لسانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
لسانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اردو ادب میں صنعتِ تلازم یا متلازمہ سے کیا مراد ہے ؟

ادب میں اس سے مراد ہے لفظوں يا فقروں کے معانى کا  ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻡ  ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ہونا ۔ جیسے شاعرنے  کہا : 

" ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ

ﻣﮩﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ" 

ﯾﮩﺎﮞ " ﻣﮩﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ " ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ. ﻟﻔﻆ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺛﻼﺛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﯿﮧ ﺑﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺍ ﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺻﻔﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﺗﺸﺎﺭﮎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ Word ﺩﻭ ﺍﺳﻤﺎﺀ Nouns ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺍﺷﺘﺮﺍﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺭ ﺗﻼﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽٰ ﮨﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﮒ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺁﮒ ﺟﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ ) ۔ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ) ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﭘﮑﮍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ) ۔ ﺧﻠﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺍﺧﻼﺹ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ )

ﺍﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺗﻞ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﻘﺎﺗﻞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻗﺘﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ( ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳرﮯ ﮐﻮ مارنا  )،  ﺗﺒﺎﺩﻝ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺪﻝ ( ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ) ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﻋﮑﺲ ) ، ﺗﺒﺎﺭﮎ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺭﮎ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﻻ ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﻧﺎ )

ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻠﻢ ﺻﺮ ﻑ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ.

 ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺑﮩﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ : ’’ ﺗﻼﺯﻣﮧ ‘‘

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺘﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺗﺎﮨﻢ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻤﺎﺀ ، ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

مثاﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ :

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺑﺮ ﺗﮭﺎ ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﮭﯿﻞ ﺗﮭﯽ ، ﮐﮧ ﺳﺮﺍﺏ ﺗﮭﺎ

ﺳﻮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﻍِ ﺩﻝ

انڈین طالبعلم نے سنسکرت کا 2500 سال پرانا معمہ حل کر دیا

بی بی سی اردو 

16 دسمبر 2022 

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے ایک طالبعلم نے سنسکرت زبان کی گرائمر کا ایک ایسا معمہ حل کر لیا ہے جس نے بڑے بڑے عالموں کو پانچویں صدی قبل مسیح سے پریشان کر رکھا تھا۔

27 سالہ رِشی راجپوپات نے سنسکرت کے جس اصول کی گتھی سلجھائی ہے اس کے بانی ماضی قدیم کے مشہور استاد پانینی تھے جنھوں نے یہ اصول آج سے تقریباً اڑھائی ہزار برس پہلے وضع کیا تھا۔

پانینی کے قدیم نسخہ کا ایک صحفہ 

کیمبرج یونیورسٹی کے مطابق آج کل سنسکرت صرف انڈیا میں بولی جاتی ہے جہاں اس قدیم زبان کے بولنے والوں کی تعداد اندازاً 25 ہزار ہے۔

مسٹر رِشی راجپوپات کا کہنا ہے کہ وہ نو ماہ تک ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے تھے اور ان کی تحقیق بالکل آگے نہیں بڑھ رہی تھی، لیکن آخر کار وہ لمحہ آ گیا جب انھیں یہ راز سمجھ آ گیا۔

’جب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے ایک مہینے کے لیے کتابیں بند کر دیں اور موسم گرما سے لطف اندوز ہونے نکل پڑا، کبھی تیراکی، کبھی کھانا پکانا، کبھی پوجا اور سوچ و بچار۔‘

’اس کے بعد میں پاؤں گھسیٹتا ہوا دوبارہ کام پر آ گیا، اور ابھی مجھے صفحے پلٹتے ہوئے چند ہی منٹ گزرے تھے کہ (پنینی کے لکھے ہوئے صفحات کے نمونے) مجھے سمجھ آنے لگ گئے۔‘

رِشی بتاتے ہیں کہ وہ ’کئی کئی گھنٹے لائبریری میں بیٹھے رہتے، اور کبھی تو رات دیر گئے تک۔‘

فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔ 

اردو زبان کا خون کیسے ہوا؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔ 
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، 
مثلا": 
ہیڈ ماسٹر، 
فِیس، 
فیل، 
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ 
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ 
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ 
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ 
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا ۔۔۔ ڈاکٹر اے ایم چشتی

ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا ؟
 ڈراما ایک ایسی کہانی ہے جو چند کرداروں کی مدد سے اسٹیج پر اسٹیج کے دیگر لوازمات کے ساتھ تماشائیوں کی موجودگی میں عملی طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس کہانی کا بنیادی مقصد تفکراتِ غم کا مداوا اور معاشرتی اصلاح ہے۔ لیکن سنسکرت قواعد کی رو سے ڈراما ایک ایسی نظم ہے جسے دیکھا جا سکے یا ایسی نظم جسے دیکھا اور سنا جا سکے۔(۱)

 دراصل شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے، اور ڈراما پڑھنے، سننے اور دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرکت و عمل ڈرامے کا بنیادی ستون ہے۔جب کوئی ادیب یا شاعر زندگی کے کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو وہ ایک رہبر کی طرح ہمیں زندگی کی سیر کراتا ہے۔ لیکن جب کوئی ڈراما نویس کسی واقعہ کو پیش کرتا ہے تو وہ صرف زندگی بیان نہیں کرتا، بلکہ زندگی کو پوری شان اور آن بان سے پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جو چلتی پھرتی، ہنستی بولتی یا پھر نالاں و گراں، آسودہ اور تھکی ہوئی۔

 واضح رہے کہ جدید ڈراموں میں ڈراما نگار ناول یا افسانہ نویس کی طرح زندگی کی مختلف تہوں میں چھپے حالات و واقعات کو بھی پیش کرتا ہے اور ان حالات و واقعات کو حرکت و عمل کا لباس بھی زیب تن کرواتا ہے۔ جس وجہ سے ڈراما نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے، اور مخاطبین کا نقطہ نظر بدلنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامے میں تفنّن، تفریح اور اصلاح کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے۔ اس کی تخلیق میں مصنّف، اداکار، تماشائی، اسٹیج اور اسٹیج کے دیگر لوازمات مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی:

اردو لسانیات -- ایک تعارف - ڈاکٹر محمد حسین

( صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام کشمیر )
اردو لسانیات --ایک تعارف 

زبان سے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے کا سلسلہ ابتدائی زمانے سے چلا آرہا ہے۔مذہبی مفکروں کے شانہ بہ شانہ اہل علم حضرات جیسے افلاطون اور ارسطو نے بھی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔افلاطون کی کتاب(Cratylus) علمِ زبان کے تعلق سے پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے۔واحد جمع‘تذکیروتانیث اور اجزائے کلام کی ابتدائی تعریفیں یونانی دانشور ارسطو سے منسوب ہیں۔ ابجدی تحریر کاآغاز بھی یونان سے ہی ہوا۔قدیم ہندوستانیوں اور عربوں نے زبان کے بارے میں کافی غوروخوض کیا۔اس سلسلے میں پاننی کی (اشٹا دھیائی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

انیسویں صدی میں جرمنی میں زبانوں کے مطالعے کے سلسلے میں اہم شعبہ (Comparative Philology) سامنے آیا۔سر ولیم جونز سے اشارہ پاکر یہ شعبہ، زبانوں کے خاندانی رشتوں کی کھوج میں لگ گیالیکن ان ماہرین زبان کا طریقہ کار محض تاریخی اورکلاسیکی زبانوں تک محدود رہا۔زندہ زبانیں ان کے مطالعے کی توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔

زبان کے مطالعے کی سائنسی بنیادیں بیسویں صدی کے آغاز میں اس وقت شروع ہوئیں جب سویئزرلینڈ کےFeridanand de sasure) (کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔ساسور نے پہلی بار زبان کے تقریری روپ کی جانب اہلِ علم کی توجہ مبذول کی۔دیکھتے ہی دیکھتے ماہرین لسانیات کی ایک صحت مند تحریک نے جنم لیا اور اس طرح سے جدید لسانیات کے شعبے کا قیام عمل میں آیا۔

لسانیات --تعارف اور اہمیت - ڈاکٹر رابعہ سرفراز

لسانیات -- تعارف اور اہمیت 
ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبہ اردو

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد

لسانیات اس علم کو کہتے  ہیں جس کے  ذریعے  زبان کی ماہیت ‘تشکیل‘ارتقا‘زندگی اور موت کے  متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے۔زبان کے  بارے  میں  منظم علم کو لسانیات کہا جاتا ہے۔یہ ایسی سائنس ہے  جو زبان کو اس کی داخلی ساخت کے  اعتبار سے  سمجھنے  کی کوشش کرتی ہے۔ ان میں  اصوات‘خیالات‘سماجی صورتِ احوال اور معنی وغیرہ شامل ہیں ۔ لسانیات میں  زبان خاص معنی میں  استعمال ہوتی ہے۔اشاروں  کی زبان یاتحریر لسانیات میں  مرکزی حیثیت نہیں  رکھتی۔لسانیات میں  زبانی کلمات کے  مطالعے  کو تحریر کے  مقابلے  میں  زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔

۱۔انسانی تہذیب کے  ارتقا میں  انسان زبان پہلے  بولنا شروع ہُوا اور تحریر بہت بعد میں  ایجاد ہوئی۔

۲۔بچہ پہلے  بولنا شروع کرتاہے  اور بعد میں  لکھنا سیکھتاہے۔

۳۔دنیا میں  سب ہی انسان بولنا جانتے  ہیں  لیکن مقابلتاً کم لوگ لکھنا جانتے  ہیں ۔

۴۔بہت سی ایسی چیزیں  جو زبانی گفتگو میں  شامل ہوتی ہیں  ‘تحریر میں  ظاہر نہیں  کی جاتیں ۔

ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کے  بقول:

گوپی چند نارنگ کی تصنیفات


گوپی چند نارنگ کی تصنیفات
گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو ڈکی، زیریں پنجاب میں پیدا ہوئے ۔  پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم ہیں مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہتے ہیں اورانہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔  وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں ۔



Niyaz Ahmad
1991


Waqar-ul-Hasan Siddiqi
2006


Bhartiya Gyanpeeth, New Delhi
2016

ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ۔۔۔ مرزا خلیل احمد بیگ (٭)

(۱)

یہ امر محتاجِ دلیل نہیں کہ کسی زبان میں ’تنقید‘ اس وقت معرضِ وجود میں آتی ہے جب اس زبان میں ادب کا فروغ عمل میں آ چکا ہوتا ہے۔ ادب کی تخلیق کے لیے اس کے خالق یعنی مصنف (Author) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مصنف، تخلیق اور تنقید یہ تینوں مل کر ایک مثلث بناتے ہیں۔ مصنف اور تخلیق کے درمیان رشتہ پہلے استوار ہوتا ہے، اور تخلیق کا تنقید (یا نقاد) کے ساتھ رشتہ بعد میں قائم ہوتا ہے۔ تخلیق کلیۃً مصنف کے تابع ہوتی ہے، یعنی کہ جیسا اور جس خیال، نظریے یا طرزِ فکر کا مصنف ہو گا ویسی ہی اس کی تخلیق ہو گی۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ادب اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم تصور ہے، اور یہ بات اس لیے درست نہیں کہ سماج خواہ کیسا بھی ہو، ادب ویسا ہی ہو گا جیسا کہ اس کے مصنف کی منشا ہو گی۔ بہت سی باتیں جو سماج میں کہیں نظر نہیں آتیں ، لیکن ادب میں ان کا وجود ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سی باتیں جو سماج کا حصہ ہیں ، ادب میں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے یا سماج کے تابع ہوتا ہے، درست نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مصنف بھی جو سماج کا ایک فرد ہوتا ہے، سماج کے تابع (یا پورے طور پر تابع) نہیں ہوتا۔ وہ کبھی کبھی سماج سے بغاوت بھی کر بیٹھتا ہے، اس کے بنائے ہوئے اصولوں اور قاعدوں کی نفی بھی کرتا ہے، اور اس کے بندھنوں اور پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس کی اپنی آئیڈیا لوجی ہوتی ہے جواس کی رہبری کرتی ہے۔

ي سیاست، اور اخلاقیات (جس کا مذہب سے گہرا تعلق ہے)، دونوں سماجی ادارے ہیں اور ہر سماج کسی نہ کسی طور پر سیاسی/ مذہبی / اخلاقی بندھنوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ مصنف کی آزادانہ روش یا اس کی باغیانہ فکر یا آئیڈیالوجی سماجی اداروں کے نظریات اور ان کے زریں اصولوں کو صد فی صد تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر پریم چند کے افسانوی مجموعے ’سوزِ وطن‘(۱) کی، اور اخلاقی وجوہ کی بنا پر ایک دوسرے افسانوی مجموعے ’انگارے‘(۲) کی ضبطی عمل میں آئی تھی۔

مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز- مرزا خلیل احمد بیگ کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘ کا ایک حصہ

لسانیات کی روشنی میں ادبی فن پارے کے مطالعے اور تجزیے کو ’اسلوبیات‘ (Stylistics)  کا نام دیا گیا ہے۔ لسانیات زبانوں کے سائنسی مطالعے کا نسبۃً ایک جدید علم ہے۔ اس شعبۂ علم کا اپنا  مخصوص طریقۂ کار ہے جسے بروئے عمل لاتے ہوئے یہ زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیتا ہے۔ لسانیاتی طریقۂ کار کا اطلاق جب ادب کے مطالعے میں کیا جاتا ہے تو یہ مطالعہ اسلوبیات (Stylistics)  کہلاتا ہے۔ 


اسے اسلوبیاتی تنقید بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات اسلوب کے سائنسی مطالعے کا بھی نام ہے۔ چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، اس لیے اسلوب کی تشکیل و تعمیر، زبان کے اشتراک کے بغیر نا ممکن ہے۔ اسی لیے اسلوب کو ادبی فن پارے کی ان لسانی خصوصیات سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اسے انفرادیت بخشتی ہیں اور جن کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی تصنیف یا تخلیق ہے۔ زبان کا بنیادی ڈھانچا اگرچہ ایک ہوتا ہے، لیکن زبان کے استعمال کی نوعیت ہر شاعر اور ادیب کے یہاں جداگانہ ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر ادبی فن کار کا اسلوب بھی جداگانہ ہوتا ہے اور جب اس کا اسلوب اس درجہ مخصوص ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی پہچان یا شناخت بن جائے تو اسے صاحبِ اسلوب کہا جانے لگتا ہے۔

فرمان فتح پوری کی کتابیں

ڈاکٹر فرمان فتح پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والے مصنف، محقق، ماہرِ لسانیات، نقاد، معلم اور مدیر تھے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ بھی رہے۔




Progressive Book Club
1993

Maktaba Jamia Limited, New Delhi
1982

اردو املا اور رسم الخط
(اصول و مسائل)
Niyaz Ahmad
1977

Muqtadra Qaumi Zaban,Pakistan
1990

Maktaba-e-Aliya Lahore
1982

Educational Publishing House, Delhi
1994

Majlis-e-Taraqqi-e-Adab, Lahore
1972

Syed Waqar Moin
2004

Anjuman Taraqqi Urdu, Pakistan
1992


Educational Publishing House, Delhi
2013

Bekan Books Multan
1988

Firoz Sons Pvt Ltd Lahore
1988

Anjuman Taraqqi Urdu, Pakistan
1971

Halq-e-Niyaz-o-Nigar, Karachi
1974

Urdu academy Sindh,Karachi
1978


Saiqa Book Depot Delhi
1969

Qamar Kitab Ghar Karachi
1977


Muqtadra Qaumi Zaban,Pakistan
1986

Halq-e-Niyaz-o-Nigar, Karachi
1995

Syed Waqar Moin
2005

Aaina-e-Adab, Lahore
1972

Qamar Kitab Ghar Karachi
1980

Syed Waqar Moin
2009

Izhar sons Urdu Bazar, Lahore
1970

قمر زمانی بیگم
علامہ نیاز فتحپوری کی انوکھی داستان معاشقہ
Urdu academy Sindh,Karachi
1979

میر انیس
(حیات اور شاعری)
Urdu academy Sindh,Karachi
1976

نصف الملاقات
مشاہیر کے خطوط مع سوانحی کوائف
Bekan Books Multan
2005

Qamar Kitab Ghar Karachi
1974

National Book Foundation, Islamabad
1977

National Book Foundation Lahore


ادب کیا ہے؟

ادب کیا ہے؟
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہو گا، اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔ لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریئے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثر و تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ 

ادب اور تاریخی شعور

ادب اور تاریخی شعور 
(ممتاز نقاد اور شاعر سلیم احمد مرحوم کا ایک غیر مطبوعہ مضمون) 

زندگی میں دو اصول کام کرتے ہیں۔ایک اصول ثبات کا دوسرا اصول تغیر کا۔ ایک اصول سکون کا دوسرا اصول حرکت کا جس طرح حرکت اور تغیر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ تاریخ کا تعلق اصول حرکت سے ہے کیونکہ تاریخ داں کہتے ہیں کسی شے کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کی روئداد کو شے جس طرح کچھ بنتی یا بگڑتی ہے وہ اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو چیزیں اصول ثبات سے تعلق رکھتی ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی ہے۔وہ چونکہ ’’ہوتے رہتے‘‘ کے عمل میں گرفتارنہیں ہوتیں اس لیے غیر تاریخی ہوتی ہیں۔ اب جب ہم ادب میں تاریخی شعور کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ادب میں اس چیز کا شعور ہوتا ہے جو بدلتی رہتی ہے۔ ادب دو چیزوں کا مجموعہ ہے مواد اور ہیٔت ۔ مواد سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ادیب کو زندگی کے تجربے، مشاہدہ اور مطالعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ مواد حقیقی ہو یا خیالی‘ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اس لیے اس کی ایک تاریخ ہوتی ہے اس کے برعکس مواد کے مقابلے پر ہیئت اصول ثبات کی نمائندگی کرتی ہی اور مواد کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے وہ مواد کے مقابلے پر غیر تاریخی یا کم تاریخی ہوتی ہے۔ چنانچہ تاریخی شعور کا تعلق ادب کے مواد سے ہے، تاریخی شعو ر کے معنی یہ ہیں کہ ہم یہ جانیں کہ ہمارا مواد ماضی میں کیا تھا اوراب کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان کیا تعلق ہے۔ تاریخی شعور ایک طرف لمحہ موجود کا شعور ہے۔ دوسری طرف لمحہ گزشتہ کا اور تیسری طرف ان کے تعلق اور تسلسل کا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم ہمارا ماحول اور ہمارا معاشرہ کیا تھا اور آج کیا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ ادب میں جب تک ہم یہ تاریخی شعور حاصل نہیں کرتے ہمارا شعور یک رخا رہتا ہے یا تو ہم ماضی میں گھرے رہ جاتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ہمارا ماحول اور ہمارا تجربہ یعنی ہمارامواد کتنا بدل گیا ہے یا پھر ہم حال میں اسیر ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس حال کے پیچھے ہمارا ماضی کس طرح برسرِ عمل ہے۔ بالفرض ہم اگر انھیں الگ الگ دیکھ بھی لیں تو ہمیں ان کے تسلسل کا شعور نہیں حاصل ہوتا۔ ہمارے ادب میں قدیم و جدید کے جتنے تنازعے موجود ہیں اور اس سلسلے میں جتنی غلط فکری پائی جاتی ہے وہ اسی تاریخی شعور کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ یا تو ہم صرف حال کو دیکھتے ہیں اور ماضی کو نہیں دیکھ سکتے یا صرف ماضی کو دیکھتے ہیں اور حال کو نہیں دیکھ سکتے یا اگر ان دونوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے رشتے کو نہیں دیکھ پاتے۔

ماہر القادری۔۔۔ اپنی ذات میں تحریک

ماہر القادری 
جے اے کڈن نے ’’پینگوئن ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز اینڈ لٹریری تھیوری‘‘ میں بتایا ہے کہ ادب میں کسی بھی رجحان یا پیش رفت کو تحریک کہا جاتا ہے۔ جو لوگ رجحان اور پیش رفت میں تمیز کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ادب میں کوئی بھی تحریک کسی مشترکہ مقصد یا مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے جبکہ رجحان سے مراد کسی بھی معاملے میں عمومی جھکائو ہے، خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔

پاکستان میں اسلامی ادب کی تحریک نے خاصی طاقت حاصل کی اور اثرات بھی مرتب کیے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والی اس تحریک نے اخلاقی، روحانی یا روایتی اقدار کی پاسداری کا عزم رکھنے والے مصنّفین اور قارئین کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا۔

اسلامی ادب کی تحریک سے بھی پہلے پاکستانی ادب کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر اور محمد حسن عسکری قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ادب کی ممکنہ خصوصیات کا سوال اٹھا چکے تھے۔ ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ پاکستانی ادب کی اپنی خصوصیات مواد اور لہجہ ہونا چاہیے۔ اور یہ کہ اس ادب سے پاکستان کا نظریہ اور اقدار جھلکنی چاہیئں۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ بعد میں عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کے معاملے کو اسلامی ادب کی تحریک سے ملا دیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے امور آپس میں الجھ گئے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک نے پاکستانی ادب کی تحریک ہی سے جنم لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کے لیے چلائی جانے والی تحاریک الگ الگ تھیں۔

کچھ نوبل انعام کے بارے میں۔۔۔

نوبل انعام دنیا کا اعلیٰ ترین علمی انعام سمجھا جاتا ہے جو کہ ہر سال نوبل فائونڈیشن کی جانب سے کیمسٹری، فزکس، میڈیسن، اکنامکس، ادب اور امن کے میدان میں نمایاں کارکردگی کے حامل افراد کو دیا جاتا ہے۔ انعام عطا کرنے کے لیے ہر سال ۱۰ دسمبر کو تقریب منعقد ہوتی ہے۔

نوبل ایوارڈ کی بنیاد ۱۹۰۰ء میں رکھی گئی ہے۔ الفریڈ نوبل سویڈن کے ایک کیمیکل انجینئر تھے جنہوں نے ۱۸۶۶ء میں نائٹروگلیسرین اور ڈائنامائیٹ کا استعمال دریافت کیا۔ وہ ڈائنامائیٹ کے موجد تھے۔ ۱۸۹۶ء میں الفریڈ نوبل کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق کیمسٹری، فزکس، میڈیسن، ادب اور امن کے میدانوں میں گرانقدر تحقیق کرنے والے اور کارہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کے لیے نوبل انعام کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا۔ ۱۹۶۷ء میں اکنامکس کے شعبہ کو بھی نوبل ایوارڈ میں شامل کر لیا گیا۔ الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق انعام یافتہ شخص کے لیے ’’اسکینڈے نیوین‘‘ ہونا ضروری نہیں ہے۔ (سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور فن لینڈ اسکینڈے نیوین ممالک کہلاتے ہیں) اسکینڈے نیوین کی شرط نہ رکھنے پر الفریڈ نوبل کو اس کے ہم وطنوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے خیال میں نوبل انعام کے حق دار صرف اور صرف اسکینڈے نیوین باشندے ہی ہونے چاہیے تھے۔ نوبل انعام کے لیے دنیا بھر سے افراد کی نامزدگی ’’نوبل فائونڈیشن پرائز ایوارڈنگ باڈی‘‘ کرتی ہے۔ فزکس اور کیمسٹری میں گرانقدر خدمات انجام دینے والوں کو ’’رائل سوئیڈش اکیڈمی‘‘ نامزد کرتی ہے۔

نشأة الأدب المقـارن

1-    الإرهــاصـــات


من البديهي أن ظهور أي علم من العلوم تسبقه إرهاصات و عوامل ، تكون ممهدة لظهوره أو سببا في نشأته أو في تطوره  أو فيهما معا ، و الأدب المقارن هو من هذه العلوم التي سبقت ظهورها العديد من الإرهاصات ، و ساهمت في نشأتها العديد من العوامل ؛ و يمكن اعتبار الظواهر الأدبية العالمية    و التي من أهمها ظاهرة التأثير و التأثر بين الأداب إحدى أهم تلك الظواهر التي ارهصت لظهور هذا العلم.

و يمكن اعتبار أن أقدم ظاهرة في هذا المجال ، أي : ظاهرة تأثير أدب في أدب آخر ، و أبرزها و أكثرها نتائجا و انتاجا في القديم ، هي  ما حدث بين كل من الأدبين اليوناني و الروماني  من تأثير   و تأثر ، و التي يقول المؤرخون أن بدايتها كانت في عام 146 قبل الميلاد[1] و هي السنة التي غزى فيها الرومانيون اليونانيين و احتلوهم عسكريا ، و لكن هذا الإحتلال العسكري لليونانيين من طرف الرومانيين قد قابله احتلال عكسي و من نوع آخر ، يتمثل في احتلال اليونانيين للرومانيين أدبيا و ثقافيا ، فقد صار كل من الأدب و الفلسفة اليونانيين المرجع الأساس للفلاسفة و الكتاب الرومانيين ، بحيث اصبح الكتاب الرومانيون يحاكون اليونانيين في كل شئ ، فنجد مثلا أن كتاب المسرحيات الرومانيين قد تأثروا بالغ الأثر بالمسرحيين اليونانيين ، فالمسرحي التراجيدي الروماني  ( سينيكا) نجده قد تأثر بالمسرحيين اليونانيين التراجيديين أمثال سوفوكليس و يوريبيديس و  اسخيليوس و حاكاهم و حاكى بعض اساليبهم في المسرح ، و غيره الكثير من الكتاب الرومانيين الذين كان واضحا تأثير الأدب اليوناني في أدبهم . 

اللقاء 1، الأدب المقارن، د. أحمد إبراهيم درويش

د.محمد سلام فى محاضرة عن الأدب المقارن _ قناة النيل للتعليم العالى _

فیض کی نظم تنہائی : ایک اسلوبیاتی مطالعہ - مرزا خلیل احمد بیگ

فیض احمد فیض کی نظم" تنہائی" ( ایک اسلوبیاتی مطالعہ )
(نوٹ : یہ مقالہ : لانگ آئی لینڈ [نیویارک] میں منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی فیض صدی تقریبات میں جون ۲۰۱۱ء میں پڑھا گیا)

’اسلوبیات‘(Stylistics)نسبتہً ایک جدید نظریۂ تنقید ہے۔ ادبی فن پارے کی تنقید و تشریح اور تحلیل و تجزیے کے طریقوں میں گذشتہ صدی کے دوران نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ روایتی طرزِ تنقید کی رو سے ادبی نقاد مصنف کے حوالے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں روسی ہیئت پسندی کے ارتقا اور اُسی زمانے میں فرانس میں فرڈی نینڈڈی سسیور کے انقلاب آفریں لسانی افکار نے، جن سے ساختیات کے سوتے پھوٹے، ادبی تنقید کی کایا ہی پلٹ دی۔ نقاد کی توجہ اب مصنف کے بجائے ادبی فن پارے یا متن پر مرتکز ہونے لگی۔ آگے چل کر رولاں بارت نے ’مصنف کی موت‘ کا اعلان بھی کر دیا۔ اسلوبیاتی نظریۂ تنقید روسی ہئیت پسندی، عملی تنقید، نئی تنقید، اور ساختیاتی وپس ساختیاتی تنقید ہی کی طرح ’متن اساس‘تنقید ہے جس میں تاریخی اور سوانحی حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صر ف ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے سے سروکار رکھا جاتا ہے۔ روایتی ادبی تنقید میں نقاد اپنا سارا زور ادبی فن پارے کی تشریح (Interpretation) اور اس کی خوبی یا خامی بیان کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ اُس کا انداز داخلی اور تاثراتی ہوتا ہے۔ اس کے علی الرغم اسلوبیاتی تنقید ادبی متن کی توضیح (Description) اور اُس کے اسلوبی خصائص (Style-features)کو نشان زد کرنا اپنا بنیادی مقصد قرار دیتی ہے۔ اس کا انداز معروضی اور تجزیاتی ہوتا ہے۔