اسلام سے پہلے کے زمانے میں عرب میں ورثہ صرف مردوں میں تقسیم ہوتا تھا۔[1][2] اسلام ہر وارث کا حصہ مقرر کرتا ہے اور وراثت کی بنیاد قریبی رشتہ داری قرار دیتا ہے نہ کہ ضرورت مند کی ضرورت۔ قریبی رشتہ داری سے مراد خون کا رشتہ یا نکاح کا رشتہ ہے۔
سنی عقیدے کے مطابق قرانی احکامات پرانے عرب دستور کو رد نہیں کرتے بلکہ انھیں صرف بہتر بناتے ہیں تا کہ عورتوں کو بھی وراثت میں شامل کیا جائے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق چونکہ قرآن نے پرانے عرب دستور کی تائید نہیں کی ہے اس لیے اسے مکمل طور پر مسترد کر کے نیا قرآنی طریقہ اپنانا چاہیے۔
پس منظر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت سعد بن الربيع کی بیوہ نے شکایت کی کہ میرا شوہر آپ کے ہمراہ غزوہ احد میں شریک تھا اور شہید ہو گیا۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے چچا انھیں کچھ ورثہ نہیں دے رہے۔ اگر ان لڑکیوں کے پاس کچھ مال نہیں ہو گا تو ان کی شادی نہیں ہو سکے گی۔ اس پر آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ کے حکم پر ورثہ کا دو تہائی حصہ سعد بن الربيع کی بیٹیوں کا اور آٹھواں حصہ بیوہ کا قرار پایا اور لگ بھگ 20 فیصد حصہ چچاوں میں تقسیم ہوا۔[3]
ورثہ تقسیم کرنے سے پہلے
کفن دفن کے اخراجات نکال لیے جائیں۔