گوشۂ مولانا عبد الماجد دریابادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ مولانا عبد الماجد دریابادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ 
عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔ 
انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔

مولانا عبد الماجد دریابادی کی تصنیفات

عبد الماجد دریابادی کی تصنیفات 
Maktaba-e-Firdaus Lucknow
1989

Maktaba-e-Firdaus Lucknow
1978

Idara Tasnif-o-Tahqiq, Pakistan
1986


یوم النبی ﷺ کا ایک نشریہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

گوشہ عبد الماجد دریابادیبارہویں تاریخ مارچ ۶۲۴ عیسوی کی ہے اور بارہویں تاریخ ماہ رمضان ۲ ھ کی بھی ،کہ مدینہ سے ایک قافلہ ایک بڑی مہم پر ایک بڑے میدان کی طرف رواں ہے۔فاصلہ کچھ ایسا کم نہیں کوئی چار منزل۔ قافلہ میں آدمی تین سو سے اوپر اور اونٹ کُل سو ۔نتیجہ ہے کہ ایک ایک اونٹ کے حصہ دار تین تین ،اور سوار ہونا تو ایک وقت میں دوہی کے لیے ممکن تھا۔ اس لیے ایک ساتھی کو تولا محالہ پیدل ہی چلنا پڑتا۔۔۔۔۔۔اور یہی صورت قافلہ کے سردار کے لیے بھی ۔یہ صاحب اڈھیڑ عمر کے ۔یہی کوئی ۵۳ یا ۵۴ سال کی عمر کے ۔دونوں ساتھی سِن میں چھوٹے ۔دونوں ادب کے ساتھ اور جذبہ اطاعت و وفاداری کے ساتھ عرض کرتے ہے کہ محترم سردار!ہم اپنی باری بخوشی بخشتے ہیں۔ہم لوگ پیدل بآسانی چل لینگے ۔ہمارے بجائے آپ ہی سواری پر تشریف رکھیں۔

خلوص سے بھری ہوئی درخواست فدائیوں کی طرف سے تھی جو سِن میں بھی چھوٹے تھے ۔ مگر سنئے کے محترم آقا کی طرف سے جواب کیا ملتا ہے ۔ہمارے آپکے لفظوں میں یہ کہ

تم دونوں کچھ مچھ سے زیادہ قوی تو ہو نہیں(پیدل جیسے تم چل سکتے ہو،میں بھی چل سکتا ہوں )اور رہا وہ اجر جو پیدل چلنے کی مشقت سے حاصل ہوتا ہے ،تو اسکے بھی حاجت مند جیسے تم ویسے میں‘‘۔

جو اب آپ نے سن لیا ؟

مسلمان کون؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمان کون ہے؟ خدا کا قانون بتاتاہے کہ وہی جو سارے جہانوں کے رب کا کہنا مانے۔ کام تو یہ کچھ بڑا اور کٹھن نہیں ہے، پر دیکھو اور دل کو ٹٹولو تو جان جاؤ گے کہ رب کاکہنا ماننے والے کتنے ہیں اور نہ ماننے ولے کتنے۔ مگر جو کہنا مانتے ہیں وہ بھی مسلمان کہتے جاتے ہیں اور جو نہیں مانتے لوگ ان کو بھی مسلمان ہی جانتے ہیں۔شاید رب کا کہنا ماننے کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا۔

رب کا کہنا ماننے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ رب نے جو قانون بھیجا ہے اس کے موافق سب کام کئے جائں۔ بات تو یہ بھی بڑی سہل ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ لوگ اپنے رب کے قانون کو اٹھاکر دیکھے ہی نہیں۔ اور بنتے ہیں بڑے پکے مسلمان۔ اگر تمہارے ماں باپ ، دادادادی ، نانا نانی، میں سے کوئی مسلمان تھا اور اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے تم بھی مردم شماری میں مسلمان لکھ دئیے گئے ، نام بھی تمہارا مسلمانوں کاساہے، اور دنیا تم کو کہتی بھی مسلمان ہے، تو کیا تم سچ مچ مسلمان ہوگئے؟نہیں۔ لوہار کا بیٹا یا پوتا کہاجاتاہے لوہار ہی، مگر جب تک وہ ہتوڑا چلانا نہیں سیکھتا لوہار نہیں ہوتا۔ سنار، بڑھئی، دھوبی، نائی، قصائی، سب کا یہی حال ہے۔ پھر کوئی مسلمان کیسے ہوسکتاہے اگر اپنے رب کا کہا نہ مانے۔ اور رب کا کہا وہی مان سکتاہے جو اس کے حکم کو بجائے۔ اور حکم اس کا لکھا ہے اس کے قانون یعنی قرآن میں۔ تو جو مسلمان کہاجاتاہے اس کو چاہئے کہ قرآن پڑھے۔ اور جو آپ نہیں پڑھ سکتا وہ کسی سے پڑھوا کرسنے۔ جیسے کسی کے پاس کوئی چٹھی پتر آئے اور وہ پڑھنا نہ جانتاہو تو کسی پڑھے لکھے کے پاس جاکر پڑھوالیتاہے ، ویسے ہی اگر خدا کی بھیجی ہوئی چٹھی کوئی آپ نہیں پڑھ سکتا تو کسی سے پڑھوا کر سنے۔ اور جو اس میں لکھاہے اس کے موافق کرے۔ کہ یہی مسلمان کی پہچان ہے۔

میلادی روایات۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

میلادی روایات - عبد الماجد دریابادی 
بعض پچھلے نمبروں میں بہ ذیل مراسلات، میلادی روایات کی صحت پر گفتگو آچکی ہے، آج کی صحبت میں پھر اس پر ایک نظرکرنا ہے۔

کلام مجید میں ذکر متعدد انبیاء کرام کا آتا ہے، لیکن صرف چند انبیاء کرام اور ان کے متعلقین ہیں، جن کی پیدائش یا ولادت کا ذکر آیا ہے۔ اس مختصرفہرست میں سب سے پہلے نام حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ آپ کی پیدائش خوارق عادات ایک مجموعہ تھی، اور فطرت کے عام دستور کے بالکل مخالف ہوئی۔ اوّل تو آپ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا گیا، پھر فرشتوں سے آپ کی تعظیم کرائی گئی، اور جس مخلوق نے آپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ہوگیا۔

آپ کو تمام اسماء کا علم کرادیا گیا، آپ کی پیدائش سے قبل فرشتوں سے خاص طور پر گفتگو فرمائی گئی اور پیدائش کے بعد ہی فرشتوں کے علم کا آپ کے علم کے مقابلہ میں امتحان لیا گیا، جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا سلسلہ واقعات عام انسانوں کی پیدائش کے قبل و بعد وجود میں لاتے رہنے کا دستور نہیں۔ زوج آدم علیہ السلام حضرت حوّا کی پیدائش کے بابت کوئی تصریح کلام مجید میں وارد نہیں، لیکن اس قدر ہے کہ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا (اسی نفس واحد، یعنی آدم علیہ السلام سے اس کے زوج کو پیدا کیا) اور اکثر مفسرین مثلًا امام ابن جریر، حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی وغیرہم نے قتادہؓ، سدیّ و ابن عباسؓ کے حوالہ دے کر یہ معنی لکھے ہیں، کہ آپ کی پیدائش فطرت معنی بالکل صحیح ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنا اشارہ تو کلام مجید سے بھی ہوتا ہے، کہ آپ کی پیدائش فطرت کے عام دستور سے ہٹ کر کسی اور طریق پر ہوئی تھی۔

ناک کا داغ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ناک کا داغ -  عبدالماجد دریابادی 

ناک کا داغ

نظام عالم کو قائم کیے ہوئےبے شمار مدّت گزر چکی ہے، دنیا اپنی انھیں نیرنگیوں اور بوقلمونیوں کے ساتھ ایک بے حساب زمانہ سے آباد ہے، نامی گرامی حکماء پیدا ہوچکے ہیں ، نامور کشور کشا گزر چکے ہیں ، یہ سب کچھ ہے، لیکن ’’علم‘‘اور ’’تمدن‘‘ کا جو مفہوم سمجھا جارہا ہے۔ اس سے انسانی دماغ ابھی تک ناآشنا ہے۔ دنیا مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے، اور زمین مختلف اقلیموں میں پھٹی ہوئی ہے، ہرقوم دوسری سے بے گانہ، ہر ملک دوسرے سے اجنبی۔ آمد و رفت کے وسائل محدود، رسائل کے ذرائع دشوار، بین الاقوامی تعلقات بمنزلہ صفر۔لکھے پڑھے ہوؤں کی تعداد ہر ملک میں قلیل۔ کتابوں کی یہ فراوانی جو آج ہے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ۔ گویا ہر ملک دوسرے ملکوں سے بے نیاز و بے تعلق بجائے خود ایک مستقل عالم تھا، اسی لئے قدرتا ہر ملک کے لیے ایک جداگانہ ہادی، اور ہر قوم کے لیے ایک علیحدہ داعی۔

لیکن اب محاسب قدرت کے اندازہ میں وہ وقت آجاتا ہے، جب ہر ملک کے ڈانڈے دوسرے سے مل کر رہیں گے، ہر قوم دوسری قوم سے تعلقات پیدا کرے گی، بے گانگی و بے تعلقی کی جگہ ایک سخت قسم کی دوستی یا دشمنی لے گی۔ کلوں کی ایجاد دور دراز سفر کو آسان کردے گی۔ آلات کی مدد سے مشرق کی خبر، دم کی دم میں مغرب تک پہونچ جائے گی، چھاپہ کی کلیں نقوش کاغذی کے خزانے اگلنے لگیں گی، اور کتابوں کے لکھنے والوں کی تعداد شاید پڑھنے والوں سے بھی بڑھ کر رہے گی!

غلطیوں کا ازالہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمانوں کی جنتری میں اس مبار ک مہینہ کا نام شعبانؔ ہے۔ اسے مبارک اس لئے کہاگیاہے ، کہ رسول خدا ﷺ نے اسے ایک خاص عبادت، روزہ کے لئے چن لیاتھا۔ صحیح حدیثوں میں اس مہینے کے روزوں کی بڑی فضیلتیں اور برکتیں وارد ہوئی ہیں۔ اور بعض میں آیاہے ، کہ بعد رمضان کے فرض روزوں کے، رسول خداﷺ جس ماہ میں سب سے زیادہ روزہ رکھتے تھے، وہ یہی ماہ شعبان ہے۔ اسی ماہ کے وسط میں ایک رات ایسی آتی ہے، جس کی بابت یہ روایت آئی ہے ، کہ آپ اس میں اٹھ کر قبرستان تشریف لے جاتے، اور مُردہ مسلمانوں کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے تھے۔

غلطیوں کا ازالہ - عبد الماجد دریابادی 
یہ عمل تھا رسول خداؐ کا۔ یہ تعلیم تھی ہمارے سب سے بڑے پیشواکی۔ لیکن آج اس رسولؐ کی امت کا، اس کے نام کا کلمہ پڑھنے والوںکا، اس کی محبت کے دعویداروں کا کیا حال ہے؟ کتنے مسلمان ایسے ہیں ، جو اس ماہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے دن بھر کھانے پینے ، اور دیگر خواہشات نفس سے اپنے تئیں روکے رہتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں، جو اپنے اوردوسرے مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر واستغفار کرتے رہتے ہیں؟ یہ بھی نہ سہی ، تو کتنے ایسے ہیں، جو اس مہینے میں اپنا روپیہ آگ میں پھونکنے، آتشبازی دیکھنے، اور حلوے وغیرہ میں اسراف کرنے سے باز رہتے ہیں؟ کیا رسول خدا ﷺ ۱۴؍شعبان کے دن حلوہ نوش فرماتے اور اس کی تقسیم میں صرف فرماتے؟ کیا صحابۂ کرام (نعوذ باللہ) یہ رات آتشبازی کے تماشوں میں بسر کرتے تھے؟ کیا اسلام نے اس نادانی کو، ان فضولیات کو، اس اسراف کو کسی صورت میں بھی جائز رکھاہے؟ کیا ائمہ فقہ، واکابر طریقت کی کسی تعلیم سے ’’شبرات‘‘ کی موجودہ رسموں کی تائید میں کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟

ماہ رجب کی رسومات ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ماہ رجب کی رسومات - عبد الماجد دریابادی 
اسلامی دنیا میں یہ مہینہ رجب کے نام سے موسوم ہے ، ایک ضعیف روایت یہ پھیلی ہوئی ہے کہ رسول خدا ﷺ کی معراج مبارک اسی مہینہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے مسلمان اس روایت کو مان کر ، اس مہینہ میں طرح طرح کی خوشی کرتے ، اور بہت سی رسمیں بجا لاتے ہیں۔ اول تو یہ روایت ہی ثبوت کو نہیں پہنچی ہے، لیکن جو لوگ اس کے ماننے ہی پر زور دے رہے ہیں ، ذرا وہ اپنے دل میں سوچیں، کہ اس کے ماننے کے بعد خوشی منانے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے۔ آیا وہی جس کے وہ عادی ہیں ، یا کچھ اور ! ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منانے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کربیٹھیں ، جوہمارے رسولؐ کا ناپسند کیا ہوا، اور ہمارے خدا کی ناخوشی کا باعث ہو۔

خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں بعض ناچ دیکھتی ہیں،بعض آتشبازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں۔ لیکن مسلمان کاکام تو یہ نہیں، کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے، اس لئے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لئے منع کردیا ہے۔ دنیا کاتجربہ بھی یہی بتاتاہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لئے ہوجاتی ہے لیکن بعد کو رنج وتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنا ناسمجھ تو نہ ہونا چاہئے ، کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں، اور وہ خود دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے ، اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔

ولادت باسعادت۔ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ولادت باسعادت - عبد الماجد دریابادی
آگے کچھ سننے سنانے سے قبل ذہن کے سامنے نقشہ، تاریخ کی بڑی بڑی ضخیم کتابوں کی مدد سے چھٹی صدی عیسوی کے آخر اور ساتویں صدی عیسوی کے شروع کی دنیا کی زبردست اور نامور طاقتیں اس وقت دو تھیں، جن کے نام سے سب تھراتے تھے اور جن کا لوہا مشرق و مغرب مانے ہوئے تھے۔ مغرب میں رومن امپائر یا شہنشاہی روم اور مشرق میں پرشین امپائر یا شہنشاہی ایران۔ دونوں بڑی بڑی فوجوں اور لشکروں کے مالک، دونوں میں زر و دولت کی افراط اور دونوں تمدن عروج پر۔لیکن دونوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ۔عیش و عشرت نے مردانگی کی جڑ یں کھوکھلی کر ڈالی تھیں اور روح و قلب کے روگ ہر قسم کے پھیلے ہوئے۔ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا۔توحید کا چراغ گویا بالکل بجھا ہوا اور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا۔ تفصیل کا وقت کہاں، ورنہ ہندوستان، چین، مصر وغیرہ ایک ایک ملک کا نام لے کر اس وقت کے اخلاقی زوال کی تصویر آپ کے سامنے پیش کردی جاتی۔

’رحمۃ للعالمین۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

 رحمۃ للعالمین - عبد الماجد دریابادی 
میں شہادت دیتا ہوں کہ انسان بھائی بھائی ہیں‘‘۔

جس کے منھ سے یہ سندربول نکلے تھے ، آج اس کی پیدائش کا دن ہے۔اسی نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا تھا۔بتایا تھاکہ نسل کی ،جلد کی ،رنگ کی یاد وطنی تقسیم کی بناء پر کسی سے جنگ کرنا یا کسی کوحقیر اور ذلیل سمجھنا حماقت ہے۔یہ ساری چیزیں غیر اختیاری ہیں ۔انسان کے کردار کا ،اس کے کردار کا ،اس کے شرف اور عظمت کا ان سے کیا سردکار ۔اور اسی نے آکر یہ منادی کی تھی کہ :

الخلق عیال اللہ

مخلوق تو ساری ،اللہ کا کنبہ ہے۔

فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ

تو مخلوق میں،اللہ کی نظر میں محبوب ترین وہی ہے جو اپنے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک سے پیش آئے۔

مہر و محبت کے اس پیامبر کو ،شفقت و الفت ،ہمدردی و انسانیت کے اس سچّے پیام رساںکو ’’رحمت عالم،،نہ کہئے تو آخر کہئے کیا؟

حق آپ کا رفیق وساتھی کب بنے گا ؟ ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

حق آپ کا رفیق و ساتھی کب بنے گا ؟ 
عبد الماجد دریابادی 
اگر آپ اپنے تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں، تو اس لفظ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے۔ مسلمان وہ ہے جو خداکا، اور صرف خداکا فرماں بردارہو۔ کسی مسلمان کے گھر میں پیداہوجانے ، یا مسلمانوں کا سا نام رکھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا۔ خدا کے حکم وہ ہیں، جو قرآن پاک کے ذریعہ سے ہم تک پہونچے ہیں، اور جن کو پوری طرح برت کر رسول خداﷺ نے اپنی زندگی میں دکھادیا۔ پس مسلمان وہی ہے جو خدا کے بتائے ہوئے رستہ پر چلے، اور اس کے جاننے کے ذریعے صرف دوہیں۔ ایک قرآن پاک کے الفاظ، دوسرے رسولؐ کا عمل۔ اپنی زندگی کی ہر بات کو اسی معیار پر پرکھئے، اسی میزان پر تولئے، اور اسی روشنی میں جانچئے۔ پر یہ کیسے اچننھے کی بات ہے ، کہ آپ مسلمان کہلاتے ہیں ، لیکن بجائے خدا سے ڈرنے کے انسانی حکومتوں سے ڈرتے ہیں، انسان کے بنائے ہوئے قاعدے قانون سے لرزتے ہیں، اپنے بھائی بندوں کی ریت رسم کے خلاف زبان کھولتے ہوئے خوف کھاتے ہیں، اور اپنی ذات برادری کے دباؤ سے اپنے آپ کو کچلے ڈالتے ہیں! آپ خوب سمجھ چکے ہیں، کہ آپ کے خدا کو فضول خرچی ناپسند ہے، لیکن یہ سمجھ کر بھی آپ، لوگوں کی واہ واہ کی خاطر اپنی کتنی دولت بے کار کاموں میں اڑاڈالتے ہیں! آپ اچھی طرح جانتے ہیں ، کہ شب برات میں آتشبازی چھُڑانا ، محرم میں تعزیہ داری کرنا، شادی بیاہ میں دھوم دھام کرنا، یہ سب چیزیں آپ کے پاک مذہب میں ناجائز اور خدا کی ناخوشی کا باعث ہیں، لیکن آپ یہ سب کچھ جاننے پر بھی خاموش رہتے ہیں، اور اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو ہوتے دیکھتے ہیں، محض اس خوف سے کہ لوگ آپ کو ’’وہابی ‘‘یا ایسے ہی کسی دوسرے لقب سے نہ یاد کرنے لگیں ۔ 

شب برات کی بدعتیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

شب برات کی بدعتیں - عبد الماجد دریابادی
شب برات آگئی۔ گھر گھر حلوے کے سامان ہورہے ہوں گے اور جن کے پاس روپیہ نہ ہوگا ، وہ قرض لے کر اس کی فکر کررہے ہوں گے۔ میدہ، گھی، شکر، وغیرہ کی خریداری دل کھول کر ہورہی ہوگی۔ آتشبازی الگ بڑے پیمانہ پر تیار ہورہی ہوگی۔ آتشباز خوش ہورہے ہوں گے، کہ ابکی انار، پھلجھڑی، پٹاخے، چھچھوندر، کی خوب بکری ہوگی۔ یہ تیاریاں کہاں ہورہی ہوں گی؟ ان کے ہاں جو اپنے تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھتے ہیں، جن کے لئے خدا نے اسراف کو حرام قراردیاہے، جن کے رسول کی زندگی کا دامن اس قسم کے تمام لغویات سے یکسر پاک ہے، اور جن کے عقائد میں شب برات کے یہ تمام مراسم جواز کا کوئی پہلو ہی نہیں رکھتے۔

کتنے مسلمان ہیں ، جو حج نہ کرنے کا عذر اپنی ناداری کو بتاتے ہیں، جو زکوۃ نہ ادا کرنے کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں ، کہ ضروریات زندگی سے اتنی رقم بچنے ہی نہیں پاتی، اور جو اپنے عزیزوں میں ترکہ کی شرعی حیثیت تقسیم بھی محض اسی خوف سے نہیں کرتے کہ خود مفلس رہ جائیں گے۔ ان سے جب کہا جاتاہے کہ اپنی قوم کے یتیموں ، مسکینوں اور اپاہجوں کی بسراوقات کا انتظام کرو، تو مفلسی کا عذر پیش کیاجاتاہے ۔ جب کہاجاتا ہے کہ اپنی قوم کی تعلیم وتنظیم کے لئے سرمایہ جمع کرو، تو پھر ناداری ہی کے عذر کو دوہرایا جاتاہے۔ جب کہاجاتاہے کہ تحفظِ اسلام کے لئے مالی امداد کی ضرورت ہے تو ایک بار پھر عذرِ افلاس ہی کو پیش کرکے اپنے تئیں بچایاجاتاہے، لیکن شب برات کے آتے ہی اسی مفلس قوم کے مفلس اشخاص یک بیک زردار ہوجاتے ہیں ، ہر گھر میں حلوا تیار ہونے لگتاہے، ہر گھرمیں آتشبازی چھوٹنے لگتی ہے، اور ہر گھر میں یہ تہوار پوری چہل پہل اور صورت جشن پیدا کردیتاہے۔

یتیموں کا والی غلاموں کا مولی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

یتیموں کا والی غلاموں کا مولا -
عبد الماجد دریدبادی
تاریخ کے راوی کا بیان ہے کہ جون ۶۳۲ء کی چھ اور ربیع الاول۱۱ھ کی غالبًا ۱۳ تاریخ تھی ۔جب دنیا میں آئی ہوئی روح اعظم مدینہ سے اپنے وطن اصلی کو واپس جارہی تھی ۔وقت بالکل آخر تھا ،سینہ میں غرغرہ شروع ہوچکا تھا کہ لبِ مبارک ہلے او ر آس پاس جو قریبی عزیز اور تیمادار تھے،انہوں نے کان لگادیے کہ اس وقت کوئی بہت اہم وصیت ارشاد ہورہی ہوگی ۔خیال صحیح تھا۔وصیت ارشاد ہوئی ۔لیکن نہ محبوب بیوی حضرت عائشہ ؓ کے لئے تھی ،نہ چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے لئے ۔اور نہ جاں نثار صحابیوں ،رفیقوں میں سے کسی کے حق میں بلکہ اس مختصر ارشاد کے بول کُل یہ تھے

الصلوۃ وما ملکت ایمانکم نماز اور غلام

یہ کیا ہے ۔نماز تک تو خیر کہ وہ بزرگ ترین عبادت تھی اور سید الانبیاء کو اس کی ہدایت کرنا ہی تھی ۔لیکن یہ غلام کیا معنی ؟ حیات مبارک کے بالکل آخری لمحوں میں فکر اور پروانہ گھر والوں کی تھی ،نہ اس مملکت کی جوابھی نئی نئی قائم ہوئی تھی ۔بلکہ ساری توجہ کے مرکز مظلوم و مجبور غلام قرار پائے۔

اللہ اللہ !یہ خوش قسمت غلام !سوچئے اور ایک بار پھر سوچئے کہ غلام دنیا کی تاریخ کے اس دور میں کیا مرتبہ و مقام رکھتے تھے ؟غلام کو غلامی کے عذاب سے نجات نہ دلا سکے تھے ! شاعرنے اگر ایسے ممدوح کی شان میں کہہ دیا

دشمنوں کا شعار۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

دشمنوں کا شعار - مولانا عبد الماجد دریابادی 
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (57) وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ (58)المائدة

اے ایمان والو،کافروںاور اہل کتاب میں سے جو لوگ تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل قراردیئے ہوئے ہیں انھیں اپنا دوست نہ بناؤاور اللہ سے ڈرتے رہواگر ایمان رکھتے ہو اورجس وقت تمھیں نماز کے لیے آواز دی جاتی ہے تو اس کو یہ لوگ ہنسی اورکھیل ٹھہراتے ہیں۔یہ اس لیے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔

آیۂ کریمہ کامفہوم صاف اور واضح ہے،دو حصے ہیں پہلے حصہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو غیر مسلم اسلام کا مضحکہ بنائے ہوئے ہیں،انھیں اپنا رفیق وہمراز دوست و دمسازبنانا مسلموں کے لیے جائز نہیں (اور جو مسلم اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھتا ہے اس سے ایسا ہونا ممکن نہیں ) دوسرے حصے میں تمام شعائر دین میں سے صرف اذان کو چن کرفرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس پر تمسخر کرتے ہیں اذان کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے اذان کی تحقیر عین دین اسلام کی تحقیر ہے اب اپنے گرد وپیش دیکھ کر ارشاد ہوکہ آج قومیں سب سے زیادہ دین اسلام کی تحقیر وتضحیک پر تلی ہوئی ہیں؟ کن قوموں کے اخبارات نے تصانیف نے اسلام و نبی اسلام ﷺ کے ساتھ تمسخر واستہزاء اپنا شعار بنا رکھا ہے کن قوموں کا تمدن و معاشرت آج نمازیں پڑھتے رہنے اور روزہ رکھتے رہنے ،سود کے حرام سمجھنے ، شراب سے بچتے رہنے ، تعداد ازدواج کے جائز سمجھنے کو ہدف مضحکہ بنائے ہوئے ہے؟ ایسی قوموں کی دی ہوئی عزت کو، خطاب کو ، ملازمت کو قبول کرنے کی اجازت آپ کا مذہب آپ کو کس حد تک دیتا ہے ؟  اس کا جواب کسی باہر کے مفتی سے نہیں خود اپنے اندر کے مفتی سے ، اپنے قلب ’ضمیر‘سے دریافت فرمائیے

اسوۂ حسنہ - مولانا عبد الماجد دریابادی

گوشہ عبد الماجد دریابادی
اسوہ حسنہ - عبد الماجد دریابادی ؒ 

امانت الہٰی

بزم کائنات اپنی ساری دلفریب زینتوں اور دلکش آرائشوں کے ساتھ سج چکی، طلسم خانہ فطرت اپنی تمام ندرتوں اور نیرنگیوں کے ساتھ تیار ہو چکا، نگار خانہ موجودات کا ایک ایک نقش آب و رنگ کی جگمگاہٹ سے چمک اٹھا، اس وقت ما کان وما یکون کاسب سے زیادہ بے بہا، سب سے زیادہ عزیز الوجود گوہر ’’امانت الہی‘‘کے نام سے کثرت کے بازار میں پیش ہوا، اور وحدت کے خلوت کدہ سے آواز آئی کہ ’’ہے کوئی جو اس گوہر شرف کا حامل بن سکے؟ عالم ملکوت میں سنّاٹا چھا گیا، عالم ناسوت پر لرزہ پڑگیا، پہاڑ تھر تھرائے، سمندر کی موجیں رک گئیں، ماہتاب ماند پڑگیا‘ آفتاب کی ہمت نے جواب دے دیا، اونچے آسمان نے اپنے دوش ناتوان کو اس کا اہل نہ پاکر آنکھیں نیچی کرلیں، پھیلی ہوئی زمین اپنے عجز و درماندگی کے احساس سے سمٹ کر رہ گئی۔ اس وقت ضعیف و ناتواں کمزور وحقیر، ظلوم و جہول خاک کا پتلا آگے بڑھا، اور اپنی ہمت کے بازؤں کو پھیلا کر یہ بارِعظیم اپنے سَر لے لیا۔


صبح محشر

خاک، نژاد آدم کی بے شمار نسلیں پیدا ہوئیں، اور رخصت ہوگئیں، پھیلی اور بڑھیں، ابھریں اور مٹیں، یہاں تک کہ عالم عنصریت کی شب دراز ختم ہوتی ہے، اور صبح محشر کا طلوع ہوجاتا ہے۔کمزور و جلدباز، خطا کار و نسیاں شعار، انسان طلب ہوتا ہے، اور اس کا ہر فرد ’’امانت‘‘ کا حساب سمجھانے حاضر ہوتا ہے، افراد کی تعداد حد شمار سے خارج ہے، ریاضی کا ہر عدد، سب کی گنتی بتانے سے قاصر ہے۔ اچھّے اور برے، فاسق و فاجر، مومن و کافر، عالم و جاہل، شاہ وگدا، امیر و فقیر، حکیم و شاعر، عابد وزاہد، ولی و درویش، سب ایک ایک کر کے صف در صف حاضر ہورہے ہیں لیکن کسی ایک کا بھی نامہ اعمال فطرت کے محاسبہ پر پورا نہیں اترتا۔کسی ایک کا بھی دامن امانت، خیانت کے داغ سے پاک نظر نہیں آتا۔کسی ایک کی بھی فرد اعمال ایسی نہیں جو دعوے کے ساتھ پیش ہوسکے، ہر سمت حسرتیں، ندامتیں، پشیمانیاں اور پریشانیاں ہیں، زاریاں اور بے قراریاں، افسردگیاں اور غمگینیاں ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہ نفوس قدسیہ تک، جو دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے خلق ہوئے تھے اور جو عرش کا پیام لے کر فرش پر آئے تھے۔ آج اپنی اپنی حالت میں گرفتار ہیں اور زبانوں پر نفسی نفسی کا وظیفہ جاری ہے۔

اصل آزادی کیا ہے؟ : مولانا عبد الماجد دریابادی

اصل آزادی کیا ہے؟ -  عبد الماجد دریا بادی
اصل آزادی کیا ہے ؟  عبد الماجد دریابادیؒ 

اصل آزادی کیا ہے؟


آپ کے دل میں اپنے کسی بزرگ خاندان، استاد، عالم، فقیر، دوست، عزیز، قومی رہبر، مذہبی پیشوا، غرض کسی زندہ یا مردہ شخص کی عزت وعظمت ہے؟ کسی نہ کسی شخص کی یقینا ہوگی۔ اگر ہے تو اپنے دل میں ذرا غور کیجئے ، کہ کس بناپرہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ شخص لباس بہت قیمتی پہنتاہے؟ کیا اس لئے کہ وہ کھانا بہت لذیذ کھاتاہے؟ کیااس بنیاد پر، کہ اس کے پاس روپیہ بہت سا جمع ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کے پاس نوکر چاکر بہت سے ہیں؟ کیاس لئے، کہ وہ اپنی دولت رشوت وسود لے کر پیداکرتاہے، اور شراب پینے میں اسے اڑاتاہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ ناچ، تھیٹراور سنیما دیکھنے میں صرف کرتاہے؟

سوال خوف ودہشت کی بابت نہیں، صرف عزت، وقعت ، وعظمت کی بابت ہے۔ یعنی آپ کا دل، بغیر کسی ظاہری دباؤ اورمادّی غرض کے، خود بخود جو اس کی تعریف کرتارہتاہے ، اور اس کی بڑائی کو محسوس کرتا رہتاہے، سویہ کس بنا پر ہے؟ کیا اوپر لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بناپر؟ اپنے دل کو خوب ٹٹول کر جواب دیجئے ۔ اور یہ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ عزت ووقعت آپ ہرگز اوپر کی لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بنا پر نہیں کرتے، بلکہ کسی ایسی چیز کی بنا پر کرتے ہیں ، جس کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں باطن سے، باہر سے نہیں اندرسے، نمائش سے نہیں، اصلیت سے ہے۔ آپ کو اپنے قابل عزت ممدوح کی سیرت کا کوئی جزء پسند آگیاہے، اوراسی کا نقش آپ کے دل پر قائم ہے ۔ سچائی ، سادگی، بے نفسی، بلند ہمتی، خلق کی خیرخواہی، بے آزاری، قناعت، فروتنی، شیریں کلامی، غرض اسی قسم کی کوئی نہ کوئی خوبی آپ کے تجربہ میں آئی ہوگی، اور وہی شے آپ کے دل میں اُن بزرگ کی عزت ووقعت قائم کئے ہوئے ہے۔