اسلامی تراث کے محافظین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلامی تراث کے محافظین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی

 بی بی سی اردو 

15 ستمبر 2020ء 

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی، جن کے کام کو ’خطرناک‘ اور ’جادو‘ گردانا گیا

ریاضی دان محمد ابن موسی الخوارزمی

بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسلامی دور‘ کی اِس قسط میں لکھاری اور براڈ کاسٹر جم الخلیل ہمیں الخوارزمی کی بارے میں بتا رہے ہیں۔ محمد ابن موسیٰ الخوارزمی ایک فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات، نجومی، جغرافیہ نگار اور بغداد کے بیت الحکمت سے منسلک ایک سکالر تھے۔ اس دور میں بیت الحکمت سائنسی تحقیق اور تعلیم کا ایک معروف مرکز تھا اور سنہرے اسلامی دور کے بہترین دماغ یہاں جمع ہوتے تھے۔ الخوارزمی فارس میں 780 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے اور وہ اُن پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے جنھیں بیت الحکمت میں خلیفہ المامون کی رہنمائی میں کام کرنے کا موقع ملا جو خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے تھے۔ بی بی سی اردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔

’فرض کریں کہ ایک شخص بیماری کی حالت میں دو غلاموں کو آزاد کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک غلام کی قیمت 300 درہم اور دوسرے کی 500 درہم ہوتی ہے۔ جس غلام کی قیمت 300 درہم تھی وہ کچھ عرصے میں وفات پا جاتا ہے اور اپنے ورثا میں صرف ایک بیٹی چھوڑتا ہے۔ پھر اُن غلاموں کا مالک بھی وفات پا جاتا ہے اور ان کی وارث بھی اُن کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے۔ وفات پانے والا غلام 400 درہم مالیت کی جائیداد چھوڑ ترکے میں چھوڑ جاتا ہے۔ تو اب ہر کسی کے حصے میں ترکے میں سے کتنا حصہ آئے گا؟‘

كلمة الأستاذ الدكتور خالد الكركي أمام خادم الحرمين في جائزة الملك فيصل


 

كلمة فضيلة الشيخ محمد شقرة نائباً عن الإمام الألباني عند تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية


 

جائزة ملك فيصل العالمية للشيخين سيد سابق ويوسف القرضاوي


 

أحمد ديدات يتسلم جائزة الملك فيصل لخدمة الإسلام 1986 --- لقاء نادر


 

كلمة الأستاذ حسن محمود الشافعي حين يتسلم جائزة الملك فيصل عام 2022ء


 

کلمۃ الدكتور ذاكر نايك جائزة الملك فيصل العالمية لخدمة الإسلام 2015 يستلمها


 

كلمة نادرة للشيخ العلامة حسنين محمد مخلوف رحمه الله


 

كلمة الأستاذ محمود شاكر في حفل تسلم جائزة الملك فيصل


 


كلمة الأستاذ محمود محمد_شاكر في حفل تسلم جائزة_الملك_فيصل عام 1404هـ = 1984م مُنِح الأستاذ محمود محمد شاكر الجائزة؛ وذلك تقديراً لإسهاماته القيّمة في مجال الدراسَات التي تناولت الادب العربي القديم والممثلَّة في: 1- تأليفه كتاب “المتنبي” سنة 1936 م، والذي حمل كثيراً من القيم العلمية والأدبية العالية، منها: التعمُّق في الدراسة والجهد والاستقصاء، والقدرة على الاستنتاج والدقة في التذوّق، والربط المحكم بين الشعر وأحداث الحياة، والكشف عن ذلك في تطوُّر أساليب المتنبي. 2- الآفاق العلميّة الجادّة التي ارتادها، وما كان من فضله على الدراسات الأدبية والفكرية، وعلى الحياة الثقافية والتراث الإسلامي. 3- مواقفه العامة، وتحقيقاته ومؤلّفاته الأخرى، التي ترتفع به إلى مستوى عالٍ من التقدير

الشيخ محمد الغزالي السقا – الحائز على جائزة الملك فيصل لخدمة الإسلام 1989


 

كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1986م




كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1406 هـ - 1986 م في الأدب العربي عن الدراسات التي تناولت الأدب العربي في القرنين الخامس والسادس الهجريين.

كلمة العلامة عبدالسلام هارون في حفل تكريمه بجائزة الملك فيصل للأدب العربي - ( ١٩٨١م)


ولد عبد السلام هارون في مدينة الإسكندرية في (25 ذي الحجة 1326 هـ، 18 يناير 1909م) ونشأ في بيت كريم من بيوت العلم، فجده لأبيه هو الشيخ هارون بن عبد الرازق عضو جماعة كبار العلماء، وأبوه هو الشيخ محمد بن هارون كان يتولى عند وفاته منصب رئيس التفتيش الشرعي في وزارة الحقانية (العدل)، وعمه هو الشيخ أحمد بن هارون الذي يرجع إليه الفضل في إصلاح المحاكم الشرعية ووضع لوائحها، أما جده لأمه فهو الشيخ محمود بن رضوان الجزيري عضو المحكمة العليا.

كلمة العلامة محمد عبد الخالق عضيمة في جائزة الملك فيصل 1403 هـ - 1983م

كلمة العلامة النحوي محمد عبد الخالق عضيمة الأزهري رحمه الله في أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية (الدراسات التي تناولت القرآن الكريم) عن كتابه دراسات لأسلوب القرآن الكريم سنة 1403 هـ - 1983 م .

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

کشمیری حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی

بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی شخصیت
 سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے  سیاسی رہنما تھے،  ان کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔  وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا-  جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ وہ  معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔  یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہونے والے 88 سالہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر 72 سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز ہیں۔ ۔ پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت رہنماؤں نے وصول کیا۔ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔ 

علامہ حمید الدین فراہی اور ان کی علمی و فکری خدمات

علامہ حمید الدین فراہی
اور ان کی علمی و فکری خدمات 
حمید الدین فراہی (پیدائش: 18 نومبر 1863ء– وفات: 11 نومبر 1930ء) برصغیر پاک وہند کے ممتاز قرآنی مفسر اور دین اسلام کی تعبیر جدید کے بانی تصور کیے جاتے ہیں آپ نے امت میں تفقہ فی الدین کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک جدید نہج پر قائم کیا بعد ازاں اسی نہج پر  دین اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر پیچیدہ سوالوں کا جواب دیا۔ پورا نام یوں ہے : ابو احمد حمید الدین فراہی (انصاری) بن عبد الکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہا الدین۔

ان کا نسبی تعلق صدر اول کے مسلمانوں کے طبقہ ثانیہ سے معلوم ہوتا ہے لیکن بعض قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق انصار مدینہ سے ہے یہی وجہ تھی کہ مولانا کے خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ ایک عرصہ تک انصاری لکھتے رہے۔ 

مولانا فراہی کی جائے پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں پھریہا ہے پھریہا اس ضلع کا ایک مشہور گاؤں ہے پھریہا کی معلوم تاریخ بس اسی قدر ہے کہ یہ شبلی نعمانی کا ننھیال اور فراہی کا وطن ہے مولانا فراہی کی پیدائش ان کے جدی مکان میں6 جمادی الثانی 1230ھ بروز بدھ بمطابق 18 نومبر 1863ء کو ہوئی

مولانافراہی کے نام کے بارے میں مختلف بلکہ متضاد آراء اور روایات ملتی ہیں تحریر دستاویزات میں حمید الدین اور عبد الحمید دونوں نام کثرت سے موجود ہیں اور اہل علم نے اپنے اپنے انداز سے اس کی توجیہ بھی کی ہے مولانا فراہی کی وفات پرسید سلیمان ندوی نے پہلے ایک شذرہ اور اس کے بعد ایک مقالہ لکھ کر معارف میں شائع کیا اس میں نام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ ۔ مصنف " اظہار الحق "

مولانا رحمت اللہ کیرانوی اسلام اور اہل سنت کے بڑے پاسبانوں میں سے تھے۔ جس زمانے میں ہزاروں یورپی مشنری، انگریز کی پشت پناہی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو مسیحی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، مولوی رحمت اللہ اور ان کے ساتھی مناظروں، تقریروں اور پیمفلیٹوں کے ذریعے اسلامی عقائد کے دفاع میں مصروف تھے۔ 1270ھ بمطابق 1854ء یعنی جنگ آزادی سے تین سال قبل رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں پیش آنے والے ایک معرکہ کے مناظرہ میں مسیحیت کے مشہور مبلغ پادری فینڈر بحث کی۔

اسلام کے بین الاقوامی سفیر ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآباد دکن میں 19 فروری 1908 کو پیدا ہوئے۔وہیں مدرسہ نظامیہ اور جامعہ عثمانیہ میں ان کی تعلیم وتربیت ہوئی۔اس کے بعد انہوں نے جرمنی اور فرانس کی دانش گاہوں سے بھی اکتساب فیض کیا اور واپس آکرجامعہ عثمانیہ میں درس دینے لگے۔ اس وقت تک ہندوستان آزاد نہ ہوا تھا۔دکن میں "آصفیہ" سلطنت قائم تھی۔ڈاکٹر حمیداللہ اسی سلطنت کی جانب سے نمائندگی کرنے کے لیے ایک وفد کے ساتھ اقوام متحدہ گئے تھے۔ان کے لوٹنے سے پہلے ہی "سقوط حیدرآباد" کا سانحہ پیش آ گیا۔ڈاکٹرصاحب "آصفیہ" کے پاسپورٹ پر مزید سفر نہیں کرسکتے تھے۔اس لیے انہوں نے فرانس میں ہی سیاسی پناہ لے لی۔پیرس میں قیام کیا اور "تحقیق وتصنیف" اور "دعوت وتبلیغ" کے کاموں میں ہمہ تن مشغول ہوگئے اور اس وقت تک لکھنے پڑھنے اور تحقیق کا کام کیا جب تک ان کے قویٰ نے ساتھ دیا۔جب عمر 90 سال سے زیادہ ہوگئی اور مختلف بیماریوں نے گھیرلیا تو امریکہ میں مقیم ان کے عزیز ان کو اپنے ہاں لے گئے اور وہیں17دسمبر 2002 ء کی صبح وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے ایک لمبی عمرپائی اور ایک ایک لمحہ کو نہایت قیمتی جان کر اسے دین کی دعوت، قرآن وسنت کے مطالعہ وتحقیق اور اہم اسلامی موضوعات پر بیش قیمت تالیفات کی تخلیق میں لگایا۔انہی جرمن، فرنچ، انگریزی، سنسکرت،عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔فنائیت فی العلم کا حال یہ تھا کہ ضعیف العمری میں انہوں نے تھائی زبان سیکھی۔