![]() |
ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا ؟ |
دراصل شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے، اور ڈراما پڑھنے، سننے اور دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرکت و عمل ڈرامے کا بنیادی ستون ہے۔جب کوئی ادیب یا شاعر زندگی کے کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو وہ ایک رہبر کی طرح ہمیں زندگی کی سیر کراتا ہے۔ لیکن جب کوئی ڈراما نویس کسی واقعہ کو پیش کرتا ہے تو وہ صرف زندگی بیان نہیں کرتا، بلکہ زندگی کو پوری شان اور آن بان سے پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جو چلتی پھرتی، ہنستی بولتی یا پھر نالاں و گراں، آسودہ اور تھکی ہوئی۔
واضح رہے کہ جدید ڈراموں میں ڈراما نگار ناول یا افسانہ نویس کی طرح زندگی کی مختلف تہوں میں چھپے حالات و واقعات کو بھی پیش کرتا ہے اور ان حالات و واقعات کو حرکت و عمل کا لباس بھی زیب تن کرواتا ہے۔ جس وجہ سے ڈراما نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے، اور مخاطبین کا نقطہ نظر بدلنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامے میں تفنّن، تفریح اور اصلاح کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے۔ اس کی تخلیق میں مصنّف، اداکار، تماشائی، اسٹیج اور اسٹیج کے دیگر لوازمات مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی: