معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سیور فوڈز: 18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ریستوران کی کہانی

عمیر سلیمی
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
4 اگست 2020

’انگریزی میں بزنس کہتے ہیں، اُردو میں کاروبار۔ مگر پنجابی میں اسے ’کروبار‘ کہتے ہیں۔ کروبار کرنا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب کاروبار کے لیے آپ کو گھر سے باہر رہنا پڑے گا۔‘

حاجی محمد نعیم کو شاید زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ لیکن ان کا پلاؤ کباب کا کاروبار پاکستان کے جڑواں شہروں میں بہت مقبول ہے۔ سنہ 1988 میں یہ کاروبار ایک چھوٹی سی دکان میں 18 کرسیوں کے ساتھ ’سیور‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔

حاجی محمد نعیم کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے ایک زمیندار مگر مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کاروبار سے منسلک ہو گئے تھے۔حاجی نعیم کے والد محمد امین وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ وہ تین بیٹوں میں سب سے بڑے ہیں۔

انھیں کاروبار کا شوق تھا تو والد صاحب نے چاول کا کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ خاندان کے بڑوں نے ریستوران کے شعبے میں جانے کی تجویز دی۔

دنیا کے 10 ’امیر ترین خاندان

بی بی سی اردو ، 18 دسمبر 2024

امریکی ادارے بلوم برگ نے دنیا کے دس امیر ترین خاندانوں کی فہرست جاری کی ہے اور اس برس ایک بار پھر وال مارٹ سُپر مارکیٹ کا مالک والٹن خاندان یہاں سرِفہرست نظر آتا ہے۔

تقریباً چھ دہائیوں قبل سیم والٹن نے پہلی سُپر مارکیٹ کھولی تھی اور آج ان کے خاندان سے منسلک افراد کا تعلق دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس برس ان کی وال مارٹ چین کے شیئرز کی قدر میں 80 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

بلوم برگ کے مطابق وال مارٹ کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثوں کا تحفظ کیا ہے اور ایسے کاروباری معاہدے کیے ہیں جس سے ان کی دولت میں کمی نہ آئے۔

اس فہرست میں مزید خاندانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے اور ان کے امیر ہونے کا راز کیا ہے۔

(1) والٹن خاندان


تقریباً چھ دہائیوں قبل سیم والٹن نے پہلی سُپر مارکیٹ کھولی تھی

کُل دولت: 432 ارب ڈالر

ملک: امریکہ

عالمی تنازعات اور اسلحہ سازوں کی ’چاندی‘: وہ کمپنیاں جنھوں نے صرف ایک سال میں 632 ارب ڈالر کمائے



شکیل اختر
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
دنیا بھر میں جاری تنازعات یوکرین، روس اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کو ہوا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹٹیوٹ (سپری) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان صرف امریکی کمپنیوں نے بنایا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس امریکی کمپنیوں نے 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔

سپری کے مطابق امریکہ کے بعد اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی کمپنیوں نے گذشتہ برس دنیا بھر میں 130 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ہتھیار بنانے والی دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا جو کہ 2022 کے مقابلے میں چار اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں جاری تنازعات کے سبب روس اور اسرائیل میں واقع چھوٹی کمپنیوں کے منافع میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سنیاس سے 10 کروڑ ڈالرسالانہ کی مراقبہ کمپنی تک کا سفر



بی بی سی اردو 
4 اکتوبر 2019
بی بی سی کی ہفتہ وار دی باس سیریز میں دنیا بھر کے مختلف کاروباری لیڈروں کی کہانی پر نظر ڈالی گئی۔ اس میں مراقبے میں مدد دینے والی موبائل ایپ ’ہیڈسپیس‘ کے شریک بانیوں اینڈی پڈیکومب اور رچرڈ پیئرسن سے بھی بات ہوئی۔

اینڈی پڈکومبے کی زندگی کو بالکل نیا رخ المیوں کے ایک سلسلہ نے دیا۔

جب وہ 22 سال کے تھے تو وہ ایک دن لندن کے ایک پب کے باہر کھڑے تھے جب ایک نشے میں دھت ڈرائیور نے ان کے دوستوں پر گاڑی چڑھا دی جس سے ان کے دو دوست ہلاک ہوگئے۔

کچھ ماہ بعد ان کی سوتیلی بہن سائیکلنگ کرتے ہوئے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئیں اور پھر اس کے بعد ان کی ایک سابق گرل فرینڈ سرجری کے دوران ہی چل بسی۔اینڈی اس وقت سپورٹس سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن اس صدمے کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ زندگی میں مکمل تبدیلی لانے کے لیے انھوں نے بدھ راہب بننے کے لیے ہمالیہ کے سفر کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے اگلے دس سال راہب کی حیثیت سے گزارے۔ اس دوران انھوں نے پورے ایشیا کا سفر کیا اور دن میں 16 گھنٹے تک مراقبہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مراقبے نے انھیں تمام تر حالات سے سمجھوتہ کرنے میں مدد دی ہے۔اب 46 برس کے اینڈی کا کہنا ہے کہ ’اس (مراقبہ) نے میرے نقطہ نظر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس نے مجھے اپنے آپ سے توجہ کم کر کے دوسروں کے لیے خوشیوں کا باعث بننا سکھایا۔‘

وہ دور جب ہندوستانی روپے نے خلیجی ریاستوں میں سونے کے سکوں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنائی

وقار مصطفیٰ | بی بی سی اردو | 16 جولائی 2024

عربی میں حرف ’پ‘ نہیں، سو ہندوستانی روپے کو تو گھونگھوں سے موتی نکالتے خلیج کے عرب مچھیروں نے روبیا کہہ لیا لیکن اس کا کیا کیجیے کہ برطانوی حکمران کی تصویر والے کاغذ کے اس ٹکڑے میں نہ سونے کے عثمانی سکے جیسی چمک تھی نہ چھونے، گننے اور جمع کر کے رکھنے میں ویسا مزہ اور اعتماد اور بھیگ گیا تو ضائع۔
ہندوستانی روپیہ

موتیوں کے عرب تاجروں کے بیان میں لنڈا شلچر لکھتی ہیں کہ سونے کے سکے نہ صرف زر مبادلہ کا ذریعہ تھے بلکہ دولت اور تحفظ کی علامت بھی تھے۔

’سونے کے سکوں کی گنتی ہوتی اور ہر لین دین میں وزن کیا جاتا، سامان خریدنے سے لے کر قرضوں کے تصفیہ تک۔‘

خلیجی ریاستوں کی معیشتوں کی تبدیلی کا احاطہ کرتی اپنی تحریر میں انتھونی بی ٹوتھ بتاتے ہیں کہ کیسے ابوظہبی کے ایک چھوٹے تجارتی مقام پر احمد نامی تاجر ایک برطانوی افسر سے روپے لینے سے انکار اور سونے کے سکوں پر اصرار کرتے ہیں۔افسر ان کی ہچکچاہٹ کو سمجھتے ہوئے احمد کے سامنے دوسرے تاجروں سے روپے کے بدلے سامان خریدتے ہیں۔

اس مظاہرے سے قائل ہو کر ہی احمد نے کاغذی کرنسی پراعتماد کیا۔

یہی مسئلہ بیسویں صدی کے اوائل میں دبئی کے موتیوں کے ایک تاجرعبداللہ کا بھی تھا، جن کی کہانی ان زبانی روایات میں سے ایک ہے جو دبئی میوزیم آرکائیوز نے جمع کی ہیں۔

عثمانی سونے کے سکوں میں تجارت کرنے کے بعد عبداللہ کو ابتدائی طور پر نئی کاغذی کرنسی ہندوستانی روپے پر شک تھا۔ ایسی ہی ہچکچاہٹ بہت سے اور تاجروں میں بھی تھی جنھیں خدشہ تھا کہ کاغذی کرنسی سونے جیسی قیمتی نہیں۔

ایک دن عبداللہ کو اپنے موتیوں کے بدلے ایک اہم پیشکش ملی لیکن ادائیگی ہندوستانی روپے میں تھی۔ نئی کرنسی کو قبول کرنے یا معاہدہ کھونے کے انتخاب کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پر اتفاق کر لیا۔ آہستہ آہستہ دوسرے تاجر بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔

امریکہ میں ارب پتی اور بااثر افراد کی محفل جہاں مستقبل کی سمت طے ہوتی ہے

بی بی سی اردو | 13 جولائی 2024

سن ویلی امریکہ کا ایک ایسا ’سمر کیمپ‘ ہے جہاں دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارب پتی افراد کی خصوصی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔

سن ویلی میں جاری امریکہ کے بااثر کاروباری افراد اور ٹائیکونز کی ملاقاتوں کو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن جہاں بطور صدارتی امیدوار بحث کا موضوع ہیں وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آخری مباحثے میں ان کی کارکردگی کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ارب پتیوں کے سمر کیمپ میں اس مرتبہ موضوعِ گفتگو یہ مباحثہ اور جو بائیڈن ہی ہوں گے۔

ایڈاہو کے ایک ریزورٹ ٹاؤن سن ویلی میں سرمایہ کاری بینک ایلن اینڈ کمپنی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس کیمپ کا آغاز چار دہائیوں قبل ہوا تھا۔ اسے اشرافیہ کا ایک نجی اجتماع کہا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والے تمام افراد سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔

اس سال ایمیزون کے بانی جیف بیزوس، اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین، ایپل کے سی ای او ٹم کک، ڈزنی کے سی ای او باب ایگر، وارنر برادرز کے سی ای او ڈیوڈ زسلاو، مائیکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس، میڈیا انٹرپرینیور شاری ریڈسٹون سمیت دیگر شخصیات اس میں شرکت کر رہے ہیں۔

بڑے بڑے تجارتی سودوں کا مقام

یہ تمام اشرافیہ سن ویلی اپنے پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر آئے ہیں۔

سن ویلی کی سالانہ کانفرنس پہلی بار 1983 میں منعقد کی گئی تھی۔ یہاں نہ صرف بڑے بڑے تجارتی سودے کیے جاتے ہیں بلکہ بڑی بڑی جماعتوں کے رہنما اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مستقبل پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

کیمپ میں اس بار تفریحی کمپنیوں اور میڈیا گروپس کے سربراہان اور ٹیکنالوجی کے میدان کے با اثر اور طاقتور شخصیات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

تنخواہ دار طبقے کے نئے مجوزہ سلیبز کیا ہیں؟

رواں مالی سال کی طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی کُل ٹیکس سلیب چھ ہی ہیں تاہم چار سلیبز اور ان کے ریٹس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نئے مجوزہ سلیبز کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
پہلا سلیب: تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ
دوسراسلیب: تنخواہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ
تیسرا سلیب: تنخواہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 12-24 لاکھ تھا)
چوتھا سلیب: تنخواہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 24-36 لاکھ تھا)
پانچواں سلیب: تنخواہ 32 لاکھ سے 41 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 36-60 لاکھ تھا)
چھٹا سلیب: تنخواہ 41 لاکھ سے زیادہ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 60 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے افراد کے لیے تھا)

واضح رہے کہ 30 جون تک رواں مالی سال ہے جبکہ یکم جولائی 2024 سے اگلا مالی سال شروع ہو گا۔

تنخواہوں پر ٹیکس کے نئے ریٹس کیا ہیں؟


تنخواہوں کے نئے سلیب کا جائزہ لینے کے بعد آئیے جانتے ہیں کہ نئے ریٹس کیا ہیں۔ اس سال پانچ سلیبز کے ریٹس میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔

پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.

دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو چھ لاکھ سے زیادہ آمدن پر پانچ فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ڈھائی فیصد تھا)

تیسرا سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔ ان کے لیے 30 ہزار فکسڈ ٹیکس ہو گا جبکہ اس کے علاوہ 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس لگے گا۔ (یہ رواں مالی سال میں 15 ہزار فکسڈ اور 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد تھا)

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے۔ انھیں سالانہ ایک لاکھ 80 ہزار فکسڈ اور 22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 25 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ایک لاکھ 65 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد تھا)

وہ تین خوبیاں جن کی بدولت لوگوں نے نوکری چھوڑ کر اپنے کاروبار میں کامیابی پائی

 ایون ڈیویز
عہدہ,بی بی سی نیوز
7 جون 2024

کیا آپ مزدوری سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنا کاروبار چلانا چاہتے ہیں؟ ترجیحی طور پر ایک ایسا کاروبار جو آپ کے لیے محض لائف سٹائل سے بڑھ کر کچھ ہو یعنی ایسا کاروبار جسے آپ پائیدار بنا کر فروخت کر سکتے ہوں اور جس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر آپ باقی زندگی گزار سکیں۔

بی بی سی نے ایک سریز ’ایسے فیصلے جن سے میں لیڈر بن گیا‘ کے لیے چھ کامیاب کاروباری شخصیات سے بات کی ہے۔ اگرچہ یہ کسی بھی سروے کے لیے بہت ہی مختصر نمونہ ہے مگر ان انٹرویوز سے ہمیں کچھ دلچسپ معلومات ضرور حاصل ہوتی ہیں۔

افراط زر کیا ہے ؟ اور اس کا تاریخی جائزہ ۔

کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

 افراط زرپچھلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اس قدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔ کاغذی نوٹوں کی بے تحاشہ چھپائی کے نتیجے میں زمبابوے کی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جانے لگی۔ آئے دن اسٹاک کی قیمت ڈبل ہو جاتی تھی۔  لیکن فروری 2018 میں وینیزویلا کی کرنسی عوام نے ردّی کی طرح سڑک پر پھینکنا شروع کر دی۔  نومبر 2016ء میں ایک امریکی ڈالر 1500 وینیزویلا کے بولیور کے برابر تھا۔ صرف دیڑھ سال بعد 8 جون 2018ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 23 لاکھ بولیور کے برابر پہنچ چکی تھی یعنی ڈالر اس عرصہ میں 1533 گنا مہنگا ہو گیا تھا۔

کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔ جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔ 

پچھلے 255 سالوں میں قیمتیں دوگنی ہونے میں ابتدائی 185 سال لگے حالانکہ اس عرصے میں دنیا کو دو جنگ عظیم بھی جھیلنا پڑیں۔ لیکن بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد کے 70 سالوں میں قیمتیں 50 گنا بڑھ گئیں۔

امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام ہونے والا عالمی کرنسی کا وہ پراجیکٹ جس نے دنیا پر ڈالر کی بالادستی یقینی بنائی

گیلرمو ڈی اولمو
بی بی سی ورلڈ نیوز

یہ 1944 کے موسم گرما کی بات ہے جب نصف دہائی سے جاری دوسری عالمی جنگ کے شعلے کچھ بجھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایڈولف ہٹلر اور اُن کے اتحادیوں کی شکست واضح ہونا شروع ہو گئی تھی۔
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین


ایسے میں امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن ووڈس میں 44 ممالک کے مندوبین نے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی جو 22 روز تک جاری رہا۔ اُن کا مقصد: پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی معیشت کی بنیاد طے کرنا تھا۔ 

یہ کانفرنس تاریخ میں ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جہاں اس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف) کی تشکیل اور ورلڈ بینک کے خدوخال پر اتفاق ہوا، وہیں اِن ملاقاتوں میں پیش کیے گئے سب سے انقلابی خیالات میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا: یعنی بینکور۔

بینکور کا تصور دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ کرنسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تاہم بینکور کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کی موت نے دنیا میں امریکی ڈالر کی بالادستی کو یقینی بنا دیا۔

پاکستان سٹاک مارکیٹ: بازارِ حصص کیا ہے اور نوجوان یہاں سرمایہ کاری کیسے کر سکتے ہیں؟

محمد صہیب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
19 اکتوبر 2020

یہ کہانی ایک ایسے بازار کی ہے جہاں بقول مقبول امریکی کاروباری شخصیت وارن بفیٹ ’بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘ اور جہاں ایک بروکر کے مطابق آپ ایک ہی دن میں آسمان کی بلندیاں چھونے کے بعد زمین پر پٹخے جا سکتے ہیں۔

26 سالہ کراچی کے رہائشی اور حال ہی میں فارغ التحصیل جہانزیب طاہر کو ٹینس کورٹ میں اس بازار سے متعلق آگاہی ملی۔

اس وقت ان کی تنخواہ محض 18 ہزار روپے تھی۔ انھوں نے ہچکچاتے ہوئے بہت چھوٹے پیمانے پر یہاں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن آج وہ اس سرمایہ کاری کو ’منافع بخش‘ قرار دیتے ہیں۔

یہ کیسا بازار ہے جہاں لالچ اور جلد بازی کے فیصلوں کے نتیجے میں آخر نقصان ہی ہوتا ہے لیکن سٹے بازی کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے، جہاں صبر کی اہمیت سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن متوسط طبقے اور معاشی امور سے نابلد افراد کے لیے جگہ بنانا بھی انتہائی مشکل ہے۔

یہاں بات بازارِ حصص یعنی پاکستان سٹاک مارکیٹ کی ہو رہی ہے۔

پاکستان میں رواں برس پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باوجود سٹاک مارکیٹ کی مثبت کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے اس میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔

عموماً پاکستان میں جب ایک نوجوان اپنی پہلی نوکری کا آغاز کرتا ہے تو اسے بچت کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے مختلف مشورے دیے جاتے ہیں۔

لیکن اکثر بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنا ان مشوروں میں شامل نہیں ہوتا۔ تو بازارِ حصص ہے کیا اور یہاں نوجوان کیسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟

خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔

ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے ؟

بی بی سی اردو  ، ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۱ء
ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے؟


آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔


اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟


اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی محفوظ ہے۔


بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں۔


حالیہ برسوں میں بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔


لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے 'دماغ' کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟

کرتی دوبے ، نامہ نگار، بی بی سی اردو 1 فروری 2023

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔

اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔

دنیا کے بڑے ممالک ضرورت کی اشیا دیگر ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے ’خود کفیل‘ ہونے کی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو ، ۳۰ جنوری ۲۰۲۳ء 

سنہ 1989 کے اواخر میں دیوار برلن کے گرنے اور تقریباً دو سال بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور عالمگیریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس نے عالمی معیشت کو ایک جدید شکل دی۔

لیکن 21ویں صدی میں مختلف بحرانوں نے اس ’گلوبل ویلج‘ کہلائے جانے والی دنیا کا امتحان لیا ہے۔

سنہ 2008 میں وال سٹریٹ سے شروع ہونے والا امریکی معاشی بحران جب پوری دنیا میں پھیل گیا تو اُس کے بعد کچھ لوگوں نے معیشت کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے فوائد پر سوال اٹھایا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا میں نریندر مودی جیسی نئی سیاسی شخصیات نے اپنی ضروریات خود پوری کرنے یعنی خود کفیل ہونے جیسے خیال کو ترجیح دینے کے عمل کو فروغ دینا شروع کیا اور یورپ میں برطانیہ نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین سے خود مختاری حاصل کر لی۔لیکن عالمگیریت کو سب سے زیادہ دھچکا کووڈ وبا سے لگا، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک نے نہ صرف اپنی سرحدیں بند کر دیں بلکہ ماسک سے لے کر ویکسین تک جو وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا تمام طبی آلات کی برآمد بھی روک دی تھی۔

امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر

بی بی سی اردو 

21 جنوری 2023ء 

 امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک

جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔

سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟

بی بی سی اردو 

19 جنوری 2023ء 

 دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟

گذشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا کہ قرضوں کے اس حجم کو سُن کر ہی آپ دنگ رہ جائیں گے اور بڑی بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رُکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔

جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اُس کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ قرضے کی یہ رقم دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔

مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکہ کے قرضوں کاحجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے مگر یہ رقم امریکہ کے ٹوٹل جی ڈی پی کے صرف 98 فیصد کے برابر ہے۔

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کی وجہ کیا ہے؟

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کے یہاں تک پہنچنے کا سفر چند سال کا نہیں بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھنے اور اخراجات پورا کرنے کی جدوجہد کی مد میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔

پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟

بی بی سی اردو | 13 جنوری 2023ء 

پیسے کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ہزاروں سال سے ادائیگی کا یہ واحد طریقہ ہے اور دولت کی پیمائش کا بھی۔ اسی سے وہ نظام جڑا ہے جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

کرنسی کی تاریخ
عالمی کرنسی کا تصور کیسے پیدا ہوا ؟

تاہم پیسے کی تاریخ اس کی تعریف کی طرح ہی متنازع ہے۔ فلسفی اور معاشی ماہرین اس پراسرار وقت کے بارے میں الگ الگ نظریے رکھتے ہیں جب پیسے کا نظام متعارف ہوا۔

تاہم ہزاروں سال قبل چاندی، مٹی کی چیزوں اور دیگر اشکال میں لین دین ہوا کرتا تھا حتی کہ ایک وقت آیا جب قدیم عراق میں دھاتی سکے پہلی بار متعارف کروائے گئے۔

اس کے کافی عرصہ بعد چین میں کاغذ کے نوٹ سامنے آئے جو اس لیے بنائے گئے کیوںکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔

اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔

بی بی سی منڈو پیسے کے جنم اور ارتقا کی تاریخ بتا رہا ہے جو انسانیت کے سفر کو سمجھنے کا اہم جزو ہے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

ڈبلیو ٹی او معاہدہ جس نے چین اور دنیا کی معاشی تقدیر بدل دی


فیصل اسلام، اکنامکس ایڈیٹر 
بى بى سى اردو،  11دسمبر 2021ء



2001 میں امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے اور اس کے نتائج ہی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے۔ لیکن اس حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا پر 9/11 کے اثرات سے بھی زیادہ بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر اس وقت زیادہ دھیان نہیں دیا گیا لیکن اس کے معاشی اور جغرافیائی اثرات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ یہی معاہدہ عالمی مالیاتی بحران کی جڑ بنا۔ اسی کی بنا پر صنعتی پیداوار سے جڑی نوکریاں چین کے حوالے کر دی گئیں جس نے مغربی دنیا خصوصاً جی سیون ممالک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا۔

اس وقت اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں، جن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی شامل تھے، کا ماننا تھا کہ 'جمہوریت کی سب سے مضبوط اقدار سمجھی جانے والی معاشی آزادی کی چین تک رسائی سے دنیا کے سب سے زیادہ آّبادی والے ملک میں سیاسی آزادی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔'