پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ – موجودہ چیلنجز اور روشن مستقبل

 "پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ" کے عنوان سے  یہ ایک فرضی مکالمہ  کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کے بحران اور ترقی کے امکانات پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔

اسٹیج سیٹ اپ
(ایک پروقار اور علمی ماحول۔ اسٹیج پر پانچ نمایاں نشستیں، جن پر پاکستان کے نامور دانشور بیٹھے ہیں۔ ایک مرکزی نشست پر میزبان موجود ہے، جس کے ہاتھ میں سوالات کی فہرست اور ایک قلم ہے۔ پس منظر میں پاکستان کا ایک جدید اور ترقی یافتہ ورژن دکھایا جا رہا ہے، جو اس مکالمے کی روح کی عکاسی کر رہا ہے۔)

🎤 میزبان (محمد زید):
السلام علیکم، معزز ناظرین! میں ہوں آپ کا میزبان محمد زید، اور آج ہم ایک نہایت اہم موضوع پر گفتگو کرنے جا رہے ہیں— "پاکستان: بحران سے ترقی کی راہ"۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمیں ایک طرف معاشی بحران کا سامنا ہے، دوسری طرف تعلیم و سائنس میں پسماندگی، سماجی انتشار اور عالمی تنہائی ہمارے سامنے بڑے چیلنجز کی صورت میں موجود ہیں۔ کیا ہم ان چیلنجز سے نکل سکتے ہیں؟ کیا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے؟
یہ جاننے کے لیے، آج ہمارے ساتھ پانچ ایسی شخصیات موجود ہیں، جو پاکستان کے سب سے بڑے دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں:

قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹیں اور ان کا حل

 پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے سنگین مسئلہ قومی یکجہتی کا فقدان ہے۔ ہمارا ملک مذہبی، سیاسی اور صوبائی اختلافات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ یہ اختلافات نہ صرف ریاستی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ عوام میں نفرت، بے چینی اور عدم برداشت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، ہمارے حکمران، علماء اور دانشور ان اختلافات کو ختم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ان اختلافات کو کم کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ موجود نہیں؟

یہ سوال ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ آئیے، ذرا ان اختلافات کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

مذہبی اختلافات: اتحاد کی جگہ افتراق

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن یہاں اسلام کے نام پر ہی سب سے زیادہ فرقہ واریت پھیلائی گئی۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے کی روش عام ہو چکی ہے، اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کا بیج بویا جا چکا ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی نے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے امیج کو متاثر کیا۔

حل کیا ہے؟

  • فرقہ وارانہ بیانیے کے بجائے علماء کو مشترکہ نکات پر زور دینا ہوگا۔
  • مدارس میں ایسا نصاب متعارف کروایا جائے جو رواداری اور برداشت کو فروغ دے۔
  • فرقہ واریت پر مبنی تقاریر اور فتووں پر سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

بر صغیر کے 1000 سے 2020 تک کے اہم تاریخی واقعات جو برصغیر کی تاریخ کو تشکیل دینے والے اہم موڑ ثابت ہوئے۔

 1000 سے 2020 تک کے برصغیر کے اہم تاریخی واقعات کی ایک جامع فہرست جس میں ان سیاسی، سماجی، اور ثقافتی واقعات کو شامل کیا گیا ہے جو برصغیر کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔

1000–1200: غزنوی سلطنت اور سلطنت دہلی کی بنیاد

  • 1025: محمود غزنوی کا ہندوستان پر حملہ اور سومنات کے مندر کو توڑنا۔
  • 1192: محمد غوری کی پتے پتھار کی جنگ میں راجہ پرتاپ سنگھ کو شکست، سلطنت دہلی کی بنیاد۔

1200–1500: سلطنت دہلی کا عروج اور زوال

  • 1206: قطب الدین ایبک نے سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی۔
  • 1256: سلطان شمس الدین التمش کا اقتدار اور سلطنت دہلی کا عروج۔
  • 1320: تغلق خاندان کا اقتدار۔
  • 1398: تیمور کا ہندوستان پر حملہ اور دہلی کی تباہی۔
  • 1451: سلطنت دہلی میں لودھی خاندان کا قیام۔

1500–1600: مغل سلطنت کا آغاز

  • 1526: پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر کی فتح اور مغل سلطنت کی بنیاد۔
  • 1556: ہمایوں کا دوبارہ تخت پر قبضہ اور اکبر کا اقتدار سنبھالنا۔
  • 1582: اکبر نے دینِ الہی کا آغاز کیا۔
  • 1605: جہانگیر کا اقتدار کا آغاز اور مغل سلطنت کا عروج۔

1600–1700: مغل سلطنت کا عروج اور زوال

  • 1628: شاہجہان کا تخت پر قبضہ اور تاج محل کی تعمیر۔
  • 1658: شاہجہان کا تخت سے محروم ہونا اور اورنگزیب کا اقتدار سنبھالنا۔
  • 1675: سکھوں کے پانچویں گرو، گووند سنگھ کی شہادت۔
  • 1707: اورنگزیب کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا زوال شروع۔

1700–1800: برطانوی اثرات کا آغاز اور دیگر سلطنتوں کا زوال

  • 1717: مرہٹوں کی سلطنت کا عروج اور جنگوں کا آغاز۔
  • 1757: پلاسی کی جنگ میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کو شکست دی۔
  • 1761: پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں شکست۔
  • 1799: ٹیپو سلطان کی شہادت اور ریاست میسور کا انگریزوں کے زیر اثر آنا۔

1800–1857: برطانوی راج کا آغاز

  • 1806: سکھ سلطنت کا عروج اور رنجیت سنگھ کا حکمران بننا۔
  • 1857: غدر کی تحریک (ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی)۔
  • 1858: برطانوی راج کا آغاز، ہندوستان میں براہ راست حکومت برطانیہ کے ہاتھوں میں آنا۔

مولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے 1946 میں ’بنگلہ دیش‘ کے قیام کی پیشگوئی کی

 عارف محمد خان
عہدہ,بی بی سی ہندی کے لیے
22 فروری 2022

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔

ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں رہنے لگے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔

سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ یہ رسالہ اپنے انقلابی مضامین کی وجہ سے کافی زیر بحث رہا اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر اس کی سکیورٹی منی یعنی حفاظتی رقم ضبط کر لی اور بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کر دیا۔

آزاد کو سنہ 1916 تک بنگال چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور انھیں آج کی ریاست جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔

دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی


سیاسی منظرنامے میں ابھرنے کے بعد آزاد نے قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔ سنہ 1921 میں آگرہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران انھوں نے الہلال کے بنیادی مقاصد کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا پہلا مقصد ہندو مسلم اتحاد ہے۔ میں مسلمانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کریں تا کہ ہم ایک کامیاب قوم کی تعمیر کر سکیں۔‘

مولانا آزاد کے لیے قوم کا اتحاد آزادی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ سنہ 1923 میں کانگریس کے خصوصی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آج بھی اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمیں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔‘

وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کیسے کی جا رہی ہے؟

 اعظم خان

عہدہ,بی بی سی اردو
28 اگست 2024
اپ ڈیٹ کی گئی 7 جنوری 2025


وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی لانے کے لیے اپنے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی آسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اب ان خالی آسامیوں پربھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ’حکومتی اخراجات میں کمی کے اقدامات کو 30 جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔‘

وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کیسے کی جا رہی ہے؟

حکومت نے ’رائٹ سائزنگ‘ کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت مختلف اداروں کی نجکاری، غیر ضروری محکموں کی بندش ہو سکتی ہے اور اس عمل کا بنیادی ہدف اربوں روپے کی بچت ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں یہ کہا گیا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذ میں غیر ضروری تعطل کو ختم کرنے اور صرف انتہائی ضروری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں چھ وزارتوں پر وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورمنٹ کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ شروع کر دیا گیا ہے۔‘

مولانا ظفر احمد انصاری : شخصیت اور کردار



مولانا محمد ظفر احمد انصاری (پیدائش: 1908ء - وفات: 20 دسمبر، 1991ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین، ماہر قانون، دانشور، مصنف اور سابق رکن قومی اسمبلی تھے۔

مولانا ظفر احمد انصاری 1908ء کو منڈارہ، الہ آباد ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن،1933ء اسی یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1942ء میں ان کی ملاقات نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی جن کی تحریک پر آپ نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر خود کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ 

قیام پاکستان کے بعد انھیں قرارداد مقاصد کا متن تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1951ء میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انھیں مشہور 22نکات پر متفق کرنے کا مشکل کام بھی ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کی تدوین اور تسوید میں بھی انھوں نے فعال کردار کیا۔ 

1970ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہوئے۔

 1983ء میں انھیں پاکستان کے سیاسی نظام کے تعین کے لیے دستوری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا، ضعیف العمری کے باوجود انھوں نے دن رات ایک کرکے یہ رپورٹ مکمل کی جو انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس رپورٹ میں انھوں نے ان اقدامات کی سفارش کی جو مستقبل کی حکومت کے لیے بنیاد بن سکتے تھے مگر اس وقت کے صدر، صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کمیشن کی رپورٹ سے کوئی استفادہ نہیں کیا اور یوں مولانا ظفر احمد انصاری کی یہ محنت رائیگاں گئی۔ 

مولانا ظفر احمد انصاری نے اسلامی آئین اور ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کی

 ۱۔ اسلامی آئین

۲۔ ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو

۳۔ 1956ء اور 1973ء کے آئین کی تدوین اور تسوید

۴۔ انصاری کمیشن رپورٹ کی سفارشات 

مولانا ظفر احمد انصاری 20 دسمبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ 

ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ افراتفری نہیں چاہتے، لیکن حکمران سن لیں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حالات سے سبق سیکھیں، ایسا نہ ہو کہ مہلت نہ ملے۔ آئی پی پیز کے مالکان کا نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں، واضح طور پر کہنا چاہتاہوں وعدوں اور تحریر پر دھرنا ختم نہیں ہو گا، نوٹیفکیشن اور ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا پڑے گا۔ 8اگست کو مری روڑ سے آگے کی طرف بڑھیں گے، 11تاریخ کو لاہور، 12کوپشاورمیں عوامی دھرنے ہوں گے۔ تاجروں،صنعت کاروں سے مشاورت مکمل کرلی ہے،14اگست کے بعد ملک بھر میں ہڑتال کی کال دیں گے، تمام تحصیلوں،اضلاع میں عوامی مطالبات کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز ہوگا۔ حکومت کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں بجلی بلوں میں کمی، ناجائز ٹیکسز کا خاتمہ، آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ اور مراعات میں کمی کرے ورنہ مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دھرنے کے بارہویں روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرسیکرٹری جنرل امیر العظیم،نائب امرا لیاقت بلوچ،ڈاکٹر اسامہ رضی،ڈاکٹر عطاء الرحمن،ڈپٹی سیکرٹریزاظہر اقبال حسن،شیخ عثمان فاروق،ممتاز حسین سہتو،سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف،امیر جماعت اسلامی پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم،امیر ضلع اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور دیگرذمہ داران موجود تھے۔

مذاکرہ : راجہ صاحب آف محمود آباد، مولانا جمال میاں فرنگی محلی اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی ۔ ریڈیو پاکستان سنہ ۱۹۷۲ ء


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 03


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 01


 

پاکستان، اسلام اور عصری چیلنجز از پروفیسر شاہد ہاشمی - حصہ 02


 

فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل پر قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور

 اسلام آباد ۔ مرکز اطلاعات فلسطین پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعے کو فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت و جارحیت اور حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کیے جانے  کے خلاف ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا، نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے اسمبلی اجلاس کے دوران اسمعیل ہنیہ کی شہادت کے معاملے پر قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسرائیلی مظالم کی وجہ سے 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں، پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، یہ ایوان اسرائیلی مظالم کو مسترد کرتا ہے۔


قرارداد کے مطابق یہ ایوان فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا اظہار کرتا ہے اور اسمٰعیل ہنیہ کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتا ہے، ساتھ ہی یہ ایوان غزہ میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کرتا ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس کے آغاز پر جمشید دستی نے فلسطین زندہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے، بعد ازاں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کے لیے دعائے مغفرت کی گئی، مولانا مصباح الدین نے دعائے مغفرت کرائی۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس قرارداد کی منظوری پر وہ ایوان کے مشکور ہیں۔

یوم سوگ کے سلسلے میں دیگر تقریبات کے علاوہ جمعے کو ظہر کی نماز کے بعد حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔

پاکستان کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے ’فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی بربریت‘ کی مذمت کرتے ہوئے جمعرات کو ایک اجلاس میں دو اگست کو ملک میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔

تعارف امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن

   پیدائش اور خاندانی پس منظر


 جماعت اسلامی پاکستان کے نو منتخب امیر حافظ نعیم الرحمٰن 1972 میں حیدرآباد، سندھ کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔  ان کے والدین کا  تعلق  علی گڑھ سے تھا۔ وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے ماشاءاللہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے حافظ قرآن بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں اور جماعت اسلامی کی فعال رکن ہیں۔ وہ نارتھ ناظم آباد ، بلاک اے میں ایک  کرائے کے مکان میں رہتے ہیں ۔ 

تعلیم
حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی


جامع مسجد دارالعلوم،  لطیف آباد، یونٹ 10 سے حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم نورالاسلام پرائمری اسکول، حیدرآباد سے حاصل کی اور میٹرک علامہ اقبال ہائی اسکول سے کیا۔ حیدرآباد سے میٹرک کے بعد حافظ نعیم الرحمٰن کی فیملی کراچی منتقل ہوگئی۔ انھوں نے پاکستان شپ اونرز کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ میں کیا۔ بعد ازاں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز  کیا۔

اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق


زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال اور متحرک طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ 

طلبہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہوئے اور مختلف مواقع پر تین بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم  رہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کو 1998 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ وہ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔