معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خوشی اور اس کا راز کیا ہے ؟

حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی: نئی تحقیق


بی بی سی اردو ، 12 دسمبر 2016

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے پتہ چلا کہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔

تحقیق کے شریک منصف کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے۔'
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔

سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔

ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے ؟

بی بی سی اردو  ، ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۱ء
ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے؟


آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔


اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟


اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی محفوظ ہے۔


بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں۔


حالیہ برسوں میں بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔


لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے 'دماغ' کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟

کرتی دوبے ، نامہ نگار، بی بی سی اردو 1 فروری 2023

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔

اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔

دنیا کے بڑے ممالک ضرورت کی اشیا دیگر ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے ’خود کفیل‘ ہونے کی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو ، ۳۰ جنوری ۲۰۲۳ء 

سنہ 1989 کے اواخر میں دیوار برلن کے گرنے اور تقریباً دو سال بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور عالمگیریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس نے عالمی معیشت کو ایک جدید شکل دی۔

لیکن 21ویں صدی میں مختلف بحرانوں نے اس ’گلوبل ویلج‘ کہلائے جانے والی دنیا کا امتحان لیا ہے۔

سنہ 2008 میں وال سٹریٹ سے شروع ہونے والا امریکی معاشی بحران جب پوری دنیا میں پھیل گیا تو اُس کے بعد کچھ لوگوں نے معیشت کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے فوائد پر سوال اٹھایا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا میں نریندر مودی جیسی نئی سیاسی شخصیات نے اپنی ضروریات خود پوری کرنے یعنی خود کفیل ہونے جیسے خیال کو ترجیح دینے کے عمل کو فروغ دینا شروع کیا اور یورپ میں برطانیہ نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین سے خود مختاری حاصل کر لی۔لیکن عالمگیریت کو سب سے زیادہ دھچکا کووڈ وبا سے لگا، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک نے نہ صرف اپنی سرحدیں بند کر دیں بلکہ ماسک سے لے کر ویکسین تک جو وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا تمام طبی آلات کی برآمد بھی روک دی تھی۔

امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر

بی بی سی اردو 

21 جنوری 2023ء 

 امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک

جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔

سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟

بی بی سی اردو 

19 جنوری 2023ء 

 دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہونے کے باوجود جاپان ڈیفالٹ کیوں نہیں کرتا؟

گذشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا کہ قرضوں کے اس حجم کو سُن کر ہی آپ دنگ رہ جائیں گے اور بڑی بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رُکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔

جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو اُس کے جی ڈی پی کا 266 فیصد ہے۔ قرضے کی یہ رقم دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔

مثلاً اگر جاپان کے مقابلے میں امریکہ کے قرضوں کاحجم دیکھا جائے تو یہ 31 کھرب ڈالر ہے مگر یہ رقم امریکہ کے ٹوٹل جی ڈی پی کے صرف 98 فیصد کے برابر ہے۔

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کی وجہ کیا ہے؟

قرضوں کے اتنے بڑے حجم کے یہاں تک پہنچنے کا سفر چند سال کا نہیں بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھنے اور اخراجات پورا کرنے کی جدوجہد کی مد میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔

کرنسی کی مختصر تاریخ اور عالمی کرنسی کا تصور کیسے پیدا ہوا ؟

بی بی سی اردو 
13 جنوری 2023ء 

پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟

پیسے کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ہزاروں سال سے ادائیگی کا یہ واحد طریقہ ہے اور دولت کی پیمائش کا بھی۔ اسی سے وہ نظام جڑا ہے جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
کرنسی کی تاریخ
عالمی کرنسی کا تصور کیسے پیدا ہوا ؟

تاہم پیسے کی تاریخ اس کی تعریف کی طرح ہی متنازع ہے۔ فلسفی اور معاشی ماہرین اس پراسرار وقت کے بارے میں الگ الگ نظریے رکھتے ہیں جب پیسے کا نظام متعارف ہوا۔

تاہم ہزاروں سال قبل چاندی، مٹی کی چیزوں اور دیگر اشکال میں لین دین ہوا کرتا تھا حتی کہ ایک وقت آیا جب قدیم عراق میں دھاتی سکے پہلی بار متعارف کروائے گئے۔

اس کے کافی عرصہ بعد چین میں کاغذ کے نوٹ سامنے آئے جو اس لیے بنائے گئے کیوںکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔

اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔

بی بی سی منڈو پیسے کے جنم اور ارتقا کی تاریخ بتا رہا ہے جو انسانیت کے سفر کو سمجھنے کا اہم جزو ہے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

ڈبلیو ٹی او معاہدہ جس نے چین اور دنیا کی معاشی تقدیر بدل دی


فیصل اسلام، اکنامکس ایڈیٹر 
بى بى سى اردو،  11دسمبر 2021ء



2001 میں امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملے اور اس کے نتائج ہی دنیا کی توجہ کا مرکز تھے۔ لیکن اس حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیا پر 9/11 کے اثرات سے بھی زیادہ بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

11 دسمبر 2001 کو پیش آنے والا یہ واقعہ اور اس کی تاریخ بھلائے جا چکے ہیں جس کے تحت چین کو عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن اس معاہدے نے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت تیل اوردھاتوں جیسے قیمتی وسائل سے مالا مال کسی بھی ملک کی معاشی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر اس وقت زیادہ دھیان نہیں دیا گیا لیکن اس کے معاشی اور جغرافیائی اثرات آج بھی سب کو یاد ہیں۔ یہی معاہدہ عالمی مالیاتی بحران کی جڑ بنا۔ اسی کی بنا پر صنعتی پیداوار سے جڑی نوکریاں چین کے حوالے کر دی گئیں جس نے مغربی دنیا خصوصاً جی سیون ممالک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا۔

اس وقت اس معاہدے کی حمایت کرنے والوں، جن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی شامل تھے، کا ماننا تھا کہ 'جمہوریت کی سب سے مضبوط اقدار سمجھی جانے والی معاشی آزادی کی چین تک رسائی سے دنیا کے سب سے زیادہ آّبادی والے ملک میں سیاسی آزادی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔'

بلیک فرائیڈے کيا ہے؟

نومبر 2008ء کو امريکہ ميں بليک فرائيڈے
 پر خريدارى کا منظر

کالا جمعہ یا بلیک فرائیڈے (انگریزی: Black Friday) سے مراد ریاست ہائے متحدہ میں یوم شکرانہ (نومبر کی چوتھی جمعرات) کے بعد آنے والا جمعہ ہے۔ 2000ء دہائی کے اوائل سے، ریاست ہائے متحدہ میں یہ دن کرسمس کی خریداری کرنے کے آغاز کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اس موقع پر، خریداری کے بیشتر مراکز صبح سویرے سے رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور خریداری کی اشیا پر خصوصی رعایت کی پیش کش بھی کرتے ہیں۔ بلیک فرائیڈے کو اگرچہ سرکاری تعطیل نہیں ہوتی، تاہم کیلیفورنیا اور بعض دیگر ریاستوں میں سرکاری ملازمین کسی دوسری وفاقی تعطیل (مثلاً یوم کولمبس) کے بدلے ’’یومِ شکرانہ سے اگلا دن‘‘ چھٹی کے طور پر مناتے ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں یومِ شکرانہ اور اس سے اگلے دن جمعہ کو بھی چھٹی ہوتی ہے، یوں وہ چار چھٹیوں پر مشتمل طویل ویکینڈ مناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خریداروں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے مصروف ترین دن بنتا جا رہا ہے۔

2014ء میں، بلیک فرائیڈے کے چار تعطیلات پر مشتمل ویکینڈ میں خریداری پر 50.9 بلین ڈالر خرچ کیے گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فی صد کم تھے۔ جب کہ اس عرصے کے دوران، ریاست ہائے متحدہ کے 133 ملین صارفین نے خریداری کی، جو پچھلے سال کے 144 ملین کے مقابلے میں 5.2 فی صد کم تھے۰

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟
 سونا (Gold) ایک عنصر اور دھات کا نام ہے۔ جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے انتہائی مہنگا ہے۔ اس کا ایٹمی نمبر 79 ہے۔ قیمتی دھات ہونے کی وجہ سے یہ صدیوں سے روپے پیسے کے بدل کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ دولت کی علامت ہے، اس کے سکے بنائے جاتے ہیں، زیورات میں استعمال ہوتا ہے، یہ چٹانوں میں ذروں یا پتھروں جیسی شکل میں ملتا ہے، یہ نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

زیادہ تر دھاتیں چاندی یا ایلومینیئم کی طرح سفید ہوتی ہیں لیکن صرف سونے اور سیزیئم کا رنگ نمایاں پیلا ہوتا ہے جبکہ تانبا واضح گلابی رنگ کا ہوتا ہے۔

خالص سونا بے حد نرم دھات ہے جس سے بنے زیور بڑی آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے سونے میں کوئی دوسری دھات ملائی جاتی ہے تاکہ زیورات پائیدار ہوں۔ سونے میں دوسری دھاتیں ملانے سے سونے کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور زیورات کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔

کرنسی نوٹ اور اس کا تاریخی پس منظر

 کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔

ابراهیم بن اغلب (800ء-812ء) اور عباسی
خلیفہ مامون الرشید (813ء-832ء)
کے دور کا چاندی کا درہم۔

ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔  مذہب کی طرح کرنسی بھی انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن مذہب کے برعکس کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔ مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائی ) خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔

آغا حسن عابدی : ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کرنے کا خواب اور اس کا انجام

مضمون نگار : عقیل عباس جعفری ،  محقق و مورخ، کراچی 
 اشاعت : بی بی سی اردو 5 اگست 2020 

آغا حسن عابدی 
آغا حسن عابدی: بی سی سی آئی کی بنیاد رکھنے والے پاکستانی بینکار جن پر ایٹمی پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کی معاونت کا الزام لگایا گیا ۔ 

لکھنؤ یونیورسٹی میں آغا حسن عابدی کے سب سے قریبی دوست عبادت یار خان تھے، جو ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے معروف ہوئے۔ وہ اپنی کتاب 'غزالان رعنا' میں آغا حسن عابدی کا ایک بہت خوبصورت خاکہ لکھتے ہیں:

آغا حسن عابدی لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔

ایک دن آغا حسن عابدی نے عبادت بریلوی سے کہا 'نہ میں لیکچرر شپ کرسکتا ہوں، نہ وکالت، دونوں پیشے میرے مزاج کے نہیں۔ سوچتا ہوں محمود آباد اسٹیٹ میں ،جہاں میرے والد ملازم ہیں ،کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لوں۔‘

عبادت بریلوی نے ان سے کہا 'اتنا پڑھ لکھ کر محمود آباد ریاست کی ملازمت تمہارے شایان شان نہیں ہوگی۔ ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے۔ حبیب بینک نیا نیا کھلا ہے، یہ مسلمانوں کا بینک ہے۔ اگر راجہ صاحب محمود آباد، حبیب سیٹھ کو سفارشی خط لکھ دیں گے تو اس بینک میں تمہیں آفیسر کی جگہ مل جائے گی۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اس کے لیے تمہیں بمبئی جانا ہو گا، لکھنؤ سے باہر رہنا ہو گا۔'

آغا حسن عابدی نے کہا 'یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں بینک کی ملازمت کروں گا! تم میرے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یہ ملازمت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

عبادت بریلوی نے کہا 'میاں صاحبزادے! حالات بہت سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، مجھے تو صرف یہی دروازہ کھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ راجہ صاحب سے حبیب سیٹھ کے نام خط لکھوالو اور چپ چاپ بمبئی چلے جاؤ۔ اس ملازمت میں آئندہ ترقی کے امکانات بہت ہیں۔‘
آغا حسن عابدی کو عبادت بریلوی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی، لیکن وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: 'بالآخر انھوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حبیب سیٹھ کو خط لکھنے کی درخواست کی۔ راجہ صاحب نہایت شریف انسان تھے۔ انھوں نے آغا حسن عابدی کے لیے خط لکھ دیا اور کہا کہ 'یہ خط لے کر آپ بمبئی چلے جائیے، انشااللہ کام ہو جائے گا۔'

'باندھ دینے والی بیماری': 3200 سال پرانی وبا جس نے قدیم مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں مٹا دیں

ایڈون سمتھ پاپیرس جسے دنیا کی قدیم ترین طبی تحریر مانا جاتا ہے
سید عرفان مزمل ،  محقق و مؤرخ (1)

( تاریخ اشاعت : 25 مئ 2020م ، بی بی سی اردو )
----------------------------------------------------

وہ علاقہ جو اب مشرق وسطیٰ کہلایا جاتا ہے، وہاں آج سے تقریباً 3200 سال قبل ایک خوفناک تباہی آئی۔

اس تباہی نے اس خطے کی تمام معروف ریاستوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا جن میں بابل (موجودہ دور میں جنوبی عراق)، اشور (موجودہ دور میں شمالی عراق)، مصر، ہٹوسا (موجودہ دور میں مشرقی ترکی) اور قبرص سمیت کئی علاقے شامل تھے۔

یہ ریاستیں یا تو کرہ ارض سے مٹ گئیں یا پھر ایک ایسے تاریک دور سے گزریں جو کئی صدیوں تک ان پر سیاہی کی چادر تانے رہا۔ اس تباہی کو آج ہم ’برونز ایج کولیپس‘ یعنی تانبے کے دور کے خاتمے کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔

اور اس تباہی کے پیچھے جنگ، قحط، سیلاب اور دیگر فطری وجوہات کے علاوہ سب سے اہم وجہ ایک عالمی وبا تھی۔
اگرچہ ڈی این اے سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی امراض سے انسانوں کا سب سے پہلا سامنا تقریباً 75 ہزار سل قبل افریقہ کے جنگلات میں ہوا تھا مگر یہ پہلا موقع تھا جب ایسے کسی مرض نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیا کو کیسے بدلا ؟

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیاکو کیسے بدلا ؟ 
(تاریخ اشاعت : 23 مئی 2020 ، بی بی سی اردو ) 
اس دنیا کی مصالحوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک نے تجارت کے وہ راستے کھولے جو آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تجارت نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اس کے اثرات عالمی معیشت پر بھی پڑے۔

تقریباً 2500 سال قبل عرب تاجر ایک خطرناک دارچینی پرندے کی کہانی سناتے تھے جسے سنامولوگس بھی کہا جاتا تھا۔

یہ پرندہ دارچینی کی نازک ڈنڈیوں سے اپنا گھونسلہ بناتا تھا۔ اس سے دارچینی کی ڈنڈیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاجر اس کے سامنے گوشت کے بڑے پارچے ڈالتے تھے، چڑیاں یہ ٹکڑے اٹھا کر اپنے گھونسلے میں لے جاتیں اور ان کے وزن سے گھونسلہ ٹوٹ کر نیچے گر جاتا تھا اور چالاک تاجر گھونسلے سے گری دارچینی اٹھ کر بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔

کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں، طبی ، سماجی سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ (بی بی سی اردو )

کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں اور سیاسی حالات 

( 26 مارچ 2020 بی بی سی اردو )

سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔

"سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے ".عالمی تنظیم اوکسفیم کی رپورٹ

(روزنامہ ایکسپریس 24جنوری 2020)
سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے -
عالمی تنظیم اوکسفیم کی رپورٹ

 پوری دنیا میں دولت کی عدم تقسیم خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے اس وقت 2153 ارب پتی افراد کے پاس دنیا کے ساڑھے چار ارب افراد کی مجموعی دولت سے زیادہ اثاثے موجود ہیں۔

بین الاقوامی فلاحی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں عالمی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ بالخصوص انتہائی غریب اور کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کا بوجھ کم کرنے کی پالیسیاں بنائیں، تنظیم نے امیروں پر مزید ٹیکس لگانے اور غریبوں بالخصوص بچوں کی خوراک اور صحت پر خرچ کرنے کی سفارشات کی ہیں۔

سوئزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم سے قبل یہ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے چیدہ نکات چونکادینے والے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:

1 : دنیا کے ایک فیصد انتہائی امیر ترین لوگوں کے پاس 6 ارب 90 کروڑ افراد کی دولت سے زیادہ مجموعی اثاثے اور دولت موجود ہے۔

میوزیم آف دی فیوچر ، دبئی ، متحدہ عرب امارات

میوزیم آف فیوچر ،  دبئی 

میوزیم آف دی فیوچر: دبئی میں ’مستقبل کے عجائب گھر‘ کی انوکھی عمارت میں کیا دکھایا جائے گا؟


دبئی میں جہاں راتوں راتوں بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دی جاتی ہیں وہاں لوگ اب ان عمارتوں پر نگاہ تک نہیں ڈالتے۔

لیکن یہاں ایک ایسا زیرِ تعمیر منصوبہ بھی ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ ہے میوزیم آف دی فیوچر یا مستقبل کا عجائب گھر، جو ستونوں کے اوپر ڈرائیور کے بغیر چلنے والی میٹرو کے لیے بنائے گئے ٹریک پر بنایا جا رہا اور یہ شہر کے مالیاتی مرکز کے قریب ہے۔

عجائب گھر کا ڈھانچہ 2400 ترچھے ایک دوسرے سے جڑے سٹیل کے ستونوں سے بنایا گیا جو نومبر 2018 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اب اس کے بیرونی حصے کے پینلز کو جوڑا جا رہا ہے۔ دبئی میں 20 اکتوبر 2020 میں ’ورلڈ ایکسپو‘ یا عالمی نمائش کے انعقاد کے موقع پر اس عجائب گھر کا افتتاح کر دیا جائے گا۔

تعمیراتی ماہرین اس عجائب گھر کی جدید طرز پر مبنی ہیئت کو ’ٹورس‘ کہتے ہیں۔ ٹورس کسی ڈونٹ کی طرح ایک پھولا ہوا دائرہ ہوتا ہے جو بیچ میں سے خالی ہوتا ہے، لیکن اس کو اگر ’ہولا ہوپ‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

عالمی اُفق پر منڈلاتا معاشی بحران؟ ۔ وقار مسعود خان

گذشتہ تین عشروں کے دوران میں عالمی معاشی نظام وقفہ وقفہ سے بحران کا شکار ہوتا رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بحران ۲۰ویں صدی کے شروع میں آیا تھا، جس نے دنیا کی تقریباً تمام معیشتوں کو بے پناہ مصیبتوں سے دوچار کردیا تھا۔ دو عالمی جنگوں نے بھی اس بحرانی کیفیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ان جنگوں کے بعد دنیا میں معاشی استحکام اور ترقی کا ایک طویل دور بھی آیا، جہاں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہوا، اور دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہوا۔
اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ معاشی بحران کیوںکر پیدا ہوتے ہیں اور، چند بڑے بحرانوں کا تذکرہ کرکے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ماہرین کی راے میں اگلا بحران کب متوقع ہے؟ علاوہ ازیں پاکستان جیسے ملک پراس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

معاشی بحران کے محرکات

ان بحرانوں کی اصل وجہ مالی نظام اور اس سے وابستہ محرکات ہیں، جو احساسات اور نفسیات سے ترکیب پاتے ہیں۔ اس مالی نظام کی تنظیم ایسے عناصر پر مبنی ہے جو ’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘ کے مصداق مکروہ ترغیبات دے کر، اس میں ناگزیرعدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ جدید معاشی نظام ایک ایسے نظامِ زر پر مبنی ہے، جہاں زر کی رسد اور پھیلاؤ پر کسی مقتدر ریاستی ادارے کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہے۔ بظاہر زر [یعنی نوٹوں]کی اشاعت مرکزی بنک ایک قانون کے تحت کرتا ہے۔ لیکن ایک مخصوص شائع شدہ مقدار جاری ہونے کے بعد جب وہ رسد کسی کے ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کو بنک میں رکھواتا ہے۔

عالمی کرنسی وار ( حصہ اول )

خالد گورایا 

روزنامہ ایکسپریس ، 6 ستمبر 2018 

نومبر 1999ء سے لے کر جون 2005ء تک کے دوران راقم اپنے طور پر یہ چیلنج قبول کرچکا تھا اگرچہ 4 نومبر سے 6 نومبر 1999ء تک اپنے ساتھ گزرے راولپنڈی کے واقعات کو بھول کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ملک پر انگریزی بیورو کریسی، جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو صرف اور صرف امریکی مفاد پر قربان کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف بھی وہی کچھ کرنے جا رہا تھا۔ جس کا خطرہ میں بھانپ چکا تھا۔

6 نومبر 1999ء کو میں نے راولپنڈی میں اپنے خدشات کا بھرپور انداز میں اظہار بھی کردیا تھا کہ پاکستان کو مزید تباہی سے دوچار نہ کیا جائے۔ جی ہاں، سب کو یاد ہے کہ نواز شریف جب عمرہ کرنے گئے تھے تو پرویز مشرف بھی وفد میں شامل تھے۔ اس وقت یہ فل جنرل نہیں تھے۔ عمرے سے واپسی کے بعد پرویز مشرف کو دیگر سینئر جنرلوں کو نظرانداز کرکے چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا گیا اور جب پرویز مشرف حکومت پر قابض ہوگیا تو امریکا نے نائن الیون کروا کر الزام جہادیوں پر لگا کر پرویز مشرف جو امریکی آلہ کار تھا اسے استعمال کرکے پاکستانی ہوائی اڈوں سے افغانستان پر حملے شروع کردیے۔

اس کے بعد طالبان نے پاکستان میں پناہ گاہیں بنانی شروع کردیں۔ امریکا کا مفاد وسائل تک رسائی اور سابقہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد آزاد ملکوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ ان ملکوں کو ڈالرائز کرکے معاشی غلامی میں جکڑنا تھا۔ امریکا کا ساتھ دے کر آج تک پورے ملک کے عوام اور افواج قربانیاں دے رہے ہیں۔ 75 ہزار کے قریب تمام پاکستانی امریکی مفاد کے لیے جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں، امریکا اب بھی بھارت کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ بھارتی جارحیت کے باوجود امریکا خاموش کیوں ہے؟ راقم 1973ء سے ملکی معاشی آزادی کی بات اور آواز بلند کرتا آرہا ہے۔