" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
سیور فوڈز: 18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ریستوران کی کہانی
دنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان
(1) والٹن خاندان
عالمی تنازعات اور اسلحہ سازوں کی ’چاندی‘: وہ کمپنیاں جنھوں نے صرف ایک سال میں 632 ارب ڈالر کمائے
سنیاس سے 10 کروڑ ڈالرسالانہ کی مراقبہ کمپنی تک کا سفر
وہ دور جب ہندوستانی روپے نے خلیجی ریاستوں میں سونے کے سکوں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنائی
![]() |
ہندوستانی روپیہ |
امریکہ میں ارب پتی اور بااثر افراد کی محفل جہاں مستقبل کی سمت طے ہوتی ہے
تنخواہ دار طبقے کے نئے مجوزہ سلیبز کیا ہیں؟
تنخواہوں پر ٹیکس کے نئے ریٹس کیا ہیں؟
وہ تین خوبیاں جن کی بدولت لوگوں نے نوکری چھوڑ کر اپنے کاروبار میں کامیابی پائی
افراط زر کیا ہے ؟ اور اس کا تاریخی جائزہ ۔
کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
افراط زرپچھلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اس قدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔ کاغذی نوٹوں کی بے تحاشہ چھپائی کے نتیجے میں زمبابوے کی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جانے لگی۔ آئے دن اسٹاک کی قیمت ڈبل ہو جاتی تھی۔ لیکن فروری 2018 میں وینیزویلا کی کرنسی عوام نے ردّی کی طرح سڑک پر پھینکنا شروع کر دی۔ نومبر 2016ء میں ایک امریکی ڈالر 1500 وینیزویلا کے بولیور کے برابر تھا۔ صرف دیڑھ سال بعد 8 جون 2018ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 23 لاکھ بولیور کے برابر پہنچ چکی تھی یعنی ڈالر اس عرصہ میں 1533 گنا مہنگا ہو گیا تھا۔
کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔ جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔
پچھلے 255 سالوں میں قیمتیں دوگنی ہونے میں ابتدائی 185 سال لگے حالانکہ اس عرصے میں دنیا کو دو جنگ عظیم بھی جھیلنا پڑیں۔ لیکن بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد کے 70 سالوں میں قیمتیں 50 گنا بڑھ گئیں۔
امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام ہونے والا عالمی کرنسی کا وہ پراجیکٹ جس نے دنیا پر ڈالر کی بالادستی یقینی بنائی
![]() | |
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین |
پاکستان سٹاک مارکیٹ: بازارِ حصص کیا ہے اور نوجوان یہاں سرمایہ کاری کیسے کر سکتے ہیں؟
خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟
حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق
ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے ؟
انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟
دنیا کے بڑے ممالک ضرورت کی اشیا دیگر ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے ’خود کفیل‘ ہونے کی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟
بی بی سی اردو ، ۳۰ جنوری ۲۰۲۳ء
سنہ 1989 کے اواخر میں دیوار برلن کے گرنے اور تقریباً دو سال بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور عالمگیریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس نے عالمی معیشت کو ایک جدید شکل دی۔
لیکن 21ویں صدی میں مختلف بحرانوں نے اس ’گلوبل ویلج‘ کہلائے جانے والی دنیا کا امتحان لیا ہے۔
سنہ 2008 میں وال سٹریٹ سے شروع ہونے والا امریکی معاشی بحران جب پوری دنیا میں پھیل گیا تو اُس کے بعد کچھ لوگوں نے معیشت کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے فوائد پر سوال اٹھایا۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا میں نریندر مودی جیسی نئی سیاسی شخصیات نے اپنی ضروریات خود پوری کرنے یعنی خود کفیل ہونے جیسے خیال کو ترجیح دینے کے عمل کو فروغ دینا شروع کیا اور یورپ میں برطانیہ نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین سے خود مختاری حاصل کر لی۔لیکن عالمگیریت کو سب سے زیادہ دھچکا کووڈ وبا سے لگا، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک نے نہ صرف اپنی سرحدیں بند کر دیں بلکہ ماسک سے لے کر ویکسین تک جو وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا تمام طبی آلات کی برآمد بھی روک دی تھی۔
امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر
بی بی سی اردو
امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک
جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔
قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔
سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔
لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟
بی بی سی اردو
دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟
گذشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا کہ قرضوں کے اس حجم کو سُن کر ہی آپ دنگ رہ جائیں گے اور بڑی بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رُکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔
جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اُس کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ قرضے کی یہ رقم دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔
مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکہ کے قرضوں کاحجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے مگر یہ رقم امریکہ کے ٹوٹل جی ڈی پی کے صرف 98 فیصد کے برابر ہے۔
قرضوں کے اتنے بڑے حجم کی وجہ کیا ہے؟
قرضوں کے اتنے بڑے حجم کے یہاں تک پہنچنے کا سفر چند سال کا نہیں بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھنے اور اخراجات پورا کرنے کی جدوجہد کی مد میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔
پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟
پیسے کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ہزاروں سال سے ادائیگی کا یہ واحد طریقہ ہے اور دولت کی پیمائش کا بھی۔ اسی سے وہ نظام جڑا ہے جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟
پاؤلا روزاس
بی بی سی اردو
تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022
![]() |
ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟ |
باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔
پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔
اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔
ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔
یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔
ڈبلیو ٹی او معاہدہ جس نے چین اور دنیا کی معاشی تقدیر بدل دی
