیں کر چکا تھا کہ خالد ؓ نے باہان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہ ہو گا لیکن ہم نے جس کو اپنا سردار بنا رکھا ہے اس کو ایک لحظہ کے لیے اگربادشاہی کا خیال آئے تو فوراً اس کو معزول کردیںَ باہان نے پھر تقریر شروع کی اور اپنے جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا کہ اہل عرب! تمہاری قوم کے جو وگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے ہ نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستان سلوک کیے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اورچاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دوتم کو معلوم نہیں کہ بہت سی قوموںنے بارہا ایسے ارادے کیے لیکن کبھی کامیاب نہیںہوئیںَ اب تم کو ککیا تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم جاہل وحشی اوربے سروسامان نہیں یہ حوصلہ ہوا ہے۔ ہم اس پر بھی درگزر کرتے ہیں بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جائو توانعام کے طورپر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سودینار دلا دیے جائیں گے۔

باہان اپنی تقریرختم کر چکا تو خالدؓ اٹھے اور حمد و نعت کے بعد کہا کہ بے شبہ تم دولت مند ہو مالدار ہو صاحب حکومت ہو تم نے اپنے ہمسایہ عربوںکے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہم کو بھی معلوم ہے۔لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہب کی ایک تدبیر تھی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عیساء ہوگئے اورآج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر لڑت ہیں یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے۔ ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی کمزور کو پیس ڈالتا تھا قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہوتے جاتے تھے۔ بہت سے اللہ بنا رکھے تھے او ر ان کو پوجتے تھے اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا اور ہم میں سے سب سے زیادہ شریف زیادہ فیاض ازیادہ پاک خو تھا۔ اس نے ہم کو توحید سکھلائی اور بتا دیا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہ بیوی اور اولاد نہیںرکھتا او ر بالکل یکتا و بے گانہ ہے۔ اس نے ہم کو بھی یہ حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا لیکن جزیہ دینا قبول کیا اس کیہم حامی اورمحافظ ہیں۔ جس کو دونوںسے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔

باہاننے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھریاوراپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ مر کربھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیںدیتے نہیں۔ غرض کوئی معاملہ طے نہیںہوا اور خالدؓ اٹھکر چلے آئیے اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں جس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے خالدؓ کے چلے آنے کے بعد باہاننے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ تم نے سنا اہ عرب کو دعویٰ ہیکہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جائو ان کے حملہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو انکی غلامی منظور ہے؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا ہم مر جائیٰںگے مگریہ ذلت گوارا نہیںہو سکتی۔

صبح ہوئی تو روی اس جوش اور سروسامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو بھی حیرت ہوگئی۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر کہ عرب کے تمام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آئی ہے۔ فوج جو ۳۰‘۳۵ ہزار تھی اس کے ۳۶ حص؁ کیے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اسی قدر صفیں قائم کیںَ قلب میں فوج ابوعبیدہ ؓ کو دیا میمنہ پر عمرو بنالعاص ؓ اور شرجیل مامور ہوئے ۔ میسرہ و یزید بن ابی سفیانؓ کی کمان میں تھا۔ اس کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کیے تھے چن کر ان لوگوں کو کیا جو بہادری اور فنون جنگ مں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میںہلچل ڈال دیتے تھے۔ اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروںسے فوج کو جوش دلائیں۔ انہیں میں ابوسفیانؓ بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے۔

الا انکم زادۃ العرب و انصار الاسلام وانھم زادۃ الروم وانصار الشرک اللھم ان ھذا یوم من ایامک اللھم انزل نصرک علی عبادک

عمرو بن العاص ؓ کہتے پھرتے تھے:

ایھا الناس غضو ابصارکم و اشرعوا الرماح والزمو امرکم فاذا حمل عدوکم فامھلوھم حتی اذارکبو ا اطراف الاسنۃ فبثوا فی وجوھھم وثوب الاسد

’’یارو نگاہیںنیچی رکھو۔ برچھیاں تان لو اپنی جگہ پر جمے رہو پھر جب دشمن حملہ آور ہوں تو آنے دو یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔‘‘

فوج کی تعدا د اگرچہ کم تھی ۳۰‘۳۵ ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے لیکن عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال مبارک دیکھاتھا۔ ایک ہزار تھے۔ سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہے تھے۔ عرب کے مشہور قبائل میںسے دس ہزر سے زیادہ صرف ازد کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی۔ حمدان حولان‘ لخم‘ جذام‘ وغیرہ کے مشہور سردار تھے۔ اس معرکہ کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ کہ عورتیںاس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہؓ کی ماں ہندؓ حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں

’’ عضدو العظفان بسیوفکم‘‘

امیر معاویہ ؓ کی بہن جویریہؓ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔

مقدادؓ جو نہایت خوش آواز تھے، فوج کے آگے آگے سورہ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے) تلاوت کرتے جاتے تھے۔

ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ آئے۔ جنگ کی ابتداء رومیوں کی طرف سے ہوئی۔ دو لاکھ کا ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے تھے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی جے پکارتے آتے تھے۔ یہ سروسامان دیکھ کر ایک شخص کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ اللہ اکبر! کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ خالد ؓ نے جھلا کر کہا چپ رہ! اللہ کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی اور فوج بڑھا لیں۔

غرض عیسائیوں نے نہایت زور و شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ اس زور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ ہزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک آ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا اور خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں اور پکاریں کہ ’’ نامردو ادھر آئے تو چوبوں سے تمہارا سر توڑ دینگے۔‘‘ خولہ ؓ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں۔

یاھاربا عن نسوۃ تقیات

رمیت بالسھم والمنیات

یہ حالت دیکھ کر معاذ بن جبل ؓ جو میمنہ کے ایک حصے کے سپہ سالار تھے گھوڑے سے کود پڑے، اور کہا کہ ’’ میں تو پیدل لڑتا ہوں لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔‘‘ ان کے بیٹے نے کہا ہاں، یہ حق میں ادا کروں گا کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ غرض دونوں باپ بیٹے فوج میں گھسے اور اس دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ زبید کے سردار تھے۔ پانچ سو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے، آگا روک لیا۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زوران پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ کی یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف، سر، ہاتھ، بازو، کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوتی تھی۔ عمرو بن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے اور للکارتے جاتے تھے کہ از دیو! دیکھنا مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ نو بڑے بڑے بہادران کے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔

حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعتہ صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ ؓ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے اور اسلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑے تھے، گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا عیسائیو! میں کسی زمانے میں (کفر کی حالت میں) خود رسول اللہ ﷺ سے لڑچکا ہوں۔ کیا آج تمہارے مقابلے میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے؟ یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون بیعت کرتا ہے؟ چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے مرنے پر بیعت کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ ؓ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھا۔ خالدؓ نے اپنے زانو پر ان کا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا اللہ کی قسم عمرؓ کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔1؎

غرض عکرمہ ؓ اور ان کے ساتھی گو خود ہلاک ہو گئے لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر دیئے۔ خالدؓ کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی۔ یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ؓ ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار درنجار تک پہنچ گئے۔ درنجار اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لئے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔

عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا۔ ابن قناطر نے میسرہ پر حملہ کیا۔ 2؎ بد قسمتی سے اس حصے میں اکثر لخم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بود و باش رکھتے تھے اور ایک مدت سے روم کے باجگزار رہتے آئے تھے، رومیوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن اشیم، سعید بن زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ ؓ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتاتو کہتے کہ کوئی ہے؟ جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے اللہ سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔

1؎ تاریخ طبری واقعہ یرموک

2؎ رومیوں کے میمنہ کا سپہ سالار تھا

لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابو الاعوز گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبیٰ میں رحمت۔ دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار کر گرا دیا۔ یزید بن ابی سفیانؓ (معاویہؓ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے اتفاق سے ان کے باپ ابوسفیانؓ جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے، ان کی طرف آ نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا، جان پدر! اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے، تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لئے شرم کی جگہ ہے۔ شرجیل کا یہ حال تاکہ رومیوں کاچاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح ڈٹے کھڑے تھے۔ قرآن مجید کی یہ آیت:

ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم وافو الھم بان لھم الجنتہ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون (9، التوبہ 111:)

پڑھتے تھے اور نعرہ مارتے تھے کہ ’’ اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے اور اللہ کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟‘‘ یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج پھر سنبھل گئی اور شرجیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو ٹو ٹے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔

ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں اور چلا کر کہتی تھیں کہ میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔

لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتہ قیس بن ہیرہ جن کو خالدؓ نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں او رگھبراکر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا۔ رومی دور ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا۔

اس لڑائی کا یہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ میرا پاؤں کیا ہوا؟ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ پر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ چنانچہ سوار بن اوفی ایک شاعر نے کہا

ومنا ابن عتاب و ناشد رجلہ

ومنا اللذی ادی الی الخی حاجبا1؎

رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور ازدی نے لاکھ سے زیادہ تعداد بیان کی ہے۔ بلاذری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف تین ہزار کا نقصان ہوا جن میں ضرار بن ازور، ہشام بن العاصی، ابان اور سعید وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اسی وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رخ کر کے کہا۔ ’’الوداع اے شام‘‘ ابو عبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو نامہ فتح لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جس میں حذیفہ بن ا لیمان بھی تھے۔ حضرت عمر ؓ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سے سوئے نہ تھے۔فتح کی خبر پہنچی تو دفعتہ سجدے میں گرے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

ابو عبیدہؓ یرموک سے حمص کو واپس گئے اور خالدؓ کو قنسرین روانہ کیا۔ شہر والوں نے اول مقابلہ کیا لیکن پھر قلعہ بند ہو کر جزیہ کی شرط پر صلح کر لی، یہاں عرب کے قبائل میں سے قبیلہ تنوخ مدت سے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ یہ لوگ برسوں تک کمل کے خیموں میں زندگی بسر کرتے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تمدن کا اثر یہ ہوا کہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بنوا لی تھیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے ہم قومی کے اتحاد سے ان کو اسلام کی ترغیب دی چنانچہ سب مسلمان ہو گئے۔ صرف بنو سلیح کا خاندان عیسائیت پر قائم رہا اور چند روز کے بعد وہ بھیمسلمان ہو گیا۔

قنسرین کی فتح کے بعد ابو عبیدہؓ نے حلب کا رخ کیا۔ شہر سے باہر میدان میں عرب کے بہت سے قبیلے آباد تھے۔ انہوں نے جزیہ پر صلح کر لی اور تھوڑے دنوں کے بعد سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ حلب والوں نے ابو عبیدہؓ کی آمد سن کر قلعہ میں پناہ لی۔ عیاض بن غشم نے جو مقدمتہ الجیش کے افسر تھے، شہر کا محاصرہ کیا اور چند روز کے بعد اور مفتوحہ شہرں کی طرح ان شرائط پر صلح ہو گئی کہ عیسائیوں نے جذیہ دینا منظور کیا اور ان کی جان، مال، شہر پناہ، مکانات، قلعے اور گرجوں کی حفاظت کا معاہدہ لکھ دیا گیا۔

1؎ یہ تمام واقعہ فتوح البلدان صفحہ131میں مذکور ہے۔

حلب کے بعد انطاکیہ آئے چونکہ یہ قیصر کا خاص دار السلطنت تھا۔ بہت سے رومیوں اور عام عیسائیوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔ ابوعبیدہؓ نے ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کیا۔ چند روز کے بعد عیسائیوں نے مجبور ہو کر صلح کر لی۔ ان صدر مقامات کے فتح ہونے نے تمام شام کو مرعوب کر دیا اور یہ نوبت پہنچی کہ کوئی افسر تھوڑی سی جمعیت کے ساتھ جس طرف نکل جاتا تھا، عیسائی خود آ کر امن و صلح کے خواستگار ہوتے تھے۔ چنانچہ انطاکیہ کے بعد ابو عبیدہؓ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دیں۔ بوقا، جومہ، سرمین، توزی، قورس، تل غراز، دلوک، رعبان۔ یہ چھوٹے چھوٹے مقامات اس آسانی سے فتح ہو گئے۔ جرجومہ والوں نے جزیہ سے انکار کیا اور کہا کہ ہم لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے چونکہ جزیہ فوجی خدمت کا معاوضہ ہے، ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی۔

انطاکیہ کے مضافات میں بغراس ایک مقام تھا جس سے ایشیائے کوچک کی سرحد ملتی ہے، یہاں عرب کے بہت سے قبائل غسان، تنوخ ایاد، رومیوں کے ساتھ ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حبیب بن مسلمہ نے ان پرحملہ کیا اور بڑا معرکہ ہوا۔ ہزاروں قتل ہوئے۔ خالدؓ نے مرعش پر حملہ کیا اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ عیسائی چھوڑ کر نکل جائیں۔