پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے
 رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ۲۲ نومبر ۲۰۲۳

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں گے۔

ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔

نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔

پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔

اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔

نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟

یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی بی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔

نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟


آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔

1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

ظفر سید
بی بی سی اردو، اسلام آباد
10 اکتوبر 2018

سات اکتوبر 1958 کو لگائے جانے والے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے 65 سال مکمل ہونے کے موقع پر خصوصی تحریر جسے آج کی دن کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جنرل ایوب خان اپنی آپ بیتی ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں پانچ اکتوبر کو کراچی پہنچا اور سیدھا جنرل اسکندر مرزا سے ملنے گیا۔ وہ لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تلخ، متفکر اور مایوس۔‘

’میں نے پوچھا: کیا آپ نے اچھی طرح سوچ بچار کر لیا ہے سر؟‘

’ہاں۔ کیا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں؟‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا۔

’نہیں۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔‘

’میں نے سوچا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے موڑ تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ سخت قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ یہ ملک بچانے کی آخری کوشش تھی۔‘

3 جون 1947: برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدار اور تقسیم ہند کا اہم فیصلہ کیسے ہوا ؟

برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدارکے اعلان پر (قاعد اعظم) محمد علی جناح کا رد عمل  

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 3 جون 2017 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

70 پرس پہلے 3 جون 1947 کو برطانوی حکومت نے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور وائس رائے لارڈ ماؤٰنٹ بیٹن کی تقریر کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ برطانوی حکومت کے اس اعلان پر انتہائی تحمل اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کچھ اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا لیکن اس پر حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں لیا جائے گا۔

محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:

ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔

اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔

میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فوج ہی کیوں جیتتی رہی ہے؟

بی بی سی اردو ۲۳مئی ۲۰۲۳
احمد اعجاز

سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعے کی ابتدا تو اُن کی وزارت عظمیٰ کے دور کے آخری مہینوں سے ہی شروع ہو گئی تھی تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے رائے میں نو مئی کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا مستقبل قریب میں کوئی خاص امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

17 مئی کو ایک ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کا کہنا تھا ’اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروائے اور ملک کو بچائے۔ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی ہم سے بات کرے۔‘
۹ مئی ۲۰۲۳ م کو عمران خان کی گرفتاری کا ایک منظر

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق معاملات جس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں اس کے پیش نظر عمران خان کی بات چیت کی پیشکش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی، دوطرفہ فاصلوں کی خلیج کو وسعت دے کر سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے کا باعث بنتی رہی ہے اور اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا انجام کبھی نہ تو سیاست اور نہ ہی سیاستدانوں کے حق میں سامنے آیا۔

قیام پاکستان سے پاور ایلیٹ کے مابین اختیارات پر کھینچا تانی


یہ اپریل 1953 کا واقعہ ہے جب اس وقت کے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان کی معاونت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کون ہیں ؟

بی بی سی اردو، ۵ فروری  ۲۰۲۳ء 
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف


پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد [۵ فروری ۲۰۲۳ء] وفات پا گئے ہیں۔ وہ دبئی کے امریکن نیشنل ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔


پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی مسلح افواج کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔


پرویز مشرف تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت: 1 جنوری 2023ء 

انڈیا اور پاکستان تین دہائیوں سے ایک دوسرے کو جوہری تنصیبات کے بارے میں کیوں بتا رہے ہیں؟


 پاکستان اور انڈیا نے 30 سالہ پرانی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہر سال کی طرح 2023 کے پہلے دن اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست کا تبادلہ کیا ہے۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان 31 دسمبر 1988 کو ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور 27 جنوری 1991 کو اس معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔ 

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ہر سال کے پہلے دن ایک دوسرے کو اپنی جوہری تنصیبات کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔ 

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے کے تحت اتوار کو دفترِ خارجہ میں انڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو باضابطہ طور پر پاکستان نے اپنی فہرست فراہم کی جبکہ انڈین وزارتِ خارجہ نے بھی اپنی فہرست دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو فراہم کی ہے۔ دفترِ خارجہ نے بتایا ہے کہ فہرستوں کا یہ تبادلہ یکم جنوری 1992 سے جاری ہے۔ 

بی بی سی ہندی کے مطابق اس موقع پر انڈیا اور پاکستان نے اپنی اپنی حراست میں موجود عام قیدیوں اور ماہی گیروں کی فہرست کا بھی تبادلہ کیا۔ انڈیا نے 339 عام پاکستانی قیدیوں اور 95 ماہی گیروں کی فہرست فراہم کی جبکہ پاکستان نے بتایا کہ ان کے پاس 51 عام انڈین قیدی اور 654 ماہی گیر ہیں۔ جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سیپری) کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق سال 2022 کی شروعات میں نو ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور عوامی جمہوری کوریا (شمالی کوریا) کے پاس تقریباً 12 ہزار 705 جوہری ہتیھار ہیں جن میں سے نو ہزار 440 ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود ہیں۔ 

فوج کا بیانیہ :1 - جاوید احمد غامدی


فوج کا بیانیہ: 2 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 3 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بیانہ : 4 - جاوید احمد غامدی


 

فوج کا بيانيہ : 5 - جاويد احمد غامدى


 

فوج کا بيانيہ :6 - جاويد احمد غامدى


 

دوروزہ اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کا 48 واں وزرائے خارجہ اجلاس 2022ء

اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس 22، 23، مارچ  2022 ء،  پاکستان 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران نے منگل کو اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور کشمیر پر ناکام ہوچکے ہیں۔ عمران خان کے مطابق ’ہم تمام ممالک کی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہورہی ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک مؤقف نہ رکھا تو ہم کہیں کے نہیں رہ جائیں گے۔‘


او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے، اور او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔


خیال رہے کہ پاکستان میں ہونے والے اس 48 ویں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، مبصرین اور مہمان شریک ہیں۔

قرارداد مقاصد: وہ ’مقدس‘ دستاویز جو ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھنے کا باعث بنی

فاروق عادل

مصنف، کالم نگار

قرار داد مقاصد کا انگریزی متن 
بی بی سی اردو ، 12 مارچ 2022 ء 

وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا

پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’تقدس‘ کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:

'ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے'۔

یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔

آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔

سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:

'قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں'۔

کاش کہ ایسا ہو تا !!

 انیس باقر

21 جنوری 2016  روزنامہ ایکسپریس 

کاس کہ ایسا ہوتا !

مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا، ایک نہیں کئی راہداریاں بنا لیں اور یورپ کو آشتی کا گہوارہ بنا لیا، بس یونان کے ساحل پر اترنے کی دیر ہے کہ ایک راستہ سربیا، ہنگری، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی، دوسری راہداری مقدونیہ، البانیہ، کروشیا، چیکوسلواکیہ، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی اور پھر جرمنی، ہالینڈ، فرانس، نہ بندشیں، نہ روک ٹوک، نہ نسلی اور مذہبی فسادات کا ڈر، نہ لوٹ مار، نہ ٹرینیں جلائے جانے کا خوف۔ یورپ سے خوف کا ڈر 1946ء سے گزر گیا اور بہتر سے بہتر وقت آتا گیا جب کہ 1946ء سے برصغیر میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔

تقسیم کی لکیر (1885-1947) -

اشلین کور ،  بی بی سی اردو 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

یہ کہانی ہے 70 سال پہلے کی جب انگریزوں کے جانے کے ساتھ ہی ایک بھارت دو حصوں میں بٹ گیا اور دو آزاد ممالک کا جنم ہوا انڈیا اور پاکستان۔ تقسیمِ ہند کی تاریخ سے جڑی کچھ اہم تاریخوں پر ایک نظر۔

دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے 20 برسوں میں کانگریس کو آزادی یا سیلف گوورننس کی تشہیر میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔