عالمی بحران لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالمی بحران لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دنیا کے بڑے ممالک ضرورت کی اشیا دیگر ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے ’خود کفیل‘ ہونے کی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو ، ۳۰ جنوری ۲۰۲۳ء 

سنہ 1989 کے اواخر میں دیوار برلن کے گرنے اور تقریباً دو سال بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور عالمگیریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس نے عالمی معیشت کو ایک جدید شکل دی۔

لیکن 21ویں صدی میں مختلف بحرانوں نے اس ’گلوبل ویلج‘ کہلائے جانے والی دنیا کا امتحان لیا ہے۔

سنہ 2008 میں وال سٹریٹ سے شروع ہونے والا امریکی معاشی بحران جب پوری دنیا میں پھیل گیا تو اُس کے بعد کچھ لوگوں نے معیشت کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے فوائد پر سوال اٹھایا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا میں نریندر مودی جیسی نئی سیاسی شخصیات نے اپنی ضروریات خود پوری کرنے یعنی خود کفیل ہونے جیسے خیال کو ترجیح دینے کے عمل کو فروغ دینا شروع کیا اور یورپ میں برطانیہ نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین سے خود مختاری حاصل کر لی۔لیکن عالمگیریت کو سب سے زیادہ دھچکا کووڈ وبا سے لگا، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک نے نہ صرف اپنی سرحدیں بند کر دیں بلکہ ماسک سے لے کر ویکسین تک جو وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا تمام طبی آلات کی برآمد بھی روک دی تھی۔

سائنسدانوں نے وہ گھڑی آگے کر دی ہے جس کا کام دنیا کے خاتمے کا وقت بتانا ہے۔

بی بی سی اردو :  ۲۷ جنوری ۲۰۲۳ء 

اس گھڑی کے منتظم ادارے ’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کے مطابق یہ گھڑی دن کے اختتام کے 90 سیکنڈ قریب کر دی گئی ہے۔

یہ گھڑی سنہ 1947 میں شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری دنیا انسانوں کے اقدامات کی وجہ سے خاتمے کے کس قدر قریب پہنچ چکی ہے۔

اسے ایٹمی جنگوں کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

جب سائنسدان حالیہ کچھ مہینوں میں انسانیت کو لاحق خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس گھڑی کو آگے یا پیچھے کر دیا جاتا ہے۔

فی الوقت یہ نصف شب سے صرف 90 سیکنڈ دور ہے جبکہ نصف شب کا مطلب انسانیت کی اپنے ہی ہاتھوں تباہی ہے۔

امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر

بی بی سی اردو 

21 جنوری 2023ء 

 امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک

جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔

سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کرنسی کی مختصر تاریخ اور عالمی کرنسی کا تصور کیسے پیدا ہوا ؟

بی بی سی اردو 
13 جنوری 2023ء 

پیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟

پیسے کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ہزاروں سال سے ادائیگی کا یہ واحد طریقہ ہے اور دولت کی پیمائش کا بھی۔ اسی سے وہ نظام جڑا ہے جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
کرنسی کی تاریخ
عالمی کرنسی کا تصور کیسے پیدا ہوا ؟

تاہم پیسے کی تاریخ اس کی تعریف کی طرح ہی متنازع ہے۔ فلسفی اور معاشی ماہرین اس پراسرار وقت کے بارے میں الگ الگ نظریے رکھتے ہیں جب پیسے کا نظام متعارف ہوا۔

تاہم ہزاروں سال قبل چاندی، مٹی کی چیزوں اور دیگر اشکال میں لین دین ہوا کرتا تھا حتی کہ ایک وقت آیا جب قدیم عراق میں دھاتی سکے پہلی بار متعارف کروائے گئے۔

اس کے کافی عرصہ بعد چین میں کاغذ کے نوٹ سامنے آئے جو اس لیے بنائے گئے کیوںکہ سکے اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ ان کو رکھنا ہی ایک مسئلہ تھا۔

اور صرف 70 سال پہلے، ایک پہاڑی سلسلے میں موجود ہوٹل میں رات گئے ہونے والے خفیہ سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہرے رنگ کا کاغذ، ڈالر، دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی بن گیا۔

بی بی سی منڈو پیسے کے جنم اور ارتقا کی تاریخ بتا رہا ہے جو انسانیت کے سفر کو سمجھنے کا اہم جزو ہے۔

سیاستدانوں کی جگہ انجینیئرز اور سائنسدانوں کو حکمراں بنانے والی ٹیکنوکریٹ تحریک کیا تھی؟

پاؤلا روزاس

بی بی سی اردو

 تاریخ اشاعت : 10 دسمبر 2022 

ٹیکنو کریٹ تحریک کیا تھی ؟
کام کے اوقات صرف 16 گھنٹے فی ہفتہ ہوں گے۔ ہر کسی کو کام نہیں کرنا پڑے گا لیکن جو کریں گے وہ 25 برس کی عمر سے کام کرنا شروع ہوں گے اور 45 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

باقیوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تمام ضروریات، چاہے صحت، تربیت، رہائش یا خوراک ہو سب کا خیال رکھا جائے گا۔

پیسے کا وجود ویسے بھی نہیں ہو گا۔ اس کی جگہ توانائی کے سرٹیفکیٹ کے نظام لے لیں گے۔ چیزوں کو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کے مطابق لاگت اور معاوضہ لیا جائے گا۔

اس کے بدلے میں، جمہوریت کے سیاسی نظام جس میں شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اسے ختم کرنا پڑے گا۔ کوئی سیاستدان یا تاجر نہیں ہو گا بلکہ تمام فیصلے انجینیئرز اور سائنسدان کریں گے۔

ٹیکناٹو‘میں خوش آمدید، جس خیالی دنیا کا خواب امریکہ میں شدید کساد بازاری کے دوران خام خیالی میں مبتلا چند افراد کے ایک گروہ نے دیکھا تھا اور جس کی گونج  آج بھی امریکہ کی سلیکون ویلی جیسی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔

یقیناً ٹیکناٹو کی خیالی دنیا کبھی وجود میں نہیں آئی لیکن ٹیکنو کریٹ تحریک، یعنی سائنسدانوں اور دانشوروں کا وہ گروپ جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس ’بے مثال دنیا‘ کا خواب سجایا تھا، کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی اور انھوں نے اپنی تحریک میں ایسے سوالات اٹھائے جو آج بھی متعلقہ ہیں۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

16 اکتوبر کو ہر سال خوارک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

بی بی سی کے رپورٹرسوامی ناتهن ناتاراجن کے مطابق دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔

قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔

غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔

شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔

یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔

سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

ظفر سید ،  بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سر ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں
15 اگست 2018

آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اورمغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔

تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھی ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔

بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟

کورونا وائرس: برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟ -

عالمی وبا عالمی بحران ، کرونا وائرس
برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 کرونا جیسی وبا آئے گی ؟
( برائن والش ، بی بی سی فیوچر 8 اپريل 2020)

کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بارے میں، جو کووِڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے، پہلے سے اندازہ کر لینا اس سے زیادہ آسان نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دعوٰی میں اپنی رپورٹنگ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔

اکتوبر 2019 میں، میں نے کورونا وائرس کی ایک فرضی عالمی وبا کے بارے میں ایک سِمیولیشن یا تمثیل کا مشاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2017 کے موسم بہار میں، میں نے اسی موضوع پر ٹائم میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا تھا۔ رسالے کے سرِ ورق پر تحریر تھا: ’خبردار: دنیا ایک اور عالمی وبا کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ پچھلے پندرہ برس میں ایک ایسی عالمی وبا کے بارے میں بہت سے مضامین اور قرطاسِ ابیض شائع ہوئے ہیں جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمارے نظام تنفس کو متاثر کرنے والا ایک نیا مرض پھیلنے والا ہے۔

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
(4 اپريل 2020 bbc urdu)

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں افراد اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تبدیلیاں عارضی ہوں گی۔ لیکن تاریخ میں بیماریوں کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں - خاندانوں کے زوال سے نوآبادیاتی نظام میں اضافے اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں بھی۔

14ویں صدی کی بلیک ڈیتھ اور مغربی یورپ کا عروج


یوروپ میں بہت سارے لوگوں نے طاعون کے خاتمے کے لئے شدت سے دعا کی 1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔ جس کے باعث زمینداروں کے لیے مزدوری کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں سودے بازی کی طاقت زیادہ بڑھ گئی۔

لہٰذا یہ سوچ دم توڑنے لگی کہ لوگوں کو پرانے جاگیردارانہ نظام کے تحت کرایہ ادا کرنے کے لیے کسی مالک کی زمین پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس نے مغربی یورپ کو جدید، تجارتی، اور نقد پر مبنی معیشت کی طرف دھکیل دیا۔

کورونا وائرس: سائنسدان کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟

کورونا وائرس : سائنسدان  کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
(تاریخ اشاعت : 2 اپریل ، 2020 م  بی بی سی اردو ) 

نول کویڈ-19 وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں، سائنسدان اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کوشاں ہیں لیکن وہ اس وائرس کے متعلق کیا اور کتنا جانتے ہیں،

ان کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی ظاہری علامات موجود ہیں ، وہ دوسرے لوگوں میں وائرس منتقل کر سکتے ہیں ۔

 لیکن جن لوگوں میں ظاہری علامات موجود نہیں ، ان کا کیا ؟ 

وائرس کون کون پھیلارہا ہے ؟ 

بہت سے افراد کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان میں وائرس موجود ہے ، بعض اوقات بچوں میں وائرس کی زیادہ علامات نظر نہیں آتیں ، لیکن وہ وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں ، لیکن ابھی سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ، کیا آپ وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتے ہیں ؟ 

کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں، طبی ، سماجی سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ (بی بی سی اردو )

کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں اور سیاسی حالات 

( 26 مارچ 2020 بی بی سی اردو )

سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟
کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔