خوراک اور صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
خوراک اور صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

صحت کی حفاظت کے لیے کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟

بی بی سی اردو ۱۸ اگست ۲۰۲۳
صحت کی حفاظت کے لیے کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیے۔

مشہور مقولہ ہے کہ احتیاط، علاج سے کہیں بہتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور کیا ہمیں اپنی صحت کی کوئی فکر بھی لاحق رہتی ہے؟

آج کے دور میں 30 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اولاد خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اُن پر کام کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہمارے لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔

اپنے جسم پر توجہ دے کر ہم ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق 30 کی دہائی میں طرز زندگی کی بیماریاں جیسے دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ایسی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

بی بی سی اردو
10 جنوری 2023ء

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیا کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ اصطلاح لاطینی لفظ ’کیلر‘ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیولر نیورو اینڈ کرائنولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جائلز ییو بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ 'نکولس کلیمنٹ نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے لی جانے والی حرارت کی مقدار ہے۔‘

خوراک اور صحت

پکوانوں کی تاریخ 

پکوانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے والے مختلف ممالک کے سائنسدان، ذائقوں کے ماہرین اور پکوانوں کے قدیم ترین نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خوراک اور صحت
لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسدانوں کے ہاتھ لگنے والے ہزاروں برس پرانے نسخے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ’دنبے کا سٹو‘ پکانے کے لیے لکھا طریقہ محض اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی فہرست جیسا معلوم ہوتا ہے۔ ’گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پانی تیار کیجیے۔ باریک دانوں والا نمک ڈالیے۔ سوکھا جُو ڈالیے۔ پیاز اور تھوڑا دودھ۔، پیاز اور لہسن کچل کر ڈالیں۔‘

تاہم اس طریقہ کار کو لکھنے والے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ کون سی چیز کب ڈالنی ہے؟ اسے لکھنے والا تو چار ہزار برس قبل انتقال کر چکا ہے۔چند بین الاقوامی محققین، پکوانوں کی تاریخ کے ماہرین اور کھانا پکانے کے نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے چار قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ اسی طرح تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے گوژکو بارژامووچ کہتے ہیں ’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پرانے گانے کو دوبارہ بنانا۔ کوئی ایک نوٹ پوری دھن بدل سکتا ہے۔‘

یہ ترکیبیں تختیوں پر لکھی ہیں جو ییل یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ میں بابل کی تہذیب کی کلیکشن سے حاصل کی گئی ہیں، تاکہ ذائقے کے ذریعے اس تہذیب کو بہتر سمجھا جا سکے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

16 اکتوبر کو ہر سال خوارک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

بی بی سی کے رپورٹرسوامی ناتهن ناتاراجن کے مطابق دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔

قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔

غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔

شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔

یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔

سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘

بليک واٹر کيا ہے ؟

بلیک واٹر کو ’الکلائن واٹر‘ یا ’الکلائن آیونائزڈ واٹر` بھی کہا جاتا ہے۔

طبی جریدے ’ایویڈنس بیسڈ کمپلیمنٹری اینڈ آلٹرنیٹو میڈیسن‘ (ای بی سی اے ایم) کے مطابق جم یا جسمانی ورزش کے بعد یا جسم سے بہت زیادہ پسینہ بہہ چکا ہو تو بلیک واٹر کا استعمال کچھ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دراصل، یہ جسم میں الیکٹرولائٹس کی فراہمی کو بڑھاتا ہے۔

ای بی سی اے ایم کے مطابق لیب میں چوہوں پر کیے گئے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ الکلائن پانی جسمانی وزن کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے میٹابولزم (میٹابولزم) کا عمل بھی تیز ہوتا ہے۔

انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى


انسان نے جب پہلى بار گندم اگائى
انسان نے زراعت کب شروع کی اور کیا اُگایا، مختلف اندازوں کے مطابق دنیا میں ایسے مقامات کی تعداد دس سے بیس کے درمیان ہے جہاں انسانوں نے مقامی طور پر کھیتی باڑی شروع کی اور اپنی ضرورت کے لیے فصلیں پیدا کیں اور سب کا طریقہ فرق تھا۔


لیکن جہاں تک گندم کی بات ہے، زبنسکی نے اپنی کتاب میں گندم کی کہانی کے آغاز کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ہزاروں برس پیچھے ترکی اور شام میں پھیلے پہاڑی سلسلے زاگروس میں دریائے فرات کے کنارے جانا پڑے گا۔

ابوھریرہ  

ہماری منزل حلب سے تین دن کے فاصلے پر واقع وہ مقام ہے جو تاریخ میں آگے چل کر ابوھریرہ کہلایا۔ یہ دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کے مطابق سب سے پہلے انسان نے اپنی ضرورت کے لیے اناج اُگایا تھا۔


اس مقام سے ’آپ شمال مغرب میں 30 کلومیٹر تک دریائے فرات کے مناظر دیکھ سکتے ہیں اور مشرق میں دس کلومیٹر تک۔ دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور بہاؤ تیز، خاص طور پر موسم بہار میں جب زاگروس کے پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور سرخ اور خاکی مٹی بہہ کر آتی ہے۔


’دریا کے کنارے شوخ سبز سرکنڈوں اور نم گیاہ یا جھمکے دار پھولوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور پانی میں بگلے اور دیگر پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بید کے درختوں کے جھنڈ پانی کے بہاؤ کو سست کر رہے ہیں۔ دریا سے ہٹیں تو چنار اور آھ درختوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے جو موسم سرما میں پناہ فراہم کرتا ہے۔ دریا کی سطح سے بلندی پر تا حد نگاہ درخت، جھاڑیاں اور گھاس کا میدان ہے۔‘


’یہ علاقہ دریا سے اونچا ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ تھا اور ساتھ ہی ایک زرخیز دریائی میدان کے قریب بھی تھا۔‘


ماہرین کا اندازہ ہے کہ علاقے کی زرخیزی کی وجہ سے ابو ھریرہ کے ابتدائی باسیوں کو کچھ کاشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور ان کا گزارا شکار اور پھل چننے سے ہو جاتا تھا کیونکہ وہاں ممکنہ طور پر ’پودوں کی 120 اقسام پیدا ہوتی تھیں۔‘

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کارآمد ہیں

بی بی سی اردو ، 10 مئی 2021 

رابرٹ برٹن کی کتاب دی اناٹومی آف میلنکولی، جس میں کلینیکل ڈپریشن کی وجوہات اور علاج کے بارے میں بات کی گئی ہے، انھوں نے ڈیموکریٹس جونیئر کے فرضی نام سے لکھی تھی ۔ 

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کار آمد ہیں 
جب بات تندرستی کے ٹوٹکوں سے متعلق کتابوں کی ہو تو آپ شاید سوچتے ہوں کہ جتنی زیادہ نئی کتاب ہو تو اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن سنہ 1620 میں لکھی جانے والی ایک کتاب 'دی اناٹومی آف میلنکولی' اگر آپ کی نظر سے گزرے تو آپ کی یہ سوچ تبدیل ہو جائے گی۔ اس غیر معمولی کتاب نے انسانی فطرت کو سمجھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور یہ کتاب آج بھی حیرت انگیز طور پر جدید ہے.

دی ’اناٹومی آف میلنکولی‘ یا ’اداسی کا علم‘ کے مصنف روبرٹ برٹن ہیں جنھوں نے یہ کتاب سنہ 1621 میں لکھی تھی۔ انسانی فطرت اور حالات کے بارے میں ان کی سمجھ اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل اور جدید ہے۔

برٹن ایک برطانوی راہب اور سکالر تھے۔ انھوں نے قدیم یونانی فلسفے اور 17ویں صدی میں علم طب پر ہونے والے کام کو اپنی کتاب میں سمو دیا۔ ان کی کتاب میں دو ہزار سال کے علمی کام سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔

'باندھ دینے والی بیماری': 3200 سال پرانی وبا جس نے قدیم مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں مٹا دیں

ایڈون سمتھ پاپیرس جسے دنیا کی قدیم ترین طبی تحریر مانا جاتا ہے
سید عرفان مزمل ،  محقق و مؤرخ (1)

( تاریخ اشاعت : 25 مئ 2020م ، بی بی سی اردو )
----------------------------------------------------

وہ علاقہ جو اب مشرق وسطیٰ کہلایا جاتا ہے، وہاں آج سے تقریباً 3200 سال قبل ایک خوفناک تباہی آئی۔

اس تباہی نے اس خطے کی تمام معروف ریاستوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا جن میں بابل (موجودہ دور میں جنوبی عراق)، اشور (موجودہ دور میں شمالی عراق)، مصر، ہٹوسا (موجودہ دور میں مشرقی ترکی) اور قبرص سمیت کئی علاقے شامل تھے۔

یہ ریاستیں یا تو کرہ ارض سے مٹ گئیں یا پھر ایک ایسے تاریک دور سے گزریں جو کئی صدیوں تک ان پر سیاہی کی چادر تانے رہا۔ اس تباہی کو آج ہم ’برونز ایج کولیپس‘ یعنی تانبے کے دور کے خاتمے کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔

اور اس تباہی کے پیچھے جنگ، قحط، سیلاب اور دیگر فطری وجوہات کے علاوہ سب سے اہم وجہ ایک عالمی وبا تھی۔
اگرچہ ڈی این اے سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی امراض سے انسانوں کا سب سے پہلا سامنا تقریباً 75 ہزار سل قبل افریقہ کے جنگلات میں ہوا تھا مگر یہ پہلا موقع تھا جب ایسے کسی مرض نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیا کو کیسے بدلا ؟

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیاکو کیسے بدلا ؟ 
(تاریخ اشاعت : 23 مئی 2020 ، بی بی سی اردو ) 
اس دنیا کی مصالحوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک نے تجارت کے وہ راستے کھولے جو آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تجارت نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اس کے اثرات عالمی معیشت پر بھی پڑے۔

تقریباً 2500 سال قبل عرب تاجر ایک خطرناک دارچینی پرندے کی کہانی سناتے تھے جسے سنامولوگس بھی کہا جاتا تھا۔

یہ پرندہ دارچینی کی نازک ڈنڈیوں سے اپنا گھونسلہ بناتا تھا۔ اس سے دارچینی کی ڈنڈیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاجر اس کے سامنے گوشت کے بڑے پارچے ڈالتے تھے، چڑیاں یہ ٹکڑے اٹھا کر اپنے گھونسلے میں لے جاتیں اور ان کے وزن سے گھونسلہ ٹوٹ کر نیچے گر جاتا تھا اور چالاک تاجر گھونسلے سے گری دارچینی اٹھ کر بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔

کورونا وائرس: برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟ -

عالمی وبا عالمی بحران ، کرونا وائرس
برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 کرونا جیسی وبا آئے گی ؟
( برائن والش ، بی بی سی فیوچر 8 اپريل 2020)

کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بارے میں، جو کووِڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے، پہلے سے اندازہ کر لینا اس سے زیادہ آسان نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دعوٰی میں اپنی رپورٹنگ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔

اکتوبر 2019 میں، میں نے کورونا وائرس کی ایک فرضی عالمی وبا کے بارے میں ایک سِمیولیشن یا تمثیل کا مشاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2017 کے موسم بہار میں، میں نے اسی موضوع پر ٹائم میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا تھا۔ رسالے کے سرِ ورق پر تحریر تھا: ’خبردار: دنیا ایک اور عالمی وبا کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ پچھلے پندرہ برس میں ایک ایسی عالمی وبا کے بارے میں بہت سے مضامین اور قرطاسِ ابیض شائع ہوئے ہیں جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمارے نظام تنفس کو متاثر کرنے والا ایک نیا مرض پھیلنے والا ہے۔

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
(4 اپريل 2020 bbc urdu)

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں افراد اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تبدیلیاں عارضی ہوں گی۔ لیکن تاریخ میں بیماریوں کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں - خاندانوں کے زوال سے نوآبادیاتی نظام میں اضافے اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں بھی۔

14ویں صدی کی بلیک ڈیتھ اور مغربی یورپ کا عروج


یوروپ میں بہت سارے لوگوں نے طاعون کے خاتمے کے لئے شدت سے دعا کی 1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔ جس کے باعث زمینداروں کے لیے مزدوری کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں سودے بازی کی طاقت زیادہ بڑھ گئی۔

لہٰذا یہ سوچ دم توڑنے لگی کہ لوگوں کو پرانے جاگیردارانہ نظام کے تحت کرایہ ادا کرنے کے لیے کسی مالک کی زمین پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس نے مغربی یورپ کو جدید، تجارتی، اور نقد پر مبنی معیشت کی طرف دھکیل دیا۔

کورونا وائرس: سائنسدان کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟

کورونا وائرس : سائنسدان  کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
(تاریخ اشاعت : 2 اپریل ، 2020 م  بی بی سی اردو ) 

نول کویڈ-19 وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں، سائنسدان اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کوشاں ہیں لیکن وہ اس وائرس کے متعلق کیا اور کتنا جانتے ہیں،

ان کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی ظاہری علامات موجود ہیں ، وہ دوسرے لوگوں میں وائرس منتقل کر سکتے ہیں ۔

 لیکن جن لوگوں میں ظاہری علامات موجود نہیں ، ان کا کیا ؟ 

وائرس کون کون پھیلارہا ہے ؟ 

بہت سے افراد کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان میں وائرس موجود ہے ، بعض اوقات بچوں میں وائرس کی زیادہ علامات نظر نہیں آتیں ، لیکن وہ وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں ، لیکن ابھی سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ، کیا آپ وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتے ہیں ؟ 

کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں، طبی ، سماجی سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ (بی بی سی اردو )

کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں اور سیاسی حالات 

( 26 مارچ 2020 بی بی سی اردو )

سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟
کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔

وزن کم کرنے کے بارے میں پانچ مغالطے جن کی سائنس تردید کرتی ہے

وزن کم کرنے کے بارے میں پانچ مغالطے جن کی سائنس تردید کرتی ہے 
چھٹیوں میں خوراک کا خیال رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈنر، الوداعی کھانے، لنچ۔۔۔ کیلوریز سے بھرپور مزیدار کھانوں کی دعوتیں، اور نجانے کیا کیا۔

وزن کم کرنے کے بارے میں بہت سے مشورے دیے جاتے ہیں۔ اپنا خیال رکھنے کی خواہش کے باعث، ہم صحیح اور غلط معلومات کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور اسی لیے ہم کھانے پینے کی ایسی عادات اپنا لیتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔

ایسی ہی غلط معلومات سے بچنے کے لیے ہم یہاں ایسے پانچ مغالطے شیئر کر رہے ہیں جنھیں بہت سے افراد سچ مانتے ہیں۔

1 - وزن کم کرنے کا واحد طریقہ باقاعدگی سے سخت ورزش کرنا ہے


 یہ تو بالکل ہی غلط ہے۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی ایسی تبدیلیاں لا کر، جن پر آپ باقاعدگی سے عمل کر سکیں، وزن کم کیا جا سکتا ہے۔

اس کا مطلب ہے زیادہ متحرک ہونا۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق ایک عام بالغ شخص کے لیے ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی جسمانی سرگرمی ضروری ہے۔ یہ سرگرمی تیز تیز چلنا یا سائیکل چلانا بھی ہو سکتی ہے۔

مختصراً یہ کہ آپ جتنی کیلوریز کھا رہے ہیں اس سے زیادہ آپ کو جلانی ہیں۔
وزن کم کرنے کے بارے میں پانچ مغالطے جن کی سائنس تردید کرتی ہے

ناک کی بڑھی ہوئی ہڈی کا سستا اور آسان علاج

اگر یہ کہاں جائے کہ ناک چہرے کا حساس ترین اور اہمتر جز ہے تو بے جا نہیں ہوگا لیکن سب سے زیادہ مسائل اور بیماریوں کا سامنا بھی ناک کو ہوتا ہے ۔ خاص کر ناک کی ہڈی کا بڑھ جانا ایک اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سانس کی تکلیف ہوتی ہے ۔ اکثر لوگوں سے آپ نے سنا ہوگا کہ ہم نے ناک کی ہڈی کا آپریشن کرایا ہے لیکن پھر سے مسئلہ شروع ہوا ہے ۔ لیکن پہلی بات تو یہ کیا حقیقت میں ناک کی ہڈی بڑتی ہے یا پھر اس کی کوئی اور وجہ ہے اور اس کا آپریشن کرایا جاتا ہے یا نہیں اس کے علاوہ اس کا کوئی اور بھی علاج ہو سکتا ہے اس کے بارے میں معروف سپیشلسٹ ڈاکٹر امتیاز احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جب سے بیماریاں پھیلنا شروع ہوئی ہیں تب سے ناک کی ہڈی کا مسئلہ یا ناک سے متعلق مسائل موجود ہیں- اکثر لوگوں کے درمیان ناک کی ہڈی کے آپریشن کے حوالے سے متعدد غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں 

کھانوں اور ذائقوں پر ہمارا ردِعمل، ہمارے ڈی این اے پر منحصر ہے۔

(بی بی سی اردو ، 10 مارچ 2019)

میں کچھ کھانے پسند اور باقی ناپسند کیوں ہوتے ہیں؟ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمارے مختلف ذائقوں کی وضاحت کے بہت سے اسباب ہیں۔
کھانوں اور ذائقوں پر ہمارا ردِعمل، ہمارے ڈی این اے پر منحصر ہے۔ 

یہ اسباب جنیاتیات سے نفسیات تک ہیں۔ ساتھ ساتھ ہماری ارتقاء سے گزرتی بیالوجی۔

ان میں سے کچھ پر ایک قریبی نظر ڈالتے ہیں۔

یہ سب آپ کے جینز میں ہے۔ ذائقوں پر ہمارا ردِعمل، ہمارے ڈی این اے پر منحصر ہے۔ 

ذائقہ اورخوشبو الگ الگ معاملے ہیں اور ہمارا ڈی این اے اصل مجرم ہے۔ ہمارا جنیٹک کوڈ یہ تعین کرنے میں مدد کرتا ہے کہ ہمارا دماغ سینسریل پیغامات پر کیسے عمل کرے گا۔

فائبر: وہ صحت بخش غذا جو ہماری خوراک کا حصہ نہیں رہی

جیمز گیلاگر (نامہ نگار برائے ہیلتھ اور سائنس)
 بی بی سی اردو 
22 فروری 2019
----------------------
فائبر: وہ صحت بخش غذا جو ہماری خوراک کا حصہ نہیں رہی 
اگر ہم آپ کو ایسی معجزاتی خوراک کے بارے میں بتائیں جسے کھانے کے بعد آپ کی عمر دراز ہو جائے گی تو کیا آپ اس میں دلچسپی ظاہر کریں گے؟

یہ قدرتی طور پر دل کے دورے، فالج اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کر دیتی ہے اور یہ آپ کے وزن، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول کو بھی قابو میں رکھتی ہے۔
یہ بھی بتا دیں کہ یہ سستی اور بازار میں عام میں دستیاب ہے۔

 ایک تحقیق میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہمیں کتنا فائبر کھانا چاہیے اور یہ ہماری صحت کے لیے کیسے مفید ہے۔

اگر لوگ اپنی غذا پر توجہ دیں تو انھیں وٹامنز والی دوا کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

کیا وٹامن کی ایک گولی آپ کو ڈاکٹر سے دور رکھ سکتی ہے؟

تحقیق بتاتی ہے کہ ہم میں سے نصف سے زیادہ آبادی ہر روز کسی نہ کسی طرح کے وٹامن یا حیاتین کی گولیاں استعمال کرتی ہے۔

ان گولیوں کا استعمال کرنے والے زیادہ تر لوگ اسے کسی بیماری یا جسمانی کمزوری کے باعث استعمال نہیں کرتے بلکہ اس یقین کے ساتھ اسے لیتے ہیں کہ یہ ان کی صحت میں بہتری لائیں گی۔

مارکیٹ میں اتنے سارے وٹامنز اور ملٹی وٹامنز کی دستیابی کی وجہ سے عموماً یہ پتا نہیں چلتا کہ کون سے استعمال کیے جائیں اور کون سی نہیں۔

آپ کو تندرست رہنے کے لیے 13 مختلف اقسام کے وٹامنز چاہییں لیکن کیا اسے سپلیمنٹ یعنی گولیوں اور پاؤڈر کی شکل میں لینا چاہیے؟

وٹامنز دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک فیٹ سولیوبل یعنی جو آپ کی جسم کے اندر رہ جاتی ہیں اور دوسری واٹر سولیوبل جسے آپ کا جسم ضروری مقدار حاصل کرنے کے بعد اضافی مقدار خارج کر دیتا ہے۔

فیٹ سولیوبل کی قسم میں وٹامن اے، ڈی، ای اور کے شامل ہیں۔

اس طرح کے وٹامنز آپ کا جسم اپنے اندر رکھتا ہے لیکن اگر آپ اسے ضرورت سے زیادہ مقدار میں لیں تو یہ آپ کی صحت کے لیے مفید نہیں ہے۔ اس طرح کے وٹامنز کے لیے ضروری ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ نہ لیے جائیں۔

واٹر سولیوبل وٹامنز کو آپ کا جسم اپنے اندر نہیں رکھتا اس لیے ان کا استعمال باقاعدگی سے کرنا پڑتا ہے اور اگر آپ اسے ضرورت سے زیادہ مقدار میں استعمال کریں تو یہ پیشاب کی صورت میں آپ کے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں تاہم وٹامن بی ایک ایسا واٹر سولیوبل وٹامن ہے جو کہ آپ کے جگر میں جا کر جذب ہو جاتا ہے۔
کچھ ملٹی وٹامنز میں زنک، آئرن اور کیلشیم کی مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ سارے اجزا آپ کو عموماً آپ کی غذا سے مل جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے جسم میں خاص طور پر زنک، آئرن یا کیلشیم کی کمی ہے تو اسے آپ ان وٹامنز کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔

کیلشیئم ہمارے جسم کی ہڈیاں مضبوط کرنے کے لیے درکار ہے۔ ایک دن میں آپ کو سات سو ملی گرام کیلشیئم چاہیے۔

زنک آپ کے مدافعتی اور ہاضمے کے نظام کو بہتری کرتا ہے۔ خواتین کو یہ سات ملی گرام اور مردوں کو نو اعشاریہ پانچ ملی گرام روزانہ درکار ہے جبکہ آئرن آپ کے خون میں آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ خواتین کو اس کی چودہ اعشاریہ آٹھ اور مردوں کو آٹھ اعشاریہ سات ملی گرام روزانہ ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر آپ کی غذا متوازن ہے تو آپ کو یہ ساری وٹامنز کھانے سے ہی مل جائیں گی تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جن لوگوں کی غذا متوازن نہیں ہوتی وہ لوگ اپنے کھانے پینے کو ٹھیک کرنے کے بجائے وٹامنز یا سپلیمنٹ کا رخ کرتے ہیں۔

اگر لوگ اس کے بجائے اپنی غذا پر توجہ دیں تو انھیں وٹامنز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

-----------------------------------
بی بی سی اردو ، 25 اکتوبر 2018

کھانسی کا اولین علاج شہد اور کھانسی کے شربت ہونے چاہییں!! (نئی تحقیق)

برطانیہ میں صحت کے حکام نے کہا ہے کہ کھانسی کا اولین علاج شہد اور کھانسی کے شربت ہونے چاہییں نہ کہ اینٹی بایوٹکس، جو اس کے علاج میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔
شہد

عام طور پر کھانسی دو تین ہفتے میں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔


ڈاکٹروں کو دی جانے والی سفارشات کا مقصد اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم کی مزاحمت کے خطرے کو کم کرنا ہے کیوں کہ ان ادویات کے بےدریغ استعمال سے ان کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور جان لیوا بیماریوں کے علاج میں مشکل پیش آتی ہے۔

گرم مشروب اور شہد، جس میں لیموں اور ادرک ملے ہوں، کھانسی اور خراب گلے کے لیے عرصۂ دراز سے استعمال ہوتے چلے آئے ہیں۔